اصول فقہ میں سبب اور شرط میں کیا فرق ہے؟آسان فہم انداز میں بیان کیجے۔کہ آسانی سے سمھج میں آجائے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
( سبب ) لغت میں اس " ذریعہ " کے ہیں جس سے کسی مقصود تک پہنچا جائے ، جیسے کوئی راستہ منزل مقصود تک پہنچاتا ہے
اور اصطلاح میں " السبب " اس چیز یا وقت اور عمل کو کہاجاتا ہے جس کے وجود سے کوئی شرعی حکم لازم ہو ۔
اور جس کی عدم موجودگی سے وہ شرعی حکم لازم نہ آئے ۔۔
مشہور اصولی عالم عبدالکریم النملہ لکھتے ہیں :
" ما يلزم من وجوده الوجود، ويلزم من عدمه العدم لذاته " الْمُهَذَّبُ في عِلْمِ أُصُولِ الفِقْهِ الْمُقَارَنِ
یعنی جس کے موجود ہونے سے ایک حکم کا وجود لازم آئے ، اور جسکی عدم موجودگی سے کوئی شرعی حکم لازم نہ آئے ۔
.مثلاً : زنا کا وجود " سبب " ہے ایک شرعی حکم کا ۔ وہ ہے زنا کی سزا " حد "
یا جیسے سورج کا ڈھلنا نماز ظہر کے واجب ہونے کا سبب ہے ، رمضان کا آنا روزوں کے فرض ہونے کا سبب ہے ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور شرط اصطلاح میں درج ذیل معنی میں استعمال ہوتی ہے
الشرط في الاصطلاح هو:
هو: " ما يلزم من عدمه العدم، ولا يلزم من وجوده وجود ولا عدم لذاته ".
یعنی جس کے وجود پر کسی دوسری کا وجود موقوف ہو ، اگر یہ چیز نہ پائی جائے تو وہ دوسری بھی نہ پائی جائے گی ،
لیکن شرط والی چیز کا وجود دوسری چیز کو لازم نہیں "
مثلاً وضوء نماز کیلئے شرط ہے ، اگر وضوء نہ ہوگا تو نماز نہ ہوگی ، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وضوء موجود ہو تو نماز بھی لازمی موجود ہو
کیونکہ بسا اوقات نماز کے علاوہ بھی وضوء کا وجود ثابت ہے ،
اور واضح رہے کہ :
جس چیز و عمل کیلئے اسے شرط قرار دیا گیا یہ شرط والی چیز اس چیز کے ذاتی وجود کا حصہ نہ ہو ، بلکہ اس سے خارج کی چیز ہو
جیسے وضوء حقیقت نماز سے خارج کی چیز ہے لیکن اس کیلئے شرط ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سبب اور شرط میں جوہری فرق دیکھئے :