سوال 6:
جن ملکوں میں دن اکیس گھنٹے تک بڑا ہوتا ہے وہاں کے لوگ کس طرح روزہ رکھیں ؟ کیا وہ روزہ رکھنے کے لئے کوئی وقت متعین کریں گے ؟ اسی طرح جن ملکوں میں دن بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے وہ کیا کریں ؟ اوراسی طرح وہ ممالک جہاں دن اوررات چہ چہ ماہ تک لمبے ہوتے ہیں وہاں کے لوگ کس طرح روزہ رکھیں ؟
جواب :
جن ممالک میں دن اوررات کی گردش چوبیس گھنٹے کے اندراندرپوری ہوجاتی ہے وہاں کے لوگ دن میں روزہ رکھیں گے, خواہ دن چھوٹا ہویا بڑا ,اوریہ ان کے لئے –الحمد للہ – کفایت کرجائیگا ,بھلے ہی دن چھوٹا ہو- البتہ وہ ممالک جہاں دن اوررات کی گردش چوبیس گھنٹے کے اندرپوری نہیں ہوتی , بلکہ رات یا دن چہ چہ ماہ تک لمبے ہوتے ہیں , وہاں کے لوگ نماز اورروزہ کے وقت کا اندازہ متعین کرکے اسی حساب سے نمازپڑھیں گے اورروزے رکھیں گے ,جیساکہ نبی کریم r نے دجال کے ظاہرہونے کے ایام کے بارے میں حکم دیا ہے, جسکا پہلادن ایک سال کے اوردوسرادن ایک ماہ کے اورتیسرادن ایک ہفتہ کے برابرہوگا, کہ نماز کے وقت کا اندازہ کرکے نمازپڑھ لیں-
سعودی عرب کی "مجلس ہیئت کبارعلماء " نے مذکورہ بالا مسئلہ میں غوروفکرکرنے کے بعد ایک قرارداد حوالہ نمبر61 ,مورخہ 12/4/1398ھ پاس کی ہے ,جودرج ذیل ہے:
الحمد للہ ,والصلاۃ والسلام على رسولہ وآلہ وصحبہ ,وبعد:
مجلس ہیئت کبارعلماءکے بارہویں اجتماع منعقدہ ریاض ,ماہ ربیع الثانی 1398ھجری میں رابطۂ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل کا خط , حوالہ نمبر555,مورخہ 16/1/1398 هجري پیش ہوا جوسویڈن کے شہرمالو کے صدررابطہ برائے اسلامی تنظیمات کے خط میں وارد موضوع پرمشتمل تھا, جس میں صدرمحترم مذکورنے یہ وضاحت کی ہے کہ" سکنڈے نیوین" مما لک میں وہاں کے جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظرموسم گرما میں دن انتہائی لمبا اورموسم سرما میں انتہائی چھوٹا ہے, جبکہ وہاں کے شمالی علاقوں میں موسم گرم میں آفتاب غروب ہی نہیں ہوتا ,اورموسم سرما میں اسکے برعکس آفتاب طلوع ہی نہیں ہوتا – ایسی صورت میں ان ممالک میں بسنے والے مسلمان روزہ رکھنے اورافطارکرنے نیزاوقات نمازکی تعیین کی کیفیت جاننا چاہتے ہیں – رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری نے اپنے خط میں اس بارے میں فتوى' صادرکرنے کی درخواست کی ہے ,تاکہ مذکورہ ممالک کے مسلمانوں کو اس فتوى' سے باخبرکرسکیں-
مجلس ہیئت کبارعلماء کے اس اجتماع میں مسئلہ ہذا سے متعلق دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء کا تیارکردہ بیان اورفقہاء سے منقول دیگرنصوص بھی پیش کئے گئے اوران پربحث ونظراورمناقشہ کے بعد مجلس نے درج ذیل بیان جاری کیا:
- جن ممالک میں دن اوررات ایک دوسرے سے جداجدا ہوں, بایں طورکہ وہاں فجرطلوع ہوتی ہو اورآفتاب غروب ہوتا ہو, البتہ موسم گرما میں دن بہت ہی طویل ہوتا ہواوراسکے برعکس موسم سرما میں بہت ہی چھوٹا ہو,ایسے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انہی اوقات میں نمازاداکریں جوشرعاً متعین اورمعروف ہیں, کیونکہ اللہ تعالی کا یہ حکم عام ہے :
) أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا} (78) سورة الإسراء
سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو ,اورفجرکے وقت قرآن پڑھنا بھی ,یقیناً فجرمیں قرآن پڑھنے کے وقت فرشتے حاضرہوتے ہیں- اوراللہ تعالی کا یہ ارشاد بھی:
) إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا} (103) سورة النساء
یقیناً نماز مومنوں پرمقررہ وقت میں فرض ہے –
نیزبریدہ t سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم r سے نماز کے وقت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا :
" ہمارے ساتہ دودن نماز پڑھو ,چنانچہ جب آفتاب ڈھل گیا توآپ نے بلال – t– کو اذان دینے کا حکم دیا, انہوں نے اذان دی,پھرآپ نے حکم دیا اورانہوں نے ظہرکی اقامت کہی,پھرجبکہ آفتاب ابھی بلند, سفید اوربالکل صاف تھا آپ نے حکم دیا اورانہوں نے عصرکی اقامت کہی ,پھرجب آفتاب غروب ہوگیا توآپ نے حکم دیا اورانہوں نے مغرب کی اقامت کہی,پھرجب آسمان کی سرخی غائب ہوگئی توآپ نے حکم دیا اورانہوں نے عشاء کی اقامت کہی ,پھرطلوع فجرکے بعد آپ نے حکم دیا انہوں نے فجرکی اقامت کہی –
پھرجب دوسرا دن شروع ہوا توآپ –r– نے بلال کو حکم دیا اورانہوں نے ٹھنڈا ہونے پراقامت کہی, اورعصرکی نماز اسوقت پڑھی جبکہ آفتاب ابھی بلند ی پرتھا , لیکن پہلے دن سے دیرکرکے پڑھی ,اورمغرب کی نماز سرخی غائب ہونے سے پہلے پڑھی , اورعشاء کی نماز ایک تہائی رات گزرجانے پرپڑھی , اورفجرکی نمازاجالا ہوجانے پرپڑھی ,پھرفرمایا :
نماز كے وقت کے بارے میںسوال کرنے والا شخص کہاں ہے؟اسنے جواب دیا : اے اللہ کے رسول ! میں ہوں ,آپ نے فرمایا ": تمہاری نمازوں کے اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں "(بخاری ومسلم)
عبد اللہ بن عمروبن عاص- d- سے روایت ہے کہ رسول r نے فرمایا:
"
ظہرکا وقت وہ ہے جب آفتاب ڈہل جائے اورآدمی کا سایہ اسکے مثل ہوجائے- اسوقت سے لے کرعصرتک ہے, اورعصرکا وقت اسوقت تک ہے جب تک کہ آفتاب میں زردی نہ آجائے , اورمغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سرخی غائب نہ آجائے, اورمغرب کا وقت اسوقت تک ہے جب تک کہ سرخی غائب نہ ہوجائے , اورعشاء کا وقت متوسط رات کے نصف تک ہے , اورفجرکا وقت طلوع فجرکے بعد سے لیکرآفتاب طلوع ہونے سے پہلے تک ہے, پھرجب آفتاب طلوع ہونے لگے تو نمازسے رک جاؤ,کیونکہ آفتاب شیطان کی دوسینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے " (صحیح مسلم)
ان کے علاوہ اوربھی قولی وفعلی احادیث ہیں جوپانچوں فرض نمازوں کے اوقات کے تعیین کے سلسلے میں وارد ہیں ,ان احادیث میں دن یارات کے چھوٹے یابڑے ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے, جبتک کہ نمازوں کے اوقات رسول r کی بیان کردہ علامتوں کے مطابق ایک دوسرے سے جداجدا ہوں-یہ رہا مسئلہ اوقات نمازکی تعیین کا –
رہی بات ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کے اوقات کی تعیین کی , تو جن ممالک میں دن اوررات ایک دوسرے سے جداجدا ہوں اورانکا مجموعی وقت چوبیس گھنٹے ہو,وھاں کے مکلف مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ پورے دن یعنی طلوع فجرسے لے کرآفتاب غروب ہونے تک کھانے ,پینے اوردیگرتما م مفطرات سے رکے رہیں, اورصرف رات میں , خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو,کھانا ,پینا اوربیوی سےہمبستری وغیرہ حلال جانیں, کیونکہ شریعت اسلام ہرملک کے باشندوں کے لیے عام ہے , اوراللہ تعالى کا ارشادہے :
) وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّليْلِ } (187) سورة البقرة
اورکھاتے اورپیتے رہو,یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی کالی دھاری سے تم کوصا ف دکھائی دینے لگے –
البتہ وہ شخص جودن کے طویل ہونے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو, یا آثاروعلامات سے یاتجربہ سے یا کسی معتبرماہرڈاکٹرکے بتانے سے یا اپنے گمان غالب سے یہ جانتا ہوکہ روزہ رکھنا اسکی ہلاکت کا یا شدید مرض میں مبتلا ہوجانے کا سبب بن سکتا ہے , یاروزہ رکھنے سے اسکا مرض بڑہ جائیگا ,یا اسکی شفایابی کمزورپڑجائے گی ,تو ایسا شخص روزہ نہ رکھے , اورانکے بدلے دوسرے مہینہ میں ,جسمیں اسکے لئے روزہ رکھنا ممکن ہو, قضا کرلے, اللہ تعالى ' کا ارشاد ہے:
) فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ } (185) سورة البقرة
جوشخص رمضان كا مہینہ پائے وہ اسکا روزہ رکھے , اورجو مریض ہویا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے –
نیزاللہ تعالی نے فرمایا:
) لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا } (286) سورة البقرة
الله كسی نفس کو اسکی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا-
اورفرمایا :
) وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ } (78) سورة الحـج
اوراس (اللہ) نے دین کے معاملے میں تم پرکوئی حرج وتنگی نہیں رکھی-
- جن ممالک میں موسم گرما میں آفتاب غروب ہی نہ ہوتا ہو اورموسم سرما میں آفتاب طلوع ہی نہ ہوتا ہو, اسی طرح وہ ممالک جہاں مسلسل چہ مہینے رات اورچہ مہینے دن رہتا ہو,وہاں کے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک جہاں فرض نمازوں کے اوقات جداجدا ہوں ,وہاں کے اوقات نمازکے پیش نظراپنی پنج وقتہ فرض نمازوں کے اوقات متعین کرلیں, اورہرچیز چوبیس گھنٹے کے اندرپانچوں فرض نمازیں اداکریں, کیونکہ اسراء ومعراج والی حدیث میں وارد ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت پرایک دن اورایک رات میں پجاس نمازیں فرض کیں تو رسول اللہ r اپنے رب سے امت کے لئے تخفیف کرواتے رہے ,یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا :
"اے محمد( r) ایک دن اوررات میں اب یہ کل پانچ نمازیں ہیں, اورہرنماز دس کے برابرہے ,گویا یہ پچاس نمازیں ہیں "
طلحہ بن عبید اللہ t سے مروی ہے کہ علاقۂ نجد سے ایک دیہاتی صحابی رسول اللہ r کے پاس آئے ,جنکا سرپراگندہ تھا ,ہم ان کی آواز تو سن رہے تھے مگربات نہیں سمجہ پارھے تھے , یہاں تک کہ وہ رسول r سے قریب ہوگئے ,وہ آپ سے اسلا م کے بارے میں دریافت کررہے تھے, آپ نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا:
" ایک دن اوررات میں پانچ نمازیں فرض ہوتی ہیں"
اس دیہاتی نے سوال کیا کہ کیا ان کے علاوہ بھی مجہ پرکچہ ہے؟ آپ نے فرمایا:
نہیں,الایہ کہ تم نفل پڑھو"
نیزانس بن مالک t کی حدیث ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم کو رسول r سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے منع کردیا گیا تھا, اسلئے ہماری یہ خواہش ہوتی تھی کہ دیہات سے کوئی سمجھدارشخص آئے اورآپ سے کچھ دریافت کرے اورہم سنیں ,چنانچہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی آیا اورکہا کہ اے محمد (r) ہمارے پاس آپ کا قاصد پہنچا اورکہاکہ آپ کہتے ہیں کہ اللہ نے آپکو بھیجاہے ,آپ نے فرمایا : قاصد نے سچ کہا- اسنے سوال کرتے کرتے کہاکہ آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا کہ ہم پرایک دن اوررات میں پانچ نمازیں فرض ہیں, آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا – دیہاتی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپکو بھیجا ہے, کیا اللہ نے آپ کو اسکا حکم دیا ہے؟آپ نے فرمایا :ہاں-
نبی r سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے صحابۂ کرام کو مسیح دجال کے بارے میں بتایا, توانہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ وہ کتنے دن زمین پرٹہرے گا ؟آپ نے فرمایا : چالیس دن,لیکن اسکا ایک دن ایک سال کے برابر,ایک دن ایک ماہ کے برابر, ایک دن جمعہ (ہفتہ) کے برابر, اورباقی دن عام دنوں کے برابرہوں گے- سوال کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول!
اسکا جودن ایک سال کے برابرہوگا کیا اسمیں ایک دن کی نمازیں ہمارے لئے کافی ہوں گی؟آپ نے فرمایا :نہیں ,بلکہ ایک ایک دن کا اندازہ کرلیاکرنا-
اس حدیث میں آپ r نے دجال کے ظاہرہونے کے وقت ایک سال کے برابروالے دن کوایک دن نہیں شمارفرمایا ,جسمیں صرف پانچ نمازیں کافی ہوں ,بلکہ ہرچوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں فرض قراردیں, اوریہ حکم دیا کہ لوگ اپنے اپنے ملکوں میں عام دنوں کے اوقات کے اعتبارسے نمازوں کے اوقات متعین کرلیں-
لہذا ان ممالک کے مسلمان جن کے تعلق سے نمازوں کے اوقات کے تعیین کامسئلہ دریافت کیا گیا ہے, ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے قریب ترین ملک ,جہاں دن اوررات ہرچوبیس گھنٹے کے اندرمکمل ہوجاتے ہوں , اورشرعی علامتوں کے ذریعہ پنجوقتہ نمازوں کے اوقات معروف ہوں, اس ملک کے اوقات نماز کی روشنی میں نمازوں کے اوقات متعین کرلیں-
اسی طرح رمضان کے روزے کا مسئلہ بھی ہے, انکے لئے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک ,جہاں دن اوررات جداجدا ہوں اورہرچوبیس گھنٹے کے اندرانکی گردش مکمل ہوجاتی ہو, اس ملک کے اوقات کے اعتبارسے ماہ رمضان کی ابتداء اوراسکے اختتام ,اوقات سحروافطار,نیزطلوع فجراورغروب آفتاب وغیرہ کے اوقات میتعین کرلیں, اورروزہ رکھیں, جیساکہ مسیح دجال سے متعلق حدیث میں بات گزرچکی ہے ,اورجسمیں آپ r نے صحابۂ کرام کواس بڑے دن میں اوقات نماز کی تعیین کرنے کی کیفیت کی جانب رہنمائی فرمائی ہے, اورظاہربات ہے کہ اس مسئلہ میں روزہ اورنمازکے درمیان کوئی فرق نہیں- واللہ ولی التوفیق-
وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ –