• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبعۃ اَحرف سے کیا مراد ہے؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حروفِ سبعہ سے مراد کیا ہے؟

یہاں تک ذکر ہونے والی پوری بحث اور معارضات سے قاری کے ذہن میں از خود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سارے اَقوال ہی درست نہیں تو پھر اَحرف سبعہ سے مراد کیا ہے؟ اور اس کی ایسی کیا تفسیر کی جائے کہ نفس کو قرار اور دل کو اطمینان نصیب ہوجائے؟اس سے پہلے کہ ہم آپ کے ذہن میں پیدا ہونے والے اس سوال کا جواب دیں، ہم اس بات کو دھرانا چاہتے ہیں جو حروف سبعہ سے متعلقہ بے شمار احادیث کے ذکر کے وقت ہم نے کہی تھی اورجیساکہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں کہ ہم نے اس کے جملہ طرق اور سند ومتن میں الفاظ و صحت کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہمیں ان تمام سے کوئی بھی ایسی صریح عبارت دستیاب نہیں ہوسکی جو سبعہ احرف کے مراد اور مفہوم کو متعین کردے۔چنانچہ سبعہ احرف کا مفہوم اور مراد کیا ہے، یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ضرورت اور حاجت کے وقت اس کی وضاحت کومؤخر نہیں فرمایا کرتا۔ سو اُمت نہ صرف اس کی حقیقت معلوم کرنے کی محتاج ہے تاکہ اس پر قراء ت کرسکے بلکہ اس رخصت سے فائدہ اٹھانے کی بھی ضرورت مند ہے۔
لیکن کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جملہ اَحادیث اور منقول آثار کسی ایسی واضح تر عبارت سے خالی ہوں جو ہمارے لیے مفہوم کو واضح اور مشکل کوآسان کردے اور کیا وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی نبی اکرمﷺ سے سبعہ احرف کی بابت کچھ سوال کرنا گوارا نہ کیااور نہ ہی ہماری طرف سے اس کی وضاحت اور تفسیر نقل کی سو ہمارے خیال میں اس کی وجہ دو صورتوں سے خالی نہیں ہوسکتی:
٭یا تو یہ ایسے کلمات ہیں جن کی مرادمعین ہے، جو وضاحت و تفسیر کے محتاج نہیں بلکہ ان کی تفسیر کے بارے میں سوال کرنا عین دوپہر کے وقت سورج کے متعلق سوال کرنے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہوسکتی ہے اس بات کی کہ کسی نے بھی نبی اکرمﷺسے اس کے متعلق کوئی بھی سوال کرنے کی ضروت محسوس نہیں کی اور ہرایک اس کے مفہوم سے بخوبی واقف تھا۔ اسی سبب کی بناء پرصحابہ رضی اللہ عنہم سے اس مضمون کی کوئی حدیث منقول نہیں کہ ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا یا انہوں نے خود سوال کیااور اس سوال کاجواب پالینے پر دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اگر یہ صورت نہیں تو پھر دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سبعہ اَحرف کی تفسیر اس وجہ سے نہیں کی گئی کہ ان کامعنی غیر واضح تھا یا ان کی تفسیر از حد صعب تھی اور ان کی شرح میں مشکلات درپیش تھیں یا پھر ابھی ان کی حقیقت بیان کرنے کا وقت نہیں آیا تھا ،کیونکہ ان کی بے شمار اقسام اور فروع کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوسمجھنے میں مشقت کا سامنا ہوتا جبکہ ان کا فہم، وسیع مطالعہ اور غوروفکر سے حاصل ہوسکتا تھا اور ان کی حقیقت کے اِدراک کے لیے بحث و نظر کی وسیع منازل طے کرنا لازمی تھیں۔
سبعہ اَحرف کی حقیقت ہم تک منقول نہ ہونے کی یہی دو وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں سے دوسری صورت تو قطعاً باطل ہے جس طرح کہ ہم پہلے معارضات سے ثابت کرچکے ہیں کہ صحابہ اس کا خاطر خواہ علم رکھتے تھے اور یہ بات بھی ضروریات دین سے ہے کہ امت کو اس کا علم ہونا چاہئے تاکہ اس رخصت کی حکمت خوب اچھی طرح ثابت ہوجائے اور ان احرف سبعہ پرعمل درآمد ہوسکے۔اسی طرح اس بات کو بھی کوئی سلیم العقل درست نہیں قرار دے سکتا کہ ہم یہ دعویٰ کریں کہ امت کے اوّلین طبقہ یعنی صحابہ و تابعین سے اس کی حقیقت چھپی ہوئی تھی باوجود اس کے کہ وہ اُمت کے سب سے زیادہ صاحب ِ علم، گہرے فہم کے حامل اور دین کے ماہر تھے۔ پھر بعد میں آنے والے سالوں میں اس کی حقیقت منکشف ہوتی گئی۔ چنانچہ ان دونوں صورتوں میں پہلی وجہ ہی قابل قبول ہے کیونکہ وہی صورت دین کے قریب تر ہے کہ صحابہ کرام نے اس کے بارے میں نبی اکرمﷺسے سوال دراصل اس لیے نہیں کیا کہ احرف سبعہ کی تفسیر اور وضاحت ان کو معلوم تھی اور وہ اس کے مفہوم کوسمجھنے کے محتاج نہ تھے۔ کیونکہ ان کے ذہن میں اگر کوئی اشکال پیدا ہوتا تو وہ سب سے پہلے نبی اکرمﷺسے پوچھنے کی کوشش کرتے جیساکہ قراء ت کے ضمن میں ہی جب انہوں نے کسی اور قاری کی مختلف انداز پرقراء ت سنی تو قرآن میں اختلاف اور اضطراب کے واقع ہوجانے کے ڈر سے انہوں نے فوری طور پر رجوع کیااور نبی اکرمﷺکے پاس آنے سے قبل ان کے ذہن میں یہ سوال پیداہواکہ مختلف قراء کا یہ اختلاف قرآن میں تغایر اور اختلاف کاموجب ہے اور اس سے قرآن میں خلل اور تناقض کا اندیشہ ہے حتیٰ کہ یہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بعض نے تو پڑھنے والے کے منہ سے یہ الفاظ سننے پر کہ ’ھذا کما أقرأنی رسول اﷲ‘ آپ کی ذات کے بارے میں بھی شک کیا اور شیطان ان پر غالب آنے لگا، لیکن نبی اکرمﷺسے سوال کرنے پر جب انہوں نے آپ کو بنفسہٖ مختلف قراء ات پر تلاوت کرتے ہوئے پایا تو ان کے ذہنوں سے شیطانی وساوس اور شکوک رفع ہوگئے اور نبی اکرمﷺنے درج ذیل دو اُمور کے ذریعے ان کے ذہن میں کلبلاتے سوالوں کودبا دیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امر اوّل: انہیں نئی رخصت اور جدید حروف سے مطلع کیا اور فرمایا کہ یہ تمام وجوہ قراء ات منزل من اللہ اور کافی و شافی ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن ہی ہیں۔
امر ثانی: ان وجوہ کے ذریعے پیداہونے والے اختلاف کی نوعیت واضح کردی اور ان کے ذہنوں کو اس نوع تغیرسے مانوس کرنے کے لیے مثال دے کرواضح کیاکہ یہ تغیر تناقض و تضاد کی قبیل سے نہیں بلکہ تنوع اور زیادتی معنی کی قسم سے ہے۔
قوی اُمید ہے کہ اب آپ ہمارامدعا اور مقصد بخوبی سمجھ چکے ہوں گے جو ہم سبعہ احرف کے ضمن میں رکھتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس مفہوم کو محدود الفاظ میں اس طرح سمیٹ دیں تاکہ یہ تمام بات بآسانی سمجھ میں آسکے۔سو سبعہ احرف کامفہوم یہ ہے۔
اَحرف سبعہ: ’’قراء ات کی متعدد وجوہ ہیں جو باہم مختلف ہیں۔ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور قاری کے لیے جائز ہے کہ ان میں سے کسی ایک وجہ پر قرآن کی تلاوت کرے اور اس کی یہ تلاوت قرآن کی تلاوت ہی سمجھی جائے گی۔سبعہ کے عدد سے مراد یہ ہے کہ وجوہ قراء ت، (جو کہ منزل من اللہ ہیں)قرآن کے کسی ایک کلمہ میں اختلاف وتغیر کی انواع میں سے کسی ایک نوع کے ضمن میں زیادہ سے زیادہ سات تک ہوسکتی ہیں۔اسی طرح یہ بات لازمی نہیں کہ قرآن میں ہر جگہ پرتعداد سات ہی ہو۔ بلکہ لازمی یہ ہے کہ بعض جگہ کم تو ہوسکتی ہے،لیکن کسی بھی جگہ زیادہ سے زیادہ ایک کلمہ میں تبدیلی کی سات اَنواع ہی ہوسکتی ہیں۔‘‘
اس موقع پر آپ یہ سوال بھی کرسکتے ہیں کہ سبعہ اَحرف کی اس تشریح و توضیح سے کیاثابت ہوتا ہے اور اس مفہوم کے اَخذ کرلینے کی دلیل کیاہے اسی طرح علماء سابقین میں سے کس نے اس قول کو اختیارکیاہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک اس بات کاتعلق ہے کہ اس قول کو کس امام نے اختیارکیاہے؟تو ہماری تحقیق کے مطابق ان تمام اَقوال سے جوکہ سبعہ اَحرف کی تحقیق کے ضمن میں اَئمہ سے منقول ہیں ایساقول توکوئی بھی نہیں جو ہمارے قول کے حرف بحرف موافق ہو اور اس کی جزئیات و تفصیلات بھی ہمارے قول سے مشابہ ہوں۔ مگر اکثر علماء کے کلام پربحث و استقراء کے نتیجے میں ہمیں ایسے کلمات ملتے ہیں جو ایک ہی مقام پر منظم طور پر سے تو موجود نہیں (بلکہ متعدد مقامات پر بکھرے ہوئے ہیں) لیکن وہ کلمات ہمارے اس قول کو ثابت کرتے ہیں جس کو اس بحث کی ابتداء میں ذکر کردہ طریقہ کے مطابق ہم نے دلائل و براہین شرعیہ اور نصوص الہیہ پر پیش کرکے اپنایا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭بطور مثال امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس قول کے کچھ اجزاء کو اختیار کیا ہے (اور سیوطی وہ شخص ہیں جنہوں نے اس حدیث کی تحقیق میں بڑی وضاحت سے کلام کی ہے)چنانچہ انہوں نے اپنی تحقیق کے دوران اُن دو جہات کو بھی اقوال میں شمارکیا ہے جن کو ہم نے ترجیح دی اور سیوطی نے اس قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس قول پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی۔سیوطی کااپنی کتاب الاتقان میں یہ اشارہ مندرجہ ذیل دو اقوال کے تحت موجود ہے۔(الاتقان:۱؍۱۳۵) لہٰذا آپ کہتے ہیں کہ:
’’سبعہ احرف کے بارے میں تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سبع قراء ات ہیں۔قرآن مجید میں وہ کلمات جن میں ساتوںوجوہ پڑھنا ممکن ہے، کی تعداد بہت کم ہے، مثال کے طور پر ’’عَبَدَ الطَّاغُوْت‘‘ اور ’’فَلَا تَقُلْ لَّہُمَا أفٍّ‘‘ ایسے کلمات ہیں جن میں ساتوں وجوہ ممکن ہیں۔‘‘
چوتھا قول یہ ہے کہ: ہر کلمہ میں ایک ، دو یا تین اور زیادہ سے زیادہ سات تک وجوہ کی تلاوت ممکن ہے لیکن اس پر تنقید کی گئی ہے کہ بعض کلمات ایسے ہیں جن میں سات سے زیادہ قراء ات بھی پڑھی گئی ہیں لہٰذا لازمی ہے کہ اس کی کوئی توجیہہ کرلی جائے۔
٭ ایسے علماء جن کے کلام سے ہمارے قول کے قریب اشارات ملتے ہیں ان میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ بھی ہیں اور آپ کی بحث سبعہ احرف کی تحقیق و تفسیر کے ضمن میں لکھی جانے والی چند ایک مثالی تحریروں میں سے ایک ہے۔ سو آپ نے اپنی رائے فتح الباری (الفتح:۱؍۲۳) میں ان الفاظ سے شروع کی ہے کہ:
’’باب ہے اس بات کا کہ قرآن سات حروف پرنازل کیاگیا ہے، یعنی قرآن کا نزول سات وجوہ پر ہوا ہے جن میں سے ہر ایک پر تلاوت کرنا جائز ہے لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ قرآن کاہر کلمہ سات وجوہ پر پڑھناجائز ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کسی کلمہ میں بھی قراء ات کی زیادہ سے زیادہ صورتیں سات ہوسکتی ہیں۔‘‘
٭یہ بات کہ لازمی نہیں ہر کلمہ یا آیت قرآن سات وجوہ پر ہی نازل ہوئی ہے۔اس کو ابوعبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ نے ’فضائل القرآن‘ میں،ابن قتیبہ رحمہ اللہ اور جزری رحمہ اللہ نے’نشر‘ میں،اسی طرح ابوالفضل رازی، بیہقی اور ابو حاتم السجستانی رحمہم اللہ نے اختیارکیاہے۔میرے علم کی حد تک اس بات کا محققین میں سے کوئی بھی مخالف نہیں ماسوائے اس کے جو ابن جریررحمہ اللہ کی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کہا:
’’قرآن کاہرہر کلمہ سات وجوہ کے ساتھ پڑھاجاتاتھا اس طرح کہ سات وجوہ میں ایسے مترادف الفاظ استعمال ہوتے تھے جو مختلف زبانوں سے متعلقہ لیکن مفہوم میں یکساں ہوتے۔‘‘
سو ابن جریررحمہ اللہ کا یہ قول شاذ ہے اورکسی دلیل کے نہ ہونے کی وجہ سے مردود بھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭جہاں تک احرف یاوجوہ کی سات کے عدد سے تحدید کا تعلق ہے تو اس کی بھی قاضی عیاض رحمہ اللہ کے ماسوا کسی محقق اہل علم نے تردیدنہیں کی، قاضی عیاض رحمہ اللہ کا شرح مسلم میں یہ قول موجود ہے کہ:
’’ سبعہ احرف سے دراصل صحابہ کو قراء ت بالمعنی کی رخصت دی گئی تھی اور ’سبعہ‘کے لفظ سے کوئی تجدید نہیں بلکہ زیادتی مراد ہے لہٰذا قراء ت بالمعنی میں وجوہ کی کوئی حد بندی نہیں۔‘‘
سو آپ کاقول بھی دو وجوہات کی بناء پر قابل رد ہے: پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس میں قراء ت بالمعنی کی اجازت اور اس کو مشروع بتایا گیا ہے۔ دوسری یہ کہ صحابہ پڑھائی ہوئی وجوہ کے ماسوا دوسری ہم معنی وجوہ پر بھی قراء ت کرسکتے تھے جبکہ یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جوقطعاً علم و عقل کی کسوٹی پرپوری نہیں اترتیں۔ (اور ان دونوں نظریات کی مفصل تردید بھی گزر چکی ہے)۔
ان معروضات سے یہ ثابت ہواکہ ہم نے سبعہ احرف کی تعریف اپنے پاس سے نہیں کرلی یا یہ کوئی ایسی مراد نہیں جو کہ آج سے پہلے کسی نے اختیار نہ کی ہو اور سلف میں کوئی اس کاقائل نہ ہوبلکہ واقعہ یہ ہے کہ سلف محققین پہلے بھی اس قول کو اختیار کرتے رہے، لیکن بایں طور کہ ایک مقام پر یہ قول اس طرح کہیں کسی سے منقول نہیں بلکہ متفرق مقامات پر بکھری ہوئی صورت میں موجود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس قول اور اس کی جزئیات کو کسی بھی مصنف نے جمع نہیں کیا بلکہ ہر ایک نے اس تفسیر کا کوئی جز اختیارکیا ہے اور کوئی پہلو پکڑا ہے۔الغرض کسی امام یا محقق نے اس قول کو ایسی مکمل صورت میں نہیں اختیار کیا جس سے مسئلہ حل ہوجاتا اور اس قضیہ کافیصلہ ہوجاتا بلکہ ہر ایک نے اس میں غوروفکر کے بعد اس کے بعض پہلوؤں کو ہی نقل کیا ہے۔
جہاں تک قرطبی رحمہ اللہ کا سبعہ احرف کے بارے میں آراء جمع (تفسیر القرطبی:۱؍۴۲)کرنے اور سیوطی کا مختلف (الاتقان:۱؍۱۳۱۔۱۴۲) اقوال ذکر کردینے کا تعلق ہے تو قرطبی رحمہ اللہ اور سیوطی رحمہ اللہ کے اس کام سے مسئلہ کی تحقیق میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، نہ ہی سبعہ احرف کی تعیین میں اس سے کوئی اہم مدد ملی، کیونکہ انہوں نے صرف ان اقوال و آراء کے ذکر پر اکتفا کیا اور مختلف اقوال پرتنقید و تبصرہ کے بعد قول راجح کو دلائل سے ثابت نہیں کیا۔
ہمارے اس قول پر مزید ایسے دلائل کون سے ہیں جن سے مزید اطمینان حاصل ہوسکے؟ اس کے لیے اب ہم اپنے قول پر جزء اًجزء اً نبی اکرمﷺکے کلام اور قرآن کی ثابت شدہ قراء ات سے استدلال کریں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١)ہماراقول کہ سبعہ احرف ’’قراء ت کی ایسی وجوہ ہیں، جو کہ بظاہر اور متعدد ہیں اور سب کی سب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔‘‘
اس قول میں اولاً ’حرف‘ کے بے شمار معانی میں سے ایک معنی ’وجہ‘ کو ترجیح دی گئی ہے اور ہم نے احرف کی تفسیر وجہ یا وجوہ سے کی ہے ،کیونکہ جب ہم حدیث کے الفاظ کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ احرف کے معنی میں صرف اور صرف یہی تاویل درست ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد ہم نے ’وجوہ‘ کی چار صفات ذکر کی ہیں جن میں سب سے پہلی ’متعددہ‘ ہے کہ یہ وجوہ متعدد ہیں۔ اس صفت کے ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ پہلی کتب اور قرآن کاابتداً نزول جس طرح ایک وجہ پر ہوا تھا اس طرح اب ان وجوہ کے نازل ہونے کے بعد قرآن ایک وجہ پر نہیں رہا بلکہ متعدد وجوہ پر ہوگیا ہے۔
وجوہ کی دوسری صفت ہے’متغایرہ‘ … ا س لفظ کے ساتھ وجوہ میں پائے جانے والے ان اختلافات کی طرف اِشارہ مقصود ہے جو ان دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہوسکتے ہیں:
(ا) : اتفاق معنی کے ساتھ صرف الفاظ میں تبدیلی۔
(ب):یا الفاظ اور معانی دونوں میں تبدیلی۔
وجوہ کی اس صفت کے ساتھ دراصل ابن جریررحمہ اللہ کے اس قول کی تردید بھی مقصود ہے کہ جس میں انہوں نے اَنواع اختلاف کو صرف اور صرف ’ترادُف‘میں محصور کردیا ہے، وجہ اس صفت کے ساتھ مقیدکرنے کی یہ ہے کہ مختلف اَحادیث میں یہ مضمون موجود ہے کہ ’’جب کبار صحابہ اور علم و تفقہ اور علوم قرآنی میں ممتاز اصحاب ِرسول (مثلاً عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ) نے کچھ لوگوں کو مختلف وجوہ پر قراء ت کرتے ہوئے سنا اور بعد میں ان لوگوں کی نبی اکرمﷺنے تصدیق بھی کردی تو پہلے پہل ان صحابہ کو اس امر کے قبول کرلینے میں تذبذب کاسامنا ہوا اور وہ فوری طور پر اس کے قبول کرلینے پراپنے آپ کو آمادہ نہ کرسکے بلکہ بعض کے دل میں شک اور انکار کی سی کیفیت پیداہوگئی جس کو بعد میں نبی اکرمﷺنے بڑی حکمت سے رفع کردیا۔‘‘
چنانچہ ان اَحادیث کا یہ مضمون اس بات پردلالت کرتا ہے کہ ان وجوہ متغایرہ میں یہ فرق خفیف اورمعمولی نوعیت کا نہیں تھابلکہ ان وجوہ کے ذریعے ایسا واضح فرق رونما ہوا تھا جن سے ایسے صحابہ جو آپ پر ایمان و ایقان کی دولت سے مالا مال تھے کے ذہنوں نے بھی فوری طور پر اس فرق کو قبول کرنے میں پس و پیش کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میرا یہ خیال نہیں کہ اگر وجوہ کے ساتھ پیدا ہونے والے اختلاف کی نوعیت فقط بعض الفاظ کی جگہ دوسرے مترادف الفاظ اداکردینے تک محدود تھی (مثلاً ھَلُمَّ کی جگہ تعال اور إلینا کی جگہ أقبل)تو صحابہ کو اس کے قبول میں اس قدر مشکل پیش نہ آتی۔ لہٰذا صحابہ کا ان وجوہ کی سماعت کے بعد اس حد تک پریشان ہوجانا اس بات پر دال ہے کہ یہ تغایر صرف اور صرف ترادف ہی نہ تھا بلکہ اس میں اختلاف کی اور بھی صورتیں موجود تھیں جیساکہ بعد میں واضح کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
وجوہ کی تیسری صفت یہ ہے کہ ’’یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں‘‘ اس قید کو لگا دینے سے ایسے اہل علم کی تردید مقصودہے جن کازعم یہ ہے کہ وجوہ کی یہ رخصت مستقل وجوہ کی صورت میں نہیں بلکہ صرف اس حدتک ہے کہ لوگوں کو الفاظ قرآنی میں آسانی کی غرض سے تصرف کی اِجازت دی گئی ہے اور وہ اپنی مرضی سے جوچاہیں تلاوت کرسکتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کوئی مستقل وجوہ نہیں جن کی پابندی بہرطور لازمی ہو۔ جبکہ اس قول کی تردید میں ہمارا مؤقف یہ ہے کہ یہ وجوہ صرف اور صرف اللہ کی نازل کردہ ہی ہیں جن کوجبریل علیہ السلام، نبی اکرمﷺ کو سکھایاکرتے اور اور آپ کو خود اس کی حفاظت کرواتے حتیٰ کہ آپﷺ خود اس کی حفاظت کے قابل ہوجاتے۔
بعد ازاں رسول اکرمﷺ خود بنفس نفیس صحابہ کو ان کی تعلیم دیتے، سکھاتے اور ہر صحابی کو اس کے حالات وظروف کی روشنی میں، اس کی استعداد اور طاقت، زبان اور لہجہ کومدنظر رکھتے ہوئے (آپ جس وجہ کومناسب سمجھتے) اس کی تلاوت کااختیار دیتے۔
وجوہ کا چوتھا وصف جو ہم نے بیان کیا ہے، ’’وجوہ من القراء ۃ‘‘ ہے۔یعنی ان سب وجوہ کا تعلق قراء ت کے ساتھ ہے اور ان میں باہمی اختلاف قراء ت کے ضمن میں ہی ہے،کیونکہ حدیث میں آپﷺکے یہ الفاظ بصراحت موجود ہیں کہ ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے ایک حرف پر پڑھایا، پھر …‘‘ اسی طرح جبریل علیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے نبی اکرمﷺفرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنی اُمت کوسات حروف پرقرآن پڑھائیں… الخ‘‘ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ’’آپ کی امت سات حروف میں سے کسی ایک پرقرآن کی تلاوت کرے‘‘ مزید برآں آپﷺنے احرف کے ذکر کرنے کے بعد فرمایاکہ ’’ان سے جوتمہیں آسان معلوم ہو اس پر پڑھو‘‘ اور ’’جس حرف پربھی یہ تلاوت کریں تو خیر کو اور حق کو ہی پہنچیں گے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ بالا تمام اَحادیث میں سبعہ احرف کو پڑھنے اور تلاوت کرنے کا حکم ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا تعلق لازماً پڑھنے سے ہی ہے۔ چنانچہ وجوہ کو قراء ت سے مقیدکرنے والی متعدد احادیث بھی کتب میں موجود ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
’’میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کوسنا کہ وہ سورہ فرقان کی ایسے حروف(وجوہ) پرتلاوت کررہے تھے جو کہ نبی اکرمﷺنے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔‘‘اسی طرح اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ ’’میں مسجد میں تھاکہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور نماز شروع کردی۔ سو اس نے ایسے طریقے پرقراء ت کی جس کا میں نے اس پر انکار کیا۔پھر دوسرا شخص داخل ہوااور اس نے پہلے سے بھی مختلف قراء ت کی… الخ‘‘
چنانچہ یہ تمام الفاظ اس بارے میں صریح ہیں کہ احرف کا لازمی تعلق قراء ت سے ہی ہے، جس طرح کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے احرف کو ’’قراء ات ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ ہمیں ایسی کوئی روایت مل نہیں سکی جو اس امر کو ثابت کرتی ہو کہ احرف کاتعلق وجوہ قراء ت کے ماسواء سے ہے۔ اسی طرح ایسی بھی کوئی روایت نہیں جو وجوہ کو قراء ت کے ساتھ مقید کرنے پر مزید کسی قید کا تقاضا کرے۔اس قید پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ احرف کے نزول کی وجہ اور بنیادی حکمت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اس کا تعلق قراء ت سے ہو۔ لہٰذا سبعہ احرف کو اس مفہوم سے بدل کر کسی دوسرے مفہوم میں ڈھالنے کی کوششیں بے جا تصرف اوربلادلیل من مانی کے زمرے میں آتی ہے۔
احرف کی یہی تفسیر رخصت کے لحاظ سے زیادہ قابل قبول ہے، کیونکہ اصل مشقت تو قراء ت میں ہی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قراء ت کی مختلف وجوہ (منزلہ) کی اجازت عطا کردی اور مکلف کو ان میں سے کسی ایک کو اختیارکرنے کی اجازت دی کہ اس کی زبان پرجوو جہ بسہولت ادا ہوسکے اور اس کے لہجہ اور لغت کے مطابق ہو، اس کو اختیارکرلے۔سو یہی وہ اختیارہے جس کا شارع حکیم نے اُمت کے لیے ارادہ کیا ہے۔
وجوہ میں اس تعدد کی وجہ سے معانی میں اختلاف یا زیادتی کی قسم کا جو اثر مرتب ہوتاہے،اس طرح کلام میں اغراض و مقاصد کے لحاظ سے جو تبدیلیاں پیش آتی ہیں اور انواع تغایرہ و اختلاف میں جو کچھ رونما ہوتا ہے، اسی طرح ان سبعہ احرف کے ذریعہ اعجاز اور اسرار بلاغت کا جو انکشاف ہوتاہے اور عرب کی فصیح لغات سے جس قدر آشنائی اور ان کے کلام سے آگاہی حاصل ہوتی ہے،… تو
مذکورہ بالا تمام اصناف ، اس سے حاصل ہونے والے فوائد اور ان کی اقسام کو ہم سبعہ احرف کی ذیلی بحثوں میں شمارکرتے ہیں۔ ان کا اس کے مفہوم کے ادراک اوراس کی تفسیر کی بحث اور اس سے مراد کی جستجو سے کوئی اہم تعلق نہیں بلکہ یہ تمام چیزیں اس کے مفہوم اور تفسیر کو سمجھنے میں ایک خارجی حیثیت رکھتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢)سبعہ احرف کی توضیح کے ضمن میں ہم نے ان الفاظ کو ذکر کیاتھاکہ ’’ان متعدد و متغایر وجوہ میں سے کسی ایک پربھی قرآن کی تلاوت ہوسکتی ہے اور اس تلاوت کی مثال بعینہٖ وہی ہے جیسا کہ کوئی منزل قرآن کی تلاوت کرے۔‘‘ یہ بات نبی اکرمﷺکے اس قول (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث صفحہ۴۴ (رشد، قراء ات نمبر، حصہ اول:ص۱۰۸)) سے مترشح ہوتی ہے کہ آپﷺنے فرمایا: ’’ان میں سے جس پربھی تم قراء ت کرو گے تو حق وصواب کو ہی پاؤ گے‘‘ یعنی قرآن مجید کو ہی اس مفہوم کے اخذ پرآپ کا ایک قول (حضرت ابی رضی اللہ عنہ کی حدیث بروایت جریر صفحہ ۴۶ (رشد، قراء ات نمبر، حصہ اول:ص۱۰۸)) بالکل صریح بھی ہے’’ کہ جس نے ان حروف سے کسی ایک پر پڑھا تو گویا اس نے قرآن پرہی تلاوت کی‘‘ یعنی اس نے قرآن ہی تلاوت کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے بھی یہ الفاظ مروی ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ’’جو آدمی کسی ایک حرف پر تلاوت کرتا ہو تو اسے چاہئے کہ اس کو اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے ترک نہ کرے۔ اسی طرح ایسا شخص جو نبی اکرمﷺکے سکھائے ہوئے حروف میں کسی اور پر قراء ت کرتا ہو تو وہ بھی اس کو ہرگز بے رغبتی سے ترک نہ کرے کیونکہ جس کسی نے بھی قرآن کے ایک حصہ (آیت) کا انکار کیا گویا وہ پورے قرآن کے انکار کا مرتکب (۲۸) (حدیث ابن مسعودرضی اللہ عنہ (مسنداحمد)، (ابن جریر) پہلے گزر چکی ہے۔(ص:۵۳)) ہوا۔‘‘
چنانچہ یہ تمام نازل شدہ وجوہ قرآن ہی ہیں اور سب ہی شافی و کافی ہیں اور ان وجوہ کے مابین کسی قسم کا امتیاز یاترجیح روا رکھنا قرآن سے دوری ہے کیونکہ ان وجوہ کے مجموعہ پر ہی قرآن قائم ہے یعنی ان سب کو ملا کرہی قرآن کریم متکون ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصاحف کی کتابت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس بات کی شدید خواہش کی کہ تمام وجوہ کو ہر ہر کلمہ میں جمع کردیا جائے یعنی ایک ہی مصحف میں تمام وجوہ یکجا ہوجائیں تاکہ بعد میں آنے والے کسی اُمتی کو ان میں سے بعض کو بعض وجوہ پر ترجیح دینے اور امتیاز روا رکھنے کا وہم بھی نہ ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۳)۔ ہمارا یہ قول کہ ’’سبعہ احرف میں لفظ سبعہ سے عددہی مراد ہے‘‘ کی وجہ مختلف حدیث کے الفاظ ہیں کیونکہ احادیث میں سات کے عدد کی صراحت ہے۔ بلکہ تمام احادیث کے راوی حدیث کے اس جزء (علی سبعہ احرف) پر مکمل طور پر متفق ہیں۔ اسی بناء پر یہ الفاظ حدیث متواتر لفظی کا مقام رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں سات کے عدد کی تحدید پر اور بھی دلائل ہیں جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق ان حروف کی تعداد درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑھائی گئی ہے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے ایک حرف پر قرآن پڑھایا میں ہمیشہ اس سے حروف میں زیادتی کاخواہشمند رہا اور وہ بھی اس میں اضافہ کرتے رہے (حکم الٰہی کے ساتھ)، حتیٰ کہ یہ اضافہ سات حروف تک جاپہنچا۔‘‘
حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس سے مزید وضاحت اور تفصیل موجود ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ اپنی اُمت کو ایک حرف پر قرآن سکھائیے تو آپ سے میں نے زیادتی کا مطالبہ کیا تاکہ اُمت کے لیے آسانی ہو… الخ (دیکھئے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی احادیث کے ضمن میں)
چنانچہ ان احادیث کی روشنی میں (کہ جب درجہ بدرجہ اضافے کا سوال کیاجارہا ہو) سبعہ احرف سے تحدید عدد مراد نہ لینے کی صورت میں تمام تدرج بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔
چنانچہ نبی اکرمﷺکا ایک مرتبہ، دوسری مرتبہ، پھر تیسری مرتبہ مسلسل مطالبہ کرتے رہنا اورباربار بارگاہِ الٰہی میں مراجعت کرنا وغیرہ سب کے سب مکمل طور پر اس امر پر دال ہیں کہ سبعہ احر ف میں سبعہ سے تحدید ہی مراد ہو۔
محققین میں سے بعض حاذق علماء نے عدد کی تحدید اور تقیید کرنے والی عبارت (علی سبعۃ احرف)سے ایک لطیف نکتہ اخذ کیا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺنے جب بھی احرف کی تقیید یا تحدید کا قصد کیا ہے تو صرف ’’علیٰ‘‘ کے حرف کا انتخاب کیا اورکسی دوسرے حرف کو کسی بھی مقام پر استعمال نہیں کیا؟عین ممکن ہے کہ اس حرف کے ہی خاص استعمال سے آپ شرط کامفہوم واضح کرنے کا قصد رکھتے ہوں۔ سو مفہوم شرط کو محذوف سمجھنے کی صورت میں عبارت یوں ہوگی کہ:
’’ان تقرأ امتک القرآن باحرف متعددۃ علیٰ الا تتجاوز سبعۃ احرف‘‘
یہ نکتہ بڑا ہی لطیف اور دقیق ہے کیونکہ پیچھے ذکر کئے گئے صریح قرائن و آثار بھی اس کی ہی تصدیق کرتے ہیں۔(۲۹) (انظر فتح الباری)۹؍۲۸) ہمارا یہ قول کہ : (یہاں سبعہ سے عدد مراد ہے) کا مطلب دراصل یہ ہے کہ ’’کسی بھی لفظ کو مختلف وجوہ سے پڑھنے کی زیادہ سے زیادہ تعداد سات ہوسکتی ہیں اس سے زیادہ نہیں۔‘‘
 
Top