• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبعۃ اَحرف سے کیا مراد ہے؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ائمہ فن میں سے اس قول کو ابوعبید، ابوالفضل رازی، ابن قتیبہ اور ابو حاتم السجستانی رحمہم اللہ نے اختیارکیاہے اسی طرح اسی طرح محدثین ، قراء اوراُصولیوں کی ایک بڑی تعدادبھی اس کی قائل ہے۔ اس قول کی مخالفت میں سوائے اُس رائے کے جو ابن جریررحمہ اللہ کی کلام سے سمجھی جاسکتی ہے کوئی اور رائے موجود نہیں۔چنانچہ ابن جریررحمہ اللہ کی اس ضمن میں رائے اور اس کی تردید، اسی طرح قاضی عیاض رحمہ اللہ کی رائے کاابطال بھی گذشتہ اوراق میں گزر چکا ہے۔
جس شخص کو قرآن کریم کی قراء ت سے کچھ تعلق اور لگاؤ ہے اور وہ اس کی تحقیق کا خواہاں رہتاہے اس سے یہ بات مخفی نہیں کہ قرآن کریم قراء ت اور روایت کے اعتبار سے دو اقسام پر منقسم ہے۔
مواضع اتفاق: قرآن کریم کے ایسے مقامات جہاں فقط ایک ہی وجہ پڑھی جاسکتی ہو اور ان میں کسی دوسری صورت کے پڑھنے کی کوئی روایت موجود نہیں۔قرآن کے اکثر اور اہم حصہ کی یہی صورت ہے۔
مواضع اختلاف: ایسے مقاماتِ قرآنی جہاں دو یا اس سے زائد وجوہ پر زیادہ سے زیادہ سات پر) قراء ت کرنا جائز ہو۔
ان وجوہ مقروء ۃ کے شمار اور تعیین سے قبل لازم ہے کہ چند چیزیں آپ پر واضح ہوں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) قراء ات کے ضمن میں ایسا نہیں ہے کہ ہروہ روایت جو کسی نے بیان کی یاکسی جگہ لکھی ہوئی مل گئی یا پھر سند صحیح سے کوئی روایت ثابت ہوگئی تو اس کوقراء ات میں شامل کرلیا جائے گا۔بلکہ علماء اسلام کااس امر پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کی کسی قراء ت کے ثبوت کے لیے اوّلین شرط یہ ہے کہ وہ متواتر ذریعے سے ثابت ہو۔ اس شرط کے ماسوا کسی قراء ت کو قرآن میں شامل کرلینے کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔چنانچہ جب تک کسی بھی روایت میں تواتر نہ پایاجائے وہ قرآن ہرگز نہیں بن سکتی۔
اس شرط کے بعد علماء کی اکثریت اس امر پر بھی متفق ہے کہ وہ متواتر ذریعے سے ثابت ہونے والی قراء ت، مصاحف عثمانی کے رسم کے مطابق بھی ہو۔ تاکہ نبی اکرمﷺپر آخری دورمیں جو قراء ات منسوخ ہوئیں ان سے بھی قرآن کومحفوظ رکھا جاسکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فقط وہی قراء ات پڑھنی جائز ہیں جو آپﷺنے آخری حیات طیبہ میں ثابت فرما دیں۔
ان دوشروط کے بعد آپ دیکھیں گے کہ کس قدر قراء ات ایسی بچ جاتی ہیں جو ان شروط پر پوری اترتی ہیں بلکہ جملہ قراء ات کو تواتر کی شرط پرپورا کرتے ہوئے آپ کو معلوم ہوگا کہ ان قراء ات کا دسویں سے بھی کم حصہ باقی رہ جاتاہے، حالانکہ کتب میں قراء ات کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر آیت ’’ملک یوم الدین‘‘ میں ابوحیان رحمہ اللہ نے قراء ت کی۱۵وجوہ ذکرکی ہیں (البحر المحیط:۱؍۲۰) اور ’’وَعَبَدَ الطَّاغُوْت‘‘میں ابوحیان رحمہ اللہ نے لفظ’عبد‘میں ۲۲ قراء ات (نفس المصدر:۳؍۵۱۹)، ابن خالویہ رحمہ اللہ نے ۱۹(مختصر فی شواذ القرآن، ص:۳۳) اور ابن جنی رحمہ اللہ نے۱۰ قراء ا ت ذکر کی ہیں (المحتسب :۱؍۲۱۴)۔اسی طرح ’’فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ‘‘ میں لفظ’اُف‘میں ابوحیان رحمہ اللہ نے۴۰ لغات (البحر المحیط:۶؍۲۳)،ابن خالویہ رحمہ اللہ نے۱۱وجوہ(شواذ القرآن،ص:۷۶) اور ابن جنی رحمہ اللہ نے ۸ وجوہ(المحتسب :۲؍۱۸) کو ذکر کیاہے۔
چنانچہ ان تین آیات میں اَسانید کی چھان پھٹک اورشروط کو پورا کرتے ہوئے یہ معلوم ہوگا کہ:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭(مٰلِکِ)کے لفظ میں ، متواتر قراء تیں دو ہیں ایک تو مَالِکِ یعنی ’میم‘کے بعد الف کے ساتھ ، یہ عاصم، کسائی، یعقوب اور خلف رحمہم اللہ کی قراء ت ہے اور دوسری قراء ت ملک الف کے بغیر ہے۔ یہ قراء ت نافع ، ابوعمرو، ابن کثیر ، ابن عامر ، حمزہ اور ابوجعفر رحمہم اللہ کی ہے۔
٭’’عَبَدَ الطَّاغُوْت‘‘ میں بھی متواتر وجوہ صرف دو ہی ہیں۔ایک تو ’عَبُدَ الطّٰغُوْت‘یعنی عین اور دال پر فتحہ، باء پرضمہ اور طاغوت کی ت پر کسرہ یہ حمزہ رحمہ اللہ کی قراء ت ہے اور دوسری قراء ت ہے عَبَدَ الطّٰغُوْت۔ یعنی عین با اور دال کے فتحہ کے ساتھ، طاغوت (کو مفعول بناتے ہوئے) ت پر نصب، یہ قراء ت ہے باقی دس ائمہ کی(راجع فی ذلک اتحاف فضلا،البشر:للدمیاطی،البناء)
٭ (اُفٍّ )لفظ قرآن میں تین مقامات پر آیاہے۔سورہ الاسراء، انبیاء اور الاحقاف میں۔ اس میں تین وجوہِ قراء ت جائز ہیں۔ پہلی وجہ ہے ’اُف‘ میں ف پر شد دوزیروں کے ساتھ، یہ نافع رحمہ اللہ کی روایت ہے، حفص رحمہ اللہ کی عاصم رحمہ اللہ سے روایت ہے اور ابوجعفررحمہ اللہ کی بھی یہی روایت ہے۔ دوسری وجہ فاء پرفتحہ بغیرتشدید ۔ یہ ابن کثیر، ابن عامر اور یعقوب رحمہم اللہ کی قراء ت ہے۔جبکہ اس میں تیسری وجہ فاء کے کسرہ سے بغیر تنوین کے ہے اور یہ باقی دس کی قراء ت ہے۔سو اس راستے کو اختیارکرنے پر آپ کو بخوبی معلوم ہوسکے گا کہ قرآن میں اختلاف قراء ات والے مقامات میں بھی سات سے زیادہ وجوہ کبھی ممکن نہیں۔
اس بحث کے بعد ہم سیوطی رحمہ اللہ کے اس قول کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ ’’اس اصول پر اشکال یہ پیداہوتا ہے کہ قرآن میں بعض کلمات ایسے بھی ہیں جو سات سے زیادہ وجوہ پر تلاوت کئے جاسکتے ہیں۔‘‘ (دیکھیں صفحہ:۱۷۱) اس قول کے بارے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ یہ قول تحقیق سے بعید ہے اور حقیقت سے اس کاکوئی واسطہ نہیں۔
حیرانگی والی بات یہ ہے کہ قول رابع پرتعاقب سے صرف دو، تین سطر پہلے سیوطی رحمہ اللہ نے قول ثالث پر جن الفاظ کے ساتھ تعاقب کیاہے، ان کے یہ دونوں تعاقب بھی باہم متضاد ہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ سبعہ حروف سے مراد سبعہ قراء ات ہیں۔اس پرسیوطی رحمہ اللہ کاتعاقب یہ ہے کہ قرآن کریم میں کوئی بھی ایساکلمہ نہیں (سوائے چند ایک کلمات کے ) جو سات وجوہ پر پڑھا جاسکتا ہو اوروہ چند کلمات بھی انتہائی کم ہیں۔ بطورِ مثال ’’عَبَدَ الطّٰغُوْت‘‘اور ’’فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ‘‘ کے کلمات ایسے ہیں جن میں سات وجوہ جائز ہیں۔لہٰذا سیوطی رحمہ اللہ کاتیسرے قول پر تعاقب اور چوتھے قول پرتعاقب دونوں باہم متناقض ہیں کہ ایک جگہ وہ ایسے کلمات کاوجود بتا رہے ہیں جن میں سات سے زیادہ وجوہ بھی ممکن ہیں جبکہ اس سے چند سطریں قبل سات حروف والے کلمات کی تعداد بھی بہت محدود کہہ رہے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) کوئی شخص پھر بھی ہمارے قول پر سیوطی رحمہ اللہ کے ان اقوال سے یہ اعتراض کرسکتا ہے۔چنانچہ جواب میں ہم کہتے ہیں کہ :سب سے پہلے تو قرآن میں ایساکلمہ ہی کوئی نہیں جس کو سات وجوہ پر پڑھا گیا ہو۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ سبعہ حروف میں سے ایک اہم تعداد کو نبی اکرمﷺپر عرضۂ اخیرہ میں منسوخ کردیاگیاتھا اور اس کے بعد نبی اکرمﷺنے جبریل پر دو مرتبہ قرآن کی تلاوت کرکے بذریعہ نص قرآن کی آخری قراء ات کو ثابت کردیا اور آیات کی ترتیب، گنتی اور منزل وجوہ کی حتمی تعیین کردی۔چنانچہ اس میں کوئی بھی ایساحرف باقی نہیں رہا جو مواضع اختلاف میں چھ وجوہ سے زیادہ پر تلاوت ہوسکے۔لہٰذا اب قرآن میں کوئی بھی کلمہ ایسا نہیں ہے جس میں چھ سے زیادہ متواتر وجوہ کی تلاوت جائز ہو۔سوائے ان متواتر روایات کے ذریعے ثابت ہونے والی وجوہ کے جو قراء ِ اربعہ نے روایت کی ہیں اور جنہیں ’إتحاف فضلاء البشر‘ میں’البناء‘نے ذکر کیا ہے۔ ان روایات کی اسانید اگرچہ حد تواتر کونہیں پہنچتیں اور علماء ان پر شاذ قراء ات کاحکم لگانے میں متفق ہیں تاہم یہ قراء ات صحیح الاسناد ہیں اور اہل فن کے ہاں معلوم طرق سے مروی ہیں۔ ان قراء ات کو شامل کرکے ہم مروی وجوہ کی تعداد کسی بھی حرف میں سات تک کرسکتے ہیں لیکن ان کے شامل ہونے کے بعد بھی کوئی ایساکلمہ نہیں جس میں پھر بھی سات سے زیادہ وجوہ ممکن ہوں۔مثال کے طور پر سورۃ البقرۃ (الایۃ:رقم ۹۸) میں جبریل اورمیکائل کے کلمات ہیں۔
جبریل میں۵ متواتروجوہ پرقراء ت صحیح ہے:
(١) ج اور راء کے کسرہ کے ساتھ۔ہمزہ کو حذف کرنے اور یاء کو باقی رکھنے کی صورت میں! یہ نافع، ابوعمرو، ابن عامر اور حفص کی عاصم رحمہم اللہ سے روایت ہے۔جِبْرِیْلَ
(٢) ج کے فتحہ اور راء کے کسرہ کے ساتھ، یاء کو باقی رکھتے ہوئے ہمزہ کے حذف کی صورت میں ابن کثیرمکی رحمہ اللہ کی یہ روایت ہے۔ جَبْرِیْلَ
(٣) جیم اور راء کے فتحہ کے ساتھ، ہمزہ مکسورہ کے اثبات اور یائے ساکنہ کے ساتھ یہ حمزہ،کسائی اور خلف رحمہم اللہ کی مختار قراء ت ہے۔ جَبْرَئِیْلَ
(٤) تیسری صورت لیکن ہمزہ مکسورہ کے بعد یاء کے حذف کے ساتھ۔ یہ قراء ت ہے یحییٰ بن آدم رحمہ اللہ کی ابی بکر بن عیاش عن عاصم کے طریق سے۔ جَبْرَئِلَ
(٥) پانچویں قراء ت حمزہ رحمہ اللہ کی ہے جس میں وقف کے ساتھ ساتھ ہمزہ کی ’’تسہیل بیَن بیَن‘‘ ہے۔
یہاں دو وجوہ ایسی اور بھی ہیں جن پر قراء ات نہیں کی جاسکتی، پہلی وجہ کو حسن بصری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ حذف اور ہمزہ مکسور سے قبل الف کے اثبات یعنی’جَبْرَائِلَ‘‘ ! دوسری صورت ’ابن محیصن‘کی ’مبہج‘ سے مروی ہے جوکہ جیم و راء کے فتحہ ہمزہ مکسورہ اورلام مشدد کے ساتھ ہے۔یعنی جَبْرَئِلَّ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ جملہ وجوہ ملاکر سات ہوئیں۔ جن میں صرف ۵ وجوہ متواتر ہیں۔
اسی طرح ’’مِیْکٰلَ‘‘ میں۴ وجوہ متواتر ہیں۔’’مَیْکَائِلَ‘‘ یعنی الف کے بعد ہمزہ ہو لیکن ہمزہ کے بعد ’ی‘ موجود نہ ہو دوسری وجہ یہ ہے کہ مِیْکَالَ کو بروزن مِثْقَالَ کے مِیْکَالَ پڑھاجائے۔ تیسری وجہ ہمزہ اور یاء دونوں کے اثبات کے ساتھ یعنی مِیْکَائِیْلَ اور اس کی چوتھی وجہ حمزہ رحمہ اللہ کے نزدیک وقف کی حالت میں ہمزہ کو تسہیل سے پڑھنا ہے۔
یہاں ابن محیصن رحمہ اللہ کے لیے ایک وجہ اور بھی ہے جو کہ پڑھی نہیں جاتی اور وہ ہے کہ میکائیل کو ہمزہ کے ساتھ یاء کے بغیر اور لام کی تشدید سے یعنی مِیْکَئِلَّ پڑھا جائے اور یہ مبہج کے طریق سے ابن محیصن رحمہ اللہ سے مروی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) تیسری بات یہ ہے کہ ہم نے سبعہ احرف یا سبعہ وجوہ کو ایک کلمہ کے ساتھ خاص اور مقیدکردیا ہے یعنی سات وجوہ کے ہونے کو کسی کلمۂ واحدہ کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی کلمہ واحدہ میں زیادہ سے زیادہ سات وجوہ ہوسکتی ہے لیکن چند ایک کلمات کوملا لینے سے وجوہ کی تعداد کافی زیادہ ہوسکتی ہے۔ چنانچہ سبعہ وجوہ کے ساتھ کلمۂ واحد کی شرط سے دراصل اُن بے شمار طرق سے ان وجوہ کوممتاز کرنا مقصود ہے جنہیں مختلف کلمات کے جوڑنے کے بعد قراء ثابت کرتے ہیں۔ آپ بھی جب متعدد کلمات کو جوڑ کر وجوہ قراء ات کااندازہ کریں گے تو وجوہ کے باہم ضرب کھانے سے یہ بھی ممکن ہے کہ وجوہ کی تعداد ایک جملہ یا عبارت میں۱۰۰ تک بھی جاپہنچے۔
چنانچہ اس حسابی جدول اور ضرب کے عمل کے نتیجے میں قراء کرام سورۃ الفاتحہ کوسورۃ البقرہ سے ملانے کی صورت میں ۱۱۷ وجوہ (قارن بما فی غیث النفع، ص:۲۸) بتاتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی صورت کے خاتمے پرعموماً وجوہ کی یہ تعداد بہت بڑھ جاتی ہے، لیکن خیال رہے کہ وجوہ میں یہ طریقہ سلف کے راستے سے ہٹ کر ہے بلکہ ایساکرنا ایک بدعت ہے اور اس کی ابتداء پانچویں صدی ہجری کے بعد ہوئی ہے۔پانچویں صدی ہجری سے قبل کوئی اس طرح وجوہ کے جدول حسابی اورضرب وغیرہ سے واقف نہ تھا۔ لہٰذا اس طریقہ کو محققین اختیارنہیں کرتے اور انہوں نے اس کو مستحسن نہیں گرداناسوائے اس کے کہ تعلیم مقصود ہو،کیونکہ قراء ات کی تعلیم کے دوران ان کی مشق اوراجراء کے لیے یہ طریقہ از حدمفید ہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ متعلم دوران حفظ کسی سورت کے ختم ہوجانے کی حالت میں ایک ایک کرکے ان قراء ات کے اجراء کو مکمل نہیں کرسکتا بلکہ مختصر وقت کے پیش نظر اس کو جملہ وجوہ و روایات کو جمع کرکے پڑھنا ہوتا ہے۔
اس تمام بحث کی وضاحت کے لیے جس سے یہ بحث جلدذہن نشین ہوجائے، ہم درج ذیل مثال سے اسی معاملہ کو واضح کرتے ہیں، جس طرح’’ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ہے۔اس عبارت میں الرحیم کی یاء کے لیے بحالت ِ وقف مد سے تین وجوہ پڑھی جاسکتی ہیں یعنی یا تو یہاں قصر ہو یا توسط، یاپھر اشباع!
اس کے بعد الرحیم کی میم اورملک کی میم کے مابین دو صورتیں بحالت ِوصل ہیں۔ ادغام کے ساتھ یاپھر عدم ادغام سے، نیز ہردو حالتوں میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ ملک میں بھی دو طریقے (یعنی الف کے ساتھ یابغیر الف کے ناجائز ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ اب جب آپ ان سب وجوہ کو (صرف انہیں وجوہ کا اہتمام کرتے ہوئے جن کو ہم نے ذکر کیا ہے )جمع کریں تو سات وجوہ بنتی ہیں،لیکن یہ سات وجوہ ایک کلمہ میں نہیں بلکہ دو کلمات کو ملانے کی صورت میں ہیں، کیونکہ کلمہ ’رحیم‘کی اپنی وجوہ تو صرف تین یعنی بصورتِ مد عارض ہیں جبکہ ’مٰلِکِ‘ کی ذاتی وجوہ دو (الف اور بغیر الف کے) ہیں۔ اور دونوں کلموں کو ملانے پر دو وجہیں مزید ہیں۔ چنانچہ کسی کلمہ کی وجہ کو گنتے ہوئے (کہ آیاوہ سات سے زیادہ ہیں یا کم؟) دوسرے کلمہ کے ساتھ ملنے کے وجہ سے پیدا ہونے والی وجوہ کو ساتھ نہیں شامل کیا جائے گا بصورت دیگر آپ قراء کے حسابی جدولوں (جو کہ طلسم افلاک کے مشابہ ہے) میں واقع ہوجائیں گے۔
اسی طرح ’’فَتَلَقیّٰ اٰدَمُ مِنْ رَبِّہِ کَلِمٰتٍ‘‘ کی مثال ہے۔ اس مقام پر فرش (’فرش‘قراء کی اصطلاح میں قراء ات میں ہونے والی ایسی تبدیلی کو کہتے ہیں جو اکثر تبدیلیوں کے لیے قراء کے وضع کئے ہوئے اصول و ضوابط قراء ات کے تحت نہیں آسکی۔ یعنی قراء نے متعدد بار واقع ہونے والی تبدیلیوں کے لیے استقراء کے بعد کچھ مخصوص قواعد(مثلاً مدو قصر، تحقیق و تسہیل وابدال اور فتح و امالہ وغیرہ) وضع کئے ہیں تاکہ ان قواعد کے ذریعے قراء ات کا احاطہ کیا جاسکے لیکن جو تبدیلی کسی ایسے ضابطے کے تحت نہ آسکے اور فرداً فرداً اس کو یادکیاجائے، اسے فرش کہا جاتا ہے۔) سے ’آدم‘ کے لفظ پرنصب اور’کَلِمٰتٍ‘ پررفع ہے۔یہ ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کی قراء ت ہے جبکہ دوسروں نے اس کے برعکس پڑھا ہے۔ سو اس مقام پر دو وجوہ تو یہ ہوئیں۔پھر’فَتَلَقّٰی‘کے الف میں تین وجوہ (فتح، امالہ اور تقلیل) پڑھی جاتی ہیں، علاوہ ازیں ’ آدم‘ کے لفظ میں الف میں بھی تیں وجوہ یعنی طول، توسط اور قصر ہیں۔چنانچہ اس جملہ کی مجموعی وجوہ ۱۰ ہوئیں۔ لیکن وجوہ کو یوں جمع کرنا صحیح نہیں، نہ ہی قراء اس کی اجازت دیں گے بلکہ اگر ان کے حساب اور طریقے پر چلا جائے اور ہرکلمہ کی وجوہ کو باہم ضرب دیں تو آپ کے سامنے وجوہ کی ایک بڑی تعداد آجائے گی جس کے بعد آپ نبی اکرمﷺکے اس فرمان کہ ’’میری اُمت پر آسانی فرمائیے‘‘ (انظر غیث النفع، ص:۴۷) کوبھولنا چاہیں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الغرض ایک جملہ میں وجوہ کی تعداد اَن گنت ہوسکتی ہے یعنی غیرمحدود ہے، لیکن ایک ہی کلمہ میں انفرادی طورپر وجوہ کی تعداد سات سے ہرگز بڑھ نہیں سکتی بلکہ واقعتا تو چھ سے زیادہ نہیں ہے۔ جیساکہ تفصیل گزر چکی۔
اس کی ایک اور مثال لیں: ’’وَسَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ‘‘اس جملہ میں وَسَارِعُوْا کی واؤ میں دو وجوہ متواترہ ہیں ایک تو واؤ کے ساتھ اور دوسری واؤ کے حذف کی صورت میں نافع، ابن عامر اور ابوجعفررحمہم اللہ نے بغیر واؤ کے سارعوا پڑھا ہے۔ جبکہ باقی دس قراء نے واؤ کے ساتھ پڑھا ہے۔دوسرے کلمہ یعنی سَارِعُوْا میں بھی دو وجوہ ہیں ایک تو امالہ جو کہ کسائی رحمہ اللہ سے منقول ہے اور دوسرا عدم امالہ کے ساتھ تلاوت کرنا۔مزید برآں سارعوا کو آگے ملانے کی صورت میں بھی مدمنفصل (ایسی مد کو کہتے ہیں جس میں سبب ِ مد اور حرف ِ مد ایک کلمہ میں نہ ہوں) ہے اور مد منفصل میں بھی دو وجہیں ہیں ایک تو قصر اور دوسری طول۔ قصر کی مقدار ایک الف کے برابر ہے۔ ایک الف کااندازہ کسی انگلی کو دوبارہ کھولنے اور بند کرنے سے لگایا جاتا ہے یعنی گھڑی کے تقریباً دو سکینڈ اس کی مدت ہے۔مد کے مراتب میں بھی قراء میں اختلاف ہے کہ قصر، توسط اور اشباع کی مدت کتنی ہے؟ لیکن بہرحال یہ مراتب وجوہ میں داخل نہیں کیونکہ ہر قاری کی اَدا کے مطابق اس کا اندازہ ہے۔ چنانچہ مد (چاہے کسی مرتبہ سے ہو) کو ایک ہی وجہ شمار کیا جائے گا اور اس کے مقابل قصر ہے۔ الغرض ’’وَسَارِعُوْا‘‘ کے لئے کل چھ وجوہ ہوئیں ،لیکن ہر دو وجوہ دوسری دو وجوہ سے علیحدہ ہیں اور دوسرے کلمہ میں ہیں اور ان کو آپس میں اکٹھا کرکے شمار نہیں کیا جائے گا، بلکہ اکیلے کلمہ سارعوامیں صرف دو وجوہ ہیں باقی تو ساتھ ملانے کی صورت میں ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’آلْئٰنَ‘‘سورہ یونس میں دو مقام پر آیا ہے اور دوسرے ہمزہ میں تین وجوہ پڑھی گئی ہیں( تسہیل بین بین اور الف سے بدل کر مد و قصر، دوسری وجہ ہے ہمزہ کی حرکت لازم کو نقل کرنا اور تیسری وجہ سکتہ یا بغیر سکتہ کے پڑھنا)
چنانچہ دوسرے ہمزہ میں جو کہ ہمزہ وصل ہے کل تین وجوہ ہوئیں لیکن قراء ہر وجہ میں مد کی وجوہ کا بھی اضافہ کرتے ہیں چاہے وہ مدعارض وقفی ہو جو بحالت وقف ہوتی ہے یا مدبدل۔ نتیجتاًاس کلمہ میں دسیوں مرکب وجوہ بن جاتی ہیں۔ (قارن بالبدور الزاھرہ، ص۱۴۴)

٭_____٭_____٭
 
Top