• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ساس اور بہو

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/9367/214/
شرعا اور قانونا بہو پر ساس کی خدمت لازمی نہیں ہے، لیکن اخلاقی طور پر اگر وہ اپنی ساس کی خدمت کرے تو اس کے لیے بہتر اور باعث اجر ہو گا۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کے والدین کا ادب واحترام کریں تو دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کا عزت واحترام بڑھتا ہے۔ زندگی کو جنت بنانے کا بہترین طریقہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنے والدین کی طرح سمجھیں، کوئی فرق نہ کریں تو ہزاروں مسائل جو آجکل کافی گھروں میں چل رہے ہیں حل ہو سکتے ہیں۔ گھروں میں لڑائی جھگڑوں کی زیادہ وجوہات جو ہماری پاس آتی ہیں، وہ یہی ہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے والدین کو اپنے والدین کی طرح نہیں سمجھتے ہیں، جس کی بنا پر ایک دوسرے میں نفرتیں جنم لیتی ہیں اور یہ معاملات بڑھتے بڑھتے بعض اوقات میاں بیوی میں علیحدگی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس لیے ہمارا مشورہ یہی ہے کہ ایک دوسرے کے والدین کی خدمت کو اپنا اخلاقی فرض سمجھیں، پھر دیکھیں زندگی کتنی خوشگوار گزرتی ہے۔
  1. مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے۔ حتی کہ کہا گیا ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔
  2. عورت پر سب سے زیادہ حق اس کےشوہر کا ہے۔ (بہت سی احادیث کی رو سے)
  3. ہر شوہر کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بیوی، اس کے ضعیف ماں باپ کی خدمت کرے۔ اگر اس کی بیوی از خود اپنے ساس سسر کی خدمت نہ کرے تو شوہر ایسا کرنے کو لازماً کہتا ہے اور عدم تعمیل پر بیوی سے ناراض ہوتا ہے حتیٰ کہ لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ:
  1. کیا شوہر بیوی کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے ماں باپ کی خدمت کرے ؟ شوہر صرف کار گناہ کا حکم نہیں دے سکتا۔ کیا یہ حکم کار گناہ میں آتا ہے؟
  2. اگر شوہر ایسا حکم دے تو کیا بیوی اس حکم کا انکار کرسکتی ہے؟ کیونکہ بیوی صرف کار گناہ سے انکار کرسکتی ہے؟
  3. شوہر کے حکم پر (اور ہر شوہر ایسا چاہتا ہے) ساس کی خدمت کرنا کیا بیوی پر فرض نہیں ہوجاتا؟؟؟
اہل علم سے مکالمے کی درخواست ہے
@انس @خضر حیات
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
  1. کیا شوہر بیوی کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے ماں باپ کی خدمت کرے ؟ شوہر صرف کار گناہ کا حکم نہیں دے سکتا۔ کیا یہ حکم کار گناہ میں آتا ہے؟
  2. اگر شوہر ایسا حکم دے تو کیا بیوی اس حکم کا انکار کرسکتی ہے؟ کیونکہ بیوی صرف کار گناہ سے انکار کرسکتی ہے؟
  3. شوہر کے حکم پر (اور ہر شوہر ایسا چاہتا ہے) ساس کی خدمت کرنا کیا بیوی پر فرض نہیں ہوجاتا؟؟؟
اہل علم سے مکالمے کی درخواست ہے
@انس @خضر حیات
کچھ کہنامشکل ہے ۔ اوپر فتوی میں بہت محتاط اور مناسب عبارت استعمال کی گئی ہے کہ
’’ ہمارا مشورہ یہی ہے کہ ایک دوسرے کے والدین کی خدمت کو اپنا اخلاقی فرض سمجھیں‘‘
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اگرچہ میرا شمار اہلِ علم میں نہیں ہوتا تاہم کچھ باتیں عرض کرنے کی جسارت کروں گی
ہمارے ہاں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ شادی کے بعد لڑکی کے ذمے اپنے والدین کی خدمت کے حوالے سے شریعت کی طرف سے عائد کردہ حقوق ساقط ہو جاتے ہیں ۔۔۔اب وہ جس گھر کی بہو ہے وہاں کے والدین کو اپنے والدین کا درجہ دے ۔۔۔ان کی اسی طرح خدمت کرے اس کا شوہر بھی اس سے یہی تقاضا کرتا ہے اور معاشرہ بھی۔۔۔ اور تو اور والدین بھی اسے یہی تلقین و نصیحت کرتے ہیں کہ اب ہمارا حقوق و فرائض والا رشتہ تمام ہوا خوشی خوشی مہمان کی حیثیت سے آؤاور رخصت ہو
جہاں تک شوہر کے والدین کی خدمت کا تعلق ہے براہِ راست یہ فرض عورت پر عائد نہیں ہوتا لیکن چونکہ اللہ نے اس پر شوہر کی اطاعت فرض کر دی ہے لہذا اگر شوہر اسے اس کا حکم دے تو یہ خدمت اس پر فرض ہو جاتی ہے
دوسری طرف اگر ہم والدین کی خدمت کے حوالے سے اسلام کے احکام کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شریعت نے والدین کی خدمت میں بیٹے اور بیٹی کی کوئی تخصیص نہیں رکھی یا کوئی ایسا حکم موجود ہو کہ شادی شدہ بیٹی کے اوپر سے والدین کی خدمت ساقط ہو جاتی ہے۔۔۔۔جیسا یہ فرض بیٹے پر عائد ہے ویسا ہی بیٹی پر بھی خواہ وہ شادی شدہ ہو ۔۔۔۔یہ اور بات ہے کہ بیٹی اور بیٹے کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔بیٹے کے پاس اس سعادت کو حاصل کرنے کے مواقع بیٹی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ بیٹی شادی کے بعد اپنے شوہر کی اور اپنے گھریلو حالات کی پابند ہوتی ہے۔۔۔یہی عرف ہے اور شریعت میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے
لیکن دوسری طرف یہ بات شوہر کے سوچنے والی ہے کہ میری بیوی میرے والدین کی خدمت میرے حکم کی اطاعت میں انجام دے رہی ہے ۔۔۔اصلا اپنے والدین کی خدمت شوہر کی ذمہ داری ہے لیکن بیوی اس کی اطاعت میں دراصل اس کے فرائض کی نیابت کر رہی ہے تو اللہ کی طرف سے میری بیوی پر اس کے اپنے والدین کی خدمت کی جو ذمہ داری عائد ہے اس کی ادائیگی کے لیے میں اس کو سازگار حالات مہیا کروں۔۔۔اس کو موقع فراہم کروں کہ وہ بھی اپنے والدین کی خدمت اور دلجوئی کرسکے۔۔۔
اب یہ خدمت اور دلجوئی ہر عورت اپنے اپنے حالات کے مطابق کرے گی ۔۔۔۔اگرتو وہ دوسرے ملک یا شہر میں رہتی ہے تو اس کے لیے روز روز آنا ظاہر سی بات ہے ممکن نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔وہ اپنے والدین کو فون کر سکتی ہے۔۔اگر وہ ضرورت مندہیں تو ان کی مالی مدد کر سکتی ہے ۔۔۔اپنے گھر بیٹھ کر ان کے کپڑے سی کر ان کو بھیج سکتی ہے ۔۔۔۔ان کی دوائیاں خرید سکتی ہے۔۔۔مختصرا یہ کہ اپنے گھریلو حالات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے عورت نے اپنی یہ ذمہ داری کیسے ادا کرنی ہے یہ عورت نے خود سوچنا ہے اور اس کے لیے ساز گار حالات مہیا کرنا شوہرکی ذمہ داری ہے
والدین کی خدمت کے حوالے سے کچھ بیٹیاں شادی کے بعد خود بھی غافل سی ہو جاتی ہیں۔۔۔۔اپنے معاشرے کی عمومی سوچ کے زیرِ اثر ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ بیٹوں کی ذمہ داری ہے ۔۔۔۔وہ اپنے والدین کے گھر سسرال کی تھکاوٹ اتارنے آتی ہیں۔۔اپنے لیے مہمانوں والا پروٹوکول چاہتی ہیں۔۔۔اپنے مسائل سنانے کے لیے انھیں ماں کی صورت ایک بہترین سامع چاہیے ہوتا ہے حالانکہ اگر وہ اس سوچ سے میکے آئیں کہ مجھے اپنے والدین کی خدمت کا موقع مل رہا ہے میں اس کو ضائع نہ کروں تو وہ اپنی ذمہ داری ادا کر سکتی ہیں۔۔۔۔والدین کے ہفتے بھر کے کپڑے استری کر کے رکھ دیں ۔۔۔۔جو کھانے فریز ہو سکتے ہیں مثلا کباب وغیرہ وہ بنا کر فریز کر دیں۔۔۔ان کے پاؤں دبا دیں ۔۔۔عام طور پر اگر بھابھی والدین کے کام کر تی ہے تو کچھ ذمہ داری خود اٹھالیں۔۔۔۔یادرکھیں ! والدین کی خدمت ایک سعادت ہے جس کو میسر آ گئی وہ خوش قسمت ہے
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ والدین کو عموما بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں سے زیادہ جذباتی وابستگی محسوس ہوتی ہے۔۔۔تو بیٹیوں کو اپنے گھریلو حالات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئےاس حوالے سے اپنی ذمہ داری یاد رکھنا چاہیے

وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسـٰنًا ۚ إِمّا يَبلُغَنَّ عِندَكَ الكِبَرَ أَحَدُهُما أَو كِلاهُما فَلا تَقُل لَهُما أُفٍّ وَلا تَنهَرهُما وَقُل لَهُما قَولًا كَريمًا ﴿٢٣﴾وَاخفِض لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحمَةِ وَقُل رَبِّ ارحَمهُما كَما رَبَّيانى صَغيرًا ﴿٢٤
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا (23)اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے (24)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کچھ کہنامشکل ہے ۔ اوپر فتوی میں بہت محتاط اور مناسب عبارت استعمال کی گئی ہے کہ
’’ ہمارا مشورہ یہی ہے کہ ایک دوسرے کے والدین کی خدمت کو اپنا اخلاقی فرض سمجھیں‘‘
شرعاً فرض نہیں ؟۔ قانوناً فرض نہیں ؟ لیکن اخلاقاً فرض ہے ؟

گویم مشکل وگرنہ گوہم مشکل ؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جہاں تک شوہر کے والدین کی خدمت کا تعلق ہے براہِ راست یہ فرض عورت پر عائد نہیں ہوتا لیکن چونکہ اللہ نے اس پر شوہر کی اطاعت فرض کر دی ہے لہذا
جزاک اللہ خیرا سسٹر ماریہ!
یہ تو آپ کا اور آپ جیسی دیندار خواتین کا ”ذاتی تقویٰ“ ہوا کہ ایک طرف تو اس فتویٰ پر بھی ”ایمان“ رکھتی ہیں کہ ساس کی خدمت بہو پر براہ راست فرض نہیں دوسری طرف یہ بھی ” ایمان“ رکھتی ہیں کہ اگر شوہر اسے اس کا حکم دے تو یہ خدمت اس پر فرض ہو جاتی ہے۔ (گویا جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایسا شوہر بھی پایا جاتا ہے جو بیوی کو ایسا حکم نہ دے یا اس کی توقع نہ رکھے اور اپنے والدین کی ”حکم عدولی“ پر اپنی بیوی سے خفا نہ ہو؟)

لیکن ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ آج کی عام مسلمان خواتین، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں یا کم تعلیم یافتہ، بالعموم قرآن و حدیث کی مجموعی تعلیمات سے نا آشنا ہوتی ہیں۔ اور ان تک اس قسم کے ”فتوے“ پہنچ جائیں (جو تیزی سے گھر گھر پہنچ بھی رہے ہیں اور خواتین کو ”گمراہ“ کرتے ہوئے گھروں میں فساد برپا کر رہے ہیں) تو حقوق کی طالب اور فرائض سے دور ان خواتین کا طرز عمل کیا ہوگا۔

اصل میں اسلام میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا کوئی ”تصور” موجود نہیں ہے۔ شادی ہوتے ہی شادی شدہ جوڑے کو الگ رہائش (خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، ذاتی ہو یا کرایہ کی) ملنی چاہئے، جہاں ان کا رہن سہن آزادانہ ہو اور نئی نویلی دلہن کو سسرالی ”نامحرموں“ سے حجاب کرنے میں آسانی ہو۔ اپنے میکہ میں تو وہ اپنے باپ بھائیوں کے سامنے آزادانہ آجا سکتی تھی، مگر وہ اپنے شوہر کے باپ بھائیوں کے سامنے اس طرح کا ”رویہ“ نہیں رکھ سکتی۔ چنانچہ ایک ”علیحدہ ذاتی رہائش“ بیوی کا وہ ”شرعی حق“ ہے، جسے پورا کیا جانا چاہئے۔

لیکن آج کل ہمارے گھرانوں میں بالعموم شادی شدہ جوڑے کو بوجوہ الگ رہائش نہیں ملتی۔ لڑکا شادی کے بعد بھی اپنے والدین کے گھر میں رہنے پر ”مجبور“ ہوتا ہے۔ گھر عموماً والد صاحب کی ملکیت ہوتی ہے۔ اور گھر کا نظام والدہ چلا رہی ہوتی ہیں۔ گھر کے بیٹے بیٹیاں والدین کے کہنے پر گھریلو ذمہ داریوں میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔ بس اس نظام میں ایک ”بہو“ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب اگر ”بہو“ یہ سمجھ کر کہ ساس سسر (اور ان کے گھر) کی خدمت مجھ پر فرض نہیں تو کوئی بھی یہ تصور کرسکتا ہے اور گھر گھر میں اس کا عملی نمونہ دیکھ سکتا ہے کہ گھریلو نظام کس طرح فساد کا شکار ہوتا ہے۔ گھر میں سب کے لئے ایک ساتھ کھانے پکتے ہیں۔ کپڑے ایک ساتھ دھلتے ہیں۔ گھر کی صفائی ایک وقت میں ایک ہی فرد کرتا ہے۔ ایسے میں ساس بہو کے گھر کی خدمت فرض نہ ہونے پر ایمان رکھنے والی بہو اپنے رویہ کی وجہ سے اچھوت سی بن جاتی ہے۔

ساس سسر کی خدمت کا سوال ہی جوائنٹ فیملی سسٹم میں پیدا ہوتا ہے۔ بہو کو اسی گھر میں ایک ”متبادل ماں“ ملتی ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا شوہر ہو جو جوائنٹ فیملی سسٹم میں ماں باپ کے گھر میں رہتے ہوئے اپنی بیوی سے یہ خواہش رکھے کہ وہ گھریلو معاملات میں اپنے ساس سسر کی بات نہ مانے۔ بلکہ جیسے ہی اسے بتلایا بلکہ جتلایا جاتا ہے کہ تمہاری بیوی تو گھر کے (مشترکہ) کاموں کو ہاتھ نہیں لگاتی یا ہمارا کہا نہیں مانتی، اپنی مرضی چلاتی ہے تو شوہر بیوی پر ناراض اور میاں بیوی چخ چخ کا آغآز ہوجاتا ہے۔

واضح رہے کہ علماء کی کثیر تعداد اس بات کی قائل نہیں ہے کہ ”شرعا اور قانونا بہو پر ساس کی خدمت لازمی نہیں ہے“ یہ ایک بالکل ”نیا تصور“ ہے جو گزشتہ صدی کے اواخر سے رائج پا رہا ہے۔ اور میرا نہیں خیال کہ ایسا فتویٰ دینے والے علمائے کرام بھی اپنی اپنی بہوؤں سے اپنے اپنے گھروں میں کوئی کام نہ لے رہے ہوں۔ (معنی خیز مسکراہٹ)
واللہ اعلم بالصواب
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
جزاک اللہ خیرا سسٹر ماریہ!
یہ تو آپ کا اور آپ جیسی دیندار خواتین کا ”ذاتی تقویٰ“ ہوا کہ ایک طرف تو اس فتویٰ پر بھی ”ایمان“ رکھتی ہیں کہ ساس کی خدمت بہو پر براہ راست فرض نہیں دوسری طرف یہ بھی ” ایمان“ رکھتی ہیں کہ اگر شوہر اسے اس کا حکم دے تو یہ خدمت اس پر فرض ہو جاتی ہے۔ (گویا جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایسا شوہر بھی پایا جاتا ہے جو بیوی کو ایسا حکم نہ دے یا اس کی توقع نہ رکھے اور اپنے والدین کی ”حکم عدولی“ پر اپنی بیوی سے خفا نہ ہو؟)

لیکن ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ آج کی عام مسلمان خواتین، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں یا کم تعلیم یافتہ، بالعموم قرآن و حدیث کی مجموعی تعلیمات سے نا آشنا ہوتی ہیں۔ اور ان تک اس قسم کے ”فتوے“ پہنچ جائیں (جو تیزی سے گھر گھر پہنچ بھی رہے ہیں اور خواتین کو ”گمراہ“ کرتے ہوئے گھروں میں فساد برپا کر رہے ہیں) تو حقوق کی طالب اور فرائض سے دور ان خواتین کا طرز عمل کیا ہوگا۔

اصل میں اسلام میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا کوئی ”تصور” موجود نہیں ہے۔ شادی ہوتے ہی شادی شدہ جوڑے کو الگ رہائش (خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، ذاتی ہو یا کرایہ کی) ملنی چاہئے، جہاں ان کا رہن سہن آزادانہ ہو اور نئی نویلی دلہن کو سسرالی ”نامحرموں“ سے حجاب کرنے میں آسانی ہو۔ اپنے میکہ میں تو وہ اپنے باپ بھائیوں کے سامنے آزادانہ آجا سکتی تھی، مگر وہ اپنے شوہر کے باپ بھائیوں کے سامنے اس طرح کا ”رویہ“ نہیں رکھ سکتی۔ چنانچہ ایک ”علیحدہ ذاتی رہائش“ بیوی کا وہ ”شرعی حق“ ہے، جسے پورا کیا جانا چاہئے۔

لیکن آج کل ہمارے گھرانوں میں بالعموم شادی شدہ جوڑے کو بوجوہ الگ رہائش نہیں ملتی۔ لڑکا شادی کے بعد بھی اپنے والدین کے گھر میں رہنے پر ”مجبور“ ہوتا ہے۔ گھر عموماً والد صاحب کی ملکیت ہوتی ہے۔ اور گھر کا نظام والدہ چلا رہی ہوتی ہیں۔ گھر کے بیٹے بیٹیاں والدین کے کہنے پر گھریلو ذمہ داریوں میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔ بس اس نظام میں ایک ”بہو“ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب اگر ”بہو“ یہ سمجھ کر کہ ساس سسر (اور ان کے گھر) کی خدمت مجھ پر فرض نہیں تو کوئی بھی یہ تصور کرسکتا ہے اور گھر گھر میں اس کا عملی نمونہ دیکھ سکتا ہے کہ گھریلو نظام کس طرح فساد کا شکار ہوتا ہے۔ گھر میں سب کے لئے ایک ساتھ کھانے پکتے ہیں۔ کپڑے ایک ساتھ دھلتے ہیں۔ گھر کی صفائی ایک وقت میں ایک ہی فرد کرتا ہے۔ ایسے میں ساس بہو کے گھر کی خدمت فرض نہ ہونے پر ایمان رکھنے والی بہو اپنے رویہ کی وجہ سے اچھوت سی بن جاتی ہے۔

ساس سسر کی خدمت کا سوال ہی جوائنٹ فیملی سسٹم میں پیدا ہوتا ہے۔ بہو کو اسی گھر میں ایک ”متبادل ماں“ ملتی ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا شوہر ہو جو جوائنٹ فیملی سسٹم میں ماں باپ کے گھر میں رہتے ہوئے اپنی بیوی سے یہ خواہش رکھے کہ وہ گھریلو معاملات میں اپنے ساس سسر کی بات نہ مانے۔ بلکہ جیسے ہی اسے بتلایا بلکہ جتلایا جاتا ہے کہ تمہاری بیوی تو گھر کے (مشترکہ) کاموں کو ہاتھ نہیں لگاتی یا ہمارا کہا نہیں مانتی، اپنی مرضی چلاتی ہے تو شوہر بیوی پر ناراض اور میاں بیوی چخ چخ کا آغآز ہوجاتا ہے۔

واضح رہے کہ علماء کی کثیر تعداد اس بات کی قائل نہیں ہے کہ ”شرعا اور قانونا بہو پر ساس کی خدمت لازمی نہیں ہے“ یہ ایک بالکل ”نیا تصور“ ہے جو گزشتہ صدی کے اواخر سے رائج پا رہا ہے۔ اور میرا نہیں خیال کہ ایسا فتویٰ دینے والے علمائے کرام بھی اپنی اپنی بہوؤں سے اپنے اپنے گھروں میں کوئی کام نہ لے رہے ہوں۔ (معنی خیز مسکراہٹ)
واللہ اعلم بالصواب
دراصل ساس سسر کی بحث سے قطع نظر شوہر کی اطاعت کا سبق مسلم عورت کو پڑھانا چاہیے۔۔۔ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق ہر طرح کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اصل میں اس قسم کے فتوں کو (نام نہاد) ” تحریک ترقی نسواں“ کی خواتین اپنے ”حق“ میں استعمال کرنے لگی ہیں کہ دیکھا ساس سسر کی خدمت تو ہم بہوؤں پر فرض ہے ہی نہیں۔ لہٰذا ہم ان کے لئے ان کے گھر کا کام کیوں کریں۔ صبح شوہر کو ناشتہ کرا کر گھر سے جاب پر بھیجنے کے بعد سے لے کر رات کو شوہر کے واپس آنے تک ہمیں کوئی کام کاج کا نہ کہے۔ اگر ساس سسر ”بہت شریف قسم“ کے ہوئے تو ایسی بہو کو خامشی سے برداشت کرتے رہتے ہیں اور جب بات ناقابل برداشت ہوجائے تو بیٹا بہو کو گھر سے نکال باہر کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں ساس سسر روز اول سے بہو کو گھر کے معمول کے کام کرنے کو کہتے ہیں۔ عدم تعمیل پر بیٹے کو شکایت لگاتے ہیں۔ بیٹا وضاحت طلب کرے تو بیوی اپنے اوپر ظلم (جو کام فرض نہ ہو، وہ کام کسی سے کروانا ”ظلم“ ہی تو ہے) کی داستان سنانے لگتی ہے۔ بیٹا دو عورتوں کےبیچ پس کر رہ جاتا ہے۔ چونکہ وہ خود اس سارے معاملے کا عینی شاہد نہیں ہوتا، کہ کسی ایک کو ”غلط“ ٹھہرا سکے۔، ایسے میں تنازع سے بچنے کا اسے ایک ہی راستہ نظر آتا ہے یا بیوی دکھلاتی ہے کہ بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ کر الگ ہوجائے۔

اس ناقص کی ناقص رائے کے مطابق صدیوں سے یہ رواج چلا آرہا ہے کہ آنے والی بہو، اپنے سسرال میں ساس سسر کا ہاتھ بٹاتی ہے، ان کی خدمت کرتی ہے، ان کے کہے کے مطابق کام کاج کرتی ہے کہ وہ دن بھر اپنا بیشتر وقت انہی کے ساتھ گزارتی ہے۔ شوہر تو صبح کا گیا شام کو آتا ہے۔ چونکہ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی واضح نص موجود نہیں ہے جس میں کہا گیا ہو کہ بہو کے لئے ساس سسر کی خدمت کا یہ صدیوں پرانا کلچر شرعاً فرض نہیں ہے (اگر ہو تو اس کی نشاندہی کی جائے) ،لہٰذا ایسا کوئی فتویٰ دینا غیر ضروری، نا مناسب بلکہ اکثر اوقات فساد کا باعث بنتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ساس بہو اور اس كے خاندان سے برا سلوك كرتى ہے

ميرى والدہ ميرى بيوى كو بغير ناحق تنگ كرتى ہے حتى كہ بيوى كے خاندان والوں كو بھى برا كہتى ہے، اور بيوى اور اس كے خاندان والوں پر ناحق غلط قسم كے الزامات لگاتى رہتى ہے، اس كے نتيجہ ميرى بيوى اپنى ساس سے قطع تعلق كرنے لگى ہے.
يہ علم ميں رہے كہ ميں والدہ كو ملتا رہتا اور ٹيلى فون پر بھى ان كى خيريت دريافت كرتا رہتا ہوں، ميرى والدہ كو ميرى بيوى كى جانب سے قطع تعلقى كى توقع نہ تھى ليكن جب بيوى نے ايسا كيا تو والدہ اس كا الزام مجھ پر لگانے لگى كہ ميں نے ہى بيوى كو ايسا كرنے كى اجازت دى ہے، والدہ كہتى ہے كہ جب تك ميرى بيوى كے اس سے تعلقات صحيح نہيں ہوتے تو وہ مجھ سے قيامت تك راضى نہيں ہوگى، ميں بيوى پر سختى نہيں كرنا چاہتا بلكہ اسے اختيار ديا ہے كہ وہ رابطہ ركھے يا نہ ركھے، اب تو والدہ مجھے ناحق بد دعائيں دينے لگى ہيں.
ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا ميرى بيوى كا اپنى ساس سے قطع تلقى كرنے ميں كوئى محروميت ہے يا پھر ايسا كرنے كا حكم كيا ہے ؟
دوسرا سوال يہ ہے كہ: كيا والدہ كو حق ہے كہ وہ مجھ پر راضى ہونے كے ليے اپنے ساتھ ميرى بيوى كے تعلقات بحال كرنے اور ملنے كى شرط ركھے، حالانكہ ميں نماز ميں والدہ كے ليے دعا مانگتا رہتا ہوں، اور والدہ كى جانب سے صدقہ بھى كرتا ہوں ؟
تيسرا سوال يہ ہے كہ: اگر ميرى بيوى قطع تعلقى پر مصر رہے تو كيا والدہ كى ناراضگى كا گناہ مجھ پر ہوگا يا نہيں ؟
برائے مہربانى معلومات فراہم كر كے عند اللہ ماجور ہوں.



الحمد للہ:

اول:


ہمارے عزيز بھائى اس طرح كى خاندانى مشكلات كى بنا پر ازدواجى زندگى پراگندہ ہو كر رہ جاتى ہے، اور ذہن مشغول ہر كر رہ جاتا ہے، ليكن عقلمندى اور حكمت كے ساتھ اس طرح كے مسائل كو حل كرنے اور عدل و انصاف پر عمل كرتے ہوئے ہر ايك كو كا اس كا حق دينے سے يہ مشكلات ختم ہو سكتى ہيں، اس ليے آپ والدہ كے عظيم حق كى ادائيگى پر صبر و تحمل سے كام ليں، اور انہيں راضى كرنے كى كوشش كرنے كے ساتھ ساتھ اپنے بچوں كى ماں يعنى اپنى بيوى سے بھى محبت و مودت اور الفت قائم ركھيں، اس سے بہتر سلوك اور اچھا معاملہ كرنے كى بنا پر يہ مشكل حل ہو سكتى ہے.

دوم:

اللہ تعالى ہمارى اور آپ كى اصلاح فرمائے ہر ايك ليے دوسرے كے حقوق كو معلوم كرنا اور جاننا ضرورى ہے، اس ليے قابل احترام ماں كو معلوم ہونا چاہيے كہ بہو كے بھى كچھ حقوق ہيں جو اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ نے مقرر فرمائے اور ان كى ادائيگى كى وصيت فرمائى ہے.

اسى طرح بہو كو بھى معلوم ہونا چاہيے كہ ماں كے بھى اپنى اولاد پر كچھ حقوق ہيں جو اللہ سبحانہ و تعالى نے فرض كيے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى تاكيد فرمائى ہے.

اس كے بعد دونوں كو معلوم ہونا چاہيے كہ جب اللہ تعالى نے ہر ايك كے كچھ حقوق مقرر كيے ہيں، اور ظلم و زيادتى كرنے سے منع فرمايا ہے، اور اللہ تعالى نے بندوں كے ليے جو حدود و قيود مقرر كى ہيں ان سے تجاوز كرنا منع كيا ہے، اس ليے ہر ايك شخص كو چاہيے كہ حدود سے تجاوز مت كرے، اور كسى دوسرے كے حقوق كى ادائيگى كے ليے كسى ايك كے حقوق پر بھى ظلم و زيادتى مت كرے.

سوم:

آپ اس سلسلہ ميں شريعت مطہرہ كا بيان كردہ عدل و انصاف والا معيار استعمال كريں كہ اس وقت تك كوئى شخص مومن ہى نہيں ہو سكتا جب تك وہ اپنے بھائى كے ليے وہى كچھ پسند نہ كرے جو اپنے ليے پسند كرتا ہے، حتى كہ جو اپنے ليے ناپسند كرتا ہے وہ اپنے مسلمان بھائى كے ليے بھى ناپسند نہ كرنے لگے.

لہذا والدہ كو يہ سمجھائيں كہ: قابل احترام ماں كيا ہم ميں سے كوئى ايك بھى ( چاہے وہ كوئى بھى ہو ) كيا يہ پسند كرتا ہے كہ غلط قسم كى باتيں كر كے اس كے جذبات مجروح كيے جائيں ؟

كيا ہم سے كوئى يہ پسند كرتا ہے كہ اس كے ساتھ غير شائستہ اور غير لائق قسم كے تصرفات اور كام كيے جائيں ؟

كيا كوئى يہ پسند كرتا ہے كہ اس كے خاندان وغيرہ كے ساتھ برا سلوك كيا جائے اور ان كے بارہ ميں غلط باتيں كى جائيں ؟

اور بيوى سے بھى كہيں ميرى عزيز بيوى كيا آپ كو يہ پسند ہے كہ مجھ پر ميرى والدہ ہميشہ كے ليے ناراض ہو جائے اور ميرے ليے دعا كرنے كى بجائے بددعائيں كرنے لگے ؟

كيا آپ اپنے ليے ايسا عمل پسند كرتى ہيں ؟ چاہے ا سكا كوئى بھى سبب ہو ؟

آپ اس طرح كى كوئى تدبير كريں جس سے آپ دونوں كے دل ميں يہ ڈال سكيں كہ آپ كے ليے اس كا معاملہ زيادہ مہما ور اہميت ركھتا ہے، اور دونوں كى ناراضگى آپ كے ليے بہت دكھ كا باعث ہے.

ليكن اس سلسلہ ميں آپ غلط طريقہ اور برا سلوك كرنے والے كے مخالف مت ہوں ( خاص كر والدہ كے ) اور واضح طور پر اسے مت كہيں كہ تم ظلم و زيادتى كر رہى ہو، اور نہ ہى اسے ايسا باور كرائيں جس كى بنا پر حالات مزيد خراب ہو جائيں اور تعلقات ميں مزيد بگاڑ پيدا ہو.

ليكن آپ پورى حكمت كے ساتھ اور بہتر وعظ و نصيحت استعمال كرتے ہوئے اسے حل كرنے كى كوشش كريں.

آپ بيوى سے ايسى كلام كريں جو معافى و درگزر كى غماضى كرتى ہو اور اس كے كان ميں معاف و درگزر كا طريقہ ڈاليں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ نيكى اور برائى برابر نہيں ہو سكتى، آپ برائى كو اچھائى كے ساتھ دور كريں تو وہى جو آپ كا دشمن تھا وہ دلى دوست ميں بدل جائيگا } فصلت ( 34 ).

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" معافى و درگزر سے اللہ تعالى عزت ميں اور اضافہ فرماتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2588 ).


اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

" بندے پر جو بھى ظلم ہو اور وہ اس پر صبر كرے تو اللہ تعالى اس كى عزت ميں اور اضافہ كرتا ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2325 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.


آپ اپنى بيوى كو بتائيں كہ معافى و در گزر اللہ تعالى كو بہت محبوب ہے، اور آپ ايسے شخص كو معاف كريں گى جو مجھے سب سے زيادہ عزيز اور محبوب ہے يعنى ميرى والدہ ہے اس سے آپ ميرے نزديك اور زيادہ عزت و تكريم كى باعث بن جائينگى.

چہارم:

آپ كى بيوى كے ليے اپنى ساس سے بائيكاٹ كرنا اور جھگڑنا جائز نہيں؛ كيونكہ كسى بھى مسلمان شخص كے ليے اپنے دوسرے مسلمان بھائى سے تين دن سے زائد ناراض رہنا جائز و حلال نہيں ہے، سب كو اس كا علم بھى ہے اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى يہى ہے.

اور ايك صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى اپنے بھائى سے ايك برس تك قطع تعلقى كى يہ اس كے خون كرنے كے مترادف ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4915 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے كہ:

" كسى بھى مسلمان شخص كے ليے كسى دوسرے مسلمان سے تين راتوں سے زيادہ قطع تعلقى كرنا حلال نہيں، جب تك وہ دونوں ايك دوسرے سے ناراض ہيں تو وہ حق سے دور ہيں اور ان دونوں ميں سے جو پہلے اپنى نارضگى چھوڑ دے تو يہ اس كى ناراضگى كا كفارہ بن جائيگا، اور اگر وہ سلام كرے اور دوسرا قبول نہ كرے اور سلام كا جواب نہ دے تو فرشتے سلام كا جواب ديتے ہيں، اور دوسرے كو شيطان جواب ديتا ہے، اور اگر وہ دونوں اپنى ناراضگى پر ہى فوت ہو جائيں تو كبھى بھى جنت ميں داخل نہيں ہونگى "

مسند احمد حديث نمبر ( 15824 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 1246 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.


ليكن اگر ساس اور بہو كو اكٹھا ركھنے ميں مستقل طور پر بيوى كے ليے اذيت كا باعث بنے اور بہو كے خاندان والوں كو طعن كرنے كا باعث بنتا ہے تو پھر ماں كے ليے ايسا كرنا جائز نہيں ہے، اور اسى طرح آپ كا اس معاملہ ميں خاموشى اختيار كرنا بھى جائز نہيں، كيونكہ لوگوں كے حقوق كا احترام كرنا چاہيے، اور پھر جو كوئى شخص بھى كسى دوسرے مسلمان كو ناحق اذيت ديتا ہے كا قيامت كے روز اسے اس كا حساب دينا ہوگا.

وہ مفلس والى حديث سب كو معلوم ہے جس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كيا ہے كہ مفلس شخص وہ ہو گا جو روز قيامت نماز روزے اور زكاۃ جيسے اعمال كے ساتھ آئيگا ليكن اس نے كسى شخص كا ناحق مال كھايا اور كسى كا ناحق خون بہايا ہوگا، اور كسى كو زدكوب كيا ہوگا تو مظلوم شخص كى اس كى نيكياں دى جائينگى، اور نيكياں ختم ہو جانے كى صورت ميں مظلومين كے گناہ ظالم شخص پر ڈال ديے جائيں گے، اور اس طرح وہ جہنم ميں ڈال ديا جائيگا.

چنانچہ والدہ كو اس عظيم خطرہ سے متنبہ رہنا چاہيے، اور ايسى ماں كو نرم اور لطيف الفاظ اور لہجہ ميں وعظ و نصيحت كے ساتھ ساتھ اللہ سبحانہ و تعالى كا خوف بھى دلايا جائے.

اس بنا پر اگر ساس اپنى بہو كے ساتھ يہى سلوك كرنے پر مصر ہو تو پھر ساس كو ايسا كرنے سے روكنے كے ليے بہو كو ساس كے گھر جانے اور اس سے ملنے سے روك دينا چاہيے اور اس صورت ميں بہو كے ليے اپنى ساس سے ميل ملاپ نہ كرنے اور اس كے پاس نہ جانا جائز ہوگا، كيونكہ دراصل بہو كے ليے ايسا كرنا واجب ہى نہيں، بلكہ واجب تو يہ ہے كہ بغير كسى شرعى سبب كے بائيكاٹ اور قطع تعلقى كرنے سے اجتناب كيا جائے.

اگر بالفرض ہم يہ كہيں كہ بيوى اس سے درگزر كرتے ہوئے معاف كر ديتى ہے، اور اپنے حق سے دستبردار ہو جاتى ہے تو پھر اس كے خاندان كے حق كيا كيا ہوگا ؟

اس كے خاندان والوں كا كيا قصور اور گناہ ہے كہ ان كى توہين و اہانت كى جائے اور ان كى غير موجودگى ميں انہيں برے الفاظ ميں ياد كيا جائے حالانكہ انہوں نے كسى جرم كا ارتكاب تك نہيں كيا ؟

ليكن اگر بالفرض ساس اور بہو دونوں كسى ايك جگہ اكٹھى ہو جائيں تو بہو كو اپنى ساس كو سلام كرنى چاہيے اور حال احوال دريافت كرنے چاہيں كيونكہ سلام ميں پہل كرنے والا شخص بہتر اور افضل ہے، اور جب ساس اپنى بہو سے بات كرے يا سلام كرے تو بہو كو جواب دينا چاہيے.

اس صورت ميں آپ كے ليے كوئى نقصاندہ نہيں كہ آپ والدہ كو بد دعا كى دھمكى ديں، اور آپ اسے ناراضگى كى دھمكى دے سكتے ہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے اوپر ظلم حرام كيا ہے، اور اسى طرح لوگوں كا بھى ايك دوسرے پر ظلم كرنا حرام قرار ديا ہے، اور والدہ كو يہ بتا ديں كہ اللہ سبحانہ و تعالى ظالموں سے محبت نہيں كرتا، اور اللہ تعالى كو ظالم لوگ پسند نہيں.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

{ اے ايمان والو تم حق پر قائم رہو، اور اللہ كے ليے راستى اور انصاف كے ساتھ گواہى دينے والے بن جاؤ، اور تمہيں كسى قوم كى دشمنى ناانصافى پر مت ابھارے، بلكہ عدل و انصاف كرو يہى تقوى كے زيادہ قريب ہے }المآئدۃ ( 8 ).


اس آيت كا معنى يہ ہے كہ:

تم اپنے افعال اور اقوال ميں عدل و انصاف سے كام لو، اور ہر قريبى اور دور والے كے ساتھ عدل و انصاف كرو، چاہے وہ دوست ہو يا دشمن اس سے انصاف ضرور كرو.

كسى قوم سے دشمنى اور بغض تمہيں ظلم و زيادتى پر مت ابھارے كہ تم اس سے انصاف نہ كرو، بلكہ جيسے تم اپنے دوست كے حق ميں گواہى ديتے ہو، اسى طرح اس كے خلاف بھى گواہى دينے سے گريز مت كرو، بلكہ جس طرح تم اپنے دشمن كے خلاف گواہى ديتے ہو اس دوست كے خلاف بھى گواہى دو، چاہے وہ كافر ہو يا بدعتى كيونكہ عدل و انصاف كرنا واجب ہے.

ديكھيں: تفسير السعدى ( 224 ).

اور يہ بھى ہے كہ جس طرح كسى قوم كى دشمنى تمہيں عدل و انصاف ترك كرنے پر نہيں ابھارتى اسى طرح كسى دوسرے كى محبت بھى تمہيں اسے ترك كرنے پر مت ابھارے بلكہ تمہيں ہر حالت ميں عدل و انصاف كرنا چاہيے.

اگر آپ اپنى استطاعت كے مطابق اصلاح كرنے كى كوشش كرنے كے باوجود ان كى اصلاح سے عاجز ہوں تو پھر آپ پر كوئى گناہ نہيں، چاہے والدہ آپ كو بد دعا كرنے كى بھى دھمكى ديتى رہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى گناہ يا قطع رحمى كے ساتھ دعا قبول نہيں فرماتا.

ليكن پھر بھى والدہ كے ساتھ حسن سلوك مكمل كرنا ہو گا اور والدہ كى جانب سے دو ناپسنديدہ امور صادر ہوں اس پر صبر و تحمل سے كام ليں.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى سيدھى راہ كى راہنمائى كرنے والا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 82453 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

تنبيہ:

سائل كا يہ كہنا كہ:


" ميں نماز ميں ابھى تك والدہ كے ليے دعا مانگتا ہوں اور اس كى جانب سے صدقہ و خيرات كرتا ہوں"

دعا كرنا تو ايك اچھا اور بہتر كام ہے، جو والدہ كے ساتھ حسن سلوك ميں شامل ہوتا ہے، ليكن والدہ كى زندگى ميں اس كى جانب سے صدقہ و خيرات كرنا سلف صالحين سے ثابت نہيں، بلكہ معروف تو يہى ہے كہ ميت كى جانب سے ہى صدقہ و خيرات كيا جاتا ہے جيسا كہ درج ذيل بخارى اور مسلم شريف كى حديث سے ثابت ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: ميرے والدہ اچانك فوت ہو گئى ہے ميرے خيال ميں اگر وہ بات كرتى تو صدقہ ضرور كرتى، كيا ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں تم اس كى جانب سے صدقہ كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2760 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1004 ).


امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ ميت كى جانب سے كيا گيا صدقہ ميت كو فائدہ دےگا اور اسے اس كا ثواب ہوگا، اور يہ علماء كرام كا اجماع بھى ہے " انتہى

اس ليے والدہ كى خدمت كرنا، اور اس كى غير موجودگى ميں والدہ كے ليے دعا كرنا اور مالى اور دوسرى معاونت كر كے صلہ رحمى كرنا مشروع ہے ليكن زندگى ميں والدہ كى جانب سے صدقہ كرنا مشروع نہيں، كيونكہ ہمارے علم كے مطابق تو اس كى كوئى دليل نہيں ملتى.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/129319
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جزاک اللہ عامر بھائی!
آپ نے ہم سب کے لئے مشعل راہ بہترین سوال جواب نقل کیا ہے۔
لیکن
اس وعظ و نصیحت سے زیر بحث ”مسئلہ“ پر کوئی روشنی نہیں پڑتی کہ: اگر بہو، ساس کے ساتھ اس کے گھر میں رہتی ہو تو ساس کی خدمت بہو پر فرض نہیں ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جزاک اللہ عامر بھائی!
آپ نے ہم سب کے لئے مشعل راہ بہترین سوال جواب نقل کیا ہے۔
لیکن
اس وعظ و نصیحت سے زیر بحث ”مسئلہ“ پر کوئی روشنی نہیں پڑتی کہ: اگر بہو، ساس کے ساتھ اس کے گھر میں رہتی ہو تو ساس کی خدمت بہو پر فرض نہیں ہے۔


كيا بيوى كے ليے ساس كى خدمت كرنا فرض ہے ؟

كيا عورت پر اپنى ساس كى خدمت كرنا فرض ہے يا نہيں اور اس كا حكم كيا ہے، كيونكہ ہمارے گھر ميں اس سے مشكلات پيدا ہو رہى ہيں، اور بعض اوقات تو ميں طلاق حاصل كرنے كا سوچنے لگتا ہوں.
ميں نے ايك مولانا صاحب سے دريافت كيا تو انہوں نے كہا: تم اپنى بيوى اور والدہ كے مابين موافقت كى كوشش كرو يہ علم ميں رہے كہ بيوى يتيم ہے اور ميرے علاوہ اس كا كوئى اور نہيں ہے، ميرے اس سے بچے بھى ہيں.
ميرى والدہ زيادہ عمر كى نہيں ہے، الحمد للہ اس كى بيٹياں بھى ہيں جو گھر ميں اس كى خدمت كر سكتى ہيں، اب بيوى اور والدہ كے مابين موافقت كرانا مشكل اور مستحيل ہو چكا ہے، تو كيا ميرے ليے اپنا عليحدہ گھر بنانا جائز ہے كہ ميں اپنے بہن بھائيوں كو چھوڑ كر عليحدہ رہوں، برائے مہربانى بتائيں كہ اس سلسلہ ميں كيا حكم ہے ؟



الحمد للہ:

" عورت كا اپنے خاوند اور سسرال والوں كى خدمت كرنا ايسا معاملہ ہے جو علاقے اور ملك كے اعتبار سے مختلف ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيوياں اپنے گھروں كى خدمت كيا كرتى تھيں.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ كى بيٹى فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا گھر ميں چكى پيستى اور آٹا گوندھ كر روٹى بھى پكاتى اور گھر كے دوسرے كام بھى كيا كرتى تھيں.

اس ليے عورت كو چاہيے كہ وہ خاوند كى بھى خدمت كرے اور گھر كے كام كاج بھى، اور اگر گھر ميں ساس يا پھر نند يا خاوند كى بيٹياں ہوں اور علاقے ميں ان كى خدمت كرنا عرف ميں شامل ہو تو ان كى خدمت كرنا مشروع ہے.

ليكن اگر علاقے يا خاندان يا پھر قبيلہ ميں خدمت كا رواج نہ ہو يعنى بيوى خدمت نہ كرتى ہو بلكہ اس كے ليے خادمہ ركھى جاتى ہو تو پھر يہ خدمت اس پر لازم نہيں، خاوند كو چاہيے كہ اگر استطاعت ركھتا ہے تو وہ خادمہ ركھے ليكن اگر بيوى خدمت كرنا چاہتى ہو اور بغير كسى جبر اور تنگى كے وہ خود ہى خدمت كرے تو يہ اچھى بات ہے اس سے گھر ميں اس كى محبت اور عزت ميں اضافہ ہوگا.

حاصل يہ ہوا كہ: علاقے اور ملك كے رواج اور عادت و عرف كے اعتبار سے يہ معاملہ مختلف ہوگا، جب مشقت و تكليف ہو تو خاوند كو چاہيے كہ وہ اس ميں كوئى اچھا اور بہتر اسلوب تلاش كرے، اور وہ جھگڑے كے وقت بيوى كو حسب استطاعت مال دے تا كہ وہ خوش ہو كر خدمت كرے اور اس كى بہنوں اور بيٹيوں اور ماں كى خدمت بجا لائے.

حسن كلام اور بہتر اسلوب اور مالى تعاون مشكلات كے خاتمہ اور عرف كى عادت كو بھى تبديل كر ديتا ہے اس طرح وہ گھر كے كام كاج خوشى سے كرنے لگےگى.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

اور اگر وہ اپنى والدہ كو چھوڑ كر اپنے عليحدہ گھر ميں رہ سكتا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر والدہ انكار كرے اور وہ اسے عليحدہ گھر ميں رہنے سے روكے كيونكہ وہ خدمت كى محتاج ہو يا كسى اور سبب كى بنا پر تو پھر نہيں جانا چاہيے.

كيونكہ والدہ كى رضامندى اور اس كى اطاعت اہم ہے، اور گھر ميں اس كے دوسرے بھائى ہو سكتا ہے وہ اس كے قائم مقام نہ بن سكتے ہوں اور وہ والدہ كى خدمت نہ كرتے ہوں، اور اس كى جگہ پر نہ كرتے ہوں.

اس ليے اسے اپنى والدہ كا خيال كرنا چاہيے اور اس سے مشورہ كرے، اگر تو وہ اجازت دے تو پھر عليحدہ اور مستقل گھر ميں رہنے ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن اگر والدہ كو اس بيٹے كى ضرورت ہو، يا پھر كوئى اور سبب اسے عليحدہ گھر ميں رہنے كى اجازت نہ ديتا ہو تو بيٹے كو نہيں جانا چاہيے، بلكہ وہ صبر و تحمل سے كام ليتا ہوا والدہ اور بيوى كے مابين موافقت پيدا كرنے كى كوشش كرے، اور بيوى كو حسب استطاعت تحفہ اور ہديہ اور مال دے كر راضى كرے تا كہ مطلوبہ طريقہ سے معاملات چلتے رہيں، اور نہ تو وہ بيوى كو كھوئے اور نہ ہى والدہ كى ناراضگى مول لے.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى مددگار ہے " انتہى

فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.

ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 3 / 1608 ).

http://islamqa.info/ur/130314
 
Top