• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زمانہ عروج

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… محمد بن اسحق (م: ۳۱۱ھ) کی صحیح ابن خزیمہ، سعید بن عثمان المعروف بابن السکن(م: ۳۵۳ھ) کی الصحیح المنتقی، امام طحاویؒ(م: ۳۲۱ھ) کی شرح معانی الآثار وغیرہ کی کتب بھی اس عرصہ میں منظر عام پر آچکی تھیں۔

٭…امام ابن حبانؒ(۲۷۵۔۳۵۴ھ) کی نقد رواۃ میں کتب الثقات اور الضعفاء اہل علم میں خاصی معروف ہیں۔۔ابو احمد بن عدیؒ(۲۷۷۔۳۶۵ھ) کی ایک شاندار کاوش الکامل فی الضعفاء کے نام سے ہے۔ کتاب مطبوعہ ہے۔امام دار قطنیؒ (۳۰۶۔۳۸۵ھ) کی بہت سی کتب ِحدیث ہیں۔ نقد میں ان کی لاجواب ضخیم کتاب العلل ہے۔

٭… مختلف الحدیث یا ناسخ ومنسوخ فی الحدیث پر کتب لکھ کر مزعومہ اختلافِ حدیث کو محدثین کرام نے اپنی کمال بصیر ت سے حل کردیا تھا۔ اوراسے رفع کرنے کی بہت ہی آسان سبیلیں بھی بتائیں۔ جنہیں پڑھ کر یقیناً ایک لاتعلق ناقد کو بھی شرم آتی ہے۔گم راہ کن نظریاتی پس منظر رکھنے والا شخص تو اپنی عقلی تاویلات وتوجیہات پیش کرتا ہے۔ اسے محدثین کرام کی صحیح ومتصل سند کے ساتھ کیا غرض؟ وہ تو اسے بھی بسااوقات قرآن کے خلاف ہی سمجھ بیٹھتا ہے۔

٭… مصنف شعبہ بن حجاجؒ(۱۶۰ھ)، موطأ امام مالک (م:۱۷۹ھ)، الجامع الکبیر والجامع الصغیر ازسفیان ثوری(م: ۱۶۱ھ) ، مصنف از امام لیث بن سعد(م: ۱۷۵ھ) مصنف از امام سفیان بن عیینہؒ(م: ۱۹۸ھ)، موطأعبد اللہ بن وہب(م: ۱۹۷ھ)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… یحییٰ بن سعید القطان (م: ۱۹۸ھ)، عبد الرحمن بن مہدی(م: ۱۹۸ھ) نے اپنے استاذ یحییٰ القطان کی دو ہزار احادیث اپنی کتاب میں شامل کیں جنہیں وہ انہی کی زندگی میں روایت کیا کرتے تھے، (تہذیب الکمال ۳۱؍۳۳۶) محمد بن ادریس الشافعی(م: ۲۰۴ھ) ، یزید بن ہارون واسطی(م: ۲۰۶ھ) جن کی مجالس علمیہ میں ستر ہزار لوگ ہوا کرتے۔(تہذیب الکمال ۳۲؍۲۶۸)اور عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی(م: ۲۱۱ھ)۔

٭…امام شافعیؒ نے کتاب الرسالہ میں اصول حدیث کے قواعد اور ان کے نظائر پر اپنی تنقیحات پیش کیں۔

٭…مصنف ابن ابی شیبہ(م: ۲۳۵ھ)، مصنف سعید بن منصور(م: ۲۲۷ھ)، یہ دونوں کتب، فتاوی واقوال صحابہ وتابعین اورتبع تابعین کا انسائیکلوپیڈیاہیں نیز اس دور کے اجتہادی رویوں کی معلومات دیتی ہیں۔

٭…حدیث کے بارے میں ظن در ظن کی گردان کر کے یہی عقل مندسارا ذخیرہ ٔحدیث کمزور قرار دیتے ہیں مگر جج کی ظنی شہادتوں پر مبنی فیصلہ کو نہ صرف مانتے ہیں بلکہ قبول بھی کرتے ہیں حالانکہ صدق وکذب کو جانچنے کے لئے جج کے پاس بھی کوئی ترازو یا آلہ نہیں ہوتا بلکہ ظن غالب اور شواہد کی بنیادپر اس کے فیصلہ کا دار ومدار ہوتا ہے۔جج بھی آخر نبی نہیں ہوتے کہ یقینی شہادت کو وہ اپنے سامنے لا سکیں بلکہ وہ شاہد میں محض ظاہری صفات دیکھ کر اسے پہچان لیتا ہے کہ یہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ کاروبار دنیا ظن پر ہی چل رہاہے ۔ یہ دنیا احتمالات کی دنیا ہے۔یقین یہاں مہیا نہیں ہوسکتا۔دینی معاملات میں بھی یقین کا مطالبہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے نہیں کیا بلکہ اس نے عام دینی معاملات کی بنیاد ظنِ غالب پر رکھی ہے۔ اسی طرح حدیث کے صحیح وضعیف ہونے کا فیصلہ محدثین نے راوی اور حدیث کی ظاہری صفات کو دیکھ کر ظن غالب کی بنیاد پر ہی دیا ہے۔رہی جھوٹی شہادتیں اور بازاری افواہیں! ان میں کتنی قوت ہے؟ اس کا اندازہ آئے دن کے اخبارات ، میگزین اور ٹی وی میں شائع ہونے والی خبروں اور رپورٹس پڑھ کر کیا جاسکتا ہے۔ راویوں کا نام ونشان تک معلوم نہیں ہوتا۔ پھر ان افواہوں میں سے وہ واقعات منتخب ہوجاتے ہیں جو قیاس و اندازے کے مطابق ہوں۔ یہی بعد میں دیومالائی کہانیاں بن جاتی ہیں۔یورپین یا عیسائی تصنیفات میں یہی کچھ ملتا ہے مگر کیا ایسی کہانیوں اور خبروں میں راوی کی جزوی معلومات تو کیا ثقاہت وعدم ثقاہت بھی دیکھی جاتی ہے؟ غرض یہ کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ بھی جھوٹ نظر آئے مگر محدثین کرام نے اس مشکل کام کے لئے اپنی عمریں کھپائیں اور ایک ایک شہر میں جاکر راوی سے خود ملے اور اس کے عزیزو اقراباء وغیرہ سے معلومات لیں اور انہیں فراہم کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… پانچ لاکھ سے زائد راویوں میں چند سو ہی راوی شاید ایسے ہوں گے جن کے بارے میں محدثین کی تنقید میں تضاد ہے۔مگر لاکھوں کے مقابلہ میں ان کی حیثیت کیا یہ ہونی چاہئے کہ سارا ذخیرۂ حدیث ہی مشکوک ہو جائے؟ کتنے فقہاء، مفسرین، اور مجتہد و دانشور ایسے گذرے ہیں جو اپنی علمی سرگرمیوں کے دوران ہی فوت ہوگئے۔مگر کیا لوگ انہی پر ہی جئے یا مزید علماء وفقہاء اور مفسرین کو انہوں نے قبول نہیں کیا؟ یاد رکھئے! محدثین نے کسی بھی راوی یا عالم وفقیہ کی توثیق کی بنیاد اس کی مقبولیت یا شہرت پر قطعاً نہیں رکھی۔معاصر علماء کی باہمی چشمک کو محدثین کرام نے نہیں بلکہ فقہاء کرام نے بھی نظر انداز کیا ہے اور یہی فرمایا ہے:
لا َیُقْبَلُ قَولُ بَعْضِ الْعُلَمَائِ فِی بَعْضٍ إِلاَّ بِبَیِّنَۃٍ۔
کسی عالم کی دوسرے عالم کے خلاف بات کو قبول نہیں کیا جائے تاآنکہ کوئی دلیل ہو۔ کہ وہ بہک گیا ہے یا وہ مبتدع ہے یا بدعمل ہے ۔ اسی طرح ان کا یہ قول بھی:
اَلْمُعَاصَرَۃُ تُثِیْرُ الْمُنَافَرَۃَ۔
معاصرت نفرت کو انگیخت کرتی ہے۔یہ انسانی فطرت ہے کہ اپنے مدمقابل کی خوبی یا قابلیت اسے پسند نہیں آتی بلکہ نفرت پیدا کرتی ہے۔ جیسے تعلیم،تدریس، سیاست، حکومت، نوکری وغیرہ ہر شعبہ زندگی میں باہم کھینچاتانی والزام تراشی ہوتی ہے۔ مگر تسلیم وہی کی جاتی ہے جس میں کچھ حقیقت ہو یا ثبوت ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…جرح وتعدیل بھی راوی کے بارے میں محدثین کا ایک فیصلہ ہے بالکل اس جج کی طرح جو محض گواہوں اور شواہد کی ثبوت کے بعد کسی مجرم کو پھانسی دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جج کا یہ فیصلہ یقینی ہوتا ہے؟ نہیں بلکہ قیاسی ہی ہوتا ہے۔ پھر بھی صدر مملکت کے پاس حتمی منظوری کے لئے جاتا ہے جو ججز کے اس فیصلہ کو پڑھنے کے بعد ظن غالب کی بنیاد پر صادر کردیتا ہے۔جرح وتعدیل کا حکم اللہ کا دیا ہوا ہے یہ غیبت ہے اور نہ ہی گڑھے مردے اکھاڑنے کی باتیں ہیں بلکہ بے اعتماد وزندیق لوگوں کو حدیث کے مقدس علم سے پرے ہٹانے اوراسے ایسے لوگوں کی آلائشوں سے پاک کرنے کے لئے ہے۔کیا تحقیق پرکسی کا سچا ثابت ہونا یہ بہتان ہوتا ہے۔اور اگر فاسق ثابت ہوجائے تو یہ اس کی غیبت ہے؟

٭… اس لئے اپنی کتب میں بعض ضعیف احادیث کا اندراج محدثین دو وجوہ کی بناء پر کردیا کرتے۔

۱۔ عام لوگ خبردار رہیں کہ یہ حدیث ہماری تحقیق کے مطابق ضعیف ہے۔اس لئے صراحت سے یہ لکھ دیتے ہیں :
ہَذَا حَدِیْثٌ ضَعِیْفٌ یا لَیْسَ بِصَحِیْحٍ۔
یہ حدیث ضعیف ہے یا صحیح نہیں۔

۲۔ یہ ضعیف روایت اس لئے ذکر کی جاتی ہے کہ اس سے پہلے یہی روایت ایک صحیح سند کے ساتھ مذکور ہوتی ہے اب اسے صرف بطور ریفرنس درج کیا ہے ورنہ انحصار پہلی صحیح روایت پر ہوتا ہے۔یا کوئی یہ نہ کہے کہ مسلمانوں نے اپنے رسول کی زندگی کے کمزور پہلوؤں کو چھپا دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…کچھ نادان کسی بھی مسئلے پر لکھتے وقت ضعیف وصحیح وموضوع احادیث کو جمع کرکے انہیں خلط ملط کرتے ہیں اور پھراپنی دانش کی چھری اس پرچلاتے ہیں۔ جہاں چاہا راوی پر بغیر کسی اصول کے جرح کردی اور جہاں چاہا اسے عادل قرار دے کر اپنے نتائج اخذ کرلئے۔آیات واحادیث کی حسب منشأمعنوی تعبیر غیر معلوم شاعری سے کرتے ہیں۔ائمہ رجال سے جہاں چاہیں اپنی بیزاری کا اظہار کردیں اور جہاں چاہیں ان کی مرویات کو پیش کردیں۔یہ ذوق علم نہیں بلکہ مذاق علم ہے اور اپنے مخصوص نظریات کو بہرصورت ترجیح دینے کی ایک سفلی خواہش ۔کیا میڈیکل، انجینئرنگ اور آئی ٹی جیسے علوم کے ساتھ ایسا غیر اصولی سلوک کوئی کرتا ہے۔الحمد للہ ہمیں فخر ہے کہ محدثین کرام نے ایسے واضح اصول بنا ئے جن سے فرد ، اس کی علمی ودینی اورنظریاتی حالت کو پرکھ کر یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے کہ آیا اس کا تعلق سنت رسول کے چاہنے والوں سے ہے یا وہ اپنی سنت سیئہ کو رواج دینے کے خبط میں مبتلا ہے۔

٭… حدیث رسول کی روایت میں احتیاط کرنااور کڑے اصول بنانا کیا کوئی ایسا معاملہ ہے کہ حس سے پرے رہا جائے؟ نہیں بلکہ ایسے لوگ تو داد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس کی داغ بیل ڈالی ۔محدث ناقد ابن الصلاح ؒلکھتے ہیں:
رجالِ حدیث پر ریمارکس دینے والے کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے خوب سوچ سمجھ کرکہے، لاپروائی سے بچے مبادا وہ کسی محفوظ ومصؤن او ربری الذمہ راوی کو اپنے ریمارکس سے مجروح قرار دے دے جو تا ابد اس کے نام کا لازمہ بن جائے۔ علوم الحدیث:۳۵۰

٭…جرح وتعدیل کے انتہائی معتدل امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:
إِنَّ الْکَلَامَ عَلَی الرُّوَاۃِ یَحْتَاجُ إِلٰی وَرَعٍ تَامٍ، وَبَرَائَ ۃٍمِنَ الْہَوَی وَالْمَیْلِ، وَخِبْرَۃٍ کَامِلَۃٍ بِالْحَدِیثِ وَعِلَلِہِ۔
راویوں پر ریمارکس دینا خدا خوفی کا متقاضی ہے، اور خواہش ومیلان سے بیزاری کابھی۔ حدیث اور اس کی علل کے بارے میں پوری طرح باخبر ہونا بھی ضروری ہے۔ الموقظۃ: ۸۲

٭…شارح وفقیہ حدیث امام ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
جرح وتعدیل کے اسباب کاماہرہی اگرکسی کی پاکیزگی (تزکیہ) بیان کرے تو اس کا تزکیہ قبول کیا جائے گانہ کہ کسی لاعلم کا۔اس لئے کہ وہ بغیر کسی تجربے اور مہارت کے رائے دے گا جودرست نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح یہ بھی مناسب ہوگا کہ جرح وتعدیل صرف اسی کی قبول کی جائے جو عادل اوربیدار مغز ہو ۔ جرح وتعدیل میں حد سے نکل جانے والے کی جرح ناقابل قبول ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… مصطلح الحدیث کا آغاز:
پہلی صدی ہجری کی برکات میں سے مصطلحات حدیثیہ کا علم بھی ہے۔ہر حدیث کے دو حصے ہوتے ہیں: سند اور متن۔ دونوں کو جب نقد کی بھٹی سے گزارا گیا تو علوم الحدیث وجود میں آئے جس کی ایک شاخ مصطلح الحدیث ہے۔ راوی اور روایت کا حال بیان کرنے کے لئے جو لفظ ادا کیا گیا وہ مصطلح کہلائی۔اوربتدریج ان مصطلحات میں اضافہ ہوتا رہا۔یادرہے کہ مصطلح تدوین سنت کے ساتھ پختہ ہوتی رہی۔جب ایک حدیث مختلف اسانید لئے منتشر ہوتی تو علم حدیث متحرک ہوتا۔ اورانہیں چھانٹ کر جب الگ کرتا تو صحیح وغلط اور ضعیف وموضوع جیسی مصطلحات وجود میں آتی گئیں۔جن علماء حدیث نے مختلف احوال روایت اور مراتب رواۃ کے تعین میں اپنے ہاں ان مصطلحات کا بھرپور استعمال کیا اور رواج دیا۔اور حدیثی فیصلے دیے ۔ان میں اتباع تابعین کے نام بہت نمایاں ہیں۔

مصطلحات کتب میں:
یہ وہ علماء اور ان کے مجموعہ ہائے کتب واجزاء ہیں جن میں مصنفین نے ان مصطلحات حدیثیہ کا استعمال خوب کیا۔مثلاً: صحیح، ضعیف، حسن بمعنی غریب ومنکر، مرفوع، موقوف، مرسل، منقطع، متصل، منکر، شاذ، مضطرب، باطل، لا اصل لہ، تدلیس، تلقین جیسی مصطلحات کا ۔ نیز تحمل حدیث کے مختلف طریقے اور الفاظ جرح وتعدیل اور ان کے مراتب پر بھی سیر حاصل گفتگوملتی ہے۔(تقدمۃ الجرح والتعدیل، الإلماع نیز فہرست کتاب الرسالہ از شیخ احمد شاکر)

٭٭٭٭٭

امام ابنؒ القیم فرماتے ہیں:
ہمارے کسی عالم بھائی نے اپنے شاگرد کو دیکھا کہ وہ دیگر کتب پر جھکا ہوا ہے مگر قرآن کو حفظ نہیں کرپارہا۔
اسے نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اگر تم قرآن یاد کرلو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
وہ جواب میں کہتا ہے:
کیا قرآن میں کوئی علم ہے؟
ایسے لوگوں کے بعض ائمہ سے میں نے خود سنا:
ہم توحدیث شریف کو محض برکت کے لئے سنا کرتے ہیں نہ کہ اس لئے کہ اس کے علم سے ہم مستفید ہوں۔
کیونکہ ہمارے علماء اس علم کو حاصل کرکے ہمیں جو سمجھا چکے وہی کافی ہے۔
جس کا مبلغ علم یہی ہو اس سے ایسی بات ہی نکلے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیا صحیح حدیث خلاف عقل ہو سکتی ہے؟

بہت سے سمجھ دار لوگ بعض اوقات احادیث کو پڑھتے یا سنتے ہیں تو انہیں اس میں کوئی Logic نظر نہیں آتی۔ انہیں وہ خلاف عقل سمجھ کر رد کردیتے ہیں۔ کیا آپ ﷺ کو رسول اللہ ماننے کے بعد عقل یا Logic کی کوئی حیثیت ہے؟ ایمان کی بات یہ ہے کہ بالکل نہیں رہ جاتی۔ مگر پھر بھی یہ معیار تو درست نہیں کہ پندرہ سو سال سے لوگ اسے مطابق عقل سمجھتے آئیں اور ہماری عقل اسے تسلیم نہ کرے؟ آخر کمی کہاں رہ گئی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں میری عقل میں جمے خیالات اور سابقہ مطالعے کا اثر اس قدر پختہ ہوچکا ہے کہ میں حدیث کو اسی کی عینک سے دیکھتا اور پرکھتا ہوں؟ یا جن عادات واطوار کا میں عادی ہوچکا ہوں احادیث کو تسلیم کرکے میں اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرنا چاہتا؟ ورنہ کون سی عقل ہے جس سے ہر شخص اتفاق کرتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ سے بہت سے قائدین، دانشور اور خطباء وشعراء نے اختلاف کیا ۔ان حضرات کی گفتگو میں سوائے تعصب کے کہیں Logic نظر نہیں آیا مگر لوگ تھے جو ان کی بھی سنتے اور مانتے تھے۔ قرآن کریم سے بھی عقلی اختلاف کرنے والے بہت مل جائیں گے تو کیا قرآن کریم کو بھی ان کے تسلیم نہ کرنے پر چھوڑ دیا جائے؟ عقل بھی سب کی ایک جیسی نہیں خود اس میں اختلاف ہوتا ہے۔ افراد، علماء، صلحاء، فقہاء، مفسر،محدث، سیاست دان،صاحب قلم ، سائنس دان، پروفیسر، افسر، فوجی اور ملازم سبھی کی عقلیں مختلف ہیں۔پھر آخر کون ہو جس کی عقل معیار بن جائے اور سبھی اس پر متفق ہوجائیں۔؟ تاریخ انسانی آگاہ کرتی ہے کہ آج تک کوئی ایسا فرد یا قوم نہیں آئی جس کی عقل ودانش سے لوگوں نے اتفاق کیا ہو۔ اس لئے بات یہیں آ ختم ہوتی ہے کہ انسانی عقل کو ناقص سمجھ کر اس کے خالق کی ہی مان لی جائے۔ اور خالق کائنات اپنی بات بذریعہ وحی منواتے ہیںجو وہ اپنے رسول پر نازل فرماتا ہے جس پر ایمان لانے سے بندہ مومن بن جاتا ہے ورنہ کافر۔

یہ بھی یاد رکھئے کہ جس حدیث کی نسبت رسول اکرمﷺ تک پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے وہ کبھی بھی خلاف عقل یا خلاف قرآن نہیں ہوسکتی۔ اولاً وہ حدیث وحی ہے اسے ماننے میں ہی ایمان کی سلامتی ہے۔ثانیاً جس اللہ تعالیٰ نے آپ کی عقل بنائی اسی نے اس کے مناسب حال وحی رسول اللہ ﷺ پر نازل فرمائی جسے تسلیم کرنا ہی صحیح ایمان ہے ۔ اسی وحی میں ایمان بالغیب کی احادیث ہیں جو اسی طرح ثابت شدہ ہیں جس طرح قرآن مجید میں مذکور ایمانیات وغیوب ثابت شدہ ہیں۔ مثلاً:

۔۔۔۔۔ابراہیم علیہ السلام نے۔۔حسب ِحدیث ِرسول۔۔۔ تین جھوٹ بولے۔ لفظ کذب حدیث میں آیا ہے جسے سنتے ہی ہمارا ایمان ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں جاگ اٹھتا ہے اور ان کی نبوت اور ان کے عالی مقام کے شایان شان اس حدیث کو ہم نہیں سمجھتے۔اور اس حدیث کو جھٹک دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ خلاف عقل بھی ہے!!! یہ اور بات ہے کہ لفظ کذب عربی زبان میں اور متکلم کی مراد میں کیا ہوتا ہے ہم ایسا نہ بھی سوچیں مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ان تین جھوٹ میں دو کا ذکر تو قرآن مجید میں ہے۔ اگر یہ جھوٹ نہیں تو جو مراد قرآن مجید کے ان دونوں مقامات سے مفسرین لیتے ہیں وہی ہمیں بھی لے لینا چاہئے۔ کیونکہ رسول سے محبت اور آپ ﷺ پر ایمان کا تقاضا یہی ہے۔

۔۔۔۔۔سلیمان علیہ السلام کے اس قول پر بھی پریشانی بے جا ہے کہ میں آج رات اپنی سو بیویوں کے پاس جاؤں گا۔ جن سے اللہ مجھے سو مجاہد بچے عطا کرے گا مگر ان شاء اللہ نہ کہا۔ نتیجتاً کوئی بچہ نہ ہوا سوائے ایک کے اور وہ بھی ہوا تو ناقص۔ اب اس پر جو مزیدتہہ چڑھائی گئی وہ اس سوچ کی غماز ہے کہ انبیاء کو ہم کیا سمجھتے ہیں۔ جب کہ نبی ﷺ کے اس ارشاد کا اصل مقصد مسلمان کو یہ توجہ دلانا تھا کہ جس عمل کو تم نے اپنے اعتماد پہ کیا اور رب کو شامل نہ کیا تو ایسا عمل بے نتیجہ ہوا کرتا ہے خواہ وہ کسی نبی محترم کا بھی کیوں نہ ہو۔ قرآن مجید میں آپ ﷺ کو بھی اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔امام بخاری ؒ کی کتاب صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یا ان کی التاریخ الکبیر میں عمرو بن میمون اَودی کا یہ قول ( رَأَیْتُ قِرْدَۃً فِی الْجَاہِلِیَّۃِ اجْتَمَعَ عَلَیْہَا قُرُوْدُ فَرَجَمُوْہَا فَرَجَمْتُہَا مَعَہُمْ۔) کہ میں نے ایام جاہلیت میں ایک بندریا کو دیکھا جسے بہت سے بندر رجم کررہے تھے میں نے ان کے ساتھ اسے رجم کیا۔ بھی بعض لوگوں کوبہت تکلیف دہ لگا۔کہ شریعت انسانوں کے لئے اتری اور جانوروں کے لئے سزائیں مقرر کی جا رہی ہیں؟ بھئی آپ کو کس نے کہا کہ یہ ایک حدیث ہے یہ تو کسی کا قول ہے جو جناب امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے اور یہ باب لکھ کر نقل کیا ہے : باب أیام الجاہلیۃ۔ جاہلیت کے دن۔یعنی جاہلیت کی یہ باتیں بھی تھیں ۔ پھر اس سے کوئی مسئلہ بھی مستنبط نہیں کیا۔ پڑھئے امام ابن العربی ؒکی تفسیر الجامع أحکام القرآن میں وَقُلْنَا لَہُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خَاسِئِیْنَ کی تفسیر۔

٭٭٭٭٭

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Last edited:
Top