• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زمین و آسمان کو چھ دنوں میں بنانے کی حکمت " غیر مسلموں کی ذبان پر ایک اعتراض

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
زمین و آسمان کو چھ دنوں میں بنانے کی حکمت " غیر مسلموں کی ذبان پر ایک اعتراض

جب اللہ سبحانہ وتعالی لفظ کن فیکون کہ کر کسی چیز کی تخلیق کر سکتے ہیں تو اللہ سبحانہ وتعالی نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو کیو بنایا؟

:جواب

اللہ سبحانہ و تعالی کن فیکون کہ کر ذمین و آسمان کی فوراً تخلیق تو کر سکتے تھے اور اس پر قادر تھے پر اللہ تعالی نے زمین و آسمان کو مرحلہ وار تخلیق کیا اس میں بہت بڑی حکمت ہیں۔ ایک مثال لی جئے ریاضی کا استاد اگر کسی سوال کو حل کرنے میں مختلف "سٹپس" کی مدد لیتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سٹپس کئے بغیر جواب نہیں دے سکتا بلکہ وہ سٹپس کے ساتھ سوال کو حل کرتا ہے تاکہ سوال کا حل طالب علموں کو معلوم ہو جائے بنا سٹپس کے طالب علم سوال کا حل سمجھ ہی نہیں سکتے تھے۔ بلکل اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی نے زمین و آسمان کو چھ دنوں (چھ ادوار زیادہ مناسب ہے ) میں پیدا کیا تاکہ انسان اللہ کی تخلیق پر غور و فکر کریں اور جب وہ غور و فکر کریں گا تو اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ واقعی اللہ سبحانہ و تعالی نے زمین و آسمان کو چھ ادوار میں پیدا کیا۔ اگر اللہ تعالی کن فیکون کہ کر زمین و آسمان کی تخلیق کر دیتے ریاضی کے طالب علم کی طرح انسان زمین و آسمان کی تخلیق کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ اور آج سائنسدان اس بات کا اعتراف کرتے ہے کہ زمین و آسمان کا چھ ادوار پیدا ہونا ممکن ہے اب بتائے یہ حکمت کن فیکون اللہ سبحان و تعالیٰ کے کہ دینے سے انسان سمجھ سکتے تھے ؟۔ جیسے کھیت کو پکنے میں عرصہ لگتا ہے۔ یک دم پیدا ہوجانا کھیت کا انسان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور پھر وہ روزی کیسے حاصل کرے گا؟ تو بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ تو اللہ تعالی ان چیزوں کو مرحلہ وار تخلیق کرتا ہے تاکہ لوگ غور و فکر کرکے نصیحت حاصل کریں۔


اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے

لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ

ترجمہ: آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے

(الغافر:57)

اس ارشاد پاک میں واضح ہے کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنا بہت بڑی حکمت ہے جیسے انسان کا پیدا کرنے پر اب جب انسان کی تخلیق پر غور کیا جائے اللہ چاھتے تو انسان کو بھی کن فیکون بمعنی فوراً بنا سکتے تھے پر اللہ تعالی نے انسان کو بھی مرحلہ وار تخلیق کیا تاکہ انسان غور و فکر کریں۔ یہی وجہ ہے پروفیسر کیتھ مور (جوکینیڈا میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے شعبہ علم الا عضا کے سربراہ اور ایمبریالوجی(علم الجنین) کے پروفیسر انہوں نے جب انسان کی تخلیق پر غور کیا اور قرآن کے بیانات جو علم جینیات سے منسلک ہے ان کو پڑھا تو ایمان لے آئے اور ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ مجھے کوئی شک نہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے

1981 (سعودی عرب کے شہردمام میں منعقد ہونے والی ساتویں میڈیکل کانفرنس)



اب بتائے یہ سب باتے اللہ کے کن فیکون کہ دینے سے سمجھ میں آتی ؟ اندازہ لگائے کہ ایک مشہور و معروف ڈاکٹر اللہ کہ کلام پر ایمان لا رھا ہے اور اس کی کتابیں ایم بی بی ایس کے طالب علم پڑھتے ہے اور قرآن کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔یہ اللہ کی تخلیق کی حکمت ہیں اسی طرح جب انسان زمین و آسمان کی تخلیق پر نظر کرتا ہے تو اس کو قرآن کہ یہ اللہ کا کلام ہے ماننے پر کوئی دشواری نہیں ہوتی۔فلکیات کے میدان میں سائنس دانوں'ہیئت دانوں نے چند عشرے قبل بیان کیاکہ کائنات کیسے وجودمیں آئی'وہ اسے ایک بڑا دھماکہ "بگ بینگ" کہتے ہیں اورانہوں نے کہا کائنات''ابتدا میں ایک ہی گیس اور غبارکابادل تھا جوکہ بعد ازاں ایک بڑے دھماکے کے باعث جدا ہوگیا جس سے کہکشاؤں 'ستاروں' سورج اور زمین جس پر ہم رہتے ہیں' سب وجودمیں آئے۔یہ معلومات عظمت والے قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہیں۔سورہ انبیاء' سورہ21'آیت نمبر30 کہتی ہے

اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا

کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انھیں الگ الگ کیا ۔'' ان معلومات .lکی روشنی میں غورکریں جوابھی حال ہی میں منظرِعام پرآئی ہیں جن کا قرآن 1400سال پہلے ذکر کرتاہے


خلاصہ کلام: زمیں و آسمان کی تخلیق چھ بڑے ادوار میں اس لئے ہوئی کہ اللہ تعالی اپنی عظمت کا اعتراف انسانوں سے کرانا چاھتے تھے جو معلومات زمین و آسمان کی تخلیق کے حوالہ سے آج معلوم ہو رھی ہے وہ 1400 سو سال پہلے قرآن نے بیان کی۔ بنا "مرحلہ وار تخلیق" کے انسان کو اللہ تعالی پر ایمان لانے اور اس کی تخلیق سمجھنے پر مشکلات رھتی اس لئے اللہ سبحانہ وتعالی نےمرحلہ وار تخلیق کر کے قران میں انسانوں کے لئے بے شمار نشانیاں لکھ دی جنہیں وہ غورو فکر کر کے پہچان سکتے ہیں۔







ارشادی باری تعالی ہے

سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ

عنقریب ہم انہیں کائنات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے اور ان کے اپنے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ آپ کا پروردگار ہر چیز پر حاضر و ناظر ہے

(سورہ الفصلت:53)
 
Top