• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبعہ أحرف … تنقیحات و توضیحات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مولانا قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ
اِنسان کے علم میں وقت کے ساتھ ساتھ وسعت اور گہرائی آتی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے اَئمہ کے مؤقف ایک وقت تک اور رہے جبکہ بعد اَزاں ان کا رجحان کسی دوسری طرف ہوگیا۔ جن کی مثالیں کتب فقہ میں مذہب قدیم اور جدید کے نام سے معروف ہیں۔بالکل اسی طرح حضرت مولانا قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ کے بارے میں معروف ہے کہ وہ ابن جریری طبری رحمہ اللہ یا امام طحاوی رحمہ اللہ کے مؤقف کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے سبعہ احرف کی تشریح کبھی بھی ابن جریررحمہ اللہ کے مؤقف سے نہیں فرمائی۔ کیونکہ وہ کشف النظر میں سبعہ اَحرف کی تشریح سبعہ لغات عرب سے فرماتے ہیں اور اس قول کے قائلین ابوعبید رحمہ اللہ، ابن عطیہ رحمہ اللہ،بیہقی وغیرہ کو قرار دیتے ہیں اور جب مزید تفصیل میں جاتے ہیں تو امام طحاوی رحمہ اللہ کے مؤقف کی طرف میلان نظر آتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ احرف سبعہ منسوخ ہوچکے ہیں اور آج مصحف صرف حرف قریش پر ہے۔ (کشف النظر :۱؍۸۸،۸۷)
لیکن دفاع قراء ات میں جب اس مسئلہ پر تفصیلی بحث فرمائی ہے تو ابن جریر کے مؤقف کو مرجوح قرار دیا ہے اور اس پر بارہ اعتراض کئے ہیں جوان شاء اللہ ہم نقل کریں گے۔
ان کے علاوہ مناّع القطّان نے بھی ابن جریر ہی کے مؤقف کو اختیار کرتے ہوئے اسے راجح قرار دیا ہے۔ مزید کوئی اضافی بات نہیں کی جو لائق ذکر ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن جریررحمہ اللہ کے مؤقف کا تجزیہ اور اُن پروارد ہونے والے اِعتراضات
ابن جریررحمہ اللہ کے بارے میں کہنا کہ یہ ایک بالکل ناقابل فہم مؤقف ہے، درست نہیں ہے۔ بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ انہوں نے منزل من اللہ اختلافات کی صرف ایک جہت کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ دوسرا یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جن حالات میں مصاحف مرتب کروائے تھے، اور ان کے مرتب اور شائع ہوجانے کے بعد اختلاف کا ختم ہو جانا انہیں اس طرف لے گیاہے کہ انہوں نے شاید ایک حرف ہی باقی رکھا تھا۔ البتہ یہ کہنا مشکل اَمر ہے کہ سبعہ اَحرف کی صحیح ترین تشریح یہی ہے، کیونکہ اس مؤقف پروارد ہونے والے اعتراضات اس رائے کو اختیار کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ مؤقف پر وارد ہونے والے اعتراضات
سب سے پہلے ہم مولانا تقی عثمانی﷾ کے اس مؤقف پر اِعتراضات کو ایک نظر دیکھتے ہیں۔
(١) اس مؤقف پرحروف اور قراء ات کو دو الگ الگ چیزیں قرار دینا پڑتا ہے۔ یقیناً یہ الجھن ابن جریررحمہ اللہ کے مؤقف میں باقی رہتی ہے۔لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ سبعہ وجوہ والامؤقف راجح ہے۔ ابن جریررحمہ اللہ کے مؤقف کے نقص کو واضح کرنے کے لیے کسی ایسے مؤقف کو قطعاً اختیارنہیں کیا جاسکتا جو خود کئی اشکالات لیے ہوئے ہو، جو ہم پہلے واضح کرچکے ہیں۔
(٢) ابن جریررحمہ اللہ کے مؤقف پر یہ ماننا پڑتا ہے کہ سات حروف میں سے چھ منسوخ یا متروک ہوگئے اور صرف حرف قریش باقی رہ گیا۔ ابن جریررحمہ اللہ کے مؤقف میں واقعی یہ کمی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف حرف قریش باقی ہے دیگر منسوخ ہوگئے ہیں۔ لیکن سبعہ وجوہ کے قائلین نے یہ کب کہا ہے کہ حرف قریش کے علاوہ دیگر لغات بھی اس میں موجود ہیں، انہوں نے تو ایسی کوئی بات ذکر نہیں کی۔ بلکہ ہماری رائے کے مطابق مذکورہ حضرات (جزری وغیرہ) بھی یہ مانتے ہیں کہ موجودہ قراء ات صرف حرف قریش ہی کی وجوہ مختلفہ ہیں، کیونکہ سبعہ وجوہ کا مؤقف اختیار کرنے والوں کے سرخیل ابن قتیبہ رحمہ اللہ ہیں جن کے بارے میں امام ابن جزری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ابوالفضل رازی رحمہ اللہ کامؤقف، جو اَوجہ سبعہ میں سب سے بہتر تشریح ہے، ابن قتیبہ کے مؤقف کی ہی توضیح ہے۔ان سے نصاًمنقول ہے کہ قرآن کریم صرف اور صرف لغت قریش میں نازل ہوا ہے اس کے علاوہ کسی دوسری لغت پر قطعاً نازل نہیں ہوا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) ابن جریررحمہ اللہ کے مؤقف پرایک اعتراض یہ ہے کہ ابن جزری وغیرہ کے مؤقف کے حاملین بہت ہی جلیل القدر علماء ہیں۔ یہ بات تو شاید وجہ ترجیح نہ بن پائے، کیونکہ دوسری طرف بھی بہت ہی نابغۂ روزگار شخصیات ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ تحقیق کی دنیا میں شخصیات کے بجائے دلائل کی قوت پر ہی بات ہونی چاہئے۔
البتہ مولانا نے امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے مؤقف پرایک معتدل اور مدلل تنقید کی ہے جس کو ہم واقعی ایک وزنی اور مسکت تنقید سمجھتے ہیں۔ ذیل میں ہم انہی کے الفاظ نقل کرتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابن جریررحمہ اللہ کانظریہ اور اُس کی قباحتیں
حافظ ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے چونکہ اپنا یہ نظریہ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں بڑی تفصیل اور جزم و وثوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔اس لیے یہ قول بہت مشہور ہوگیا اور آج کل حروف سبعہ کی تشریح عموماً اسی کے مطابق کی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر محقق علماء (ان علماء کے اَسماء گرامی آگے آرہے ہیں) نے اسے اختیار نہیں کیا بلکہ اس کی سختی کے ساتھ تردید فرمائی ہے۔ کیونکہ اس قول پر متعدد الجھنیں ایسی کھڑی ہوجاتی ہیں جن کا کوئی حل نہیں ہے۔
اس نظریہ پر سب سے پہلا اعتراض تو وہی ہوتا ہے جو ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ اس میں’حروف‘ اور ’قراء ات‘ کو دو الگ الگ چیزیں قرار دیا گیاہے۔حالانکہ یہ بات کسی حدیث سے ثابت نہیں ۔
دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ حافظ ابن جریر طبری رحمہ اللہ ایک طرف تو یہ تسلیم فرماتے ہیں کہ ساتوں حروف منزل من اللہ تھے۔ دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورے سے چھ حروف کی تلاوت کو ختم فرما دیا حالانکہ اس بات کو باور کرنا بہت مشکل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اُن حروف کو یکسر ختم کرنے پرمتفق ہوگئے ہوںجواللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کی فرمائش پراُمت کی آسانی کے لیے نازل فرمائے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کااجماع بیشک دین میں حجت ہے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ ممکن معلوم نہیں ہوتا کہ جس چیز کا قرآن ہونا تواتر کے ساتھ ثابت ہو، اُسے وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دینے پرمتفق ہوجائیں۔
حافظ ابن جریررحمہ اللہ نے اس اعتراض کا جواب یہ دیا ہے کہ دراصل امت کو قرآن کریم کی حفاظت کاحکم ہوا تھا اور اسے ساتھ ہی یہ اختیار بھی دے دیا تھا کہ وہ سات حروف میں سے جس حرف کو چاہے اختیار کرلے، چنانچہ اُمت نے اس اختیار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک اجتماعی مصلحت کی خاطر چھ حروف کی تلاوت چھوڑ دی اور ایک حرف کی حفاظت پر متفق ہوگئی۔ اس اقدام کامنشاء نہ اُن حروف کو منسوخ قرار دینا تھا اور نہ اُن کی تلاوت کو حرام قرار دینا تھا، بلکہ اپنے لیے اجتماعی طور پر ایک حرف کا انتخاب تھا۔
لیکن یہ جواب بھی اس لیے کمزور معلوم ہوتا ہے کہ اگر صورت یہی تھی تو کیا یہ مناسب نہ تھا کہ اُمت اپنے عمل کے لیے خواہ ایک حرف کو اختیار کرلیتی، باقی چھ حروف کا وجود سرے سے ختم کرنے کے بجائے اُسے کم از کم کسی ایک جگہ محفوظ رکھتی، تاکہ اُن کا وجود ختم نہ ہو، قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے:
’’ إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَـہٗ لَحٰفِظُوْنَ ‘‘ (الحجر:۹)
’’بلا شبہ ہم نے قرآن نازل کیا ہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جب ساتوں حروف قرآن تھے تو اس آیت کا صاف تقاضا یہ ہے کہ وہ ساتوں حروف قیامت تک محفوظ رہیں گے اور کوئی شخص ان کی تلاوت چھوڑنا بھی چاہے تو وہ ختم نہیں ہوسکیں گے، حافظ ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اس کی نظیر میں یہ مسئلہ پیش کیا ہے کہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کھانے کے کفارے میں انسانوں کو تین باتوں کا اختیار دیا ہے، یا تو وہ ایک غلام آزاد کرے یادس مسکینوں کو کھاناکھلائے ، یادس مسکینوں کو کپڑے دے۔ اب اگر اُمت باقی صورتوں کوناجائز قرار دیئے بغیر اپنے عمل کے لیے ان میں سے کوئی ایک صورت اختیارکرلے تو یہ اُس کے لیے جائز ہے، اسی طرح قرآن کے سات حروف میں سے اُمت نے ایک حرف کو اجتماعی طور پر اختیار کرلیا، لیکن یہ مثال اس لیے درست نہیں کہ اگر امت کفارۂ یمین کی تین صورتوںمیں سے ایک صورت اس طرح اختیار کرلے کہ باقی صورتوں کو ناجائز تو نہ کہے لیکن عملاً ان کا وجود بالکل ختم ہوکر رہ جائے اور لوگوں کو صرف اتنامعلوم رہ جائے کہ کفارۂ یمین کی دو صورتیں اور تھیں جن پر اُمت نے عمل ترک کردیا، لیکن وہ صورتیں کیاتھیں؟ اُن کا جاننے والا بھی کوئی باقی نہ رہے تو یقینا اُمت کے لیے ایسے اقدام کی گنجائش نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پھر سوال یہ ہے کہ باقی چھ حروف کو ترک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟حافظ ابن جریررحمہ اللہ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں ان حروف کے اختلاف کی وجہ سے شدیدجھگڑے ہورہے تھے۔اس لیے حضرت عثمان نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورہ سے یہ مناسب سمجھا کہ ان سب کو ایک حرف پر متحد کردیا جائے، لیکن یہ بھی ایسی بات ہے جسے باور کرنا بہت مشکل ہے۔ حروف کے اختلاف کی بناء پرمسلمانوں کا اختلاف تو خود سرکار دو عالمﷺکے زمانے میں بھی پیش آیا تھا، احادیث میں ایسے متعدد واقعات مروی ہیں کہ ایک صحابی نے دوسرے صحابی کو مختلف طریقے سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے سنا تو باہمی اختلاف کی نوبت آگئی، یہاں تک کہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عمررضی اللہ عنہ تو حضرت ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے گلے میں چادر ڈال کر انہیں آنحضرت ﷺکی خدمت میں لے آئے تھے۔ اور حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حروف کا یہ اختلاف سن کرمیرے دل میں زبردست شکوک پیدا ہونے لگے تھے، لیکن اس قسم کے واقعات کی بناء پر آنحضرتﷺنے حروف سبعہ کو ختم کرنے کے بجائے انہیں حروف کی رخصت سے آگاہ فرمایا، اور اس طرح کوئی فتنہ پیدا نہیں ہوسکا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ بعید ہے کہ انہوں نے اس اسوۂ حسنہ پرعمل کرنے کے بجائے چھ حروف ختم کرنے کافیصلہ کرلیاہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پھر عجیب بات ہے کہ علامہ ابن جریررحمہ اللہ کے قول کے مطابق صحابہ رضی اللہ عنہم نے چھ حروف تو اختلاف کے ڈر سے ختم فرما دیئے اورقراء تیں (جو اُن کے قول میں حروف سے الگ ہیں)جوں کی توں باقی رکھیں، چنانچہ وہ آج تک محفوظ چلی آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ افتراق و اختلاف کا جو اندیشہ مختلف حروف پر قرآن کی تلاوت جاری رکھنے میں تھا کیا وہی اندیشہ قراء ات کے اختلاف میں نہیں تھا؟ جبکہ ان قراء توں کی روشنی میں بعض مرتبہ ایک ایک لفظ بیس بیس مختلف طریقوں سے پڑھاجاتا ہے؟ اگرچھ حروف ختم کرنے کامنشاء یہی تھاکہ مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو اور وہ سب ایک طریقہ سے قرآن کی تلاوت کیاکریں تو قراء توں کے اختلاف کو آخر کیوں ختم نہیں کیاگیا؟ جب قراء ات کے اختلاف کو باوجود مسلمانوں کے انتشار کوروکا جاسکتاتھا اورمسلمانوں کو یہ سمجھایاجاسکتاتھا کہ ان تمام طریقوں سے تلاوت جائز ہے تو یہی تعلیم حروف سبعہ کے باب میں فتنہ کا سبب کیوں سمجھ لی گئی؟ حقیقت یہ ہے کہ حافظ ابن جریررحمہ اللہ کے قول پر ’حروف سبعہ‘ اور ’قراء ات‘ کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف ایسی حیرت انگیز دو عملی منسوب کرنا پڑتی ہے جس کی کوئی معقول توجیہ سمجھ میں نہیں آتی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف اتنے بڑے اقدام کی نسبت کسی صریح اور صحیح روایت کی بناء پر نہیں بلکہ بعض مجمل الفاظ کی قیاسی تشریح کے ذریعہ کی گئی ہے۔ جن رِوایات میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جمع قرآن کا واقعہ بیان ہوا ہے اس میں اس بات کی کوئی صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے چھ حروف کو ختم فرما دیا تھابلکہ اس کے خلاف دلیلیں موجود ہیں جن کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ اب کسی صحیح اور صریح روایت کے بغیر یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُن چھ حروف کو بالکل بے نشان کردینا گوارا کرلیا جو آنحضرتﷺکی بار بار فرمائش پر بذریعہ وحی نازل ہوئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جمع و ترتیبِ قرآن کے نیک کام میں محض اس لیے تأمل رہا ہو کہ یہ کام آنحضرتﷺنے نہیں کیا، جنہوں نے قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کو محفوظ رکھنے میں اپنی عمریں کھپائی ہوں اور جنہوں نے منسوخ التلاوۃ آیات تک کو محفوظ کرکے اُمت تک پہنچایا ہو، اُن سے یہ بات بے انتہا بعید ہے کہ وہ سب کے سب چھ حروف کو ختم کرنے پر اس طرح متفق ہوجائیں کہ آج اُن حروف کا کوئی نام و نشان تک باقی نہ رہے، جن آیات کی تلاوت منسوخ ہوچکی تھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں بھی کم از کم تاریخی حیثیت میں باقی رکھ کر ہم تک پہنچایا ہے۔لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ ’حروف‘ جن کے بارے میں حافظ ابن جریررحمہ اللہ بھی تسلیم فرماتے ہیں کہ وہ منسوخ نہیں ہوئے، بلکہ محض مصلحۃً اُن کی قراء ت و کتابت ختم کردی گئی، اُن کی کوئی ایک مثال کسی ضعیف روایت میں بھی محفوظ نہ رہ سکی۔
یہی وجہ ہے کہ بیشتر محقق علماء نے حافظ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے اس قول کی تردید فرمائی ہے ۔(علوم القران:۱۱۹،۱۲۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے علاوہ متعدد علماء نے اس پر کئی ایک اعتراضات کئے ہیں۔ شیخ الزرقانی رحمہ اللہ نے مناھل العرفان میں کہاہے کہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے مؤقف پر بارہ اعتراضات وارد ہوتے ہیں، جنہیں مولانا قاری طاہر رحیمی صاحب نے دفاع قراء ات میں بھی درج کیا ہے ہم شیخ زرقانی رحمہ اللہ کے اعتراضات کو قاری طاہر رحیمی کی زبانی نقل کرتے ہیں:
(١) اس قول کا رجوع، لفظی اختلاف کی سات انواع تو کُجا اُن میں سے صر ف ایک کامل نوع کی طرف بھی نہیں ہوتا بلکہ صرف ایک نوع کے بعض حصے یعنی إبدال کلمہ بأُخریٰ علیٰ شرط الترادُف ہی کی طرف ہوتا ہے تو قراء ات متواترہ مکتوبۃ بین دفتي المصحف کی اس نوع کے علاوہ دیگر متعدد انواع جو تاقیامت باقی ہیں اُن انواع کے احاطہ سے یہ قول، قاصر اور اُن کے لیے غیر جامع ثابت ہوا۔ (مناہل: ۱۶۸)
 
Top