• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سازشی تھیوری/ Conspiracy theory

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
سازشی تھیوری/ Conspiracy theory
سیمور ہرش کے آرٹیکل نے جہاں دنیا بھر میں تہلکہ مچایا ہے، وہاں پاکستان کے میڈیا اورسوشل میڈیا میں بھی ہلچل پیدا کی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک وضاحت ضروری ہے، میرا ہرگز ارادہ نہیں کہ بزرگ امریکی صحافی کے اس آرٹیکل کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دوں۔ سازشی تھیوری والی سرخی‘ دراصل پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح "Conspiracy theory" کے تناظر میں لگائی ہے۔ کانسپریسی تھیوری یا سازشی تھیوری دراصل اس مفروضے کو کہتے ہیں، جس کے ذریعے کسی خاص واقعے کی کوئی ایسی توجیہہ کی جاتی ہے جو اس کے بارے میں پاپولر یا مشہور نظریے یا سوچ سے ہٹ کر ہو۔ دنیا بھر میں ایسی بہت سی کانسپریسی تھیوریز گردش کرتی رہی ہیں، ان میں سے اکا دکا درست بھی ثابت ہو جاتی ہیں، مگر بیشتر تاریخ کے ترازو میں بے وزن ثابت ہوئیں۔

امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے پراسرار قتل کے بارے میں ایسی بہت سی تھیوریز پھیلائی گئیں، دلچسپی رکھنے والے انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم میں پرل ہاربر پر جاپانی حملہ کے حوالے سے بھی ایک مشہور سازشی تھیوری موجود ہے، جس کے مطابق اس وقت کی امریکی حکومت کو اس حملہ کا اندازہ تھا، مگر ایسا ہونے دیا گیا، تاکہ بعد میں امریکی عوام کے اشتعال کا فائدہ اٹھا کربدلہ لینے کی خاطر امریکہ جنگ عظیم میں شامل ہو سکے۔

حالیہ دور میں نائن الیون ایسا واقعہ ہے ، جس کے بارے میں ہر قسم کی تھیوری گھڑی گئی ، کہا گیا کہ یہ حملہ امریکہ نے خود کرایا۔ حد یہ ہے کہ القاعدہ والے اپنی مختلف جہادی ویب سائیٹ پر اس حملے کو تسلیم کر چکے، مگر یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو نہ صرف نائن الیون کا ذمہ دار القاعدہ کو نہیں سمجھتے، بلکہ کچھ تو القاعدہ نام کی کسی تنظیم کے وجود ہی سے انکار کرتے ہیں۔

قائداعظم کی وفات کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک سازشی تھیوری موجود ہے، جس کے مطابق قائد کو ائیرپورٹ سے گھر لے جانے کے لئے دانستہ خراب ایمبولینس بھیجی گئی۔ مزے کی بات ہے کہ ہمارے لبرل دوست ویسے ہر قسم کی سازشی تھیوریز کو رد کرتے ہیں، مگر اس خراب ایمبولینس والی تھیوری کو انہوں نے پھیلایا۔ اس پر غورکوئی نہیں کرتا کہ قائد کی حالت بہت زیادہ خراب تھی ، ان کا مرض آخری سٹیج پر تھا اور ان کے پاس مہلت نہایت کم رہی تھی، اسی لئے انہیں زیارت سے اپنے گھر منتقل کیا جا رہا تھا، تاکہ وہ آخری سانسیں اپنے گھر میں آرام سے لے سکیں۔ جس شخص کے پاس دو چار دن ہی بچے ہوں، کون احمق انہیں قتل کرنے کی کوشش کرے گا، اسے اس کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہو گی؟

خیر بات سازشی تھیوری کی ہو رہی تھی۔ سیمور ہرش کا آرٹیکل میرے خیال میں اسی زمرے میں آتا ہے۔ موصوف نے نجانے کتنے دن لگا کر اتنا لمبا آرٹیکل لکھا۔ جدید پاکستانی محاورے کے مطابق پڑھتے پڑھتے آدمی کا ' دماغ دہی بن جاتا ہے‘‘۔ خاکسار نے نہ صرف سیمور ہرش کا آرٹیکل لفظ بہ لفظ پڑھا، بلکہ اس حوالے سے لکھے جانے والے متعدد آرٹیکل بھی پڑھ ڈالے۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ امریکی میڈیا اس تھیوری کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ اس پر حیرت ہوئی کہ امریکہ اور یورپی میڈیا نے سیمور ہرش جیسے سینئر صحافی کی اس رپورٹ کو کوئی خاص لفٹ نہیں کرائی۔ سی این این کے پیٹر برگس اور واکس نیوز کے میک فشر نے خاصے بے رحمانہ انداز میں سیمور ہرش کی ''تہلکہ خیز‘‘ رپورٹ کے پرخچے اڑائے۔ واکس (Vox) کا تجزیہ عمدہ ہے، دلچسپی رکھنے والے اسے گوگل پر سرچ کر سکتے ہیں، بعض مغربی اخبارات نے اس خبر کو شائع کیا، مگر ڈھکے چھپے الفاظ میں لکھ دیا کہ اگر یہ سیمور ہرش کی سٹوری نہ ہوتی تو یہ چھپنے کے قابل بھی نہیں تھی۔

ہمارے ہاں مغربی مصنفین کی کتابوں یا آرٹیکلز کو عام طور پر دو انداز میں لیا جاتا ہے۔
بعض لوگ ان میں بیان کئے گئے انکشافات کو سچ مان لیتے، اپنی تحریروں میں ان کے حوالے دیتے اور اسے اپنے بیانیہ کے حق میں دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
دوسرا ردعمل اسے مکمل طور پر مسترد کرنے کا ہے۔ ایک بڑا حلقہ ایسی تحریروں کو پاکستان اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ یا سازش قرار دے کر رد کر دیتا ہے۔ بہتر رویہ یہی ہے کہ کیس ٹو کیس دیکھا جائے۔ جو بھی چیز سامنے آئے، اس کاتجزیہ کیا جائے اورپھر کوئی رائے بنائی جائے۔ مغربی مصنفین یا امریکہ کے سابق حکومتی عہدے داران اپنی کتابوں میں اپنے زاویہ نظر کو سامنے لاتے اور بنیادی طور پر اپنی کارکردگی کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کے بیان کردہ واقعات درست ہو سکتے ہیں اور یکسر غلط بھی۔

سیمور ہرش تحقیقاتی رپورٹنگ میں اعلیٰ ترین ایوارڈز لے چکے ہیں، ان کی کئی سٹوریز کے دنیا بھر میں حوالے دئیے جاتے ہیں، صحافت کی کتابوں میں انہیں بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ پچھلے چند برسوں میں سیمور ہرش اپنے جادوئی ٹچ سے محروم ہو گئے، ان کی کئی سٹوریز بری طرح بائونس ہوئیں، بلکہ ایک طرح سے سیمور ہرش کی بھد اڑائی گئی۔ سیمور ہرش مسلسل یہ لکھتے رہے ہیں کہ امریکہ ایران پر حملہ کرے گا۔ پہلے انہوں نے یہ خبر دے کر قارئین کو چونکا دیا کہ امریکی صدر بش ایران پر نیوکلئیر حملہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ یہ ایسی خبر تھی، جو بعد میں بالکل ہی غلط ثابت ہوئی ۔ پھر سیمور ہرش نے ایک لمبی چوڑی رپورٹ کے ذریعے دعویٰ کیا کہ امریکی حکومت ایک دہشت گرد ایرانی گروپ کو تربیت دے رہی ہے تاکہ ان کے ذریعے ایران پر حملہ کرایا جا سکے۔ ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکا، بلکہ جو لوگ کہتے تھے کہ امریکہ کبھی ایران پر حملہ نہیں کرے گا اور آخر کار ان میں معاہدہ ہو جائے گا، ان کی بات درست ہو گئی۔ سیمور ہرش نے شام میں کیمیائی حملے کے حوالے سے بھی عجیب وغریب رپورٹ دی تھی۔ اقوام متحدہ ، امریکی حکومت اور بہت سے دوسرے اداروں نے الزام لگایا کہ یہ حملہ شامی حکومت نے کیا ہے کیونکہ اس علاقے پر ان کا فوجی کنٹرول تھا۔ سیمور ہرش نے پہلے تو دعویٰ کیا کہ یہ حملہ القاعدہ کے ایک ذیلی گروپ نے کیا ہے اور امریکی حکومت جانتے بوجھتے ہوئے اس بات کو نہیں بتا رہی۔ پھر انہوں نے ایک اور خوفناک الزام لگایا کہ درحقیقت یہ حملہ ترکی کی حکومت نے کرایا تھا ، انہوں نے القاعدہ کے اس گرو پ کو استعمال کیا تاکہ شامی حکومت کو بدنام کیا جا سکے۔ ان کی اس سٹوری پر کسی نے یقین کیا نہ ہی وہ اسے ثابت کر سکے۔ سیمور ہرش کی تمام رپورٹس کو پڑھا جائے تو ایک مرکزی نقطہ نظر آئے گا ۔ ان کی تمام رپورٹس ایک ہی مفروضے کے سینگوں پر کھڑی ہیں۔ یہی دعویٰ ہر جگہ ملتا ہے کہ امریکی حکومت نے جھوٹ بولا، عوام سے چھپایا اور وہ یعنی سیمور ہرش جھوٹ کے انبار تلے دبے اس ''سچ‘‘ کو نکال کر باہر لائے ہیں۔ اصرار ان کا یہی ہوتا ہے کہ اسے من وعن مان لیا جائے۔

یہ درست کہ حکومتیں جھوٹ بولتی ہیں، یہ بھی سچ کہ امریکی حکومتیں بھیانک جھوٹ بولتی رہی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب کیسے لیا جائے کہ سیمور ہرش جو بھی کہیں گے ، وہ بھی درست ہو گا۔ ''اپنے‘‘ سچ پر اصرار کرنے والا اخبارنویس ٹھوکر بھی تو کھا سکتا ہے؟ اس کے ذاتی تعصبات بھی کہیں حاوی ہو سکتے ہیں؟ ویسے ہم پاکستانیوں کی تو کسی نے کیا سننی ہے، مگر خود اس بار مغربی ذرائع ابلاغ نے سیمور ہرش کی اس سٹوری کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کچھ نے ان کی بزرگی کا احترام کرتے ہوئے ڈھکے چھپے الفاظ میں اور بعض نے زیادہ کھلے، بے رحم انداز میں یہ بات کہہ دی۔ اس رپورٹ سے سازشی تھیوریز کی فہرست میں البتہ ایک اور کا اضافہ ہو گیا۔

تحریر: عامر خاکوانی
14May 2015
 
Last edited by a moderator:
Top