• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زید حامد کون ہیں؟

شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
خضر بھائی یوسف کذاب کی آڈیو میں وہ صاف کہ رہا ہے مفھوما
کہ کراچی ھم گئے تو یہ لوگ محمد سے مل کر محمد رسول اللہ سے ملے اور پھر محمد ذات حق سے ملے
پہلے محمد سے خود دوسرے سے اللہ کے نبی اور تیسرے محمد سے اللہ کو مراد لیتا ہے اور برملا کہتا ہے سو سے زائد صحابہ اس مجلس میں موجود ہیں دوسرے نمبر پر زید زمان کو ہی صحابی کے طور پر پیش کرتا پے
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
زید حامد ایک اچھا انسان ہے نوجوان نسل کو صرف دین کی طرف مجاھدوں والی تعلیم دیتا ہے !! دوستوں کے پاس اس کے خلاف دلائل نہیں بس باتیں ہے پاکستانی مسلمانوں کو جو سیکولر کچا کھانے کے دھر پے ہے اکیلا ان کو منہ توڑ جواب بھی دیتا ہے ۔۔۔ ھمارے مسلمہ امہ میں جو مسئلہ مسائل ہے کبھی پریشان ہو اس کا کوئی بیان سنئے دل کی تسلی کر وا دینگا !!! ان شاء اللہ ۔۔۔ اس کا اوڑھنا بچھوڑنا پاکستان کا دفاع ہے !! ہاں بعض غلطیاں بھی ہونگی بے شک ۔۔۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
اگر وہ ملحدین کا رد کرتا ہے تو کیا ہوا ان اللہ لیوید دینہ بالرجل الفاجر
قربانیاں تو جان و مال سے طالبان نے بھی دیں ہیں کیا مرزائیوں کے خلاف بریلوی اور شیعہ کی قربانیاں محنتیں انہیں حق پرست بنا دیں گی؟؟؟؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
زید حامد ایک اچھا انسان ہے نوجوان نسل کو صرف دین کی طرف مجاھدوں والی تعلیم دیتا ہے !! دوستوں کے پاس اس کے خلاف دلائل نہیں بس باتیں ہے
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے آپ نے کہا اسکے خلاف جن لوگوں نے بات کی ہے انہوں نے دلائل نہیں دیئے خالی باتیں کی ہیں اور انکے حق میں بات کرنے والوں نے دلائل دیئے ہیں
واللہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ کو واقعی اسکے خلاف کوئی دلیل نظر نہیں آئی آپ اسکے حق میں اوپر کی گئی کوئی ایک دلیل کی کاپی یہاں کر دیں جس کا جواب نہیں دیا گیا تاکہ ہماری اصلاح ہو جائے اور اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے امین

پاکستانی مسلمانوں کو جو سیکولر کچا کھانے کے دھر پے ہے اکیلا ان کو منہ توڑ جواب بھی دیتا ہے ۔۔۔ ھمارے مسلمہ امہ میں جو مسئلہ مسائل ہے کبھی پریشان ہو اس کا کوئی بیان سنئے دل کی تسلی کر وا دینگا !!! ان شاء اللہ ۔۔۔ اس کا اوڑھنا بچھوڑنا پاکستان کا دفاع ہے !! ہاں بعض غلطیاں بھی ہونگی بے شک ۔۔۔
محترم بھائی آپ نے اسکے حق میں یہاں دلیل دی ہے جو اوپر لکھی ہے کہ وہ سیکولر کے خلاف باتیں کرتا ہے کیا یہ دلیل ہر ایک کے لئے آپ کو قبول ہو گی جیسا کہ اوپر محترم قاہر بھائی نے سوال کیا ہے
ہم آپ کی دلیل کو دیکھیں گے کہ آپ بھی اسکو دلیل مانتے ہیں یا پھر آپ بھی اسکو خالی بات مانتے ہیں ہم معاملہ آپ پر ہی چھوڑ دیتے ہیں لیکن اگر آپ اسکو واقعی دلیل مانتے ہیں تو پھر آپ کو ہر ایک کے بارے قبول ہونی چاہئے گی یعنی جو بھی سیکولر کے خلاف بات کرے وہ آپ کے نزدیک عین مجاہد ہے چاہے وہ شیعہ ہو چاہے بریلوی چاہے
کیا ایسا ہی ہے اگر نہیں تو پھر کہیں لا شعوری طور پر ایسا تو نہیں ہو گیا کہ آپ نے اسکے حق میں خالی باتیں ہی کی ہوں دلیل نہ دی ہو اور سمجھا ہو کہ دلیل دی ہے محترم بھائی واللہ مجھے پتا ہے کہ یہ سب لا شعوری طور پر ہوتا ہے اور میں بھی اسکی باتوں کی وجہ سے اسکو ایسا ہی سمجھتا تھا اور اپنے دروس میں اللہ کی قسم بہت تائید کرتا تھا اور اسکے زائیونسٹ یہودی اور زائیونسٹ ہندو اور عیسائی کے فلسفے سے بہت متاثر ہوتا تھا بعد میں جب کچھ بھائیوں نے دلائل سے بتایا جیسا کہ اوپر بھائی نے بتایا ہے کہ اللہ کسی فاجر اور مشرک سے ایسا کام بھی لے سکتا ہے تو مجھ پر اللہ کی رحمت سے واضح ہو گیا
یہاں معاملہ باتوں کا نہیں شخصیت کا ہے اور ہم اسکی شخصیت پر بات جو کر رہے ہیں وہ ایک خاص وجہ سے کر رہے ہیں دیکھیں منافقوں کے یہ کہنے سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اللہ نے اسکی خود تو تائید کی مگر انکو جھوٹا کہ دیا اور ساتھ ہمیں بتا دیا کہ یہ اس طرح کر کے اسکو ڈھال بنانا چاہتے ہیں تاکہ اور باتیں غلط بھی کریں تو تم انکو مان لو اسی طرح دوسری غائب کی خبروں والی حدیث آتی ہے کہ فرمایا گیا کہ وہ ایک سچی خبر بتا دیتے ہیں اور پھر سو اس میں جھوٹ ملا دیتے ہیں پس جب ہمیں شریعت میں ایسی باتوں سے خبر دار کیا گیا ہے تو اسی وجہ سے میں بھی چاہتا ہوں کہ یہ جلیبی سے زیادہ ٹیڑھا انسان تو اس پر تو ان منافقین سے زیادہ ہمیں احتیاط کرنی ہو گی کیونکہ اسکا کوئی پتا نہیں چلتا اور نہ کوئی مذہب اور دین ہے صوفیوں کا ماننے والا لگتا ہے کبھی انتہائی درجہ کا مشرک لگتا ہے جیسا کہ اوپر ٹیپ میں غلیظ مشرکانہ باتیں بھی کی گئی ہیں اور اسی طرح دین سے ہٹ کر لوگوں کو سیکولر کی طرح اکٹھا کرنا وغیرہ جیسے معاملے شامل ہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
لنک

کوئی بھائی اس فراڈیے کی کچھ باتوں کی وضاحت کر دے
مثلا 1:52 یہ کہتا ہے کہ یہاں صرف سبز گنبد ہو گا یا سبز حلالی پرچم- اور کچھ نہیں ہو گا جس کسی نے تیسرا کام کیا خدا کی قسم ہم اپنے ہاتھ سے سر کاٹیں گے اسکا-
میرا سوال یہ ہے کہ اس فراڈیے کا منہج ہے کہ کچھ باتیں ایسی ہو سکتی ہیں کہ جن پر ہمیں متفق ہونا ہے اور جو ان باتوں کو نہ مانے اس کا سر کاٹنا ہے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
1.وہ کون سی باتیں ہو سکتی ہیں
2. ان باتوں کا فیصلہ کون کرے گا
3.اسکی حد کہاں تک ہو گی یعنی اسکا اطلاق کسی ایک ملک کے لئے ہے یا پوری دنیا کے لئے
4.اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس مشن کا مقصد کیا ہے یعنی مقصد کسی ملک کو بچانا ہے یا کسی دین کو بچانا ہے یا کسی انسان کو بچانا ہے
5.اگر مقصد کسی دین کو بچانا نہیں بلکہ کسی ملک یا کچھ انسانوں کو دنیا کی تباہی سے بچانا ہے تو اس ملک کے لوگ یا وہ بچائے جانے والے انسان اس بارے فیصلہ کر سکتے ہیں اور وہ جمہوریت سے ممکن ہے پس اس میں ہم نہیں بول سکتے کیونکہ ہم تو کثیر نہیں بلکہ قلیل ہیں
6.اگر کوئی دین بچانا مقصد ہے تو دین اگر سیکولرازم ہے تو معاملہ سیکولر لوگوں سے پوچھنا پڑے گا
7.اگر دین اسلام بچانا مقصد ہے تو پھر دین اسلام کی تو بنیاد ہی توحید ہے پھر بھلا جو مشن توحید پر بات کرنے اور توحید کو اہم ہی نہ سمجھے وہ اسلام کو کیا بچائے گا
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
یہ ویڈیوں دیکھنے کے بعد کوئی مؤمن اپنے کسی مسلمان بھائی کے لئے زبان دراز نہیں کرے گا ورنہ یہ سمجھ لے کہ رب کے سامنے بڑی اچھی طرح جواب دینا ہونگا !!!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اوپر پوسٹ نمبر (33 )میں
یوسف کذاب جو اپنی مجلس میں ایک سو صحابہ کی موجودگی کی بات کر رہا ہے ،
زید زمان نے اس کی تردید نہیں ،بلکہ تصدیق کی ہے ،


پھر بھی اس کے ایمان بارے اتنا یقین محکم کس بنیاد پر ؟

سیکولر اور غیر سیکولر کی بحث یہاں فضول ہے ،
دفاع پاکستان کا موضوع بہت بعد کا ہے ،
اصل بات تو یوسٖف کذاب کی ہے ،جو ببانگ دہل میر مجلس بن کر اپنے صحابہ کے کی موجودگی کا اعلان عام کر رہا ہے
اور مزے کی بات یہ کہ اس کذاب پہلا صحابی (عبد الواحد ) مجلس میں کھڑے ہو کر اقبال کا شعر بھی غلط پڑھتا ہے
جس کو اردو آتی ہو ،سن کر اس جاہل ،جعلی صحابی کا حدود اربعہ معلوم کر سکتا ہے
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
یوسف کذاب اور اس کے خلیفہ کی حقیقت

یوسف کذاب کا دعویٰ نبوت اور اس کا انجام زیادہ پرانی بات نہیں۔ اسے لاہور کی عدالت نے سزائے موت دی تھی اور زید حامد نے نہ صرف فیصلے کی مخالفت کی بلکہ اس کی ضمانت کی کوشش بھی کرتے رہے‘ مگر اسے کسی غیرت مند نے جیل میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔
زید حامد نے جھوٹے نبی کی اطاعت سے توبہ کا اعلان نہیں کیا۔ وہ توبہ کرلیں تو ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن تب تک اُن سے متاثر ہونے والے ان کا پس منظر اپنے ذہن میں رکھیں۔ یوسف کذاب کون تھا، یادداشت تازہ کرنے کے لیے اس پر چلنے والے مقدمے کی تھوڑی سی روداد بیان کرنا مناسب ہوگا تاکہ زید حامد کا پس منظر بھی تھوڑا سا سامنے آجائے۔

سیشن جج لاہور کی عدالت میں چلنے والے اس اہم مقدمے کی پوری تفصیل ایک کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے جس کا عنوان ہے:''Judgment of yousuf kazzab blasphemy case'' اسے جناب ارشد قریشی نے مرتب کیا ہے اور اس کاپیش لفظ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ محمد اسماعیل قریشی نے لکھا ہے۔
قریشی صاحب ہی نے یوسف کذاب کے خلاف مقدمہ کی پیروی کی تھی جس کے نتیجے میں 5 اگست 2000ءکو جج میاں محمد جہانگیر نے مجرم کذاب کو موت کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کو انہی زید حامد نے انصاف کا قتل قرار دیا۔ ان کے خیال میں توہینِ رسالت کا مرتکب اور خود نبوت کا دعویدار، اپنے دور کا کذاب ِعظیم ایک معزز صوفی اسکالر تھا۔
اب بھی وقت ہے کہ زید حامد یوسف کذاب سے براء ت کا اعلان کریں، جس نے بے شمار لوگوں کو اپنی خطابت کے سحر سے گمراہ کیا۔ اب آپ محمد اسماعیل قریشی کے قلم سے مقدمہ کی مختصر سی روداد اور تبصرہ ملاحظہ کریں۔ اللہ ہم سب کو دجالوں اور ابو جہل کے پیروکاروں سے محفوظ رکھے: ............٭٭............

میں فاضل سیشن جج لاہور میاں محمد جہانگیر کے تفصیلی فیصلے مجریہ 5 اگست 2000ءپر تبصرہ کرتے ہوئے جھجک رہا تھا جس میں فاضل جج نے یوسف علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے جرم میں موت کی سزا دی ہے جب اس نے مدینہ منورہ سے اپنی واپسی پر نبوت کی آخری اور حتمی منزل طے کرلینے کا دعویٰ کیا تھا۔ مجرم کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دھوکا اور جعلسازی کے گھناؤنے جرم کے ارتکاب کی سزا بھی دی گئی ہے۔ اس کو بلند مرتبت اہلِ بیت (علیہ السلام) اور صحابہ کرامؓ کا تقدس مجروح کرنے کی سزا بھی دی گئی۔ دوسرے یہ کہ میں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے اس لیے بھی گریز کیا کہ میں اس فیصلے کا حصہ ہوں اور میری کتاب ”ناموسِ رسالت اور قانون توہین ِ رسالت“ کا حوالہ مجرم نے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے سامنے بار بار دیا۔

دریں اثناءمجرم کے ایک نام نہاد صحابی زید حامد نے ڈان شمارہ 13 اگست 2000ءمیں فیصلے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور شر انگیزی کی اس پست ترین سطح تک گرگئے کہ اس فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دے دیا اور مجرم کو ایک مہربان اور اسلام کے معزز صوفی اسکالر کے طور پر پیش کیا ہے۔ فیصلے کے بارے میں تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کے بارے میں تبصرہ نگار کا علم کس قدر سطحی ہے۔ ان کے بیان کردہ حقائق سچائی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ اسی طرح ڈیلی نیوز لاہور میں اسی دن شائع ہونے والے مجرم کے بیان میں بھی مقدمے کے اصل متن کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس گمراہ کن مہم نے مجرم کے ایک سابق قریبی ساتھی اور اسکالر جناب ارشد قریشی کو جو قادریہ صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں‘ فاضل سیشن جج کا مقدمہ کتابی شکل میں شائع کرنے پر مجبور کردیا تاکہ عوام مجرم کا اصلی روپ اس تاریخی مقدمے کی روشنی میں دیکھ سکیں۔ انہوں نے مجھ سے اپنی اس زیرِ طبع کتاب کے لیے پیش لفظ لکھنے کی درخواست کی۔ اس کتاب کے مؤلف ایک اور کتاب ”فتنہ یوسف کذاب“ کے مصنف بھی ہیں جو تین جلدوں میں ہے۔ نہ صرف مقدمے کی سماعت کرنے والے فاضل جج بلکہ خود میرے اور ممتاز وکلا سردار احمد خان، ایم اقبال چیمہ، غلام مصطفی چوہدری، یعقوب علی قریشی اور میاں صابر نشتر ایڈووکیٹ پر مشتمل میرے پینل کے خلاف مجرم کی مسلسل ناجائز مہم جوئی کے پیش نظر میں نے یہ پیش لفظ لکھ کر عوام پر یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھا کہ آدھا سچ صریح جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جج صاحبان خود اپنے فیصلوں کا دفاع نہیںکرسکتے بلکہ وہ اپنے فیصلوں کے ذریعے کلام کرسکتے ہیں۔ اس لیے جو معاملہ عدالت سے تعلق رکھتا ہے تو عدالت خود ہی اس توہین آمیز مواد پر گرفت کرے گی لیکن میں صرف مدعی کے وکلا کی اس کردارکشی کو زیربحث لاﺅں گا جو بعض اخبارات کے ذریعے کی گئی ہے۔ جہاں تک مجرم کے طرزعمل اور کردار کا تعلق ہے تو اس نے عدالت میں پیش کردہ خود اپنی دستاویزات کے ذریعے ہی اپنی اصلیت ثابت کردی ہے کہ جدید مشینی طریقوں کے ذریعے انسانی ذہن اتنے بڑے فراڈ کو شاید ہی کبھی احاطہ خیال میں لاسکا ہو۔ اس نے ایک دستاویز پیش کی جسے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے سند ڈی 1 کے طور پر پیش کیا ہے
اور جو اس کتاب کے شیڈول Iکا حصہ بھی ہے۔ اس دستاویز کے بارے میں اس لیے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ وہ سرٹیفکیٹ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو براہِ راست بھیجا ہے جس کی رو سے اس کو خلیفہ اعظم قرار دیا گیا ہے۔ میری جرح پر اس کے اعتراف کے مطابق تمام انبیاءکرام کو خلفائ‘ زمین پر اللہ کے نائب مقرر کیا گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ اعظم، نائبین کے سربراہ اعلیٰ ہیں‘ لہٰذا اس سرٹیفکیٹ کی رو سے اب وہ زمین پر خلیفہ اعظم ہے۔ جرح میں اس نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ چاروں خلفاءمیں سے کوئی بھی خلیفہ اعظم کے مرتبے پر فائز نہیں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خلیفہ اعظم کا یہ سرٹیفکیٹ اس کو کراچی کے ایک بزرگ عبداللہ شاہ غازی کی وساطت سے ان کے لیٹر پیڈ پر کمپیوٹر کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے مذکورہ بزرگ 300 سال قبل وفات پاچکے ہیں۔ نبی کریم کی جانب سے انگریزی زبان میں مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو خلیفہ اعظم حضرت امام الشیخ ابو محمد یوسف کے طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو علم کا محور اور عقل و دانش میں حرف ِآخر قرار دیا گیا ہے۔ اس اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے مجرم نے کہا کہ وہ قرآن پاک کا مفسر ہے۔ وہ حدیث اور فقہ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ وہ تصوف کا ماہر ہے اور دنیاوی سائنسی علوم سے بھی واقف ہے۔ اس کے ہمہ جہت علم و دانش کا اندازہ لگانے کی غرض سے میں نے اس سے دینی علم کے بارے میں جرح کی اور جدید سائنسی تحقیق کے بارے میں بھی سوالات پوچھے۔ میں یہاں بتانا چاہوں گا کہ مجرم نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ اس کو تمام پیغامات براہِ راست رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے عربی یا انگریزی میں موصول ہوتے ہیں۔ میں نے اس سے قرآنی لفظ ”تقویٰ“ کی دلیل کے بارے میں سوال کیا لیکن وہ اس کا جواب نہیں دے سکا۔ میں نے اس سے خلیفہ اعظم سرٹیفکیٹ کی پیشانی پر تحریر الفاظ ”وسعت“ اور ”حشر“ کے معنی پوچھے مگر وہ ان الفاظ کے آسان معنی بتانے میں بری طرح ناکام رہا۔ یہاں تک کہ وہ صحاح ستہ کے نام سے مشہور اور قرآن کے بعد پوری دنیا کے لیے انتہائی محترم حدیث کی چھ کتابوں کے نام بتانے سے بھی قاصر رہا۔ آل رسول کا دعویدار ہونے کے باوجود اس کو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلماور حضرت علی ؓ کے بارے میں مدینتہ العلم کی انتہائی مشہور حدیث کا بھی کوئی علم نہیں۔ اسکول سرٹیفکیٹ اور اس کے سروس ریکارڈ کے مطابق اس کا نام یوسف علی ہے۔ (شیڈول II) ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے لوگوں کو دھوکا دینے اور نبی کریم کے نام پر جعلسازی کے ذریعے بے تحاشہ پیسہ حاصل کرنے اور لاکھوں روپے مالیت کی جائداد بنانے کے مذموم مقاصد کے پیش نظر اپنے نام میں ”محمد“ کا اضافہ کرلیا۔ یہ حقائق اس کے اپنے اعترافات اور پیش کردہ دستاویزات سے ثابت ہیں ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اقبال کا گہرا مطالعہ کیا ہے‘ لیکن وہ ان کے 6 خطبات سے نابلد ہے اور ان کی شاعری میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کا مطلب جانتا ہے نہ ہی وہ اقبال کے فلسفہ خودی کی وضاحت کرسکا۔ اس کا مولانا مودودی کے ساتھ منسلک رہنے کا دعویٰ بھی صریح غلط بیانی پر مبنی ہے اور جماعت اسلامی کی طرف سے اس کی تردید کی جاچکی ہے۔ اسی طرح وہ جدید سائنس کی الف، ب بھی نہیں جانتا اور ڈی این اے کا مطلب نہیں بتا پایا۔ اس نے یہ لفظ عدالت کے سامنے خود اپنے بیان میں استعمال کیا تھا۔ اپنے اس مذموم منصوبے کو تقویت بخشنے کی غرض سے اس نے نوجوانوں کی عالمی تنظیم ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY) کا ڈائریکٹر جنرل ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کا صدر دفتر جدہ میں ہے اور جس کے دفاتر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میں اس تنظیم کا ایسوسی ایٹ ممبر رہا ہوں لہٰذا میں نے فوری طور پر سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مانج الجہنی سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے فوراً ہی فیکس کے ذریعے مجھے آگاہ کیا کہ ”وامی“ یوسف علی نام کے کسی شخص سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی اس نام کے کسی شخص کو کبھی ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گےا تھا۔ مذکورہ خط میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر مذکورہ یوسف علی نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز یا کوئی دوسرا مواد پیش کیا ہو تو اسے غلط اور جھوٹ تصور کیا جائے۔ سیکریٹری جنرل وامی نے اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور سزا دلانے کا اختیار بھی دیا۔ مذکورہ خط عدالت میں پیش کیا گیا اور یہ بھی شیڈول III کے طور پر منسلک ہے۔ مجرم نے اس جعلسازی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے خود کو سعودی عرب سے قبرص کے سفیر کے مرتبے پر بھی فائز کردیا اور ہزایکسیلنسی بن کر سابق چیف جسٹس حمودالرحمن اور جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ کے ساتھ اپنی تصویر بھی کھنچوائی۔ (شیڈول IV)۔ تاہم جسٹس چیمہ نے اسلام آباد سے ٹیلی فون پر میرے استفسار پر ایسے کسی ہز ایکسیلنسی سے واقفیت کی تردید کی۔ مجرم نے اپنے بیان میں اس بات سے انکار کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو جانتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جو قادیان کے اس مرزا نے اختیار کیا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ برطانوی حکومت نے بھارت کے مسلم حکمرانوں سے اقتدار غصب کرنے کے بعد انیسویں صدی میں توہینِ رسالت کا قانون منسوخ کردیا‘ جبکہ انگلینڈ میں اُس وقت بھی یہ قانون آئین کا حصہ تھا۔ مرزا غلام احمد کو برطانوی حکومت کی طرف سے اسلام کے لبادے میں اپنے نئے مذہب کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ لیکن اپنے آقاؤں کی اس یقین دہانی کے بعد کہ برطانوی حکومت اس کے خلاف کسی بھی مذہبی تحریک کو پوری سختی سے کچل دے گی اس نے یہ اعلان کردیا کہ جو کوئی بھی اس پر ایمان نہیں لائے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ اس کا یہ اعلان مکتوبات مطبوعہ مارچ 1906ء(شیڈولVI) میں موجود ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ مجرم یوسف علی بھی مرزا غلام احمد کے نقش قدم پر چلا اور اس نے زبانی اور دستاویزی شہادت کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ وہ بھی اپنے مشن اور نبوت کے جھوٹے دعویدار کا حقیقی جانشین ہے۔ پہلے اس نے مذہبی حلقوں میں اسلام کے مبلغ کی حیثیت سے رسائی حاصل کی، پھر مرد ِ کامل، اس کے بعد امام الوقت یعنی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر خود کو خلیفہ اعظم قرار دے دیا۔ پھر اس نے ”غار حرا“ سے موسوم اپنے بیسمنٹ میں اپنے پیروکاروں کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعلان کردیا۔ وہ مرزا غلام احمد کی طرح اپنے اس جھوٹے دعوے پر بھی مطمئن نہیں ہوا اور اس نے خود کو نبی آخرالزماں سے (نعوذ باللہ) برتر ہستی ظاہر کرنے کے لیے یہ اعلان کردیا کہ 1400 سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمایک فریضہ سرانجام دے رہے تھے مگر دور حاضر میں اس نے نبوت اور اس کے حسن کو عروج کمال پر پہنچا دیا ہے۔ مجرم کے اس شرانگیز اور اشتعال انگیز دعوے کے ثبوت میں استغاثہ نے 14 گواہ پیش کیے جن میں کراچی سے بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر محمد اسلم (گواہ استغاثہ1)، محمد اکرم رانا (گواہ استغاثہ2 )‘ محمد علی ابوبکر (گواہ استغاثہ7) اور لاہور سے حافظ محمد ممتاز عدانی، (گواہ استغاثہ نمبر4)‘ میاں محمد اویس (گواہ استغاثہ5) شامل تھے جنہوں نے مجرم کی جانب سے نبوت اورختمی فضیلت کے جھوٹے دعوے کی براہِ راست عینی شہادتوں پر مبنی واقعات بیان کیے۔ سماجی اور مذہبی مرتبے کے حامل ان گواہوں کے ساتھ مجرم کی کوئی عداوت نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ لوگ اس کے اندھے عقیدت مند اور پیروکار تھے‘ بالخصوص محمد علی ابوبکر تو اس سے اتنا قریب تھا کہ اسے مجرم آقا سے مکمل وفاداری اور اس کے احکام کی تعمیل اور بھرپور اطاعت کی بناءپر ابوبکر صدیق کا خطاب دیا گیا تھا۔ کراچی کے اس مرید نے اس کو لاکھوں روپے مالیت کے چیک اور ڈرافٹ دیئے اور اس کے لیے آراستہ و پیراستہ محل تعمیر کیا جس میں غار حرا بھی بنایا گیا تھا۔ مجرم نے نقد یا چیک اور ڈرافٹ کی شکل میں رقم وصول کرنے کی حقیقت سے انکار نہیں کیا۔ اپنے اس نام نہاد نبی کے حق میں اپنی تمام جائداد سے دستبردار ہونے پر اس کے صحابی کو صدیق کا خطاب عطاکیاگیا تھا۔ اس طرح مجرم نے رسول پاک کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا اور انہیں مفلسی اور محتاجی سے دوچار کردیا۔ جب اس نے اپنے خلاف مسلمانوں کے غیظ وغضب اور شدید اشتعال کی کیفیت دیکھی تو اپنی گردن بچانے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح وہ بھی اپنے دعوے سے مکر گیا۔ اس کی تردید صریح دجل وفریب اور ”محمد“ ”آل رسول“ اور ”صحابہ“ کے مقدس الفاظ کی غلط ترجمانی کی عکاس تھی جیسا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے۔

اردو مجلس
 
Last edited:
Top