• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سانحہ کربلا اور یزید و حسین شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی نظر میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جزاک اللہ خیرا بهائی
انتهائی مفید مشورہ دیا ہے ۔
اللہ آپ سے خوش رهے
جزاک الله - شکریہ بھائی آپ کی عزت افزائی کا-

شاید کہ ان (عبد الله صاحب) کے دل میں اتر جائے ہماری بات -
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
حضرت حسین الله عنہ کی شہادت کی پیشنگوئی سے متعلق تمام روایات ضعیف و موضو ع ہیں - بخاری میں ایسی کوئی ایک روایت بھی نہیں - البتہ مسند احمد ، تاریخ دمشق وغیرہ میں ایس روایات موجود ہیں جو نا قابل ا عتبار ہیں -

مسند احمد کی مشہور روایت ہے
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی ۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، یہ کیا ہے ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کررہا ہوں-

اسکی سند کا راوی عمار بن أبي عمار مولى بني هاشم مختلف فیہ ہے -بخاری اس سے کوئی حدیث نہیں لیتے- ابن حبان مشاہیر میں کہتے ہیں- وكان يهم في الشئ بعد الشئ
اسکو بات بے بات وہم ہوتا ہے- ابو داود کہتے ہیں شعبہ نے اس سے روایت لی لیکن کہا- وكان لا يصحح لي-میرے نزدیک یہ (اس کی روایت) صحیح نہیں- یحیی بن سعید کہتے ہیں شعبہ نے صرف ایک روایت اس سے لی-وغیرہ


-
تاریخ دمشق کی روایت ہے-
شہر بن حوشب کہتا ہے کہ ام سلمة رضی الله عنہا نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور حسین ان کے ساتھ تھے پس وہ روئے…جبریل نے بتایا کہ اپ کی امت اس بچے کو قتل کرے گی اور اپ چاہیں تو میں وہ مٹی بھی دکھا دوں جس پر قتل ہونگے پس اپ صلی الله علیہ وسلم کو زمین دکھائی اور اپ نے اس کو كربلا کہا

ان دونوں روایات میں کی سند میں شہر بن حوشب ہے- النَّسَائِيُّ اپنی کتاب الضعفاء والمتروكون میں کہتے ہیں : لَيْسَ بِالقَوِيِّ، قوی نہیں . ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، وَلاَ يُتَدَيَّنُ بِحَدِيْثِهِ اس کی حدیث ناقابل دلیل ہے.- أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ کہتے ہیں: وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ، اس کی حدیث نا قابل دلیل ہے .

مزید یہ کہ مذکورہ روایت میں حسین رضی الله عنہ کی شہادت کی جگہ کو "کربلا" کہا گیا ہے جب کہ ابن جریر طبری رحم الله نے تاریخ طبری (جلد ٥) میں لکھا ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کو صفر کے مہینے میں نینوا (بابل) کے مقام پر کوفیوں نے قتل کیا تھا- لہذا اس روایت میں تضاد ہے-

یہ بنو امیہ پر تبرّا اور امیر یزید بن معاویہ رحم الله کو بدنام کرنے کے لئے ہیں -عجیب بات ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کو خواب میں سب کچھ دیکھا دیا گیا کہ ان کے نواسے کو کب اور کہاں شہید کیا جائے گا لیکن اس شخص کو خواب میں نہیں دکھایا گیا جو ان کے قتل کا موجب بنے گا (یعنی یزید بن معاویہ)- ؟؟
جناب اپ نے جو حدیث پیش کر اس کو ضعیف کہا ہے میں نے تو ان میں سے ایک حدیث بھی نہیں پیش کی ہے میں نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ یہ ہیں۔

أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا (يعني
الحسين) ، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء ".
سلسلہ احادیث صحیحہ رقم 821
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ بتایا کہ جبریل علیہ السلام نے ان کو خبر دی کہ اپ کے اس بیٹے کو شہید کردیا جائے گا۔
لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين

مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها "(رقم 822)
قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات
ان میں شھادت کی خبر ہے کہ دریا فرات کے کنارے شہید ہوں گے۔
اپ نے جس روایت کو ضعیف کہا ہے وہ تو اس میں ہے ہی نہیں پھر اپ کیسے فرما رہے ہیں
اب ذرا اپ کی پیش کردہ روایت پر بھی بات کرتے ہیں
اپ نےاس کے جس راوی پر کلام کیا ہے اس کے بارے میں محدثین کی آراء پیش کرتا ہوں۔

النسائي في "التمييز": ليس به بأس
وقال أحمد:ثقة ثقة.
وقال أبو داود: ثقة.
وقال أبو زرعة وأبو حاتم: ثقة لا بأس به
حافظ ابن حجر نے اس کو صدوق ربما اخط لکھا ہے۔
اور صدوق کی روایت کم از کم حسن ہوتی ہے
اپ نے جو جرح پیش کی ہے وہ اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر جمہور نے اس کی توثیق کی ہے اس لئے اگر امام بخاری وغیرہ کی جرح مان بھی لی جائے تو یہ روایت حسن ہوتی ہے اس لیے شیخ شعیب نے اس کی روایت کو قوی اسناد کہا ہے وہ بھی مسلم کی شرط پر اور اسی طرح شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی اس کو صحیح کہا ہے تو جمہور کی توثیق اور محدثین کی توثیق کے بعد یہ روایت کم از کم حسن ضرور ہے اس لئے اپ کی یہ تخریج جمہور محدثین کے اصول پر خارج کی جاتی ہے۔

اور اخری بات
قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات
اس حدیث کو احمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی رقم 648 مسند احمد کی تخریج میں صحیح کہا ہے۔
قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات
حسین رضی اللہ عنہ کو دریائے فرات کے کنارے شہید کر دیا جائے گا۔
اللہ سب کو ہدایت دے
[FONT=&quot][/FONT]
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
ابن تیمیہ رحم الله کے پاس اس وقت جو روایات موجود تھیں انہوں نے اس کے مطابق ہی اپنا موقف اختیار کیا - یزید بن معاویہ رحم الله کے فاسق ہونے یا نہ ہونے سے متعلق کچھ آئمہ و محدثین نے سکوت اختیار کیا ہے - تو آپ بھی یہی موقف کیوں نہیں اختیار کرلیتے ؟؟ -کیوں ان کو فاسق و فاجر قرار دینے پر تلے ہوے ہیں ؟؟

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ سوره البقرہ ١٤١
یہ ایک امّت تھی جو گزر چکی- ان کے لیے ان کے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے گا -
جناب،
وہ کون سے آئمہ ہے ذرا پیش تو کریں صرف اپ کے کہنے سے مان لیا جائے گا قرآن کہتا ہے
اپنے بات میں سچے ہو تو دلیل لاؤ۔ تو قرآن کی مان کر ہی دلیل پیش کردیں ایک بھی نہیں ملے گا۔ جو اپ کے ناصبی زہن کی ترجمانی کرتا ہو۔
اور اپ نے جو آیت لکھی ہے
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اس کا سیاق وسباق پڑھیں اس میں بنی اسرائیل کو یہ بتایا جارہا ہے اس گمان میں نہ رہیں کہ اپ کے جد امجد ابراہیم علیہ السلام ہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اپ کی بھی بخشش ہو جائے گی سمجے اس لیے یہاں آیت میں
مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ
یعنی جو نیکیاں تم کرو گے وہ تمہارے لیے اور جو نیکیاں انہوں نے کی وہ ان کے لیے ہے ان کی نیکیاں تم کو کوئی فائدہ نہیں دے گی اس لیے
كَسَبَتْ وَلَكُمْ آیا ہے اگر برائی یا گناہ کی بات ہوتی تو کسبت علی تمہاری اوپر ہو گا جو تم نے کمایا۔
تو اس سے نیکیاں مراد ہے اور ظالموں پر تو اللہ نے خود لعنت فرمائی ہے اور امام ابن تیمیہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ ہم مجموعی طور پر لعنت کر دیتے ہیں خاص نام لے کر نہیں کرتے ہیں۔(فتاوی ابن تیمیہ)
اللہ ہدایت دے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جس نے جو بهی لکها ہو
ہمارا کہنا ہے :
فیصلہ ان کے درمیان اللہ کریگا ۔ وہاں ہم تو هونگے ہی ۔ تم بهی ہوگے ۔ دیکهیں گے بهی سنیں گے بهی ۔ تا وقتیکہ وہ دن نہیں آجاتا انتظار کرو ۔ خاموشی سے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح المنتظر کی آمد کا انتظار کر رہے ہو ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جناب اپ نے جو حدیث پیش کر اس کو ضعیف کہا ہے میں نے تو ان میں سے ایک حدیث بھی نہیں پیش کی ہے میں نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ یہ ہیں۔

أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا (يعني
الحسين) ، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء ".
سلسلہ احادیث صحیحہ رقم 821
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ بتایا کہ جبریل علیہ السلام نے ان کو خبر دی کہ اپ کے اس بیٹے کو شہید کردیا جائے گا۔
لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين
مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها "(رقم 822)
قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات
ان میں شھادت کی خبر ہے کہ دریا فرات کے کنارے شہید ہوں گے۔
اپ نے جس روایت کو ضعیف کہا ہے وہ تو اس میں ہے ہی نہیں پھر اپ کیسے فرما رہے ہیں
اب ذرا اپ کی پیش کردہ روایت پر بھی بات کرتے ہیں
اپ نےاس کے جس راوی پر کلام کیا ہے اس کے بارے میں محدثین کی آراء پیش کرتا ہوں۔

النسائي في "التمييز": ليس به بأس
وقال أحمد:ثقة ثقة.
وقال أبو داود: ثقة.
وقال أبو زرعة وأبو حاتم: ثقة لا بأس به
حافظ ابن حجر نے اس کو صدوق ربما اخط لکھا ہے۔
اور صدوق کی روایت کم از کم حسن ہوتی ہے
اپ نے جو جرح پیش کی ہے وہ اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر جمہور نے اس کی توثیق کی ہے اس لئے اگر امام بخاری وغیرہ کی جرح مان بھی لی جائے تو یہ روایت حسن ہوتی ہے اس لیے شیخ شعیب نے اس کی روایت کو قوی اسناد کہا ہے وہ بھی مسلم کی شرط پر اور اسی طرح شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی اس کو صحیح کہا ہے تو جمہور کی توثیق اور محدثین کی توثیق کے بعد یہ روایت کم از کم حسن ضرور ہے اس لئے اپ کی یہ تخریج جمہور محدثین کے اصول پر خارج کی جاتی ہے۔

اور اخری بات
قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات
اس حدیث کو احمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی رقم 648 مسند احمد کی تخریج میں صحیح کہا ہے۔
قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات
حسین رضی اللہ عنہ کو دریائے فرات کے کنارے شہید کر دیا جائے گا۔
اللہ سب کو ہدایت دے
[FONT=&quot][/FONT]
اس کا ثبوت فراہم کیجئے کے یہ جمہور کی توثیق اور محدثین کی توثیق کے بعد یہ روایت کم از کم حسن ضرور ہے اس لئے اپ کی یہ تخریج جمہور محدثین کے اصول پر خارج کی جاتی ہے۔ ورنہ ہوا میں تیر چلانے کا کوئی فائدہ نہیں ؟؟-

ویسے بھی تاریخ حقائق کے مطابق یہ روایت صحیح نہیں ہے -

قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات
حسین رضی اللہ عنہ کو دریائے فرات کے کنارے شہید کر دیا جائے گا۔ (جو کہ کہ کربلا کے نزدیک ہے)

جب کہ تاریخی حساب سے حضرت حسین رضی الله عنہ کے اس مبینہ سفر کا آغاز مکہ مکرّمہ سے کوفہ کی جانب ہوا تھا اور کربلا مکہ سے کوفہ کے راستے میں نہیں اتا بلکہ کوفہ سے دمشق کے راستے میں اتا ہے. اس کی تصدیق گوگل میپ سے بھی کی جا سکتی ہے.

واقعہ کربلا پر پہلی تحریر بھی ابو مخنف (لوط بن یحییٰ) کی ہے جو "مقتل الحسین" کے نام سے مشھور و معروف ہے- ابو مخنف ایک شیعہ مصنف تھا اور عبد الله بن سبا کے نظریات کا پیروکار تھا-اس کا دادا سالم بن بن یحییٰ جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ کی فوج میں شامل تھا اور امیر معاویہ رضی الله عنہ کے فوجیوں نے اسے قتل کردیا تھا- اس لئے ابو مخنف بنو امیہ خاندان کا جانی دشمن تھا -اس نے کل ٢٣ کتابیں (صحیفوں کی شکل میں) تحریر کیں جو سب کے سب بنو امیہ خاندان کو بدنام کرنے کے لئے لکھی گئیں تھیں- ابو مخنف کی مشھور زمانہ کتاب "مقتل الحسین" (170)١٧٠ ہجری کی ہے یعنی ممکنہ واقعہ کربلا کے تقریباً ١١٠ سال بعد کی ہے اور اس کتاب کو مشھور مورخ حامد موانی نے بھی واقعہ کربلا پر سب سے پہلی کتاب مانا ہے. لوط بن یحییٰ کے اس افسانے کو شہرت اس وقت ملی جب مورخ علامہ ابن جریر طبری نے اس افسانے کو اپنی تاریخ طبری کا حصہ بنایا . مزید یہ کہ واقعہ کربلا سے مطلق بیشتر روایات ام سلمہ سے اتی ہیں جو خود ٥٩ ہجری سے پہلے فوت ہو گئی تھیں یعنی واقعہ کربلا ہونے سے ٢ سال پہلے. بعد کے محدثین نے ابو مخنف کی انہی جھوٹی روایات کو جیسے تیسے آگے بیان کردیا گیا- موطاء امام مالک جو احادیث پر لکھی گئی پہلی سب سے مستند کتاب تسلیم کی جاتی ہے اس میں واقعہ کربلا سے متعلق کوئی صحیح روایت موجود نہیں - امام زید ابن علی جو کے حضرت امام حسین رضی الله عنہ کے پوتے ہیں ان کی کتاب مسند امام زید ابن علی میں بھی اس واقعہ کربلا سے مطلق کوئی روایت نہیں ہے . جب کہ اس کتاب میں جنگ نهروان (جو کہ حضرت علی اور خوارج کے درمیان ہوئی) اس پر بحث کی گئی ہے- مزید یہ کہ ایک شیعہ مورخ ملّاباقر مجلسی نے اپنی کتاب "جلاالعیون" میں یہ تسلیم کیا ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کے اصلی قاتل "اہل کوفہ تھے" یزید بن معاویہ نہیں

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کربلا (جس کا اصل نام کربغا تھا) ایک گھڑا ہوا افسانہ ہے جس کی اصل حقیقت کا الله رب العزت کو ہی پتا ہے- اس سے واقعہ سے متعلق تمام روایات بعد کے ادوار میں گھڑی گئیں تا کہ اہل بیعت کی جھوٹی بناوٹی محبّت کی آڑ میں خاندان بنو امیہ کو بدنام کیا جا سکے-

الله ہمیں اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جناب،
وہ کون سے آئمہ ہے ذرا پیش تو کریں صرف اپ کے کہنے سے مان لیا جائے گا قرآن کہتا ہے
اپنے بات میں سچے ہو تو دلیل لاؤ۔ تو قرآن کی مان کر ہی دلیل پیش کردیں ایک بھی نہیں ملے گا۔ جو اپ کے ناصبی زہن کی ترجمانی کرتا ہو۔
اور اپ نے جو آیت لکھی ہے
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اس کا سیاق وسباق پڑھیں اس میں بنی اسرائیل کو یہ بتایا جارہا ہے اس گمان میں نہ رہیں کہ اپ کے جد امجد ابراہیم علیہ السلام ہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اپ کی بھی بخشش ہو جائے گی سمجے اس لیے یہاں آیت میں
مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ
یعنی جو نیکیاں تم کرو گے وہ تمہارے لیے اور جو نیکیاں انہوں نے کی وہ ان کے لیے ہے ان کی نیکیاں تم کو کوئی فائدہ نہیں دے گی اس لیے
كَسَبَتْ وَلَكُمْ آیا ہے اگر برائی یا گناہ کی بات ہوتی تو کسبت علی تمہاری اوپر ہو گا جو تم نے کمایا۔
تو اس سے نیکیاں مراد ہے اور ظالموں پر تو اللہ نے خود لعنت فرمائی ہے اور امام ابن تیمیہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ ہم مجموعی طور پر لعنت کر دیتے ہیں خاص نام لے کر نہیں کرتے ہیں۔(فتاوی ابن تیمیہ)
اللہ ہدایت دے
محترم -

پہلی بات یہ کہ اس آیت مبارکہ :

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ


کے سیاق و سباق کے مطابق اس میں خطاب یہود و نصاریٰ سے ہے جو حضرت ابراہیم علیہ سلام سے متعلق غلط بیانیاں کرتے رہتے تھے - اور ان یہود و نصاریٰ سے نیکی کی امید تو ویسے ہی نہیں کی جا سکتی - پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ہے کہ "یعنی جو نیکیاں تم کرو گے وہ تمہارے لیے اور جو نیکیاں انہوں نے کی وہ ان کے لیے ہے" - "کسب" کا لفظی معنی ہے کمائی ہے - اب وہ نیکی بھی ہو سکتی ہے اور گناہ بھی ہو سکتا ہے -

دوسرے یہ کہ، کبھی کبھار ہدایت کے لئے آیات قرانی کو سیاق و سباق سے ہٹ کربھی پڑھا و سمجھا جا سکتا ہے- ہر آیت کا اپنا بھی ایک ضمنی مطلب ہوتا ہے جو امّت مسلمہ کے لئے ذریہ ہدایت ہو سکتا ہے (بشرط ہے کہ کوئی اس سے ہدایت حاصل کرنا چاہے )- یہاں اس آیت کا ضمنی مطلب یہی ہے کہ تمہیں (امّت مسلمہ کو) دوسروں کی آخرت کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنی فکر کرو - جو انہوں نے کیا- وہ اس کے ذمہ دار اور جو تم نے کیا ہے تو اس کے ذمہ دار ہو گے-

ظالموں پر الله رب العزت نے لعنت ضرور فرمائی ہے لیکن یہ الله جانتا ہے کہ کون ظالم ہے اور کون نہیں- جب ہمیں کسی کے بارے میں یہ حتمی طور پر پتا ہی نہیں کہ فلاں ظالم تھا یا نہیں تو ہم اس پر لعنت بھیج کر اپنا وقت کیوں برباد کریں ؟؟-

الله ہم سب کو ہدایت دے (آمین)
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جناب،
وہ کون سے آئمہ ہے ذرا پیش تو کریں صرف اپ کے کہنے سے مان لیا جائے گا قرآن کہتا ہے
اپنے بات میں سچے ہو تو دلیل لاؤ۔ تو قرآن کی مان کر ہی دلیل پیش کردیں ایک بھی نہیں ملے گا۔ جو اپ کے ناصبی زہن کی ترجمانی کرتا ہو۔
اور اپ نے جو آیت لکھی ہے
مزید یہ کہ بیشتر آئمہ و محدثین ہیں ان میں امام مالک، امام ابو حنیفہ ، امام اوزای، امام عبد الله بن مبارک ، خود امام ابن تیمیہ ، وغیرہ -ان سب نے یزید بن معاویہ کے معاملے پر سکوت کیا ہے کیا یہ سب ناصبی تھے ؟؟
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
مزید یہ کہ بیشتر آئمہ و محدثین ہیں ان میں امام مالک، امام ابو حنیفہ ، امام اوزای، امام عبد الله بن مبارک ، خود امام ابن تیمیہ ، وغیرہ -ان سب نے یزید بن معاویہ کے معاملے پر سکوت کیا ہے کیا یہ سب ناصبی تھے ؟؟
جناب،
یہ سب اہل سنت تھے اور ان کا موقف تھا نہ نحبہ ولا نسبہ( نہ محبت کریں گے اور نہ گالیاں دیں گے) اس کے فاسق نہ ہونے کا کسی نے اقرار نہیں کیا ہے یہ یزید کو صرف گالیاں دینے سے توقف کرتے تھے کیا یہ سب یزید سے محبت نہیں رکھتے تھے جیسا اج اپ رکھتے ہو اس کو کون سا اہل سنت اکابر رضی اللہ عنہ یا رحمہ اللہ لکھتا تھا اپ نے جن کے نام لکھے ہیں ان میں سے ایک بھی نہیں تھا تو جو اپ لوگ موسلادھار بارش کی طرح اس کو رضی اللہ عنہ(سنابلی صاحب کی کتاب میں رضی اللہ عنہ لکھا ہے) اور رحمہ اللہ اور نیک کہتے ہو کس نے اس کو نیک اور صالح کہا ہے ان میں سے تو کوئی ایک بھی نہیں تھا بلکہ ان سب نے فاسق ہی کہا ہے(اجماع میں یہ بھی شامل ہو جاتے ہیں) پھر یہ امت کو کہاں لے جا رہے ہو اکابرین کا یہ منھج تو نہیں تھا پھر اپ کو ںاصبی ذہن نہ لکھوں تو اور کیا لکھوں۔
اور اپ نے جو آیت پیش کی تھی اس میں اصل مقصود صرف یہی ہے کہ اس میں یہود کو بتایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی نیکیاں یا ان کی طرف تمہار نسبت کرنا تم کو کوئی فائدہ نہیں دے گا تمہارے عمل تمہارے ساتھ اور ان کے ان کے ساتھ ہوں گے۔
تو اس آیت سے صرف یہ ثابت ہے کہ ہر کسی کے اعمال اس کے کام آئیں گے
مگر جو آپ ثابت کرنا چاہ رہے ہو کہ مٹی پاؤ یہ اس آیت میں کہیں نہیں ہے بلکہ قرآن نے عبرت کے لئے پہلوں کے قصے بیان کیے ہیں اگر اپ کا اصول مان لیا جائے تو پھر قرآن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہابیل اور قابیل کا قصہ کیوں بتایا اپ کے مطابق ان کے اعمال ان کے ساتھ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ اور قرآن میں ایسے بے شمار واقعات عبرت کے لیے موجود ہے اور اتنے ہیں کہ مشرکین عرب کو کہنا پڑا کہ یہ قرآن کیا ہے اساطیرالاولین پچھلوں کے قصے ہیں۔
جناب،
یہ واقعات اس لیے بیان ہوئے کہ اللہ بتائے نیکوکاروں کے لئے انعام ہے اور بروں کا کیا انجام ہے اور دوسرا آنے والے پہلوں کے حالات سے عبرت لیں کہ جو غلطیاں ان سے ہوئی وہ بعد والے نہ کریں یزید یا بنو امیہ اور بنو مروان سے میرے کوئی دشمنی نہیں ہے اللہ کی جنت ہے جس کو چاہے دے اس بنو مروان میں خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ جیسے بھی گذرے ہیں میں جن سے بہت محبت کرتا ہوں اور ان کا صرف ایک کارنامہ ہی بہت ہے کہ وہ مکرو کام انہوں نے بند کروا دیا جو کہ آج بھی جمعہ کا خطبہ سنتا ہو تو کبھی یاد آ جاتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جیسے صحابی پر مسجد جیسی جگہ جو مسلمانوں کی عبادات اور اخوت کا مظہر ہے وہاں ان پر منبروں پر لعنت کی جاتی تھی نعوذ باللہ) تو حصول یہ ہے کہ انہوں نے اس دین کو صرف برباد کیا جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خون سے سینچا تھا انہوں نے اس نظام خلافت کو برباد کردیا اس کی جگہ ملوکیت قائم کر دی میں اس کو روتا ہوں اور جب تک اپ لوگ ان کو نیک اور متقی لکھتے رہو گے میں ان کے بارے میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کتب احادیث سے ان کے بارے میں لکھتا رہوں گا مجھے تاریخ کے اوراق پلٹنے کی ضرورت نہیں مجھے کتب احادیث سے ہی ان کے کارنامے واضح ہو چکے ہیں۔اللہ سب کو ہدایت دے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top