• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سادگی سے شادی: چند غلط فہمیاں

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
1۔ سادگی سے شادی کا بعض احباب یہ مطلب سمجھنے اور سمجھانے لگے ہیں کہ ایسی شادی جو کم سے کم پیسوں بلکہ مفت میں ہوجائے۔ بالخصوص لڑکی والوں کا کچھ خرچ نہ ہو۔۔۔ جبکہ سادگی سے شادی کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ شادی کے دوران غیر ضروری نمود و نمائش نہ ہو، مروجہ غیر اسلامی تقریبات جیسے مایوں، مہندی، بارات، آتش بازی، ناچ گانا (لائیو یا ریکارڈنگ)، جہیز کی نمائش، نامحرموں یا پیشہ ور افراد سے تقریب کی فوٹو گرافی، ویڈیو گرافی، کھانوں کا ضیاع سمیت ایسا کوئی کام نہ ہو جو غیر شرعی اور حرام کے زمرے میں آتا ہو۔

2۔ سادگی سے شادی کا تعلق اخراجات میں کمی بیشی سے نہیں ہوتا۔ بلکہ شادی کے دوران دونوں خاندان کے رویوں اور اظہاریوں سے ہوتا ہے۔ اگر کسی خاندان کی ماہانہ آمدن ایک ملین روپیہ ہے تووہ خاندان اپنے بچوں کی شادی شرعی قوانین کی خلاف ورزی کیے بغیر سادگی کے ساتھ دو تین ملین میں بھی کرسکتا ہے۔ جبکہ تیس چالیس ہزار روپیہ کمانے والا فرد اپنے بچوں کی شادی دو تین لاکھ میں بھی مروجہ "دھوم دھام" سے مایوں، مہندی، بارات، آتش بازی، ناچ گانا، فوٹو گرافی، ویڈیو گرافی کے ساتھ کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ دونوں فیملیز کا سوشیل اسٹیٹس الگ الگ ہے۔ دوسری فیملی دو تین لاکھ میں دھوم دھام والی شادی اپنے محلہ کی گلی میں قناتیں لگا کراور یہیں دیگیں پکوا کر کرسکتی ہے۔ جبکہ پہلی فیملی دو تین ملین والی سادہ شادی کسی ایئر کنڈیشنڈ بینکویٹ یا سیون اسٹار ہوٹل کا ہال بک کرکے، کسی اول درجے کے کیٹرنگ سے کھانا پکوا کر خاندانی اور کاروباری روابط کے دو تین ہزار افراد کو مدعو کرکے کرسکتی ہے۔ ہم جس سرکل (لوئر، مڈل، اپر) سے بھی تعلق رکھتے ہوں اسی سرکل کے اسٹیٹس کے اندر رہتے ہوئے اپنے وسائل سے سادگی سے شادی کرسکتے ہیں۔

3۔ جہیز ایک لعنت ہے۔ یہ جملہ عام طور سے کہا اور سنا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ درست جملہ یوں ہوگا: شادی کی شرط کے طور پر اور لڑکی والوں کی استطاعت سے بڑھ کرجہیز طلب کرنا ایک لعنت ہے۔ ایسی صورت میں بھی یہ معیوب اور ناپسندیدہ تو ہوسکتا ہے، حرام ہرگز نہیں۔ جس طرح بھیک اور خیرات دینا تو افضل اور کار ثواب ہے، لیکن بھیک مانگنا معیوب اور ناپسندیدہ تو ہے، لیکن حرام نہیں۔ اگر بھیک مانگنا حرام ہوتا تو بھیک دینا بھی حرام ہوتا۔ جیسے رشوت مانگنا اور رشوت دینا دونوں حرام ہیں۔ جہیز کی نمود و نمائش کو حرام کہہ سکتے ہیں کہ اس سے محروم طبقات کی شادیاں متاثر ہوتی ہیں۔ لیکن بغیر کسی پر ظلم کیے اور باہمی رضامندی اور خوشی سے جہیز کا لین دین نہ لعنت ہے اور نہ ہی حرام۔ خواہ یہ چند ہزار مالیت کی ہو یا چند کروڑ مالیت کی۔ جہیز پر لعنت ملامت بھیجتے ہوئے یہ کہنا بھی غلط ہے کہ بیٹی کو جہیز نہ دو بلکہ وراثت دو۔ وراثت تو باپ کے مرنے کے بعد (اگر باپ کچھ چھوڑ کر مرا، تب) ملنے والی شے ہے جبکہ جہیز تو شادی کا گفٹ ہے جو باپ بیٹی اور داماد کو دیتا ہے۔ جیسے وہ بیٹے کی شادی پر بیٹے اور بہو کو گھریلو سامان وغیرہ کا گفٹ دیتا ہے۔

4۔ لڑکے والوں کی طرف سے کم سے کم مہر یا لڑکی والوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ مہر کے مطالبہ یا ادائیگی، وصولی کو برا کہنا۔ یہ بھی غلط ہے۔ شریعت میں مہر کی کوئی اپر یا لوئر لمٹ نہیں رکھی گئی ہے۔ یہ صفر روپے بھی ہوسکتا ہے اور سونے کا پہاڑ بھی۔ مہر کا تعین کوئی تیسرا نہیں کرسکتا۔ یہ لڑکی کا شرعی حق ہے۔ وہ جتنا چاہے مطالبہ کرسکتی ہے۔ اسی طرح مہر دینا لڑکے کی ذمہ داری ہے، وہ جتنا چاہے آفر کرسکتا ہے۔ لڑکی کے مطالبہ کو لڑکا پورا کردے یا لڑکے کی آفر کو لڑکی قبول کرلے، شریعت میں بس اتنا ہی کافی ہے۔ باہمی گفت و شنید کے ذریعہ مہرکے مطالبہ یا آفر میں کمی بیشی کو بھی شریعت منع نہیں کرتی۔

5۔ شادی کی ایک ہی ضیافت ہے اور وہ ولیمہ ہے۔ لڑکی والوں پر نکاح یا رخصتی کے موقع پر کوئی ضیافت لازم نہیں۔ یہاں صرف "لازم نہیں" والی بات درست ہے۔ یعنی لڑکی والوں پر زور نہیں دیا جاسکتا کہ وہ نکاح یا رخصتی کے لیے آنے والے دلہا، ان کے اہل خانہ یا مہمانوں کی ضیافت کرے۔ بعض لوگ لڑکی کے نکاح یا رخصتی کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے پیش کردہ ضیافت کو حرام یا حرام جیسا سمجھ کر اس میں شرکت کو اپنے "نام نہاد تقویٰ" کے لیے باعث "توہین" سمجھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ عام یا خاص دنوں (عیدین وغیرہ) میں اپنے گھر آئے مہمانوں کے لیے تو خصوصی طور پر کھانے پینے کا اہتمام کیا جائے۔ لیکن اگر بہن بیٹی کی شادی رخصتی پر دلہا کے ہمراہ آنے والے مہمانوں کوکھلایا پلایا جائے تو ہم اسے "غیر شرعی" کہنے لگتے ہیں۔ پتہ نہیں کس کلیہ سے؟

6۔ شادی شدہ جوڑے، دلہا یا دلہن کو تحائف دینا۔ کسی کے گھر جاتے ہوئے تحفہ لے کر جانے کا تو حکم (مگر فرض نہیں) بھی ہے۔ اسی طرح جوابی تحفہ دینے کا بھی حکم ہے۔ تو اگر شادی بیاہ کے موقع پر مہمان کوئی تحفہ پیش کرے۔ یا مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے تحفہ میں یکسانیت سے بچنے کے لیے اپنی اپنی خوشی سے کیش تحفہ دیا اور لیا جائے تو بعض احباب اسے بھی برا بلکہ "غیر شرعی" تک گرداننے لگتے ہیں۔ حالانکہ شادی کے موقع پر تحفہ کے لین دین میں اگر کوئی اور غیر شرعی بات نہ ہورہی ہو تو تحائف کا یہ لین دین اپنی ذات میں نامناسب ہرگز نہیں بلکہ مستحب ہے۔

بیٹے اور بیٹی میں تفریق کیوں؟
ہم سب یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ہم بیٹے اور بیٹی کو زندگی کی سہولیات فراہم کرنے میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔ تمام والدین ہی بیٹے بیٹی دونوں کو کھانے پینے، لباس و رہائش، ضروریات و آسائش اور تعلیم وغیرہ کی یکساں سہولیات فراہم کرتے ہیں یا ایسا کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی معاملہ شادی کا آتا ہے تو ہماری یہ "عدم تفریق کی پالیسی" نہ جانے کہاں اور کیوں غائب ہوجاتی ہے؟

متوسط طبقہ کے اکثر گھرانوں میں غیر شادی شدہ لڑکوں کے لیے علیحدہ کمرہ تو درکنار، علیحدہ بستر بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ غیر شادی شدہ جوان لڑکے بھی گھر بھر میں جب اور جہاں جگہ مل جائے، صبر و شکر کرکے سوجاتے ہیں۔ لیکن اسی لڑکے کی جیسے ہی شادی ہونے لگتی ہے، اس کے لیے علیحدہ گھر یا کم ازکم ایک علیحدہ اور فرنشڈ کمرہ تو لازماً فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر لڑکا یہ سب کچھ از خود کرنے کے قابل نہ ہو تو یہ سب کچھ اس کے والدین اور بہن بھائی مل جل کرہی کرتے ہیں۔ اسی طرح لڑکے اور اس کی بیوی کے لیے شادی کے جوڑے، بہو کے لیے زیورات، ولیمہ کے جملہ اخراجات اور بسا اوقات تو مہر کی رقم بھی والدین لڑکے کو فراہم کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔

لیکن جیسے ہی لڑکی کی شادی کا معاملہ سامنے آتا ہے تو ہم میں سے بعض (نام نہاد) دیندار طبقہ بھی بیٹی کو بیٹے جیسی سہولیات فراہم کرنے کو "غیر شرعی" اور حرام ڈکلیئر کردیتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہم نہ تو کسی بھی امر کو اپنی طرف سے فرض قرار دینے کے مجاز ہیں، اور نہ ہی کسی امر کو حرام و ناجائز قرار دے سکتے ہیں۔ کسی بھی شے یا امر کو فرض اور حرام یا ناجائز قرار دینے کا اختیار صرف اور صرف قرآن و سنت کو حاصل ہے۔ استثنائی یا خصوصی حالات کے تحت بھی فرض میں رخصت یا حرام و ناجائز کو جائز قرار دینے کے اصول و ضوابط بھی قرآن و سنت ہی نے متعین کردیے ہیں۔ ہم میں سے کسی کو بھی ان دو امور(فرض اور حرام) میں ترمیم و اضافہ کا حق حاصل نہیں ہے۔

اب ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے کہ لڑکی کی شادی کے موقع پر ان میں سے کون سا امر، قرآن و سنت کے کس ضابطے کی رو سے حرام، مکروہ یا ناپسندیدہ ہے۔

1۔ شادی پر جس طرح لڑکے کو علیحدہ مکان یا علیحدہ کمرہ فرنشڈ کرکے فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر اسی طرح لڑکی کے لیے بھی علیحدہ مکان یا ساس سسر کی طرف سے فراہم کردہ علیحدہ کمرہ کو فرنشڈ کرنے کا انتظام کیا جائے۔ اور گھریلو ساز و سامان کی فراہمی کا یہ اہتمام اپنی مرضی اورخوشی سے کیا جائے یا بیٹی یا داماد کی ضرورت، خواہش یا مطالبہ پر کیا جائے تو اس میں شرعی حرمت اور شرعی ناپسندیدگی کیسے ہوگئی؟

2۔ بیٹی کے نکاح اور رخصتی کے لیے آنے والے بیٹی کے سسرالی مہمانوں کی عزت افزائی اور اپنی حیثیت کے مطابق انہیں ضیافت فراہم کرنا "غیر شرعی" کیسے ہوگیا؟ یہ نہ تو فرض ہے اور نہ ہی حرام۔ یہ ایک مباح عمل ہے۔ جو چاہے کرے۔ جو نہ چاہے نہ کرے۔

3۔ بیٹے یا بیٹی کی شادی کی خوشی کے موقع پرآنے والے مہمان اگر اپنی خوشی سے تحائف یا مہمانوں کی کثرت کی بنا پر تحائف میں یکسانیت سے بچنے کے لیے مہمانان گرامی اپنی خوشی سے لفافے میں کیش بطور تحفہ و ہدیہ پیش کریں تو یہ "غیر شرعی" کیسے ہوگیا؟ کسی جائز یا ناجائز کاموں کے لیے بطور رشوت دیے جانے والے لفافے پر اظہار نفریں تو سمجھ میں آتی ہے لیکن شادی کی خوشی میں دیے گئے اس ہدیہ والے لفافہ پر اظہار نفرت کا کیا جواز ہے؟ کیا شادی کے موقع پر ہدیہ دینا حرام ہے؟

"دینے" اور "لینے" کے "فرق" کو سمجھیے
  • بھیک مانگنا یا بھیک لینا معیوب بات ہے۔ لیکن بھیک دینا افضل بات ہے​
  • قرض لینا معیوب بات ہے۔ لیکن قرض دینا ایک مستحسن بات ہے۔​
  • دیے گئے قرض پر اضافی رقم (جسے سود کہتے ہیں) مانگنا حرام ہے۔ لیکن قرض واپس کرتے ہوئے لی گئی قرض سے اپنی خوشی سے زائد رقم دینا مستحسن ہے، اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔​
  • لڑکے کا سسرال والوں سے مال و دولت مانگنا عیب ہے (حرام نہیں) لیکن لڑکی والوں کا اپنی خوشی سے لڑکے والوں کو تحفہ تحائف دینا نہ عیب ہے اور نہ حرام۔ بلکہ ایسے اور دیگر تمام اقسام کے ہدیہ کو لینے سے انکار کرنا، اسے حقارت سے دیکھنا منع ہے​
  • مہمانوں کا کسی کے گھر تحائف لے کر آنا اچھی بات ہے جبکہ میزبان کا مہمانوں کی طرف سے تحائف لانے کی توقع رکھنا، اشاروں کنایوں یا کھلے الفاظ میں تحائف لانے کی بات کرنا معیوب بات ہے۔​
  • میزبان کی طرف سے گھر آئے مہمانوں کی ضیافت کرنا، کھانا کھلانا مستحسن بات ہے۔ لیکن بن بلائے یا بغیر کھانے کی دعوت کے، آئے ہوئے مہمانوں کو یہ توقع رکھنا اور اشاروں کنایوں میں یا صاف الفاظ میں کھانا مانگنا معیوب بات ہے۔​
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کون سی بات، کس سے کہی جارہی ہے۔​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ڈاکٹر عائشہ کی شادی: (قسط ۔۱)
==================
تین سال پری اسکولنگ، دس سال اسکول، دو سال کالج، پانچ سال میڈیکل یونیورسٹی یعنی بیس سال کی رسمی تعلیم، ایک سال کی ہاؤس جاب اور اس کے بعد ڈاکٹر اسرار احمد رح کی قائم کردہ قرآن اکیڈمی سے ایک سالہ قرآن ۔ عربک کورس کی تکمیل کے بعد الحمد اللہ ڈاکٹر صاحبہ کی شادی ہوگئی۔ نکاح سے قبل ڈاکٹر صاحبہ کو احقر نے چند نصیحتیں کیں جو اس صفحہ کی مناسبت سے پیش ہیں۔

*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم*
جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں (النسا ۔۳۴)اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سَج دھج نہ دکھاتی پھرو(احزاب:۳۳)۔ عورت پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کا ہے (مستدرک حاکم)۔اگر میں کسی مخلوق کے لئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ عورت کا اس حال میں انتقال ہو کہ اس کا *شوہر اس سے خوش ہو تو وہ جنت میں جائے گی* ۔ (ترمذی) شوہر کی موجود گی میں اُس کی اجازت کے بغیر کسی عورت کا نفلی روزہ رکھنا جائز نہیں۔ جب خاوند اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے اورخاوند اس پر غصہ ہوکر سوجائے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ *جہنم میں عورتوں کی کثرت کا سبب شوہر کا کفر کرنا اوراُن کا احسان نہ ماننا* ہے(بخاری)

*چند نصیحتیں:*
1- سسرال میں اپنی ڈاکٹری کی تعلیم، ذاتی جائیداد یا برائے نام دینی تعلیم کا تکبر کبھی نہ کرنا۔
2- ماں باپ سے صرف رسمی تعلق رکھنا۔ اب تمہاری جنت یا جہنم تمہارے شوہر کی خوشی یا ناراضگی میں ہوگی۔
3- میڈیکل پریکٹس کرنا یا نہ کرنا، اس کا فیصلہ اپنی ذاتی مرضی پر نہیں بلکہ شوہر کی مرضی سے کرنا ۔
4- ہمیشہ شوہر یا ساس سسر کے ساتھ ڈرائیوکرنا، اکیلے کبھی ڈرائیو نہ کرنا۔ نہ پوچھے بغیر گھر سے باہر نکلنا اور نہ ہی پوچھے بغیرکسی کو بھی سسرال میں انوائٹ کرنا۔
5- شوہرکو اس کے اپنے جاب سے متعلق فیصلہ، اسے خود کرنے دینا ۔ تم اپنی طرف سے کوئی بھی اصرار نہ کرنا۔
6- کبھی بھی اور کسی حال میں بھی میکہ اکیلی نہ آنا۔ شوہر، ساس یا سسر کے ساتھ ہی آنا۔ میکہ میں رات نہ گذارنا۔
7- *جو چپ رہا وہ نجات پاگیا* (حدیث)۔ سو ہر معاملہ یا مسئلہ میں چپ ہی رہنا۔ شوہر یا ساس سسر کو بولنے، فیصلہ کرنے دینا۔
۸۔ شوہر، ساس سسرکے مقابلہ میں اپنے ذاتی ساز و سامان سے کبھی محبت نہ کرنا۔ لوگ اہم ہوتے ہیں، چیزیں نہیں۔ چیزوں کے خراب ہونے، ٹوٹنے پر افسردہ نہ ہونا۔ نہ ہی انہیں اس طرح سینت کر چھپا کر رکھنا کہ سسرال والے کنجوس یا لالچی سمجھیں۔ اپنی چیزیں سب کو استعمال کرنے دینا اور وہاں کی چیزیں پوچھ کر استعمال کرنا
۹۔ جانے سے پہلے پہلے فیس بک سمیت اپنا تمام موجودہ سوشیل اکاؤنٹ ڈی ایکٹیویٹ کردینا۔ ای میل، واٹس اپ، میسینجراور ایس ایم ایس کے تمام ان باکس کو کلین کردینا۔ فیس بک نیا اکاؤنٹ فورا نہیں بلکہ چند ماہ بعد بنانا۔
۱۰۔موجودہ موبائل سم گھر چھوڑکر ایک نیا سم ساتھ لے جانا، جس میں صرف گھر والوں کا نمبر ہو۔ سہیلی ڈاکٹرز کے نمبرز نئے سم میں کم ازکم ایک ماہ بعد ایڈ کرنا۔ موبائل کا پاس ورڈ ختم کردینا۔ اور اپنا موبائل فون شوہر یا ساس سسر کو دیکھنے دینا۔ شوہراگر گھرپر ہو توان کمنگ موبائل کال اسے ہی اٹھانے دینا۔

اسے *میری آخری نصیحت یا آخری وصیت* سمجھ کر عمل کرنا تاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو رہو۔ اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہو۔ آمین


رشتہ کی تلاش:
ہمارے معاشرے میں رشتہ کی تلاش، بالخصوص وقت آنے پر بیٹیوں کے لئے رشتہ کی تلاش ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اسی لئے اکثر والدین رشتہ ملنے سے پہلے اور رشتہ ملنے کے بعد کسی اورطرف بالکل دھیان نہیں دیتے۔ مزید برآں رشتہ ملنا اس لئے بھی مشکل تر ہوجاتا ہے کہ ہم ایک تنگ سا دائرہ بنا کر اسی کے اندر رشتہ ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ یہ تنگ دائرہ کبھی برادری سسٹم کاہوتا ہے تو کبھی مخصوص مذہبی مسلک کا تو کبھی خوشحال اور دولت والے گھرانے کا۔

چنانچہ وقت آنے پر اپنے منتخب کردہ تنگ دائرہ میں بیٹیوں کیا بیٹے کے لئے بھی رشتہ تلاش کرنا محال ہوجاتا ہے اور وقت کا پہیہ گزرتا چلاجاتا ہے۔ ہمیں ان دونوں محدودات سے باہر نکل کر رشتہ تلاش کرنے کا کام کرنا چاہئے۔ کسی بھی کام یامشن کا آغاز وقت آنے پر نہیں بلکہ وقت آنے سے پہلے سے شروع کردینا چاہئے۔ جیسے ہم لوگ بالعموم جب بچے ایف اے یا ایف ایس سی کا امتحان دے لیتے ہیں تب (والدین اور طالب علم بھی) یہ سوچتے ہیں کہ آگے کیا کرنا ہے ؟ بھارتی ماہر تعلیم ڈاکٹر کاپڑیہ (پیس ٹی وی فیم) کہتے ہیں کہ اس رویہ کے برعکس والدین اور طالب علموں کو کم از کم دو سال قبل یعنی میٹرک کا امتحان دینے کے بعد ہی طے کر لینا چاہئے کہ ایف اے یا ایف ایس سی کے بعد کیا کرنا اور کیا پڑھنا ہے۔ تاکہ اسی حساب سے اگلے دو سال تک تیاری کی جائے۔ میں نے بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں بھی ایسا ہی کیا اورہمارے تینوں بڑے بچے الحمدللہ این ای ڈی، ڈاؤ اور آئی بی اے سے گریجویٹ ہیں۔

یہی پروگرام بچوں کی شادی کابھی تھا کہ وقت آنے پر نہیں بلکہ گریجویشن سے دو سال قبل سے رشتہ تلاش کرنا شروع کردیں گے اور فائنل امتحان ہوتے ہی کیا بیٹے، کیا بیٹی سب کی شادی کردیں گے۔ بچے بعد از شادی اپنا کیریئر بناتے رہیں گے۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ شادی کے لئے رضامندی کی لازمی تکون یعنی امیدوار، والد اور والدہ میں سے میرے پاس ایک ہی کونا یعنی ایک تہائی ووٹ تھا، جو کسی بھی پروگرام کی کامیابی کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔ گو میں نے بچوں کے آخری تعلیمی سال کے دوران ہی ان کی شادی کی باتیں کرنا شروع کردی مگر بقیہ دونوں فریقوں میں سے کسی نے بھی اسے سنجیدگی سے نہ لیا۔ چنانچہ بڑے بیٹے کی شادی گریجویش اور جاب کے دو سال بعد ہی ہوسکی۔

ایم بی بی ایس کے آخری سال میں ہم نے ڈاکٹر صاحبہ کوبھی گریجویشن کے فوری بعد شادی کرنے کا نوٹس دیا تو بقیہ دونوں فریقین نے ہاؤس جاب کی تکمیل کی مہلت طلب کی۔ ہم نے رضامندی ظاہر کی تو دختر نیک اختر نے ایف سی پی ایس کرنے کا عندیہ دیا تو ہم نے سختی سے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ جو بھی اسپیشلائزیشن وغیرہ کرنا ہے، شادی کے بعد ہی کرنا۔ البتہ اگر شادی سے قبل قرآنی عربی سیکھ لو تو مجھے خوشی ہوگی۔ چنانچہ محترمہ نے ہاؤس جاب کے بعد قرآن اکیڈمی میں داخلہ لیا اور ہم ان کے رشتہ کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے۔

ہم نے رشتہ کی تلاش کا روایتی محدود دائرہ تو برقرار رکھا لیکن اسے الٹا کردیا۔ مطلب یہ کہ مختلف کرائی ٹیریا کا ایک چھوٹا سا دائرہ کھینچ کر اس دائرہ کے اندر والے رشتوں کو ممنوع قرار دے کر اس دائرہ سے باہروسیع مواقع کو رشتہ کی تلاش کے لئے اوپن کردیا۔۔ اور اس محدود ممنوعہ دائرہ میں پردہ و نقاب کو پسند نہ کرنے والے گھرانے، تبلیغی اور بریلوی گھرانے، (میرا ایک ہم زلف تبلیغی ہے)، مغربی ممالک میں مقیم گھرانے یا کیریئر کی غرض سے وہاں جانے کے خواہشمند نوجوانوں کو شامل کرکے طے کرلیا کہ اس دائرے کے اندر سے کوئی رشتہ قبول نہیں کرنا۔ میرے اور بیگم کے خاندان کی متعدد فیملیز کینیڈامیں مستقل رہائش پذیر ہیں۔ سب سے پہلا رشتہ ہی بیگم کی اس فیملی کی طرف سے آیا جو ویسے تو بہت اچھے لوگ ہیں۔ لیکن مستقلا کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں۔ اتفاق سے دوسرا رشتہ بھی کینیڈاہی سے میری فیملی والوں کی طرف سے آیا۔ چونکہ ہم نے اپنا منموعہ دائرہ سوچ سمجھ کر بنایا تھا اور اس پر سب قائم تھے، لہذا ان غر ملکی رشتوں کو قبول نہ کرنے کا کوئی افسوس نہیں۔ ایسے ہی ایک رشتہ بچی کے کلاس فیلو ڈاکٹر کی طرف سے آیا، لیکن اتفاق سے یہ فیملی تبلیغی نکلی اور ان کے اصرار کے باوجود ہماری ناں، ہاں میں تبدیل نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ رشتوں کی تلاش سے قبل ہی ہم نے پہلے بچوں سے کہہ رکھا تھا کہ اگر ان کی نظر میں اپنے لئے کوئی معقول رشتہ ہو تو ہمیں لازمی بتلائیں۔ تلاش رشتہ کا آغاز ہم وہیں سے کریں گے۔ سال بھر کی جہد مسلسل کے دوران بہت سی اچھی فیملیز سے ملاقاتیں ہوئیں۔

ہماری ہر پہلی ملاقات چھہ رکنی ہوا کرتی۔ دونوں امیدوار اور دونوں امیدوار کے دونوں والدین۔ ملاقات سےقبل بذریہ ای میل اور فون تفصیلی تعارف کا باہمی تبادلہ بھی ہوتا۔ پہلی ملاقات میں ہم سامنے والوں سے انکی تمام توقعات پوچھتے، اوراپنی جملہ توقعات بتلاتے۔ شادی کی تقریب کو زیادہ سے زیادہ اسلامی انداز میں، اور فضول رسموں، ویڈیوگرافی، مخلوط تقریبات پر اپنے تحفظات رکھتے۔ بہت سے لوگ تو یہ سب کچھ سن کر ہی اللہ حافظ کہہ کر چل دیتے۔ لیکن ہمارے نزدیک رشتہ طے کرنے سے قبل شادی کے طریقہ کار کی تفصیلات ایک دوسرے کو بتلانا ضروری تھا۔ اکثر اوقات ہم لوگ ایسا نہیں کرتے اور رشتہ طے ہونے، منگنی دھوم دھام سے ہونے کے بعد کسی چھوٹی سی بات پر بھی رشتے ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔ بالآخر موجودہ گھرانے کو ہماری ساری باتیں پسند آئیں کہ کوئی منگنی، مایوں یا دیگر فضول رسم نہیں ہوگا۔ ڈائریکٹ نکاح اور رخصتی ہوگی۔ شادی کی ہر دو تقریب غیر مخلوط ہوگی۔ کوئی پروفیشنل فوٹو گرافر یا ویڈیوگرافر نہیں ہوگا البتہ گھریلو بچے ازخود ڈیجیٹل تصاویر یا ویڈیو بنا سکیں گے۔ دلہا کے کپڑےوغیرہ دلہا والے ہی بنائیں گے اور دلہن کے کپڑے، دلہن والے۔ مروجہ اس کے برعکس طریقہ غیر فطری اور بعد ازاں شکوہ شکایات کا سبب بنتا ہے۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ ہم جہیز وغیرہ کے قائل نہیں ہیں۔ اسی لئے بیٹے کی شادی پر جہیز کے نام پر کوئی سامان نہیں لیا۔ لڑکے والوں نے کہا کہ ہم بھی جہیز کے قائل نہیںہیں۔ ہمیں بھی کچھ نہیں چاہئے۔ پھر ہم نے کہا کہ لیکن ہم اپنمی بیٹی اور داماد کو تحائف بطور ہدیہ دیں گے اور جو کچھ بھی دین گے پیشگی بتلاکر دیں گے۔ اور آپ ہدیہ لینے سے شرعا انکار نہیں کرسکتے۔ پہلے تو انہوں نے ہمارے اس جال میں آنے سے انکار کیا مگر پھر ہمارے اصرار پر راضی ہونا پڑا کہ ہ بہرحال کوئی کار حرام نہیں ہے۔۔ انہیں تو نہیں بتلایا مگر آپ کو بتلارہے ہیں کہ ہم نے بیٹی ۔ داماد کو ہدیہ کے نام پر مروجہ جہیز ہی دیا ہے۔ اور جہیز کے بے جا مخالفین کی اس بے تکی منطق کہ جہیز دینے والے وراثت نہیں دیتے، ہم نے بیٹی کو جہیز (ہدیہ) بھی دیا اور اب تک کی میری پراپرٹیز میں اس کا جو حصہ بنتا ہے اس سے زیادہ پراپرٹی بھی دی، جو اس کے بھائیوں کو دی جانے والی پراپرٹی کے مساوی ہی ہے۔ یہاں بھی لوگوں کے پاس غلط تصور ہے کہ باپ کو چاہئے کہ وہ بیٹے کو دی گئی جائیداد کا نصف بیٹی کو دے ، شریعت کے قانون وراثت کے مطابق۔ یہ تصور غلط ہے۔ کیونکہ قانون وراثت تو باپ کے مرنے کےبعد جاری ہوتا ہے۔ باپ اپنی ہوش و حواس والی زندگی میں ہر بچہ کو اس کی ضرورت کے مطابق کچھ بھی دے سکتا ہے اور اگر ممکن ہو تو بیٹے، بیٹی کو مساوی ہی عطا کرے۔
رشتہ کی تلاش کے ذرائع: رشتہ کی تلاش کے لئے تقریبا تمام دستیاب ذرائع کواستعمال کیا۔ مثلا خاندان اور دوست احباب سے ذکر کیا۔میریج بیوروز (آن لائن اور آف لائن دونوں) سے رجوع کیا۔ واٹس اپ گروپ سے استفادہ کیا حتی کہ اردو انگریزی اخبارات میں ضرورت رشتہ میں اشتہار دیا۔ آپ بھی بیک وقت یا باری باری ان سب ذرائع کواستعمال کرکے اپنے بچے یا بچی کے لئے مطلوبہ رشتہ مطلوبی ٹائم فریم میں تلاش کرسکتے ہیں​
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
۔ شادی پر جس طرح لڑکے کو علیحدہ مکان یا علیحدہ کمرہ فرنشڈ کرکے فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر اسی طرح لڑکی کے لیے بھی علیحدہ مکان یا ساس سسر کی طرف سے فراہم کردہ علیحدہ کمرہ کو فرنشڈ کرنے کا انتظام کیا جائے۔ اور گھریلو ساز و سامان کی فراہمی کا یہ اہتمام اپنی مرضی اورخوشی سے کیا جائے یا بیٹی یا داماد کی ضرورت، خواہش یا مطالبہ پر کیا جائے تو اس میں شرعی حرمت اور شرعی ناپسندیدگی کیسے ہوگئی؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
یہ بات میں سمجھ نہیں پایا۔ لڑکی تو سسرال چلی جاتی ہے تو اس کا کمرہ الگ کیسے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم یوسف ثانی صاحب کے تجربات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ، کیونکہ موصوف دینی اقدار کا بھی التزام کرتے ہیں ، اور دنیاوی رسموں رواج کی حقیقت سے بھی خوب واقف ہیں ۔
ہر گھرانے ، انسان کے حالات زندگی ایک جیسے نہیں ہوتے ، لہذا کسی کے تجربات کو خود پر ہو بہو لاگو کرنے کی بجائے ، اپنی سوچ سمجھ سے ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
جہیز کے متعلق ، یا شادی سے جڑی ہوئی بعض رسموں کے متعلق بعض لوگوں میں جو کراہت اور تنفر پایا جاتا ہے ، اسے صرف اپنے تناظر میں سمجھنے کی بجائے ، معاشرتی تناظر میں دیکھا جائے ، تو کافی حد تک جائز نظر آئے گا ۔
اس وقت جب معاشرے کی کثیر تعداد ان رسموں کے منفی اثرات کا شکار ہورہی ہے ، تو ایسی چیزوں کی حوصلہ افزائی میں کوشش و کاوش کرنا مناسب عمل معلوم نہیں ہوتا۔
پہلی تحریر عمومی رنگ لیے ہوئے ہے، اس لیے زیادہ پسند نہیں آئی ، کیونکہ معاشرے کی مجموعی صورت حال اس سے برعکس رہنمائی کی متقاضی ہے ، جبکہ دوسری تحریر میں آپ نے اپنے مخصوص حالات ذکر کیے ہیں ، جن میں اکثر باتیں بہت پسند آئی ہیں ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
یہ بات میں سمجھ نہیں پایا۔ لڑکی تو سسرال چلی جاتی ہے تو اس کا کمرہ الگ کیسے؟
کمرہ نہیں مکان لکھا ہے۔ یعنی اگر آپ اپنے تمام لڑکوں کو علیحدہ علیحدہ مکان فراہم کررہے ہیں ہیں تو بیٹیوں کو بھی مکان گفٹ کیجئے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ڈاکٹرعائشہ کی شادی
(تحریر: یوسف ثانی، مدیر اعلیٰ: پیغام قرآن ڈاٹ کام)
بیٹیوں کی پرورش پر جو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اسی سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ
بیٹیوں کی پرورش اور شادی اسلامی طریقے سے کرنا کتنا مشکل اورکٹھن کام ہے۔ یہ کام اور بھی مشکل جاتا ہے، اگر ہمارا معاشرہ اسلامی کلچر کی بجائے غیر اسلامی کلچر کو فروغ دینے والا ہو۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کی شادی کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ من حیث القوم ہم سب ترجیحی بنیادوں پراپنی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ اگر ہمارا مجموعی رویہ اس کے برعکس ہوجائے اور ہم سب ترجیحی بنیادوں پر اپنے بھائیوں اور بیٹوں کی شادیاں کرنے لگ جائیں تو یقین کیجئے کہ ہماری بہن بیٹیوں کی شادی کا مسئلہ از خود حل ہوجائے گا۔ لیکن جب تک بچوں کی شادیوں کے مسئلہ پر ہماری ترجیحات کی سمت درست نہیں ہوجاتی، اپنی بہن بیٹیوں کی شادیاں تو کرنی ہی ہیں۔ تین سالہ پری اسکولنگ، دس سالہ اسکولنگ، دو سالہ کالج، پانچ سالہ میڈیکل یونیورسٹی یعنی بیس سال کی رسمی تعلیم، ایک سال کی ہاؤس جاب اور اس کے بعد ڈاکٹر اسرار احمد رح کی قائم کردہ قرآن اکیڈمی سے ایک سالہ قرآن کورس کی تکمیل کے بعد ہم نے الحمد اللہ اپنی دختر نیک اختر ڈاکٹر عائشہ کی شادی کردی ہے۔ بیٹی کی پیدائش، پرورش اور شادی کی کاوشوں پر مبنی پاؤ صدی کی روداد بیٹیوں کے والدین کے لئے پیش پے۔​

رشتہ کی تلاش کے لئے دستیاب تمام ذرائع کواستعمال کیا جانا چاہئیے۔ مثلا خاندان اور دوست احباب سے ذکر کیجئے۔ میریج بیوروز (آن لائن اور آف لائن دونوں) سے رابطہ کیجئے۔ واٹس اپ کے میرج گروپ سے استفادہ کیجئے۔ آپ اردو انگریزی اخبارات میں ضرورت رشتہ میں اشتہار بھی دے سکتے ہیں۔ بیک وقت یا باری باری ان سب ذرائع کواستعمال کرکے آپ اپنے بچے یا بچی کے لئے مطلوبہ رشتہ مطلوبہ ٹائم فریم میں تلاش کرسکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں رشتہ کی تلاش، بالخصوص وقت آنے پر بیٹیوں کے لئے رشتہ کی تلاش ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اسی لئے اکثر والدین رشتہ ملنے سے پہلے اور رشتہ ملنے کے بعد کسی اورطرف بالکل دھیان نہیں دیتے۔ مزید برآں رشتہ ملنا اس لئے بھی مشکل تر ہوجاتا ہے کہ ہم ایک خودساختہ تنگ سا دائرہ بنا کر اسی دائرہ کے اندر رشتہ ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ یہ تنگ دائرہ کبھی برادری سسٹم کاہوتا ہے تو کبھی مخصوص مذہبی مسلک کا تو کبھی خوشحال اور دولت والے گھرانے کا۔ چنانچہ وقت آنے پر اپنے منتخب کردہ تنگ دائرہ میں بیٹیوں کیا بیٹے کے لئے بھی رشتہ تلاش کرنا محال ہوجاتا ہے اور وقت کا پہیہ گزرتا چلاجاتا ہے۔ ہمیں ان دونوں محدودات سے باہر نکل کر رشتہ تلاش کرنے کا کام کرنا چاہئے۔ کسی بھی کام یامشن کا آغاز وقت آنے پر نہیں بلکہ وقت آنے سے پہلے سے شروع کردینا چاہئے۔ ہم نے بچوں کی پیشہ ورانہ تعلیمی سلسلہ کی پلاننگ اور کوششوں کا آغاز اسی وقت کردیا تھا جب وہ میٹرک کے طالب علم تھے۔ اللہ کی رحمت کے بعد اس پیشگی پلاننگ اور محنت ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے تینوں بڑے بچے الحمدللہ این ای ڈی، ڈاؤ اور آئی بی اے سے ڈگری لینے میں کامیاب ہوئے۔ سب سے چھوٹے بیٹے نے میٹرک کے بعد دینی تعلیم کو پسند کرتے ہوئے ایک بڑے دینی جامعہ کا رخ کیا ہے۔ جبکہ روزگار کے لئے وہ ساتھ ہی ساتھ آئی ٹی انجینئرنگ کر رہا ہے۔

یہی پروگرام بچوں کی شادی کابھی تھا کہ وقت آنے پر نہیں بلکہ گریجویشن کی تکمیل سے قبل ہی رشتہ تلاش کرنا شروع کردیں گے اور فائنل امتحان ہوتے ہی کیا بیٹے، کیا بیٹی سب کی شادی کردیں گے۔ بچے بعد از شادی اپنا کیریئر بناتے رہیں گے۔ مگر افسوس! مصمم دلی ارادے کے باوجود معاشرتی چلن کے سبب ایسا نہ ہوسکا۔ شادی کے لئے رضامندی کی لازمی تکون یعنی امیدوار، والد اور والدہ میں سے میرے پاس ایک تہائی ووٹ ہی تھا، جو کسی بھی پروگرام کی کامیابی کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔ گو میں نے بچوں کے آخری تعلیمی سال کے دوران ہی ان کی شادی کی باتیں کرنا شروع کردی تھیں، مگر بقیہ دونوں فریقوں میں سے کسی نے بھی اسے سنجیدگی سے نہ لیا۔ چنانچہ بڑے انجینئر بیٹے کی شادی گریجویش اور جاب کے دو سال بعد ہی ہوسکی۔

ایم بی بی ایس کے آخری سال میں ہم نے ڈاکٹر عائشہ صاحبہ کوبھی گریجویشن کے فوری بعد شادی کرنے کا نوٹس دیا تو بقیہ دونوں فریقین نے ہاؤس جاب کی تکمیل کی مہلت طلب کی۔ ہم نے رضامندی ظاہر کی تو دختر نیک اختر نے ایف سی پی ایس کرنے کا عندیہ دیا جسے ہم نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی اسپیشلائزیشن وغیرہ کرنا ہے، شادی کے بعد ہی کرنا۔ البتہ اگر شادی سے قبل شارٹ قرآنی کورس کرلو تو مجھے خوشی ہوگی۔ چنانچہ محترمہ نے ہاؤس جاب کے بعد جیسے ہی ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے قائم کردہ قرآن اکیڈمی میں داخلہ لیا، ہم ان کے رشتہ کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے۔

ہم نے رشتہ کی تلاش کا روایتی محدود دائرہ تو برقرار رکھا لیکن اسے الٹا کردیا۔ مطلب یہ کہ مختلف کرائی ٹیریاز پر مبنی ایک چھوٹا سا دائرہ بنا کر اس دائرہ کے اندر والے رشتوں کو ڈاکٹر صاحبہ کے لئے نامناسب اور غیر ہم آہنگ قرار دے کر اس محدود دائرہ سے باہرموجود وسیع مواقع کو رشتہ کی تلاش کے لئے اوپن کردیا۔ اس محدود ممنوعہ دائرہ میں حجاب و نقاب کو پسند نہ کرنے والے گھرانے، ہمارے مذہبی خیالات سے متضاد مسالک والے گھرانے، مغربی ممالک میں شہریت رکھنے والے یا اس کی خواہش رکھنے والے گھرانے یا کیریئر کے نام پر وہاں جانے کے خواہشمند نوجوانوں کو شامل کرکے متفقہ طور پر یہ طے کرلیا کہ اس خودساختہ ممنوعہ دائرے کے اندر سے کوئی بھی رشتہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ رشتوں کی رسمی تلاش سے قبل ہی ہم نے بچوں سے بھی کہہ دیا تھا کہ اگر ان کی نظر میں اپنے لئے کوئی معقول رشتہ ہو تو ہمیں ضرور آگاہ کریں۔ تلاش رشتہ کا آغاز ہم وہیں سے کریں گے۔ سال بھر کی جہد مسلسل کے دوران بہت سی اچھی فیملیز سے ملاقاتیں ہوئیں۔

ہماری ہر پہلی ملاقات چھہ رکنی ہوا کرتی۔ دونوں امیدوار اور دونوں امیدوار کے دونوں والدین۔ رسمی ملاقات سے قبل بذریہ ای میل اور فون تفصیلی تعارف کا باہمی تبادلہ بھی ہوتا۔ پہلی ہی ملاقات میں ہم سامنے والوں سے ان کی تمام توقعات پوچھتے، اوراپنی جملہ توقعات بتلاتے۔ شادی کی تقریب کو زیادہ سے زیادہ اسلامی انداز میں، اور فضول رسموں، ویڈیوگرافی، مخلوط تقریبات پر اپنے تحفظات رکھتے۔ بہت سے لوگ تو یہ سب کچھ سن کر ہی اللہ حافظ کہہ کر چل دیتے۔ لیکن ہمارے نزدیک رشتہ طے کرنے سے قبل شادی کے طریقہ کار کی تفصیلات ایک دوسرے کو بتلانا ضروری تھا۔ اکثر اوقات ہم لوگ ایسا نہیں کرتے اور رشتہ طے ہونے، منگنی دھوم دھام سے ہونے کے بعد کسی چھوٹی سی بات پر بھی رشتے ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔

بالآخر موجودہ گھرانے کو ہماری ساری باتیں پسند آئیں کہ کوئی منگنی، مایوں یا دیگر فضول رسم نہیں ہوگا۔ صرف نکاح اور رخصتی ہوگی۔ شادی کی ہر دو تقریب غیر مخلوط ہوگی۔ کوئی پروفیشنل فوٹو گرافر یا ویڈیوگرافر نہیں ہوگا البتہ گھریلو بچے ازخود ڈیجیٹل تصاویر یا ویڈیو بنا سکیں گے۔ دلہا کے کپڑے وغیرہ دلہا والے ہی بنائیں گے اور دلہن کے کپڑے، دلہن والے۔ اس کے برعکس مروجہ طریقہ غیر فطری اور بعد ازاں شکوہ شکایات کا سبب بنتا ہے۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ ہم جہیز وغیرہ کے قائل نہیں ہیں۔ اسی لئے بیٹے کی شادی پر جہیز کے نام پر کوئی سامان نہیں لیا۔ لڑکے والوں نے کہا کہ ہم بھی جہیز کے قائل نہیں ہیں۔ ہمیں بھی کچھ نہیں چاہئے۔ پھر ہم نے کہا کہ لیکن ہم اپنی بیٹی اور داماد کو تحائف بطور ہدیہ دیں گے اور جو کچھ بھی دیں گے پیشگی بتلاکر دیں گے۔ اور آپ ہدیہ لینے سے شرعا" انکار نہیں کرسکتے۔ پہلے تو انہوں نے ہمارے اس "جال" میں آنے سے انکار کیا مگر پھر ہمارے اصرار پر راضی ہونا پڑا کہ بہرحال خوشی کے مواقع پرتحفوں اور ہدیوں کا لین دین حرام نہیں ہے۔ محروم طبقات کی محرومیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ خوشحال گھرانوں کو بھی شادی کے موقع پر بیٹیوں کو مال و اسباب بالکل نہیں دینا چاہئے۔ یا اگر بیٹی کو کچھ دینا ہی ہے تو جہیز کی بجائے وراثت میں حصہ دیں۔ اول تو یہ کوئی معقول بات نہیں کہ چونکہ غریب گھرانے اپنی شادی بیاہ سمیت دیگر تقریبات اور مواقع پر بہت محدود اخراجات کرسکتے ہیں۔ لہذا خوشحال گھرانوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ پھرشادی کے موقع پر بیٹی کو دیئے جانے والے تحائف (جہیز) کا وراثت سے موازنہ کرنا بھی درست نہیں۔ شادی کے موقع پر باپ اپنی بیٹی کو شادی کا تحفہ (جہیز) دیتا ہے۔ جب کہ وراثت کا استحقاق تو باپ کے مرنے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ البتہ اگر باپ ریٹائرمنٹ کے قریب ہو اور اس کے پاس اپنے تمام بچوں کو پراپرٹیز دینے کی استطاعت ہو توصرف بیٹو کو نہیں بلکہ بیٹی کو بھی مساوی پراپرٹی دے۔ اور ہم نے ایسا ہی کیا کہ ہم بھی اب ملازمت (اور اوسط زندگی) سے ریٹائرہونے والے ہیں۔

ڈاکٹرعائشہ کو ہماری طرف سے اصل تحفہ براہ راست ان الفاظ میں واٹس اپ کیا گیا۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم:جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں (النسا ۔۳۴)اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سَج دھج نہ دکھاتی پھرو(احزاب:۳۳)۔ عورت پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کا ہے (مستدرک حاکم)۔اگر میں کسی مخلوق کے لئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ عورت کا اس حال میں انتقال ہو کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو وہ جنت میں جائے گی (ترمذی) شوہر کی موجود گی میں اُس کی اجازت کے بغیر کسی عورت کا نفلی روزہ رکھنا جائز نہیں۔ جب خاوند اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے اورخاوند اس پر غصہ ہوکر سوجائے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ جہنم میں عورتوں کی کثرت کا سبب شوہر کا کفر کرنا اوراُن کا احسان نہ ماننا ہے- بخاری

سسرال میں اپنی ڈاکٹری کی تعلیم، ذاتی جائیداد یا برائے نام دینی تعلیم کا تکبر کبھی نہ کرنا۔ ماں باپ سے صرف رسمی تعلق رکھنا۔ اب تمہاری جنت یا جہنم تمہارے شوہر کی خوشی یا ناراضگی میں ہوگی۔ میڈیکل پریکٹس جاری رکھنا یا نہ رکھنے کا فیصلہ اپنی ذاتی مرضی سے نہیں بلکہ شوہر کی مرضی سے کرنا۔ ہمیشہ شوہر یا ساس سسر کے ساتھ ہی ڈرائیوکرنا، اکیلے کبھی ڈرائیو نہ کرنا۔ نہ پوچھے بغیر گھر سے باہر نکلنا اور نہ ہی پوچھے بغیرکسی کو بھی سسرال میں انوائٹ کرنا۔ شوہرکو اس کے اپنے جاب سے متعلق فیصلہ، اسے خود کرنے دینا ۔ تم اپنی طرف سے کوئی بھی اصرار نہ کرنا۔ کبھی بھی اور کسی حال میں بھی میکہ اکیلی نہ آنا۔ شوہر، ساس یا سسر کے ساتھ ہی آنا۔ حتی الامکان میکہ میں رات نہ گذارنا۔ حدیث ہے کہ:جو چپ رہا وہ نجات پاگیا۔ سو ہر معاملہ یا مسئلہ میں چپ ہی رہنا۔ شوہر یا ساس سسر کو بولنے، فیصلہ کرنے دینا۔ شوہر، ساس سسرکے مقابلہ میں اپنے ذاتی ساز و سامان سے کبھی محبت نہ کرنا۔ لوگ اہم ہوتے ہیں، چیزیں نہیں۔ چیزوں کے خراب ہونے، ٹوٹنے پر افسردہ نہ ہونا۔ نہ ہی انہیں اس طرح سینت کر چھپا کر رکھنا کہ سسرال والے کنجوس یا لالچی سمجھیں۔ اپنی چیزیں سب کو استعمال کرنے دینا اور وہاں کی چیزیں پوچھ کر استعمال کرنا۔ اپنا موبائل فون کبھی بھی پاس ورڈ سے پروٹیکٹ کرکے نہ رکھنا۔ اپنے موبائل کو شوہر یا ساس سسر کی دسترس سے دور نہ رکھنا۔ شوہراگر گھرپر ہو توان کمنگ موبائل کال اسے ہی اٹھانے دینا۔ اسے میری آخری نصیحت یا آخری وصیت سمجھ کر عمل کرنا تاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو رہو۔ اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہو۔ آمین
-------------------------------------------------------------------------------------------------
پس نوشت: اوپر پوسٹ کردہ مراسلہ نمبر۔۲ اصل مضمون نہیں بلکہ وہ نوٹس تھے جو جلدی میں لکھے گئے تھے۔ اصل ترتیب شدہ مضمون پیش ہے۔ تاہم اس مضمون اور نوٹس کے کے نکتہ نظر میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ مضمون سے قبل نوٹس پوسٹ کرنے کی معذرت۔ مدیر زمرہ اگر چاہیں تو مراسلہ نمبر۔۲ کو حذف بھی کرسکتے ہیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
:: ڈاکٹرعائشہ کی شادی :: مضمون اپنی جگہ ۔ ۔ ۔ مضمون کے مندرجات سے اختلاف واتفاق اپنی جگہ ۔ ۔ ۔ لیکن اس مضمون میں بین السطور ایک ::خبر:: بھی موجود ہے۔ اگر::کبھی:: اور ::کوئی:: اس خبر تک پہنچ جائے تو اس خبر پر دو لفظ تو لکھ ہی سکتا ہے۔ یقین کیجئے اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ابتسامہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@یوسف ثانی بھائی!
یعنی کہ ہم آپ کو آپ کی دختر کی شادی کی مبارک باد دینے میں حق بجانب ہیں!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@یوسف ثانی بھائی!
یعنی کہ ہم آپ کو آپ کی دختر کی شادی کی مبارک باد دینے میں حق بجانب ہیں!
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
اور ہم آپ کو بین السطور خبر "پڑھ لینے" پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ابتسامہ
شکریہ اور جزاک اللہ خیرا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ تعالی بہت ساری خوشیاں بیٹی کا مقدر کریں اور ایمان و عمل والی طویل زندگی عطا کریں
درحقیقت آپ سے تو پہلے ہی سے ہے لیکن اس عمل صالح کے بعد محبت میں مزید اضٓفہ ہو گیا ہے
بیٹی کو محدث فورم کی طرف سے اور ہماری طرف سے بہت سی مبارک بادیں ضرور دیجیے گا
 
Top