• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزے سے متعلق اہم فتاوے

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
روزے سے متعلق اہم فتاوے
(ما خوذاز: فتاوى ارکان اسلا م )



فتاوی مہمۃ تتعلق بالصّیام
(مقتبسة من فتاوی أرکان الإسلام)
( باللغۃ الأردیة)


تالیف
سماحۃ الشیخ عبد العزیزبن عبد اللہ بن باز ؒ
سابق مفتی اعظم سعودی عرب
جمع وترتیب
محمدبن شایع بن عبد العزیزالشایع حفظہ اللہ


ترجمة
ابوالمکرم بن عبد الجلیل ؒ - عتیق الرحمن اثری حفظہ اللہ
مراجعة (نظرثانى)
شفیق الرحمن ضیا ءاللہ مدنی


نشرواشاعت
دفترتعاون برائے دعوت وارشاد (شعبہ بیرونی شہربان)
سلطانہ - ریاض - سعودی عرب

الناشر
المکتب التعاونی للدعوة والإرشاد وتوعية الجاليات بسلطانة
الرياض –المملكة العربية السعودية
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 1:
رمضان کے روزے کن لوگوں پرفرض ہیں؟ نیزرمضان کے روزوں کی اورنفل روزوں کی کیا فضیلت ہے؟
جواب :
رمضان کے روزے ہرمکلف مسلمان مرد وعورت پرفرض ہیں ,اورجوبچے اوربچیاں سات سال کے ہوجائیں اوروہ روزے رکہ سکتے ہوں توانکے لئے رمضان کے روزے رکھنا مستحب ہے, اورانکے سر پرست حضرات کا یہ فرض ہے کہ طاقت رکھنے کی صورت میں انہیں نمازکی طرح روزے کا بھی حکم دیں- اس مسئلہ کی بنیاد اللہ تعالى کا یہ ارشاد ہے :
) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ َ} سورة البقرةَ (183-184) سورة البقرة
اے ایمان والو! تم پرروزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کئے گئے تھے ,تاکہ تم اللہ کا تقوى' اختیارکرو ,روزے کے چند گنتی کے دن ہیں ,تو جو شخص تم میں سے مریض ہو یا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے-
اوراسکے بعد ہی اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا:
) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} (185) سورة البقرة
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ,جولوگوں کوراہ بتلاتا ہے اوراس میں ہدایت کی اورحق کوناحق سے پہچاننے کی کھلی کھلی نشانیاں ہیں, پس تم میں سے جو شخص یہ مہینہ پائے وہ اسکے روزے رکھے اورجو بیمارہو یا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں اسکی گنتی پوری کرے-
اورابن عمرtکی حدیث ہے کہ نبی r نے فرمایا:
"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پرہے:اس بات کی گواہی دیناکہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اورمحمد r اللہ کے رسول ہیں, اورنمازقائم کرنا ,اورزکاۃ دینا ,اوررمضان کے روزے رکھنا ,اوربیت اللہ کا حج کرنا"(متفق علیہ)
نیزجبرئیل علیہ السلام نے جب رسول r سے اسلام کے بارے مں سوال کیا توآپ نے فرمایا :
" اسلام يہ ہے کہ تم اس بات کی شہادت دوکہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اورمحمد r اللہ کے رسول ہیں, اورنماز قائم کرو,اورزکاۃدو,اوررمضان کے روزے رکھو, اوراستطاعت ہوتوبیت اللہ کا حج کرو"
اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں عمربن خطاب t کے طریق سے روایت کیا ہے ,اوراس معنی کی ایک اورحدیث بخاری ومسلم ہی میں ابوہریرہ t کے طریق سے بھی مروی ہے-
نیز صحیحین –بخاری ومسلم- میں ابوہریرہ t سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ نبی r نے ارشاد فرمایا:
" جس نے ایمان کے ساتہ اجروثواب طلب کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اسکے گزشتہ تمام (صغیرہ) گناہ معاف کرئیے گئے "
دوسری حدیث میں آپ r نے فرمایا :
" اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ آدمی کا ہرعمل اسی کے لئے ہے, ایک نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سوگنا تک ہے , البتہ روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اسے اسکا بدلہ دونگا, اسنے میرے لئے اپنی شہوت سے کنارہ کشی کی اورکھانا پینا ترک کیا , اورروزہ دارکے لئے خوشی کے دو موقع ہیں, ایک موقع وہ ہے جب وہ روزہ افطارکرتا ہے , اوردوسراموقع وہ ہوگا جب وہ اپنے پروردگارسے ملاقات کرے گا – اورروزہ دارکے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے" (متفق علیہ)
رمضان کے روزوں کی اورعام روزوں کی فضیلت کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں جولوگوں میں معروف ومشہوربھی ہیں, واللہ ولی التوفیق-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 2:
کیا سوجہ بوجہ رکھنے والے بچے سے روزہ رکھوایا جائے گا؟ اوراگرروزہ رکھنے کے دوران ہی وہ بالغ ہوجائے توکیا یہ روزہ فرض روزہ کی طرف سے کفایت کرے گا؟
جواب:
پہلے سوال کے جواب میں یہ بات گزرچکی ہے کہ بچے اوربچیاں جب سات سال یا اس سے زیادہ کے ہوجائیں توعادت ڈالنے کے لئے ان سے روزے رکھوائے جائیں,اوران کے سرپرست حضرات کی ذمہ داری ہے کہ نمازکی طرح انہیں روزے کا بھی حکم دیں , اورجب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں توپھران پرروزہ واجب ہوجاتا ہے ,اوراگردن میں روزہ کے دوران ہی بالغ ہوجائیں توانکا یہ ( نفل) روزہ فرض روزہ کی طرف سے کفایت کرجائیگا, بطورمثال یہ فرض کرلیں کہ ایک بچے نے زوال کے وقت اپنی عمرکے پندرہ سال مکمل کئے, اوروہ اس دن روزہ سے تھا, تو اسکا یہ روزہ فرض روزہ کی طرف سے کافی ہوگا, دن کے اول حصہ کا روزہ نفل اورآخرحصہ کا روزہ فرض شمارہوگا, لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ اس سے پہلے اس کے زیرناف بال نہ آئے ہوں, یا شہوت کے ساتہ اس سے منی نہ خارج ہوئی ہو-بچی کے بارے میں بھی بالکل یہی حکم ہے ,البتہ اسکے تعلق سے ایک چوتھی علامت حیض بھی ہے جس سے اسکے بالغ ہونے کا حکم لگایا جائے گا-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال3:
مسافرکے لئے سفرمیں, خصوصاً ایسے سفرمیں جسمیں کسی طرح کی مشقت درپیش نہ ہو, مثلاً ہوائی جہاز سے یا دیگرذرائع سے سفرکرنے کی صورت میں روزہ رکھنا افضل ہے یا نہ رکھنا؟
جواب:
مسافرکے لئے سفرمیں مطلقاً روزہ نہ رکھنا بہترہے, لیکن اگرکوئی شخص بحالت سفرروزہ رکہ لے توبھی کوئی حرج نہیں, کیونکہ نبی r سے نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دونوں عمل ثابت ہیں, لیکن اگرسخت گرمی ہواورمشقت زیادہ محسوس ہو تو روزہ نہ رکھنا ہی موکد ہوجاتا ہے, اورایسی صورت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے, کیونکہ نبی r نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ سفرمیں روزے سے ہے اورسخت گرمی کی وجہ سے اسکے اوپرسایہ ڈال دیا گیا ہے توآپ نے فرمایا:
"سفرمیں روزہ رکھنا بھلائی نہیں ہے"
اوراسلئے بھی ایسی حالت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے کہ رسول r کا ارشاد ہے:
" اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ اسکی دی ہوئی رخصت کو قبول کی جائے ,جسطرح اسے یہ بات ناپسند ہے کہ اسکی نافرمانی کی جائے"
دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
" جس طرح اسے یہ بات پسند ہے کہ اسکے فرائض پرعمل کیا جائے "
اس سلسلہ میں گاڑی یا اونٹ یا کشتی یا پانی کے جہازسے سفرکرنے والے میں اورہوائی جہاز سے سفرکرنے والے میں کوئی فرق نہیں ,کیونکہ سفرکا لفظ ہرایک کوشامل ہے اوروہ سفرکی رخصت سے فائدہ اٹھائیں گے-
اللہ تعالى نے اپنے بندوں کے لئے سفراوراقامت کے احکام رسول r کی زندگی میں تاقیامت آنے والوں کے لئے مشروع فرمائے ,اوراسے اس بات کا بخوبی علم تھا کہ بعد میں حالات میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں گی اورکیسے کیسے وسائل سفرایجاد ہوں گے, اسلئے اگرحالات اوروسائل سفرکے مختلف ہونے سے احکام بھی بدل جاتے تو اللہ سبحانہ وتعالى نے اس بات پرمتنبہ کیا ہوتا- جیسا کہ اسکا ارشاد ہے :
) وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ} (89) سورة النحل
ہم نے آپ پرکتاب (قرآن) نازل کی جو ہرچیز کوبیان کرنے والی ہے اورمسلمانوں کے لئے ہدایت اوررحمت اوربشارت ہے-
نیز فرمایا :
) وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ} (8) سورة النحل
اوراس نے گھوڑے اورخچراورگدھے تمہاری سواری اورزینت کے لئے پیدا کئے ,اوروہ چیزیں پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے –
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 4:
ماہ رمضان کا شروع ہونا اوراختتام کو پہنچنا کس چیز سے ثابت ہوگا؟ اوراگررمضان کے شروع ہونے یامکمل ہونے کے وقت صرف ایک شخص نے اکیلے چاند دیکھا تو اسکا کیا حکم ہے؟
جواب :
ماہ رمضان کا شروع ہونا اورختم ہونا دویا دو سے زیادہ عادل گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے, البتہ اس ماہ کے شروع ہونے کے لئے صرف ایک گواہ کی گواہی کا فی ہے ,نبی r کا ارشاد ہے:
" اگردو گواہ گواہی دیدیں توروزہ رکھو اورافطارکرو"
نیزنبی r سے ثابت ہے کہ آپ نے صرف ابن عمرd کی شہادت اورایک موقع پرصرف ایک دیہاتی کی شہادت کی بنیاد پرلوگوں کوروزہ رکھنے کا حکم دیا تھا, اورمزید کوئی شہادت نہیں طلب کی تھی ,اسکی حکمت – واللہ اعلم یہ ہے کہ اس ما ہ کے شروع ہونے اوراختتام کو پہنچنے میں دین کے لئے احتیاط ملحوظ رکھا جائے, جیسا کہ اہل علم نے اسکی صراحت کی ہے-
اگرکسی شخص نے رمضان کے شروع یا اختتام کے وقت اکیلے چاند دیکھا اوراسکی شہادت پرعمل نہ کیا گیا تواہل علم کے صحیح ترین قول کے مطابق وہ عام لوگوں کے ساتہ روزہ رکھے اورافطارکرے اورخود اپنی شہادت پرعمل نہ کرے , کیونکہ نبی r کا ارشادھے:
"روزہ اس دن کا ہے جس دن تم سب روزہ رکھتے ہو, اورافطاراس دن ہے جس دن تم سب افطارکرتے ہو, اورقربانی اسدن ہے جس دن تم سپ قربانی کرتے ہو- واللہ ولی التوفیق-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 5:
مطلع بدل جائے تولوگ کسطرح روزے رکھیں؟ اورکیا دوردرازملکوں مثلا امریکہ اورآسٹریلیا وغیرہ میں رہنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سعودی عرب والوں کی رویت کی بنیاد پرروزہ رکھیں, کیونکہ وہ چاند نہیں دیکھتے؟
جواب:
اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ چاند کی رویت پراعتماد کیا جائے اورمطلع بدل جانے کا اعتبارنہ کیا جائے, کیونکہ نبی r نے رویت ہی پراعتماد کرنے کا حکم دیا ہے, اوراس بارے میں کوئی تفصیل نہیں فرمائی ,جیساکہ صحیح حدیث میں آپ کا یہ ارشاد ثابت ہے:
"چاند دیکہ کرروزہ رکھو, اورچاند دیکہ کرافطارکرو ,اوراگرابرکی وجہ سے تم پرچاند ظاہرنہ ہو تو تیس کی گنتی پوری کرو"(متفق علیہ)
اورآپ r سے یہ حدیث بھی ثابت ہے :
"تم روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکہ لویا (شعبان کی ) گنتی پوری کرلو, اورافطارنہ کرویہاں تک کہ چاند دیکہ لویا (رمضان کی ) گنتی پوری کرلو"
اس معنی کی اوربھی بہت سی احادیث وارد ہیں-
ان احادیث میں رسول r نے جاننے کے باوجود اختلاف مطلع کی جانب کوئی اشارہ نہیں فرمایا – لیکن کچہ اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ مطلع بدل جانے کی صورت میں ہرشہروالوں کے لئے چاند دیکھنے کا اعتبارہوگا ,انکی دلیل ابن عباس d کا یہ اثرہے کہ وہ مدینہ طیبہ میں تھے اورانہوں نے اہل شام کی رویت کا اعتبارنہ کیا, ملک شام والوں نے معاویہ t کے زمانہ میں جمعہ کی رات رمضان کا چاند دیکھا اوراسی کے مطابق روزہ رکھا, لیکن اہل مدینہ نے وہی چاند ہفتہ کی رات دیکھا ,اورجب حضرت کریب نے ابن عباس d سے اہل شام کے چاند دیکھنے اورروزہ رکھنے کا تذکرہ کیا توابن عباس d نے فرمایا کہ ہم نے ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے ,اسلئے ہم روزہ رکھیں گے یہاں تک کہ (عیدکا) چاند دیکہ لیں یاپھر(رمضان کی ) گنتی پوری کرلیں, ابن عباس d نے نبی کریم r کی اس حدیث سے استدلا ل کیا :
" چاند دیکھکرروزہ رکھو,اورچاند دیکھکرافطارکرو"
اہل علم کے اس قول کے اندرتقویت پائی جاتی ہے ,اورسعودی عرب کی "مجلس ہیئت کبارعلماء" کے ممبران کی رائے بھی یہی ہے ,کیونکہ اس سے مختلف دلائل کے درمیان تطبیق ہوجاتی ہے ,واللہ ولی التوفیق-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 6:
جن ملکوں میں دن اکیس گھنٹے تک بڑا ہوتا ہے وہاں کے لوگ کس طرح روزہ رکھیں ؟ کیا وہ روزہ رکھنے کے لئے کوئی وقت متعین کریں گے ؟ اسی طرح جن ملکوں میں دن بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے وہ کیا کریں ؟ اوراسی طرح وہ ممالک جہاں دن اوررات چہ چہ ماہ تک لمبے ہوتے ہیں وہاں کے لوگ کس طرح روزہ رکھیں ؟
جواب :
جن ممالک میں دن اوررات کی گردش چوبیس گھنٹے کے اندراندرپوری ہوجاتی ہے وہاں کے لوگ دن میں روزہ رکھیں گے, خواہ دن چھوٹا ہویا بڑا ,اوریہ ان کے لئے –الحمد للہ – کفایت کرجائیگا ,بھلے ہی دن چھوٹا ہو- البتہ وہ ممالک جہاں دن اوررات کی گردش چوبیس گھنٹے کے اندرپوری نہیں ہوتی , بلکہ رات یا دن چہ چہ ماہ تک لمبے ہوتے ہیں , وہاں کے لوگ نماز اورروزہ کے وقت کا اندازہ متعین کرکے اسی حساب سے نمازپڑھیں گے اورروزے رکھیں گے ,جیساکہ نبی کریم r نے دجال کے ظاہرہونے کے ایام کے بارے میں حکم دیا ہے, جسکا پہلادن ایک سال کے اوردوسرادن ایک ماہ کے اورتیسرادن ایک ہفتہ کے برابرہوگا, کہ نماز کے وقت کا اندازہ کرکے نمازپڑھ لیں-
سعودی عرب کی "مجلس ہیئت کبارعلماء " نے مذکورہ بالا مسئلہ میں غوروفکرکرنے کے بعد ایک قرارداد حوالہ نمبر61 ,مورخہ 12/4/1398ھ پاس کی ہے ,جودرج ذیل ہے:
الحمد للہ ,والصلاۃ والسلام على رسولہ وآلہ وصحبہ ,وبعد:
مجلس ہیئت کبارعلماءکے بارہویں اجتماع منعقدہ ریاض ,ماہ ربیع الثانی 1398ھجری میں رابطۂ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل کا خط , حوالہ نمبر555,مورخہ 16/1/1398 هجري پیش ہوا جوسویڈن کے شہرمالو کے صدررابطہ برائے اسلامی تنظیمات کے خط میں وارد موضوع پرمشتمل تھا, جس میں صدرمحترم مذکورنے یہ وضاحت کی ہے کہ" سکنڈے نیوین" مما لک میں وہاں کے جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظرموسم گرما میں دن انتہائی لمبا اورموسم سرما میں انتہائی چھوٹا ہے, جبکہ وہاں کے شمالی علاقوں میں موسم گرم میں آفتاب غروب ہی نہیں ہوتا ,اورموسم سرما میں اسکے برعکس آفتاب طلوع ہی نہیں ہوتا – ایسی صورت میں ان ممالک میں بسنے والے مسلمان روزہ رکھنے اورافطارکرنے نیزاوقات نمازکی تعیین کی کیفیت جاننا چاہتے ہیں – رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری نے اپنے خط میں اس بارے میں فتوى' صادرکرنے کی درخواست کی ہے ,تاکہ مذکورہ ممالک کے مسلمانوں کو اس فتوى' سے باخبرکرسکیں-
مجلس ہیئت کبارعلماء کے اس اجتماع میں مسئلہ ہذا سے متعلق دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء کا تیارکردہ بیان اورفقہاء سے منقول دیگرنصوص بھی پیش کئے گئے اوران پربحث ونظراورمناقشہ کے بعد مجلس نے درج ذیل بیان جاری کیا:

  1. جن ممالک میں دن اوررات ایک دوسرے سے جداجدا ہوں, بایں طورکہ وہاں فجرطلوع ہوتی ہو اورآفتاب غروب ہوتا ہو, البتہ موسم گرما میں دن بہت ہی طویل ہوتا ہواوراسکے برعکس موسم سرما میں بہت ہی چھوٹا ہو,ایسے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انہی اوقات میں نمازاداکریں جوشرعاً متعین اورمعروف ہیں, کیونکہ اللہ تعالی کا یہ حکم عام ہے :
) أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا} (78) سورة الإسراء
سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو ,اورفجرکے وقت قرآن پڑھنا بھی ,یقیناً فجرمیں قرآن پڑھنے کے وقت فرشتے حاضرہوتے ہیں- اوراللہ تعالی کا یہ ارشاد بھی:
) إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا} (103) سورة النساء
یقیناً نماز مومنوں پرمقررہ وقت میں فرض ہے –
نیزبریدہ t سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم r سے نماز کے وقت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا :
" ہمارے ساتہ دودن نماز پڑھو ,چنانچہ جب آفتاب ڈھل گیا توآپ نے بلال – t– کو اذان دینے کا حکم دیا, انہوں نے اذان دی,پھرآپ نے حکم دیا اورانہوں نے ظہرکی اقامت کہی,پھرجبکہ آفتاب ابھی بلند, سفید اوربالکل صاف تھا آپ نے حکم دیا اورانہوں نے عصرکی اقامت کہی ,پھرجب آفتاب غروب ہوگیا توآپ نے حکم دیا اورانہوں نے مغرب کی اقامت کہی,پھرجب آسمان کی سرخی غائب ہوگئی توآپ نے حکم دیا اورانہوں نے عشاء کی اقامت کہی ,پھرطلوع فجرکے بعد آپ نے حکم دیا انہوں نے فجرکی اقامت کہی –
پھرجب دوسرا دن شروع ہوا توآپ –r– نے بلال کو حکم دیا اورانہوں نے ٹھنڈا ہونے پراقامت کہی, اورعصرکی نماز اسوقت پڑھی جبکہ آفتاب ابھی بلند ی پرتھا , لیکن پہلے دن سے دیرکرکے پڑھی ,اورمغرب کی نماز سرخی غائب ہونے سے پہلے پڑھی , اورعشاء کی نماز ایک تہائی رات گزرجانے پرپڑھی , اورفجرکی نمازاجالا ہوجانے پرپڑھی ,پھرفرمایا :
نماز كے وقت کے بارے میںسوال کرنے والا شخص کہاں ہے؟اسنے جواب دیا : اے اللہ کے رسول ! میں ہوں ,آپ نے فرمایا ": تمہاری نمازوں کے اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں "
(بخاری ومسلم)
عبد اللہ بن عمروبن عاص- d- سے روایت ہے کہ رسول r نے فرمایا:
"ظہرکا وقت وہ ہے جب آفتاب ڈہل جائے اورآدمی کا سایہ اسکے مثل ہوجائے- اسوقت سے لے کرعصرتک ہے, اورعصرکا وقت اسوقت تک ہے جب تک کہ آفتاب میں زردی نہ آجائے , اورمغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سرخی غائب نہ آجائے, اورمغرب کا وقت اسوقت تک ہے جب تک کہ سرخی غائب نہ ہوجائے , اورعشاء کا وقت متوسط رات کے نصف تک ہے , اورفجرکا وقت طلوع فجرکے بعد سے لیکرآفتاب طلوع ہونے سے پہلے تک ہے, پھرجب آفتاب طلوع ہونے لگے تو نمازسے رک جاؤ,کیونکہ آفتاب شیطان کی دوسینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے " (صحیح مسلم)
ان کے علاوہ اوربھی قولی وفعلی احادیث ہیں جوپانچوں فرض نمازوں کے اوقات کے تعیین کے سلسلے میں وارد ہیں ,ان احادیث میں دن یارات کے چھوٹے یابڑے ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے, جبتک کہ نمازوں کے اوقات رسول r کی بیان کردہ علامتوں کے مطابق ایک دوسرے سے جداجدا ہوں-یہ رہا مسئلہ اوقات نمازکی تعیین کا –
رہی بات ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کے اوقات کی تعیین کی , تو جن ممالک میں دن اوررات ایک دوسرے سے جداجدا ہوں اورانکا مجموعی وقت چوبیس گھنٹے ہو,وھاں کے مکلف مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ پورے دن یعنی طلوع فجرسے لے کرآفتاب غروب ہونے تک کھانے ,پینے اوردیگرتما م مفطرات سے رکے رہیں, اورصرف رات میں , خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو,کھانا ,پینا اوربیوی سےہمبستری وغیرہ حلال جانیں, کیونکہ شریعت اسلام ہرملک کے باشندوں کے لیے عام ہے , اوراللہ تعالى کا ارشادہے :
) وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّليْلِ } (187) سورة البقرة
اورکھاتے اورپیتے رہو,یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی کالی دھاری سے تم کوصا ف دکھائی دینے لگے –
البتہ وہ شخص جودن کے طویل ہونے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو, یا آثاروعلامات سے یاتجربہ سے یا کسی معتبرماہرڈاکٹرکے بتانے سے یا اپنے گمان غالب سے یہ جانتا ہوکہ روزہ رکھنا اسکی ہلاکت کا یا شدید مرض میں مبتلا ہوجانے کا سبب بن سکتا ہے , یاروزہ رکھنے سے اسکا مرض بڑہ جائیگا ,یا اسکی شفایابی کمزورپڑجائے گی ,تو ایسا شخص روزہ نہ رکھے , اورانکے بدلے دوسرے مہینہ میں ,جسمیں اسکے لئے روزہ رکھنا ممکن ہو, قضا کرلے, اللہ تعالى ' کا ارشاد ہے:
) فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ } (185) سورة البقرة
جوشخص رمضان كا مہینہ پائے وہ اسکا روزہ رکھے , اورجو مریض ہویا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے –
نیزاللہ تعالی نے فرمایا:
) لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا } (286) سورة البقرة
الله كسی نفس کو اسکی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا-
اورفرمایا :
) وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ } (78) سورة الحـج
اوراس (اللہ) نے دین کے معاملے میں تم پرکوئی حرج وتنگی نہیں رکھی-

  1. جن ممالک میں موسم گرما میں آفتاب غروب ہی نہ ہوتا ہو اورموسم سرما میں آفتاب طلوع ہی نہ ہوتا ہو, اسی طرح وہ ممالک جہاں مسلسل چہ مہینے رات اورچہ مہینے دن رہتا ہو,وہاں کے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک جہاں فرض نمازوں کے اوقات جداجدا ہوں ,وہاں کے اوقات نمازکے پیش نظراپنی پنج وقتہ فرض نمازوں کے اوقات متعین کرلیں, اورہرچیز چوبیس گھنٹے کے اندرپانچوں فرض نمازیں اداکریں, کیونکہ اسراء ومعراج والی حدیث میں وارد ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت پرایک دن اورایک رات میں پجاس نمازیں فرض کیں تو رسول اللہ r اپنے رب سے امت کے لئے تخفیف کرواتے رہے ,یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا :
"اے محمد( r) ایک دن اوررات میں اب یہ کل پانچ نمازیں ہیں, اورہرنماز دس کے برابرہے ,گویا یہ پچاس نمازیں ہیں "
طلحہ بن عبید اللہ t سے مروی ہے کہ علاقۂ نجد سے ایک دیہاتی صحابی رسول اللہ r کے پاس آئے ,جنکا سرپراگندہ تھا ,ہم ان کی آواز تو سن رہے تھے مگربات نہیں سمجہ پارھے تھے , یہاں تک کہ وہ رسول r سے قریب ہوگئے ,وہ آپ سے اسلا م کے بارے میں دریافت کررہے تھے, آپ نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا:
" ایک دن اوررات میں پانچ نمازیں فرض ہوتی ہیں"
اس دیہاتی نے سوال کیا کہ کیا ان کے علاوہ بھی مجہ پرکچہ ہے؟ آپ نے فرمایا:
نہیں,الایہ کہ تم نفل پڑھو"
نیزانس بن مالک t کی حدیث ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم کو رسول r سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے منع کردیا گیا تھا, اسلئے ہماری یہ خواہش ہوتی تھی کہ دیہات سے کوئی سمجھدارشخص آئے اورآپ سے کچھ دریافت کرے اورہم سنیں ,چنانچہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی آیا اورکہا کہ اے محمد (r) ہمارے پاس آپ کا قاصد پہنچا اورکہاکہ آپ کہتے ہیں کہ اللہ نے آپکو بھیجاہے ,آپ نے فرمایا : قاصد نے سچ کہا- اسنے سوال کرتے کرتے کہاکہ آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا کہ ہم پرایک دن اوررات میں پانچ نمازیں فرض ہیں, آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا – دیہاتی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپکو بھیجا ہے, کیا اللہ نے آپ کو اسکا حکم دیا ہے؟آپ نے فرمایا :ہاں-
نبی r سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے صحابۂ کرام کو مسیح دجال کے بارے میں بتایا, توانہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ وہ کتنے دن زمین پرٹہرے گا ؟آپ نے فرمایا : چالیس دن,لیکن اسکا ایک دن ایک سال کے برابر,ایک دن ایک ماہ کے برابر, ایک دن جمعہ (ہفتہ) کے برابر, اورباقی دن عام دنوں کے برابرہوں گے- سوال کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول!
اسکا جودن ایک سال کے برابرہوگا کیا اسمیں ایک دن کی نمازیں ہمارے لئے کافی ہوں گی؟آپ نے فرمایا :نہیں ,بلکہ ایک ایک دن کا اندازہ کرلیاکرنا-

اس حدیث میں آپ r نے دجال کے ظاہرہونے کے وقت ایک سال کے برابروالے دن کوایک دن نہیں شمارفرمایا ,جسمیں صرف پانچ نمازیں کافی ہوں ,بلکہ ہرچوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں فرض قراردیں, اوریہ حکم دیا کہ لوگ اپنے اپنے ملکوں میں عام دنوں کے اوقات کے اعتبارسے نمازوں کے اوقات متعین کرلیں-
لہذا ان ممالک کے مسلمان جن کے تعلق سے نمازوں کے اوقات کے تعیین کامسئلہ دریافت کیا گیا ہے, ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے قریب ترین ملک ,جہاں دن اوررات ہرچوبیس گھنٹے کے اندرمکمل ہوجاتے ہوں , اورشرعی علامتوں کے ذریعہ پنجوقتہ نمازوں کے اوقات معروف ہوں, اس ملک کے اوقات نماز کی روشنی میں نمازوں کے اوقات متعین کرلیں-
اسی طرح رمضان کے روزے کا مسئلہ بھی ہے, انکے لئے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک ,جہاں دن اوررات جداجدا ہوں اورہرچوبیس گھنٹے کے اندرانکی گردش مکمل ہوجاتی ہو, اس ملک کے اوقات کے اعتبارسے ماہ رمضان کی ابتداء اوراسکے اختتام ,اوقات سحروافطار,نیزطلوع فجراورغروب آفتاب وغیرہ کے اوقات میتعین کرلیں, اورروزہ رکھیں, جیساکہ مسیح دجال سے متعلق حدیث میں بات گزرچکی ہے ,اورجسمیں آپ r نے صحابۂ کرام کواس بڑے دن میں اوقات نماز کی تعیین کرنے کی کیفیت کی جانب رہنمائی فرمائی ہے, اورظاہربات ہے کہ اس مسئلہ میں روزہ اورنمازکے درمیان کوئی فرق نہیں- واللہ ولی التوفیق-
وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ –
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 7:
کیا اذان شروع ہونے کے ساتہ ہی سحری کھانے سے رک جانا ضروری ہے یا اذان ختم ہونے تک کھا ,پی سکتےہیں؟
جواب :
موذن کے بارے میں اگریہ معروف ہو کہ وہ فجرطلوع ہونے کے ساتہ ہی اذان دیتا ہے توایسی صورت میں اسکی اذان سنتے ہی کھانے پینے اوردیگرتمام مفطرات سے رک جانا ضروری ہے ,لیکن اگرکلینڈرکے اعتبارسے ظن وتخمین سے اذان دی جائے توایسی صورت میں اذان کے دوران کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں, جیسا کہ نبی کریم r کی حدیث ہے, آپ نے فرمایا:
" بلال رات میں ا ذان دیتے ہیں سوکھاؤ اورپیو, یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں"
اس حدیث کے آخرمیں راوی کہتے ہیں کہ ابن ام مکتوم نابینا شخص تھے , وہ اسوقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک کہ ان سے یہ نہ کہاجاتا کہ تم نے صبح کردی(متفق علیہ)
اہل ایمان مرد وعورت کے لئے احتیاط اسی میں ہے کہ نبی کریم r کی درج ذیل احادیث پرعمل کرتے ہوئے وہ طلوع فجرسے پہلے ہی سحری سے فارغ ہوجائیں ,آپ نے فرمایا :
" جوچیز تمہیں شبہ میں ڈالے اسے چھوڑکرجوشبہ میں ڈالنے والی نہ ہو اسے لے لو"
نیزفرمایا:
"جوشخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اوراپنی عزت کو بچالیا "
لیکن اگریہ بات متعین ہوکہ موذن کچہ رات باقی رہنے پرہی طلوع فجرسے پہلے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے اذان دیتا ہے ,جیساکہ بلال کرتے تھے , توایسی صورت میں مذکورہ بالا احادیث پرعمل کرتے ہوئے کھاتے پینے رہنے میں کوئی حرج نہیں ,یہاں تک کہ طلوع فجرکے ساتہ اذان دینے والے موذن کی اذان شروع ہوجائے-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 8:
کیا حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کے لئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اورکیا ایسی عورتوں کوچھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنی ہوگی , یاروزہ نہ رکھنے کے بدلے کفارہ دینا ہوگا؟
جواب :
حاملہ اوردودھ پلانے والی عورتوں کا حکم مریض کا حکم ہے ,اگرروزہ رکھنا انکے لئے بھاری ہوتو روزہ نہ رکھیں , اوربعد میں جب وہ روزہ رکھنے کے لائق ہوجائیں تو مریض کی طرح وہ بھی چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرلیں ,بعض اہل علم کا یہ خیال ہے کہ حاملہ اوردودھ پلانے والی عورتوں کو ہردن کے بدلے ایک ایک مسکین کو کھاناکھلانا ہوگا, لیکن یہ ضعیف اورمرجوح قول ہے ,صحیح بات یہی ہے کہ انہیں بھی مریض اورمسافرکی طرح چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنی ہوگی, اللہ تعالى کا ارشاد ہے:
) فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ } (184) سورة البقرة
پس جو تم میں سے مریض ہویا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے-
انس بن مالک کعبی t کی درج ذیل حدیث بھی اسی بات پردلالت کرتی ہے جسمیں یہ ذکرہے کہ رسول r نے فرمایا:
" اللہ تعالى نے مسافرسے روزہ کی اورآدھی نمازکی تخفیف کردی ہے اورحاملہ اوردودھ پلانے والی عورتوں سے روزہ کی " (صحیح مسلم وسنن اربعہ)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 9:
وہ لوگ جنکے لئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے مثلاً عمررسیدہ مرد وعورت اورایسا مریض جس کے شفایاب ہونے کی امیدنہ ہو , ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا روزہ نہ رکھنے کے عوض انہیں فدیہ دینا ہوگا؟
جواب :
جوشخص بڑھاپے کی وجہ سے یا کسی ایسی بیماری کی وجہ سے جس سے شفایاب ہونے کی امیدنہ ہو, روزہ رکھنے پرقادرنہ ہو اسے ہردن کے بدلے بصورت استطاعت ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا , جیساکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت جن میں ابن عباس d بھی ہیں-کافتوى'ہے-
 
Top