• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا- کتنے تھریڈ بنے اس پر لیکن ہاتھ باندھنے پر کوئی دلیل نہ دی گئی

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا- کتنے تھریڈ بنے اس پر لیکن ہاتھ باندھنے پر کوئی دلیل نہ دی گئی- حالانکہ اس پر مختلف تھریڈ پر بحث ہوئی



شیخ @کفایت اللہ نے کہا کہ

رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے والوں کودلیل دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی عمل نہیں ہے بلکہ ہاتھ کو اپنے اصلی حالت پرچھوڑدینا ہے لہٰذا جب کوئی عمل ہی نہ کرے تو اسے دلیل دینے کی ضرورت ہی نہیں ۔

رہی بات یہ کہ پھر اس موقع پر نمازی کوئی عمل کیوں نہیں کررہاہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نماز میں اصلا ساری چیزیں حرام ہیں ،تکبیر تحریمہ کا یہی مطلب ہے کہ اس تکبیر نے ساری چیزوں کو حرام کردیاہے، صرف وہی چیز کرسکتے ہیں جس کا ثبوت ہو۔
لہٰذا جہاں کسی عمل کا ثبوت نہ ہو وہاں اصلی حالت میں رہیں گے۔


@شاہد نذیر بھائی کہتے ہیں کہ

جب رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے والوں کی اکثریت سرے سے اس مسئلہ کو اجتہادی ہی تسلیم نہ کرے بلکہ بعض متشددین تو اسی مسئلے کو دوستی اور دشمنی کا معیار بنالیں اور وضع الدین بعد الرکوع پر عامل علمائے کرام اس پر خاموش تماشائی ہوں الا ماشاءاللہ تو فتنے کی سرکوبی کے لئے مناظرے کی نوبت آجانا ایک فطری اور جائز عمل ہے۔


@محمد ارسلان جو اردو مجلس فورم پر اب بین ہو چکے ہیں سوال پوچھتے ہیں کہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکتہ

مجھے یہ پوچھنا ہے کہ جتنے بھی امام کعبہ صاحب ہیں وہ رکوع سے اٹھنے کے بعد رفع الیدین کرنے کے بعد سینے پر ہاتھ باندھ لیتے ہیں اور ہاتھ کھلے نہیں چھوڑتے ایسا کیوں ہے کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں شکریہ۔


شیخ @محمد رفیق جواب میں ہاتھ باندھنے کو ایک اجتہادی غلطی کہتے ہیں-

لنک




علامہ البانی رحمہ الله کے نزدیک یہ فعل گمراہ کن بدعت ہے . وہ اسکے بارے میں یوں لکھتے ہے :

1.jpg
2.jpg
3.jpg


اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ : ” جب تم رکوع سے اٹھو تو اپنی پیٹھ بلکل سیدھی رکھو اور اپنے سر کو اس طرح اٹھائے رکھو کہ ہڈیاں اپنے جوڈوں پر لوٹ آئیں (٣)

حاشیہ :

(٣) : اس حدیث کا مدعا و مقصد بلکل واضح ہے رکوع کے بعد والے اس قیام میں غایت درجہ اطمنان ہونا چاھے. مگر رہا علماء حجاز وغیرہ کا اس حدیث سے اس قیام میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنے کی سنیت پر استدلال کرنا ,حدیث “مسئ الصلواۃ ” کی مجموعی روایات سے بعید ازکار ہی نہیں بلکہ باطل ہے. کیونکہ جب اس حدیث کے کسی لفظ یا سند میں قیام اول میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر بھاندنے کا ذکر ہی نہیں تو بھلا ( ساری ہڈیاں اپنی جگہ پر آجائیں ) یا ( ساری ہڈیاں اپنے اپنے جوڈوں پر لوٹ آئیں ) کے الفاظ سے رکوع کے بعد والے قیام میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر بھاندنے پر اس حدیث سے استدلال کس طرح روا ہوگا ؟ یہ تو اس وقت صحیح ہوتا جب حدیث کے مجموعی الفاظ اس استدلال پر مساعد و مددگار ہوتے مگر یہاں تو حال یہ ہے کہ حدیث کی دلالت واضح طور پر اس استدلال کے برعکس جا رہی ہے.

پھر یہان ہاتھوں کا سینے پر بھاندنے کا اس حدیث سے یقیناً کوئی تعلق نہیں.کیونکہ یہاں اس حدیث میں ہڈیوں سے مراد پیٹھ کے ریڑھ کی ہڈیاں ہے. جیسا کہ بیان ہوا اور اسکی تائید نبی صلی علیہ وآلہ کی ماسابق فعل ” آپ رکوع سے اس طرح کھڑے ہوتے ہے ریڑھ کی ساری ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر آگیئں ” سے بھی ہوتی ہے. پس قاری کو بانصاف غور و فکر سے کام لینا چاھے اور مجھے اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کہ رکوع کے بعد والے اس قیام میں سینے پر ہاتھ باندھنا ایک گمراہ کن بدعت ہے کیونکہ نماز کے بارے میں احادیث کی کثرت کے باوجود اس بات کا کسی بھی حدیث میں بھی ذکر نہیں اور اگر اسکی کوئی حقیقت ہوتی تو کسی ایک ہی سئی روایت میں اس کا ذکر ضرور ہوتا اور اسکی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ میرے علم میں علماء سلف میں کوئی بھی اس پر عمل پیرا نہیں اور نہ ہی ائمہ الحدیث نے اسکو ذکر کیا ہے.

رہا شیخ تویجری کا اپنے رسالہ صفحہ ١٨ -١٩ میں امام احمد سے نقل کرنا کہ رکوع کے بعد نمازی کو اختیار ہے کہ ہاتھ کھلا چھوڑ دے یا ہاتھ سینے پر باندھ دے. دراصل یہ اس روایت کا خلاصہ ہے جسکو صالح بن احمد نے ” مسائل احمد بن حنبل ” صفحہ ٩٠ پر اپنے والد سے ذکر کیا ہے. لیکن اس سے ھماری بات کی تردید نہیں بلکہ یہ کوئی مرفوع حدیث نہیں بلکہ امام احمد کا قول ہے جسے انہوں نے اپنے اجتہاد و رائے سے کہا ہے اور انسان سے اجتھاد میں غلطی کا امکان موجود ہے. پس جب کسی فعل کے بدعت ہونے پر — جیسا کہ یہ فعل ہے — صحیح دلائل قائم ہوجائے تو کسی امام کا اسکا قائل ہونا اسکے بدعت ہونے کے منافی نہیں جیسا کہ شیخ ابن تیمیہ نے اپنی بعض کتابوں میں اس بات کی وضاحت کی ہے. اور مجھے تو خود امام احمد کی اس بات سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھوں کا اس قیام میں سینے پر رکھنا ان کے یہاں سنت سے ثابت نہیں کیونکہ امام صاحب نے نمازی کو اسکے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا ہے تو کیا شیخ تویجری صاحب یہ گمان کریں گے کہ امام احمد رکوع سے پہلے والے قیام میں بھی نمازی کو اختیار دے سکھتے ہے. پس ثابت ہوا کہ نماز میں رکوع کے بعد والے قیام میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر بھاندنا سنت نہیں اور ھم یہی ثابت کرنا چاھتے ہیں ……….


aaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaa


@حافظ عمران الہی بھائی کہتے ہیں کہ

اگر ہاتھ باندھنے کی کوئی دلیل ہے تو اسے سامنے لایا جانا ہی بہتر ہے، ویسے اس بارے میں کوئی دلیل سرے سے موجود ہی نہیں ہے اس لیے یہ عمل خلاف سنت ہے واللہ اعلم بالصواب

aaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaa


ایک اہلحدیث عالم دین محفوظ الرحمان فیضی نے اس کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے فاضل مدنی کے دلائل کا رد کیا ہے جو رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا قائل تھا - لکھتے ہیں کہ :


rd 1.jpg
rd 2.jpg


۶- پانچویں دلیل یہ بیاں فرمائی گئی ہے :

” علماء سابقین کی ایک جماعت نے رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ رکھنے کی سنیت کی تصریح کی ہے ”

حالانہ حقیقت یہ ہے کہ ” علماء سابقین کی جماعت ” تو کیا ان میں سے کسی ایک عالم نے بھی اس کو سنت نہیں کہا ہے، اور سنیت کی تصریح تو کیا کسی نے اس کا اشارہ بھی نہیں کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰اتنا بڑا دعوہ تو کردیا گیا لیکن ” علماء سابقین ” میں سے کوئی ایک نام بھی پیش نہیں کیا جا سکا ، اور البنایہ – للعینی ( جلد ۲// صفحہ ۲۱۱ ) سے جو دو چار نام پیش کیا گیا ہے وہ بعد کے فقہاء حنفیہ ہیں ، جنھوں نے امام ابو حنیفہ ، ان کے تمام اصحاب اور جملہ فقہاء جنفیہ اور ان کے مذھب سے شذوز اختیار کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ” رکوع کے بعد قومہ میں بھی ہاتھ باندھ لیا جائے” لیکن کس دلیل کی بناء پر ؟ نہیں !! محض شیعہ کی مخالفت میں ، چناچہ علامہ عینی اسی البنایہ شرح الہدایہ میں ان فقہاء کی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ موقف اس لئے اختیار کیا ہے کہ :

روافض لعنت الله علیھم سے امتیاز متحقق رہے کیونکہ روافض کا مذھب ابتداء صلوۃ سے ( قیام ، قومہ ہر حال میں ) ارسال یدین ہے سو ھم اول صلوۃ سے انکی مخالفت کریں گے ( قیام کے ساتھ قومہ میں بھی وضع یدین کریں گے )

یہ بھی کوئی دلیل ہے ؟ کہ اس پر مبنی قول اور اس کے قائل کو بطور حجت قابل ذکر سمجھا جائے ؟


@خضر حیات بھائی کیا محفوظ الرحمان فیضی کا جواب صحیح ہے - یہاں @اشماریہ بھائی اور دوسرے حنفی بھائی سے بھی جواب کی توقع ہے خاص کر محفوظ الرحمان فیضی نے جو یہ کہا ہے

البنایہ – للعینی ( جلد ۲// صفحہ ۲۱۱ ) سے جو دو چار نام پیش کیا گیا ہے وہ بعد کے فقہاء حنفیہ ہیں ، جنھوں نے امام ابو حنیفہ ، ان کے تمام اصحاب اور جملہ فقہاء جنفیہ اور ان کے مذھب سے شذوز اختیار کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ” رکوع کے بعد قومہ میں بھی ہاتھ باندھ لیا جائے” لیکن کس دلیل کی بناء پر ؟ نہیں !! محض شیعہ کی مخالفت میں ، چناچہ علامہ عینی اسی البنایہ شرح الہدایہ میں ان فقہاء کی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ موقف اس لئے اختیار کیا ہے کہ :

روافض لعنت الله علیھم سے امتیاز متحقق رہے کیونکہ روافض کا مذھب ابتداء صلوۃ سے ( قیام ، قومہ ہر حال میں ) ارسال یدین ہے سو ھم اول صلوۃ سے انکی مخالفت کریں گے ( قیام کے ساتھ قومہ میں بھی وضع یدین کریں گے )
 
Top