• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زكوة كے فوائد، اقسام اور مصارف

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
664
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
زكوة كے فوائد، اقسام اور مصارف


الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین ۔أما بعد
زکوۃ کی ادائیگی میں بہت سارے لوگ تساہل سے کام لیتے ہیں اور اسے شرعی طریقے سے ادا نہیں کرتے ،حالانکہ زکوۃ کی ادائیگی ارکان اسلام میں سے ایک اہم ترین رکن ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((بنی الاسلام علیٰ خمس :شھادۃ ان لاّ ا لٰہ الّا اللّٰہ وانّ محمّدا رسول اللّٰہ ،واقام الصّلٰوۃ،وایتاء الزّکوٰۃ،وحجّ البیت ،وصوم رمضان))[رواہ البخاری ومسلم]
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے :گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ،نماز قائم کرنا ،زکوٰۃ ادا کرنا،بیت اللہ کا حج کرنا،اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔‘‘
٭مسلمانوں پر زکوۃ کا فرض ہونا محاسن اسلام میں سے ہے ،کہ غریب مسلمانوں کی مدد ہو سکے اور وہ اچھی زندگی گزار سکیں۔
٭زکوۃ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ غریب اور امیر کے درمیان محبت پیدا ہوتی ،کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر احسان کرنے والے سے محبت کرتا ہے۔
٭زکوۃ کا ایک فائدہ اپنے نفس کو کنجوسی اوربخیلی جیسے رذائل اخلاق سے بچانا ،اور اس کا تزکیہ کرنا بھی ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((خُذْ مِنْ أَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا))[التوبۃ:۱۰۳]
’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے‘جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں ۔‘‘
٭فوائد میں سے مسلمان کوجود وکرم اور حاجت مند پر نرم دل ہونے جیسی اچھی صفات کاعادی بنانا بھی ہے۔
٭فوائد میں سے اپنے مال میں برکت ،زیادتی اور اچھے وارث کا حصول بھی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْیئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ وَھُوَ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ))[سبا:۳۹]
’’تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں کرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا)بدلہ دے گا ،اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والوں میں ہے۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((یقول اللّٰہ عزوجل :یاابن آدم ،أنفق ننفق علیک)) [بخاری،مسلم]
’’کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:اے ابن آدم،تو خرچ کر ہم تجھ پہ خرچ کریں گے۔‘‘
٭انفاق فی سبیل اللہ میں بخل کرنے والے اور زکوۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سخت وعید فرمائی ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ٭یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِی نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ))[التوبۃ:۳۴،۳۵]
’’اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ،انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا)یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔‘‘
ہر وہ مال جس کی زکوۃ نہ نکالی جائے وہ کنز ہے جس کے ساتھ صاحب کنز کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’جس شخص کے پاس سونا یا چاندی موجود ہے اور وہ اس کی زکوۃ ادا نہیں کرتا ،قیامت کے دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے، اس مال کی سلاخیں بنائی جائیں گی اور اس شخص کی پیشانی ،پہلؤوں اور کمر کوداغا جائے گا ۔‘‘[مسلم،ابوداؤد،أحمد]
٭نبی کریمﷺ سے صحیح ثابت ہے کہ:
((من آتاہ اللّٰہ مالا فلم یؤد زکاتہ مثل لہ شجاعا أقرع لہ زبیبتان یطوقہ یوم القیامۃ،ثم یأخذ بلھزتیہ ثم یقول :أناکنزک،أنامالک[بخاری،ابن ماجہ،أحمد]
’’جس شخص کو اللہ نے مال سے نوازا ہے اور وہ اس کی زکوۃ نہیں نکالتا قیامت کے دن اس کے مال سے ایک چتکبرا دو ڈنگوں والا اژدھا بنایا جائے گا جو اس کے گلے میں پہنا دیا جائے گا،وہ اس آدمی کو اپنے جبڑوں میں دبا کر کہے گہ میں تیرا مال اور خزانہ ہوں ۔‘‘اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کی:
((وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْراً لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ))[آل عمران:۱۸۰]
’’جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لئے نہایت بد تر ہے،عنقریب قیامت والے یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے۔‘‘
٭چار اصناف میں زکوۃ واجب ہے :زمین سے نکلنے والا اناج اور پھل ، چوپائے ، سونا چاندی اور سامان تجارت۔اور ان میں سے ہر صنف کا ایک محدود نصاب ہے جس سے کم میں زکوۃواجب نہیں ۔
٭پھلوں اوراناج کا نصاب پانچ وسق ہے ،اور ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے ۔یعنی مکمل نصاب تین سو صاع ہو گیا۔(جو تقریبا بیس من بنتا ہے)اس سے کم میں زکوۃ واجب نہیں ہے۔نصاب مکمل ہو جانے کے بعداس میں سے عشر یعنی دسواں حصہ زکوۃ نکالنا واجب ہے اگر وہ کھیتی بارش یا چشمہ وغیرہ کے پانی سے سیراب ہوئی ہے ۔اور اگر اس کھیتی کو مشقت کے ساتھ یعنی کنوئیں یا ٹیوب ویل سے سیراب کیا گیا ہے تو اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ زکوۃ ادا کی جائے گی جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
٭اونٹ،گائے اور بکریوں کا نصاب بھی احادیث میں موجود ہے جن کی تفصیل جاننے کے لئے اہل علم سے سوال کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ پوری تفصیلات کو اس چھوٹے سے پمفلٹ پر لکھنا مشکل ہے۔
٭سونے اور چاندی کا نصاب بھی احادیث سے واضح ہے ،چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ،جبکہ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے ہے۔چاندی اور سونے کا نصاب مکمل ہو جانے کے بعدجب اس پرایک سال گزر جائے تو اس میں سے اڑھائی فیصد یعنی چالیسواں حصہ زکوۃ ادا کی جائے گی۔
٭نقد کرنسی بھی سونے اور چاندی کے نصاب میں داخل ہے خواہ وہ ریال کی شکل میں ہو یا ڈالر کی شکل میں ،درہم ودینار کی شکل میں ہو یا روپے پیسے کی شکل میں۔جب کرنسی کی قیمت سونے اور چاندی کے نصاب کے برابر ہو جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں زکوۃ واجب ہو جاتی ہے۔عورتوں کے زیورات بھی سونے چاندی کے نصاب میں شامل کئے جائیں گے خواہ وہ گھریلواستعمال کے لئے ہوں یا کرایہ پر دینے کے لئے ہوں،سال گزرنے پر ان زیورات میں بھی زکوۃ واجب ہے۔
٭سامان تجارت میں بھی زکوۃ واجب ہے ۔وہ اس طرح کہ سال کے آخر میں موجود سامان تجارت کا حساب لگایا جائے گا اور اس میں سے ربع عشر یعنی چالیسواں حصہ زکوۃ نکالی جائے گی۔خواہ اس سامان کی قیمت درمیان سال کم ہو یا زیادہ۔حضرت سمرہ سے روایت ہے کہ :
((کان رسول اللّٰہ ﷺ یأمرنا أن نخرج الصدقۃ من الذی نعدہ للبیع))
’’کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں سامان تجارت سے زکوۃ نکالنے کا حکم دیتے تھے۔‘‘اسی حکم میں وہ زمین بھی شامل ہے جو تجارت کی غرض سے لی گئی ہو۔یا وہ عمارتیں بھی شامل ہیں جو بیچنے کے لئے بنائی گئی ہوں یا وہ مشینیں بھی شامل ہیں جو تجارت کی غرض سے رکھی ہوئی ہوں۔
٭لیکن وہ عمارتیں اور گاڑیاں جو بیچنے کے لئے نہیں بلکہ کرائے پر دینے کے لئے بنائی گئی ہیں ۔ان کے کرائے میں زکوۃ واجب ہے جب ایک سال گزر جائے۔
٭اسی طرح جمہور اہل علم کے نزدیک یتیموں وغیرہ کے مالوں میں بھی زکوۃ واجب ہے اگر وہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے۔اور ان کے اولیاء پر واجب ہے کہ وہ ان کی طرف سے نیت کر کے ان کے مال کی زکوۃ ادا کریں۔نبی کریم ﷺ نے جب حضرت معاذ کو گورنر بنا کر یمن کی روانہ کیا تو ساتھ ساتھ فرمایا:
((ان اللّٰہ افترض علیھم صدقۃ فی أموالھم تؤخذ من أغنیائھم وترد فی فقرائھم))
’’کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں زکوۃ کو واجب قرار دیا ہے جو ان کے اغنیاء سے لی جائے گی اور فقیروں میں لوٹا دی جائے گی۔‘‘
٭زکوۃ اللہ تعالیٰ کا حق ہے،لہذا کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنی محبت میں آ کر کسی غیر مستحق کو دے دے ،یا اس زکوۃ سے اپنے لئے فوائد حاصل کرے یا نقصانات دور کرے۔یا اس کے ساتھ اپنے مال کو محفوظ کرے۔بلکہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خلوص نیت اور اطمینان قلب سے اس زکوۃ کو اس کے مستحقین تک پہنچانے میں کوشش کرے،اور اللہ سے اجر کی امید رکھے۔
٭اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر مستحقین زکوۃ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمَؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَِریْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ))[التوبۃ:۶۰]
’’صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور راہرو مسافروں کے لئے ،فرض ہے اللہ کی طرف سے،اور اللہ علم وحکمت والا ہے۔‘‘
 
Top