• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سانحہ کربلا اور یزید و حسین شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی نظر میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
لیکن یہ واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ نے خلافت کا دعوی یزید کی زندگی میں نہیں کیا بلکہ اس کے مرنے کے بعد کیا
صحت ؟ اور حوالہ؟
مگر چونکہ اس نے یہ شرط لگا دی تھی کہ قید ہوکر ان کے حضور میں حاضر ہوں اس لیے بیعت رہ گئی اور باہم جنگ برپا ہوئی
صحت اور حوالہ؟
یہ "خلفاء معصوم نہ تھے: رہا یہ مسئلہ کہ یزید ، عبدالملک، منصور وغیرہ خلفاء نیک تھے یا بد؟ صالح تھے یا فاجر؟ تو علماء اہل سنت نہ انہیں معصوم سمجھتے ہیں نہ ان کے تمام احکام و اعمال کو عدل و انصاف قرار دیتے ہیں اور نہ ہر بات میں ان کی اطاعت واجب تصور کرتے ہیں۔البتہ اہل سنت والجماعت کا یہ خیال ضرور ہے کہ عبادت و طاعت کے بہت سے کام ایسے ہیں جن میں ہمیں ان کی ضرورت ہے ۔ مثلاً یہ کہ ان کے پیچھے جمعہ وعیدین کی نمازیں قائم کی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ کفار پر جہاد کیا جاتا ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور حدود شرعیہ کے قیام میں ان سے مدد ملتی ہے نیز اسی نوع کے دوسرے معاملات ہیں، اگر حکام نہ ہوں تو ان اعمال کا ضائع ہوجانا اغلب ہے بلکہ ان میں سے بعض کا موجود ہونا ہی غیر ممکن ہے۔
بہت خوب الحمدللہ
اسی طرح اور اخیار وابرار بھی خلفاء پر خروج اور عہد فتنہ میں جنگ سے منع کیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر، سعید بن المسیب، حضرت زین العابدین، علی بن حسین وغیرہم اکابر صحابہ وتابعین جنگ حرہ کے زمانے میں یزید کے خلاف بغاوت کرنے سے روکتے تھے
منع ضرور کیا کرتے تھے لیکن یہ وجہ درست نہیں ہے وہ دل سے ان کی خلافت پر راضی تھے وگرنہ اس موقف پر کوئی دلیل پیش کی جایے کہ وہ فتنے سے بچنے کے لیے خاموش تھے
احادیث صحیحہ بھی اسی مسلک کی مؤید ہیں اسی لیے اہل سنت کے نزدیک یہ تقریباً متفق علیہ مسئلہ ہے کہ عہدفتن میں قتال وجدال سے اجتناب اور جور ائمہ پر صبر کیا جائے، وہ یہ مسئلہ اپنے عقائد میں بھی ذکر کرتے رہے ہیں اور جو شخص متعلقہ احادیث اور اہل سنت کے صاحب بصیرت علماء کے طرز عمل وفکر میں تامل کرے گا اس پر اس مسلک کی صحت و صداقت بالکل واضح ہوجائے گی۔
یہ موقف بالکل ٹھیک ہے جزاکم اللہ خیرا
یزید اور اس جیسے دوسرے سلاطین و خلفاء کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فاسق تھے۔
جتنے بھی شواہد پیش کیے جاتے ہیں ان کی صحت محل نظر ہے
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
محترم فیض بھائی
یہ پوسٹ شیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی کتاب رسومات محرم اور سانحہ کربلا سے لی گئی ہے. اور اس میں حوالے نہی تھے
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب،
امام مسلم نے عباد بن العوم کی سند سے حصین سے اپنی مسلم میں ایک ہی روایت بیان کی ہے اور اس کی تائید میں حصیں سے دوسری سند سے اسی روایت کو پیش کیا ہے
اور اپنےمقدمہ میں نقل کیا ہے کہ میں دوسرے درجہ کی روایت اس راوی سے کرتا ہوں جس کے حافظہ میں تغیر ہوتا ہے اور اس سے یہی بات ثابت ہے کہ امام مسلم نے حصین سے عباد بن العوم سے تغیر مانا ہے اور تغیر بھی معمولی نہیں ہے کیونکہ اگر یہ تغیر معمولی ہوتا تو امام مسلم اس کی تائید میں دوسری روایت پیش نہ کرتے۔
اور دوسری بات کہ بھائی حسین رضی اللہ عنہ کو پہلے سے احادیث معلوم تھی کہ انہوں نے کربلا میں شہید ہونا ہے اور ان کے والد ان کو صبر کی تلقین کر چکے اس کے بعد وہ اس ظلم کی حکومت کے خلاف میدان چھوڑ جائیں گے اس وقت کا روئے زمین پر افضل ترین مومن میدان چھوڑ دے نعوذباللہ یہ کمزور روایات ان کے شان کے خلاف ہے ان کو دیواروں پر دے مارو۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
صحت ؟ اور حوالہ؟

صحت اور حوالہ؟

بہت خوب الحمدللہ

منع ضرور کیا کرتے تھے لیکن یہ وجہ درست نہیں ہے وہ دل سے ان کی خلافت پر راضی تھے وگرنہ اس موقف پر کوئی دلیل پیش کی جایے کہ وہ فتنے سے بچنے کے لیے خاموش تھے

یہ موقف بالکل ٹھیک ہے جزاکم اللہ خیرا

جتنے بھی شواہد پیش کیے جاتے ہیں ان کی صحت محل نظر ہے
جناب
یزید فاسق ہے یہ ایسا ہی نہیں لکھا ہےاپ کو اس پر شواہد چاہیئے
جتنے بھی شواہد پیش کیے جاتے ہیں ان کی صحت محل نظر ہے
اس کے لیے تاریخ کی ضرورت نہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیس سال خلافت ہے اس کے بعد ملک ہے اور دوسری حدیث میں فرمایا ہے کہ ملک عضوض ہے تو یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ظالم بادشاہت ہے اس سے ذیادہ اور کیا دلیل ہو گی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جناب
یزید فاسق ہے یہ ایسا ہی نہیں لکھا ہےاپ کو اس پر شواہد چاہیئے
جتنے بھی شواہد پیش کیے جاتے ہیں ان کی صحت محل نظر ہے
اس کے لیے تاریخ کی ضرورت نہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیس سال خلافت ہے اس کے بعد ملک ہے اور دوسری حدیث میں فرمایا ہے کہ ملک عضوض ہے تو یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ظالم بادشاہت ہے اس سے ذیادہ اور کیا دلیل ہو گی۔
میرا خیال ہے سید طہ صاحب کو کچھ عرض کرنے دیں ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
محترم فیض بھائی
یہ پوسٹ شیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی کتاب رسومات محرم اور سانحہ کربلا سے لی گئی ہے. اور اس میں حوالے نہی تھے
جزاکم اللہ خیرا سید صاحب وہ کتاب میرے پاس موجود ہے اور یہ ساری باتیں میں جانتا ہوں صرف ریکارڈ میں لانے کے لیے چند سوالیہ نشانات درج کیے تھے وگرنہ اعتراض مقصود نہ تھا اس لیے کہ اگر میرا موقف یزید رحمہ اللہ کہنے کا ہے تو کوئی اسے کسی دوسرے لقب سے یاد کرنے کا موقف اختیار کرنے کا حقدار ہے
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
حضرت حسین الله عنہ کی شہادت کی پیشنگوئی سے متعلق تمام روایات ضعیف و موضو ع ہیں - بخاری میں ایسی کوئی ایک روایت بھی نہیں - البتہ مسند احمد ، تاریخ دمشق وغیرہ میں ایس روایات موجود ہیں جو نا قابل ا عتبار ہیں -

مسند احمد کی مشہور روایت ہے
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی ۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، یہ کیا ہے ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کررہا ہوں-

اسکی سند کا راوی عمار بن أبي عمار مولى بني هاشم مختلف فیہ ہے -بخاری اس سے کوئی حدیث نہیں لیتے- ابن حبان مشاہیر میں کہتے ہیں- وكان يهم في الشئ بعد الشئ
اسکو بات بے بات وہم ہوتا ہے- ابو داود کہتے ہیں شعبہ نے اس سے روایت لی لیکن کہا- وكان لا يصحح لي-میرے نزدیک یہ (اس کی روایت) صحیح نہیں- یحیی بن سعید کہتے ہیں شعبہ نے صرف ایک روایت اس سے لی-وغیرہ

-

تاریخ دمشق کی روایت ہے-
شہر بن حوشب کہتا ہے کہ ام سلمة رضی الله عنہا نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور حسین ان کے ساتھ تھے پس وہ روئے…جبریل نے بتایا کہ اپ کی امت اس بچے کو قتل کرے گی اور اپ چاہیں تو میں وہ مٹی بھی دکھا دوں جس پر قتل ہونگے پس اپ صلی الله علیہ وسلم کو زمین دکھائی اور اپ نے اس کو كربلا کہا

ان دونوں روایات میں کی سند میں شہر بن حوشب ہے- النَّسَائِيُّ اپنی کتاب الضعفاء والمتروكون میں کہتے ہیں : لَيْسَ بِالقَوِيِّ، قوی نہیں . ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، وَلاَ يُتَدَيَّنُ بِحَدِيْثِهِ اس کی حدیث ناقابل دلیل ہے.- أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ کہتے ہیں: وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ، اس کی حدیث نا قابل دلیل ہے .

مزید یہ کہ مذکورہ روایت میں حسین رضی الله عنہ کی شہادت کی جگہ کو "کربلا" کہا گیا ہے جب کہ ابن جریر طبری رحم الله نے تاریخ طبری (جلد ٥) میں لکھا ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کو صفر کے مہینے میں نینوا (بابل) کے مقام پر کوفیوں نے قتل کیا تھا- لہذا اس روایت میں تضاد ہے-

یہ بنو امیہ پر تبرّا اور امیر یزید بن معاویہ رحم الله کو بدنام کرنے کے لئے ہیں -عجیب بات ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کو خواب میں سب کچھ دیکھا دیا گیا کہ ان کے نواسے کو کب اور کہاں شہید کیا جائے گا لیکن اس شخص کو خواب میں نہیں دکھایا گیا جو ان کے قتل کا موجب بنے گا (یعنی یزید بن معاویہ)- ؟؟
جناب،
اس لیے کہاوت مشہور ہے پہلے تول پھر بول البانی صاحب نے سلسلہ احادیث صحیحہ میں شہادت حسین رضی اللہ کی روایات کو صحیح کہا ہے پڑھ لیں
أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا (يعني
الحسين) ، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء ".
سلسلہ احادیث صحیحہ رقم 821
دوسری روایت

لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين
مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها "(رقم 822)
قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات (رقم 1171)
ان کو غور سے پڑھ لیں یہ البانی صاحب نے نقل کی ہیں اب ان کو بھی ضعیف کر دینا جہوں نے دین برباد کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت برباد کر دی ان کا دفاع کرو ۔اللہ سب کو ہدایت دے
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
اور اپنےمقدمہ میں نقل کیا ہے کہ میں دوسرے درجہ کی روایت اس راوی سے کرتا ہوں جس کے حافظہ میں تغیر ہوتا ہے۔
سب سے پہلے آپ خودہی اس بارے میں امام مسلم کے الفاظ نقل کردیں۔
اس بعد آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ کس غلط فہمی کے شکار ہیں۔

اورہاں آپ نے اب تک اپنے دعوی کی تائید میں کسی امام کا قول پیش نہیں کیا ہے۔
بلکہ خوداپنا قول پیش کیا جو بے دلیل اور کسی لائق نہیں ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جناب،
اس لیے کہاوت مشہور ہے پہلے تول پھر بول البانی صاحب نے سلسلہ احادیث صحیحہ میں شہادت حسین رضی اللہ کی روایات کو صحیح کہا ہے پڑھ لیں
أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا (يعني
الحسين) ، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء ".
سلسلہ احادیث صحیحہ رقم 821
دوسری روایت

لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين
مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها "(رقم 822)
قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات (رقم 1171)
ان کو غور سے پڑھ لیں یہ البانی صاحب نے نقل کی ہیں اب ان کو بھی ضعیف کر دینا جہوں نے دین برباد کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت برباد کر دی ان کا دفاع کرو ۔اللہ سب کو ہدایت دے
محترم -

میری پوسٹ میں حضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت سے متعلق پیشنگیوں والی روایت کی تخریج پڑھے بغیر ہی آپ نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے البانی رحم الله کی مثال پیش کردی کہ انہوں نے اس روایت کو صحیح کہا تو آپ نے مان لیا - اہل حدیث کے منہج کے مطابق ضروری نہیں کہہ البانی رحم الله کی ہر روایت کی تحقیق صحیح ہو -انہوں نے کی مقامات پر غلطیاں کی ہیں جن کا علماء اہل حدیث نے مناقشہ کیا ہے -

مزید یہ کہ :

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

یہ قول ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضي اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) یہ صحیح کتابوں میں تو نہیں لیکن علماء نے اسے بیان کیا اوراس کی تصحیح میں اختلاف کیا ہے ۔ امام بخاری اور ابراھیم حربی محدثین کے ایک گروہ سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے اس قول میں طعن کیا ہے ۔۔۔ لیکن اس کے بعد والا قول ( اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ ) آخرتک ، تویہ بلاشبہ کذب افتراء ہے ۔
دیکھیں منھاج السنۃ ( 7 / 319 ) ۔

شیخ الاسلام نے ان زيادات اور ان کے ضعیف ہونے کا ذکر منھاج السنۃ میں دس مقامات پر کیا ہے ۔

جب کہ دوسری طرف علامہ البانی رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 1750 ) میں اس کی تصحیح کرنے کے بعد اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا مناقشہ کیا ہے ۔

اب آپ بتائیں آپ کس کی بات مانیں گے ؟؟؟ امام ابن تیمیہ رحم الله کی جو اس روایت (من کنت مولا فعلی مولا) کو ضعیف کہہ رہے ہیں یا پھر علامہ البانی رحمہ اللہ کی بات کو مانیں گے جو اس روایت کو السلسلۃ الصحیحۃ میں شمار کررہے ہیں ؟؟-

الله سب کو ہدایت دے (آمین)-
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
میں نے پوچھا تھا:




اورآپ کا جواب یہ آیا:


آپ میرے سوال کا جواب دیں۔

امام مسلم ، حافظ ابن حجر ، تحریر کے مصنفین کے بارے میں آپ نے جو کچھ کہا ہے اس پر نظر ثانی کرلیں ۔
اورامام مسلم یا امام بخاری رحمھما اللہ نے اگر کسی متغرالحفظ راوی کی روایت اس کے کسی شاگرد سے نہیں لی ہے تو کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے اس شاگرد کا سماع تغیر کے بعد ہے؟
یہ اصول کس نے بیان کیاہے؟
اوراگر یہ اصول آپ صحیح سمجھتے ہیں تو کیا آپ یہ اعلان کریں گے کہ صحیحین کےجس مختلط یا متغر الحفظ سے کوئی ایسا راوی روایت کریں جس کی اس مختلط یا متغیر الحفظ سے روایت صحیحین میں نہ ہو تو اس کا سماع تغیر اور اختلاط کے بعد کا ہے؟

بہرحال آپ اس سوال کا جواب دیں کہ :
کس امام نے یہ بات کہی ہے عباد نے حصین سے تغیر کے بعد روایت کیا ہے؟
اورکیا حصین کو ایسا تغیر لاحق ہوا تھاجس سے بعد تغیر ان کی روایات ضعیف شمارکی جاتی تھیں؟ اس کی بھی وضاحت مع دلیل فرمائیں؟
بالکل امام مسلم اپنے مقدمہ میں یہی لکھا ہے کہ میں دوسرے درجے میں روایت اسی سے لیتا ہو جس کے حافظہ میں خرابی ہو اور عباد بن العوم کے طریق سے انہوں نے ایک ہی روایت لی ہے اور اس کی تائید میں دوسری روایت پیش کی ہےتاکہ اس کو تقویت ملے اگر وہ عباد بن العوم سے حصین کی روایت صحیح یا حسن مانتے تو تائید کے لئے دوسری روایت نہ پیش کرتے۔ اور میں پہلے بھی لکھ چکا جس کو پچپن سے معلوم ہو کہ وہ اس جگہ شہید ہوگا اس کے والد کو معلوم ہو میرا بیٹا شہید ہوگا ایک عام مومن پیٹھ دیکھانے کی بات نہیں کرتا تو اس کے افضل ترین شخص کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ وہ واپس جانے کی یا ظلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیں یہ سب حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم شہادت کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top