• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رکعات ترارویح سے متعلق حدیث عائشہ پر اعتراضات کے جوابات

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حدیث عائشہ پر احناف کی طرف سے اب تک جتنے بھی اعتراضات وارد کئے گئے ہیں ان سب کو مولانا طاہرگیاوی صاحب نے اپنی کتاب (احسن التنقیح ) میں ایک ساتھ جمع کردیا ہے ، ہم بنیادی طور پر اسی کتاب کو سامنے رکھ کر جواب حاضرکرتے ہیں تاہم دیگر معترضین کی باتوں کو بھی ہم ساتھ لیکر چلیں گے ۔


کمیت اور کیفیت کا فلسفہ:
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جناب گیاوی صاحب نے اس حدیث پر اعتراضات کی شروعات ہی ایک لطیفے سے کی ہے فرماتے ہیں:
سوال کرنے والے نے خود ہی كيف كانت صلوٰة رسول الله؟ کہا ہے ، یعنی حضور کی نماز کی کیفیت کیا تھی ؟ كم كانت صلٰوة رسول الله ؟ نہیں کہا ہے جس سے کمیت سے متعلق سوال سمجھا جاسکے مقدار اور کمیت کے بارے میں سوال کرنا ہوتا ہے تو عربی زبان میں اس کے لئے کم کا لفظ موجود ومعروف ہے ، لفظ کیف تو صرف کیفیت وحالت ہی دریافت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔۔۔الخ (احسن التنقیح ص243)
مولانا گیاوی صاحب نے یہ فلسفہ سنجی کرکے نہ صرف یہ کہ حدیث وفقہ سے متعلق اپنی معلومات کا تعارف کرادیا ہے ، بلکہ عربی زبان ولغت سے بھی اپنی واقفیت کی نمائش کردی ہے ۔
اولا:
موصوف کی یہ ساری عمارت اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ حدیث عائشہ میں سائل نے کیف سے سوال کیا ہے نہ کہ کم سے !
اس پوری عمارت کو مسمار کرنے کے لئے صرف اس حقیقت سے پردہ اٹھا دینا ہی کافی ہے کہ اسی حدیث کے بعض طرق میں یہی سوال کم کے لفظ کے ساتھ بھی موجود ہے چنانچہ :
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
أخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا مالك، عن سعيد، عن أبي سلمة، قال: سألت عائشة، كم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان، ولا غيره، على إحدى عشرة ركعة، «يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا»[السنن الكبرى للنسائي 1/ 240 رقم 411]
ثانیا:
اگرہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ حدیث میں صرف کیف ہی سے سوال وارد ہے تو مولانا گیاوی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ”کیف“ یہ ”کم“کے معنی میں بھی آتا ہے ،امام أبو الوليد سليمان بن خلف الباجي (المتوفى 474 ) اسی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وقد تأتي كيف بمعنى كم ، یعنی کیف یہ کم کے معنی میں بھی آتا ہے (المنتقى شرح الموطإ 1/ 215)
بلکہ اسی حدیث کے بعض طرق کیف کی جگہ کم کا آجانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس حدیث میں کیف کم کے معنی میں ہے ۔یعنی اصل سوال رکعات ہے سے متعلق تھا اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے اضافی طور پر مزید چیزیں بھی بتلادیں۔
ثالثا:
اگر فرض کرلیں صرف کیف ہی سے سوال ہوا تھا یعنی صرف کیفیت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو غور طلب بات یہ ہے کہ کیا کیفیت میں تعداد شامل نہیں ہے ؟ کیا تعداد کیفیت کا حصہ نہیں ہے ؟
عربی زبان میں گیاوی صاحب سے زیادہ واقفیت بلکہ مہارت رکھنے والے محمود خطاب السبكي اس حدیث کی تشریح میں کیف کے بارے میں فرماتے ہیں:
ومن لوازمه بيان العدد ، یعنی کیفیت کے لوازم میں سے ہے کہ تعداد بیان کی جائے ( شرح سنن أبي داود 7/ 269)
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محمود خطاب السبكي صاحب کی پوری عبارت نقل کردی جائے ، اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
أي كيف كانت صفة صلاة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في ليالي رمضان وكم كان عددها بدليل إجابتها بالعدد ثم بيان الصفة. ويحتمل أن السؤال عن الصفة فقط كما هو ظاهر لفظ كيف فأجابت ببيانها. ومن لوازمه بيان العدد. ويحتمل أن السؤال عن العدد فقط فتكون كيف بمعنى كم فأجابت ببيانه ثم أتبعته ببيان الصفة
یعنی رمضان کی راتوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی تھی ،کتنی رکعات والی تھی ، اس کی دلیل یہ ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلے تعداد ہی کو بیان کیا پھر صفت کو بیان کیا ، اور یہ بھی احتمال ہے کہ سوال صرف صفت کے بارے میں ہوا ہو جیساکہ لفظ کیف سے ظاہر ہے ، تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی کا جواب دیا اور اس کے لوازم میں سے ہے کہ تعداد کو بھی بیان کیا جائے ، اور یہ بھی احتمال ہے کہ سوال صرف تعداد رکعات ہی کے بارے میں ہوا ہو تو ایسی صورت میں کیف یہ کم کے معنی میں ہوگا ، تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں تعداد بیان کی اور ساتھ ہی صفت بھی بیان کردی ۔ ( شرح سنن أبي داود 7/ 269)
ہم کہتے ہیں یہ آخری احتمال ہی راجح ہے کیونکہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسی حدیث کے ایک طریق میں کیف کی جگہ کم کا لفظ آگیا ہے اور حدیث کی سب سے بہترین تشریح حدیث ہی ہوسکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے تعداد ہی بیان کی ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل سوال تعداد ہی کی بارے میں ہوا تھا ، باقی کیفیت کا بیان اضافی ہے۔
رابعا:
کیف اور کم کی بحث جانے دیں ، گیاوی صاحب پورے سوال ہی سے آنکھیں بند کرلیں ، اور صرف جواب پر غور کریں کہ اس میں کیا ہے ؟ جواب میں پوری صراحت کے ساتھ ، رمضان وغیر رمضان اور گیارہ کی تعداد موجود ہے ، پھر اب کیف اور کم کی فلسلفہ سنجی کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اور حیرت کی بات ہے کہ گیاوی صاحب نے شروع میں تو سارا زور اس بات پر لگا دیا کہ کیف کا مطلب کیا ہے لیکن آگے چل کر خود ہی تحریر فرماتے ہیں:
اشتباہ یہ ہوا کہ رمضان میں چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انہماک عبادت میں بڑھ جاتا تھا ، اس لئے کہیں ایسا تو نہیں کہ تہجد کی عام دنوں والی رکعت کی تعداد میں آپ رمضان کےاندر اضافہ فرمادیا کرتے تھے ، یہی بنائے سوال ہے (احسن التنقیح ص247)
ملاحظہ فرمائیں جس قلعہ کی تعمیر میں موصوف نے نہ جانے کہاں کی اینٹ اور کہاں کا پتھر چن چن کرلائے تھے ، یہاں پہنچ کر کود ہی اسے زمین بوس کردیا اور یہ منادی کردی کہ تعداد رکعات ہی کی معلومات لینا بنائے سوال تھا ، یعنی کیف اصل میں کم ہی کا مطلب لئے ہوئے ہیں ۔
اب ہمیں کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

مولانا طاہر گیاوی صاحب نے حدیث عائشہ پر جو بنیادی اور تفصیلی اعتراضات کئے ہیں انہیں پانچ قسموں میں بانٹا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
1۔حدیث عائشہ میں سوال وجواب کا تعلق تراویح سے ہونا چاہئے ۔
2۔ یا تراویح اورتہجد دونوں کا ایک ہی نماز ہونا طے ہونا چاہے۔
3۔اس کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا ثبوت نہیں ملنا چاہے۔
4۔گیارہ رکعتوں میں حصر ثابت ہونا چاہے ، یعنی اس سے زیادہ یا کم پڑھنا ثابت نہ ہو۔
5۔ حدیث عائشہ میں کوئی فنی عیب نہ ہو یعنی متنا اضطراب کی وجہ سے یہ ضعیف نہ ہو۔
(ماحصل از احسن التنقیح ص 241 ، 242)
عرض ہے کہ:
پہلا اور دوسرا اعتراض ایک ہے اور وہ ہے تراویح اور تہجد الگ الگ ہونا ۔
تیسرا اور چوتھا اعتراض بھی ایک ہی ہے اور وہ حدیث عائشہ میں مذکور حصر کا غیر ثابت ہونا ۔
اس کے بعد پانچوں اعتراض اس کے متن کےثبوت پر یعنی اضطراب کا اعتراض ہے ۔
اس طرح یہ کل پانچ نہیں بلکہ تین ہی اعتراضات ہیں۔
اسی طرح حافظ ظہور احمد صاحب نے اس حدیث پر کل دس اعتراضات کئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے :
1۔بیان کیفیت میں روایات کا باہمی تعارض
2۔ تراویح اور تہجد میں تفریق
3۔محدثین کے ابواب بابت حدیث عائشہ
4۔فقہاء کی نظر میں اسے تہجد سے متعلق بتلانا
5۔ تہجد سے متعلق ثابت کرنے کی ایک اور کوشش
6۔ تعداد میں اختلاف سے متعلق روایات
7۔اضطراب کا اعتراض
8۔ تعداد میں تطبیق کے بعد عدم گیارہ سے زائد کا دعوی
9۔صحابہ کی طرف منسوب عمل سے معارضہ
10۔مختلف کیفیات کے حوالے سے الزام کہ اہل حدیث کا اس پر عمل نہیں
(ماحصل از رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ ص187 تا 208)
اس دس اعتراضات میں غور کریں تویہ بھی اصلا کل تین اعتراضات ہی ہیں ۔
پہلے ، ساتویں اور دسویں اعتراض کا تعلق اضطراب سے ہے ۔
دوسرے ، تیسرے ، چوتھے اور پانچویں اعتراض کا تعلق تہجد اور تراویح میں فرق سے ہے۔
چھٹے اور آٹھویں اعتراض کا تعلق عدم حصر سے ہے ۔
نواں اعتراض بالکل ہی غیر متعلق ہے کیونکہ اس حدیث عائشہ سے کوئی تعلق ہی نہیں اور اس کی بنیاد بھی غلط ہے کیونکہ صحابہ سے اس کے خلاف کچھ ثابت نہیں اس پر الگ سے بحث آرہی ہے ۔
الغرض یہ کہ یہ کل دس اعتراضات بھی بنیادی طور پر تین اعتراضات ہی ہیں ، لہٰذا ہم ان سارے اعتراضات کو تین قسموں میں سمیٹ دیتےہیں :
  • اول: حدیث عائشہ میں اضطراب کا دعوی
  • دوم: حدیث عائشہ میں عدم حصر کا دعوی
  • سوم: تہجد اور تراویح میں فرق کا فلسفہ
حقیقت یہ ہے کہ حدیث عائشہ سے متعلق کوئی بھی اعتراض دیکھیں تو وہ ان تین قسموں میں سے ہی کسی سے تعلق رکھتا ہے ، اس لئے ان تینوں اعتراضات کے مفصل جوابات پیش کرتے ہیں:

پہلا اعتراض : اضطراب کا دعوی

یعنی یہ حدیث مضطرب ہے اور مضطرب حدیث ضعیف احادیث کی ایک قسم ہے جو ناقابل قبول ہے ۔
اس اعتراض کا تفصیلی جواب دینے سے قبل یہ حقیقت واضح کردینا ضروری ہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری کی حدیث ہے اور صحیح بخاری کی احادیث کی صحت پر اجماع ہے ۔

✿ امام أبو إسْحاق الإسفراييني رحمہ اللہ(المتوفی418) اپنی کتاب ”أصول الفقه“ میں فرماتے ہیں:
أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التي اشتمل عليها الصحيحان - مقطوع بصحة أصولها ومتونها، ولا يحصل الخلاف فيها بحال، وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها
اہل فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو احادیث موجود ہیں وہ مع اصول ومتون قطعیت کے ساتھ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہیں'اگر ان میں موجود بعض روایات میں اختلاف ہے تو یہ ان احادیث کے طرق اور راویوں کے بارے میں اختلاف ہے۔[ أصول الفقه للإسفراييني بحوالہ النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي 1/ 280، فتح المغيث بشرح ألفية الحديث 1/ 72]

✿ محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507) فرماتے ہیں:
أجمع المسلمون على قبول ما أخرج في الصحيحين لأبي عبد اللّه البخاري ، ولأبي الحسين مسلم بن الحجاج النيسابوري ،
صحیحین میں امام بخاری ومسلم نے جو احادیث روایت کی ہیں ان کی قبولیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے[صفوة التصوف لابن القيسراني (ورقۃ 87 ، 88) بحوالہ أحاديث الصحيحين بين الظن واليقين للشیخ الزاہدی ]

✿ امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643) لکھتے ہیں:
جميع ما حكم مسلم بصحته من هذا الكتاب فهو مقطوع بصحته والعلم النظري حاصل بصحته في نفس الأمر وهكذا ما حكم البخاري بصحته في كتابه وذلك لأن الأمة تلقت ذلك بالقبول سوى من لا يعتد بخلافه ووفاقه في الإجماع
وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے 'اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو 'تلقی بالقبول'حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ [صيانة صحيح مسلم ص: 85]

✿ امام نووي رحمه الله (المتوفى676) فرماتے ہیں:
اتفق العلماء رحمهم الله على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول،
علماء رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ قرآن عزیز کے بعدسب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، امت کی طرف سے اسے تلقی بالقبول حاصل ہے [شرح النووي على مسلم 1/ 14]

✿ امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) فرماتے ہیں:
أجمع العلماء على قبوله وصحة ما فيه، وكذلك سائر أهل الإسلام
صحیح بخاری کی مقبولیت اور اس احادیث کی صحت پر علماء اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔[البداية والنهاية ط إحياء التراث 11/ 30]

✿ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ (المتوفى 808) فرماتے ہیں:
وجاء محمّد بن إسماعيل البخاريّ إمام المحدّثين في عصره فخرّج أحاديث السّنّة على أبوابها في مسندة الصّحيح بجميع الطّرق الّتي للحجازيّين والعراقيّين والشّاميّين. واعتمد منها ما أجمعوا عليه دون ما اختلفوا فيه
اس کے بعد امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری اپنے زمانے میں سامنے آئے انہوں نے اپنی صحیح مسند میں احادیث کو ابواب کی ترتیب پر بیان کیا اور اپنی کتاب میں حجازیوں 'عراقیوں اور شامیوں کے ان طرق سے احادیث کو نقل کیا کہ جن پر ان کا اجماع تھااور جن طرق میں اختلاف تھا ان کو نہ لیا.[تاريخ ابن خلدون 1/ 559]

✿ ملا علي القاري رحمہ اللہ(المتوفى1014)فرماتے ہیں:
ثم اتفقت العلماء على تلقي الصحيحين بالقبول، وأنهما أصح الكتب المؤلفة
پھر علماء کا صحیحین کو قبول کرنے پر اتفاق ہے اور اس بات پر کہ تمام کتابوں میں یہ صحیح تریں کتابیں ہیں [مرقاة المفاتيح للملا القاري: 1/ 18]

✿ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ(المتوفی1176 ) فرماتے ہیں:
أما الصحيحان فقد اتّفق المحدثون على أَن جَمِيع مَا فيهمَا من الْمُتَّصِل الْمَرْفُوع صَحِيح بِالْقطعِ، وأنهما متواتران إِلَى مصنفيهما، وَأَنه كل من يهون أَمرهمَا فَهُوَ مُبْتَدع مُتبع غير سَبِيل الْمُؤمنِينَ
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقینا صحیح ہیں ، یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچتی ہیں جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راوہ کے خلاف چلتا ہے۔(حجة الله البالغة 1/ 232 ، حجۃ اللہ البالغہ مترجم اردو ص 250 ، ترجمہ اردو نسخہ سے نقل کیا گیا ہے۔)

✿ عصر حاضر کے احناف بھی نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے چنانچہ :
سرفراز صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
اور امت کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے کہ بخاری اور مسلم دونوں کی تمام روایتیں صحیح ہیں (احسن الکلام ج1 ص187)

✿ غلام رسول رضوی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
تمام محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری تمام کتب سے اصح کتاب ہے (تفہیم البخاری : ج1ص5)

صحیحین کی تمام احادیث صحیح ہے اس پر ائمہ ، محدثین ، اہل علم حتی کہ خود احناف کے بھی بے شمار اقوال ہیں لیکن ماقبل میں صرف وہ اقوال پیش کئے گئے ہیں جن میں صحیحین کی تمام احادیث کو نہ صرف صحیح کہا گیا ہے بلکہ اس صحت پر امت کا اجماع نقل کیا گیا ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ رکعات تراویح کی بات آتی ہے تو احناف اس روشن حقیقت اور اس کے اعتراف کوپس پشت ڈال کر بغیر کسی خوف و جھجک کے یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ حدیث عائشہ مضطرب یعنی ضعیف ہے۔

کیا صحیحین کی صحت صرف اسناد کے لحاظ سے ہے؟
مولانا طاہر گیاوی صاحب نے یہ محسوس کیا کہ صحیح بخاری کی حدیث عائشہ کو مطلق ضعیف کہنے کے بات نہیں بننے والی کیونکہ اس کے خلاف کوئی اجماع صحت کا حوالہ دے سکتا ہے اس لئے موصوف نے لکھا:
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی سند بالکل صحیح ہے اور بخاری ومسلم میں ہونا ہی اس کی سند کی صحت کے لئے بہت بڑی ضمانت ہے لہٰذا بہ لحاظ سند یہ روایت بے غبار ہے لیکن جہاں تک متن اور مضمون حدیث کی حیثیت کا تعلق ہے تو اس کی صحت میں محدثین کو سخت کلا م ہے (العدد الصحیح ص15 نیز دیکھیں: احسن التنقیح لرکعات التراویح : ص331)

صحت میں محدثین کو سخت کلام ہے یہ بات تو بالکل غلط ہے کسی ایک بھی ثقہ محدث نے اس کی صحت پر کلام نہیں کیا ہے تفصیل آرہی ہے۔
یہاں موصوف نے یہ دکھلانے کی کوشش کی ہے کہ صحیحین میں کسی روایت کا ہونا صرف سندا صحیح ہونے کی ضمانت ہے متنا نہیں ۔حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔
صحیحین کی صحت پر اجماع نقل کرنے والے سب سے قدیم جس محدث کا نام ملتا ہے وہ امام أبو إسْحاق الإسفراييني رحمہ اللہ(المتوفی418) ہیں ان کے الفاظ ماقبل میں نقل کئے جاچکے ہیں اس میں انہوں نے پوری صراحت کے ساتھ ”مقطوع بصحة أصولها ومتونها“ کے الفاظ کہے ہیں یعنی اصول ومتون کے ساتھ صحیحین کی احادیث کی صحت قطعی ہیں اس پر اہل فن کا اجماع ہے۔
صرف اسی ایک حوالے سے طاہرگیاوی صاحب کی مذکورہ تفریق کی قلعی کھل جاتی ہے۔موصوف کو بھی بخوبی احساس تھا کہ ان کی یہ بات قارئین کو ہضم ہونے والی نہیں ہے اسی لئے جناب نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے آگے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ سے یہ نقل کررکھا ہے کہ سند کا صحیح ہونا متن کے صحیح ہونے کو مستلزم نہیں (العدد الصحیح ص16)
عرض ہے کہ :
اولا:
علامہ مبارکپوری نے مذکورہ بات صحیحین کی کسی حدیث سے متعلق نہیں کہی ہے ، اور اوپر بتایا جاچکا ہے کہ احادیث صحیحین کے متون کی صحت پر اجماع ہوچکا ہے ،اس اجماع کے خلاف علامہ مبارکپوری کہیں کوئی بات نہیں کہی ہے ۔
ثانیا:
حدیث کی صحت کے شرائط میں جہاں یہ بات ہے کہ سند بے داغ ہونی چاہئے یعنی تمام رواۃ ثقہ ہونے چاہئیں اور سند متصل ہونی چاہئے وہیں یہ شرط بھی ہے کہ متن بھی محفوظ ہونا چاہئے ، اگر متن میں شذوذ ہے تو سند بے عیب ہونے کے باوجود بھی حدیث صحیح نہیں ہوگی ، اصول حدیث کی کتابوں یہ بات مسلم ہے۔
چونکہ بعض متساہل یا محدثین کے عام منہج سے منحرف لوگ سند کی محض ظاہری حالت ہی دیکھ کر صحیح سمجھ بیٹھتے ہیں اس لئے خاص ایسے لوگوں کی تردید میں کہا جاتا ہے کہ صرف سند کے صحیح ہونے سے حدیث صحیح نہیں ہوتی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ معتبر اور مستند محدثین بھی جب کسی حدیث کو صحیح کہتے ہیں تو وہ محض سند کے لحاظ سے صحیح کہتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اہل فن اور مستند محدثین کسی حدیث کو محض سند کے لحاظ صحیح کہہ ہی نہیں سکتے ہیں کیونکہ ان کے یہاں کوئی حدیث درجہ صحت کو تب تک نہیں پہنچ سکتی ہے جب تک کہ اس کا متن بھی محفوظ ثابت نہ ہوجائے ، اس لئے محدثین جب کہ کسی حدیث پر صحت کا حکم لگاتے ہیں کہ تو اس کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ اس کا متن محفوظ و ثابت اور قابل قبول ہے ۔
امام بخاری وامام مسلم بلکہ تمام صحاح کی مصنفین نے اپنی صحاح کی کتابوں جو صحت کا حکم لگایا ہے اس کا یہی مفہوم ہے ۔

صحت کا حکم متن پر ہی لگتا ہے:
یہ بات بھی واضح ہے کہ سند کی تحقیق و تفتیش کے پیچھے اصل مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ آنے والی بات یعنی متن کی بابت معلوم ہوسکے کہ وہ صحیح ہے یا نہیں ،اصول حدیث اور تحقیق رجال کی ساری کاوشوں کا ھدف بس اسی بات کا پتہ لگانا ہوتا ہے ۔لہٰذا اہل فن جب کسی حدیث پر صحت کا حکم لگاتے ہیں تو سند کے ذریعہ آنے والے متن کے بارے میں ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ صحیح ہے۔
حتی کہ تحقیق تو تفتیش کے دوران کسی حدیث کی ایک سند ضعیف ثابت ہوتی ہے تو محدثین محض اس ایک سند کے ضعف کو دیکھ کر متن کو ضعیف نہیں کہتے بلکہ اس متن کی دیگر اسانید بھی تلاش کرتے ہیں اگر کسی اور مقام پر اس کی صحیح سندیں مل گئیں تو پھر متن پر ان کا حکم صحت ہی کا ہوتا ہے۔کیونکہ یہی اصل مقصود ہے۔
بلکہ بسا اوقات ایک حدیث کی ساری سندیں ضعیف ہوتی ہیں لیکن سندوں کی مجموعی کیفیت ایسی ہوتی ہے جو اشارہ کرتی ہے کہ اس ضعف سے نقل کردہ بات متاثر نہیں ہوسکتی ہے ایسی صورت میں بھی محدثین حدیث پر صحت ہی کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے لئے حسن لغیرہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ۔
غرض یہ کہ تحقیق حدیث کا اصل مقصد متن پر حکم لگانا ہی ہوتا ہے اور جب بھی کوئی مستند محدث کسی حدیث پر صحت کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ فیصلہ بنیادی طور پر متن سے متعلق ہی ہوتا ہے ۔
بخاری ومسلم کی احادیث پر جو صحت کا فیصلہ کیا گیا ہے یہ فیصلہ اصلا متون ہی سے متعلق ہے اسی لئے صحیحین کی کسی حدیث کی سند میں کوئی عیب ظاہر ہوتا ہے تو اہل فن شواہد و متابعات اور قرائن پر بحث کرتے ہوئے یہی جواب دیتے ہیں کہ اس عیب سے متن کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

تلقی بالقبول کا مطلب:
مزید اس بات پر غورکیا جائے کہ صحیحین کی احادیث کی صحت پر اجماع نقل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان احادیث کو تلقی بالقبول حاصل ہے جیساکہ حوالے گذرچکےہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ تلقی بالقبول کا کیا مطلب ہے ؟ کیا محض سند کے ساتھ تلقی بالقبول کی بات کا کوئی مطلب بنتا ہے ؟ اگر سند کو متن سے الگ کردیا جائے تو بتلایا جائے کہ جب سند کے ساتھ کوئی بات ہے ہی نہیں ، تو قبول کسے کیا جائے گا ؟
ظاہر ہے تلقی بالقبول کا مطلب یہی ہے کہ صحیحن میں سندوں کے ساتھ جو احادیث ہیں ان احادیث کو امت نے بالاتفاق قبول کیا ہے۔

اس تفصیل کے بعد یہ حقیقت طشت ازبام ہوجاتی ہے حدیث عائشہ متن کے لحاظ سے بھی صحیح ہے اور اس کی صحت پر اجماع ہے ۔اس کے بعد مزید کسی بحث کی ضرورت تو نہیں رہ جاتی کیونکہ عصر حاضر کے احناف کو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ بالاجماع ثابت شدہ کسی بات کا انکار کریں ۔
تاہم قارئین کے اطمینان قلب کے لئے اس سلسلے میں مخالفین کی پیش کردہ باتوں پر گفتگو کرکے ہم معاملہ کو پوری طرح صاف کرنا چاہتے ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
دعوائے اضطراب میں احناف کے دلائل اور اس کا جائزہ

عصر حاضر کے احناف کا دعوی ہے کہ حدیث عائشہ مضطرب ہے، اس دعوی پر ان حضرات کی طرف سے دو باتیں پیش کی جاتی ہیں۔
(الف) اضطراب کی پہلی دلیل ، تعداد رکعات کے بیان میں اختلاف:
احناف کا کہنا کہ صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث کے علاوہ صحیحین اور دیگرکتب احادیث میں، اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے الگ الگ تعداد میں رکعات کا ذکر ہے جو اضطراب کی دلیل ہے۔
جوابا عرض ہے کہ حدیث عائشہ میں یہ بیان ہرگز نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک ہی عدد کا التزام کرتے تھے ، بلکہ حدیث عائشہ کا بیان یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے ۔
اس لئے اگر کسی دوسری روایت میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا گیارہ سے کم تعداد بتلائیں تووہ اس بیان کے مخالف قطعا نہیں ہے۔
رہی بات یہ کہ بعض روایات میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے گیارہ سے زیادہ یعنی 13 رکعات بتلائی ہیں توعرض ہے کہ جن احادیث میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے 13 کی تعداد بتلائی ہے اس میں بھی اصل رکعات گیارہ ہی بیان کی ہے اور دو کے ذریعہ کبھی فجر کی اور کبھی عشاء کی سنت کو بھی شامل کرکے بیان کردیا ہے اوربعض روایات میں تو یہ اضافہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ بعد کے کسی راوی کی طرف سے ہے ۔اور بعض روایات ثابت ہی نہیں ہیں ان روایات کی تفصیل ملاحظہ ہو:

فجر کی رکعات شامل کرنے سے متعلق روایت :
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ، عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْهَا الوِتْرُ، وَرَكْعَتَا الفَجْرِ»
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ وتر اور فجر کی دو سنت رکعتیں اسی میں ہوتیں۔[صحيح البخاري 2/ 51 رقم
1140]

عشاء کی سنت شامل کرنے سے متعلق یہ روایت :
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا أحمد بن صالح، ومحمد بن سلمة المرادي، قالا: حدثنا ابن وهب، عن معاوية بن صالح، عن عبد الله بن أبي قيس، قال: قلت لعائشة رضي الله عنها: بكم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر؟ قالت: «كان يوتر بأربع وثلاث، وست وثلاث، وثمان وثلاث، وعشر وثلاث، ولم يكن يوتر بأنقص من سبع، ولا بأكثر من ثلاث عشرة»
عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں` میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: کبھی چار اور تین، کبھی چھ اور تین، کبھی آٹھ اور تین اور کبھی دس اور تین، کبھی بھی آپ وتر میں سات سے کم اور تیرہ سے زائد رکعتیں نہیں پڑھتے تھے[سنن أبي داود 2/ 46 رقم 1362 واسنادہ صحیح]

اس روایت مین پوری صلاۃ اللیل پر وتر کا اطلاق ہوا ہے اور دس اور تین وتر کی تعداد اس اعتبار سے بتلائی گئی ہے کہ اس میں عشاء کے بعد کی دو سنت رکعات بھی شامل کرلی گئی ہیں ۔
یہ توجیہ ماننا اس لئے لازم ہے کیونکہ ایک طرف بخاری کی روایت میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے صراحت کے ساتھ یہ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اور دوسری طرف ایک روایت میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب تیرہ کی تعداد بتلائی تو اس میں فجر کی سنت کو بھی شامل کرلیا جیساکہ گذرا۔اس سے ثابت ہوا کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا جب گیارہ سے زائد رکعات بتلاتیں، تو فرض نماز سے متصل سنت کو شامل کرکے بتلاتی تھیں ۔
اورزیرنظرروایت میں بیان کردہ رکعات پر وتر کا اطلاق کیا ہے جس سے اشارہ ملتا ہے کہ فجر کی سنت اس میں شامل نہیں ہے اس لئے ظاہر ہے کہ عشاء کی سنت ہی اس میں شامل کی گئی ہے ۔ کیونکہ اس روایت کے کسی بھی طریق میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے عشاء کی سنت کو الگ سے بیان کرنے کے بعد تیرہ کی تعداد نہیں بتلائی ہے ۔لہٰذا یہ مجمل روایت بخاری کی روایت کے معارض ثابت نہیں ہوسکتی ۔
معارضہ ثابت کرنے کے لئے لازم ہوگا کہ کوئی ایسی روایت پیش کی جائے جس میں صراحت ہو کہ عشاء اور فجر کی سنت کے علاوہ گیارہ سے زائد تعداد بتلائی گی ہے۔
یادرہے کہ تیرہ رکعات والی روایت میں دو رکعت سنت کو شامل ماننا ، یہ توجیہ کوئی ہماری طرف سے نئی نہیں ہے بلکہ کئی ایک محدثین بھی یہ توجیہ پیش کرچکے ہیں، مولانا طاہر گیاوی صاحب بھی اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تیرہ رکعت تک جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان میں محدثین کی طرف سے اس قسم کی تاویل تو توجیہ پیش کی گئی ہے (1) دو رکعت عشاء کی سنت بھی اس میں شامل کرلی گئی ہے (العدد الصحیح ص23،24)

بعض شبہات کا ازالہ:
مولانا طاہر گیاوی صاحب لکھتے ہیں:
مسلم مع نووی ج1ص254اوردوسری کتابوں میں حضرت عائشہ سے علاوہ سنت فجر، جو تیرہ رکعات پڑھنا منقول ہے اس کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے :كان يصلي ثلاث عشرة ركعة، يصلي ثمان ركعات، ثم يوتر، ثم يصلي ركعتين وهو جالس، فإذا أراد أن يركع قام فركع، ثم يصلي ركعتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح، یعنی دو رکعتین وتر کے بعد بیٹھ کر ادا فرمائی جاتی تھیں لہٰذا عشاء کی سنت کو ان تیرہ رکعتوں میں شامل کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ وترکے بعد بھی عشاء کی سنت پڑھنا درست ہے الخ۔۔۔(العدد الصحیح ص26،27)
عرض ہے کہ مولانا طاہر گیاوی صاحب نے دعوی تو یہ کیا ہے کہ ان کی پیش کردہ حدیث میں سنت فجر کے علاوہ تیرہ رکعات کا بیان ہے جبکہ ان کی پیش کردہ حدیث میں سنت فجر کے علاوہ صرف گیارہ رکعات ہی کا بیان ہے کوئی بھی گن کر دیکھ لے ، لہٰذااس روایت میں سنت عشاء کو شامل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
یادرہے ہے کہ جن صحیح روایات میں بھی وتر کے بعد بیٹھ کر دو رکعات پڑھنے کا ذکر ہے اس میں ان دو رکعات سے قبل پڑھی جانے والی رکعات کی تعداد نو سے زائد نہیں ہے ۔
دراصل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت شروع میں کچھ رکعات کم پڑھیں تو اسی وقت وتر کے بعد بیٹھ کر دو رکعات ادا کیں جو شروع میں کم کی گئی نماز کی بدل تھیں۔
امام طحاوي رحمه الله (المتوفى321) فرماتے ہیں:
يحتمل أن يكون على صلاته بعدما بدن فيكون ذلك على إحدى عشرة منها تسع فيها الوتر , وركعتان بعدهما وهو جالس
اس بات کا احتمال ہے کہ وتر کے بعد بیٹھ کرپڑھی جانے والی دو رکعات آپ نے جسیم ہونے کے بعد ادا کی ہوں اس طرح کل تعداد گیارہ رکعات ہی ہوتی ہیں ، جن میں سے نو وتر ہوں گی اور دو اس کے بعد بیٹھ کرپڑھی جانے والی نماز ہوں گی[شرح معاني الآثار، ت النجار: 1/ 283]
یہ بھی ممکن ہے کہ جن روایات میں وتر کے بعد بیٹھ کر دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے ان میں اصل رات کی نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ سے کم ہی پڑھی ہو ، اور پھر آخر میں بیٹھ کر جو دورکعت پڑھی یہ اصل صلاۃ الیل کا حصہ نہ ہو بلکہ بطور اختتامیہ انہیں ادا کیا ہو ۔ جیسے فرض کی اصل نماز کے بعد سنت مؤکدۃ بطوراختتامیہ پڑھی جاتی ہے۔
بہرحال یہ کیفیت بتلانے والی روایات میں رکعات کی مجموعی تعداد گیارہ رکعات سے زائد نہیں بتلائی گی ہے لہٰذا ان دو رکعات کو اصل صلاۃ اللیل کا حصہ مانیں یا بطور اختتامیہ الگ نماز مانیں بہر صورت گیارہ سے زائد رکعات کا اثبات نہیں ہوتا۔

مزید یہ کہ جس روایت میں سنت عشاء کی شمولیت کی بات کہی جاتی ہے وہ ابتدائی دو رکعات کے لئے کہی جاتی ہے نہ کہ اختتامی رکعات کے لئے ، مولانا طاہر گیاوی صاحب نے نامعلوم کیسے سمجھ لیا کہ اختتامی رکعات کو سنت عشاء بتلایا جارہاہے۔

مولانا طاہر گیاوی صاحب لکھتے ہیں:
حضرت عائشہ سے یہ روایت موجود ہے :
كان إذا فاتته الصلاة من الليل من وجع، أو غيره، صلى من النهار ثنتي عشرة ركعة(صحيح مسلم ج1ص256 )
فرماتی ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی تکلیف وغیرہ کی وجہ سے رات کی نماز رہ جاتی تھی تو آپ دن میں بارہ رکعت قضاء کے طور پر پڑھاکرتے تھے ۔
آگے لکھتے ہیں:
اس سے اظہر من الشمس ہوگیا کہ رات کی بارہ رکعتوں میں ہروقت سنت عشاء یا سنت فجر شامل نہیں ہوتی تھی (العدد الصحیح ص27، 28)
طاہرگیاوی صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قضاء صرف خالص رات والی نماز کی ہوتی تھی جس میں سنت عشاء یا سنت فجر شامل نہیں ہے ، اور یہاں قضاء میں بارہ رکعات کا ذکر ہے جس سے پتہ چلا رات کی خالص نماز بھی گیارہ سے زائد یعنی بارہ رکعات ہے۔
جوابا عرض ہے کہ:
یہ قضاء اصل گیارہ رکعات ہی کی ہوتی تھی لیکن چونکہ یہ قضاء دن میں ہوتی تھی اور دن میں وتر نہیں ہے اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس گیارہ رکعات میں ایک رکعت مزید شامل کرکے اسے جفت بنا لیتے تھے ۔
تو یہ ایک رکعت دن کی وجہ سے اضافی ہوتی تھی اس کا رات والی نماز سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
ورنہ طاہر گیاوی صاحب بتلائیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وتر والی رکعت کی قضاء نہ کی ؟
یعنی اگر اصلا رات والی نماز تیرہ رکعات تھی اور اسی کی قضاء کی گئی تو تیرہ کی قضاء بارہ سے کیسے ہوسکتی ہے؟
صاف بات یہ ہے کہ رات کی نماز گیارہ رکعات ہی کی تھی اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکمل گیارہ رکعات کی قضاء کی ہے لیکن دن کی وجہ سے مزید ایک زائد رکعت شامل کرکے اسے جفت بنالیا ہے۔

نیز اس کی وضاحت صحیح مسلم کی اس مفصل حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ قضاء والی بات کہنے سے قبل رات کی نماز کی تعداد بتلاتے ہوئے کہا:
فتلك إحدى عشرة ركعة
تو (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز میں) یہ کل گیارہ رکعات ہوتی تھیں[صحيح مسلم 2/ 513 رقم 746]
یہ کہنے کے بعد اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز چھوٹ جاتی تھی، یعنی یہ گیارہ رکعات چھوٹ جاتی تھیں؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن میں ان کی قضاء کرتے تو بارہ رکعات پڑھتے ۔
یعنی اصلا گیارہ رکعات ہی کی قضاء کرتے اوردن کی وجہ سے ایک زائد رکعت شامل کرکے اسے جفت بنالیتے ۔
بعض اہل علم سے یہ بھی منقول ہے کہ قضاء والی بارہ رکعات میں رات کے حصہ کی نماز آٹھ رکعات ہوتی تھیں اور باقی چار رکعات چاشت کی ہوتی تھیں ۔ علامہ عبیداللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قيل: ثمان منها صلاة الليل وأربع صلاة الضحى
یہ بھی کہا گیا ہے کہ قضاء والی نماز آٹھ رکعات ہوتی تھیں اور چار رکعات چاشت کی ہوتی تھیں(مرعاة المفاتيح 4/ 266)
بہرحال طاہر گیاوی صاحب کا اس قضاء والی حدیث سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز میں سنت عشاء یا سنت فجر کے علاوہ بھی گیارہ سے زائدرکعات پڑھتے تھے ۔



لطیفہ:
قارئین ایک طرف احناف کا معاملہ تو یہ ہے کہ تراویح سے متعلق حدیث عائشہ کی بعض روایت میں سنت عشاء کی شمولیت ناقابل فہم ہے، اور دوسری طرف خود کا حال یہ ہے کہ تراویح سے متعلق ایک ایسی حدیث سے استدلال کرڈالا جو موضوع ومن گھڑت تو تھی ہی ،ساتھ ہی ان کے مدعاء کے بھی خلاف تھی ، کیونکہ اس میں وتر سمیت کل ستائیس رکعات کا ذکر تھا ۔دیکھئے:
اب یہاں تین وتر نکال دیں تو کل چوبیس رکعات ہوتی ہیں نہ کہ بیس ، یعنی چار رکعات مزید رہ جاتی ہیں ! اب مسئلہ یہ تھا کہ ان چار کا کریں ؟ اورصورت حال ایسی ہے کہ یہاں سنت عشاء کی بات بھی نہیں چل سکتی، کیونکہ عشاء کی سنت صرف دو رکعت ہے، اور کل چار رکعات کی کھپت درکار ہے ۔
اس نازک صورت حال میں حل یہ نکالا گیا کہ یہ چار رکعات عشاء کی فرض رکعات تھیں، جنہیں راوی نے تراویح کی رکعات میں شامل کرکے بیان کردیا !
ع ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اسے کیا کہیے !
کہاں دوسروں کی مستدل روایت میں سنت عشاء کی شمولیت بھی ناقابل ہضم تھی ،اور کہاں اپنی مستدل روایت میں عشاء کی فرض رکعات بھی سما گئیں ! سبحان اللہ !

نوٹ :
رات کی نماز میں سنت عشاء کی شمولیت سے متعلق حدیث عائشہ کے حوالے سے طاہر گیاوی صاحب کے جو اعتراضات تھے ان کے جوابات یہاں درج کردئے گئے ہیں ، موصوف نے دیگر صحابہ کی روایات میں سنت عشاء کی شمولیت پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کے جوابات ان احادیث کے بیان کے ساتھ پیش کئے جائیں گے۔

اماں عائشہ کی حدیث میں بعد کے راوی کی طرف سے سنت عشاء کو شمار کرنے والی روایت:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالليل ثلاث عشرة ركعة، ثم يصلي إذا سمع النداء بالصبح ركعتين خفيفتين»
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے باپ (عروہ بن زبیر) نے اور انہیں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ پھر جب صبح کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعتیں (سنت فجر) پڑھ لیتے[صحيح البخاري 2/ 57 رقم1170 ]
اس حدیث میں تیرہ رکعات کے بعد الگ سے فجر کی دو رکعات سنت کا بھی ذکر ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع کی تیرہ رکعات میں سنت عشاء کو بھی شامل کرکے بیان کیا گیا ہے ۔
لیکن اس روایت میں سنت عشاء کا اضافہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ہرگز نہیں بلکہ اس حدیث کے راوی ہشام بن عروہ کی طرف سے کیونکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ سے عروۃ نے یہ حدیث نقل کی ہے اور عروۃ کے تمام تلامذہ نے متفقہ طور یہی روایت کیا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے سنت فجر کو بھی شامل کرکے تیرہ رکعات بیان کیا ہے ۔مثلا:
عروہ کے شاگر امام زہری ، دیکھئے :صحیح بخاری رقم (6310)
عروۃ کے شاگرد عراک بن مالک ، دیکھے: صحیح مسلم رقم (737)
عروۃ کے شاگرد محمد بن جعفر بن الزبير دیکھئے سنن ابی داؤد رقم (1359 واسنادہ صحیح)
ان تمام شاگردوں نے اماں عائشہ سے عروۃ کی روایت کردہ حدیث میں یہی بیان کیا ہے کہ اماں عائشہ نے سنت فجر کو شامل کرکے تیرہ رکعات کا ذکرکیا ہے ۔
بلکہ ایک روایت میں خود ہشام نے ایسا ہی روایت کیا ہے جس کے الفاظ ہیں:
يصلي من الليل ، ثلاث عشرة ركعة بركعتيه بعد الفجر قبل الصبح
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سنت فجر کے ساتھ رات کی تیرہ رکعات پڑھتے تھے [مسند أحمد ط الميمنية: 6/ 275 واسنادہ صحیح]
اس تفصیل سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اماں عائشہ سے عروۃ نے جو حدیث روایت کی ہے اس میں بھی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے سنت فجر کو ملا کر تیرہ رکعات بیان کیا ہے ۔لیکن عروۃ کے ایک شاگرد ہشام نے بعض دفعہ سنت فجر کو الگ سے بیان کردیا اور سنت عشاء کو شامل کرکے تیرہ رکعات الگ سے بیان کیا ۔
اگر یہ توجیہ نہ مانی جائے تو پھر ہشام کی مذکورۃ روایت ایک جماعت کے خلاف بلکہ خود ان کی ہی دوسری روایت کے خلاف ہونے کے سبب مرجوح ہوگی اور یہی بات علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہی ہے دیکھئے : (تمام المنة ص: 250)
لیکن ہماری نظر میں مناسب توجیہ یہی ہے کہ ہشام کے منفرد بیان کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ انہوں نے اس میں سنت عشاء کو بھی شامل کرکے بیان کیا ہے۔
بطور فائدہ عرض ہے کہ عہد فاروقی میں گیارہ رکعات تراویح سے متعلق محمدبن یوسف کی روایت کو امام مالک سمیت پانچ رواۃ نے گیارہ کی تعداد بیان کی ہے لیکن صرف محمدبن اسحاق نے تیرہ رکعات بیان کیا ہے ، محمدبن اسحاق کی اس روایت کے بارے میں علامہ نیموی حنفی نے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ انہوں نے سنت عشاء کو بھی شمارکرلیا ہے جیساکہ آگے اس کا تذکرہ ہوگا۔دیکھئے:

ایک ضعیف الاسناد روایت:
أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
حدثنا بكار، قال: ثنا أبو داود، قال: ثنا أبو حرة، عن الحسن، عن سعد بن هشام الأنصاري أنه سأل عائشة رضي الله عنها , عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل , فقالت: «كان يصلي العشاء ثم يتجوز بركعتين , وقد أعد سواكه وطهوره فيبعثه الله لما شاء أن يبعثه , فيتسوك , ويتوضأ , ثم يصلي ركعتين , ثم يقوم فيصلي ثمان ركعات يسوي بينهن في القراءة , ثم يوتر بالتاسعة
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز پڑھتے پھر دو ہلکی رکعت پڑھتے ، اور اپنا مسواک اور وضوء کا پانی تیار رکھتے ، پھر اللہ کی توفیق سے بیدار ہوتے اور مسواک اور وضوء کرتے ، پھرکھڑے ہوکر دو رکعات نماز ادا کرتے ، پھر کھڑے ہوکر آٹھ رکعات پڑھتے سب میں مساوی قرات کرتے پھر نویں رکعت سے وتر پڑھتے[شرح معاني الآثار، ت النجار: 1/ 280]
اس روایت کے ابتدائی حصہ پر غور کریں اس میں بالکل صراحت ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد فورا دو رکعت کا ذکر جو بین دلیل ہے کہ یہ سنت عشاء ہی تھی اس کے بعد آگے کل گیارہ رکعات کا ذکر ہے ، یعنی سنت عشاء کو بھی شامل کرکے مجموعی رکعات تیرہ ہوتی ہیں۔
اس طرح یہ روایت صاف دلیل ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کبھی کبھی سنت عشاء کوبھی شامل کرکے رکعات کی تعداد بتلاتی تھیں ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے (صلاة التراويح ص: 102) ، لیکن ہماری نظر میں یہ روایت اس سند سے ضعیف ہے ، کیونکہ اس میں حسن بصری سے روایت کرنے والے واصل بن عبد الرحمن ، أبو حرة ہیں اور یہ أبو حرة جب حسن بصری سے روایت کرتے تھے تو تدلیس کرتے تھے ۔دیکھئے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 7385، معجم المدليس: ص488]

(ب) اضطراب کی دوسری دلیل ، نماز کی کیفیت میں اختلاف:
احناف اضطراب ثابت کرنے کے لئے دوسری بات یہ پیش کرتے ہیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی دیگر احادیث میں نماز کی الگ کیفیات ذکر ہیں ۔
جوابا عرض ہے کہ اس سے اضطراب ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ کیونکہ بخاری والی حدیث میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیفیت کو حصر کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے یعنی یہ ہرگز نہیں کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ہی کیفیت میں نماز پڑھتے تھے بلکہ حصر صرف رکعات کی اکثر تعداد میں بیان کیا ہے ۔اور الحمدللہ اس حصر کےخلاف کوئی بات موجود نہیں ہے۔
باقی رہی رکعات کی اقل تعداد یا کیفیات میں اختلاف تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس میں حصر بیان نہیں کیا لہٰذا یہ ساری کیفیات ثابت ہے اور سب پر عمل کرنا مسنون ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے رکعات کی اکثر تعداد میں جو حصر بیان کیا ہے وہ گیارہ کی تعداد ہے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے ۔
یاد رہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ہے :
أعلم أهل الأرض بوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم
یعنی روئے زمین پر اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز وتر (یعنی رات کی نماز) کے بارے میں کوئی دوسرا نہیں جانتا تھا ۔[صحيح مسلم 2/ 513 رقم 746]
نوٹ: -
بعض حضرات حدیث عائشہ میں اضطراب ثابت کرنے کے لئے دیگر صحابہ کی روایات بھی پیش کرتے ہیں جن میں الگ الگ تعداد مروی ہے ۔
عرض ہے کہ اس سے حدیث عائشہ پر کوئی فرق پڑنے ولا نہیں کیونکہ حدیث عائشہ کا اضطراب تب ثابت ہوگا جب اسی حدیث میں رواۃ کا قادح اختلاف ثابت کردیا جائے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے جیساکہ تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔علاوہ بریں دیگر صحابہ کی روایات بھی حدیث عائشہ کے خلاف نہیں ہیں ، اس پر مفصل بحث اگلے اعتراض کے جواب میں آرہی ہے ۔

کیا کسی محدث نے حدیث عائشہ کو مضطرب کہا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ حدیث عائشہ کو کسی بھی ثقہ محدث نے مضطرب نہیں کہا ہے ، بلکہ یہ باجماع امت صحیح وثابت ہے ۔لیکن بعض لوگ غیر متعلق حوالے پیش کرکے عوام کو تشویش میں ڈالتے ہیں اس لئے ان حوالوں کی حقیقت بھی ہم واضح کرتے ہیں ۔
امام أبو العباس أحمد بن عمر القرطبي رحمه الله (المتوفى656) فرماتے ہیں:
وقد أشكلت هذه الأحاديث على كثير من العلماء ، حتى إن بعضهم نسبوا حديث عائشة رضي الله عنها في صلاة الليل إلى الاضطراب ، وهذا إنما كان يصح لو كان الراوي عنها واحدًا ، أو أخبرت عن وقت واحد
یہ احادیث بہت سے علماء کو باعث اشکال لگیں حتی کی بعض نے رات کی نمازسے متعلق حدیث عائشہ کو اضطراب پر محمول کیا ہے ، اور یہ بات تب درست ہوتی جب اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک ہی راوی نے یہ ساری تعداد نقل کی ہوتی، یا اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک ہی وقت سے متعلق یہ الگ الگ باتیں بتلائی ہوتیں۔[المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم 2/ 367]

امام أبو العباس قرطبی کا یہی وہ کلام ہے جسے بعد کے کئی اہل علم نے نقل کیا ہے ، اس کلام میں تین باتیں نوٹ کرنی چاہئیں:
اول:
اس کلام میں اضطراب کا جو الزام ہے وہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا پر ہی لگایا گیا ہے ، یعنی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے نیچے کسی راوی کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ یہ کوتاہی نعوذ باللہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ہوئی ہے ، کہ وہ ٹھیک طرح سے تعداد بیان نہیں کرسکیں معاذ اللہ۔
ظاہر ہے یہ وہ فنی نقد نہیں ہے جسے اصول حدیث میں اضطراب کے نام سے جانا جاتا ہے ، کیونکہ اصول حدیث میں اضطراب کی بحث صحابی کے بعد کے رواۃ کے اختلاف کو لیکر ہوتی ہے۔
دوم:
یہ اضطراب والی جرح امام أبو العباس قرطبی رحمہ اللہ کی اپنی بات نہیں ہے بلکہ کسی مجہول شخص کی بات ہے جسے امام قرطبی نے محض نقل کیا ہے ، اس لئے بعض احناف کا اسے امام قرطبی کی جرح قرار دینا محض غلط بیانی ہے ۔لہٰذا اس مجہول وگمنام شخص کی بات کا کوئی اعتبار ہی نہیں ۔
سوم:
امام أبو العباس قرطبی نے اس مجہول شخص کی بات نقل کرکے اس کی سختی سے تردید کردی ہے چنانچہ صاف لکھا ہے کہ یہ الزام اس وقت درست ہوتا جب یہ اختلاف بعد کے رواۃ کی طرف سے ہوتا یعنی فنی اعتبار سے اس کلام کی گنجائش تب ہوتی جب اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے نیچے کے رواۃ کی طرف سے اختلاف ہوتا کیونکہ اصول حدیث میں اسی شکل میں اضطراب کے کلام کی گنجائش ہوتی ہے۔
اس کے بعد فرمایا کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا پر بھی اس الزام کی گنجائش تب ہوتی جب اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کسی ایک ہی وقت سے متعلق الگ الگ حالت بیان کی ہوتی جب کہ ایسا نہیں ہے۔

امام أبو العباس قرطبی کے اسی کلام کو حافظ ابن حجر ، علامہ شوکانی اور علامہ امیر یمانی نے بھی نقل کیا تو بعض نادانوں نے ان ناقلین کو بھی قائلین اضطراب بناکر پیش کردیا ، اناللہ ۔
حالانکہ ان ناقلین میں کوئی بھی اضطراب کا قائل نہیں ، بلکہ ہر ایک نے مجہول شخص کی بات کو نقل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تردید بھی نقل کی ہے والحمدللہ۔

تنبیہ:
حافظ ظہور احمد الحسینی صاحب فرماتے ہیں:
مولانا ارشاد الحق اثری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں: علامہ قرطبی فقہ مالکی کے مسلمہ امام ہیں ، ان کے کلام کو بلادلیل رد کرنا بھی بہت بڑی جسارت ہے ، توضیح الکلام 1/ 65 ( رکعات تراویح ایک تحقیقی جائزہ:ص203)
عرض ہے کہ اول تو اس قول کا پس منظر یہ ہے کہ یہاں امام قرطبی جو کہ فقہ مالکی کے امام ہیں انہوں نے امام مالک کا ایک قول نقل کیا ہے ، لہٰذا اس نقل کے بارے میں مذکورہ بات کہی گی ہے۔یعنی فقہ مالکی کا ایک مسلمہ امام، اپنے متبوع امام ہی سے ایک بات نقل کررہا ہے لہٰذا اسے بلا دلیل رد کرنا بہت بڑی جسارت ہے ۔
دوسرے یہ کہ یہ تفسیر والے امام قرطبی ہیں جن کا نام أبو عبد الله محمد بن أحمد بن أبي بكر بن فرح الأنصاري الخزرجي شمس الدين القرطبي (المتوفى: 671) ہے۔
جبکہ حدیث عائشہ سے متعلق جن کے کلام پر بات ہورہی ہے وہ صحیح مسلم کے شارح ہیں ، ان کا نام أبو العباس أحمد بن الشيخ المرحوم الفقيه أبي حفص عمر بن إبراهيم الحافظ ، الأنصاري القرطبي (المتوفى656) ہیں ۔حافظ ظہور احمد صاحب نے غالبا جلد بازی میں ان دونوں کو ایک سمجھ لیا ہے۔

مولانا طاہر گیاوی صاحب نے امام سیوطی کی طرف اضطراب والی ایک عبارت منسوب کی ہے اور حوالہ امام سیوطی کی کتاب تنویرالحوالک کا دیا ہے (احسن التنقیح 332)
عرض ہے کہ تنویرا لحوالک کے جتنے نسخوں تک ہماری رسائی ہوسکی کسی میں بھی یہ عبارت مجھے نہیں مل سکی ، اسی عبارت کو طاہر گیاوی صاحب اپنی ایک دوسری کتاب میں امام سیوطی کی کتاب تنویر الحولک کی طرف منسوب کرنے کے ساتھ ساتھ علامہ عینی کی عمدۃ القاری کا بھی حوالہ دیا ہے(العدد الصحیح ص19)
اور یہ عبارت عمدۃ القاری میں اس طرح موجود ہے:
وقال ابن عبد البر، رحمه الله تعالى: وأهل العلم يقولون: إن الاضطراب عنها في الحج والرضاع وصلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل وقصر صلاة المسافر لم يأت ذلك إلا منها، لأن الرواة عنها حفاظ، وكأنها أخبرت بذلك في أوقات متعددة وأحوال مختلفة
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کہا: اہل علم کہتے ہیں ہیں کہ حج ، رضاعت، رات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور مسافر کی نماز قصر سے متعلق اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی احادیث میں جو اضطراب ہے وہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی طرف سے ہے ۔ کیونکہ ان سے نقل کرنے والے رواۃ حفاظ ہیں، اور ظاہر یہ ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے متعدد اوقات اور مختلف حالات کے لحاظ سے الگ الگ طرح کی باتیں نقل کی ہیں [عمدة القاري شرح صحيح البخاري 7/ 187]
اس حوالے سے صاف ظاہر ہوگیا کہ یہ عبارت امام سیوطی کی ہرگز نہیں ہے بلکہ امام ابن عبدالبر کی ہے اور امام ابن عبدالبر نے بھی بعض نا معلوم لوگوں کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے بھلا اس کا کیا اعتبار !
مزید یہ کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے یہ بات نقل کرکے آخر میں اس کی تردید کردی ہے اس طرح کہ الگ الگ اوقات وحالات پر اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی احادیث کو محمول کیا ہے۔

اس سے واضح ہوگیا کہ امام سیوطی کی طرف اضطراب کی جرح کی نسبت یکسر غلط ہے ، بلکہ امام سیوطی کی جس کتاب کی طرف گیاوی صاحب نے اضطراب کی بات منسوب کی ہے امام سیوطی نے تو اپنی اس کتاب میں امام باجی کے حوالے ا س اضطراب والی بات کی سختی سے تردید کی ہے چنانچہ:
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى911)نے امام باجی سے نقل کرتے ہوئے کہا:
وقد ذكر بعض من لم يتأمل أن رواية عائشة اضطربت في الحج والرضاع وصلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل وقصر الصلاة في السفر قال وهذا غلط ممن قاله فقد أجمع العلماء على أنها أحفظ الصحابة فكيف بغيرهم وإنما حمله على هذا قلة معرفته بمعاني الكلام ووجوه التأويل
اور بعض لوگ جو غور فکر نہیں کرسکے انہوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت حج ، رضاعت ، رات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور سفر میں قصر کی نماز سے متعلق مضطرب ہے ، امام باجی فرماتے ہیں : یہ غلط ہے کیونکہ اہل علم کا اجماع ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا صحابہ میں سے زیادہ حافظہ والی ہیں تو دوسرے لوگوں کے مقابل میں ان کے حفظ کا کیا مقابلہ ! جس نے بھی یہ اضطراب والی بات کہی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ کلام کے معانی اور جمع و تطبیق کے طریقوں سے بہت کم واقف ہے۔[تنوير الحوالك شرح موطأ مالك ج 1 ص 142 مطبعہ دار احیاء الکتب العربیۃ بمصر۔دوسرا نسخہ تنوير الحوالك شرح موطأ مالك 1/ 108 المكتبة التجارية الكبرى ،مصر ۔ تیسرا نسخہ تنوير الحوالك شرح موطأ مالك ص 142 دار الکتب الاسلامیہ ]
ملاحظہ فرمائیں کہ امام سیوطی تو امام باجی کا تعاقب برضاء ورغبت نقل کرکے اضطراب کی بات کہنے والوں کی تردید کررہے ہیں اور مولانا طاہر گیاوی صاحب ہیں کہ امام سیوطی ہی کی طرف یہ خرافات منسوب کررہے ہیں ، سبحان اللہ !
بعض اہل علم نے حدیث عائشہ پر بحث کرتے ہوئے الفاظ کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا تو طاہر گیاوی صاحب نے ایسے لوگوں کی طرف بھی اضطراب کی بات منسوب کردی حالانکہ محض اختلاف بتلانا اضطراب کا حکم لگانا نہیں ہے کیونکہ ان اہل علم نے اختلاف بتانے کے ساتھ جمع وتطبیق بھی پیش کی ہے اور جمع تطبیق کا مطلب ہی یہی ہے کہ ان احادیث کی صحت تسلیم کی جارہی ہے۔
محترم حافظ ظہور احمد الحسینوی صاحب کی ایک غفلت کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے ، آں جناب سے اسی ضمن میں ایک اور چوک یہ ہوئی ہے کہ موصوف نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف بھی اس اضطراب کی بات منسوب کردی ہے ، تحریر فرماتے ہیں:
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں : واضطرب فی ھذا الاصل ، اس اصل (حدیث عائشہ) میں اضطراب ہے (رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ 202)
ہمارا خیال ہے کہ یہاں بھی حافظ ظہور صاحب نے جلد بازی سے کام لیا ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی پوری عبارت کو سیاق کے ساتھ دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں فرمائی، ورنہ موصوف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف اس اضطراب والی بات کی نسبت نہ کرتے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی پوری عبارت یہ ہے:
واضطرب قوم في هذا الأصل لما ظنوه من معارضة الحديث الصحيح لما ثبت من سنة الخلفاء الراشدين وعمل المسلمين . والصواب أن ذلك جميعه حسن كما قد نص على ذلك الإمام أحمد رضي الله عنه وأنه لا يتوقت في قيام رمضان عدد
کچھ لوگ اس معاملے میں(یعنی تراویح کی معین رکعات اپنانے کے سلسلے میں) اضطراب کے شکار ہوئے کیونکہ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ خلفائے راشدین اور مسلمانوں کے عمل سے جو طریقہ ثابت ہے وہ صحیح حدیث کے خلاف ہے ، جبکہ درست بات یہ ہے کہ یہ ساری شکلیں (یعنی کسی بھی تعداد کو اپنانا) اچھی ہیں ، جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے اور یہ کہ رکعات تراویح کی کوئی متعین تعداد نہیں ہے [مجموع الفتاوى، ت الباز: 23/ 113]
ملاحظہ فرمائیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اضطراب کی بات کسی حدیث سے متعلق نہیں کہی ہے بلکہ لوگوں کے طرزعمل سے متعلق کہی ہے ، نیز پھر آگے اس کی تردید بھی کردی ہے ۔
لہٰذا یہاں یہ مطلب لینا کہ انہوں نے حدیث عائشہ کو مضطرب کہا ہے ، یہ عبارت فہمی کا نقص ہے جس کی وجہ شاید عجلت بازی ہے ، محترم حافظ ظہور صاحب سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس عبارت پر دو بارہ نگاہ ڈالیں اور اسے پورے سیاق وسباق کے ساتھ جوڑ کر اطمینان سے پڑھیں ، اور اپنے سابق فہم کی خود ہی اصلاح فرمائیں ۔

فریق مخالف سے ایک سوال:
اس بحث کے اخیر میں فریق مخالف سے ہم یہ پوچھنا چاہیں گے کہ اگر حدیث عائشہ اس وجہ سے مضطرب ہے کہ الگ الگ روایات میں مختلف الفاظ ہیں ، تو پھر اس اضطراب کی زد میں صرف صحیحین کی اس حدیث ہی کو کیوں لایا جاتا ہے کہ جس میں گیارہ رکعات کا ذکر ہے ؟
اگر واقعی یہ حدیث مضطرب ہے تو پھر اس ضمن میں حدیث عائشہ کی کوئی روایت بھی حجت نہیں ہونی چاہئے، لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اسی ضمن کی ساری احادیث خواہ عام سنن ومعاجم ہی کی کیوں نہ ہوں، انہیں بلاتامل قبول کرلیا جائے ،اور کوئی صحیحین سے اسی سلسلے کی ایک روایت کا نام لے لے تو فورا اضطراب کی گولہ باری شروع کردی جائے ! آخر یہ کہاں کا عدل و انصاف ہے ؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
دوسرا اعتراض: حدیث عائشہ میں عدم حصر کا دعوی

یہ وضاحت ہوچکی ہے کہ حدیث عائشہ میں حصر کا تعلق صرف اکثر رکعات سے ۔ اور اس حصر کے خلاف کوئی بھی دلیل موجود نہیں ہے ۔اس سلسلے میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی جن روایات سے حصر کی نفی کی جارہی تھی ان کی وضاحت ہوچکی ہے ۔
لیکن بعض حضرات حدیث عائشہ کے حصر کے خلاف دیگر صحابہ کی احادیث پیش کرتے ہیں اب ان احادیث پر گفتگو کریں گے ۔

حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ :
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
حدثنا سعيد بن أبي مريم، أخبرنا محمد بن جعفر، قال: أخبرني شريك بن عبد الله بن أبي نمر، عن كريب، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: بت عند خالتي ميمونة، فتحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم مع أهله ساعة، ثم رقد، فلما كان ثلث الليل الآخر، قعد فنظر إلى السماء، فقال: {إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب}، ثم «قام فتوضأ واستن فصلى إحدى عشرة ركعة»، ثم أذن بلال، «فصلى ركعتين ثم خرج فصلى الصبح»
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، کہا کہ مجھے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے خبر دی، انہیں کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` میں ایک رات اپنی خالہ (ام المؤمنین) میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہ گیا۔ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی (میمونہ رضی اللہ عنہا) کے ساتھ تھوڑی دیر تک بات چیت کی پھر سو گئے۔ جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہا تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آسمان کی طرف نظر کی اور یہ آیت تلاوت کی «إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب‏» ”بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور دن و رات کے مختلف ہونے میں عقلمندوں کے لیے (بڑی) نشانیاں ہیں۔“ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور وضو کیا اور مسواک کی، پھر گیارہ رکعتیں پڑھیں۔ جب بلال رضی اللہ عنہ نے (فجر کی) اذان دی تو آپ نے دو رکعت (فجر کی سنت) پڑھی اور باہر مسجد میں تشریف لائے اور فجر کی نماز پڑھائی۔[صحيح البخاري 6/ 41 رقم 4569]

اس حدیث کو بغور پڑھیں اور دیکھیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ میں پوری صراحت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی تعداد گیارہ رکعات بتلائی ہیں جیساکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی یہی تعداد بتلائی ۔
لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی واقعہ دوسری احادیث میں منقول ہے اور اس میں رکعات کی تعداد تیرہ بتلائی گئی ہے، چنانچہ:
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك بن أنس، عن مخرمة بن سليمان، عن كريب، أن ابن عباس أخبره: أنه بات عند ميمونة وهي خالته فاضطجعت في عرض وسادة «واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهله في طولها، فنام حتى انتصف الليل - أو قريبا منه - فاستيقظ يمسح النوم عن وجهه، ثم قرأ عشر آيات من آل عمران، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شن معلقة، فتوضأ، فأحسن الوضوء، ثم قام يصلي»، فصنعت مثله، فقمت إلى جنبه، «فوضع يده اليمنى على رأسي وأخذ بأذني يفتلها، ثم صلى ركعتين، ثم ركعتين ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم أوتر، ثم اضطجع حتى جاءه المؤذن، فقام، فصلى ركعتين، ثم خرج، فصلى الصبح»
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کریب نے اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ` آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے (آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ) میں تکیہ کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔[صحيح البخاري 2/ 24 رقم 992]

ملاحظہ فرمائیں دونوں احادیث کو ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد کریب نے ہی یبان کیا ہے اور دونوں میں رات گذارنے کا واقعہ ہے اس حدیث کے تمام طریق کو جمع کرنے کے بعد بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والحاصل أن قصة مبيت بن عباس يغلب على الظن عدم تعددها
حاصل بحث یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے رات گذارنے کے واقعہ سے متعلق غالب ظن یہی ہے کہ ایک ہی دفعہ کا واقعہ ہے [فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 2/ 484]

لہٰذا جب ایک ہی واقعہ ہے کہ تو ایک ساتھ گیارہ رکعات یا تیرہ رکعات دونوں کی تعداد صحیح نہیں ہوسکتی اس لئے تطبیق دینا لازم ہے اور تطبیق کی صرف یہی صورت ہے کہ تیرہ رکعات والی حدیث کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں سنت عشاء کو بھی شامل کرکے بیان کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خوب بحث و تحقیق کے بعد بالآخر یہی رائے دی ہے کہ :
والمحقق من عدد صلاته في تلك الليلة إحدى عشرة وأما رواية ثلاث عشرة فيحتمل أن يكون منها سنة العشاء
اور محقق بات یہی ہے کہ اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی تعداد گیارہ رکعات ہی تھی اور جس روایت میں تیرہ رکعات کا بیان ہے اس میں احتمال ہے کہ سنت عشاء کو بھی شامل کرکے بیان کیا گیا ہے۔[فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 2/ 484]

بلکہ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان رکعات میں سنت عشاء کو بھی شامل کیا تھا چنانچہ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا الحكم، قال: سمعت سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: بت في بيت خالتي ميمونة بنت الحارث زوج النبي صلى الله عليه وسلم وكان النبي صلى الله عليه وسلم عندها في ليلتها، فصلى النبي صلى الله عليه وسلم العشاء، ثم جاء إلى منزله، فصلى أربع ركعات، ثم نام، ثم قام، ثم قال: «نام الغليم» أو كلمة تشبهها، ثم قام، فقمت عن يساره، فجعلني عن يمينه، فصلى خمس ركعات، ثم صلى ركعتين، ثم نام، حتى سمعت غطيطه أو خطيطه، ثم خرج إلى الصلاة
ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، ان کو حکم نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ` ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی، پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت (نماز نفل) پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے اور فرمایا کہ (ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔ پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کر لیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے (باہر) تشریف لے آئے۔[صحيح البخاري 1/ 34 رقم 117]
اس روایت میں غور کریں کہ عشاء کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پہنچتے ہی ابن عباس رضی اللہ عنہ چار رکعات پڑھنا بیان کررہے ہیں جو صاف دلیل ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیان کردہ تعداد میں سنت عشاء کو بھی شامل کیا ہے۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ بخاری کی اس روایت میں کل چار اور پھر پانچ یعنی کل نو رکعات کا ذکر ہے ، اور اس نو میں بھی شروع کی دو رکعات سنت تھی، تو اصل قیام کی کل تعداد صرف سات ہوتی ہے !
توعرض ہے کہ اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد سعید بن جبیر نے یا ان سے نیچے کسی راوی نے صرف ابتداء کی چار رکعات بشمول سنت عشاء بیان کی ہے اور پھر آخر میں خاص وترکی پانچ رکعات بیان کردی ہے اور اختصار کرتے ہوئے بیچ کی چار رکعات کا ذکر نہیں کیا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ خود سعید بن جبیر نے ہی دوسری روایت میں درمیاں کی چار رکعات بھی بیان کردی ہے چنانچہ
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
أخبرني محمد بن علي بن ميمون قال نا القعنبي قال ثنا عبد العزيز وهو بن محمد الدراوردي عن عبد المجيد عن يحيى بن عباد عن سعيد بن جبير أن بن عباس حدثه : أن عباس بن عبد المطلب بعثه في حاجة له إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم وكانت ميمونة ابنة الحارث خالة بن عباس فدخل عليها فوجد رسول الله صلى الله عليه و سلم في المسجد قال بن عباس فاضطجعت في حجرتها وجعلت أحصي كم يصلي رسول الله صلى الله عليه و سلم فجاء وأنا مضطجع في الحجرة بعد أن ذهب الليل فقال أرقد الوليد قال فتناول ملحفة على ميمونة فارتدى ببعضها وعليها بعض ثم قام فصلى ركعتين ركعتين حتى صلى ثماني ركعات ثم أوتر بخمس۔۔۔الخ
سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک ضرورت کے تحت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے لیکن اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہاپھر میں ان کے کمرے میں لیٹ گیا اور ارادہ کیا کہ میں گنوں گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کتنی رکعات پڑھتے ہیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تشریف لائے اور میں کمرے میں لیٹا ہوا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کا بچہ سوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میمونہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ لحاف میں سوگئے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے پھر دو دو رکعات یعنی چار رکعات پڑھیں یہاں تک کہ کل آٹھ رکعات ہوگئیں (یعنی گھرآتے ہی پہلے جو چار پڑھ چکے تھے ان کے ساتھ یہ کل آٹھ رکعات ہوئیں)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعات وتر پڑھیں۔۔الخ[سنن النسائي الكبرى 1/ 424 رقم 1342 واسنادہ صحیح]
اس روایت میں غور کریں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سعیدبن جبیر ہی کی روایت میں پانچ رکعات وترسے قبل آٹھ رکعات کا بیان ہے، یعنی مذکورہ روایت میں درمیان کی جن چار رکعات کا ذکر نہیں تھا اس کا ذکر اس روایت میں آگیا ہے، جو دلیل ہے کہ مذکورہ روایت میں اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف ابتداء کی چار رکعات اور آخر کی پانچ رکعات وتر کا ذکر ہے، اور درمیان کی مزید چار رکعات کا ذکر نہیں ہے ۔
جہاں تک اس آخری روایت( سنن النسائي الكبرى 1342) کے سیاق کی بات ہے تو اس سیاق میں بھی پہلی روایت (صحيح البخاري 117)کے سیاق کی کوئی صریح مخالفت نہیں ہے کیونکہ اس آخری روایت کی توجیہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آتے ہی عشاء بعد فورا ان چار رکعات کا تفصیلا ذکر نہیں ہے، جس کا بیان اوپر کی حدیث میں ہے؛ لیکن رات میں اٹھنے کے بعد چار رکعات کا ذکر ہے اور پھر مجموعی تعداد آٹھ بتا دی گئی ، جس کا مطلب یہ نکلا کہ اس سےقبل کی چار رکعات کو شامل کرکے کل آٹھ رکعات کی تعداد بتائی گئی ، اس کے بعد پانچ رکعت وتر کا بیان ہوا۔
اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اوپر والی حدیث یعنی سعیدبن جبیر کی صحیح بخاری والی حدیث میں چار رکعت کی ادائیگی کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پوچھا کہ نام الغليم ؟ یعنی کیا یہ بچہ سوگیا ؟
جبکہ اس دوسری روایت یعنی سنن نسائی والی روایت میں بھی یہ سوال ان الفاظ میں ہے : أرقد الوليد ؟ کیا بچہ سوگیا ؟ لیکن اس سوال سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے اورچاررکعت نماز پڑھنے کا ذکر نہیں ہے جس کا مطلب یہ نکلا کہ اس روایت میں شروع کی چار رکعات کا تفصیلا ذکر نہیں ہے، لیکن درمیان کی چار رکعات ذکر کرتے وقت شروع کی چار رکعات بھی شمار کی گئی ہیں ۔
الغرض یہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کی دونوں روایات کو ملا کر نتیجہ یہ نکلا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں بعض دفعہ عشاء کے بعد کی سنت کو بھی شمار کیا ہے اس لئے کل تیرہ رکعات کی تعداد بتلائی ہے ۔
اور جس روایت میں عشاء کی سنت کو شمار نہیں کیا اس میں کل گیارہ رکعات کی تعداد بتلائی ہے ، اس طرح نہ صرف یہ کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی تمام روایات میں تطبیق ہوجاتی ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اماں عائشہ رضی اللہ عنہ ہی کی طرح اصل صلاۃ اللیل کی کل گیارہ کی تعداد ہی بیان کی ہے۔
رہی بات یہ کہ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کریب کی جو دوسری روایت ہے جس میں تیرہ رکعات کا ذکر ہے اس کا سیاق کہتا ہے کہ ساری رکعتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھی رات کے بعد ایک ساتھ اداکی تھیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ساری رکعات آدھی رات کی بعد پڑھی گئی ہیں اور آدھی رات کے بعد پڑھی جانے والی رکعات میں سنت عشاء کی شمولیت بعید ہے ۔
تو عرض ہے کہ یہ سیاق اس دلالت پر صریح نہیں ہے جبکہ دوسری طرف ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد سعیدبن جبیر کی روایت صحیح بخاری ہی سے اوپر درج کی جاچکی ہے جس میں پوری صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے بعد گھر آتے ہی چار رکعات پڑھ کر سوگئے تھے اور جب دوبارہ بیدار ہوئے تھے تو باقی ماندہ رکعات ہی پڑھی تھیں ۔
لہٰذا اس صریح روایت کے ہوتے ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کریب والی مجمل روایت کا یہی مفہوم طے ہوگا کہ اس میں اختصار کرتے ہوئے اجمالا ایک ساتھ ہی ساری رکعات کا ذکرکردیا گیا ہے ،چنانچہ ابن حجر رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں:
فيمكن أن يحمل قوله صلى ركعتين ثم ركعتين أي قبل أن ينام ويكون منها سنة العشاء وقوله ثم ركعتين إلخ أي بعد أن قام
ممکن ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پہلے جو دو دو رکعت (یعنی چار رکعات) بیان کیا ہے، اسے سونے سے قبل کے وقت پر محمول کیا جائے جس میں سنت عشاء کا بھی بیان ہے، اور آگے جو دو دو رکعت کا بیان ہے (یعنی بقیہ نو رکعات تو) اسے سونے کے بعد کے وقت پر محمول کیا جائے [فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 2/ 484]

یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ وقت میں یہ رکعات پڑھی تھیں لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک روایت میں ایک ساتھ آخر میں بیان کردیا ہے ۔
اس توجیہ سے الحمدللہ یہ اشکال جڑ سے ختم ہوجاتا ہے کہ آدھی رات کے بعد پڑھی جانی والی رکعات میں سنت عشاء کیسے شامل کرسکتے ہیں ۔کیونکہ ابتدائی چار رکعات آدھی رات سے قبل ہی پڑھی گئی تھیں لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک روایت میں ساری رکعات کو ایک ساتھ مجملا بیان کردیا ہے ۔
تاہم اگر یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھی رات کے بعد ہی سنت عشاء پڑھی تھی تو بھی اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔کیونکہ صحیحین ہی کی حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کے بعد کی سنت عصر کے بعد پڑھی ہے دیکھئے صحیح بخاری رقم (1233) صحیح مسلم رقم (834)۔
لہٰذا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار ظہر کے بعد کی سنت عصرکے بعد ادا کرسکتے ہیں تو عشاء کے بعد کی سنت آدھی رات کے بعد کیوں نہیں پڑھ سکتے ؟
اس تفصیل سے بعض حضرات مثلا طاہر گیاوی صاحب (العدد الصحیح ص 25) کے اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی کہ آدھی رات کے بعد سنت عشاء کیسے پڑھی جاسکتی ہے۔

حدیث زيد بن خالد الجهني رضی اللہ عنہ:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حدثنا قتيبة بن سعيد، عن مالك بن أنس، عن عبد الله بن أبي بكر، عن أبيه، أن عبد الله بن قيس بن مخرمة، أخبره عن زيد بن خالد الجهني، أنه قال: لأرمقن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم الليلة، «فصلى ركعتين خفيفتين، ثم صلى ركعتين طويلتين طويلتين طويلتين، ثم صلى ركعتين، وهما دون اللتين قبلهما، ثم صلى ركعتين، وهما دون اللتين قبلهما، ثم صلى ركعتين، وهما دون اللتين قبلهما، ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما، ثم أوتر فذلك ثلاث عشرة ركعة»
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز دیکھوں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت ہلکی پڑھیں (تحیتہ الوضو) پھر دو رکعت پڑھیں اور لمبی سے لمبی اور لمبی سے لمبی پھر دو رکعت اور کہ وہ ان سے کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر وتر پڑھا (یعنی ایک رکعت) یہ سب تیرہ رکعات ہوئیں۔[صحيح مسلم 2/ 531 رقم 765]
اس حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ یہ تیرہ رکعات سنت عشاء کے علاوہ تھیں اس لئے اماں عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف بیان کردہ گیارہ رکعات کے حصر کے خلاف یہ مجمل روایت بھی دلیل نہیں بن سکتی ، بلکہ جمع وتطبیق کی راہ اپناتے ہوئے یہ ماننا لازم ہے کہ اس حدیث کی بیان کردہ رکعات میں ابتدائی دو رکعات سنت عشاء کی رکعات تھی ۔
بالخصوص جب کہ ابتدائی دو رکعات کو خفیف بتلایا گیا ہے اور بقیہ دیگر رکعات سے الگ کیفیت میں بیان کیا گیا ہے۔جبکہ رات کی اصل نماز کی تمام روایات اس پر متفق ہیں کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیام طویل ہوتا ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ خفیف رکعات رات کی اصل نماز کا حصہ نہیں بلکہ عشاء کی سنت ہی تھیں۔

تنبیہ:
مؤطا بروایت یحیی میں یہی حدیث ہے اور اس میں ابتدائی دو رکعات کو بھی طویل بتلایا گیاہے اور بعض حضرات نے اسے اس بات کی دلیل بنایا کہ یہ سنت عشاء نہیں ہوسکتی ، حالانکہ یہ بقول ابن عبدالبر (خطأ واضح) یعنی واضح غلطی ہے [التمهيد لابن عبد البر: 17/ 288]
کیونکہ صرف یحیی کی روایت میں ایسا ہے اور باقی مؤطا کی تمام روایات میں ابتدائی رکعات کو خفیف ہی بیان کیا گیا ہے جیسا کہ مؤطا کے شارحین و محققین نے وضاحت کردی ہے چنانچہ:
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463) نے کہا:
هكذا قال يحيى في الحديث فقام رسول الله صلى الله عليه و سلم فصلى ركعتين طويلتين طويلتين ولم يتابعه على هذا أحد من رواة الموطأ عن مالك
یحیی نے حدیث میں ایسے ہی بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دو طویل رکعات پڑھیں ، جبکہ امام مالک سے مؤطا کے کسی بھی راوی نے یحیی کی متابعت نہیں کی ہے [التمهيد لابن عبد البر: 17/ 287]
نیز دیکھئے: [موطأ مالك ت الأعظمي 2/ 168]
مزید یہ کہ ماقبل میں جو مسلم کی حدیث پیش کی گئی ہے وہ امام مالک ہی کی سند سے ہے اور اس میں ابتدائی دو رکعت کو خفیف بیان کیا گیا ہے۔ یہ ساری باتیں قطعی دلیل ہیں کہ مؤطا بروایت یحیی میں واضح غلطی ہے ۔افسوس ہے کہ ایک واضح غلطی کو بھی دلیل بنانے سے لوگ ذرا بھی نہیں ہچکچاتے ۔

مولانا طاہر گیاوی صاحب فرماتے ہیں:
عشاء کی سنت تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجرے میں ادا فرماتے تھے ، جہاں ازواج مطہرات بھی ہوتی تھیں ، اور راوی زید بن خالد ہیں ، جو غیر محرم ہیں تو کیا حجرہ میں سنت عشاء پڑھتے ہوئے زید بن خالد دیکھ رہے تھے اور آپ کی ازواج مطہرات زید بن خالد جہنی سے پردہ نہ فرمایا کرتی تھی ؟ (العدد الصحیح ص26)
عرض ہے کہ:
موصوف کا یہ اعتراض اس وقت درست ہوتا جب اس حدیث میں یہ ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی نماز مسجد میں پڑھی تھی، اور مسجد ہی کا مشاہدہ زید بن خالد نے نقل کیا ہے ، لیکن اس حدیث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز مکمل طور پر اپنے گھر میں ہی ادا فرمائی تھی ، اور زید بن خالد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر ہی کا مشاہدہ بیان کیا ہے۔
اس کی وضاحت خود اسی حدیث کے کئی طرق میں موجود ہے چنانچہ سنن ابوداؤد کے الفاظ ہیں:
لأرمقن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم الليلة، قال: فتوسدت عتبته أو فسطاطه۔۔۔
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آج رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ( ضرور دیکھ کر رہوں گا، چنانچہ میں نے آپ کی چوکھٹ یا دروازے پر ٹیک لگا لیا۔۔۔ (سنن أبي داود رقم 1366 واسنادہ صحیح)
ملاحظہ فرمائیں صحابی خود صراحت کررہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت دیکھنے کے لئے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی چوکھٹ پر ٹیک لگا کر لیٹ گئے ۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انہوں نے جو حال بیان کیا ہے وہ گھر کے اندر کا حال تھا نہ کہ مسجد کا ۔
اس لئے طاہر گیاوی صاحب جو اعتراض سنت عشاء پر پیش فرمارہے ہیں ، درحقیقت وہ اعتراض ساری نمازوں پر وارد ہوتا ہے۔
اب رہا یہ اشکال کہ زیدبن خالد رضی اللہ عنہ تو غیرمحرم تھے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے اندر کیوں نگاہ ڈالی تو اہل علم نے اس کے جوابات دئے ہیں ، مثلا:
ایک جواب یہ دیا گیا ہے کہ ابوداؤد کی روایت جس سے ٹیک لگانے کا ذکر کے اس لئے لئے عتبۃ یا فسطاط کا لفظ ہے اور یہ راوی کا شک ہے اور راجح یہ ہے کہ فسطاط ہی کا لفظ صحیح ہے اور یہ لفظ خیمہ سے بنے گھر پر صادق آتا ہے جو سفر وغیرہ میں عارضی طور پر بنتا ہے ، لہذا معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ سفر کا واقعہ تھا ۔
مولانا خليل احمد سہارنپوری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
ولعل هذه القصة وقعت في السفر
لگتا یہ واقعہ سفر کا ہے (بذل المجهود ج7ص142)
محمود خطاب السبكي اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
ولعل هذا هو الصواب وكان النبي صلى الله تعالى عليه وعلى آله وسلم في سفر وكان ذك بإذنه
یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی حالت میں تھے اور زید بن خالد نے ایسا آپ کی اجازت سے کیا تھا ( شرح سنن أبي داود 7/ 299)
ملاحظہ فرمائیں مولانا طاہر گیاوی صاحب نے جو اشکال سنت عشاء کے مشاہدہ پر کیا ہے ، اس حدیث کے شارحین وہی اشکال پوری کے نماز کے مشاہدہ پر محسوس کررہے ہیں اور جواب یہ دے رہے ہیں کہ یہ سفرکا واقعہ تھا اور زید بن خالد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیکر ایسا کیا تھا ۔
بہرحال اس اشکال کو جس طرح چاہیں رفع کریں ، بہرصورت سنت عشاء سے متعلق اشکال بھی رفع ہوجائے گا کیونکہ حدیث کے الفاظ سے صاف ظاہرہے کہ ساری نمازیں گھر(حجرہ یاخیمہ) کے اندر پڑھی گئی تھیں۔
اور اگر یہ بات فرض بھی کرلی جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل نماز گھر کے باہر پڑھی تھی تو پھر اس بات سے کیا چیز مانع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی سنت کو بھی گھر سے باہر پڑھا ہو؟
بعض روایات میں یہ آنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی سنت گھر میں پڑھتے تھے اس سے عام معمول کا ثبوت تو ملتا ہے لیکن اس سے یہ لازمی نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی عشاء کی سنت گھر سے باہر پڑھی ہی نہیں بلکہ ماقبل میں ایک روایت

حدیث جابر رضی اللہ عنہ:
محمد بن نصر بن الحجاج المَرْوَزِي (المتوفى: 294)نے کہا:
حدثنا إسحاق، أخبرنا يزيد بن هارون، أخبرني يحيى بن سعيد، عن شرحبيل بن سعد، أنه سمع جابر بن عبد الله يحدث قال: أقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من الحديبية حتى إذا كنا بالسقيا، قام رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى جنبه، فصلى العتمة، ثم صلى ثلاث عشرة سجدة
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ سے لوٹے یہاں کہ جب سقیا پہنچے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ کھڑے ہوئے اور عشاء کے نماز پڑھی، پھر تیرہ رکعات پڑھیں۔ [مختصر قيام الليل ص: 122 والحدیث حسن]
یہی حدیث مسند احمد میں ہے اس کے الفاظ ہیں:
فصلى العتمة - وجابر فيما ذكر إلى جنبه - ثم صلى بعدها ثلاث عشرة سجدة
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی ، جابر رضی اللہ عنہ آپ کے بازو میں تھے ، پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ رکعات پڑھیں[مسند أحمد ط الميمنية: 3/ 380 والحدیث حسن]

اس حدیث میں بھی تیرہ رکعات کا ذکر ہے لیکن اس میں سنت عشاء کی شمولیت اس قدر واضح ہے کہ کسی بحث کی ضرورت ہی نہیں ، روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی اور پھر اس کے بعد فورا ہی تیرہ رکعات پڑھی ، ظاہر ہے کہ ان تیرہ رکعات میں ابتدائی دو رکعات سنت عشاء کی تھیں ۔
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے [صحيح ابن حبان (احسان) رقم 2628]
امام ابن خزیمہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے[صحيح ابن خزيمة ، رقم 1165]
اس کی سند میں شرحبيل بن سعد ہیں جن پر حافظہ کے لحاظ سے جرح ہے لیکن فی نفسہ سچے ہے ۔[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2764]
مزید یہ کہ یہاں ان سے یحیی بن سعید القطان روایت کررہے ہیں لہٰذا یہ مزید اطمینان کا باعث ہے۔اورسب اہم بات یہ ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث صحیح ابن خزیمہ میں ایک دوسری صحیح سند سے بھی مروی ہے جس کے الفاظ ہیں:
فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي، وصلينا معه، فصلى ثلاث عشرة ركعة بالوتر
تو الله كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور نماز پڑھنے لگنے ہم نے بھی ان کے ساتھ نماز (عشاء) پڑھ لی ، پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر سمیت تیرہ رکعات پڑھیں[صحيح ابن خزيمة رقم 1536 وإسنادحسن]
اس سند کے ساتھ میں کر یہ حدیث حسن ہوجاتی ہیں ۔
اس حدیث سے نہ صرف یہ پتہ چلا کہ اس میں عشاء سنت بھی شامل ہے بلکہ اوپر کی احادیث میں جو یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ان میں بھی عشاء کی سنت کو شامل کیا گیا ہے اس کی بھی پرزورتائید ہوتی ہے۔

مولانا طاہر گیاوی صاحب فرماتے ہیں:
کیا مولوی علی احمد یا کوئی دوسرے غیرمقلد صاحب کسی صحیح روایت سے اس بات کا ثبوت فراہم کرسکتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی تہجد کے ساتھ ملا کر عشاء کی سنت پڑھی ہے (العدد الصحیح 25 ،26)
عرض ہے کہ:
اولا :
اس بات کا ثبوت تو خود وہی روایات ہیں ،جن میں فجر کی سنت کے علاوہ تیرہ رکعت کا ذکر ہے کیونکہ اسی قسم کی بعض روایات کے دیگر طرق میں گیارہ کی تعداد نقل ہوئی ہے جو صاف دلیل ہے کہ تیرہ والی رکعت میں عشاء کی دو سنت شامل کی گئی ہے۔
ثانیا:
اس کے علاوہ صحیح بخاری (رقم117) میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ایک صریح دلیل موجود ہے جو ماقبل میں گذرچکی ہے۔
ثالثا:
مؤخر الذکر جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں پوری طرح صراحت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی سنت کو رات کی نماز کے ساتھ ملا کر پڑھا ۔

گیارہ اور تیرہ رکعات والی روایات کے مابین تطبیق کی ایک اور صورت:
ہمارے نزدیک راجح اور اقرب الی الصواب بات یہی ہے کہ گیارہ اور تیرہ رکعات سے متعلق جملہ روایات میں تطبیق کی صورت یہی ہے کہ تیرہ والی روایات میں یا تو سنت عشاء یا سنت فجر کی دو رکعات بھی شمار کی گئی ہیں ، یہ تطبیق وزن دار اس لئے ہے کیونکہ بعض روایات میں صراحتا یا اشارۃ اس کا ذکر موجود ہے۔
لیکن بعض اہل علم نے ایک اور تطبیق دی ہے وہ یہ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی اصل نماز شروع کرنے سے قبل افتتاحیہ کے طور پر دو ہلکی رکعات پڑھتے تھے۔ یہ دو رکعات اصل صلاۃ اللیل کا حصہ نہ ہوتی تھیں، اس لئے بعض روایات میں ان کا شمار نہ کرتے ہوئے گیارہ رکعات کا بیان ہے اور بعض روایات میں انہیں بھی شمار کرلیا گیا ہے اس لئے کل تعداد تیرہ رکعات بتلائی گئی ہے۔
اگریہ توجیہ مان لی جائے تو بھی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کا حصر بر قرار رہتا ہے کیونکہ دریں صورت بطور افتتاحیہ دو رکعات کی حیثیت علیحدہ نماز کی ہوگی جیسے فرائض میں اصل فرض رکعات سے قبل بطور افتتاحیہ کچھ رکعات پڑھی جاتی ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیث عائشہ کی بابت ایک توجیہ تو وہی ذکر کی جیسے ہم نے راجح قرار دیا ہے یعنی تیرہ رکعات والی حدیث میں سنت عشاء کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔لیکن اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسری توجیہ یہی پیش کی ہے کہ یہ افتتاحی دو رکعات تھیں اور اسی کو راجح قراردیا ہے [فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 3/ 21]

ایک اہم نکتہ:
محدثین نے گیارہ اور تیرہ رکعات کے مابین جمع و تطبیق کی صورت اپنائی ہے یہ ان محدثین کی طرف سے اشارہ ہے کہ یہ حضرات صلاۃ الیل کی اکثر تعداد گیارہ ہی مانتے ہیں ورنہ اگر ان محدثین کے یہاں اکثر تعداد تیرہ ہوتی تو گیارہ کے ساتھ جمع تطبیق کی ضرورت ہی نہ تھے ۔

ایک ضعیف روایت:(حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حدثنا هناد قال: حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن عمرو بن مرة، عن يحيى بن الجزار، عن أم سلمة، قالت: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث عشرة، فلما كبر وضعف أوتر بسبع»
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں:` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے لیکن جب آپ عمر رسیدہ اور کمزور ہو گئے تو سات رکعت پڑھنے لگے[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 319 رقم 457 واسنادہ ضعیف]
اس کی سند ضعیف ہے ،سلیمان الاعمش نے بھی عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں دیکھئے:[النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 2/ 640]
اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ص393 تا 395۔
اس ضعف کے ساتھ عمرو بن مرة اضطراب کے بھی شکار ہوئے ہیں چنانچہ یہاں انہوں نے یہ روایت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی ہے جبکہ کبھی انہوں نے یہی روایت أم الدرداء رضی االلہ عنہ کے حوالے سے بیان کی ہے دیکھئے : [شرح معاني الآثار، ت النجار: 1/ 291]
اس کی سند بھی اعمش کے عنعنہ کے سبب ضعیف ہے۔
مزید یہ کہ عمارة بن عمير نے ان کی مخالفت کی ہے اور اسے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بیان کیا ہے [سنن النسائي 3/ 238]۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
خالفه عمارة بن عمير فرواه عن يحيى بن الجزار عن عائشة
عمارۃ بن عمیر نے عمر بن مرۃ کی مخالفت کی ہے اور اس حدیث کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بیان کی ہے[سنن النسائي 3/ 237]
اس روایت میں تیرہ رکعات کی بات نہیں ہے ، تاہم یہ روایت بھی اعمش کے عنعنہ کے سبب ضعیف ہی ہے۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ابوسلمہ نے یہ حدیث اس طرح بیان کی ہے:
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
أخبرني إبراهيم بن يعقوب قال حدثنا عثمان وهو بن عمر قال أنبأ إسرائيل عن أبي إسحاق عن أبي سلمة عن أم سلمة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة ثماني ركعات ويوتر بثلاث ويركع ركعتي الفجر
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تیرہ رکعات پڑھتے تھے ، آٹھ رکعات پڑھتے ، پھر تین رکعات وتر پڑھتے ، اس کے بعد فجر کی دو رکعات پڑھتے [سنن النسائي الكبرى 1/ 160رقم 394]
اس روایت میں یہ صراحت آگئی ہے ام سلمۃ رضی اللہ عنہا نے فجر کی دو رکعات کو شمار کرنے کے ساتھ مجموعی تعداد تیرہ رکعات بتلائی ہے۔
اس کی سند کی سند بھی ابو اسحاق السبیعی کے عنعنہ کے سبب ضعیف ہے لیکن بعینہ اسی بات کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے [صحيح البخاري 2/ 51 رقم1140]
اس لئے اگر اس شاہد کے سبب اس حدیث کی تصحیح کی جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فجر کی دو رکعات شامل کرتے ہوئے رات کی مجموعی تعداد تیرہ رکعات بتلائی ہے

ایک ضعیف اور منکر روایت:(حدیث علی رضی اللہ عنہ)
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290) نے کہا:
حدثني العباس بن الوليد ، حدثنا أبو عوانة ، عن أبي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، قال : سئل علي عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : كان يصلي من اللیل ست عشرة ركعة.
علی رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں سترہ رکعات پڑھتے تھے[ زوائد علی المسند أحمد ط الميمنية: 1/ 145وإسناده ضعيف ومتنه منكر]
عرض ہے کہ اس روایت کے مرکزی روای ابواسحاق السبیعی ہیں اور وہ ان سے مروی اس حدیث میں رکعات کے سلسلے میں شدید اضطراب ہے مثلا :
مذکورہ روایت میں انہوں نے رات کی سترۃ رکعات بتلائی ہے۔
جبکہ بعض روایت میں ”يصلي من النهار ست عشرة ركعة“ یعنی دن کی سترہ رکعات کا ذکرکیا ہے [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 146]
اور بعض روایت میں ”يصلي من الليل التطوع ثماني ركعات، وبالنهار ثنتي عشرة ركعة“ یعنی رات میں آٹھ رکعات اور دن میں بارہ رکعات پڑھنے کا ذکر ہے[مسند أبي يعلى الموصلي رقم 495]
اس کے علاوہ اضطراب کی اور بھی شکلیں ہیں لیکن ہم ان پر تفصیلی گفتگو کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ساری روایت مضطرب ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف بھی ہیں کیونکہ ان سب میں ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے طبقے کے مدلس ہیں ۔[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 42]
البتہ اس سلسلے کی ایک حدیث میں ابو اسحاق السبیعی نے سماع کی صراحت کردی ہے لہٰذا صرف یہی
اس کے مقابلے میں جو صحیح روایت ہے جس میں ابواسحاق السبیعی نے سماع کی صراحت کی ہے اس میں یہ رکعات رات کے بجائے دن کی بتلائی گئی ہے چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن أبي إسحاق ، قال : سمعت عاصم بن ضمرة ، يقول : سألنا عليا ، رضي الله عنه ، عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من النهار ، فقال : إنكم لا تطيقون ذلك قلنا : من اطاق منا ذلك ؟ قال : إذا كانت الشمس من هاهنا كهيئتها من هاهنا عند العصر صلى ركعتين ، وإذا كانت الشمس من هاهنا كهيئتها من هاهنا عند الظهر صلى أربعا ، ويصلي قبل الظهر أربعا وبعدها ركعتين وقبل العصر أربعا ، ويفصل بين كل ركعتين بالتسليم على الملائكة المقربين والنبيين ومن تبعهم من المؤمنين والمسلمين
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے علی رضی الله عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دن کی نماز کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے کہا: تم اس کی طاقت نہیں رکھتے، اس پر ہم نے کہا: ہم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج اس طرف (یعنی مشرق کی طرف) اس طرح ہو جاتا جیسے کہ عصر کے وقت اس طرف (یعنی مغرب کی طرف) ہوتا ہے تو دو رکعتیں پڑھتے، اور جب سورج اس طرف (مشرق میں) اس طرح ہو جاتا جیسے کہ اس طرف (مغرب میں) ظہر کے وقت ہوتا ہے تو چار رکعت پڑھتے، اور چار رکعت ظہر سے پہلے پڑھتے اور دو رکعت اس کے بعد اور عصر سے پہلے چار رکعت پڑھنے، ہر دو رکعت کے درمیان مقرب فرشتوں اور انبیاء و رسل پر اور مومنوں اور مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے ان پر سلام پھیر کر فصل کرتے۔[مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 160 رقم 1375 واسنادہ صحیح وانظرسنن الترمذی رقم 598 وفيه من رواية شعبه عن أبي اسحاق]
ملاحظہ فرمائیں اس حدیث میں ابواسحاق السبیعی نے سماع کی صراحت کردی ہے ، اور اس میں رات کی نہیں بلکہ دن کی سترہ رکعات کا ذکر ہے ۔لہٰذا اس سلسلے کی یہ حدیث صحیح ومحفوظ ہے باقی روایات منکر وضعیف وباہم مضطرب ہیں ۔
مولانا طاہرگیاوی صاحب ابواسحاق کی معنعن منکر وضعیف روایت پیش کرنے کے بعد اس کے رجال کی ثقاہت پر اچھی خاصی تفصیل پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
سند کے تمام راویوں کی توثیق نقل کی جاچکی ہے جس کے بعد روایت کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے (احسن التنقیح ص 313)
عرض ہے کہ اس کے رجال کی ثقاہت پر کوئی اعتراض ہے ہی نہیں اس لئے اس کے اثبات پر توانائی صرف کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں اصل وجہ ضعیف ابواسحاق کا عنعنہ اور نکارت ہے اس کے ازالہ میں موصوف نے ایک حرف بھی نہیں لکھا ہے ۔

ایک مرسل روایت:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے کہا:
عن معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي سبع عشرة ركعة من الليل»
طاؤوس (تابعی) فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات میں سترہ رکعات پڑھتے تھے [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 3/ 38 رقم 4710]
یہ روایت مرسل ہے کیونکہ طاؤوس تابعی ہیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر صحابی کا واسطہ ذکر کئے روایت کررہے ہیں ۔
لہٰذا مرسل ہونے کے سبب یہ روایت ضعیف ہے اور ضعیف ہونے کے ساتھی ساری صحیح روایات کے خلاف بھی ہے کیونکہ کسی بھی صحیح روایت میں رات کی مجموعی تعداد سترہ نہیں بتلائی گئی ہے۔

مولانا طاہر گیاوی صاحب اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
اگرچہ یہ روایت مرسل ہے لیکن چونکہ اس کی تائید صحیح اور متصل روایت سے ہوجاتی ہے اس لئے اصول حدیث کی روشنی میں یہ بھی قابل احتجاج ہوجاتی ہے (احسن التنقیح ص309)
عرض ہے کہ اس کے موصوف ماقبل والی علی رضی اللہ عنہ کی ضعیف ومنکر روایت پیش کی ہے جس کا حشر قارئین اوپر دیکھ چکے ہیں ۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
تیسرا اعتراض: تہجد اور تراویح میں فرق کا فلسفہ

حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ اکثر تعداد کے حصر میں بالکل صریح ہے ۔ عصر حاضر کے احناف کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے اس لئے ان حضرات نے ایک نیا فلسلفہ تراشا اور چودہ سوسال کے بعد ایک نیا دعوی کیا کہ تہجد اور تراویح یہ دو الگ الگ نمازیں ہیں ۔
عرض ہے کہ اول تو تراویح اورتہجد دونوں ایک ہی نماز ہے یعنی صلاة اللیل رات کی نماز ، ان دونوں میں فرق حالات کے لحاظ سے ہے یعنی رات کی نماز عام دنوں میں پڑھی جائے تو اسے تہجد کہتے ہیں اور رمضان میں اسی کانام نماز تراویح ہے حالات کے لحاظ سے اس کی صفات میں بھی تبدیلی ہوتی ہے یعنی رمضان میں یہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے لیکن عام دنوں میں جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی جاتی لیکن بعض حالات میں صفات کی تبدیلی اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ دونوں الگ الگ نماز ہیں ۔
مثال کے طور پرظہر کی فرض نماز عام حالات میں چار رکعات پڑھی جاتی ہے لیکن اگرکوئی سفر میں ہو تو اس کے لئے قصر ہے یعنی وہ صرف دو رکعات پڑھتا ہے ظاہر ہے حالت سفر میں اس نماز کی صفت الگ ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کوئی الگ نماز ہے بلکہ یہ وہی ظہر کی نماز ہے جو حضر میں چار کعات پڑھی جاتی ہے لیکن سفر میں اس کی کیفیت بدل گئی ہے۔
تقریبا یہی مثال رات کی نماز کی ہے عام دنوں میں یہ فردا فردا پڑھی جاتی ہے لیکن رمضان میں یہ جماعت کے ساتھ اداکی جاتی ہے لیکن حالات کے لحاظ سے صفت کی یہ تبدیلی اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ الگ الگ نمازیں ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگرفرض کرلیں کہ الگ الگ نمازیں ہیں تو ایسی صورت میں مذکورہ حدیث کی رو سے دونوں نمازوں کی تعداد یکساں ماننا لازمی ہوگا کیونکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے دونوں کی تعداد یکساں بتلائی ہے ، چنانچہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو سوال ہواتھا وہ رمضان کی خاص نماز یعنی تراویح کے سلسلے میں ہوا تھا لیکن اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے تراویح اورتہجد دونوں کی رکعتوں کی تعدادیکساں بتلاتے ہوئے جواب دیا۔
اگریہ مان لیا جائے کہ اس حدیث میں تراویح کی تعداد کا ذکر نہیں تو یہ لازم آئے گا کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے سائل کے اصل سوال کا جواب ہی نہیں دیا کیونکہ اصل سوال تو تراویح ہی کے بارے میں ہوا تھا ، لہٰذا یہ ماننا ضروری ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اصل سوال کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ ایک زائدبات بھی بتلادی یعنی تراویح کی رکعات بتلانے کے ساتھ ساتھ تہجد کی رکعات بھی بتلادی۔
مولانا طاہر گیاوی صاحب نے یہ دعوی کیا ہے کہ سوال تہجد کے بارے میں ہی تھا ، اور دلیل یہی دی ہے کہ جواب میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے رمضان اور غیر رمضان دونوں کی بات کہی ہے فرماتے ہیں:
تہجد کی نماز جو رمضان اور غیر رمضان دونوں زمانوں میں عام ہے جواب میں اس عموم کا صراحۃ حضرات عائشہ رضی اللہ عنہا نے ذکر بھی فرمایا ہے ۔۔۔۔الخ (احسن التنقیح ص248)
عرض ہے کہ گیاوی صاحب سوال کو بھول گئے کہ اس میں رمضان وغیر رمضان کی صراحت نہیں بلکہ صرف رمضان ہی کی صراحت ہے ۔جو صاف دلیل ہے کہ سوال خاص رمضان کی نماز یعنی تراویح کے بارے میں ہوا تھا لیکن چونکہ یہ نماز اور دیگر زمانوں میں تہجد کی نماز ایک ہی ہے اس لئے جواب میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں کی تعداد یکساں بتلائی ہے ۔
بالفرض مان بھی لین کہ سوال صرف تہجد کے بارے میں تھا تو بھی اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے جواب میں جو تفصیل کا اسلوب اپنایا ہے اس کا لازمی تقاضا تھا کہ آپ تراویح کی بابت بھی وضاحت کردیتیں ، لیکن تفصیلی جواب دینے کے باوجود بھی تراویح سے متعلق الگ سے ایک حرف بھی نہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا رمضان میں تہجد اور تراویح کو ایک ہی مانتی ہیں ۔

تہجد اورتراویح کے ایک ہونے سے متعلق دس دلائل:

پہلی دلیل:
صحیح بخاری کی پیش کردہ حدیث میں سائل نے رمضان کی نماز یعنی تراویح کے بارے میں سوال کیا تھا لیکن اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے تراویح اور تہجددونوں کو ایک ہی نماز مان کردونوں کے بارے میں ایک ہی جواب دیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز ہے۔اس پر طاہرگیاوی صاحب کے اعتراض کا جواب اوپر دیا جاچکا ہے ۔
دوسری دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں ہے یہی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے۔
حنفیوں کے انورشاہ کشمیری تراویح اور تہجدکے ایک ہی نماز ہونے کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وإنَّما يثبُتُ تغايُرُ النَّوْعَيْن إذا ثَبَت عن النبيِّ صلى الله عليه وسلّمأنه صلى التهجُّدَ مع إقامَتِهِ بالتراويحِ.
دونوں نمازوں کا الگ الگ نماز ہونا اس وقت ثابت ہوگا جب اس بات کا ثبوت مل جائے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھنے کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھی ہے۔[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 23]۔

تیسری دلیل:
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا، حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ، وَقَامَ بِنَا فِي الخَامِسَةِ، حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ؟ فَقَالَ: «إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ»، ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلَاثٌ مِنَ الشَّهْرِ، وَصَلَّى بِنَا فِي الثَّالِثَةِ، وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى تَخَوَّفْنَا الفَلَاحَ، قُلْتُ لَهُ: وَمَا الفَلَاحُ، قَالَ: «السُّحُورُ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»
ابوذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے آپ نے تئیسویں رات تک ہمارے ساتھ رات کی نماز نہیں پڑھی (یعنی تراویح) پھر تیئسویں رات کو ہمیں لے کر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی پھر چوبیسویں رات کو نماز نہ پڑھائی لیکن پچیسویں رات کو آدھی رات تک نماز (تراویح) پڑھائی ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری آرزو تھی کہ آپ رات بھی ہمارے ساتھ نوافل پڑھتے آپ نے فرمایا جو شخص امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک نماز میں شریک رہا اس کے لئے پوری رات کا قیام لکھ دیا گیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ستائیسویں رات تک نماز نہ پڑھائی ۔ ستائیسویں رات کو پھر کھڑے ہوئے اور ہمارے ساتھ اپنے گھر والوں اور عورتوں کو بھی بلایا یہاں تک کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ فلاح کا وقت نہ نکل جائے راوی کہتے ہیں میں نے ابوذر سے پوچھا فلاح کیا ہے تو انہوں نے فرمایا سحری امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے [سنن الترمذي: 3/ 160 رقم806 واسنادہ صحیح]۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے دن تراویح کو اتنی دیرتک پڑھا تھا کہ صحابہ کو ڈر تھا کہ کہیں سحری کا موقع ملے ہی نہ ۔ظاہر ہے کہ جب سحری کا وقت نہ ملنے کا خوف تھا تو تہجد کا وقت ملنے کا سوال ہی نہیں پیداہوتا۔
اگرتراویح اور تہجد دونوں الگ الگ نماز ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تراویح کواتنی تاخیر نہ کرتے کہ سحری کا وقت بھی مشکل سے ملے۔
نیز صحابہ کرام یہ نہ کہتے کہ ہمیں یہ ڈرہوا کہ کہیں سحری کا وقت نہ ملے بلکہ یوں کہتے کہ ہمیں یہ ڈرہوا کہ کہیں تہجد ہی کا وقت نہ ملے ۔
مزید یہ کہ یہ حدیث اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اس رات تراویح کے بعد تہجد کے لئے کوئی موقع تھا ہی نہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس رات تہجدنہیں پڑھی۔اگر تراویح اور تہجد دونوں ا لگ الگ نمازیں ہوتی ں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات بھی تہجد خود پڑھتے اور صحابہ کو بھی اس کا موقع دیتے ۔

چوتھی دلیل:
عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ»
قیس بن طلق بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا :ایک رات میں دو وتر نہیں ہے[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 333 رقم470 ]۔
یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کے ساتھ وتر بھی پڑھی تھی جیساکہ آگے حدیث آرہی ہے۔اور وتر کی نمازتہجد کے ساتھ ہی پڑھی جاتی ہے۔
اگر تراویح اور تہجد الگ الگ مانیں تو یہ لازم آئے گا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےدو باروترپڑھی ہے اوریہ ناممکن ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہے۔

پانچویں دلیل:
جابر رضی اللہ عنہ کی صحیح اور صریح حدیث آگے آرہی ہےجس میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےتراویح آٹھ رکعات اور وترہی پڑھی ہیں ،اور رکعات کی یہی تعداد اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ حدیث میں بھی بیان کی ہےجو اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نمازہے۔

چھٹی دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کرام کو جب تراویح کی نمازجماعت سے پڑھائی تھی تو تین دن پڑھانے کے بعد آپ نے جماعت سے تراویح پڑھانا چھوڑدیا تھا اورابن حبان کی روایت کے مطابق اس کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا:
كرهت أن يكتب عليكم الوتر
میں نے اس بات کوناپسند کیا کہ تم پر وتر فرض کردی جائے[صحيح ابن خزيمة 2/ 138]
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی نماز ہی کو وتر کہا ہےاور وتریہ تہجد کی نماز ہی کےساتھ ہے،یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے۔

ساتویں دلیل:
خلیفہ دوم عمرفاروق رضی اللہ عنہ تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز سمجھتے تھے اسی وجہ سے وہ جماعت کے ساتھ تراویح نہیں پڑھتے تھے کیونکہ عام طور سے لوگ اسے رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھتے تھے اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ رات کے اخیر حصہ میں پڑھنا اسے بہترسمجھتے تھے اس لئے آپ جماعت سے تراویح نہ پڑھ کر بعد میں رات کے اخیرحصہ میں تنہا پڑھتے تھے۔
اور اس پر تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے تھے:
والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون يريد آخر الليل وكان الناس يقومون أوله
اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔[صحيح البخاري 3/ 45 رقم 2010]

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز سمجھتے تھے،اگر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی نظر میں تراویح اور تہجد دو الگ الگ نمازیں ہوتی تو آپ تراویح بھی مسجد میں لوگوں کے ساتھ پڑھتے اور رات کے آخری حصہ میں تہجد بھی پڑھتے۔نیز آپ تراویح کی نمازکو رات کے آخری حصہ میں پڑھنے کو افضل نہ بتلاتے ۔بلکہ اس فضیلت کو تہجد کی نماز ہی کے لئے خاص سمجھتے ۔

حنفیوں کے انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يؤيده فِعْل عمرَ رضي الله تعالى عنه، فإنَّه كان يصلِّي التراويحَ في بيته في آخِر الليل، مع أنه كان أَمَرَهم أن يؤدُّوهَا بالجماعةِ في المسجد، ومع ذلك لم يكن يدخُل فيها. وذلك لأنه كان يَعْلم أَنَّ عملَ النبيِّ صلى الله عليه وسلّمكان بأدائها في آخِر الليل، ثُمَّ نَبَّهَهُم عليه قال: «إنَّ الصلاةَ التي تقومون بها في أول الليل مفضولةٌ عمَّا لو كُنتم تقيمونَها في آخِر اللَّيل». فجعلَ الصلاةَ واحدةً
اورتراویح اورتہجد کے ایک ہونے کی تائید عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے فعل سے بھی ہوتی ہے کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے گھرمیں رات کے اخیر میں تراویح پڑھتے تھے،جبکہ آپ نے لوگوں کو مسجد میں جماعت سے پڑھنے کا حکم دیا تھااس کے باوجود بھی آپ ان کے ساتھ شامل نہ ہوتے تھے ،اورایسااس وجہ سے کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو رات کے آخری حصہ میں پڑھتے تھے۔پھرآپ نے لوگوں کو اس پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا:”جس نماز (تراویح ) کو تم لوگ رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھتے ہوئے وہ فضیلت میں کمترہے بنسبت اس کے کہ اگر تم اسے رات کے آخری حصہ میں پڑھو“۔چنانچہ یہاں پر عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز قراردیا[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 24]

آٹھویں دلیل:
محدثین نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کو رمضان کے قیام یعنی تروایح اور تہجد دونوں طرح کے عناوین اور ابواب کے تحت ذکر کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ محدثین کی نظر میں تراویح اور تہجد ایک ہی ہے اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں تراویح اور تہجد ہی کی رکعات کا ذکر ہے۔
چنانچہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں” کتاب صلاۃ التراویح “میں اس حدیث کو درج کیا ہے اور اس پر ”فضل من قام رمضان“ یعنی تراویح پڑھنے کی فضیلت کا باب قائم کیا ہے ۔دیکھئے: صحیح بخاری : کتاب صلاۃ التراویح :باب فضل من قام رمضان ،حدیث نمبر2013۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ”باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان“ یعنی رمضان میں تراویح کی رکعات کی تعداد کے بیان میں ذکرکیا ہے ۔دیکھئے: كتاب الصلاة(جماع أبواب صلاة التطوع، وقيام شهر رمضان):باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان،حدیث نمبر 4285۔
امام ابوحنیفہ کے شاگر محمدبن الحسن نے مؤطا محمد میں ”باب: قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل“یعنی رمضان میں تراویح پڑھنے اوراس کی فضیلت کے بیان کےتحت ذکر کیا ہے ۔دیکھئے:موطأ محمد بن الحسن الشيباني:ابواب الصلاة:باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل،حدیث نمبر239۔
حنفیوں کے عبدالحی لکھنوی نے مؤطا محمد کے اس باب کی تشریح کرتے ہوئے لکھا:
قوله :(قیام )شهر رمضان ويسمى التراويح
یعنی ماہ رمضان کے قیام کا نام تراویح ہے۔[التعليق المُمَجَّد للكنوي: 1/ 351]

حنفی حضرات کہتے کہ بعض محدثین نے اس حدیث کو کتاب التہجد میں ذکرکیا ہے۔
عرض ہے کہ اس میں پریشان ہونی کی بات کیا ہے جب تراویح اورتہجد دونوں ایک ہی نماز ہیں تو اس حدیث کا ذکر تراویح کے بیان میں بھی ہوگا اورتہجد کےبیان میں بھی ہوگا۔
چنانچہ محدثین نے اگر تہجدکے بیان میں اسے ذکر کیا ہے تو تراویح کے بیان میں بھی اسے ذکر کیا ہے جیساکہ اوپر حوالے دئے گئے۔
مولانا طاہرگیاوی صاحب فرماتے ہیں:
اگر حدیث عائشہ کا تذکرۃ قیام رمضان کے تحت کیا گیا ہے تو اس سے یہ استدلال کرنا درست نہیں ہے کہ مصنف کے خیال میں لازما اس روایت کا تراویح ہی سے تعلق ہے اس لئے کہ تہجد کی نماز بھی رمضان میں پڑھی جاتی ہے اوراس بنیاد پر قیام رمضان کے تحت اس کا ذکر بھی غیرمناسب نہیں ہے (احسن التنقیح ص250)
عرض ہے کہ جن محدثین نے قیام رمضان کے تحت اس حدیث کا ذکر کیا ہے ان محدثین نے قیام رمضان سے تہجد نہیں بلکہ تراویح ہی مراد لیا ہے ، بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تو صراحۃ تراویح ہی کا لفظ استعمال کیا ہے ۔
امام بیہقی نے قیام رمضان کا جوباب قائم کیا ہے اس کے تحت بیس رکعات والی ضعیف روایات بھی درج کی ہیں جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ انہوں نے قیام رمضان سے تراویح ہی مراد لیا ہے ۔
اور امام محمد نے قیام رمضان کے تحت وہ حدیث بھی ذکرکی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت تراویح پڑھائی تھی ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے قیام رمضان بول کر تہجد نہیں بلکہ تراویح ہی کو مراد لیا ہے بلکہ حنفی عالم علامہ لکنوی رحمہ اللہ نے اس کی تشریح تراویح سے کی ہے کما مضی
اس لئے طاہرگیاوی صاحب کی تاویل کسی کام کی نہیں ہے ۔

نویں دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ایک موضوع اورمن گھڑت روایت نقل کی جاتی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعات تراویح پڑھی ۔
اس حدیث کو مردود ثابت کرتے ہوئے بہت سارے محدثین واہل علم نے اسے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کے خلاف قراردیا ہےمثلا:
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840)[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 2/ 384]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) [فتح الباري لابن حجر: 4/ 254]۔
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى:911)[الحاوي للفتاوي 1/ 414]
حنفیوں کے امام زيلعي الحنفی رحمه الله (المتوفى762)[نصب الراية للزيلعي: 2/ 153]۔
حنفیوں کے علامه عينى الحنفی رحمه الله (المتوفى855) [عمدۃ القاری:ج١١ص١٨٢].
حنفیوں کے امام ابن الهمام الحنفی (المتوفى861)[ فتح القدير للكمال ابن الهمام:1/ 467]۔
ابوالطیب محمدبن عبدالقادر سندی حنفی [شرح الترمذی: ج١ ص٤٢٣]۔

ان تمام اہل علم کی الفاظ آگے آرہے ہیں دیکھئے: ص۔۔۔
محدثین اہل علم کی جانب سے بیس رکعات تراویح والی روایت کے خلاف اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا پیش کیاجانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث تراویح سے متعلق ہے اور تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نمازہے۔

دسویں دلیل:
جو تراویح پڑھ لے اہل علم نے اسے تہجد پڑھنے سے منع کیا ہے۔چنانچہ:
حنفیوں کے انورشاہ کشیمرمی حنفی لکھتے ہیں:
ثُمَّ إنَّ محمدَ بن نَصْر وَضَعَ عدَّة تراجِمَ في قيام الليل، وكتب أنَّ بعض السَّلَف ذهبوا إلى مَنْع التهجُّد لِمَن صلَّى التروايح
نیزمحمدبن نصرنے قیام اللیل کے بارے میں کئی ابواب قائم کئے ہیں اور لکھا ہے کہ بعض سلف نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع کیا ہے جس نے تراوی پڑھ لی ہے[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 24]۔
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نماز ہے۔

ان دلائل سے روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نماز ہے۔
اورتراویح اور تہجد کے الگ الگ ہونے کا نظریہ دراصل صحیح بخاری کی اس حدیث پر عمل کرنے سے بچنے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ متقدمین میں سے کسی ایک بھی عالم نے یہ نہیں کہا ہے کہ تراویح اورتہجد الگ الگ نماز ہے۔

حنفیوں کے انورشاہ کشمیر نے بھی صاف طور سے اعلان کیا ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نماز ہے ۔بلکہ حنفی لوگ تراویح اور تہجد کے الگ الگ ہونے کے لئے جتنے بھی دلائل دیتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ تراویح اور تہجد کی الگ الگ صفات گناتے اور اسی کو دلیل بناتے ہیں کہ یہ الگ الگ نمازیں ہیں ۔
انورشاہ کشمیری حنفی اس بے بنیاد دلیل کا رد کرتے ہوئے اور تراویح اورتہجد کوایک ہی ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال عامَّة العلماء: إنَّ التراويحَ وصلاةَ اليل نوعانِ مختلفان. والمختار عندي أنهما واحدٌ وإن اختلفت صفتاهما، كعدم المواظبة على التراويح، وأدائها بالجماعة، وأدائها في أول اللَّيل تارةً وإيصالها إلى السَّحَر أُخرى. بخلاف التهجُّد فإنه كان في آخِر الليل ولم تكن فيه الجماعة. وجَعْلُ اختلافِ الصفات دليلا على اختلاف نوعيهما ليس بجيِّدٍ عندي، بل كانت تلك صلاةً واحدةً، إذا تقدَّمت سُمِّيت باسم التراويح، وإذا تأخَّرت سُمِّيت باسم التهجُّد، ولا بِدْعَ في تسميتها باسمين عند تغايُرِ الوَصْفَين، فإنَّه لا حَجْر في التغاير الاسمي إذا اجتمعت عليه الأُمةُ. وإنَّما يثبُتُ تغايُرُ النَّوْعَيْن إذا ثَبَت عن النبيِّ صلى الله عليه وسلّم أنه صلى التهجُّدَ مع إقامَتِهِ بالتراويحِ.
عام طور سے (ہمارے حنفی )علماءنے کہا ہے کہ: تراویح اورتہجد دوالگ الگ نماز ہے،لیکن میرے نزدیک یہ دونوں ایک ہی نماز ہیں گرچہ ان دونوں کی صفات الگ الگ ہیں ۔مثلا تراویح کی مواظبت ہوتی ہے،اسے جماعت کے ساتھ پڑھاجاتا ہے،اسے رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھاجاتاہےاورکبھی کبھی سحرتک پڑھاجاتاہے۔لیکن اس کے برخلاف تہجد کو رات کے آخری حصہ میں پڑھا جاتاہے اس میں جماعت نہیں ہوتی ہے۔اور صفات کے الگ الگ ہونے کو ان دونوں نماز کے الگ الگ ہونے کی دلیل بنانامیرے نزدیک بہتر نہیں ہے ۔بلکہ تراویح اورتہجدیہ دونو ں ایک ہی نمازہیں جب اسے پہلے پڑھاجاتاہے تو اسے تراویح کانام دیا جاتاہے اور جب اسے تاخیرسے پڑھاجاتا ہے تو اسے تہجد کانام دیا جاتاہے۔اورصفات کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے اسے دو نام سے موسوم کرنا بدعت کی بات نہیں ہے کیونکہ اتفاق امت سے مختلف نام رکھنےمیں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔البتہ یہ دوالگ الگ نمازیں اسوقت ثابت ہوتی جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہوتا کہ آپ نے تراویح پڑھنے کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھی ہے[فيض الباري على صحيح البخاري 2/ 567]

اس عبارت میں انورشاہ کشمیری نے یہ بات واضح کردی ہے کہ محض صفات کے الگ الگ ہونے سے نوعیت کی علیحدگی کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتاہے۔
نیز گذشتہ سطور میں ہم بھی واضح کرچکے ہیں کہ ظہر کی نماز حضر میں چار رکعات جماعت کے ساتھ فرض ہے۔
لیکن سفر میں قصر کرتے ہوئے صرف دو رکعات فرض ہے اور جماعت بھی ضروری نہیں ہے۔
اب دیکھئے ان دونوں کی صفات میں کتنافرق ہوگیا ۔
حضر کی ظہر مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے اور چار رکعات پڑھی جاتی ہے،لیکن سفر میں ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا ضروری نہیں نیز صرف دورکعت پڑھی جاتی ہے۔
لیکن صفات کی اس تبدیلی کو ہم اس بات کی دلیل نہیں بناسکتے کہ یہ حضرکی ظہر اورسفر کی ظہر یہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں۔
الغرض یہ کہ بعض حالات میں اگر کسی نماز کی صفات بدل گئیں تو محض بعض حالات میں بدلی ہوئی صفات کی بناپر اسے الگ نماز نہیں کہا جاسکتا۔

تنبیہ:
یادرے کہ اس حدیث میں جو یہ ذکرہے:
يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو۔
تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چارچار رکعات ایک سلام سے پڑھتے ،کیونکہ یہاں چار رکعات کے بعد سلام پھیرنے کی صراحت نہیں ہے،لہٰذا یہاں مطلب صرف یہ ہے کہ چار رکعات پڑھ کرٹہرتے تھے۔اور سلام ہر دورکعت پر ہی پھیرتے تھے جیساکہ خود اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی نے دوسری حدیث میں صراحت کردی ہے جو آگے آرہی ہے۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
تہجد اور تراویح کی نماز میں فرق کے حنفی دلائل اور ان کا جائزہ

تہجد اور تراویح کی نماز کو الگ الگ ثابت کرنے کے لئے سب سے زیادہ زور طاہر گیاوی صاحب نے لگا ہے اوربزعم خویش کل پانچ دلائل اس حق میں دئے ہیں ذیل میں ان کے تمام دلائل کا جائزہ پیش کرتے ہیں ۔

پہلی دلیل: تہجد کی قضاء اور تراویح کی عدم قضاء
مولانا طاہر گیاوی صاحب فرماتے ہیں:
تراویح اور تہجد دونوں کے علیحدہ علیحدہ دو نماز ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ دونوں نمازوں کے احکام بھی جدا ہیں مثلا تراویح کی نماز اگر کوئی شخص وقت پر ادا نہ کرسکا تو دن کے وقت اس کی قضاء نہیں کرسکتا ، اس لئے کہ اس کی قضاء ثابت نہیں ہے ، جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے(احسن التنقیح : ص235)
اس کے بعدطاہرگیاوی صاحب نے اپنی فقہ حنفی کی کتاب رد محتار کی عبارت پیش کی اور خواہ مخواہ ایک حنفی موقف کو اہل حدیثوں پر بھی مسلط کردیا کہ اہل حدیث کا بھی یہی ماننا ہے کہ تراویح کی قضاء نہیں کی جاسکتی ۔
حالانکہ اہل حدیث کا خود احناف میں بھی بعض حضرات اس کے قائل ہیں کہ کسی کی تراویح چھوٹ گئی تو وہ بعد میں تنہا اس کی قضاء کرسکتا ہے چنانچہ موصوف نے جہاں سے نقل کیا ہے وہی پر ہے کہ :
قيل يقضيها وحده ما لم يدخل وقت تراويح أخرى، وقيل ما لم يمض الشهر
یہ بھی کہا گیا ہے کہ تنہا قضاء کرسکتا ہے جب تک کہ دوسری تراویح کا وقت نہ آجائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک کہ ماہ رمضان ختم نہ ہوجائے( رد المحتار على الدر المختار: ص2/ 45 وانظر: الموسوعة الفقهية الكويتية:27/ 149)
یعنی خود احناف ہی اس بات پر متفق نہیں ہیں اور مولانا گیاوی صاحب بلاتامل اسے اہل حدیث کی طرف منسوب کررہے ہیں ، بہر حال موصوف نے مذکورہ بات کہنے کے بعد تہجد کے قضاء کی دلیل میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کہ وہ حدیث پیش کی ہے جو مقابل میں گذرچکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز چھوٹ جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن میں بارہ رکعات پڑھتے تھے ۔
طاہر گیاوہ صاحب کے اس مفروضے کا جواب اس قدر آسان ہے کہ خود طاہر گیاوی صاحب کو بھی اس کا احساس ہے اس لئے موصوف اہل حدیث کی طرف سے خود ہی جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
اگراسی روایت کو دلیل بناکر کوئی غیر مقلد صاحب یہ شگوفہ چھوڑیں کہ جب ہمارے نزدیک تہجد اور تراویح دونوں ایک ہی نماز ہے تو تہجد کی قضاء کے ثابت ہوجانے کے بعد تراویح کی قضاء کا جواز بھی ازخود ثابت ہوگیا تو عرض یہ ہے کہ اس روایت سے جس تہجد یا تراویح کی قضاء ثابت ہوگی وہ بارہ رکعت ہے اور آپ کے نزدیک آٹھ رکعت سے زیادہ تراویح یا تہجد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں ہے۔
عرض ہے کہ:
طاہر گیاوی صاحب نے جواب تو ہماری طرف سے خود ہی دے دیا اس لے جواب کی ضرورت تو ہے نہیں البتہ موصوف نے جو جواب الجواب پیش کیا ہے اس کاجائزہ بھی ہم پیش کردیتے ہیں ، دراصل یہ وہی با ت ہے جسے ماقبل میں بھی ہم ان کی دوسری کتاب سے نقل کرچکے ہیں اوروہاں جوجواب دیا گیا ہے وہی جواب یہاں بھی ہے جس کاخلاصہ یہ کہ قضاء اصل گیارہ رکعات ہی کی ہوتی تھی لیکن چونکہ یہ قضاء دن میں ہوتی تھی اور دن میں وتر نہیں ہے اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس گیارہ رکعات میں ایک رکعت مزید شامل کرکے اسے جفت بنا لیتے تھے ۔ تو یہ ایک رکعت دن کی وجہ سے اضافی ہوتی تھی اس کا رات والی نماز سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے :
اب جب یہ ثابت ہوگیا کہ قضاء والی نماز کی بھی اصلا تعداد وہی ہے جو تروایح کی نماز کی ہے تو یہ دلیل طاہر قادری صاحب ہی پر الٹ کر اس بات کی دلیل بن گئی کہ یہ دونوں ایک ہی نماز ہیں۔
طاہرگیاوی صاحب نے اپنی اس دلیل کو سب سے مضبوط دلیل کہا تھا حالانکہ اندر سے اس کی کمزوری پر انہیں اس قدر یقین تھا کہ خود ہی اہل حدیث کی طرف سے اس کا جواب بھی دے ڈالا ، بہرحال موصوف کے دعوے کے مطابق یہ (سب سے بڑی دلیل) تھی جس کی حقیقت بیان کی جاچکی ہے۔

دوسری دلیل: بیان فرضیت کی تعبیر سے تفریق پر استدلال
طاہرگیاوی صاحب کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ تہجد کی نماز شروع میں فرض تھی بعد میں اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی تھی ، لہٰذا رمضان والی جس نماز کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا وہ کوئی الگ نماز ہونی چاہئے ورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے بلکہ یہ فرماتے کہ کہیں یہ نماز دبارہ تم پر فرض نہ ہوجائے ۔
گیاوی صاحب کے الفاظ ہیں:
آپ نے ارشاد فرمایا: خشیت ان تفرض علیکم صلاۃ اللیل ۔یعنی مجھے صلاۃ اللیل کے تم پرفرض ہوجانے کا ڈر تھا ، تو اگر یہ صلاۃ اللیل وہی نماز تہجد ہی تھی جس کی فرضیت ایک مرتبہ منسوخ ہوچکی تھی تو آپ کو یوں فرمانا چاہئے تھا : خشیت ان تعاد علیکم صلاۃ اللیل فریضۃ مجھے ڈر تھا کہ تم پر صلاۃ اللیل دوبارہ فرض کردی جائے گی (احسن التنقیح ص256)

جوابا عرض ہے کہ:
اولا:
محض اس تعبیر پر تفریق کی عمارت گھڑی کرنا انتہائی نامعقول بات ہے، کیونکہ اس تعبیر میں اصل مقصود کے بیان میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا ، کیونکہ اصل مقصود اس نماز کی فرضیت کو بتلانا ہے نہ کہ اس نماز کی ابتداء سے لیکراب تک کی روداد بتلانا مقصود ہے ، لہٰذا فرضیت بتلانے کے لئے اس بات کی قطعیت حاجت نہیں ہے کہ سابقہ فرضیت کا بھی حوالہ دیاجائے،لہٰذا یہ تعبیر گیاوی صاحب کے تفریق کی دلیل ہرگز نہیں بن سکتی ۔
البتہ اس نماز کی سابقہ فرضیت اس بات کی دلیل بن سکتی ہے کہ بعد میں جس نماز یعنی تراویح سے متعلق فرضیت کا اندیشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لاحق ہوا ، وہ وہی نماز تھی جو پہلے فرض ہوچکی تھی ۔اور یہ چیز منجملہ ان اسباب میں سے تھی جن کی بناپر اللہ کے نبی صلی للہ علیہ وسلم نے نماز تراویح کی فرضیت کا اندیشہ محسوس کیا ۔یوں یہ دلیل بھی خود طاہرگیاوی صاحب پرالٹ گئی اوراسی نے ثبوت فراہم کردیا کہ یہ دونوں ایک ہی نماز تھی ۔

ثانیا:
جدلا اگرہم مان بھی لیں کہ ایک ہی نماز کی دوبارہ فرضیت کا اندیشہ ظاہر کرنے کے لئے لازم تھا ،کہ محض فرضیت کی بات کہنے کے بجائے ،اعادہ فرضیت کی بات کہی جاتی، تو بھی اس مہمل گوئی کے لئے ضروری ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح کی جس نوعیت سے متعلق فرضیت کا اندیشہ ظاہر کیا تھا ، پہلی فرضیت بھی عین اسی نوعیت کی رہی ہو جبکہ روایات کے سیاق میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
یاد رہے کہ صلاۃ الیل کی پہلی فرضیت میں نہ تو ایک جماعت کے ساتھ یہ فرض تھی ،اورنہ ہی اس کے لئے مسجد میں حاضر ہونا فرض تھا، بلکہ محض اس کی ادائیگی فرض تھی ، خواہ وہ کہیں بھی ادا کی جائے ۔
لیکن تراویح کے بارے میں جس فرضیت کا اندیشہ تھا وہ یہ کہ کہیں اس نماز کی ادائیگی مسجد میں ایک ہی جماعت کے ساتھ فرض نہ کردی جائے ۔
اسی لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز ترک کی تھی،وہ مسجد میں اس نماز کی ایک ہی جماعت کے ساتھ ادائیگی تھی بس، لیکن فردا یا متفرق جماعت کے ساتھ مسجد یا مسجد کے باہر اس کی ادائیگی سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت نہیں فرمائی بلکہ خود بھی یہ نماز سابقہ طرز پر پڑھتے رہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی ان کے سابقہ عمل پر باقی رکھا ۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص کیفیت (مسجد میں ایک ہی جماعت کے ساتھ ادائیگی ) میں اس کی فرضیت کا اندیشہ تھا ، نہ کہ مطلقا اس کی فرضیت کا اندیشہ تھا ،کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرے سے یہ نماز ہی پڑھنا بند کردیتے ،یا صحابہ کو اس کی ادائیگی سے مطلقا روک دیتے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص کیفیت(مسجد میں ایک ہی جماعت کے ساتھ ادائیگی ) کو ترک کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس سے باز رکھا ۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خاص اسی کیفیت کے فرض ہونے کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ تھا ، لہٰذا جب پہلی فرضیت الگ کیفیت کی تھی اور دوبارہ جس فرضیت کا اندیشہ تھا اس کی کیفیت الگ تھی ، تو سابقہ فرضیت کے اعادہ کی تعبیر کو لازم قرار دینا انتہائی فضول ، لایعنی اور بے موقع ومحل بات ہے۔
واضح رہے کہ ایک شبہ کے جوابات میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے جس جواب کو سب سے قوی قراردیا ہے وہ یہ ہے کہ :
يحتمل أن يكون المخوف افتراض قيام الليل بمعنى جعل التهجد في المسجد جماعة شرطا في صحة التنفل بالليل
اس بات کا احتمال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام اللیل کی جس فرضیت کا اندیشہ محسوس کیا تھا، وہ اس معنی میں کہ قیام اللیل کی صحت کے لئے یہ شرط نہ لگادی جائے کہ، اسے مسجد میں ہی جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہوگا۔[فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 3/ 14]
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی اس عبار ت میں بھی یہ بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلق فرضیت کا اندیشہ نہیں تھا بلکہ ایک خاص کیفیت میں اس نماز کے فرض ہونے کا اندیشہ تھا ۔
اس تفصیل سے مولانا طاہر گیاوی صاحب کی دوسری دلیل بھی کسی کام کی نہیں رہ جاتی ہے ۔

تیسری دلیل: قیام ھذ الشھر والی ضعیف روایت سے استدلال:
مولانا طاہر گیاوی صاحب تیسری دلیل کے عنوان سے فرماتے ہیں:
تراویح اورتہجد میں مغایرت کی ایک تیسری دلیل یہ ہے کہ تہجد کی نماز تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام ہمیشہ ہی پڑھا کرتے تھے ، پھرجن تین راتوں کی نماز کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایاتھا اگریہ وہی نماز تہجد ہوتی تو یہ نہ کوئی نئی نماز ہی تھی اور نہ کوئی نیا حادثہ ہی تھا کہ واقعہ کو صحابہ کرام اس طرح نقل فرماتے(احسن التنقیح ص 257)
عرض ہے کہ یہ نماز تو یقینا وہی تھی لیکن ان تین دنوں میں ان کی ادائیگی کی کیفیت الگ تھی ، یہی کیفیت والی بات نئی تھی اور یہی نیا حادثہ تھا اس لئے صحابہ کرام نے اسے اس طرح نقل کیا ۔
یادرہے کہ اہل حدیث حضرات کا یہ قطعا دعوی نہیں کہ تراویح اور تہجد کی کیفیت میں کوئی فرق نہیں ہے ، اہل حدیث دونوں کی کیفیت میں فرق مانتے ہیں لیکن دونوں نمازوں کو اصلا ایک ہی نماز تسلیم کرتے ہیں ۔اس کی وضاحت ماقبل میں علامہ انور شاہ کشمیری کے الفاظ میں ہوچکی ہے اور مزید وضاحت آگے آئے گی ۔
گیاوی صاحب آگے اہل حدیث عالم کی کتاب سے ایک حدیث نقل کرتے ہوئے رقم فرماتے ہیں:
خشیت ان یفرض علیکم قیام ھذا الشھر
مجھے ڈر ہوا کہ اس مہینہ کا قیام تم پر فرض نہ کردیا جائے(رکعات تراویح کی صحیح تعداد ص22)
یہ طریق تعبیر سے یہ چیز اظہر من الشمس ہے کہ یہ نماز خاص اسی مہینہ کی نماز تھی جس کی فرضیت کا آپ کو اندیشہ تھا ، اگر یہ نماز سال کے دوسرے مہینہ میں بھی پڑھی جانے والی نماز ہوتی تو اس کو اس مہینہ کی نماز کے نام سے یاد کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی قیام ھذا الشھر تو وہی نماز ہوگی جس کو اس مہینے سے خصوصی تعلق ہو ۔۔۔الخ (احسن التنقیح ص257)
عرض ہے کہ :
اولا:
یہ روایت ضعیف ہے ، اس کی پوری سند اس طرح ہے :
حدثنا يزيد ، أخبرنا سفيان ، يعني ابن حسين ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة [مسند أحمد ط الميمنية: 6/ 182]
اس سند میں سفیان بن حسین ، یہ زہری سے روایت کررہے ہیں اور سفیان بن حسین جب زہری سے روایت کرتے ہیں تو ان کی روایت ضعیف ہوتی ہے ۔جیساکہ متعدد ائمہ فن نے صراحت کی ہے مثلا:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
ثقة في غير حديث الزهري
یہ زہری کی حدیث کے علاوہ دیگر احادیث میں ثقہ ہے [الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 6/ 404]

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
وهو في غير الزهري صالح الحديث كما قال ابن معين ومن الزهري يروي عنه أشياء خالف فيها الناس من باب المتون ومن الأسانيد.
یہ زھری کے علاوہ دیگر رواۃ سے روایت کرنے میں صالح ہے جیساکہ ابن معین نے کہا ہے ، اور زہری سے ایسی روایات میں نقل کرتا ہے جس کی متون اور اسانید میں دیگر رواۃ کی مخالفت کرتا ہے[الكامل لابن عدي ت عادل وعلي: 4/ 477]
اس روایت کو بھی سفیان نے زہری ہی سے سنا ہے اور مذکورہ الفاظ کے نقل میں اس نے دیگر رواۃ کی مخالفت کی ہے کیونکہ اس واقعہ کے کسی بھی راوی نے مذکورہ الفاظ نقل نہیں کئے ہیں ، لہٰذا اس روایت کے ضعیف ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔
ثانیا:
اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیں تو یہ روایت تراویح اور تہجد کے فرق ہونے پر دلالت نہیں کرتی بلکہ اس کے برعکس تراویح اورتہجد کے ایک ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔
کیونکہ اس حدیث میں «قیام ھذا الشھر » یعنی«اس ماہ کی نماز» کہا گیا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ نماز ہر ماہ میں ہوتی ہے ، جبھی تو رمضان میں اس کے لئے«اس ماہ کی نماز» کی تعبیر استعمال کی گئ ۔
جیسے کہا جائے کہ”اس ماہ کا چاند“ تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ہر ماہ میں چاند ہوتا ہے ، ورنہ کسی ایک ماہ کے ساتھ اسے مقید کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
اس کے طاہر گیا وی صاحب نے علامہ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی ایک تحریر پیش کرکے یہ دکھلانے کی کوشش کی ہے وہ بھی تراویح اور تہجد کی نماز کو الگ الگ نماز سمجھتے تھے حالانکہ موصوف کی نقل کردہ پوری تحریر میں تراویح اور تہجد کی الگ الگ کیفیت بتلائی گئی ہے لیکن انہیں دو الگ نماز نہیں کہا گیا ہے۔اور کیفیت کے الگ الگ ہونے سے نماز کا الگ الگ ہونا لازم نہیں آتا جیساکہ علامہ انور شاہ کشمیری کی زبانی اس کی وضاحت ہوچکی ہے مزید وضاحت آرہی ہے۔

چوتھی دلیل : صحابہ وتابعین کی طرف غلط انتساب
مولانا طاہرگیاوی صاحب فرماتے ہیں:
تہجد اور تراویح کے دو مستقل نماز ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام سے متعلق قرائن اورعلماء کی تصریحات سے یہ بھی ثابت ہے کہ لوگ تراویح کے ساتھ تہجد بھی الگ سے پڑھا کرتے تھے (احسن التنقیح ص264)
عرض ہے کہ تراویح کے ساتھ تہجد پڑھنا ایک واقعہ ہوگا اور واقعہ کا ثبوت قرائن یا علماء کی تصریحات سے نہیں بلکہ صحیح روایت سے ہوتا ہے ، مولانا گیاوی صاحب کو چاہے کہ اپنے اس دعوی پر کوئی صحیح روایت پیش کریں ۔
آگے گیاوی صاحب نے تابعین کے حوالے سے دو روایات بھی پیش کی ہیں ، انہیں بھی دیکھ لیتے ہیں:
1۔ امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
حدثنا أبو الأحوص، عن مغيرة، عن إبراهيم، قال: كان المتهجدون يصلون في جانب المسجد والإمام يصلي بالناس في شهر رمضان [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 5/ 164]
حدثنا أبو خالد الأحمر، عن الأعمش، عن إبراهيم، قال: كان الإمام يصلي بالناس في المسجد والمتهجدون يصلون في نواحي المسجد لأنفسهم[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 5/ 165]
(دیکھئے: احسن التنقیح ص246)
مذکورہ دونوں روایات کاخلاصہ یہ ہے کہ ابراہیم نخعی نے بعض لوگوں کا عمل نقل کیا ہے کہ وہ بوقت جماعت تراویح مسجد کے گوشے میں تہجد پڑھتے تھے۔
عرض ہے کہ اول تو اس میں یہ صراحت نہیں کہ یہ عمل صحابہ کا تھا دوسرے اس میں یہ صراحت ہے کہ یہ تہجد پڑھنے والے جماعت کے ساتھ تراویح نہیں پڑھتے تھے کیونکہ عین جماعت ہی کے وقت یہ تراویح پڑھ رہے ہوتے ، خود طاہر گیاوی صاحب یہ اعتراف کرتے ہوئے بڑے دردناک لہجے میں فرماتے ہیں:
ان روایتوں سے یہ ثابت تو نہ ہوسکا کہ ایک ہی شخص نے تراویح اورتہجد دونوں پڑھی تھی مگر اتنا ضرورثابت ہوا کہ تراویح اور تہجد دونوں کو الگ الگ دو نماز اس وقت بھی لوگ سمجھتے تھے (احسن التنقیح ص265)
عرض ہے کہ الگ الگ نام ان نمازوں کی الگ الگ کیفیت کی بناپر ہے نہ کہ ان دونوں کے مستقل الگ نماز ہونے کے سبب ۔یعنی نماز ایک ہی ہے اگر اسے جماعت کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا نام تراویح ہوگا اور فردا پڑھا جائے تو اس کا نام تہجد ہوگا۔
اس طرح یہ آثار تو الٹا اس بات پر دلیل ہیں کہ یہ حضرات تراویح اورتہجد دونوں کو ایک ہی سمجھتے تھے اسی لئے تراویح پڑھنے والے تہجد نہیں پڑھتے تھے اور تہجد پڑھنے والے تراویح نہیں پڑھتے تھے ۔
تابعین کے مذکورہ غیر متعلق آثار پیش کرنے کے بعد آگے گیاوی صاحب صحابی انس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک اثر امام مروزی کی کتاب سے بے سند نقل کیا ہے (احسن التنقیح ص265)
عرض ہے کہ اس کی سند مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ،چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا عباد، عن سعيد، عن قتادة، عن أنس قال: لا بأس به إنما يرجعون إلى خير يرجونه ويبرؤون من شر يخافونه.
انس رضی اللہ عنہ نے (تعقیب ) کے بارے میں کہا اس میں حرج نہیں ، لوگ خیرکی امید سے واپس آتے ہیں اور شرکے خوف سے اس سے بچتے ہیں [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 5/ 166]
اس کی سند میں قتادہ ہیں جو مشہور مدلس ہیں اور روایت عن سے لہٰذا یہ سند ضعیف ہے ۔
مزید یہ کہ اس سے اصل تہجد نہیں بلکہ عام نفلی نماز ہے جو خارج از بحث ہے۔

پانچویں دلیل: تراویح کے نوافل پڑھنے سے استدلال:
پانچویں دلیل کے طور مولانا طاہرگیاوی صاحب نے جو کچھ رقم کیا ہے اس کا ماحصل ہے یہ ہے کہ بعض اہل علم نے اس پر بحث کی ہے تراویح کی ادائیگی کے بعد نفل پڑھ سکتے ہیں یا نہیں جس سے پتہ چلتا ہے قدیم دور سے ہی تراویح اور تہجد میں فرق کا نظریہ موجود ہے (ماحصل از احسن التنقیح ص270)
جوابا عرض ہے کہ اس بحث میں بھی بعد میں ادا کی جانے والی نماز کا تعلق یا تو عوام نوافل سے ہے جو خارج ازبحث ہے یا اصل صلاۃ اللیل ہی سے ہے صرف کیفیت بدل جانے سے اسے الگ الگ نام سے موسوم کیا ، مثلا اسی ضمن میں موصوف نے فقہ حنبلی سے ایک اقتباس نقل کیا ہے کہ :
ثم التراويح وهي عشرون ركعة يقوم بها في رمضان في جماعة ويوتر بعدها في الجماعة فان كان تهجد جعل الوتر بعده
تراویح بیس رکعت ہے جسے رمضان میں جماعت کے ساتھ پڑھے گا اور آخر میں وتر پڑھے گا ، لیکن اگر تراویح کے بعد اسے تہجد پڑھنا ہو تو وہ وتر تہجد کے بعد پڑے گا (احسن التنقیح ص270)
اس میں جس باجماعت نماز کو تراویح کہا گیا ہے ، اور اس کے بعد جس نماز کا تہجد کہا گیا ہے، یہ دونوں ایک ہی نماز ہیں ، بس جماعت کی کیفیت کے سبب اسے تراویح سے موسوم کیا اور جماعت کے بعد فردا پڑھنے کے سبب اسے تہجد سے موسوم کیا ۔
یعنی یہ کیفیت کا فرق ہے نماز کا فرق نہیں ہے ، یاد رہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک تراویح کی کوئی معین عدد نہیں ہے بلکہ وہ جتنی بھی چاہئے پڑھ سکتاہے جیسا کہ آگے اس کا حوالہ آرہا ہے۔

یہ وہ پانچ بڑی بڑی دلیلیں تھیں جنہیں مولانا طاہرگیاوی صاحب نے بہت نمایاں کرکے پیش کیا تھا بلکہ باقاعدہ ہردلیل کو ہیڈنگ لگاکرپیش کیا تھا ، ان ساری دلیلوں کا مفصل جواب دیا جاچکا ہے اس کے علاوہ جابچا موصوف نے کچھ امور کو بھی فرق کی دلیل بنایا ہے اسی طرح دیگر احناف بھی ، اس ضمن میں کچھ اور باتیں پیش کرتے ہیں اب آگے ہم ان پر بھی بات کرلیتے ہیں ۔

دونوں نمازوں کی کیفیت کے فرق سے استدلال:
احناف کی یہی سب سے مشہور دلیل ہے ، کہ دونوں نمازوں کی کیفیت میں فرق ہے پھر ان فروق کو گناتے ہوئے ہر فرق کو یہ حضرات الگ الگ دلیل کے طور پر گناتے ہیں، اسی طرح مزعومہ دلائل کی اچھی خاصی قطار لگادیتے ہیں۔
حالانکہ کہ ان سارے دلائل کو ایک جملہ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ دونوں نمازوں کی کیفیت میں فرق ہے۔اس لئے یہ بے شمار دلائل نہیں بلکہ ایک ہی دلیل ہے اور وہ ہے دونوں نمازوں کی کیفیت کا الگ الگ ہونا ۔
جوابا عرض ہے کہ :
یہ بات محل نزاع ہی نہیں ہے کہ دونوں نمازوں کی کیفیت میں فرق ہے ، اہل حدیث حضرات کو بھی یہ تسلیم ہے کہ دونوں نمازوں کی کیفیت میں فرق ہے ۔
لیکن کیفیت کا فرق نماز کے فرق کی دلیل نہیں ہے ۔اس کی وضاحت ماقبل میں ہوچکی ہے اور تائید میں علامہ انور شاہ کشمیری حنفی کی عبارت بھی نقل کیا جاچکی ہے۔

وتر سے قبل سونے سے متعلق سوال سے استدلال:
مولانا طاہرگیاوی صاحب کسی بزرگ کا اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ابوسلمہ نے اسی سلسلہ استفسار میں ام المؤمنین سے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم وتر سے پہلے سوجاتے تھے تو ام المؤمنین نے جواب دیا میں نے آں حضرت سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا اور آپ نے فرمایاتھا کہ میری آنکھیں سوجاتی ہیں ، لیکن دل بیدار رہتا ہے (یعنی سوجاتاہوں بخاری ومسلم۔) اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ سوال تہجد ہی کے متعلق تھا ، کیونکہ حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا تہجد کے بعد وتر سے پہلے تو محو خواب ہونا ثابت ہے ، تراویح اور وتر کے درمیان سونا ثابت نہیں ہے۔(التوضیح عن رکعات التراویح ص320احسن التنقیح ص249 )
بریکٹ والے الفاظ ہماری طرف سے نہیں ہیں بلکہ اقتباس ہی کا حصہ ہیں ، اوراس میں حوالہ بخاری ومسلم کا دیا گیا ہے لیکن افسوس ہے کہ بخاری ومسلم میں ہمیں اس سلسلے کی کوئی بھی حدیث نہیں مل سکی جس میں سائل ابوسلمہ نے وتر سے قبل سونے سے متعلق بھی سوال کیا ہو! نا معلوم گیاوی صاحب کے بزرگ مرحوم نے یہ بات کہاں سے اخذ کی ہے اور حوالہ بخاری ومسلم کا دے دیا ہے، اور پھر اسی پر استدلال کی عمارت گھڑی کردی ۔
قارئین بخاری ومسلم سے یہ حدیث نکال کردیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ سائل ابوسلمہ نے وتر سے متعلق ایسا کوئی سوال کیا ہی نہیں، بلکہ انہوں نے صرف صلاۃ رمضان کے بارے میں پوچھا تھا اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں رمضان کے ساتھ ساتھ غیر رمضان کی صلاۃ اللیل کی کیفیت بھی بتلادی اور آخر میں خود اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے وتر سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے سوال و جواب کا حال بھی سنا دیا ۔
اس وضاحت سے موصوف کے استدلال کی پوری عمارت خاک میں مل جاتی ہے ، تاہم اگر یہ فرض بھی کرلیں، یا بخاری ومسلم کے علاوہ کسی اور روایت میں یہ مل بھی جائے، کہ سائل ابوسلمہ نے بعد میں وتر سے متعلق بھی یہ سوال کیا تھا، تو یہ دوسرا اور الگ سوال ہوگا ، لہٰذا اس دوسرے سوال کے جواب سے پہلے سوال کی نوعیت طے کرنا بالکل لغو ، لایعنی اور فضول بات ہوگی ۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
”سننت لكم قيامه“ والی ضعیف حدیث سے استدلال:
أخبرنا محمد بن عبد الله بن المبارك، قال: حدثنا أبو هشام، قال: حدثنا القاسم بن الفضل، قال: حدثنا النضر بن شيبان، قال: - قلت لأبي سلمة بن عبد الرحمن، حدثني بشيء سمعته من أبيك، سمعه أبوك من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ليس بين أبيك وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم أحد في شهر رمضان قال: نعم - حدثني أبي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله تبارك وتعالى فرض صيام رمضان عليكم وسننت لكم قيامه، فمن صامه وقامه إيمانا واحتسابا خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه»
نصر بن علی کہتے ہیں: مجھ سے نضر بن شیبان نے بیان کیا کہ` وہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے ملے، تو ان سے انہوں نے کہا: آپ نے ماہ رمضان کے سلسلے میں جو سب سے افضل قابل ذکر چیز سنی ہوا سے بیان کیجئے تو ابوسلمہ نے کہا: مجھ سے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ نے ماہ رمضان کا ذکر کیا تو اسے تمام مہینوں میں افضل قرار دیا اور فرمایا: ”جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی، تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے ہی نکل جائے گا جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ غلط ہے «أبوسلمة حدثني عبدالرحمٰن» کے بجائے صحیح «أبوسلمة عن أبي هريرة» ہے۔[سنن النسائي 4/ 158 رقم 2210]
اولا:
یہ حدیث ضعیف ہے ، سند میں موجود ”النضر بن شيبان“ ضعیف ہے۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ليس حديثه بشيء
اس کی حدیث کی کوئی حیثیت نہیں ہے [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 476 واسنادہ صحیح]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
لين الحديث ، یہ لین الحدیث ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم7136]
انہیں صرف ابن حبان نے ثقہ کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے :
كان ممن يخطىء
[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 7/ 534]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن حبان کی توثیق کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کہ اس کی صرف ایک ہی حدیث ہے اور اس میں بھی اس نے غلطی کی ہے تو اسے ثقات میں شمار کرنا غلط ہے ان کے الفاظ ہیں
فتضعيف النضر على هذا متعين، اس بناپر نضر کی تضعیف متعین ہے [تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 10/ 439]
واضح رہے کہ اس راوی نے صرف یہی ایک حدیث بیان کی ہے اور اس میں بھی غلطی کردی ہے ، اس لئے اس کی توثیق کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں ہے جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے ۔
دراصل نضربن شیبان نے ابوسلمہ کی حدیث کو رد وبدل کرکے بیان کردیا ہے ، رمضان کے روزے اور قیام کی فضیلت سے متعلق ابوسلمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک حدیث بیان کی ہے جو صحیح بخاری ، رقم(2014) صحیح مسلم ،رقم (759) وغیرہ میں موجودہے ، اس میں وہ الفاظ نہیں ہیں جو نضربن شیبان نے بیان کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ نضربن شیبان نے ابوسلمہ کی حدیث کو بیان کرنے میں غلطی کی ہے اس لئے محدثین نے اس پر جرح کی ہے اور اس کی اس حدیث کو ضعیف قراردیا ہے ۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ورواه الزهري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، ولم يذكر فيه: وسننت للمسلمين قيامه وإنما ذكر فيه: فضل صيامه وحديث الزهري أشبه بالصواب
اس حدیث کو امام زہری نے ابوسلمہ عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس میں ”وسننت للمسلمين قيامه“(اور میں نے مسلمانوں کے لئے اس کے قیام کو مسنون قراردیا)کے الفاظ کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ روزے کی فضیلت کو بیان کیا ہے اور زہری کی روایت ہی مبنی برصواب ہے ۔[العلل للدارقطني، ت محفوظ السلفي: 4/ 283]


طاہر گیاوی صاحب کی ایک فحش غلطی :
ائمہ حدیث کے یہاں یہ بات متفق علیہ ہے کہ نضربن شیبان نے صرف یہی حدیث بیان کی ہے اور ان الفاظ کی روایت میں یہ منفرد ہے ، لیکن طاہر گیاوی صاحب نے نہ جانے کس عالم میں یہ لکھ دیا کہ ایک اور راوی نے نضربن شیبان کی متابعت کی ہے ، طاہر گیاوی یہ دعوی کرتے ہوئے اور امام ذہبی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ بزار نے جو یہ دعوی کیا ہے کہ نضر بن شیبان اس روایت مین متفرد ہے صحیح نہیں ہے:
قلت: وقع لي حديثه عاليا من رواية القاسم بن الفضل الحدانى عنه
میں کہتا ہوں کہ نضربن شیبان والی حدیث ،قاسم بن الفضل الحدانی عن النضر سے بھی ایک عالی سند سے ہاتھ لگی ہے [ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 4/ 258]
حاصل یہ ہوا کہ نضربن شیبان اس روایت میں متفرد نہیں ہے بلکہ ایک دوسرا راوی بھی اسی روایت کو نقل کرتا ہے جس کی سند عالی ہے (۔۔۔آگے فرماتے ہیں۔۔۔)اگر ہم نضربن شیبان کے اندر ضعف تسلیم کربھی لیں توبھی تعدد طرق سے اس کا انجبار ہوجاتا ہے (احسن التنقیح ص380)
ملاحظہ فرمائیں امام ذہبی نے اپنی جو عالی سند ذکرکی ہے وہ بھی اوپر پہنچ کی نضربن شیبان سے ہی ملتی ہے یعنی امام ذہبی کی سند میں بھی یہ ضعیف راوی موجود ہے ، لہٰذا اس سند کا حوالہ دے کریہ کہنا کہ نضربن شیبان اس روایت میں متفرد نہیں ہے ، بہت ہی عجیب وغریب ہونے کے ساتھ اصول حدیث سے ناواقفیت پر بھی غماز ہے ۔
ثانیا:
اگر اس حدیث کو صحیح بھی مان لیں تو قرآن میں جس نمازتہجد کا ذکر ہے وہ عام کیفیت والی نماز تہجد ہے جبکہ رمضان میں یہی تہجد الگ کیفیات میں ادا کی جاتی ہے جس کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور اس کی ترغیب دی ہے ، اس لئے اس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے ۔اس سے صرف دونوں کی کیفیت الگ الگ ہونا ثابت ہوتا ہے نہ کو اصلا دونوں نمازوں کا الگ الگ ہونا جیساکہ ماقبل میں وضاحت کی جاچکی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
صحیح مسلم کی ایک حدیث سے غلط استدلال:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حدثني زهير بن حرب، حدثنا أبو النضر هاشم بن القاسم، حدثنا سليمان، عن ثابت، عن أنس رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يصلي في رمضان، فجئت فقمت إلى جنبه وجاء رجل آخر، فقام أيضا حتى كنا رهطا فلما حس النبي صلى الله عليه وسلم أنا خلفه جعل يتجوز في الصلاة، ثم دخل رحله، فصلى صلاة لا يصليها عندنا، قال: قلنا له: حين أصبحنا أفطنت لنا الليلة قال: فقال: «نعم، ذاك الذي حملني على الذي صنعت» ۔۔۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں نماز پڑھتے تھے ،سو میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر کھڑا ہو گیا اور دوسرا شخص آیا وہ بھی کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ ایک جماعت جمع ہو گئی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری سن گن پائی تو نماز ہلکی پڑھنے لگے ، پھر اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے اور ایسی نماز پڑھی (یعنی بہت لمبی) کہ ہمارے ساتھ نہ پڑھتے تھے، پھر ہم نے صبح کو ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا خبر ہو گئی تھی رات کو ہماری اقتداء کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اسی سبب سے تو میں نے کیا جو کچھ کیا۔“ (یعنی نماز ہلکی کی)۔۔۔ [صحيح مسلم 3/ 775 رقم 1104]

اس حدیث سے یہ مفہوم کشید کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں صحابہ کے ساتھ جو نماز پڑھی تھی وہ تراویح تھی اور خیمہ میں جاکر جو نماز پڑھی تھی وہ تہجد تھی ۔
عرض ہے کہ اس حدیث کا سیاق صاف طور سے دلالت کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں جو نماز پڑھ رہے تھے ، اسی نماز کا بقیہ حصہ جاکر خیمہ میں پڑھا تھا اور مسجد میں اس کا پڑھنا اس لئے بند کردیا تھا کیونکہ آپ کے ساتھ صحابہ بھی شریک نماز ہوگئے تھے ، اورچونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طویل نماز پڑھنا چاہتے تھے اس لئے یہ پسند نہیں فرمایا کہ صحابہ کے ساتھ نماز کو لمبا کریں ، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کی شمولیت محسوس کی تو نماز مختصر کردی اور پھر مسجد سے نکل خیمہ میں چلے گئے اوروہاں جاکر طوالت کے ساتھ اسی نماز کو مکمل کیا ۔
حدیث میں جو یہ مذکور ہے کہ خیمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نماز پڑھی جو ہمارے ساتھ نہیں پڑھتے تھے اس سے مراد نماز کی طوالت ہے ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ مین جتنی طویل نماز پڑھی اتنی طویل نماز ہمارے ساتھ نہیں پڑھتے تھے۔
محمد بن علي بن آدم بن موسى الإثيوبي اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
والمراد أنه صلي الله عليه وسلم صلي في رحلة صلاة طويلة لم يصلها معهم
اس سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خیمہ میں اتنی طویل نماز پڑھی تھی کہ اتنی طویل نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ نہ پڑھتے تھے[البحر المحيط الثجاج في شرح صحيح مسلم بن الحجاج ج20 ص617]

معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات دو الگ الگ نماز نہیں پڑھی ، بلکہ ایک ہی نماز تھی جسے صحابہ کے ساتھ مختصر اداکی اورپھر اسی نماز کو خیمہ میں جاکر طوالت کے ساتھ اداکی ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
کیا امام بخاری رحمہ اللہ تراویح پڑھنے کے بعد الگ سے تہجد بھی اداکرتے تھے :
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أخبرني محمد بن خالد الصوفي، حدثنا مسبح بن سعيد، قال كان محمد بن إسماعيل البخاري: إذا كان أول ليلة من شهر رمضان يجتمع إليه أصحابه فيصلي بهم، فيقرأ في كل ركعة عشرين آية، وكذلك إلى أن يختم القرآن، وكذلك يقرأ في السحر ما بين النصف إلى الثلث من القرآن، فيختم عند السحر في كل ثلاث ليال، وكان يختم بالنهار كل يوم ختمة، ويكون ختمه عند الإفطار كل ليلة ويقول: " عند كل ختمة دعوة مستجابة "
مسبح بن سعید کہتے ہیں کہ محمدبن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کا معمول یہ تھا کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی تو آپ کے شاگرد آپ کے ساتھ جمع ہوتے ، امام بخاری رحمہ اللہ انہیں نماز پڑھاتے اور ہررکعت میں بیس آیات پڑھتے یہاں تک کہ قرآن ختم کرتے ، اسی طرح سحر کے وقت بھی قرآن کے آدھے اور تہائی حصے کے درمیان پڑھتے ،اس طرح ہرتین رات میں سحرکے وقت ایک قرآن ختم کرتے ، اور دن میں بھی روزآنہ ایک قرآن ختم کرتے ، اور یہ ختم افطار کے وقت ہر رات ہوتا ، اور فرماتے کہ ہرقران کے ختم کے بعد دعاء قبول ہوتی ہے[شعب الإيمان 3/ 524، مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 481]

اس روایت کی بناپر کہا جاتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تراویح کے ساتھ سحر کے وقت نمازتہجد بھی پڑھتے تھے ۔
عرض کہ:
اولا:
اس روایت میں سحر کے وقت نماز تہجد پڑھنے کی صراحت نہیں ہے بلکہ صرف قرآن پڑھنے کی صراحت ہے ، نیز اسی روایت میں آگے یہ بھی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ دن میں بھی قرآن ختم کرتے تھے تو کیا اس سے یہ مراد ہوگا کہ دن میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ کسی طرح کی نماز پڑھتے تھے اور اسی میں قرآن ختم کرتے تھے ؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی ایسی بات نہیں کہہ سکتا ۔ لہذا سحر کے وقت بھی جب صرف قرآن پڑھنے کا ذکر ہے تو بغیر کسی صریح دلیل کے یہاں نماز کے اندر قرآن پڑھنا مراد نہیں لیا جاسکتا۔
ثانیا:
یہ روایت ثابت بھی نہیں ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ سے یہ بات نقل کرنے والے ”مسبح بن سعيد“ ہیں ، بعض سندوں میں یہ نام کاتبوں نے غلط لکھا ہے لیکن صحیح نام ”مسبح بن سعيد“ ہی جیسا کہ اکثر کتابوں میں ہے دیکھئے:[شعب الإيمان 3/ 524، تاريخ دمشق لابن عساكر: 52/ 79، تغليق التعليق لابن حجر: 5/ 399]
نیز دوسری روایات کی کئی سندوں میں بھی یہی نام ہے ، یہ ”أبو جعفر مسبح بن سعيد الوراق،البخاري“ ہیں ، ان کے حالات اور ان کی توثیق ہمیں نہیں مل سکی ۔
ان کا امام بخاری کا شاگر ہونا او ان کی بعض کتب کاراوی ہونا ان کی توثیق کے لئے کافی نہیں ہے۔
بعض اہل علم نے ان کی روایت پر غالبا اس لئے اعتماد کیا ہے کہ یہ امام بخاری کے شاگر د ہیں اورجب شاگر اپنے استاذ کے بارے میں بیان دےرہیں تو اس میں ضبط کی کوتاہی نہیں ہوسکتی ۔یہ بات درست ہے کہ لیکن ایسا اس صورت میں مانا جاسکتا ہے جب مسبح بن سعید کا ترجمہ دستیاب ہو اور اہل علم نے کم ازکم ان کی اتنی تعریف وتوصیف کی ہو کیا ان کا عادل ہونا اورامانت دار ہونا ثابت ہوجائے ۔واللہ اعلم۔
 
Top