• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبعہ أحرف … تنقیحات و توضیحات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) قول ہذا کے قائلین کے نزدیک اس وقت سبعہ احرف میں سے صرف ایک حرف باقی ہے اور باقی چھ احرف کا قطعی کوئی وجود نہیں لیکن یہ حضرات کسی بھی دلیل سے اُن چھ احرف کی منسوخیت یا مرفوعیت قطعاً ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔
(٣) اس مسلک کے قائلین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُمت محمدیہﷺ کا صرف ایک حرف کے ثبوت اور بقیہ چھ اَحرف کے ترک پراجماع منعقد ہوچکا ہے لیکن اجماع کا یہ دعویٰ قطعاً بے دلیل ہے۔
(٤) ان حضرات کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ’’عہد عثمانی میں عثمانی مصاحف کا لکھوانا اُمت کی جانب سے احرف ستہ کے ترک اور صرف اُس ایک حرف کی بقاء و اقتصار پر اجماع ہے جوعثمانی مصاحف میں لکھاگیاہے‘‘ باوجود یہ کہ دلائل سے یہ اَمر ثابت ہے کہ عثمانی مصاحف میں حرفاً حرفاً ساتوں احرف باقی ہیں۔
(٥) ان حضرات کایہ بھی کہنا ہے کہ ’’عہد عثمانی میں اختلاف قراء ات کی وجہ سے اُمت کا اس حد تک تنازع ہوا کہ بعض نے بعض کی تکفیر تک شروع کردی اور اس فتنہ پردازی کے خوف سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اُس وقت کے بقید حیات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ مناسب سمجھا کہ سب لوگوں کوایک ہی حرف پرجمع کرکے باقی چھ احرف کو ترک کردیا جائے۔‘‘ لیکن ان حضرات کی توجہ اس جانب مبذول نہ ہوسکی کہ تعدُدِ وجود قراء ت تو درحقیقت منجانب اللہ اُمت محمدیہﷺکے ساتھ رحمت کا معاملہ ہے اور ان وجود کاتو خود حضورعلیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کرکے تخفیف کی درخواست فرمائی تھی اور متعدد وجوہ قراء ات کا حوالہ دے کر ہی تو حضورعلیہ السلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزاع و جدال کاعقدہ حل فرمایاتھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کے تسلیم کرنے پر آمادہ کیا تھا پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس فعل و سلوک نبویﷺ کی خلاف ورزی کرکے اللہ تعالیٰ کی رحمت و تخفیف والے اُس دروازے کو کیونکر بند کرسکتے تھے جس کو ذات خُداوندی نے خاص اُمت اسلامیہ کے لیے مفتوح فرمایا تھا۔ (صفحہ:۱۶۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) حضور اقدسﷺنے اپنے قول و فعل کے ذریعہ اس امر کی تقریر فرمائی ہے کہ کوئی بھی شخص، احرف سبعہ نازلہ میں سے کسی بھی حرف کے موافق پڑھے اُسی میں وہ حق و صواب طریقہ پر پہنچے گا۔ اور کسی بھی شخص کے لیے قطعاً یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی بھی شخص کو احرف سبعہ نازلہ میں سے کسی بھی حرف کے موافق پڑھنے سے منع کرے۔ چنانچہ آپﷺنے اختلاف قراء ات کی بابت باہم اختلاف کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک صحابی سے یہی فرمایا ھکذا أنزلت، أصبت، أحسنت، نیز جب اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کواختلاف قراء ات کے تسلیم کرنے کے بارے میں کچھ تردّد لاحق ہوا تو حضور اقدسﷺنے اُن کے سینے پر دست مبارک مارکر اُن کے تردّد کو دور فرما دیا۔ علی ہذا ارشاد نبویﷺ: ’’فَأَیُّمَا حَرْفٍ قَرَئُوْا عَلَیْہِ فَقَدْ أَصَابُوْا‘‘ نیز روایت ابن مسعودرضی اللہ عنہ میں فرمان عالیٰ ’’کلاکما محسن‘‘ اور روایت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ میں ارشاد نبوی ’’فَأَیَّ ذٰلِکَ قَرَأْتُمْ أَصَبْتُمْ‘‘ نیز حضورعلیہ السلام کا، اختلاف قراء ات کامقدمہ لے کر حاضر خدمت ہونے والے کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ (عمر فاروق رضی اللہ عنہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وغیرھما) کے معارضہ پران کی موافقت نہ فرمانا بلکہ ان کی تردید فرما کرہر دو طُرق اختلاف قراء ات کی تصدیق فرمانا ، نیز ارشاد نبویﷺ ’’فَلَا تَمَارَوْا فِیْہِ فَإِنَّ الْمِرَائَ فِیْہِ کُفْرٌ‘‘۔ یہ تمام اُمور بلاریب اس امر کی دلیل ہیں کہ کسی بھی شخص کو نازل شدہ احرف سبعہ میں سے کسی بھی حرف کے موافق تلاوت کرنے سے منع کرنے کی قطعی ممانعت ہے۔ایسی صورت حال میں یہ کہنا کیونکر درست ہے کہ ’’ عہد عثمانی میں صرف ایک حرف کو باقی رکھ کر باقی چھ حروف کو متروک قرار دے دیا گیا تھا۔‘‘ (صفحہ :۱۴۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧) مصاحف عثمانیہ رضی اللہ عنہ کو اُن صحف بکریہ سے نقل کیا گیا تھا جو اختلاف حروف قراء ات کے سبب اقطاراسلام میں نزاع و شقاق کی صورت حال پیدا ہونے سے پہلے لکھے گئے تھے اور صحف بکریہ ساتوں احرف کے جامع و حامل تھے، کیونکہ اُس وقت تک نزاع و شقاق کی وہ صورت حال پیدا نہ ہوئی تھی جوان حضرات کے خیال کے مطابق صرف ایک حرف پر اقتصار و اکتفاء کی متقاضی و باعث بنی اور یہ بات کسی بھی دلیل سے ثابت نہیں کہ عہد عثمانی رضی اللہ عنہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صحف بکریہ میں سے کسی ایک حرف کوبھی ترک کیا ہو چہ جائیکہ پورے چھ کے چھ احرف ہی کو ان حضرات نے اُڑا دیا ہو۔ اگر ایساہوتا تو یہ چیز ہم تک متواتراً منقول ہوتی باوجود یہ کہ غیرمتواتر طریق سے بھی یہ چیز ثابت نہیں ہوئی، معلوم ہوا کہ عہد عثمانی میں چھ احرف کی متروکیت کاقضیہ قطعی بے بنیاد ہے۔ (صفحہ :۱۷۰)
(٨) اگر قائلین مسلکِ ہذا کے قول کے مطابق عہد عثمانی میں اُمت چھ احرف کے ترک اور صرف ایک ہی حرف کے ابقاء پر متفق ہوگئی ہوتی تو ناممکن ہے کہ اس کے بعد بھی علماء خواہ مخواہ ان اَحرفِ سبعہ کی تفسیر کے متعلق چالیس اَقوال کی حد تک باہم اختلاف کرتے اور قائلین مسلک ہذا کے علی الرغم یہ سب علماء اس اَمر پر متفق الرائے ہوجاتے کہ یہ ساتوں احرف باقی و ثابت ہیں جبکہ اجماع علماء ، حجت ہے لہٰذا ان ساتوں ہی احرف پر باقی و ثابت تسلیم کرنا ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٩) اگر یہ تسلیم بھی کرلیں کہ بزمانۂ خلافت عثمان رضی اللہ عنہ، اقطار الارض میں نزاع مسلمین کی وجہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اس بات پر مجبور ہوگئے تھے کہ سب مسلمانوں کو تلاوت قرآن کے بارے میں صرف ایک ہی حرف پرجمع کردیا جائے تو پھر بھی یہ اشکال ہے کہ بقاعدۂ الضرورۃ تقدر بقدرھا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ایسی صورت حال میں صرف قراء ات کی حد تک تو ان چھ احرف کی ممانعت کردیتے مگر کم اَز کم تاریخ کے صفحات میں تو ان کے تذکرہ کو ضرور برقرار رکھتے باوجود یہ کہ یہ احرف ستہ نہ تلاوۃًمنسوخ ہیں نہ حکماًاور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم و سلف صالحین و اکابر عظام نے تو ان سے بھی کمتر چیزیں مثلاً آیات منسوخہ، قراء ات شاذہ، احادیث منسوخہ بلکہ احادیث موضوعہ تک اوراق تاریخ میںمحفوظ کردی ہیں۔پس جب تاریخ میں بھی ان احرف ستہ مترادفہ متروکہ کاکوئی ذکر موجود نہیں تو لامحالہ تسلیم کرنا ہوگا کہ قراء ات متداولہ میں بھی یہ سب کے سب احرف ثابت و باقی ہیں (معلوم ہواکہ احرف سبعہ،کلمات مترادفہ کے معنی میں نہیں بلکہ سبعہ لغات وغیرہ ان احرف سبعہ کے مصداق ہیں۔ ) (صفحہ:۱۷۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٠) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دفاع قرآن اور محافظت قراء ات میں اس قدر متصلب و بیدار مغز و محتاط تھے کہ جہاں کہیں کوئی معمولی سی نئی بات بھی اپنے اَخذ کردہ طریقۂ اَدا کے برخلاف سنتے فوراً پوری ہمت و تندہی کے ساتھ اس کے خلاف برسرپیکار ہوجاتے اپنے مؤقف پر انتہائی سختی و مضبوطی کامل جرأت وقوت کے ساتھ جم جاتے اور کامل تشفی و تسلی ہوئے بغیر قطعاً اس سے ہٹنے کا نام نہ لیتے۔دیکھئے ! ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ اپنی قراء ات میں فی الواقع حق پر تھے اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے وہ یہ بھی کہتے جارہے تھے کہ مجھے یہ قراء ات جناب رسول اللہﷺنے پڑھائی ہے مگر اس کے باوجود عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اُن کی ایک نہ سُنی اور ان کوکشاں کشاں خدمت نبویہﷺ میں لے آئے اور فیصلہ کے خواستگار ہوئے۔ اس پر رسول اللہﷺنے ہشام رضی اللہ عنہ کی قراء ت کی تصویب فرما دی تب عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اُنہیں چھوڑا۔ ایسی صورت حال میں یہ قطعاً ناممکن و مستبعد ہے کہ عہد عثمانی رضی اللہ عنہ میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے چھ احرف کے ترک پراجماع کرلیاہو۔ (مناہل: ۱۴۴،۱۴۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١١) قراء اتِ حاضرہ متداولہ میں الفاظ مترادفہ نیز لغات قبائل وغیرہ کی قسم سے مختلف اَنواع کااختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس مذہب کے قائلین کی رائے کے موافق، باوجود اس قد رکثرت و وسعت کے پورے کے پورے اختلاف کارجوع صرف ایک ہی حرف کی طرف ہورہا ہے، جو باطل ہے۔
(١٢) احرف سبعہ کی حکمت، قرآنی اداء میں اُمت اسلامیہ کو تخفیف و آسانی کا مہیا کرنا ہے اور یہ حکمت تبھی باقی رہ سکتی ہے جبکہ پورے کے پورے سبعہ اَحرف کو باقی مانا جائے لہٰذا چھ احرف کی متروکیت کا قول غلط ہے۔(مناہل: ۱۷۲)
ان کے علاوہ مزید چند ایک اعتراضات ایسے ہیں جو ابن جریررحمہ اللہ کے مؤقف کی ترجیح میں ہمارے سامنے حائل ہیں:
(١) اس بارے میں ایک اہم دلیل یہ ہے کہ جب سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کوجمع کرنے کا پروگرام مرتب کیا تو سب سے پہلے صحابہ کو خطاب فرمایا جس میں صحابہ سے اس بات کا اِقرار لیا گیاکہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا ہے کہ قرآن سبعہ اَحرف پر اترا ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ اتنے صحابہ نے ہاتھ کھڑے کرکے گواہی دی کہ ان کا شمارمشکل تھا۔
اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال پیداہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اگر حروف ستہ کو منسوخ کرنا تھا، جیساکہ ابن جریررحمہ اللہ کامؤقف ہے، تو صحابہ سے نزول سبعہ اَحرف کے باب میں تائیدکی ضرورت ہرگز نہ تھی بلکہ سوال یوں کرتے کہ کیا تم جانتے ہو کہ سبعہ اَحرف کو اللہ رب العزت نے انسانوں کی آسانی کی خاطراتارا تھا اور اُمت کو یہ اختیاربخشا تھا کہ اس میں سے جس کو چاہے اختیارکرلیں۔ اور آج چونکہ اُمت میں ایسا اختلاف پیدا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ضروری ہے کہ َاحرف ستہ کو ختم کردیاجائے اورایک حرف کو باقی رکھ کر اختلاف کاسدباب کیا جائے، اس پرمجھے جمیع اصحاب کی رائے درکار ہے۔ اور صحابہ اس پر اتفاق کرلیتے۔ یہ صورت تھی کہ وہ صحابہ سے مشورہ کرتے اور اُمت کے سامنے واضح ہوجاتا کہ واقعی احرف ستہ،ّ جو کہ صرف مترادفات کا اختلاف ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے باجماع صحابہ ختم فرمادیے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے برعکس حضرت عثمانt کا صحابہ سے یہ پوچھنا کہ سبعہ اَحرف کاواقعی نزول ہواہے؟ تواس بات کا تقاضا کرتاہے کہ آپ سبعہ اَحرف کی بقاء کے لیے اور اس کے مطابق مصاحف تیارکرنے کے لیے صحابہ سے بھی مہر توثیق ثبت کروانا چاہتے تھے۔لہٰذا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا مذکورہ عمل ہی احرف ستہ کے عدم تنسیخ و توقیف پر ظاہر و باہر ہے چہ جائیکہ مزید خارجی قرائن بھی اس کے مؤیدہوں۔
(٢) امام ابن جریررحمہ اللہ کے مؤقف کے مطابق اَحرفِ سبعہ سے مراد صرف مترادفات کااختلاف ہے۔ تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اس کے علاوہ جو اختلاف آج کل موجود ہے وہ کیا اَحرف سبعہ کے نزول سے پہلے کا ہے؟ اور اگر پہلے کا ہے تو کیا صرف قریش کے لیے ان جمیع لہجات کو نازل کیا گیاتھا؟ یعنی امالہ بھی ان کے لیے نازل کیا گیا اور تحقیق بھی؟ابدال بھی ان کی مشکل کو رفع کرنے کے لیے اُتارا گیا اور تسہیل کے نزول کی بھی یہی غرض تھی؟ اور یہی مسئلہ ادغام و اظہار وغیرہ کے نزول میں پیش نظر تھا؟۔ تو یہ بات تو عملی طور پرممکن ہی نہیں ہے کہ ایک ہی قبیلہ کے افراد کئی ایک لہجات کے حامل ہوں جبکہ علماء لغت اور اَئمہ قراء ات نے اس بات کی صراحت بھی کی ہے کہ فلاں طرز اَدا کا تعلق فلاں قبیلے سے تھا مثلاً ھمزہ کے بارے میں یہ قول معروف ہے کہ قریش ھمزہ نہیں پڑھتے تھے بلکہ ابدال کرتے تھے وغیرھم۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ نہیں یہ جمیع اختلافات بعد اَزاں نازل ہوئے ہیں توکب نازل ہوئے؟ اور ان کے بطور قرآن نزول کی تاریخ اور دلیل کیاہے؟ آپ انتہائی محنت اور جانفشانی سے ذخیرۂ حدیث کھنگال لیں تو سوائے ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف ‘‘کے، ایسی کوئی ایک روایت بھی نہ ڈھونڈ سکیں گے۔ اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان کا نزول ہوگیا تھا تو پھر باقی جمیع احرف کو ختم کرکے صرف انہی اختلافات کو باقی رکھنے کی کیا دلیل ہے؟ یقیناًمذکورہ سوالات کا اس کے علاوہ کوئی بھی جواب ممکن نہیں ہے کہ یہ جمیع اختلاف قراء ات سبعہ احرف کے ہی ذیل میں داخل ہیں اور سبعہ احرف ہی کے ذریعہ ان کانزول ہواہے اور انہیں اختیارکرنے کی اجازت دی گئی تھی۔لہٰذا سبعہ اَحرف کی جو تشریح حافظ ابن جریررحمہ اللہ نے فرمائی ہے وہ ایک ناقص، مرجوح اور ناقابل فہم تشریح ہے جو اپنے اندر بے شمار لاینحل پیچیدگیاں لیے ہوئے ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ اَحرف بمعنی سبع لغات متفرقۃ فی القرآن
اس قول کے قائلین میں حضرت عمررضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ، ابن عطیہ رحمہ اللہ، امام بیہقی رحمہ اللہ، ابوحاتم السجستانی رحمہ اللہ، ثعلب رحمہ اللہ، احمد الازھری رحمہ اللہ اور امام دانی رحمہ اللہ وغیرہم شامل ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عمررضی اللہ عنہ
’’نزل القرآن بلغۃ مضر‘‘ (فتح الباری: ۹؍۲۷)
’’قرآن کریم مضر کی لغت میں نازل کیا گیا ہے۔‘‘
٭ حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں:
’’وعین بعضھم فیما حکاہ ابن عبد البر السبع من مضر أنھم ھذیل وکنانۃ وقیس وضبۃ وتیم الرّباب وأسد بن خزیمۃ وقریش فھذہ قبائل مضر تستوعب سبع لغات۔‘‘
’’بعض لوگوں نے لغاتِ مضر کی تعیین بھی کی ہے۔ جیسا کہ ابن عبدالبررحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مضر کی سات لغات سے ھذیل، کنانہ، ضبۃ، قیس، تیم الرباب، اسد بن خزیمہ اور قریش مراد ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ
’’نزل القرآن علی سبع لغات منھا خمس بلغۃ العجز من ھوازن والعجز سعد بن بکر وجشم ابن بکر ونصر بن معاویۃ و ثقیف و ھؤلاء کلھم من ھوازن ویقال: ھم علیا ھوازن۔‘‘(فتح الباری:۸ ؍۲۷)
’’قرآن کریم سبع لغات پر نازل کیا گیاہے جن میں پانچ عجر ھوازن سے ہیں جن میں سعد بن بکر، جیشم بن بکر، نصر ابن معاویہ اور ثقیف کی لغات شامل ہیں، انہیں علیا ھوازن بھی کہا جاتاہے۔‘‘
 
Top