• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زمین وآسمان کا مالک اور سارے جہان کا بادشاہ اللہ ہے

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
زمین وآسمان کا مالک اور سارے جہان کا بادشاہ اللہ ہے
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف

پاک ہے وہ اللہ جس کی بادشاہت ہمیشہ سے زمین وآسمان پر قائم ہے ، اسی کے لئے اعلی صفات اور بلندی وپاکیزگی ہیں۔ وہ ہرعیب سے پاک اور تمام قسم کی خوبیوں کا مالک ہے۔جس طرح وہ ساتوں آسمان اس کے اختیار وقدرت میں ہیں ،ان میں جس طرح چاہتا تصرف کرتا ہے اسی طرح ساتوں زمیں پر بھی اسی کی بادشاہت ہے ۔ بظاہرزمین پر ہمیں انسانوں میں بھی ملکوں کے بادشاہ وحاکم نظر آتے ہیں مگر وہ وقتی بادشاہ ہیں حقیقی بادشاہ تو زمین وآسمان کا خالق اللہ رب العالمین ہی ہے ،وہی خالق کائنات زمین پر جسے چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ
ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آل عمران:26)
ترجمہ:آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے ، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے۔
یہ آیت بتلاتی ہے کہ لوگوں کی بادشاہت زائل ہونے والی ہے ،آج کسی کو اللہ بادشاہ ہونے کا موقع دیتا ہے تو کل اس کی جگہ کسی اور کو مقررکردیتاہےجبکہ خود ہمیشہ سے بادشاہ ہے ۔ وہ زمین وآسمان میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے اور اپنی تدبیرسے سارے جہان کا نظام چلاتا ہے ۔
تواریخ اور مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سے دنیا بنی اس وقت سے لیکرآج تک کوئی ایسا انسان نہیں گزراجو ازآدم تاایں بادشاہ بنابیٹھا ہو، اس کی بادشاہت ختم نہ ہوئی ہو۔بہت بڑی سچائی یہ ہے کہ انسان کی زندگی محدود ہے ، وہ اپنے حصے کی دنیا کاٹ کر اللہ کے حکم سے مرجاتا ہے ، موت کی وجہ سے پھر اس انسان کا دنیاوی رشتہ کٹ جاتا ہے ، وہ بادشاہ رہا ہوتو اس کی بادشاہت ختم ، زمین وجائیداد کا مالک رہا ہو تو اس کی ملکیت ختم بلکہ مال ومنال کے ساتھ تمام انسانوں سے اس کا رشتہ منقطع ہوجاتا ہے بھلا اس حقیقت کا انسان دنیا کا حقیقی بادشاہ کیسے ہوسکتا ہے ؟
اس بات کو ایک مثال سے یوں بھی سمجھیں کہ سلمان کو سعودی عرب کی بادشاہت نصیب ہوئی تو اس کے دو احوال ہوسکتے ہیں ۔ ایک حال تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی زندگی میں ہی اس کی بادشاہت ختم ہوجائےگی یا دوسرا حال یہ ہوگا کہ موت سے اس کی بادشاہت ختم ہوجائے ۔ یہ دوحالت دنیا کے تمام گزشتہ حاکم وبادشاہ کی رہی ہے اور آئندہ بھی یہی حالت سارے دنیاوی بادشاہ وحاکم کی رہے گی ۔
قرآن میں اللہ کے لئے
مُلْك (بادشاہت) اور مَالِك، مَلِك ، مليك بادشاہ کے معنی میں آیا ہے ،آپ کی خدمت میں قرآن مجید سے چند آیات پیش کرتا ہوں جن میں اللہ تعالی بیان کرتا ہے کہ زمین وآسمان کا بادشاہ وہی ہے ، فرمان الہی ہے :
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (البقرۃ:107)
ترجمہ: کیا تجھے علم نہیں کہ زمین اور آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آل عمران:189)
ترجمہ:اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا
ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ (المائدۃ:18)
ترجمہ:اور زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہرچیز اللہ تعالٰی کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الملک:1)
ترجمہ: بہت بابرکت ہے وہ (اللہ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔
فرعون لوگوں سے کہتا تھا "الیس لی ملک مصر" کیا مصرپر میری بادشاہت نہیں ہے ؟ذرا سوچیں کہ کیا مصر پر آج بھی فرعون کی بادشاہت قائم ہے ؟ موسی علیہ السلام کے زمانے میں ہی اللہ نے فرعون کو ڈبوکر موت دیدی اور اس کی حکومت کا خاتمہ کردیا ، اس وقت سےلیکر آج تک مصر پر نہ جانے کتنے لوگوں نے حکومت کی ؟ لوگ آتے رہے اور جاتے رہے ، کسی کی بادشاہت ہمیشہ نہیں چلی اور نہ ہی چل سکتی ہے۔ کہاں گئے؟نمرودوشدادوہامان، سب دنیا سے مٹ گئے۔اللہ کا فرمان ہے : إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ (يوسف:40) یعنی فرمانروائی صرف اللہ تعالی کی ہے۔
اللہ تعالی دنیا کے بادشاہوں کو آسمان پر بادشاہت کرنے کا اختیار نہیں دیتا ، ان کو زمین پر ہی محدوداختیار دیتا ہےاور اختیار کی مدت بھی محدودہوتی ہےیعنی چند دنوں کے لئےمعمولی اختیاردیا جاتاہے۔
زمین کے بادشاہ چلتی ہوا ،برستے پانی ، گرجتی بجلی اوررونماہونے والا زلزلہ وطوفان نہیں روک سکتا کیونکہ ان سب چیزوں پر بادشاہت اللہ کی ہے۔ اللہ ہی آدم علیہ السلام کے زمانے میں بارش برساتا تھا، آفتاب کو طلوع وغروب کرتا تھا، رات ودن کو لاتا تھا، زندگی و موت دیتا تھااور آج بھی وہی بارش لاتا ہے ، سورج طلوع وغروب کرتا ہے ، رات ودن کو لاتا ہے اور زندگی وموت دیتا ہے ،اس لئے تو وہی دنیا کا حقیقی بادشاہ ہے۔
زمین وآسمان کے سارے خزانے بھی اسی کے ہیں ،انسان کی نہ زمین اپنی ہے، نہ سونے چاندی اپنے ہیں حتی کہ اس کا اپنا جسم وبدن بھی اپنا نہیں ۔ذرا غور کریں اور اللہ کی بادشاہت پر ایمان پختہ کریں۔ انسان کاپورا جسم اللہ کا دیا ہوا ہے پھر اس جسم کے تمام عضو اور تمام حرکات وسکنات پر اللہ کی بادشاہت ہے۔ آنکھوں سے دیکھنے پر اللہ کی بادشاہت ہے، کانوں سے سننے پر اللہ کی بادشاہت ہے، ناک سے سونگھنے اور سانس لینے پر اللہ کی بادشاہت ہے ، ہاتھ وپیر سے حرکت کرنے ، دل ودماغ سے سوچنے اور سونے جاگنے تمام چیزوں پر اللہ کی بادشاہت ہے۔ انسان بادشاہ کیا مجبور محض ہے۔ اس کو ہرلمحہ اپنے خالق ومالک کی مہربانی چاہئے ورنہ اس کے جسم کا کوئی کل پرزہ کسی کام کا نہیں ۔ اللہ چند لمحوں کے لئے آنکھوں سے بصارت چھین لے اندھا بن جائے گا، کانوں سے سماعت لے لے بہرہ ہوجائے گا ، دل ودماغ سے سوچ وفکر سلب کرلے پاگل ہوجائے گا اور جسم سے روح نکال لے مردہ قرارپائے گا۔
پاک ہے وہ پروردگار جو ہمیں گوناگوں نعمتوں سے نوازاہے مگر کم ہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی نعمتوں کی قدر کرتے ہیں اور اس کا کہا مانتے ہیں ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے : وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ(المنافقون:7)
ترجمہ: اور آسمان و زمین کے کل خزانے اللہ تعالٰی کی ملکیت ہیں لیکن یہ منافق بے سمجھ ہیں۔
اور حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتا ہے :
يا عِبَادِي لو أنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وإنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا في صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي فأعْطَيْتُ كُلَّ إنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ، ما نَقَصَ ذلكَ ممَّا عِندِي إلَّا كما يَنْقُصُ المِخْيَطُ إذَا أُدْخِلَ البَحْرَ( صحيح مسلم:2577)
ترجمہ: اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، آدمی اور جنات سب ایک میدان میں کھڑے ہوں، پھر مجھ سے مانگنا شروع کریں اور میں ہر ایک کو جو مانگے سو دوں تب بھی میرے پاس جو کچھ ہے وہ کم نہ ہو گا مگر اتنا جیسے دریا میں سوئی ڈبو کر نکال لو۔
سبحان اللہ ،اللہ سارے خزانوں کا مالک ہے اور جتنا چاہے کسی کو دے اس کے خزانے میں کچھ بھی کمی نہیں ہوتی پھربھی مسلمانوں کی اکثریت غیراللہ سے مانگنی ہے۔ ایسے میں اللہ کا عذاب ان پر نہیں آئے گا تو کیا آئے گا؟
آج اللہ بادشاہ ہے ساتھ ہی انسانوں کو اچھائی اور برائی کرنے کی مہلت بھی دے رکھی ہے ، کل آخرت میں جب بادشاہ ہوگا تب اس کی طرف سے کوئی مہلت نہیں ہوگی ۔ نیکی کا بدلہ اچھا اور ظلم کا بدلہ برا ہوگا،غرض دنیا میں انسان نے جو کچھ کیا ہوگا ،مالک یوم الدین(قیامت کے دن کا بادشاہ )قیامت میں ذرہ ذرہ کا حساب لے گااوراللہ پوچھے گاآج کس کی بادشاہت ہے؟
يَوْمَ هُم بَارِزُونَ
ۖ لَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ ۚ لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (غافر:16)
ترجمہ: جس دن سب لوگ ظاہر ہوجائیں گے ان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گی۔ آج کس کی بادشاہی ہے؟ فقط اللہ واحد و قہار کی ۔
ارشادباری تعالی ہے :الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَٰنِ
ۚ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا(الفرقان:26)
ترجمہ: اور اس دن صحیح طور پر ملک صرف رحمٰن کا ہی ہوگا اور یہ دن کافروں پر بڑا بھاری ہوگا ۔
نبی ﷺفرماتے ہیں:يَطْوِي اللَّهُ عزَّ وجلَّ السَّمَواتِ يَومَ القِيامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بيَدِهِ اليُمْنَى، ثُمَّ يقولُ: أنا المَلِكُ، أيْنَ الجَبَّارُونَ؟ أيْنَ المُتَكَبِّرُونَ. ثُمَّ يَطْوِي الأرَضِينَ بشِمالِهِ، ثُمَّ يقولُ: أنا المَلِكُ أيْنَ الجَبَّارُونَ؟ أيْنَ المُتَكَبِّرُونَ؟(صحيح مسلم:2788)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ لے گا اور ان کو داہنے ہاتھ میں لے لے گا، پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں زور والے؟ کہاں ہیں غرور کرنے والے؟ پھر بائیں ہاتھ سے زمین کو لپیٹ لے گا (جو داہنے کے مثل ہے اور اسی واسطے دوسری حدیث میں ہے کہ پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں) پھر فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں زور والے؟ کہاں ہیں بڑائی کرنے والے؟
اس حدیث کی روشنی میں اللہ کی بے مثال قدرت اور اس کی عظیم بادشاہت کے بارے میں غور فرمائیں کہ اللہ قیامت والے دن اس قدربلندوبالا سات طبقوں والاآسمان (جس میں چاندزمین سے پچاس گنابڑا اور سورج زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑاہے)لپیٹ کر دائیں ہاتھ میں اور ساتھ طبقوں والی زمین خزانوں سمیت دوسرے ہاتھ میں لے لے گا۔ اس دن دنیا کے ظالم بادشاہوں کا کیا حال ہوگا؟ نبی ﷺ اس بابت بیان فرماتے ہیں :
أشدُّ الناسِ يومَ القيامةِ عذابًا إِمامٌ جائِرٌ(صحيح الجامع:1001)
ترجمہ: قیامت کے دن طالم بادشاہ کو سب سے زیادہ شدید عذاب دیا جائے گا۔
مذکورہ بالا تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ ہی زمین وآسمان کا مالک اور سارے جہان کا بادشاہ ہے۔ اس کی بادشاہت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔ اسی نے ہمیں اور پوری کائنات کو پیدا کیا ہے لہذا ہمیں ہمیشہ اس سے ڈرنا چاہئے اور اس نے اپنی بندگی کی خاطر ہمیں پیدا کیا ہے سو خالص اس کی بندگی بجالانا چاہئے اور اس کے ساتھ کسی کو بھی ذرہ برابر شریک نہیں کرنا چاہئے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ زمین وآسمان کے سارے خزانوں کا مالک اکیلا اللہ ہےاور وہی اپنی تدبیر سے ساری مخلوق کی پرورش کرتا ہےاس لئے ہمیں جس چیز کی بھی حاجت پڑے اپنے رب سے مانگیں وہ اپنےمحتاج ومانگنے والے بندوں کو محروم نہیں کرتا ۔
تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ اگر ہم میں سے کسی کو اللہ ملک کا حاکم بنائے یا گاؤں اور گھر کا سربراہ بنائے تو کبھی بھی اپنے ماتحتوں پر ظلم نہ کریں ، یاد رکھیں اللہ کی نظروں سے کچھ بھی اوجھل نہیں ہے او ر ظلم وفساد کرنے والوں کووہ دنیا میں بھی سزا دیتا ہے اوریقینا آخرت میں بھی سزا دے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی ہمیں شعور ہونا چاہئے کہ اللہ کے فضل سے ہی کسی کو جاہ ومنصب اور دولت وسلطنت ملتی ہے لہذا نہ کبھی غرور کریں اور نہ ہی اپنے جاہ ومنصب اور دولت وسلطنت کا غلط استعمال کریں ، دنیا کی نعمت آنکھ کھلی رہنے تک ہے نگاہ بند ہوتے ہی سب کچھ چلا جاتا ہے اوراندھیرا چھا جاتا ہے۔
 
Top