• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زید حامد کون ہیں؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
زید حامد اس حوالے سے کافی تریدی بیان دے چکے ہیں کہ یوسف کی اپنی سوچ سے میرا کوئی واسطہ نہیں،اور کہا میں حضرت محمدؐ کوآخری نبی اور ختم نبوتؐ پہ یقین رکھتا ہوں
اس بات کا حوالہ
 

ajman asad

مبتدی
شمولیت
فروری 08، 2015
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
3
زید حامد کے بارے میں میں بڑا اچھا گمان رکھتا تھا مگر اسکی حقیقت جان کر بڑی حیرانکی ھوئی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا آزاد بھائی ۔
یہ ویڈیو ان لوگوں کا منہ توڑ جواب ہے جو ’’ زید حامد ‘‘ کو ’’ کسی متنبی ‘‘ کا پیروکار سمجھتے ہیں ۔
اس ویڈیو میں اس نے دو تین باتیں بالکل واضح طور پر کہی ہیں :
1۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر کوئی مدعی نبوت کافر ہے ۔
2۔ یوسف کےبارے میں ’’ کفر ‘‘ کے فتوی میں احتیاط اس لیے ہے کیونکہ کئی بڑے علماء نے اس پر لگائے گئے الزام کو غلط قرار دیا ہے ۔
3۔ اگر یوسف نامی شخص پر واقعتا ایسا کوئی الزام ثابت ہوجاتا ہے تو میں اس کو سب سے پہلے ’’ کافر ، کذاب ، مرتد ‘‘ قرار دوں گا ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
جزاکم اللہ خیرا آزاد بھائی ۔
یہ ویڈیو ان لوگوں کا منہ توڑ جواب ہے جو ’’ زید حامد ‘‘ کو ’’ کسی متنبی ‘‘ کا پیروکار سمجھتے ہیں ۔
اس ویڈیو میں اس نے دو تین باتیں بالکل واضح طور پر کہی ہیں :
1۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر کوئی مدعی نبوت کافر ہے ۔
2۔ یوسف کےبارے میں ’’ کفر ‘‘ کے فتوی میں احتیاط اس لیے ہے کیونکہ کئی بڑے علماء نے اس پر لگائے گئے الزام کو غلط قرار دیا ہے ۔
3۔ اگر یوسف نامی شخص پر واقعتا ایسا کوئی الزام ثابت ہوجاتا ہے تو میں اس کو سب سے پہلے ’’ کافر ، کذاب ، مرتد ‘‘ قرار دوں گا ۔
جزاک اللہ خیرا محترم بھائی مگر لگتا ہے آپ کو مکمل معلومات نہیں اور اس زید زمان اور اسکے یوسف کذاب کی چالاکیوں کا علم نہیں مجھے تو یہ بالکل اسی طرح لگتا ہے جس طرح چرب زبان مرزا غلام احمد تھا اور اسکے پیروکاروں کو آج دیکھیں وہ شیزان کے باہر لا نبی بعدی وغیرہ والی حدیثیں لگاتے ہیں تاکہ لوگوں کو گمراہ کر سکیں
جیسے منافقین نے کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں مگر اللہ نے سورہ منافقون میں انکو کیا جواب دیا
محترم بھائی میں جزبات یا بغیر دلیل کے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا اور اگر ہو جائے تو آپ اسکی ضرور اصلاح کریں
زید حامد کا جب پردہ چاک کیا گیا تو پہلے اسنے کوئی اور موقف رکھا اور اب کوئی اور موقف بدل لیا ہے
پہلے وہ کہتا تھا کہ وہ اسکو نہیں جانتا پس زید حامد کے خلاف پرانی کتابوں میں اور اسکے ساتھ بحثوں میں اسنے اپنے تعلق کا انکار کیا ہے آپ آگے لنک میں دیکھ سکیں گے
مگر اب جب معملات پھیل گئے اور وہ کیسٹیں بھی پتا چل گئیں تو پھر اب اسنے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس کا اس سے تعلق تھا اور اس نے کچھ غلط نہیں کیا اور گر اسنے غلط کہا تو وہ ثابت ہو جائے تو میں اسکو مرتدد کہ دوں گا
تو بھائی یاد رکھیں جب مرزائیوں کو کافر کہا گیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کے حربے آزمائے تھے انہوں نے جو جواب پارلیمنٹ میں جمع کروایا تھا اس میں لکھا تھا کہ وہ محمد سلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ہی مانتے ہیں مرزا غلام احمد کو تو وہ صرف بروزی نبی مانتے ہیں پس آپ اس طرح مرزایوں کا کفر بھی ثابت نہیں کر سکتے
اگلی پوسٹ میں کچھ لنک لگاتا ہوں پھر اس پر بحث کریں گے ان شاءاللہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
گزشتہ دنوں ایک شخص زید حامد کے بارے میں جسارت میں مضامین شائع ہوئے‘ جن پر ہمارے کچھ قارئین بالخصوص خواتین کے طبقے نے اعتراضات کیے۔ اعتراضات کرنے والوں میں ایسے بھی تھے جن کی دینی فہم اور اسلام سے محبت مستحکم ہے، لیکن لاعلمی کی بنیاد پر اعتراضات وارد کیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ زید حامد کا سحر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر بہت اچھی گفتگو کرتے ہیں‘ ایسی گفتگو کہ دین دار طبقہ کہہ اٹھے کہ یہ تو اس کے دل کی آواز ہے۔ زبان کا ایسا ہی کمال ”جاہل آن لائن“ میں بھی نظر آتا ہے۔ خطابت کے زور پر ذہنوں کو مسحور کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ بھلا ہو ڈاکٹر فیاض عالم کا‘ جنہوں نے انکشاف کیا کہ زید حامد جھوٹے نبی یوسف کذاب کے خلیفہ تھے۔ لیکن شاید جسارت کے کئی قارئین نے اس پر توجہ نہیں دی۔ یوسف کذاب کا دعویٰ نبوت اور اس کا انجام زیادہ پرانی بات نہیں۔ اسے لاہور کی عدالت نے سزائے موت دی تھی اور زید حامد نے نہ صرف فیصلے کی مخالفت کی بلکہ اس کی ضمانت کی کوشش بھی کرتے رہے‘ مگر اسے کسی غیرت مند نے جیل میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ زید حامد نے جھوٹے نبی کی اطاعت سے توبہ کا اعلان نہیں کیا۔ وہ توبہ کرلیں تو ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن تب تک اُن سے متاثر ہونے والے ان کا پس منظر اپنے ذہن میں رکھیں۔ یوسف کذاب کون تھا، یادداشت تازہ کرنے کے لیے اس پر چلنے والے مقدمے کی تھوڑی سی روداد بیان کرنا مناسب ہوگا تاکہ زید حامد کا پس منظر بھی تھوڑا سا سامنے آجائے۔ سیشن جج لاہور کی عدالت میں چلنے والے اس اہم مقدمے کی پوری تفصیل ایک کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے جس کا عنوان ہے:''Judgment of yousuf kazzab blasphemy case'' اسے جناب ارشد قریشی نے مرتب کیا ہے اور اس کاپیش لفظ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ محمد اسماعیل قریشی نے لکھا ہے۔ قریشی صاحب ہی نے یوسف کذاب کے خلاف مقدمہ کی پیروی کی تھی جس کے نتیجے میں 5 اگست 2000ءکو جج میاں محمد جہانگیر نے مجرم کذاب کو موت کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کو انہی زید حامد نے انصاف کا قتل قرار دیا۔ ان کے خیال میں توہینِ رسالت کا مرتکب اور خود نبوت کا دعویدار، اپنے دور کا کذاب ِعظیم ایک معزز صوفی اسکالر تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ زید حامد یوسف کذاب سے براء ت کا اعلان کریں، جس نے بے شمار لوگوں کو اپنی خطابت کے سحر سے گمراہ کیا۔ اب آپ محمد اسماعیل قریشی کے قلم سے مقدمہ کی مختصر سی روداد اور تبصرہ ملاحظہ کریں۔ اللہ ہم سب کو دجالوں اور ابو جہل کے پیروکاروں سے محفوظ رکھے: ............٭٭............ میں فاضل سیشن جج لاہور میاں محمد جہانگیر کے تفصیلی فیصلے مجریہ 5 اگست 2000ءپر تبصرہ کرتے ہوئے جھجک رہا تھا جس میں فاضل جج نے یوسف علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے جرم میں موت کی سزا دی ہے جب اس نے مدینہ منورہ سے اپنی واپسی پر نبوت کی آخری اور حتمی منزل طے کرلینے کا دعویٰ کیا تھا۔ مجرم کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دھوکا اور جعلسازی کے گھناؤنے جرم کے ارتکاب کی سزا بھی دی گئی ہے۔ اس کو بلند مرتبت اہلِ بیت (علیہ السلام) اور صحابہ کرامؓ کا تقدس مجروح کرنے کی سزا بھی دی گئی۔ دوسرے یہ کہ میں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے اس لیے بھی گریز کیا کہ میں اس فیصلے کا حصہ ہوں اور میری کتاب ”ناموسِ رسالت اور قانون توہین ِ رسالت“ کا حوالہ مجرم نے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے سامنے بار بار دیا۔ دریں اثناءمجرم کے ایک نام نہاد صحابی زید حامد نے ڈان شمارہ 13 اگست 2000ءمیں فیصلے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور شر انگیزی کی اس پست ترین سطح تک گرگئے کہ اس فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دے دیا اور مجرم کو ایک مہربان اور اسلام کے معزز صوفی اسکالر کے طور پر پیش کیا ہے۔ فیصلے کے بارے میں تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کے بارے میں تبصرہ نگار کا علم کس قدر سطحی ہے۔ ان کے بیان کردہ حقائق سچائی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ اسی طرح ڈیلی نیوز لاہور میں اسی دن شائع ہونے والے مجرم کے بیان میں بھی مقدمے کے اصل متن کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس گمراہ کن مہم نے مجرم کے ایک سابق قریبی ساتھی اور اسکالر جناب ارشد قریشی کو جو قادریہ صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں‘ فاضل سیشن جج کا مقدمہ کتابی شکل میں شائع کرنے پر مجبور کردیا تاکہ عوام مجرم کا اصلی روپ اس تاریخی مقدمے کی روشنی میں دیکھ سکیں۔ انہوں نے مجھ سے اپنی اس زیرِ طبع کتاب کے لیے پیش لفظ لکھنے کی درخواست کی۔ اس کتاب کے مؤلف ایک اور کتاب ”فتنہ یوسف کذاب“ کے مصنف بھی ہیں جو تین جلدوں میں ہے۔ نہ صرف مقدمے کی سماعت کرنے والے فاضل جج بلکہ خود میرے اور ممتاز وکلا سردار احمد خان، ایم اقبال چیمہ، غلام مصطفی چوہدری، یعقوب علی قریشی اور میاں صابر نشتر ایڈووکیٹ پر مشتمل میرے پینل کے خلاف مجرم کی مسلسل ناجائز مہم جوئی کے پیش نظر میں نے یہ پیش لفظ لکھ کر عوام پر یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھا کہ آدھا سچ صریح جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جج صاحبان خود اپنے فیصلوں کا دفاع نہیںکرسکتے بلکہ وہ اپنے فیصلوں کے ذریعے کلام کرسکتے ہیں۔ اس لیے جو معاملہ عدالت سے تعلق رکھتا ہے تو عدالت خود ہی اس توہین آمیز مواد پر گرفت کرے گی لیکن میں صرف مدعی کے وکلا کی اس کردارکشی کو زیربحث لاں گا جو بعض اخبارات کے ذریعے کی گئی ہے۔ جہاں تک مجرم کے طرزعمل اور کردار کا تعلق ہے تو اس نے عدالت میں پیش کردہ خود اپنی دستاویزات کے ذریعے ہی اپنی اصلیت ثابت کردی ہے کہ جدید مشینی طریقوں کے ذریعے انسانی ذہن اتنے بڑے فراڈ کو شاید ہی کبھی احاطہ خیال میں لاسکا ہو۔ اس نے ایک دستاویز پیش کی جسے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے سند ڈی 1 کے طور پر پیش کیا ہے اور جو اس کتاب کے شیڈول Iکا حصہ بھی ہے۔ اس دستاویز کے بارے میں اس لیے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ وہ سرٹیفکیٹ ہے جو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو براہِ راست بھیجا ہے جس کی رو سے اس کو خلیفہ اعظم قرار دیا گیا ہے۔ میری جرح پر اس کے اعتراف کے مطابق تمام انبیاءکرام کو خلفائ‘ زمین پر اللہ کے نائب مقرر کیا گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ اعظم، نائبین کے سربراہ اعلیٰ ہیں‘ لہٰذا اس سرٹیفکیٹ کی رو سے اب وہ زمین پر خلیفہ اعظم ہے۔ جرح میں اس نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ چاروں خلفاءمیں سے کوئی بھی خلیفہ اعظم کے مرتبے پر فائز نہیں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خلیفہ اعظم کا یہ سرٹیفکیٹ اس کو کراچی کے ایک بزرگ عبداللہ شاہ غازی کی وساطت سے ان کے لیٹر پیڈ پر کمپیوٹر کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے مذکورہ بزرگ 300 سال قبل وفات پاچکے ہیں۔ نبی کریم کی جانب سے انگریزی زبان میں مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو خلیفہ اعظم حضرت امام الشیخ ابو محمد یوسف کے طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو علم کا محور اور عقل و دانش میں حرف ِآخر قرار دیا گیا ہے۔ اس اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے مجرم نے کہا کہ وہ قرآن پاک کا مفسر ہے۔ وہ حدیث اور فقہ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ وہ تصوف کا ماہر ہے اور دنیاوی سائنسی علوم سے بھی واقف ہے۔ اس کے ہمہ جہت علم و دانش کا اندازہ لگانے کی غرض سے میں نے اس سے دینی علم کے بارے میں جرح کی اور جدید سائنسی تحقیق کے بارے میں بھی سوالات پوچھے۔ میں یہاں بتانا چاہوں گا کہ مجرم نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ اس کو تمام پیغامات براہِ راست رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے عربی یا انگریزی میں موصول ہوتے ہیں۔ میں نے اس سے قرآنی لفظ ”تقویٰ“ کی دلیل کے بارے میں سوال کیا لیکن وہ اس کا جواب نہیں دے سکا۔ میں نے اس سے خلیفہ اعظم سرٹیفکیٹ کی پیشانی پر تحریر الفاظ ”وسعت“ اور ”حشر“ کے معنی پوچھے مگر وہ ان الفاظ کے آسان معنی بتانے میں بری طرح ناکام رہا۔ یہاں تک کہ وہ صحاح ستہ کے نام سے مشہور اور قرآن کے بعد پوری دنیا کے لیے انتہائی محترم حدیث کی چھ کتابوں کے نام بتانے سے بھی قاصر رہا۔ آل رسول کا دعویدار ہونے کے باوجود اس کو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلماور حضرت علی ؓ کے بارے میں مدینتہ العلم کی انتہائی مشہور حدیث کا بھی کوئی علم نہیں۔ اسکول سرٹیفکیٹ اور اس کے سروس ریکارڈ کے مطابق اس کا نام یوسف علی ہے۔ (شیڈول II) ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے لوگوں کو دھوکا دینے اور نبی کریم کے نام پر جعلسازی کے ذریعے بے تحاشہ پیسہ حاصل کرنے اور لاکھوں روپے مالیت کی جائداد بنانے کے مذموم مقاصد کے پیش نظر اپنے نام میں ”محمد“ کا اضافہ کرلیا۔ یہ حقائق اس کے اپنے اعترافات اور پیش کردہ دستاویزات سے ثابت ہیں ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اقبال کا گہرا مطالعہ کیا ہے‘ لیکن وہ ان کے 6 خطبات سے نابلد ہے اور ان کی شاعری میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کا مطلب جانتا ہے نہ ہی وہ اقبال کے فلسفہ خودی کی وضاحت کرسکا۔ اس کا مولانا مودودی کے ساتھ منسلک رہنے کا دعویٰ بھی صریح غلط بیانی پر مبنی ہے اور جماعت اسلامی کی طرف سے اس کی تردید کی جاچکی ہے۔ اسی طرح وہ جدید سائنس کی الف، ب بھی نہیں جانتا اور ڈی این اے کا مطلب نہیں بتا پایا۔ اس نے یہ لفظ عدالت کے سامنے خود اپنے بیان میں استعمال کیا تھا۔ اپنے اس مذموم منصوبے کو تقویت بخشنے کی غرض سے اس نے نوجوانوں کی عالمی تنظیم ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY) کا ڈائریکٹر جنرل ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کا صدر دفتر جدہ میں ہے اور جس کے دفاتر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میں اس تنظیم کا ایسوسی ایٹ ممبر رہا ہوں لہٰذا میں نے فوری طور پر سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مانج الجہنی سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے فوراً ہی فیکس کے ذریعے مجھے آگاہ کیا کہ ”وامی“ یوسف علی نام کے کسی شخص سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی اس نام کے کسی شخص کو کبھی ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گےا تھا۔ مذکورہ خط میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر مذکورہ یوسف علی نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز یا کوئی دوسرا مواد پیش کیا ہو تو اسے غلط اور جھوٹ تصور کیا جائے۔ سیکریٹری جنرل وامی نے اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور سزا دلانے کا اختیار بھی دیا۔ مذکورہ خط عدالت میں پیش کیا گیا اور یہ بھی شیڈول III کے طور پر منسلک ہے۔ مجرم نے اس جعلسازی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے خود کو سعودی عرب سے قبرص کے سفیر کے مرتبے پر بھی فائز کردیا اور ہزایکسیلنسی بن کر سابق چیف جسٹس حمودالرحمن اور جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ کے ساتھ اپنی تصویر بھی کھنچوائی۔ (شیڈول IV)۔ تاہم جسٹس چیمہ نے اسلام آباد سے ٹیلی فون پر میرے استفسار پر ایسے کسی ہز ایکسیلنسی سے واقفیت کی تردید کی۔ مجرم نے اپنے بیان میں اس بات سے انکار کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو جانتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جو قادیان کے اس مرزا نے اختیار کیا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ برطانوی حکومت نے بھارت کے مسلم حکمرانوں سے اقتدار غصب کرنے کے بعد انیسویں صدی میں توہینِ رسالت کا قانون منسوخ کردیا‘ جبکہ انگلینڈ میں اُس وقت بھی یہ قانون آئین کا حصہ تھا۔ مرزا غلام احمد کو برطانوی حکومت کی طرف سے اسلام کے لبادے میں اپنے نئے مذہب کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ لیکن اپنے آقاؤں کی اس یقین دہانی کے بعد کہ برطانوی حکومت اس کے خلاف کسی بھی مذہبی تحریک کو پوری سختی سے کچل دے گی اس نے یہ اعلان کردیا کہ جو کوئی بھی اس پر ایمان نہیں لائے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ اس کا یہ اعلان مکتوبات مطبوعہ مارچ 1906ء(شیڈولVI) میں موجود ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ مجرم یوسف علی بھی مرزا غلام احمد کے نقش قدم پر چلا اور اس نے زبانی اور دستاویزی شہادت کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ وہ بھی اپنے مشن اور نبوت کے جھوٹے دعویدار کا حقیقی جانشین ہے۔ پہلے اس نے مذہبی حلقوں میں اسلام کے مبلغ کی حیثیت سے رسائی حاصل کی، پھر مرد ِ کامل، اس کے بعد امام الوقت یعنی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر خود کو خلیفہ اعظم قرار دے دیا۔ پھر اس نے ”غار حرا“ سے موسوم اپنے بیسمنٹ میں اپنے پیروکاروں کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعلان کردیا۔ وہ مرزا غلام احمد کی طرح اپنے اس جھوٹے دعوے پر بھی مطمئن نہیں ہوا اور اس نے خود کو نبی آخرالزماں سے (نعوذ باللہ) برتر ہستی ظاہر کرنے کے لیے یہ اعلان کردیا کہ 1400 سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمایک فریضہ سرانجام دے رہے تھے مگر دور حاضر میں اس نے نبوت اور اس کے حسن کو عروج کمال پر پہنچا دیا ہے۔ مجرم کے اس شرانگیز اور اشتعال انگیز دعوے کے ثبوت میں استغاثہ نے 14 گواہ پیش کیے جن میں کراچی سے بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر محمد اسلم (گواہ استغاثہ1)، محمد اکرم رانا (گواہ استغاثہ2 )‘ محمد علی ابوبکر (گواہ استغاثہ7) اور لاہور سے حافظ محمد ممتاز عدانی، (گواہ استغاثہ نمبر4)‘ میاں محمد اویس (گواہ استغاثہ5) شامل تھے جنہوں نے مجرم کی جانب سے نبوت اورختمی فضیلت کے جھوٹے دعوے کی براہِ راست عینی شہادتوں پر مبنی واقعات بیان کیے۔ سماجی اور مذہبی مرتبے کے حامل ان گواہوں کے ساتھ مجرم کی کوئی عداوت نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ لوگ اس کے اندھے عقیدت مند اور پیروکار تھے‘ بالخصوص محمد علی ابوبکر تو اس سے اتنا قریب تھا کہ اسے مجرم آقا سے مکمل وفاداری اور اس کے احکام کی تعمیل اور بھرپور اطاعت کی بناءپر ابوبکر صدیق کا خطاب دیا گیا تھا۔ کراچی کے اس مرید نے اس کو لاکھوں روپے مالیت کے چیک اور ڈرافٹ دیئے اور اس کے لیے آراستہ و پیراستہ محل تعمیر کیا جس میں غار حرا بھی بنایا گیا تھا۔ مجرم نے نقد یا چیک اور ڈرافٹ کی شکل میں رقم وصول کرنے کی حقیقت سے انکار نہیں کیا۔ اپنے اس نام نہاد نبی کے حق میں اپنی تمام جائداد سے دستبردار ہونے پر اس کے صحابی کو صدیق کا خطاب عطاکیاگیا تھا۔ اس طرح مجرم نے رسول پاک کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا اور انہیں مفلسی اور محتاجی سے دوچار کردیا۔ جب اس نے اپنے خلاف مسلمانوں کے غیظ وغضب اور شدید اشتعال کی کیفیت دیکھی تو اپنی گردن بچانے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح وہ بھی اپنے دعوے سے مکر گیا۔ اس کی تردید صریح دجل وفریب اور ”محمد“ ”آل رسول“ اور ”صحابہ“ کے مقدس الفاظ کی غلط ترجمانی کی عکاس تھی جیسا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے۔ یوسف علی نے مسلمان ہوکر بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے لوگوں کو دھوکا دینے اور مال ودولت اور جائداد کی خاطر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لےے توہین رسالت کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔
بشکریہ اردو مجلس لنک
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
کیسٹ سے ٹکڑے
نمبر-1
audio recording 1.png


نمبر ۔2
Snapshot2.png


نمبر-3
Snapshot3.png
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ابن عمر نے متفرقات میں دسمبر 4، 2008 کو نیا موضوع شروع کیا۔

گزشتہ دنوں ایک شخص زید حامد کے بارے میں جسارت میں مضامین شائع ہوئے‘

بشکریہ اردو مجلس لنک
عبدہ بھائی کاپی مراسلہ میں تاریخ اجراء بھی ساتھ پیش کرتے ہیں، گزشتہ دنوں 5 سال پرانا ھے اور حضر حیات بھائی کی رائے گزشتہ دن کی ھے۔

والسلام
 
شمولیت
مارچ 08، 2012
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
89
اور پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ کہیں ہم ایک اسلام پسند شخص کے بارے میں اسلام دشمنوں کے پھیلائے ہوئے الزامات کا شکار تو نہیں ہورہے ۔؟!
کیا کوئ اسلام پشند شخص جمہوریت کے نام پر لیے جانے والے ملک کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر سکتا ہے؟؟
کیا کوئ اسلام پسند شخص یہودی کے لیے لڑنے والی آرمی کو عیسی علیہ السلام کا ساتھ دینے والے مجاہدین کہ سکتا ہے؟؟
 
Last edited:
Top