• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زنا ایک قرض ہے !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
معاشرے كو زنا سے پاك كرنا

دور حاضر ميں زانى مرد و عورت كے خلاف چار گواہ كس طرح لائے جا سكتے ہيں ؟
اور ہم اپنے مسلمان نوجوان كو اس قبيح عمل سے بچنے كى نصيحت كس طرح كر سكتے ہيں ؟

اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
الحمد للہ:

اول:

علماء كرام چار طريقوں سے زنا كا ثبوت شمار كرتے ہيں:
1 – گواہى.
2 - اقرار.
3 - بغير خاوند اور بغير مالك كے حمل ٹھر جانے سے.
4 - جب خاوند اور بيوى كے مابين لعان ہو اور بيوى اس كا دفاع نہ كرے.

زنا كى گواہى كے ليے شرط يہ ہے كہ وہ چار گواہ ہوں جن كى گواہى جائز ہو، وہ صريح الفاظ كے ساتھ زنا كا وصف بيان كرے ـ يہ كہ انہوں نے مرد كا عضو تناسل عورت كى شرمگاہ ميں ديكھا ہے ـ اور اگر ان ميں سے كسى ايك نے بھى صرف يہ گواہى دى كہ اس نے انہيں بے لباس، يا كسى معين وصف يا حركت ميں ديكھنا بيان كيا تو يہ زنا كے ثبوت كے ليے كافى نہيں ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " الشرح الممتع " ميں كہتے ہيں:
" وہ صريح الفاظ ميں زنا كا وصف بيان كريں كہ: ہم نے اس كا عضو تناسل عورت كى شرمگاہ ميں ديكھا ہے، يہ ضرورى ہے.
اور اگر وہ يہ كہيں كہ: ہم نے انہيں بے لباس ديكھا ہے، تو يہ قبول نہيں ہوگا، حتى كہ اگر وہ يہ بھى كہيں كہ ہم گواہى ديتے ہيں كہ وہ اس كے ساتھ اس طرح تھا جس طرح ايك خاوند اپنى بيوى كے ساتھ ہوتا ہے، تو يہ گواہى كافى نہيں.

بلكہ انہيں يہ كہنا ضرورى ہے كہ ہم گواہى ديتے ہيں كہ اس كا عضو تناسل اس كى شرمگاہ ميں تھا، اور يہ بہت مشكل ہے، جس طرح كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں جس شخص كے خلاف گواہى دى گئى تو وہ كہنے لگا: اگر ميں رانوں كے درميان ہوتا تو تم يہ گواہى نہ ديتے.
اس ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اپنے دور ميں يہ بيان كيا كہ: نبى عليہ السلام كے دور سے ليكر شيخ الاسلام كے دور تك كوئى بھى زنا گواہى كے ساتھ ثابت نہيں ہوا، تو جب اس وقت سے ليكر شيخ الاسلام كے دور تك يہ ثابت نہيں، تو اسى طرح ہم يہ نہيں جانتے كہ گواہى كے طريقہ سے ہمارے اس دور ميں آج تك زنا ثابت ہوا ہو؛ كيونكہ يہ بہت ہى مشكل ہے " انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 157 ).
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
زنا كى گواہى كےمعاملہ ميں يہ تشديد اور سختى كا شرعى مقصد صرف يہ ہے كہ بندوں كى راز دارى رہے، اور فحش كام كى اشاعت نہ ہو، اور معاشرہ ميں كسى كى عزت و نسب پر طعن و تشنيع نہ كى جائے، اور تہمت نہ لگے.
قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خاص كر زنا ميں چار گواہ صرف اس ليے ركھے گئے ہيں كہ مدعى پر سختى كى جائے، اور بندوں كے معاملہ كو چھپايا جائے " انتہى.
ديكھيں: الجامع لاحكام القرآن ( 5 / 83 ).
اور شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قولہ:
﴿ وہ اس پر چار گواہ كيوں نہ لائے ﴾.
يعنى تہمت لگانے والوں نے اپنى اس تہمت كے متعلق چار گواہ كيوں نہ پيش كيے.
﴿ اربعۃ شھداء ﴾.
يعنى پسنديدہ اور عدل و انصاف كے مالك.
﴿ تو جب وہ گواہ نہيں لائے، تو وہ اللہ تعالى كے ہاں جھوٹے اور كذاب ہيں ﴾.
اگرچہ انہوں نے دل ميں اس كا يقين كر ليا تھا، تو يقينا وہ اللہ كے حكم ميں جھوٹے اور كذاب ہيں، كيونكہ اللہ تعالى نے چار گواہ نہ ہونے كى صورت ميں ان كے ليے اس كے متعلق بات كرنا حرام قرار دى ہے، اسى ليے اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا:
﴿ تو يہ لوگ اللہ تعالى كے ہاں جھوٹے اور كذاب ہيں ﴾.
اور اللہ نے يہ نہيں فرمايا:
تو يہ جھوٹے ہيں.
يہ سب كچھ مسلمان شخص كى عزت كى حرمت اور تعظيم كے باعث ہے، اس ليے كہ سچائى كے چار گواہوں كے بغير كسى پر تہمت لگانى جائز نہيں " انتہى.
ديكھيں: التفسير السعدى ( 1 / 563 ).

دوم:
رہا مسئلہ اس مہلك فحش كام سے اپنے نوجوانوں اور معاشرہ كو محفوظ ركھنے اور بچانے كا تو اس كے ليے كوئى ايسا عمومى كام كرنا ضرورى ہے جس پر سب ملك اور معاشرے عمل كريں، اور مختلف ادارے اس كے ليے آپس ميں معاونت كريں.
يہ ايك انفرادى نہيں بلكہ اجتماعى ذمہ دارى اور مسؤليت ہے، اس سے معاشرہ اس وقت صورت ميں ہى محفوظ رہ سكتا ہے جب زنا كے ارتكاب اور زنا تك پہنچانے والے سب ذرائع سے محفوظ ركھنے والے اسباب پر عمل كيا جائے، اور وہ اسباب درج ذيل ہيں:

1 - لوگوں ميں يہ چيز عام كى جائے اور معاشرے ميں اس چيز كا علم پھيلايا جائے كہ زنا كا گناہ بہت زيادہ ہے، اور يہ ايسا كبيرہ گناہ ہے جس كے قبيح اور حرام ہونے پر عقل اور شريعت دونوں متفق ہيں، اور يہ بيان كيا جائے كہ يہ فعل دنيا ميں امتوں كى ہلاك، اور مصائب و حادثات كا سبب ہے، روز قيامت اس كى سزا آگ ہے.

امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قتل كے بعد زنا سے بڑا كوئى اور گناہ نہيں "
ديكھيں: غذاء الالباب ( 2 / 435 ).

اور شيخ عبد الرحمن بن سعدى كہتے ہيں:
اور اللہ سبحانہ و تعالى نے زنى اور اس كى قباحت كو ان الفاظ ميں بيان كيا ہے:
﴿ كان فاحشۃ ﴾.
يقينا يہ فحش كام ہے، يعنى يہ ايسا فحش كام ہے جسے عقل اور شريعت اور فطرت بھى فحش كام تسليم كرتى ہے، كيونكہ يہ اللہ تعالى كے حق ميں زيادتى، اور عورت اور اس كے اہل و عيال يا خاوند كے حق ميں بھى زيادتى، اور خاوند كا بستر پراگندہ كرنا، اور نسب نامہ كو مخلوط بنانا اور اس كے علاوہ بھى كئى ايك خرابيوں پر مشتمل ہے.
قولہ: ﴿ و ساء سبيلا ﴾. اور يہ راستہ ہى برا ہے.
يعنى اس عظيم گناہ كے ارتكاب كى جرات بہت برا راستہ ہے " انتہى
ديكھيں: تفسير السعدى ( 1 / 457 ).

2 - نوجوانوں كو اس فحش كام كے انتشار كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والے غلط اور برے اثرات معلوم كرائے جائيں، جن كى بنا پر خاندان اور معاشرے كو قائم ركھنا مشكل ہو جاتا ہے، مثلا مہلك بيماريوں كا عام ہونا، اور حرام بچوں كا پيدا ہونا، اور خاندانى تسلسل كا خاتمہ، اور بچوں كو قبول نہ كيا جانا، اور انہيں برے سلوك كا سامنا كرنا، اور طلاق كى شرح ميں اضافہ ہونا، اور جرائم كا عام ہو جانا، اس كے علاوہ بھى كئى ايك خرابياں پيدا ہوتى ہيں.
جن معاشروں ميں يہ فحش كام اور گندگى عام ہو اس معاشرے ميں يہ برے اثرات عام ہيں، جو ان كے معاشرے كو تباہ اور ان كى ترقى و تمدن كو ساقط كر كے ركھ ديتے ہيں.

3 - جنسى تعلقات قائم كرنے كے ليے شرعى راہ اختيار كرنے ميں آسانى پيدا كى جائے، يعنى حلال طريقہ سے شادى ميں آسانى پيدا كى جائے، اور يہ اس طرح ہو سكتا ہے كہ نوجوانوں كو شادى كى رغبت دلائى جائے، اور اس سلسلے ميں شريعت مطہرہ نے كيا كچھ جائز اور مندوب كيا ہے اسے عام كيا جائے، اور يہ بتايا جائے كہ شادى كرنا سب رسولوں اور انبياء كى سنت اور طريقہ رہا ہے، اور يہ كہ شادى كرنے والے شخص نے اپنا دين مكمل كر ليا، اور يہ كہ اپنے اور بيوى كے ليے عفت و عصمت اختيار كرنے ميں اسے اجروثواب حاصل ہو گا.

4 - معاشرے كے افراد كى ذمہ دارى ہے كہ وہ تمام ركاوٹيں اور مشلكات دور كريں جو شادى ميں تاخير كا باعث ہوں، چنانچہ فقر و محتاجگى كا علاج كيا جائے جو شادى ميں مانع اور ركاوٹ بن سكتى ہے، اور جس نوجوان كے پاس اپنى عفت و عصمت كے ليے شادى كرنے كے ليے مالى استطاعت نہ ہو اس كى مالى مدد كى جائے.

حتى كہ قرطبى رحمہ اللہ درج ذيل آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:
قولہ تعالى:
﴿ اور تم اپنے ميں يتيم لڑكيوں اور نيك و صالح بندوں اور اپنى لونڈيوں كا نكاح كر دو، اگر وہ فقير اور محتاج ہيں تو اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے غنى كر دےگا، اور اللہ تعالى وسعت والا جاننے والا ہے ﴾النور ( 32 ).
" يعنى اپنى ان عورتوں كى شادى كردو جن كے خاوند نہيں، كيونكہ شادى ہى عفت و عصمت كى راہ ہے " انتہى.
ديكھيں: تفسير القرطبى ( 12 / 239 ).
اور ابو عبيد القاسم بن سلام اپنى كتاب " الاموال " ميں لكھتے ہيں:
" عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ نے عراق ميں اپنے گورنر كو خط لكھا كہ وہ ہر كنوارے شخص كو ديكھے كہ وہ شادى كرنا چاہتا ہے ليكن اسكے مال نہيں، تو اس كى شادى كر كے اس كا مہر ادا كرو "
ديكھيں: الاموال ( 251 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اگر بيٹا شادى كا محتاج ہو تو اس كى عفت و عصمت كو قائم ركھنے كے ليے والد كے ذمہ ہے كہ وہ بيٹے كى شادى كردے، امام شافعى رحمہ اللہ كا ظاہر مسلك يہى ہے " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 587 ).

5 - اس اہم مسئلہ ميں والد اور معاشرے پر واجب اور ضرورى ہے كہ و حتى الامكان مہر كى رقم زيادہ نہ ركھيں، اور نہ ہى شادى كے اخراجات ميں ايك دوسرے پر فخر اور دكھلاوا كرتے زيادہ خرچ كريں، يا اس شادى كو كمائى كا ذريعہ نہ بنائے.
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے منبر نبوى پر خطاب كرتے ہوئے كہا تھا:
" خبردار عورتوں كے مہر زيادہ مت طلب كرو، كيونكہ اگر يہ مہر دنيا ميں كسى عزت و شرف كا مقام ہوتا، يا پھر اللہ تعالى كے ہاں تقوى و پرہيزگارى كا باعث ہوتا تو پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كے زيادہ لائق تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى كسى بھى بيوى اور نہ ہى آپ كى كسى بيٹى كو بارہ اوقيہ سے زيادہ مہر ديا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2106 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
مصلح افراد كا اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ والدين كا اپنى بيٹيوں كے مہر زيادہ طلب كرنا معاشرے ميں خرابى و فحاشى كے انتشار كا باعث ہے.
بعض يورپى معاشروں ميں تاريخ كے كئى ادوار ميں فحاشى كے پھيلنے كے اسباب بيان كرتے ہوئے وول ڈيورنٹ اپنى كتاب " مباھج الفلسفۃ " ميں لكھتا ہے:
" اس ميں كوئى نزاع نہيں كہ كسى حد تك اس كا سبب والدين كى جانب سے اپنى بيٹيوں كا زيادہ مہر طلب كرنا ہے، صراحتا يہ كہ شادى كے وقت خريدا جاتا ہے " انتہى.
ديكھيں: مباھج الفلسفۃ ( 127 - 128 ).

6 - معاشرے كو اس خسيس اور فحش كام سے بچانے والى سب سے اہم چيز يہ ہے كہ خاوند اور بيوى كے مابين محبت و مودت كى اشاعت اور عام كى جائے، اور خاندان ميں محبت، احترام، اور صدق و وفا، اور واجب كردہ حقوق كى ادائيگى كے ساتھ سعادت كى حرص و كوشش ہو.
كيونكہ ايك سعادت مند خاندان اور ايك دوسرے كو سمجھنے اور آپس ميں محبت و الفت ركھنے والے خاوند اور بيوى ہى معاشرے ميں فحاشى و انحراف كو پھيلنے سے روك سكتے ہيں، اور سعادت كا باعث بنتے ہيں.

7 - آخر ميں ہم يہ كہينگے كہ: ايسى فضا اور ماحول تيار كرنا ضرورى ہے جو اسلامى اصول كا پاپند اور محافظ، اور اللہ كے ساتھ تعلق ركھنے والا ہو، جہاں بےپردگى و فحاشى كے مظاہر چھپ جائيں، اور ستر پوشى ہو، اور شراب و گانے بجانے كے آلات جو كہ زنا كا زينہ اور سيڑھى ہيں يہ سب كچھ وہاں ممنوع ہو.

كيونكہ يہ سب امور ايسا ايندھن ہے جس سے فحاشى كى آگ بھڑكتى ہے، اس ليے جب معاشرہ اس سے خلاصى اور چھٹكارا حاصل كر لے گا تو اس آگ سے بھى محفوظ رہےگا.

اور اس موضوع كے متعلق مفيد كتابوں ميں ڈاكٹر فضل الہى كى كتاب " التدابير الواقعيۃ من الزنا " كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اَللّهُمَّ اِنّی اَسْئَلُکَ الْهُدی وَ التُّقی وَ الْعِفافَ وَ الْغِنی وَ الْعَمَلَ بِما تُحِبُّ وَ تَرْضی
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
یہ بلا حوالہ کس کا قول ہے بھائی عامر!
اگر یہ آپ کا یا گرافکس بنانے والے کا اپنا ذاتی قول ہے تو دین اسلام میں ایسے اقوال کی کوئی حیثیت نہین ہے۔ اگر قرآن و حدیث یا کسی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ کا قول ہے تو حوالہ پیش کیجئے۔ اور آئندہ بلا حوالہ اس قسم کے ”فتویٰ“ جاری کرنے سے گریز کیجئے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یہ بلا حوالہ کس کا قول ہے بھائی عامر!
اگر یہ آپ کا یا گرافکس بنانے والے کا اپنا ذاتی قول ہے تو دین اسلام میں ایسے اقوال کی کوئی حیثیت نہین ہے۔ اگر قرآن و حدیث یا کسی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ کا قول ہے تو حوالہ پیش کیجئے۔ اور آئندہ بلا حوالہ اس قسم کے ”فتویٰ“ جاری کرنے سے گریز کیجئے۔


جزاکم اللہ خیرا ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یہ بلا حوالہ کس کا قول ہے بھائی عامر!
اگر یہ آپ کا یا گرافکس بنانے والے کا اپنا ذاتی قول ہے تو دین اسلام میں ایسے اقوال کی کوئی حیثیت نہین ہے۔ اگر قرآن و حدیث یا کسی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ کا قول ہے تو حوالہ پیش کیجئے۔ اور آئندہ بلا حوالہ اس قسم کے ”فتویٰ“ جاری کرنے سے گریز کیجئے۔
جزاکم اللہ خیرا ۔
یوسف بھائی آپ نے میری اصلاح فرمائی :


new zana aik qraz.JPG



زنا سے پيدا شدہ بچے كا حال اور اس سے شادى كرنے كا حكم!!!

كيا يہ صحيح ہے كہ ہمارے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زنا سے پيدا شدہ بچے سے شادى كرنے كى سختى سے ممانعت كى ہے، باوجود اس كے كہ وہ شخص بہت متقى اور پرہيزگار بھى ہو سكتا ہے ؟

الحمد للہ:
ولد زنا يعنى زنا سے پيدا شدہ اولاد كے متعلق احاديث ميں مذمت آئى ہے ليكن ان ميں اكثر احاديث ضعيف ہيں جو صحيح ثابت نہيں.
سنن ابو داود اور مسند احمد ميں حديث مروى ہے كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" زنا سے پيدا شدہ بچہ تينوں ميں سے سب سے زيادہ برا ہے "
يعنى وہ اپنے والدين جنہوں نے زنا كيا تھا سے بھى برا اور شرير ہے.
سنن ابو داود ( 4 / 39 ) مسند احمد ( 2 / 311 ).
اس حديث كو ابن قيم رحمہ اللہ نے المنار المنيف ( 133 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 672 ) ميں حسن قرار ديا ہے.
اس حديث كى علماء كرام نے كئى ايك توجيھات كى ہيں جن ميں سے مشہوريہ ہے:
سفيان ثورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر وہ اپنے والدين جيسا عمل كرتا ہے تو وہ تينوں ميں سب سے برا اور شرير ہو گا.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى يہ روايت كيا جاتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب وہ اپنے والدين جيسا عمل كرے تو وہ تينوں ميں سب سے برا ہے "
يعنى اگر زنا سے پيدا شدہ بچہ والدين والا عمل كرتا ہے تو وہ تينوں ميں سب سے برا ہے، اگرچہ اس كى سند ضعيف ہے ليكن بعض سلف نے اسے اس معنى پر ہى محمول كيا ہے جيسا اوپر بيان ہوا ہے.
اس شرح كى تائيد اس روايت سے ہوتى ہے جو امام حاكم نے اپنى سند كے ساتھ روايت كى ہے اور علامہ البانى اس كے متعلق كہتے ہيں كہ اس كى تحسين ممكن ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" زنا سے پيدا شدہ بچے پر اس كے والدين كے گناہ ميں سے كوئى گناہ نہيں، اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائيگى "
مستدرك الحاكم ( 4 / 100 ) السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2186 ).
اور بعض علماء كہتے ہيں كہ يہ حديث اس پر محمول ہے كہ زنا سے پيدا شدہ اولاد غالب طور پر شرير اور برى ہى ہوتى ہے كيونكہ وہ ايك خبيث اور حرام نطفہ سے پيدا ہوئے ہيں، اور غالب طور پر خبيث اور حرام نطفہ سے كبھى پاكيزہ اور اچھا پيدا نہيں ہوتا، لہذا اگر اس نطفہ سے كوئى اچھا شخص پيدا ہو گيا تو وہ جنت ميں جائيگا، اور حديث عام مخصوص ميں شامل ہو گى.
ديكھيں: المنار المنيف ( 133 ).

اسى ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر ولد زنا يعنى زنا سے پيدا شدہ ايمان لے آئے اور نيك و صالح اعمال كرے تو وہ جنت ميں داخل ہو گا، وگرنہ اسے اسى طرح كا بدلہ ديا جائيگا جو اس نے عمل كيے ہونگے جس طرح دوسروں كے ساتھ ہوتا ہے، اور پھر بدلہ تو اعمال كے ساتھ ہوتا ہے نہ كہ حسب و نسب كے مطابق، زنا سے پيدا شدہ بچے كى مذمت تو اس ليے ہوتى ہے كہ عام طور يہى خيال ہوتا ہے كہ وہ بھى غلط اور خبيث و گندے عمل كريگا جيسا كہ اكثر ہوتا ہے، جس طرح اچھے نسب كى تعريف ہوتى ہے كيونكہ ان كے متعلق خير و بھلائى كا خيال ہوتا ہے.
اور جب عمل ظاہر ہو جائيں تو اس كے مطابق ہى بدلہ ملے گا، اور پھر اللہ كے ہاں تو سب سے عزت والى مخلوق سب سے زيادہ متقى و پرہيزگار ہے "
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 5 / 83 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى ميں درج ہے:
" جب زنا سے پيدا شدہ بچہ دين اسلام پر فوت ہو تو وہ جنت ميں داخل ہو گا، اور ابن زنا ہونا اس پر كوئى اثرانداز نہيں ہو گا، كيونكہ يہ اس كا عمل نہيں بلكہ كسى دوسرے كا عمل ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائيگى ﴾.
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:
﴿ ہر شخص اپنے اعمال كا گروى ہے ﴾.
اور اس طرح كى دوسرى آيات بھى ہيں، ليكن جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ روايت كيا جاتا ہے كہ:
" زنا كى اولاد جنت ميں داخل نہيں ہو گى "
يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت نہيں، اور حافظ ابن الجوزى رحمہ اللہ نے اسے الموضوعات ميں ذكر كيا ہے اور يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ روايات ميں شامل ہوتى ہے .
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " اھـ

اور زنا سے پيدا شدہ بچے كے ساتھ شادى كرنے كے متعلق يہ ہے كہ فقھاء ميں كسى بھى معتبر فقيہ نے اس كى حرمت بيان نہيں كى، بلكہ حنابلہ كے ہاں اس كے كفو ہونے ميں كچھ اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا نسب كے اعتبار سے يہ لڑكى كا كفو بنتا ہے يا نہيں كچھ تو اسے كفو نہيں سمجھتے كيونكہ عورت كو اس كى عار دلائى جائيگى اور اس كے خاندان والوں كو بھى عار اٹھانا پڑيگى اور پھر يہى چيز آگے بڑھ كر اس كى اولاد كو بھى طعنہ كا باعث بنے گى "
ديكھيں: المغنى ( 7 / 28 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 24 / 282 ).

فضيلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس نے اپنى بيٹى كا شادى ايسے شخص سے كر دى جس كے متعلق پتہ چلا كہ وہ زنا سے پيدا شدہ تھا اس كا حكم كيا ہے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر وہ مسلمان ہے تو اس كا نكاح صحيح ہے، كيونكہ اس كى ماں كا گناہ اس بچے پر نہيں، اور اسى طرح جس نے اس كى ماں سے زنا كيا تھا اس كا گناہ ميں اس بچے پر نہيں ہے اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائيگى ﴾.
اور اس ليے بھى كہ ان دونوں كے اس عمل كى عار بچے پر نہيں جبكہ بچہ دين پر صحيح عمل كرے اور اللہ كے دينى احكام كى پيروى كرتا ہو اور اسلامى اخلاق ركھتا ہو اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{اے ايمان والو ہم نے تم سب كو ايك ہى مرد و عورت سے پيدا كيا ہے اور اس ليے كہ تم آپس ميں ايك دوسرے كو پہچانو كنبے اور قبيلے بنا ديے ہيں، اللہ كے نزديك تم سب ميں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زيادہ ڈرنے والا ہے يقين مانو كہ اللہ دانا اور باخبر ہے }الحجرات ( 13 ).

ور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جب سب سے بہتر اور كريم ترين شخص كے متعلق دريافت كيا گيا تو آپ نے فرمايا:
" ان ميں سب سے بہتر وہى ہے جو سب سے زيادہ متقى و پرہيزگار ہے "

اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كا عمل اسے سست اور پيچھے ركھے تو اسے اس كا نسب آگے اور تيز نہيں چلاتا " اھـ
ديكھيں: الفتاوى الاسلاميۃ ( 3 / 166 ).
واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/21818
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جزاکم اللہ خیرا ۔
یوسف بھائی آپ نے میری اصلاح فرمائی :


667 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


زنا سے پيدا شدہ بچے كا حال اور اس سے شادى كرنے كا حكم!!!

كيا يہ صحيح ہے كہ ہمارے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زنا سے پيدا شدہ بچے سے شادى كرنے كى سختى سے ممانعت كى ہے، باوجود اس كے كہ وہ شخص بہت متقى اور پرہيزگار بھى ہو سكتا ہے ؟

الحمد للہ:
ولد زنا يعنى زنا سے پيدا شدہ اولاد كے متعلق احاديث ميں مذمت آئى ہے ليكن ان ميں اكثر احاديث ضعيف ہيں جو صحيح ثابت نہيں.
سنن ابو داود اور مسند احمد ميں حديث مروى ہے كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" زنا سے پيدا شدہ بچہ تينوں ميں سے سب سے زيادہ برا ہے "
يعنى وہ اپنے والدين جنہوں نے زنا كيا تھا سے بھى برا اور شرير ہے.
سنن ابو داود ( 4 / 39 ) مسند احمد ( 2 / 311 ).
اس حديث كو ابن قيم رحمہ اللہ نے المنار المنيف ( 133 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 672 ) ميں حسن قرار ديا ہے.
اس حديث كى علماء كرام نے كئى ايك توجيھات كى ہيں جن ميں سے مشہوريہ ہے:
سفيان ثورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر وہ اپنے والدين جيسا عمل كرتا ہے تو وہ تينوں ميں سب سے برا اور شرير ہو گا.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى يہ روايت كيا جاتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب وہ اپنے والدين جيسا عمل كرے تو وہ تينوں ميں سب سے برا ہے "
يعنى اگر زنا سے پيدا شدہ بچہ والدين والا عمل كرتا ہے تو وہ تينوں ميں سب سے برا ہے، اگرچہ اس كى سند ضعيف ہے ليكن بعض سلف نے اسے اس معنى پر ہى محمول كيا ہے جيسا اوپر بيان ہوا ہے.
اس شرح كى تائيد اس روايت سے ہوتى ہے جو امام حاكم نے اپنى سند كے ساتھ روايت كى ہے اور علامہ البانى اس كے متعلق كہتے ہيں كہ اس كى تحسين ممكن ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" زنا سے پيدا شدہ بچے پر اس كے والدين كے گناہ ميں سے كوئى گناہ نہيں، اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائيگى "
مستدرك الحاكم ( 4 / 100 ) السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2186 ).
اور بعض علماء كہتے ہيں كہ يہ حديث اس پر محمول ہے كہ زنا سے پيدا شدہ اولاد غالب طور پر شرير اور برى ہى ہوتى ہے كيونكہ وہ ايك خبيث اور حرام نطفہ سے پيدا ہوئے ہيں، اور غالب طور پر خبيث اور حرام نطفہ سے كبھى پاكيزہ اور اچھا پيدا نہيں ہوتا، لہذا اگر اس نطفہ سے كوئى اچھا شخص پيدا ہو گيا تو وہ جنت ميں جائيگا، اور حديث عام مخصوص ميں شامل ہو گى.
ديكھيں: المنار المنيف ( 133 ).

اسى ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر ولد زنا يعنى زنا سے پيدا شدہ ايمان لے آئے اور نيك و صالح اعمال كرے تو وہ جنت ميں داخل ہو گا، وگرنہ اسے اسى طرح كا بدلہ ديا جائيگا جو اس نے عمل كيے ہونگے جس طرح دوسروں كے ساتھ ہوتا ہے، اور پھر بدلہ تو اعمال كے ساتھ ہوتا ہے نہ كہ حسب و نسب كے مطابق، زنا سے پيدا شدہ بچے كى مذمت تو اس ليے ہوتى ہے كہ عام طور يہى خيال ہوتا ہے كہ وہ بھى غلط اور خبيث و گندے عمل كريگا جيسا كہ اكثر ہوتا ہے، جس طرح اچھے نسب كى تعريف ہوتى ہے كيونكہ ان كے متعلق خير و بھلائى كا خيال ہوتا ہے.
اور جب عمل ظاہر ہو جائيں تو اس كے مطابق ہى بدلہ ملے گا، اور پھر اللہ كے ہاں تو سب سے عزت والى مخلوق سب سے زيادہ متقى و پرہيزگار ہے "
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 5 / 83 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى ميں درج ہے:
" جب زنا سے پيدا شدہ بچہ دين اسلام پر فوت ہو تو وہ جنت ميں داخل ہو گا، اور ابن زنا ہونا اس پر كوئى اثرانداز نہيں ہو گا، كيونكہ يہ اس كا عمل نہيں بلكہ كسى دوسرے كا عمل ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائيگى ﴾.
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:
﴿ ہر شخص اپنے اعمال كا گروى ہے ﴾.
اور اس طرح كى دوسرى آيات بھى ہيں، ليكن جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ روايت كيا جاتا ہے كہ:
" زنا كى اولاد جنت ميں داخل نہيں ہو گى "
يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت نہيں، اور حافظ ابن الجوزى رحمہ اللہ نے اسے الموضوعات ميں ذكر كيا ہے اور يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ روايات ميں شامل ہوتى ہے .
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " اھـ

اور زنا سے پيدا شدہ بچے كے ساتھ شادى كرنے كے متعلق يہ ہے كہ فقھاء ميں كسى بھى معتبر فقيہ نے اس كى حرمت بيان نہيں كى، بلكہ حنابلہ كے ہاں اس كے كفو ہونے ميں كچھ اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا نسب كے اعتبار سے يہ لڑكى كا كفو بنتا ہے يا نہيں كچھ تو اسے كفو نہيں سمجھتے كيونكہ عورت كو اس كى عار دلائى جائيگى اور اس كے خاندان والوں كو بھى عار اٹھانا پڑيگى اور پھر يہى چيز آگے بڑھ كر اس كى اولاد كو بھى طعنہ كا باعث بنے گى "
ديكھيں: المغنى ( 7 / 28 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 24 / 282 ).

فضيلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس نے اپنى بيٹى كا شادى ايسے شخص سے كر دى جس كے متعلق پتہ چلا كہ وہ زنا سے پيدا شدہ تھا اس كا حكم كيا ہے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر وہ مسلمان ہے تو اس كا نكاح صحيح ہے، كيونكہ اس كى ماں كا گناہ اس بچے پر نہيں، اور اسى طرح جس نے اس كى ماں سے زنا كيا تھا اس كا گناہ ميں اس بچے پر نہيں ہے اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائيگى ﴾.
اور اس ليے بھى كہ ان دونوں كے اس عمل كى عار بچے پر نہيں جبكہ بچہ دين پر صحيح عمل كرے اور اللہ كے دينى احكام كى پيروى كرتا ہو اور اسلامى اخلاق ركھتا ہو اس ليے كہ




اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:


يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿١٣﴾

{اے لوگوں
ہم نے تم سب كو ايك ہى مرد و عورت سے پيدا كيا ہے اور اس ليے كہ تم آپس ميں ايك دوسرے كو پہچانو كنبے اور قبيلے بنا ديے ہيں، اللہ كے نزديك تم سب ميں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زيادہ ڈرنے والا ہے يقين مانو كہ اللہ دانا اور باخبر ہے }الحجرات ( 13 ).


ور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جب سب سے بہتر اور كريم ترين شخص كے متعلق دريافت كيا گيا تو آپ نے فرمايا:
" ان ميں سب سے بہتر وہى ہے جو سب سے زيادہ متقى و پرہيزگار ہے "

اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كا عمل اسے سست اور پيچھے ركھے تو اسے اس كا نسب آگے اور تيز نہيں چلاتا " اھـ
ديكھيں: الفتاوى الاسلاميۃ ( 3 / 166 ).
واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/21818
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اَللّهُمَّ اِنّی اَسْئَلُکَ الْهُدی وَ التُّقی وَ الْعِفافَ وَ الْغِنی وَ الْعَمَلَ بِما تُحِبُّ وَ تَرْضی


آمین یا رب العالمین
 
Top