• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبعہ أحرف … تنقیحات و توضیحات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ حافظ ابن جریررحمہ اللہ کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کام کے بارے میں مؤقف:
’’والآثار الدالۃ علی أن إمام المسلمین وأمیر المؤمنین عثمان بن عفان جمع المسلمین نظراً منہ لھم وإشفاقاً منہ علیھم، ورأفۃً بھم حذار الردۃ من بعضھم بعد الإسلام والدخول في الکفر بعد الإیمان إذ ظھر من بعضھم بمحضرہ وفي عصرہ التکذیب ببعض الأحرف السبعۃ التي نزل علیھا القرآن مع سماع أصحاب رسول اﷲ ﷺ من رسول اﷲ النھي عن التکذیب بشيء منھا وأخبارہ إیاھم أن المراء فیھا کفر، فحملھم، إذ رأی ذلک ظاہراً بینھم في عصرہ ولحداثۃ عہدھم بنزول القرآن، وفراق رسول اﷲ ﷺ إیاھم بما أمن علیھم مع عظیم البلاء في الدین من تلاوۃ القرآن علی حرف واحد‘‘
’’آثار اس پر دال ہیں کہ امام المسلمین اور امیر المؤمنین سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اُمت کو ایک حرف پر اس لیے جمع فرما دیا کہ ان کا مسلمانوں سے ایک الف و محبت اور شفقت و مہربانی کا تعلق تھا کہ کہیں قرآن کا اِنکار کرکے اسلام سے اِرتداد اور ایمان سے کفر کی طرف نہ منتقل ہوجائیں،کیونکہ قرآن کریم کے کسی ایک حرف کی تکذیب یا کسی لفظ کی قرآنیت کے بارے میں جھگڑا کرنا صریحاً کفر ہے۔ انہوں نے جب اپنے زمانہ میں اس قدر اختلاف دیکھ لیا حالانکہ ان کا زمانہ عہد نبویﷺکے بالکل قریب کا زمانہ ہے تو انہوں نے اُمت کو اس عظیم آزمائش سے بچانے کے لیے ایک عظیم کدوکاوش کی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مزید فرماتے ہیں:
’’وجمعھم علی مصحف واحدٍ وحرف واحدٍ وخرق ما عدا المصحف الذي جمعھم علیہ وعزم علی کل من کان عندہ مصحف مخالف المصحف الذي جمعھم علیہ أن یحرقہ فاستوفقت لہ الأمۃ علی ذلک بالطاعۃ، ورأت أن فیما ذلک من الرشد والھدایۃ فترکت القرائۃ بالأحر ف الستۃ التي عزم علیھا إمامھا العادل في ترکھا طاعۃ منھا لہ، و نظراً منھا لأنفسھا ولمن بعدھا من سائر أھل ملتہا حتی درست من الأمۃ معرفتھا و تعفت آثارھا فلا سبیل لأحدٍ الیوم إلی القرائۃ بھا لدثورھا و عفو آثارھا۔‘‘ (تفسیر ابن جریررحمہ اللہ:۱؍۵۰)
’’سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے تمام مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرمادیا اور اس کے علاوہ جو مصاحف کسی کے پاس بھی ان مصاحف کے مخالف تھے انہیں ضائع کردیا۔ تو اُمت نے اس معاملہ میں ان کی اطاعت کی، کیونکہ اس میں سراسر بھلائی اور ہدایت کاپہلو ظاہر تھا۔ اور احرف ستہ کو کلیتاً ترک کردیا جس کاامام عادل نے ان سے مطالبہ کیاتھا۔ لہٰذا امت نے اس کو قبول کرنے کے بعد اس پر عمل شروع کردیا جس سے باقی احرف بالکل ختم ہوگئے اور ان احرف کی عدم دستیابی کی بناء پر ان تک رسائی ممکن نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اپنے مؤقف کی تائید میں ایک سوال پیدا کیا کہ سائل یہ کہے کہ آپ کے کہنے کے موافق آج ایک ہی حرف باقی ہے تو وہ حروف ستہ جن کو آپﷺ اور صحابہ نے پڑھا ، اُس کے پڑھنے کا حکم دیا اور خود اللہ رب العزّت نے آسمانوں سے اپنے نبیﷺ پر نازل کئے ہیں۔ کیا وہ اٹھا لیے گئے ہیں؟ یا منسوخ کردیئے گئے؟ اگر فی الواقع ایسا ہے تو ان کے رفع اور نسخ کی دلیل کیاہے؟ یاپھر اُمت ویسے ہی اُسے بھول گئی ہے، تو یہ بھولنا تضییع قرآن ہے۔ حالانکہ اس کی حفاظت اُمت کی ذمہ داری ہے۔ تو اس بارے میں آپ کیاکہتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تو اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’لم تنسخ فترفع، ولا ضیعتھا الأمۃ وھي مأمورۃ بحفظھا۔ ولکن الأمۃ أمرت بحفظ القرآن، وخیرت في قرائتہ و حفظہ بأي تلک الأحرف السبعۃ شائت کما أمرت، إذا ھي حنثت في یمین وھي موسرۃ، بأن تکفر بأي الکفارات الثلاث شائت: إما بعتق، أو إطعام، أو کسوۃ۔ فلو أجمع جمیعھا علی التکفیر بواحدۃ من الکفارات الثلاث، دون حظرھا التکفیر بأي الثلاث شاء المکفر، کانت مصیبۃً حکمَ اﷲ، مؤدیۃ في ذلک الواجبَ علیھا من حق اﷲ۔ فکذلک الأمۃ، أمرت بحفظ القرآن وقرائتہ، وخیرت في قرائتہ بأي الأحرف السبعۃ شائت: فرأت -لعلۃ من العلل أو جبت علیھا الثبات علی حرف واحد- قرائتَہ بحرف واحد، ورفض القرائۃ بالأحرف الستۃ الباقیۃ، ولم تحظُر قرائتہ بجمیع حروفہ علی قارئہ، بما أذن لہ في قرائتہ بہ۔‘‘
’’ نہ تو قرآن منسوخ ہواہے اور نہ ہی اُسے اٹھا گیا ہے اور نہ ہی اُمت، جو کہ اس کی حفاظت پر مامور ہے، اس کے ضیاغ کی مرتکب ہوئی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اُمت کو حفاظت قرآن کا حکم دیاگیاہے اور اَحرف سبعہ اور قراء ات میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کی مثال اسی طرح ہے جیسے قسم کے کفارے میں عتق غلام، کھانا اور لباس میں سے کسی ایک کے اَدا کرنے میں حانث مخیر ہے۔ اور اگر اُمت ان میں سے کسی ایک کے اختیار پر اِجماع کرلے اور دوسرے سے منع نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح اُمت حفاظت قرآن اور قراء ات کی حفاظت کی مکلف ہے لیکن قراء ات میں سے کسی ایک کو اختیارکرنے میں آزاد ہے۔ اُمت نے اسی وجہ سے اسی علت کی بنیاد پرحرف واحد کو اختیارکرلیا باقی حروف ستۃ کی قراء ت ختم ہوگئی۔ باقی رہی یہ بات کہ کسی کوباقی احرف پرقرائات سے منع کیا جائے گا تو بات ٹھیک نہیں ہے بلکہ قاری کو اجازت ہے جس حرف پرچاہے قراء ت کرے۔‘‘ (تفسیرطبری:۱؍۴۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن جریررحمہ اللہ مذکورہ دلیل کے علاوہ چند ایک نصوص مزید اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کرتے ہیں:
’’عن خارجۃ بن زید بن ثابت، عن أبیہ زید، قال: لما قتل أصحاب رسول اﷲ ! بالیمامۃ، دخل عمر بن الخطاب ÷ علی أبی بکر ÷ فقال: إن أصحاب رسول ! بالیمامۃ تھافتوا تھافت الفراش في النار، وإني أخشی أن لا یشھدوا موطنا إلا فعلوا ذلک حتی یقتلوا -وھم حملۃ القرآن- فیضیع القرآن و ینسی، فلو جمعتہ و کتبتہ! فنفر منھا أبوبکر وقال: أفعل ما لم یفعل رسول اﷲ !! فتراجعا في ذلک۔ ثم أرسل أبوبکر إلی زید بن ثابت، قال زید: فدخلت علیہ و عمر محزئل(۱) فقال أبوبکر: إن ھذا قد دعاني إلی أمر فأبیت علیہ، وأنت کاتب الوحي، فإن تکن معہ اتبعتکما، وإن توافقني لا أفعل۔ قال: فاقتص أبوبکر قول عمر، وعمر ساکت، فنفرت من ذلک وقلت: نفعل ما لم یفعل رسول اﷲ !! إلی أن قال عمر کلمۃ: ’’وما علیکما لو فعلتما ذلک؟‘‘ قال: فذھبنا ننظر، فقلنا: لا شيء واﷲ! ما علینا في ذلک شيئ! قال زید: فأمرني أبوبکر فکتبتہ في قطع الأدم وکسر الأکتاف والعسب۔ فلما ھلک أبوبکر وکان عمر، کتب ذلک في صحیفۃ واحدۃ، فکانت عندہ۔ فلما ھلک، کانت الصحیفۃ عند حفصۃ زوج النبي !۔ ثم إن حذیفۃ بن الیمان قدم من غزوۃ کان غزاھا بمرج أرمینیۃ، فلم یدخل بیتہ حتی أتی عثمان بن عفان فقال: یا أمیر المؤمنین! أدرک الناس! فقال عثمان: ’’وما ذلک؟‘‘ قال غزوت مرج أرمینیۃ، فحضرھا أھل العراق وأھل الشام، فإذا أھل الشام یقرؤون بقرائۃ أبي بن کعب، فیأتون بما لم یسمع أھل العراق، فتکفرھم أھل العراق۔ وإذا أھل العراق یقرؤون بقرائۃ ابن مسعود، فیأتون بما لم یسمع بہ أھل الشام، فتکفرھم أھل الشام۔ قال زید: فأمرني عثمان بن عفان أکتب لہ مصحفاً، وقال: إني مدخل معک رجلا لبیباً فصیحاً، فما اجتمعتما علیہ فاکتباہ، وما اختلفتما فیہ فارفعاہ إلي۔ فجعل معہ أبان بن سعد بن العاص، قال: فلما بلغنا ’’إِنَّ ئَایَۃَ مُلْکِہٖ أَنْ یَّأْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ‘‘ (البقرۃ:۲۴۸) قال: زید فقلت: ’التابوہ‘ وقال أبان بن سعید: ’التابوت‘ فرفعنا ذلک إلی عثمان فکتب: ’التابوت‘ قال: فلما فرغت عرضتہ عرضۃ،فلم أجد فیہ ھذہ الأیۃ: ’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوْا اﷲَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّنْتَظِرْ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً‘‘ (الاحزاب:۲۳) قال: فاستعرضت المہاجرین أسألھم عنھا، فلم أجدھا عند أحد منھم، ثم استعرضت الأنصار أسألھم عنھا، فلم أجدھا عند أحد منھم، حتی وجدتھا عند خزیمۃ بن ثابت، فکتبتھا، ثم عرضتہ عرضۃ أخری، فلم أجد فیہ ھاتین الأیتین: ’’ لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ٭ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اﷲُ لَآ إِلٰــہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘ (التوبۃ:۱۲۸،۱۲۹) فاستعرضت المہاجرین، فلم أجدھا عند أحد منھم، ثم استعرضت الأنصار أسألھم عنھا فلم أجدھا عند أحد منھم، حتی وجدتھا مع رجل آخر یدعی خزیمۃ أیضاً، فأثبتھا في آخر ’برائۃ‘ ولو تمت ثلاث آیات لجعلتھا سورۃ علی حدۃ۔ ثم عرضتہ عرضۃ أخری، فلم أجد فیہ شیئا، ثم أرسل عثمان إلی حفصۃ یسألھا أن تعطیہ الصحیفۃ، وحلف لھا لیردنھا إلیھا فأعطتہ إیاھا، فعرض المصحف علیھا، فلم یختلفا فی شيئ۔ فردھا إلیھا، وطابت نفسہ، وأمر الناس أن یکتبوا مصاحف۔ فلما ماتت حفصۃ أرسل إلی عبداﷲ بن عمر في الصحیفۃ بعزمۃ، فأعطاھم إیاھا فغسلت غسلاً۔‘‘
’’زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، جب شمع نبوتﷺکے پروانے یمامہ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے تھے تو سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جناب ابوبکررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ اَصحاب محمدﷺنے ناموس رسالتﷺپراس طرح جانیں نچھاور کی ہیں، جس طرح شمع پر پروانے قربان ہوتے ہیں اورمجھے یہ ڈر ہے کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹنے کی بجائے اس وقت تک گستاخانِ نبوت کے خلاف برسرپیکار رہیں گے جب تک جام شہادت نوش نہیں کرلیتے اور وہ سارے کے سارے وہ لوگ ہیں جو حاملین قرآن ہیں ان کی شہادت سے قرآن کے ضیاع کاخطرہ ہے، کیوں نہ ہو کہ ہم قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرلیں اور لکھ لیں۔ابوبکررضی اللہ عنہ اس کام کو کرنے سے ہچکچائے اور کہاکہ میں وہ کام کیسے کروں جوآنجنابﷺنے نہیں کیا، شیخین کے مابین اس موضوع پر گفتگو جاری رہی۔ پھر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ سیدنا زیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں ان کے ہاں پہنچاتو میں نے دیکھا کہ جناب عمررضی اللہ عنہ پریشان حال بیٹھے ہیں تو سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا:کہ یہ مجھے ایک کام کے بارہ میں اصرار کرتے ہیں جبکہ میں نے اِنکارکردیا ہے۔ آپ کاتب وحی ہیں اگر آپ ان کے ساتھ متفق ہیں تو میں آپ کا ساتھ دوں گا لیکن اگر آپ میری رائے سے اتفاق کریں تو تب میں یہ کام نہیں کروں گا۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا ہم وہ کام کیسے کریں جو رسول اللہﷺنے نہیں کیا؟ تب سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ایک کلمہ کہا: ’’اگر تم یہ کرلو تو تم پرکیا بوجھ آپڑے گا‘‘ زیدرضی اللہ عنہ کہتے، کہ ہم نے غوروخوض کی غرض سے مجلس برخاست کردی۔ جب ہم نے اس کے جملہ پہلوؤں پرنظر دوڑائی تو پتہ چلا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ تب حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے مجھے جمع کرنے کاحکم دیا جسے میں نے کھجور کے پتوں، ہڈیوں، چمڑے اورکاغذ کے ٹکڑوں میں سے جمع کرلیا۔جب سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ راہی آخرت ہوئے اور خلافت سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو انہوں نے دوبارہ اُسے ایک صحیفہ میں لکھوایا اور اپنے پاس محفوظ رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد وہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں منتقل ہوگیا۔ پھر ایک روز سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اچانک آرمینیہ کی جنگ سے لوٹے اور اپنے گھر جانے کے بجائے سیدھے امیرالمؤمنین سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا۔ اے امیر المؤمنین،لوگوں کی خبر لیجئے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا ماجرا کیا ہے تو انہوں نے عرض کیا میں ابھی ابھی مرج آرمینیہ سے لوٹا ہوں جہاں اہل شام اور اہل عراق جہاد میں مشغول ہیں۔ اہل عراق سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراء ات پڑھتے ہیں اور اہل شام جناب اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ت پر ہیں جبکہ دونوں نے ایک دوسرے کی قراء ات کو سنا تو اس کا اِنکار کردیا اور بات اس قدر بڑھی کہ دونوں ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگے۔ سیدنا زیدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا کر اپنے لیے ایک مصحف لکھنے کاکہا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم بطور معاون آپ کو ایک فصیح اللسان اور ذہین شخص فراہم کریں گے، جس پر تم دونوں متفق ہوجاؤ اُسے لکھ لو اور جس پرتمہارا اختلاف ہوجائے تو میری طرف رجوع کرو۔لہٰذا انہوں نے ابان بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو میرا معاون مقرر کیا، جب ہم ’’إِنَّ ئایَۃَ مُلْکِہٖ أَنْ یَّأْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ‘‘ (البقرہ: ۲۴۸) پر پہنچے تو میں نے کہا: ’’التابوہ‘‘ جبکہ ابان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’التابوت‘‘ ہے۔ ہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے التابوت تائے طویلہ کے ساتھ لکھا۔کہتے ہیں کہ جب میں کتابت سے فارغ ہوا تو میں نے پورے مصحف کی مراجعت کی تو میں نے ’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ…‘‘ آیت نہ پائی۔ تو میں نے مہاجرین سے کہا کہ کسی کے پاس یہ آیت موجود ہے؟ تو ان کے پاس نہ پایا پھر میں نے انصار سے سوال کیاتو خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مل گئی جسے میں نے لکھ لیا اور دوسری بار پھر مراجعت کی تو سورۃ توبہ کی دو آخری آیات نہیں تھیں۔مہاجرین اور انصار سے اس بارے میں دریافت کیاتو ان کے پاس نہ پائیں با لآخر خزیمہ نامی صحابی کے پاس مل گئیں جسے میں نے درج کرلیا۔ زیدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر ایسی تین آیات مجھے مل جاتیں تو میں ایک علیحدہ سورۃ بنادیتا۔ اس کے بعد میں نے مزید ایک دفعہ مراجعت کی تو میں نے ہر طرح سے مکمل پایا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مصحف منگوایا اور وعدہ کیا کہ یہ واپس لوٹایا جائے گا۔ پھر ان دونوں مصاحف کا موازنہ کیاگیا ۔ اور دونوں کو متفق پایا تو مطمئن ہوگئے اور لوگوں کو اس کے مطابق سیکھنے کاحکم دے دیا۔جب سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا وفات پاگئی تو انہوں نے یہ مصحف سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے سپرد کردیا تو انہوں نے حکام کے حوالے کردیا جسے بعد میں دھو دیاگیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’عن أبي قلابۃ، قال: لما کان في خلافۃ عثمان، جعل المعلّم قرائۃ الرجل، والمعلم یعلم قرائۃ الرجل، فجعل الغلمان یلتقون فیختلفون، حتی ارتفع ذلک إلی المعلمین۔ قال أیوب: لا أعلمہ إلا قال: حتی کفر بعضھم بقرائۃ بعض۔ فبلغ ذلک عثمان، فقام خطیباً فقال: ’’أنتم عندي تختلفون فیہ وتلحنون، فمن نأی عني من أھل الأمصار أشد فیہ اختلافاً وأشد لحناً، اجتمعوا یا أصحاب محمد! فاکتبوا للناس إماما۔‘‘
قال أبو قلابۃ: فحدثني أنس بن مالک قال: کنت فیمن أملي علیھم، فربما اختلفوا في الآیۃ فیذکرون الرجل قد تلقاھا من رسول اﷲ !، ولعلہ أن یکون غائباً أو في بعض البوادي، فیکتبون ما قبلھا وما بعدھا، ویدعون موضعھا، حتی یجيء أو یرسل إلیہ۔ فلما فرغ من المصحف، کتب عثمان إلی أھل الأمصار: ’’إني قد صنعت کذا وکذا، ومحوت ما عندي، فامحوا ما عندکم۔‘‘

’’ابی قلابہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں باقاعدہ معلّم مقرر کئے گئے، ایک معلّم کسی ایک صحابی کی قراء ات سکھاتا جبکہ دوسرا کسی دوسرے صحابی کی، ہوا یہ کہ بچوں نے اختلاف شروع کردیا اور یہ بات معلّمین تک پہنچ گئی۔ایوب راوی حدیث کہتے ہیں کہ شایدابوقلابہ نے یہ بھی کہا کہ بعض نے بعض کی قراء ت کا اِنکار شروع کردیا۔ جب یہ بات سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو وہ کھڑے ہوئے اور خطبہ اِرشاد فرمایا کہ تم میرے پاس ہوتے ہوئے غلطیاں کرتے ہو اور اختلاف میں پڑے ہوئے ہو، یقیناً وہ لوگ جو ہم سے دور ہوں گے وہ زیادہ غلطیاں کرتے ہوں گے اور شدید اختلاف کا شکار ہوں گے، انہوں نے کہاکہ اے اصحاب محمدﷺ جمع ہوجاؤ اور لوگوں کے لیے ایک ایسامصحف لکھو جو امام کے درجہ پرفائز ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو قرآن کی کتابت کررہے تھے۔ ہمارے درمیان بعض دفعہ کسی آیت میں اختلاف ہوتاتو ہمیں کہاجاتا کہ اسے فلاں بستی میں رہنے والے صحابی نے اللہ کے رسولﷺسے بالمشافہ سنا ہے تو ہم یوں کرتے کہ اس آیت سے پہلی اور بعد والی آیات لکھ دیتے اور اس کی جگہ خالی چھوڑدیتے، یہاں تک کہ وہ آدمی خود آجاتا یااُسے بلالیاجاتا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب مصاحف کی کتابت سے فارغ ہوگئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام شہروں کی جانب لکھ دیا کہ میں نے یہ کام کیاہے اور اس کے علاوہ جو میرے پاس تھااُسے ختم کردیاہے لہٰذا جو تمہارے پاس ہے اُسے تم بھی ختم کردو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عن أنس بن مالک الأنصاري أنہ اجتمع في غزوۃ أذربیجان وأرمینیۃ أھل الشام وأھل العراق، فتذاکروا القرآن، واختلفوا فیہ حتی کاد یکون بینھم فتنۃ۔ فرکب حذیفۃ بن الیمان -لما رأی اختلافھم في القرآن- إلی عثمان، فقال: ’’إن الناس قد اختلفوا في القرآن، حتی إني واﷲ لأخشی أن یصیبھم مثل ما أصاب الیھود والنصاری من الاختلاف۔‘‘ قال: ففزع لذلک عثمان فزعا شدیداً، فأرسل إلی حفصۃ فاستخرج الصحیفۃ التي کان أبوبکر أمر زیداً بجمعھا، فنسخ منھا مصاحف، فبعث بھا إلی الآفاق۔‘‘
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ آذربائیجان اور آرمینیہ کے غزوہ میں اہل عراق اور اہل شام کے ساتھ شامل تھے ان کے مابین قرآن کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی جو اس قدر شدت اختیارکرگئی کہ فتنہ کاخطرہ پیداہوگیا۔ جب حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے بارے میں اختلاف دیکھاتو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور فرمایا کہ لوگ قرآن میں اس قدر اختلاف کررہے ہیں کہ مجھے ڈر ہے کہ ان کی حالت یہود و نصاریٰ سی ہوجائے گی۔ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو بہت زیادہ پریشان ہوگئے، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ سے مصحف منگوایا اور سیدنا زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کو قرآن کو جمع کرنے اور اس کی نقلیں تیار کرنے کاحکم دیا اور اس کو آفاق عالم میں پھیلادیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’عن أنس بن مالک أن عثمان دعا زید بن ثابت وعبداﷲ بن الزبیر وسعید بن العاص وعبدالرحمن بن الحارث بن ہشام فنسخوھا في المصاحف وقال عثمان للرھط القریشین الثلاثۃ: ’’إذا اختلفتم أنتم و زید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش، فإنما نزل بلسانھم‘‘ ففعلو ذلک۔‘‘ (صحیح البخاری:۳۲۴۴)
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ،سعید بن العاص رضی اللہ عنہ، عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ کو بلایا کہ مصحف ابوبکر کی کاپیاں تیارکریں اور قریشیوں کو یہ بھی کہا کہ جب تمہارے اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مابین کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اُسے لغت قریش میں لکھو، کیونکہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔‘‘
ترمذی کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ التوبۃ میں ’’فإنہ نزل بلسان قریش‘‘ کے الفاظ بھی موجود ہیں یعنی وہاں حصر نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن جریررحمہ اللہ مذکورہ بالا دلائل سے ثابت کرناچاہتے ہیں کہ سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ان جمیع اختلافات اور نزاعات کو سامنے رکھتے ہوئے اُمت کو ایک حرف پر جمع کردیا تھا اور یہی آپ کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس کی وجہ سے آپ کو جامع القرآن کے عظیم لقب سے نوازا گیاہے اور آپ کے اس کام کی بدولت اُمت میں جو قرآن کریم کے معاملہ میں فتنہ پیداہورہا تھا، فرو ہوگیا۔ یہ تو ہم بعد میں واضح کریں گے کہ امام ابن جریررحمہ اللہ کے پیش کردہ دلائل کس حد تک اس کے مؤقف کی تائید کررہے ہیں اس سے پہلے ہم ذرا ان ائمہ کے اقوال بھی پیش کرناچاہیں گے جو امام ابن جریررحمہ اللہ کے مؤ قف کے کسی نہ کسی طرح مؤیدین ہیں تاکہ جمیع آراء اور نصوص سامنے رکھتے ہوئے ان پر ایک جامع تجزیہ پیش کیا جاسکے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ
’’وکانت ھذہ السبعۃ للناس في ھذہ الحروف لعجزھم عن أخذ القرآن علی غیرھا مما لا یقدرون علیہ لما قد تقدم ذکرنا لہ في ھذا الباب وکانوا علی ذلک حتی کثر من یکتب منھم وحتی عادت لغاتہم إلی لسان رسول اﷲ ! فقرئوا بذلک علی تحفظ القرآن بألفاظہ التي نزل بہا فلم یسعھم حینئذٍ أن یقرئوہ بخلافھا وبأن بما ذکرنا أن تلک السبعۃ الأحرف إنما کانت في وقت خاص لضرورۃ دعت إلی ذلک ثم ارتفعت تلک الضرورۃ فارتفع حکم ھذہ السبعۃ الأحرف وعاد ما یقرأ بہ القرآن علی حرفٍ واحدٍ‘‘ (مشکل الآثار:۴ ؍۹۱،۱۹۰)
’’لوگوں کے لیے حروف سبعہ کو اس وجہ سے نازل کیا گیا تھا کہ وہ ان حروف کے بغیر اَخذ قرآن سے ہی قاصر تھے جیساکہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا ہے اس وقت وہ ان حروف کو تلاوت کرتے رہے جب تک ان کے لیے مشکل تھا۔ لیکن جب یہ آپﷺ کی زبان کثرت سے لکھنا شرو ع ہوگئے اور ان کی زبانیں بولنے کی عادی ہوگئیں تو پھر ان کو دوبارہ اللہ کے رسولﷺ کی لغت کے مطابق پڑھنے کاحکم دے دیاگیا تاکہ وہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری اَداکرسکیں اور دیگر احرف پر پڑھنے کی وسعت ختم کردی گئی۔ گویا کہ اَحرف سبعہ پرتلاوت قرآن کی اجازت ،خاص وقت اور خاص ضرورت کی بنا پرتھی جب ضرورت ختم ہوگئی تو اجازت بھی اٹھا لی گئی اور حرف واحد کی قراء ت شروع ہوگئی‘‘۔
نوٹ: امام ابن جریررحمہ اللہ اور طحاوی رحمہ اللہ کے مؤقف میں ایک فرق ہے اگرچہ نتیجہ کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں۔ امام ابن جریررحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اَحرف ستہّ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فتنہ کے اندیشہ سے باجماع صحابہ موقوف کردیاتھا لیکن امام طحاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان کی اجازت ایک وقتی ضرورت کی بناء پر تھی جب یہ پوری ہوگئی تو وہ اجازت بھی خود بخود ختم ہوگئی یعنی انتھاء الحکم بانتھاء العلۃ کی ایک شکل تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سوال کہ آیا قراء اتِ سبعہ حروف سبعہ پر مشتمل ہیں یا حروفِ سبعہ میں سے کسی ایک پر؟ کے جواب میں فرمایا:
’’فالذي علیہ جمہور العلماء من السلف والأئمۃ أنھا حرف من الحروف السبعۃ بل یقولون: إن مصحف عثمان ھو أحد الحروف السبعۃ، وھو متضمن للعرضۃ الآخرۃ التي عرضھا النبي ! علی جبریل۔ والأحادیث والآثار المشہورۃ المستفیضۃ تدل علی ھذا القول۔‘‘ (مجموع الفتاوی:۱۳؍۳۸۹)
’’سلف میں سے جمہور اہل علم اور ائمہ اس بات کے قائل ہیں کہ موجودہ قراء اتِ سبعہ یہ احرفِ سبعہ میں سے صرف ایک حرف پرمشتمل ہیں بلکہ ان کاکہنا ہے کہ مصاحف عثمانیہ بھی اُسی ایک حرف پرترتیب دیئے گئے ہیں جو آپﷺنے عرضۂ اخیرہ میں سیدنا جبرئیل علیہ السلام سے مدار سہ کرتے ہوئے تلاوت فرمایاتھا ،نیزاحادیث مستفیضہ اور آثار مشہورہ بھی اسی قول کے مؤید نظر آتے ہیں۔‘‘
 
Top