• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سانحہ کربلا اور غزوۂ قسطنطنیہ کی امارت کا مسئلہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سانحہ کربلا اور غزوۂ قسطنطنیہ کی امارت کا مسئلہ

عبد الرحمن عزیز الٰہ آبادی​
زیر نظر مضمون میں واقعہ کربلا میں افراط وتفریط کا ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے غزوئہ قسطنطنیہ میں امارت کے مسئلہ پر تحقیقی انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ جس سے تاریخ اسلام کے اہم ترین واقعہ’’کربلا‘‘ کے بارے میں حقیقت پر مبنی بعض پہلوؤں کی نشاندہی کرکے حقیقی صورتحال اورصحیح تاثر اُجاگر کرنا مقصود ہے…وماتوفیقی الا باللہ
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1۔حضرت حسنؓ کی امیرمعاویہؓ سے مصالحت اور بیعت اور کوفیوں کی حضرت حسینؓ کو ورغلانے کی کوشش :
حضرت حسنؓ نے جب اپنے حواریوں سے تنگ آکر حضرت امیرمعاویہؓ سے مصالحت کرکے بیعت خلافت کی تو سبائیوں کو انتہائی ناگوار گزرا، ان کی برابر کوشش یہی تھی کہ صلح نہ ہونے پائے چنانچہ سبائی لیڈر حجر بن عدی نے حضرت حسنؓ سے اس سلسلہ میں گفتگو کی تو حضرت حسنؓ نے اسے بڑی سختی سے ڈانٹا تو اس نے حضرت حسینؓ سے رابطہ کیا تو حضرت حسین نے فرمایا کہ
إنا قد بایعنا وعا ھدنا ولا سبیل إلی نقض بیعتنا (اخبار الطوال، ص ۲۳۴)
’’بلاشبہ ہم نے بیعت کی اور معاہدہ کیا ہے اور اب اس معاہدہ کو توڑنے کا کوئی امکان نہیں‘‘
ڈاکٹر طہٰ حسین نے اپنی تازہ تصنیف میں اس کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ…
’’حضرت حسینؓ اپنے بھائی حضرت حسنؓ سے اتفاق رائے نہ رکھتے تھے بلکہ اس پر لڑائی میں چلنے پر زور دیا تو حضرت حسنؓ نے منع کیا اور ڈرایا کہ اگر میری اطاعت نہ کی تو بیڑیاں پہنا دی جائیں گی۔ ‘‘ (علی وبنوہ، ص۲۰۳)
نیز الإمامۃ والسیاسۃ (ص۱۷۳) کے مؤلف نے لکھا ہے کہ
’’حضرت حسینؓ نے کوفی لیڈر سلیمان بن صرد کو یہ جواب دیا تھا کہ تم میں سے ہر شخص اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھا رہے ،جب تک معاویہ زندہ ہے کیونکہ واللہ میں نے اس کی بالکراہت بیعت کی ہے‘‘ …’’فإن ھلک معاویۃ نظرنا و نظرتم ورأینا ورأیتم‘‘
حضرت حسنؓ کی وفات کی خبر سن کر کوفیوں نے پھر حضرت حسین ؓ کو ورغلانے کی کوشش کی اور جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب نے حضرت حسینؓ کو خط لکھا جس میں مرقوم تھا کہ…
’’فإن کنت تحب أن تطلب ھذا الامر فاقدم علینا فقد وطئنا أنفسنا معک‘‘
’’اگر آپ کو خلافت کی طلب ہے تو ہمارے پاس تشریف لائیے ،ہم نے اپنی جانوں کو آپ کے ساتھ مرنے پر وقف کر دیا ہے‘ ‘ (اخبار الطوال، ص ۲۳۵)
حضرت حسینؓ نے جواباً لکھا کہ
’’تم اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے رہو جب تک معاویہ زندہ ہے کوئی حرکت نہ کرو، جب ان کا وقت آگیا اور میں زندہ رہا تو اپنی رائے سے مطلع کر دوں گا… ایضاً‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔حضرت امیرمعاویہؓ کی وفات اور امیریزید کی تخت نشینی
چنانچہ۲۲ ؍رجب ۴۰ھ کو حضرت امیرمعاویہؓ اپنے مالک ِحقیقی سے جاملے، اور امیریزید تخت نشین ہوا تو والئ مدینہ حضرت ولید بن عقبہ بن ابی سفیان نے حضرت حسینؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے بیعت کا مطالبہ کیا تو انہوں نے مہلت مانگی، جونہی مہلت ملی تو دونوں نے مکہ مکرمہ کا رخ کیا ـ۔رستہ میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے ملاقات ہوئی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے پوچھا :کیا خبر ہے؟ تو حضرت حسینؓ اور ابن زبیرؓ نے کہا کہ ’’موت معاویۃ و بیعۃ یزید‘‘ تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ
’’اتقیا اللہ ولا تفرقا جماعۃ المسلمین‘‘
’’ تم دونوں اللہ سے ڈرو اور جماعت ُالمسلمین میں تفرقہ نہ ڈالو۔ ‘‘ (طبری، ص۶؍۱۹۱)
لیکن حضرت حسینؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ واپس نہ ہوئے اورحضرت ابن عمرؓ مدینہ منورہ چلے گئے اور حضرت ولید بن عقبہ کے پاس جاکر بیعت کی اور تادمِ آخر اسی پر قائم رہے (۱) (طبری ص۱۶۶)
(1)۔امام بخاریؒ نے بیان کیا ہے کہ مدینہ والوں نے جب یزید کی بیعت توڑ دی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی اولاد اور ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور فرمایا: ’’میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، فرماتے تھے کہ قیامت کے روز ہر غدار کے لئے ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا اور ہم نے اللہ و رسولؐ کے حکم کے مطابق یزید کی بیعت کی ہے اور میں اس سے بڑی اور کوئی غداری نہیں سمجھتا کہ ہم اللہ و رسولؐ کے حکم کے مطابق ایک آدمی کی بیعت کریں اور پھر اس سے لڑائی شروع کردیں اور جس آدمی نے بھی یزید کی بیعت کرکے توڑ دی ،اس کا اور میرا فیصلہ ہوگا۔ (بخاری :کتاب الفتن))
یہی مضمون بتغیر الفاظ، تاریخ ابن خلدون، ص ۵؍۷۱ کتاب ِثانی، تاریخ اسلام از صادق حسین، ص۴۰ ج۲، تاریخ بنوامیہ ص۳۶، پر موجود ہے ـ۔طالب تفصیل کو کتب ِمذکورہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے ـ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔اہل کوفہ کے خطوط اور حضرت مسلم ؓبن عقیل کی سوئے کوفہ روانگی
جب اہل کوفہ کو آپ کے مکہ مکرمہ تشریف لانے کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کی خدمت میں قاصد اور خطوط بھیجے کہ نواحی کوفہ لہلہا رہے ہیں ،میوے پختہ ہوچکے ہیں، چشمے چھلک رہے ہیں ،آپ کا جب جی چاہے آئیے آپ کا لشکر یہاں تیار موجودہے (جلاء العیون ص۵؍۴۳۱، طبری ص۲؍۱۷۷، شہید ِانسانیت ص۲۵۱)
اور آخری خطوط کوفہ کے بڑے بڑے سرداروں کی جانب سے تھے جن میں سے،سلیمان بن صرد، شیث بن ابی یزید، عزرہ بن قرن، عمر بن حجاج زیدی، عمر بن تمیمی، حبیب بن نجد، رفاعہ بن شداد اور حبیب بن مظاہر قابل ذکر ہیں۔ (جلاء العیون باب ۵ ؍ص۴۳۰، طبری ۲؍۱۷۷) اور خطوط کی تعداد بارہ ہزار سے متجاوز تھی۔ (ناسخ التواریخ، ۳؍۱۳۱)
حضرت حسینؓ نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر کوفہ جانے کا پروگرام بنا لیا مگر کوفہ کے حالات سے بے خبر تھے، آپ نے اپنے چچا زاد برادر حضرت مسلم بن عقیلؓ کو روانہ کیا تاکہ کوفہ کے حالات بچشم خود ملاحظہ فرما کر مطلع کریں۔ جب مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے تو لوگوں نے حضرت حسینؓ کی مخالفت کے لئے حضرت مسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور قسمیں کھائیں کہ ’’اس کام میں ان کی مدد کی جائے گی یہاں تک کہ اپنی جانوں اور مالوں سے بھی گریز نہیں کریں گے۔‘‘
چنانچہ علامہ ابن کثیر ؒرقم طراز ہیں کہ
’’فبا یعوہ علی أمر الحسین وحلفوا لینصرنہ بأنفسھم و أموالھم‘‘
چنانچہ انہوں نے حضرت حسین کی امارت کی بیعت کی اور قسمیںکھائیں کہ وہ لازماً اپنی جانوں اور مالوں سے ان کی مدد کریں گیـ۔‘‘ (البدایہ والنھایہ ص۱۵۲ ؍جلد ۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔حضرت مسلم بن عقیل کا خط
حضرت مسلم بن عقیل نے حضرت حسین ؓ کو لکھا کہ
’’قد بایعنی من أھل الکوفۃ ثمانیۃ عشر ألفا فعجّل الإقبال حین یأتیک کتابی فان الناس کلھم معک ولیس لھم من آل معاویۃ رأی فلا ھوی‘‘
’’اہل کوفہ سے اٹھارہ ہزار اشخاص نے میرے ہاتھ پربیعت کر لی ہے لہٰذا جب میرا خط آپ کے پاس پہنچے تو جلدی آنے کی کوشش کیجئے کیونکہ اہل کوفہ کو آلِ معاویہ کے ساتھ کوئی سروکار نہیں۔‘‘ (طبری ص۲۲۱، ج۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
5۔اہل کوفہ کی بغاوت اور گورنر ِکوفہ حضرت نعمان بن بشیرؓ کی تقریر
جب گورنر ِکوفہ حضرت نعمان بن بشیرؓ کو اہل کوفہ کی ان سرگرمیوں کا علم ہوا تو اس نے لوگوں کو اختلاف و فساد سے باز رکھنے کے لئے پرجوش تقریر کی ،فرمایا ’’کہ لوگو !فتنہ و فساد سے بچو، اتفاق و اتحاد اور سنت کی پیروی کرو، جو مجھ سے نہ لڑے ،میں اس سے نہیں لڑوں گا لیکن …
’’واللہ الذی لا إلہ الا ھو لئن فارقتم إمامکم و نکثتم بیعتہ لأقاتلنکم مادام فی یدي سیفی قائمۃ‘‘ (البدایہ و النھایہ، ص۱۵۲ ج۸)
’’اور اللہ کی قسم جسکے سوا کوئی معبود نہیں، اگر تم نے اپنے امام سے بغاوت کی اور اس کی بیعت توڑ ڈالی تو میں تم سے تب تک جنگ کروں گا جب تک میرے ہاتھ میں میری تلوار موجود ہے‘‘
مگر حضرت نعمان بن بشیرؓ حالات پر قابو نہ پاسکے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
6۔نئے گورنر کا تقرر
ان حالات کا جب یزید کو علم ہوا تو اس نے عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کے حالات درست کرنے کے لئے بصرہ کے ساتھ کوفہ کی گورنری بھی سونپ دی ، اس نے عہد ے کا چارج لیتے ہی کوفہ کی جامع مسجدمیں تقریر کی:
حمدو صلوٰۃ کے بعد امیرالمو ٔمنین یزید (اللہ تعالیٰ ان کی بہتری کرے) نے تمہارے شہر اور سرحدی حدود کا مجھے والی مقرر کیا ہے۔ وأمرنی بانصاف مظلومکم واعطاء محرومکم وبالاحسان إلی سامعکم و مطیعکم و بالشدۃ علی مرمیکم وعاصیکم، وأنا متبع فیکم أمرہ و منفذ فیکم عھدہ فأنا لمحسنکم ومطیعکم کالوالد البر وسوطي و سیفي علی من ترک أمری وخالف عھدي فلیتق امرأ علی نفسہ… الخ ‘‘
’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے مظلوموں سے انصاف کروں اور محروموں کو عطا کروں، جو شخص بات سنے اور اطاعت کرے، ان پر احسان کروں اور جو دھوکہ باز، نافرمان ہو ،اس پر تشدد کروںـ۔تم لوگوں کے معاملہ میں، میں اُن کے فرمان کو نافذ کروں گا، تم میں سے جو اچھے کردار کا ،مطیع وفرماں بردار ہے میں اس کے ساتھ مہربان باپ کی طرح پیش آئوں گا، اور جو میرا کہا نہ مانے اور میرے فرمان کی بجا آوری نہیں کرے گا، اس کے لئے میرا تازیانہ اور میری تلوار موجود ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ اپنی جان کی خیر منائے ،بات چیت سچی ہو کر سامنے آئے تو پتہ چلتا ہے محض دھمکی سے کچھ نہیں ہوتا‘‘ (طبری۶؍۲۰۱)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
7۔حضرت مسلم ؓ کا قصر اِمارت پر حملہ
اس کے بعد ابن زیاد نے مسلم بن عقیل کے میزبان ہانی بن عروہ کو گرفتار کر لیا تو حضرت مسلم نے ہانی کو قید سے چھڑانے اور ابن زیاد کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنے بیعت کنندگان کو جمع کیا اور فوجی قاعدہ کے مطابق ترتیب دیا چنانچہ چالیس ہزار کا لشکر قصر امارت کی طرف بڑھا اور قصر شاہی کا محاصرہ کیا۔ ابن زیاد گورنر ِکوفہ، بمعہ رفقاء ِمجلس، ممتاز اہل کوفہ اور پولیس اہلکار (جن کی تعداد دو صد کے قریب تھی) محصور ہوگئے۔ (اخبار الطوال ،ص۳۵۲)
انہی راویوں کا بیان ہے کہ ابن زیاد کی فرمائش پر اَشراف ِاہل کوفہ نے (جو قصر شاہی میں موجود تھے) اپنے ساتھیوں کو (جو حضرت مسلم کے لشکر میں شامل ہو کر قصر امارت کا اِحاطہ کئے ہوئے تھے) فتنہ و فساد کے نتائج بد سے ڈرایا اور کہا:اے کوفہ والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور فتنہ و فساد کو نہ بھڑکائو، اور اُمت کے اتحاد و اتفا ق کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کرو، اور اپنی جانوں پر شام کی فوج کو حملہ آور ہونے کے لئے مت آنے دو ،جس کا ذائقہ تم چکھ چکے ہو۔ (اخبار الطوال ،ص۳۵۲)
اس تقریر کا یہ اثر ہوا کہ جو لوگ قصر امارت کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، انہی کے قریبی رشتہ دار اور دوست و احباب آ آ کر اُن کو ہٹانے اور واپس لے جانے لگے، ’’حتی تجیئ المرأۃ إلی ابنھا و زوجھا و أخیھا فتعلق حتی یرجع‘‘ (حوالہ مذکور)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
8۔حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت اور وصیت
الغرض چالیس ہزار کی فوجی جمعیت چند ساعتوں میں ایسی منتشر ہوئی کہ حضرت مسلم اکیلے رہ گئے اور ایک عورت کے گھر پناہ لی ۔مخبری ہونے پر جب پولیس گرفتار کرنے کے لئے گئی تو حضرت مسلم بن عقیل تلوار سونت کر میدان میں آگئے ،بالآخر گرفتار کئے گئے، گورنر ِکوفہ اور رفقاء ِگورنر پر تلوار چلانے، قصر امارت پر لشکر کشی کرنے اور پولیس پر شمشیر زنی کرنے کی پاداش میں قتل کئے گئے… انا للہ وانا الیہ راجعون
قتل کئے جانے سے قبل انہوں نے حضرت عمر بن سعد بن ابی وقاص ؓکو بوجہ ِقرابت وصیت کی کہ
1۔ایک ہزار دینار مجھ پر قرض ہے، ادا کرنا،
2۔میری لاش کی تدفین کرنا،
3۔حضرت حسینؓ کو قاصد بھیج کر تمام حالات سے مطلع کرنا اور کہلوا دینا کہ یہاں آنے کا قصد نہ کریں کیونکہ اہل کوفہ بڑے غدار ہیں ۔ (اخبار الطوال ،ص۳۵۴)
عمر بن سعد نے حضرت مسلم بن عقیل ؓکی وصیتوں کی پوری پوری تعمیل کی ،چنانچہ علامہ ابن کثیر رقم فرماتے ہیں کہ عبید اللہ بن زیاد نے حضرت حسینؓ کو حضرت مسلم کا پیغام پہنچانے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں کی بلکہ عمربن سعد کو مکمل اجازت دے دی۔ (البدایہ والنھایہ ،ص۱۵۷ ؍جلد۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
9۔حضرت حسینؓ کی بجانب ِکوفہ تیاری
جب حضرت حسینؓ کو حضرت مسلم بن عقیل کا خط ملا تو آپؓ نے کوفہ کے لئے تیاری شروع کردی جب آپ کے ہمدردوں، بزرگوں، عزیزوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ حضرت حسین ؓکوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس کے نتیجہ میں بجائے اتحاد ِاُمت کے امت میں تفرقہ پڑے بعض ثقہ مورخین نے ان کی نصیحتوں کے فقرات بھی نقل کئے ہیں… ملاحظہ فرمائیں:
٭ حضرت ابو سعید الخدریؓ :
’’غلبنی الحسین علی الخروج وقلت لہ: اتق اللہ فی نفسک والزم بیتک ولا تخرج علی إمامک‘‘ (البدایہ والنھایہ ص۱۶۳، جلد۸)
’’مجھے حضرت حسین نے اصرار کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ نکلوں، جب کہ میں نے انہیں کہا کہ اللہ سے اپنے بارے میں ڈرئیے ، اپنے گھر میں ہی ٹھہرئیے اور اپنے امام کے خلاف نہ نکلیں‘‘
٭ حضرت ابوواقدلیثی ؓ:
’’فناشدتہ اللہ أن لایخرج فإنہ یخرج في غیر وجہ خروج إنما خرج یقتل نفسہ‘‘ (حوالہ مذکور)
’’میں نے انہیں اللہ کی قسم دے کر کہا کہ آپ خروج نہ کریں ، اس لئے کہ جو بغیر وجہ کے خروج کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کوقتل کرتا ہے‘‘
٭ حضرت جابر بن عبداللہؓ:
’’کلّمت حُسینا فقلت لہ اتق اللہ ولا تضرب الناس بعضَھم ببعض‘‘
’’میں نے حسین ؓ سے کہا : اللہ سے ڈریں اور لوگوں کو آپس میں نہ لڑائیں‘‘(حوالہ مذکور)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ:
’’قسم ہے اس وحدہ لاشریک کی کہ اگر میں سمجھتا کہ تمہارے بال اور گردن پکڑ کر روک لوں۔کہ تم میرا کہنا مان جائو گے تو میں ایسا ہی کرتا‘‘ (طبری ۶؍۲۱۷)
تو حضرت حسینؓ نے جواب دیا کہ
’’إنک شیخ قد کبرت‘‘ ’’آپ سٹھیا گئے ہیں‘‘ (البدایہ والنھایہ ۸؍۱۶۴)
لیکن حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو اُمت کے مفاد، بھتیجے کی محبت، اُن کی اور ان کے اہل و عیال کی سلامتی کا خیال پریشان کئے ہوئے تھا، مجبوراً کہا :اے میرے بھیتجے!
’’فإن کنت سائرا فلا تسر بأولادک ونسائک فو اللہ إنی لخائف أن تقتل کما قتل عثمان ونساء ہ وولدہ ینظرون إلیہ‘‘ (البدایہ والنھایہ ص۸؍۱۶۰، طبری ص۶؍۲۱۷)
’’اگر آپ کوضرور ہی جانا ہے تو اپنی خواتین اور بچو ں کو ہمراہ نہ لے جائیے، بخدا میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ آپ کو اس طرح شہید کردیا جائے جس طرح حضرت عثمان ؓکو شہید کیا گیااور آپ کی عورتیں اور بچے آپ کو دیکھ رہے تھے‘‘
ان سب سے بڑھ کر حضرت حسینؓ کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن جعفرؓ نے متعدد بار روکا جب حضرت حسینؓ نہ رکے تو اس نے حضرت حسینؓ کی ہمشیرہ زینب کو طلاق دے دی اور اپنا اکلوتا بیٹا علی الزنیبی ان سے چھین لیا لیکن حضرت حسینؓ، عزیز و اَقارب، اَجلہ صحابہؓ اور دیگر ہمدردوں کے پندو نصائح، ہمشیرہ کی طلاق اور دیگر امور کے باوجود بھی اپنے موقف پرڈٹے رہے اور عازمِ کوفہ ہوئے۔
 
Top