• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزہ کس لیے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

روزہ کس لیے؟

روزے کا مطلب و مقصد تقوی و پرہیز گاری ہے، تقویٰ اسی کا نام ہے کہ انسان اپنا دامن گناہوں سے بچا کر نیکی، بھلائی اور خیر کی طرف مائل ہو جائے، قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف ہو، اس کی مرضی و رضا کے خلاف کوئی کام نہ کرے۔

جتنی عظیم وہ ذات ہے اتنا ہی اس سے ڈرنا چاہئے۔

اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور موت آنے تک مسلمان ہی رہنا۔ (آل عمران 152)

یعنی پوری زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق عمل کرنا، نافرمانی نہ کرنا، خوف اپنے اندر رکھنا، زندگی کی آخری سانس تک اسی کا وفادار اور نمک حلال رہنا۔ سرفرازی و کامیابی کے لئے چار کام کرنے اور ایک سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔

پہلا کام:

اللہ تعالیٰ کا ڈر،

دوسرا کام:

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننا۔

تیسرا کام:

ان دونوں کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔

چوتھا کام:

اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ جس چیز سے بچنے کا حکم ہے وہ نفس کی نجیلی اور حرص ہے۔

ارشاد ربانی ہے

’’ پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور سنتے اور مانتے چلے جاؤ اور اللہ کی راہ میں خیرات کرتے چلے جاؤ جو تمہارے لئے بہتر ہے اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ ہو گیا وہی کامیاب ہے‘‘۔ (التغابن 61)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! جو ان میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہو۔ دنیا و آخرت میں عزت دار وہی ہے جس کے دل میں رب العزت کا خوف ہے جس دل میں صرف اللہ کا خوف ہو دنیا کی کسی باطل قوت و طاقت کا ڈر اس دل میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ہر گھڑی، ہر لمحہ فقط اسی ذات باری تعالیٰ سے ہی ڈرنا بنتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز و محترم زیادہ دولت، شہرت، برادری، خاندان، حسب و نسب والا نہیں بلکہ تقویٰ والا ہے۔

’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے‘‘۔(الحجرات 13)

تقویٰ نہ تو کسی فیکٹری اور کارخانہ میں تیار ہوتا ہے اور نہ ہی کسی منڈی و مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے کہ انسان وہاں سے خرید سکے۔ تقوی نیک اعمال اچھے اقوال سے حاصل ہوتا ہے لہٰذا نیکی کی طرف توجہ زیادہ ہونی چاہئے تاکہ تقویٰ میں اضافہ ہو۔

بطور مثال:

جھوٹ سے بچنا اور سیدھی یا درست بات کرنا تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی اور درست بات کیا کرو۔ (الاحزاب 70)

ہم تو وہ لوگ بن چکے ہیں جو روزہ رکھ کے جھوٹ بولتے ہیں، معمولی نفع کے لئے جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں۔ دو نمبری، دھوکا اور فریب کرتے ہیں۔ بات سیدھی اور صداقت پر مبنی نہیں کرتے۔ مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ جھوٹ بولے۔ بلاوجہ قسمیں اٹھائے، دنیا کے معمولی نفع کے لئے آخرت کو خراب کرے۔

دوران گفتگو کوئی غلط بات ہو جائے یا نافرمانی پر قسم کھا لے تو اس کو چاہئے کہ تقویٰ و پرہیزگاری کو لازم پکڑے اور غلط بات کو ترک کر دے۔

عدیؓ بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا! جو شخص کسی بات پر قسم کھا لے پھر اس سے زیادہ پرہیز گاری والی بات دیکھے تو اس کو چاہئے کہ وہ پرہیزگاری والا عمل اختیار کرے۔ (مسلم)

اسی میں مسلمان کی عظمت ہے کہ وہ گناہوں سے کنارہ کش رہے اور نیکی میں تعاون کرے۔ تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ نیکی میں تعاون اور برائی میں عدم تعاون بھی ہے۔

ارشاد ربانی ہے!

نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ (المائدہ 2)

اسلام اخوت، بھائی چارے، نیکی اور تقویٰ کا درس دیتا ہے، ظلم و زیادتی، گناہ اور معصیت سے منع کرتا ہے کسی بھی لمحے غلط کاموں اور گناہ کے ساتھ کھڑا نہیں ہونا چاہئے۔

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں! میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے پر بیعت کی۔ (بخاری)

دین اسلام تو ہے ہی خیرخواہی کا نام، خیر خواہی یہ ہے کہ ظلم و زیادتی نہ کرنا مدد و تعاون کرنا، مسلمان بھائی کی ضروریات کو پورا کرنا، پریشانی دور کرنا اور اس کی پردہ پوشی کرنا۔

ایک اور چیز جس کا بطور خاص قرآن مجید میں ذکر ہے وہ باہمی تعلقات کی اصلاح کرنا یہ تمام کام تقویٰ و پرہیزگاری کا مظہر، اعلیٰ روایات کے امین اور انتہائی فضلیت والے اور شرف و منزلت والے ہیں۔ ان میں محبت و ہمدردی، خدمت خلق کا جذبہ اور فلاح آدمیت کا درس ہے جو فقط اللہ کی رضا اور خوشی کے لئے یہ کام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات و حاجات کو دنیا میں پورا کر کے آخرت میں اجر بھی عطا کرے گا لہٰذا ہماری دوستی اور تعلقات کا معیار بھی تقویٰ ہونا چاہئے۔

ابو سعید خدریؓ رضہ اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! مومن کے علاوہ کسی کو (قلبی) دوست نہ بناؤ اور تمہارا کھانا صرف پرہیز گار ہی کھائیں۔ (ابوداؤد)

دشمنان اسلام اور کفار سے دوستی سے روکا گیا ہے اور تقویٰ والوں سے تعلقات استوار کرنے کی تائید و تاکید فرمائی گئی ہے۔ نیز دوستی اور دعوت کے لئے نیک لوگوں کے انتخاب کا کہا گیا ہے۔

آج ہمارے معاشرے کی صورتحال بڑی عجیب ہو چکی ہے۔ برے لوگوں کے لئے تو بڑی بڑی دعوتوں کے اہتمام اور روزہ دار کی افطاری کے لئے چشم پوشی، غریب پڑوسی روزہ دار کی بات تک کوئی نہیں پوچھتا جبکہ افطار کروانے کا اجر روزہ رکھنے والے کے برابر ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! جس نے روزہ دار کا روزہ افطار کروایا یا مجاہد کو جنگ کے لئے تیار کیا، اس کو ان کے برابر ثواب ملے گا۔

دینادار لوگوں اور دنیوی مفادات کے لئے دسترخوان سجانے کی بجائے اہل تقویٰ کو کھانا کھلانا چاہئے اس میں اجر بھی ہے اور برکت بھی اور تقویٰ بھی۔

خطبہ حجۃ الوداع میں جن پانچ چیزوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ان میں سے پہلی چیز تقویٰ ہے ۔

1۔ لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
2۔ اپنی پانچوں نمازوں کی ادائیگی کرو۔
3۔ اپنے رمضان کے مہینے کے روزے رکھو۔
4۔ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو۔
5۔ اپنے امراء کی اطاعت کرو اور اپنے رب کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ۔


جب انسان تقویٰ اختیار کرتا ہے تو شکرگزاری کی توفیق ملتی ہے۔

فاتقوا اللہ لعکم تشکرون (آل عمران 123)
اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تمہیں شکرگزاری کی توفیق ہو۔

تقویٰ سے اللہ کی رحمت ملتی ہے۔

واتقوا لعلکم ترحمون (الانعام 155)۔
تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم پر رحمت ہو،

نیز فرمایا!

واتقوا لعلکم تفلحون (البقرہ 189)
اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

تقویٰ اختیار کرنے سے مصائب و مشکلات سے نجات ملتی ہے اور رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ تنگی و پریشانی دور ہوتی ہے۔

فرمان ربانی! جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے نکلنے کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔

تقویٰ وہ دولت ہے جس کا سوال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے۔

اللھم انی اسالک الھدی والتقی والعفاف و الغنی۔ (مسلم)
اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت (تقوی) پرہیزگاری، پاکدامنی اور لوگوں سے بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار چیزوں کا سوال کیا۔

1۔ ہدایت یعنی راہ حق پر استقلال و استقامت۔
2۔ تقویٰ: جو تمام اعمال کا نچوڑ اور مطلوب و مقصد ہے۔
3۔ پاکدامن، جو انبیاء و اتقیا کا نمایاں وصف ہے۔
4۔ غناء: لوگوں کے ہاں جو کچھ ہے اس سے بے نیازی اور اللہ کے خزانوں پر نظر۔


قارئین کرام! ہم سب مل کر روزے کے مقاصد کو حاصل کریں۔ اس کے لئے کوشش کریں اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے دعا کریں تاکہ ہم کامیاب ہو سکیں۔ آمین

 
Top