• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبعۃ اَحرف سے کیا مراد ہے؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرے قول میں بیان ہونے والے نظریہ کی مزید تردید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرمﷺتمہیں حکم دیتے ہیں کہ ’’ویسے پڑھو جیسے سکھائے گئے ہو۔‘‘( (رشد، قراء ات نمبر، حصہ اول:ص۱۰۷)) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے بالصراحت ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی کوئی بھی قراء ت جائز نہیں إلایہ کہ نبی اکرمﷺسے اس کا منقول ہوناثابت ہواور آپﷺسے سنی گئی ہو۔ چنانچہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے قول کو بھی اسی تاویل پرمحمول کیاجائے گا۔ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول ’’فَاقْرَئُ وْا کَمَا عُلِّمْتُمْ‘‘ میں ثابت ہونے والی دلیل سے ثابت ہوتاہے۔ مزید برآں رسول اللہﷺنے اپنے بعض اَقوال میں فرمایاکہ جبریل علیہ السلام نے انہیں کہاکہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنی اُمت کو سات حروف پر قرآن پڑھایئے۔‘‘ یہ دلیل بھی اس بات کوصراحتاً ثابت کرتی ہے کہ جس قراء ت کو نبی اکرمﷺنے تلاوت نہیں کیااور اُمت کونہیں سکھلایا، اس کو احرف سبعہ کے ضمن میں نہیں لایا جاسکتا لہٰذا اصحاب کرام کے جو واقعات اَحادیث میں مذکور ہیں کہ انہوں نے قراء ت میں اختلاف کیااور ابتداء امر میں بعض پراس کی قراء ت کاانکار کیا تو ان سب واقعات میں کسی سے بھی یہ منقول نہیں کہ کسی صحابی نے اپنی طرف سے کچھ پڑھا ہو بلکہ ہر ایک کا یہ کہنا ہے کہ’’مجھے اس طرح نبی اکرمﷺنے پڑھایا ہے۔‘‘
ان دلائل سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ سبعہ حروف کے ذریعے کلمات و حروف کو تبدیل کرکے پڑھنے کی رخصت عام نہیں بلکہ اس بات سے مقید ہے کہ جو آپﷺ پرنازل ہوا اور آپ نے آگے سکھلایا اُس پر ہی تلاوت جائز ہے۔ کسی صحابی کے لیے یا بعدمیں اُمت کے کسی بھی فرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی ایسی قراء ت کی تلاوت کرے جو نبی اکرمﷺنے امت کونہیں سکھائی الغرض قرآن میں کسی بھی لفظ کاہم معنی متبادل لفظ اپنی طرف سے تلاوت نہیں کیا جاسکتا۔
اگر یہ کہا جائے کہ :
’’سبعہ احرف سے درحقیقت عدد مراد نہیں بلکہ یہ کثرت کے مفہوم کے لیے استعمال ہوا ہے جس طرح کہ اکثر اہل عرب کی عادت ہے۔‘‘
تو اس اشکال کی بھی حقیقت یہ ہے کہ امر واقعہ ایسے نہیں،کیونکہ واضح نصوص (جن کا ذکر تفصیل سے ہوچکا ہے) عدد کو ثابت کرتے ہیں اور حروف کی حد بندی پردال ہیں اور کسی بھی جگہ پرسبعہ کے علاوہ کوئی اور عدد استعمال نہیں ہوا، اس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ سبعہ سے خاص عدد ہی مراد ہے۔ (مزید تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیں)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قول ثالث:
تیسراقول کہ’’احرف سبعہ سے اَحکام ومعانی وغیرہ کی اقسام مراد ہیں۔‘‘
صاحب ِ قول کے اس شبہ کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حدیث ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے ظاہری متن کو(جسے امام حاکم رحمہ اللہ وغیرہ نے روایت کیا ہے) سمجھنے میں غلطی کھائی ہے جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺنے کہا:
’’پہلی کتاب ایک دروازے سے ایک ہی حرف پرنازل ہوئی، جبکہ قرآن کریم سات دروازوں سے سات حروف پرنازل ہوا ہے:ڈرانے والا، حکم دینے والا، حلال کرنے والا، حرام کرنے والا، اپنی مراد میں واضح یعنی محکم، متشابہ، اور گذشتہ قوموں کے حالات بتانے والا۔‘‘( اَحادیث ابن مسعودرضی اللہ عنہ،(رشد، قراء ات نمبر، حصہ اول:ص۱۱۲،۱۱۳))
چنانچہ انہیں گمان یہ ہوا کہ یہ مذکورہ انواع ’احرف ‘ کی تفسیر ہیں،جبکہ فی الحقیقت ایسا نہیں، کیونکہ نبی اکرمﷺنے دراصل اس حدیث میں دروازوں اور حروف کے بارے میں خبردیتے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ ایک تیسری چیز کی بھی خبر دی ہے جس کا پہلی دو سے کوئی تعلق نہیں، جوقرآن کے معانی ومقاصد کے گرد گھومتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ساتوں کلمات(جو کہ معانی واَحکام سے متعلق ہیں) حال ہونے کی بناء پرمنصوب ہیں نہ کہ مجرور … (یعنی ’’علی سبعۃ أحرف‘‘کابدل بنتے ہوئے مجرور نہیںبلکہ حال بنتے ہوئے منصوب ہیں)لہٰذاعبارت کی تقدیر یوں ہے کہ قرآن نازل کیاگیا اس حال میں کہ ڈانٹنے والا ہے، حکم دینے والاہے… الخ۔
اس کے علاوہ روایات سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ حروف سے مراد پڑھنے کی صورتیں ہی ہیں نہ کہ اَصناف معانی واَحکام!جس طرح کہ نبی اکرمﷺسے مختلف احادیث میں یہ الفاظ منقول ہیں کہ مجھے جبریل علیہ السلام پڑھایاکرتے تھے اور عمررضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کوسنا کہ وہ اس صورت میں سورۂ فرقان کی تلاوت فرمارہے تھے جو نبی اکرمﷺنے مجھے نہیں سکھائی تھی۔ سو ان اَحادیث کی موجودگی میں کہ جن میں پڑھنے یا پڑھانے کاتذکرہ صراحت سے موجود ہے، سبعہ احرف سے مزعومہ مفہوم کس طرح اَخذ کیاجاسکتا ہے۔جو اصحاب علم ان کو معانی و اَحکام کی اَصناف قرار دیتے ہیں وہ اس فرمانِ نبوی کاکیامفہوم بیان کریں گے کہ ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے ایک صورت پر پڑھایا پھر دوسری صورت پر…‘‘ کیا فقط ’حلال‘ بتانے والی یا ’حکم‘ثابت کرنے والی،یازجر و توبیخ والی آیات پر جبریل علیہ السلام نے پہلے تلاوت کروائی اورایک صنف کی تلاوت کے وقت دوسری اصناف کونظر انداز اور حذف کردیاپھر دوسری صنف پرتلاوت کروائی پھر تیسری صنف پر؟اس غلط مفہوم کی تردید کے لیے ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عمررضی اللہ عنہ سے حدیث ’احرف سبعہ‘ روایت کرنے والے تابعی ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کاقول بے حد کافی ہے کہ جس کاشمار تابعین میں حفاظ کے امام کی حیثیت سے ہوتا ہے، فرماتے ہیں :مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ یہ سات حروف ایسے معاملے میں ہوتے ہیں جو حرام و حلال میں مختلف نہیں ہوتا۔واضح رہے کہ ’بلغنی‘سے مراد یہی ہے کہ وہ صحابہ سے یہ بات روایت کررہے ہیں۔ اسی طرح ابن جریررحمہ اللہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہاکہ سبعہ احرف حلال و حرام اور امر و نہی میں باہم مختلف نہیں ہوتے بلکہ ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ’تَعَال‘ کی جگہ ’ھَلُمَّ‘ یا ’أقبل‘ کہہ دیاجائے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ جس طرح ہماری قراء ت میں ’’إنْ کَانَتْ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً‘‘ہے اور ابن مسعودرضی اللہ عنہ والی قراء ت (تفسیر ابن جریر:۱؍۵۳) میں ’’إنْ کَانَتْ اِلَّا زَقْیَۃً وَاحِدَۃً‘‘ کے الفاظ ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قول رابع:
سبعہ اَحرف کے بارے میں یہ نظریہ کہ قرآن مجید کی سات قراء ات سے مراداہل عرب کی سات مشہور اور فصیح لغات ہیں جوکہ قرآن مجید میں زیر استعمال ہیں اور کچھ لغات کااستعمال قرآن میں زیادہ ہے اور کچھ کا قدرے کم…
اگرچہ یہ قول گزشتہ اَقوال کی نسبت قوی معلوم ہوتا ہے مگر چندچیزیں ایسی ہیں جو اس میں ضعف کا باعث ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس قول کے قائلین کا ان لغات فصحٰی کی تعیین میں اور ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ جبکہ احرف سبعہ کے ضمن میںواقعہ یہ ہے کہ حدیث میں ان کے عدد کا تعین نہ صرف موجود ہے بلکہ اکثر احادیث بھی اس تعداد پردلالت کرتی ہیں۔ لہٰذا اگر ان سے مراد وہ ہے جو یہ کہتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ سے ان کا یہ مفہوم کیوں مخفی رہا حالانکہ انہیں یہ حروف پڑھائے اور سکھائے گئے تھے(جیسا کہ پیچھے گزر چکاہے) انہوں نے حروف پر تلاوت بھی کی اور ہم تک ان حروف کا اکثر حصہ بھی پہنچاہے جو کہ آج بھی ہمارے سامنے ہے۔
جہاں تک ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول دو آثار کاتعلق ہے تو ان کی اَسانید میں ضعف کے باعث وہ قابل حجت نہیں،کیونکہ ان میں سے ایک اثر کو توقتادہ نے ایک غیر معین مجہول راوی سے روایت کیاہے ،لہٰذاوہ روایت’منقطع‘ ہے جبکہ دوسری روایت کلبی سے مروی ہے جو کہ ’کذاب‘ ہے۔ (دیکھئے صفحہ نمبر ۱۵۱)
انہی اعتراضات میں سے دوسرا یہ ہے کہ ایساشخص جو ان قراء ات کا علم رکھتا ہے اوران کوسمجھتا ہے یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ یہ قراء ات فقط ان لغات پر ہی منحصرنہیں جن کا ذکر ہوا ہے بلکہ اسی قول کے اعتقاد رکھنے والے لغت کے ماہرین بھی قرآن مجید میں استعمال ہونے والی لغات کے ضمن میں ان کی ایک طویل فہرست گنواتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کبھی ہمیں بھی ان کی معلومات پرشک کا گمان ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ابن عبیدرحمہ اللہ نے ایک کتاب تصنیف کی ہے۔جس میں اس نے بے شمار مفردات قرآن کو موضوع بناتے ہوئے ان کی نسبت مختلف لغات عرب کی طرف کی ہے، جبکہ وہ لغات صرف وہی نہیں جو اس قول کے قائلین اور خود ابن عبیدرحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں۔مزید برآں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول بھی (جو انہوں نے ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے فرمایا) اس نظریہ کی تردید کرتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ قرآن لغت قریش پرنازل ہوا ہے سو آپ لوگوں کو لغت قریش کے مطابق ہی پڑھائیے اور سکھلائیے نہ کہ ہذیل کی لغت کے مطابق (ایضاح الوقف والابتداء للانباری:۱؍۱۳) اسی طرح صحیح بخاری میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا قول بھی (جو کہ مصحف کی کتابت کے وقت کہاگیا) صحیح طور پر ثابت ہے کہ:جب تمہارا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قرآن کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو اس کو لغت قریش کے مطابق لکھ لیا کرو کیونکہ قرآن ان کی لغت پرنازل ہوا ہے۔ (صحیح البخاري میں کتاب التفسیر’باب جمع القرآن ‘ : ۱؍۲۲۶)
قرآن کریم کے بارے میں ان دو آثارِ صحیحہ سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ قرآن میں صرف ایک ہی لغت اور ایک ہی زبان ہے جوکہ صرف اور صرف قریش کی ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قول میں تو ابن مسعودرضی اللہ عنہ کو اس بات سے منع بھی کیا گیا ہے کہ وہ کسی شخص کو لغت ہذیل میں قرآن مت پڑھائیں جبکہ ہذیل عرب کے ان بڑے اور اہم قبائل میں سے ہی ایک ہے جن کے بارے میں ابن عبیدرضی اللہ عنہ وغیرہم کایہ کہنا ہے کہ قرآن ان کی لغت پر نازل ہوا۔ ان دونوں صحیح آثار سے ثابت ہونے والی وضاحت کے بعد ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ اپنے ان بھائیوں سے پوچھیں کہ وہ ان آثار کا کیا جواب دیتے ہیں؟ اور کون سی ایسی تاویل کرتے ہیں جس کی مدد سے وہ ان آثار سے نکلنے کی راہ پاسکیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قول خامس :
ابن جریررحمہ اللہ کے اس قول کی دو قسمیں ہیں:
(١) پہلی تو یہ ہے کہ ان حروف سبعہ سے مراد یکساں معانی رکھنے والے مختلف الفاظ کا استعمال ہے اور ابن مسعودt کی مثال سے اس پر دلیل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا (یہ احرف سبعہ کی مثال تو ایسے ہے جیسے کوئی شخص ھَلُمَّ کی بجائے تعال اور اَقْبِلْ کہہ دے کہ جن سب کامعنی یکساں ہے)
سو ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ اس مثال سے ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی مراد حصر نہیں بلکہ صرف اَحرف سبعہ کی وجہ سے رونما ہونے والے اختلافات میں سے کسی ایک کی طرف ذہن کو متوجہ کرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی ثابت شدہ قراء ات کا استقراء اور استعمال ابن جریررحمہ اللہ کے اس قول کا بخوبی رد کرتاہے، کیونکہ ان میں اختلاف وتغایر کی متعدد صورتیں استعمال ہوئیں ہیں جن میں ایک ’ترادف‘بھی ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی ہے کہ اہل عرب کا باہمی اختلاف دراصل لہجات میں ہے۔ادغام کرنے، نہ کرنے، کسی حرف کو پستی سے یافتح سے پڑھنے، جھٹکا دینے یانہ دینے، لمبا کرنے یانہ کرنے اور اسی طرح کی دیگر صورتوں میں فی الواقع اختلاف ہے اورقراء ات کا بڑا مقصد بھی دوسرے طرز اداکی مشقت کو دور کرنا ہے جو ھَلُمَّ کی جگہ، اَقْبِلْ اور تَعَال پڑھنے کی بجائے ان صورتوں میں زیادہ ہے اور ادا سے متعلق ہیں اور اوپر ذکر ہوئی ہیں۔
چنانچہ احرف کی اس طور تفسیر کرنے کانتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ باقی تمام تغیرات جن میں لہجات کااستعمال بھی ہے اپنی اصل صورت پر ہی قائم رہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہ ہونے پائے جبکہ یہ بات اس حکمت کے عین منافی ہے جس کے لیے احرف سبعہ کو نازل کیاگیااور وہ حکمت یہی تھی کہ مختلف زبانیں بولنے والی امت سے مشقت دور کی جائے۔ زبانوں کا باہمی اختلاف بھی فی الحقیقت لہجات کاہی ہے جو کہ ثابت شدہ قراء ات متواترہ سے ہی ختم ہوسکتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) ابن جریررحمہ اللہ کے قول کی دوسری شق یہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک مصحف کے علاوہ جوکہ ایک حرف پرتھا باقی چھ حروف کو ختم کردیااور امت پران چھ کی تلاوت،ممنوع و منسوخ کردی۔
ابن جریررحمہ اللہ کایہ قول عجیب و غریب ہونے کے ساتھ ساتھ غایت درجہ ضعیف بھی ہے،کیونکہ ان کے قول میں اس بات کادعویٰ کیاگیا ہے کہ اجماع صحابہ کے ساتھ قرآن کے بعض حصے کومنسوخ کردیاگیاتھا جبکہ ان حروف میں سے ہر ایک حرف منزل ’قرآن‘ ہے۔ حضرت عثمانt کو یا صحابہ میں سے کسی ایک کو بلکہ تمام صحابہ کو بھی یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ کسی صریح نص کے بغیر قرآن کابیشتر حصہ لغو قرار دے دیں۔
اگر ہم ابن جریررحمہ اللہ کاساتھ دیتے ہوئے لمحہ بھر کو بھی یہی فرض کرلیں کہ دراصل بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کو ان حروف پرتلاوت کرنے ، کسی ایک کو اختیار کرنے اورباقی کو چھوڑ دینے کااختیار دیا گیاتھااورایسانہیں تھا کہ امت پر تمام حروف کے ساتھ قراء ت لازمی تھی کیونکہ اللہ کی طرف سے یہ ایک رخصت تھی جو اللہ تعالیٰ نے اُمت کے لیے نازل کی۔ لہٰذا اگر انہوں نے ایک رخصت کو امت کے حالات کے پیش نظر حذف کردیاتو اس پر کیامضائقہ ہے…؟
تو اس پر بھی ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اختیار اور رخصت ان حروف میں کسی پر قراء ت کی صرف اس حد تک تھی کہ جو قاری کو آسان اور سہل معلوم ہو اس پر تلاوت کرسکتا ہے نہ کہ اس کو ان حروف کو آگے نقل کرنے کے بارے میں بھی اختیار دیاگیاتھا بلکہ امت پر تو لازم تھاکہ ان جملہ حروف کو آگے روایت کرے اوربعد میں آنے والوں تک بحفاظت پہنچائے، کیونکہ ہر ایک حرف بمنزلہ ایک آیت کے ہے اور حضرت عثمان و دیگر صحابہ قطعاً یہ حق نہیں رکھتے تھے کہ ان میں سے کچھ بھی لغو اور بے فائدہ قرار دے کر حذف کروا دیں۔
اس نکتے کی وضاحت ایک مثال سے سمجھئے کہ سفر میں مسلمان کو روزہ رکھنے یانہ رکھنے میں اختیار ہے چاہے تو عزیمت پرعمل کرتے ہوئے روزہ رکھ لے اور اگر چاہے تو رخصت پرعمل کرلے۔لیکن اگر وہ چاہے کہ اس رخصت کو ہی باطل قرار دے لے اورنہ صرف اپنے آپ پر بلکہ باقی امت پر بھی سفر میں روزے کو لازم کردے تو کیااس کا یہ طرز ِعمل درست ہوگا۔یقیناً نہیں بلکہ اس کے لیے لازمی ہے کہ اس رخصت کو آگے بھی روایت کرے۔ سو سبعہ حروف میں کسی ایک پر تلاوت کے اختیار میں اور ایک کو باقی رکھ کر باقی چھ حروف کو حذف کردینے میں بھی وہی فرق ہے جو سفر میں رخصت و عزیمت کے اختیار کو نقل کرنے میں یا روزے کی رخصت کو باطل کردینے میں موجود ہے۔
چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ اس رخصت یعنی حروف سبعہ میں سے کسی پر تلاوت کی رخصت کو باطل اور لغو قرار دے بیٹھیں جبکہ اس کی حکمت آج تک موجود ہے۔بلکہ مختلف زبانوں اور مختلف نسلوں کے لوگوں کے دائرہ اسلام میں آجانے کی بدولت اب اس کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔کیا ایک قریشی پر ہذیل کی زبان کے مطابق تلاوت کرنا بنسبت ایک عجمی کے عربی قرآن کو تلاوت کرنے سے زیادہ مشکل ہے؟یقیناًنہیں … کیونکہ قریشی اور ہذیل کی لغات باوجود فروعی فرق کے حقیقتاً تو ایک ہی زبان ہے جبکہ عربی اورعجمی کی زبان بالکل مختلف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح کیا اب امت میں قیامت تک بوڑھے ، بچے،جوان اور قریب المرگ یااَن پڑھ اشخاص کی آمد کاسلسلہ ختم ہوچکا ہے اور اب ایسا ممکن نہیں رہا کہ کوئی ایسا شخص اسلام میں داخل ہو جو پڑھنے اور لکھنے سے قطعاً بے بہرہ، عربی زبان کی مشکلات سے دوچار اور تلفظ میں صعوبت کا سامنا کرنے والا ہو۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج بھی ایسے مسلمانوں کوتلاوت قرآن میں مشقت کا سامنا ہے جس کی زبانیں عربی سے مختلف اور عجمی ہیں بلکہ انہیں اس دور سے زیادہ ضرورت اور اس رخصت کی زیادہ حاجت ہے۔
ان حقائق کو سمجھنے اورجاننے کے باوجود نامعلوم کون سی ایسی اہم وجہ ہے جس نے ابن جریررحمہ اللہ کو اس رائے کے اختیار کرنے پر مجبور کیا حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جملہ قراء ات مصحف عثمان میں نہ صرف پائی جاتی ہیں بلکہ مصحف عثمانی سے ہی ثابت بھی ہیں۔(دیکھئے صفحہ۱۷۹، شرط ِ اوّل)
سوال پیداہوتا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی مصحف عثمانی میں سبعہ حروف بیک وقت موجود ہوں؟ یا صورت ایسی ہے کہ ایک حرف کے بجائے مختلف مصاحف میں مختلف حروف ہیں؟
اس مسئلہ میں جس رائے کو محققین نے اختیارکیا ہے، یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ پر آخری مرتبہ جو حروف تلاوت کئے گئے ان میں سے کسی ایک کو بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مہمل کیا ہے اور نہ کسی کااِبطال کیاہے۔اسی طرح ان کے سلف ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے بھی اس طرح کاکوئی فعل سرزد نہیں ہوا بلکہ مصاحف عثمان رضی اللہ عنہ کے ضمن میں ہی جملہ حروف (جو آپ پر آخری مرتبہ پیش ہوئے)محفوظ اور باقی ہیں اور تاقیامت کے لیے ان حروف میں سے کسی پر بھی تلاوت کی رخصت موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قول سادس :
ابن قتیبہ، رازی اور جزری رحمہم اللہ کا یہ کہنا ہے کہ احرف سبعہ سے درحقیقت اختلاف اور تبدل و تغیرکی انواع مراد ہیں جو کہ سات ہیں… الخ
اس قول کی تردید مندرجہ ذیل اُمور کے ساتھ ہوتی ہے۔
(١) پہلی بات تو یہ ہے کہ انواع تغیر کی نشاندہی اور ان کی تعداد و تعیین پر اتفاق ہوناضروری امر ہے جبکہ یہ امر ان قائلین کے مابین مختلف ہے۔
(٢) ثانیاً یہ ہے کہ حروف میں تعدد کی اہم تر حکمت ان قبائل اور گروہوں کے لیے رخصت مہیا کرنا تھی جو پڑھنے لکھنے سے بہرہ ور نہیں اور ان کے لیے ان کی زبان پر جاری طرز اَداکے ماسوا دوسرے طرز پر تلاوت مشکل تھی پھر چند مخصوص قبائل کے سوابالعموم اہل عرب پڑھنے اور لکھنے سے ناآشنا تھے جبکہ ان انواع تغیر(جنہیں یہ اصحاب علم بیان کرتے ہیں)کا بڑا اوراہم تعلق طرزِ کتابت اور صورت خطی سے ہے نہ کہ طرز اَداسے۔ مزید یہ کہ ان تمام اَنواع کااِدراک اور استنباط صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو بڑی بحث، گہرائی اوروسعت ِمطالعہ سے ان کاجائزہ لے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ مختلف رسوم الخط سے بھی کافی واقفیت رکھتا ہو اور یہ معاملہ تو نہ صرف علماء بلکہ خاص علماء سے ہی تعلق رکھتا ہے۔سوچا جائے تو پھر ان حروف کا ان مسلمانوں کے لیے کیا فائدہ ہے جن کی آسانی اور سہولت کی خاطر انہیں نازل کیاگیا اور جن کی مشقت دور کرنے کے لیے متعدد صورتوں کی اللہ تعالیٰ نے رخصت دی؟ اگر ہم اس قول کومان لیں تو پھر ایسے اَن پڑھ مسلمان کس طور ان دقیق اور علمی وجوہات کو استعمال میں لاسکتے ہیں جو پڑھنے لکھنے سے بہرہ ور نہیں اور کس طرح وہ ان تک پہنچ سکتے ہیں؟اگر سبعہ حروف سے مراد یہی ہے جو یہ کہتے ہیں تو بلاشبہ یہ تو ان پرمزیدمشقت ہے اور ان سے کسی ایک کو اختیارکرکے پڑھنا تو ان کے واسطے از حد مشکل ہے اور یہ کیسا اختیار ہے، کیسی رخصت ہے۔؟
نبی اکرمﷺ نے ان حروف کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمام حروف شافی اورکافی ہیں اور ان میں سے جس پر بھی لوگ پڑھیں گے سو وہ درست ہی کریں گے۔ اس طرح آپﷺنے فرمایا کہ’’آپ نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر اس رخصت کو مانگا ہے تاکہ اُمت کے مختلف لوگوں کو اس رخصت اور آسانی سے فائدہ پہنچایا جاسکے۔جن میں بوڑھے بھی ہیں، طویل العمر بھی، کم عمر اور ادھیڑ عمر بھی اور ایسے لوگ بھی جنہیں کبھی لکھنے پڑھنے کا اتفاق ہی نہیں ہوا، ایک روایت میں ’خادم‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں کہ اس اُمت میں خدمت گزاربھی ہیں۔
جزری، رازی اور ابن قتیبہ رحمہم اللہ سے ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ ہمیں بتائیں کہ ایسے لوگ (جن کا ابھی ذکر ہوا ہے) کس طرح ان کی ذکر کردہ انواع اختلاف کو یا کسی ایک کو استعمال کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اورکس طرح وہ ان پر قرآن کو پڑھ سکیں گے؟ اس میں ان کے لیے رخصت کا کون سا پہلو ہے اور ان کے لیے اس میں کس طرح سے آسانی اور تیسیر ہے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) اس قول پر وارد ہونے والے اعتراضات میں سے تیسرا یہ ہے کہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ اور جزری رحمہ اللہ نے سات انواع تغیر کو ذکر کرتے ہوئے اختلاف لہجات کو تو ذکر بھی نہیں کیا باوجود اس کے وجوہ اختلاف کے ضمن میں یہ وجہ بڑی اہم اور کثرت سے استعمال ہونے والی ہے۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے۔
اس تجزیہ سے ہمارامقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم ان انواع تغیر کاانکار کرنے پر مصر ہیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ان اصحاب علم میں سے ہر ایک کی عبارت دوسرے سے حد درجہ مختلف اور متغایر ہے۔حالانکہ یہ سب علماء بڑی بحث و تمحیص، قرآن کے متعدد بار مطالعہ اور حد درجہ محنت ومشقت کے بعد اس مقام پر پہنچے کہ ان انواع اختلاف کو اخذ کرسکیں اور بعدمیں ان کی تعیین کرسکیں۔ باوجود اس کے اس مسئلہ میں تینوں کی رائے مختلف ہے جس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ ہر ایک نے دوران مطالعہ کسی خاص جہت کوملحوظ رکھا اور دوسرے کے سامنے کوئی دوسرا پہلو موجود رہا ان تینوں میں سے عبارت میں باریک بینی اور زیادہ مشق و مہارت امام رازی کاخاصہ ہے۔
ہمارا اختلاف ان سے دراصل دو نوعیت کا ہے: پہلی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے انواع تغایر کو بتکلف سات تک محدود کیاہے تاکہ حدیث میں مذکور تعداد کی موافقت ہوجائے۔دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے جن انواع کو سبعہ اَحرف کی تفسیر بنایاہے اوربڑی مشقت سے حدیث کے مفہوم کی وضاحت کی کوشش کی ہے ان سے ہماری رائے مختلف ہے۔ ان آراء کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ انواع جن کو تینوں اہل علم نے ذکر کیاہے ان میں دو تو ایسی ہیں جن پر ان کا اتفاق رائے ہے۔ اور ان کی عبارتیں ان کی وضاحت میں یکساں ہیں:
(١) تقدیم و تاخیر (٢) زیادتی و نقص
اس کے بعد ابن قتیبہ اور جزری رحمہم اللہ کے اقوال کے مابین پانچ انواع ایسی پائی جاتی ہیں جن پر ان میں کافی حد تک اتفاق ہے،بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جزری رحمہ اللہ نے انہیں ابن قتیبہ رحمہ اللہ سے ہی نقل کردیا ہے اور ان میں اپنی طرف سے کوئی اِضافہ نہیں کیا۔
لیکن اس کے برعکس امام رازی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ انواع تغیر کی طرف جب ہم نظر کرتے ہیں تو وہ جزری رحمہ اللہ اور ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی آراء سے قدرے مختلف ہیں، کیونکہ رازی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ اَنواع کے ضمن میں ان دونوں کی بیشتر اَنواع بھی آجاتی ہیں اور اس کے علاوہ مزیدبھی۔مثال کے طور پر رازی رحمہ اللہ نے اپنے قول میں اَنواع تغیر سے تیسری اور چھٹی نوع اس کو قرار دیا ہے کہ:
’’(۳) اعراب کی وجوہ میں اختلاف …اور (۶) حروف کاقلب یا بعض حروف کا بعض دوسرے حروف سے ابدال، اسی طرح کلمات کی کلمات سے تبدیلی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس میں انہوں نے ان تمام قسم کی تبدیلیوں کو علی وجہ العموم دو قسموں کے تحت ذکر کردیا ہے، لیکن یہی دو اَقسام باقی دو ائمہ کے اقوال میں پانچ اقسام میں منقسم ہیں،اگرچہ انہوں نے پانچ اقسام بناتے ہوئے ان اختلافات کی تقسیم میں صورۃخطی،اختلاف معنی اورکتابت میں اختلاف یا عدم اختلاف کو مدنظر رکھا ہے، لیکن بہرحال مراد دونوں کی قریباً ایک ہی ہے۔اس کی ایک اورمثال یوں بھی ہے کہ امام رازی رحمہ اللہ نے پہلے اور دوسری نوع کے تحت اوزان اسماء میں پیش آنے والے اختلافات اور تصریف افعال میں ہونے والے اختلافات کو ذکر کیا ہے جبکہ معمولی سے غوروفکر کے بعد باقی دو حضرات کی ذکر کردہ پہلی پانچ انواع کے ضمن میں یہ دونوں انواع بھی آسکتی ہیں۔فرق صرف اسی قدر ہے کہ جن زاویوں اور جہات سے امام رازی رحمہ اللہ نے اختلافات کی حد بندی کی ہے جزری رحمہ اللہ اور ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی تقسیم ان زاویوں سے ہٹ کر کچھ اور چیزوں کومدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود ایک نوع ایسی بھی ہے جوصرف امام رازی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے اور باقی دو اس کی طرف متوجہ نہیں ہوپائے اور وہ نوع ہے ’اختلاف لہجات‘ کی اور جیسا کہ ہم بتاچکے ہیں کہ یہی نوع اس بحث میں اہم تر ہے۔
ان تینوں اَقوال کاہم نتیجہ برآمد کرناچاہیں تو مختصراً تمام انواع کو کم از کم دس انواع تغیر میں تقسیم کرسکتے ہیں کہ وہ تمام صورتیں جو کلمات میں اختلاف کے ضمن میں آتی ہیں اور ان اَقوال سے ثابت ہوتی ہیں، کل دس بن سکتی ہیں۔ لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ آئندہ کوئی اور صاحب علم مزید بحث و استقراء کے بعد اس تعداد میں اضافہ نہیں کرے گا۔
چنانچہ اس معارضہ سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ ان تینوں بزرگ اصحاب علم کی انواع تغایر و اختلاف کی تعیین اور ان کو کھینچ تان کر سات حروف کے ضمن میں لانا بے جا تکلف اور مشقت کے سوا کچھ نہیں۔حتیٰ کہ جب ان کی جدوجہد اور کوشش کے بعد حاصل شدہ انواع کے نتیجے پر پہنچتے ہیں جس کو انہوں نے حدیث کی مراد تصور کیاہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سبعہ احرف فی ذاتہا کچھ اور ہیں اوراس میں انواع اختلاف ایک بالکل مختلف چیز ! اور اس مقام پر پہنچ کر یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ یہ تمام وہ صورتیں ہیں جو کلمات کے مابین تغیر اور اختلاف کے ضمن میں آتی ہیں نہ کہ حروفِ سبعہ کے مابین اختلاف ۔اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اس تمام بحث کا خلاصہ ان تین نکات میں نکال لیا جائے کہ اختلاف کی تین ہی صورتیں ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) جس میں لفظ مختلف ہوجائیں اور معنی ایک رہے، اس صورت کو لغت میں ’الترادف‘سے موسوم کیاجاتاہے، مثلاً ’ھلم‘ کی جگہ ’تعال‘ اور ’اقبل‘
(٢) جس میں معنی اور لفظ دونوں مختلف ہوجائیں،لیکن یہ اختلاف تضاد کی نوعیت کا نہ ہو، تنوع کی قبیل سے ہو۔ جس طرح قَالَ اور قُلْ،بَاعِدْ اور بَاعَدَ ، مَالِکِ اور مَلِکِ ،اَوْصَی اور وَصّٰی
(٣) لہجات میں اختلاف یعنی کسی لفظ کی اَدا میں تبدیلی اصل لفظ اورمعنی کی بقا کے ساتھ۔ مثال کے طور پر کسی کو جھکا کر یاسیدھا پڑھنا، مد اور قصر، ادغام اور عدم ادغام اسی طرح نرمی سے یا جھٹکادے کر پڑھنا۔
یہاں اختلاف کی ایک قسم اوربھی ہوسکتی ہے کہ بعض اَوقات کسی کلام میں تبدیلی لفظ اور معنی کے اختلاف کے ساتھ ساتھ تناقض اور تضاد کی قبیل سے ہوتی ہے۔ سو یہ صورت قرآن کریم میں نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ ان کی موجودگی قرآن میں خلل اور اضطراب و شک کو لازم کرتی ہے حالانکہ قرآن اس سے یکسر منزہ ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’قرآن میں باطل نہ آگے سے داخل ہوسکتا ہے اورنہ ہی پیچھے سے اور یہ اللہ رب العزت حکمت والے کی نازل کردہ (کتاب)(فصلت:۴۲)ہے۔‘‘ایک اور مقام پریہ الفاظ ہیں:’’اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف (النساء:۸۲) سے ہوتا تو لوگ اس میں جابجا اختلافات اور تناقض پاتے۔‘‘(انظر النشر:۱؍۴۹)
ان دونوں آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں خلل اور تناقض وتضاد کی سرے سے گنجائش ہی نہیں۔
 
Top