- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
تیسرا مرحلہ: زمانہ عروج
یہ تیسری اور چوتھی صدی کا عرصہ ہے۔ یہ دونوں صدیاں علم حدیث کے عروج کی ہیں۔ ہزاروں طلبہ اپنے معاصرسینئر مشایخ کے اردگرد بیٹھے علم حدیث اور علم سنت حاصل کرتے ہیں۔ اسلامی ممالک اور ان کے دار الخلافوں میں طالبان حدیث کا اژدحام ہے۔ مسجد، منزل، اور کھلے میدان ، جہاں کہیں شیخ کا بسیرا ہے طلبہ کی وہاں آمد ورفت ہے ان کے پاس قلم ، دوات اور کاغذ ہیں۔ صحرا، ہائی ویز اور سرائیں سبھی اس زمانہ میں ایک عجیب منظر پیش کررہی ہیں کہ طلبہ سے لدی سواریاں جوق در جوق روانہ ہورہی ہیں۔قافلے در قافلے بخارا سے قرطبہ واشبیلیہ کی طرف اور قوقاز سے صنعاء وعدن کی طرف متحرک ہیں اور ایک سفر کے بعد دوسرے سفر کاتسلسل ہے۔یہ سب رحلہ فی الحدیث کے مناظر ہیں جو شاید ان دو صدیوں کے بعد آسمان نے نہیں دیکھے۔اس دور میں بے شمار علوم نے انگڑائی لی اور ان علماء کے ذریعے لی جو اس وقت حیات تھے اورعلم ودین کے پیکر اور آنے والی نسلوں کے لئے قدوہ (Role model)تھے۔
تیسری صدی علم حدیث کی صدی قرار پائی جس میں حدیث اور علم حدیث میں امہات کتب لکھی گئیں ۔یہ صدی مسند احمد کے علاوہ امام بخاری ومسلم کی صحیحین کی صدی ہے اور کتب سنن کی بھی۔یعنی اصحاب ستہ کی۔ چنانچہ حدیث کو زیادہ مربوط صورت میں پیش کرنے کا خیال محدثین کے ذہن میں سمایا۔ جو تفصیلاً ملاحظہ کیجئے۔
٭ …اس صدی میں فقہاء محدثین میں یہ شعور بیدار ہوا کہ علوم اسلامیہ کی مختلف انواع میں انفرادی کتب تو ضرور موجود ہیں جن میں عقیدہ، فقہ، تفسیر، مغازی، سیر، زہد، رقاق، فضائل اور آداب جیسے موضوعات میں بے شمار احادیث و آثار جمع کردئے گئے ہیں۔نیز سنن، جوامع اور موطآت بھی محض فقہی احکام کی احادیث وآثار کو اپنے پہلو میں لئے ہوئے ہیں۔ کتب السیر اور المغازی بھی مخصوص موضوع پر روشنی ڈال رہی ہیں، یہی حال کتب تفسیر کا ہے کہ وہ فقہ ومغازی کی احادیث وآثار کا ذکر ہی نہیں کرتیں۔ رہے اجزاء حدیثی ان کا ہر جزء خاص موضوع اور خاص باب کی احادیث وآثار کو بیان کرتا ہے۔ توکیوں نہ کچھ کتب ایسی لکھی جائیں جن میں ان تمام مضامین پر سیر حاصل مواد ہو اور جامع قسم کی ہوں؟