• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سجدوں کا رفع الیدین

شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ بھی جہالت ہے کہ کہا جائے کہ کوئی اثر نہیں پڑتا!
بھائی یہ جہالت ہے یا کیا ہے اس کا تو مجھے نہیں پتہ البتہ صحیح بخاری کی حدیث یہی بتا رہی ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وجہ یہ کہ جس شخص کو تین یا تین سے زیادہ دفعہ یہ کر کر لوٹایا جائے کہ جاؤ نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔ پھر جب وہ کہے کہ مجھے سکھائیں۔ تو آپ ہی بتائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ’’حرج‘‘ والی بات کو چھوڑ سکتے تھے؟

آپ کا خیال فقہ احناف کے مطابق بھی باطل ہے!
آپ کی بات میرے لئے حجت نہیں ہاں قرآن حدیث سے ثابت کریں۔
فلم يرفع يديه إلا مرة واحدة
سے کیا اخذ ہوتا ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی یہ جہالت ہے یا کیا ہے اس کا تو مجھے نہیں پتہ البتہ صحیح بخاری کی حدیث یہی بتا رہی ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وجہ یہ کہ جس شخص کو تین یا تین سے زیادہ دفعہ یہ کر کر لوٹایا جائے کہ جاؤ نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔ پھر جب وہ کہے کہ مجھے سکھائیں۔ تو آپ ہی بتائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ’’حرج‘‘ والی بات کو چھوڑ سکتے تھے؟
آپ حدیث میں رکوع اور سجدہ کی تسبیحات کابھی نہیں بتایا گیا، تو کیا اس کے بغیر نماز میں کوئی اثر نہیں پڑے گا؟
ویسے بھی احناف و فقہ حنفیہ اس حدیث کی منکر ہے!
آپ کی بات میرے لئے حجت نہیں ہاں قرآن حدیث سے ثابت کریں۔
فلم يرفع يديه إلا مرة واحدة
سے کیا اخذ ہوتا ہے؟
آپ کے لئے حجت کس نے کہا، میں نے تو یہ کہا تھا کہ آپ کا خیال باطل ہے!
آپ کے لئے تو آپ کا خیال ہی ہے!
فورم پر موجود کسی حنفی صاحب علم سے کہلوا دیں کہ اس حدیث سے اصول فقہ حنفیہ کے تحت رفع عند الرکوع و رکعتین کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
آپ حدیث میں رکوع اور سجدہ کی تسبیحات کابھی نہیں بتایا گیا، تو کیا اس کے بغیر نماز میں کوئی اثر نہیں پڑے گا؟
پیارے بھائی آپ کو اعتراض مجھ پر ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر؟ انہوں نے جو ضروری تھا وہ بتا دیا اگر ایسا نہیں تو آپ دلیل سے بتائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کیا بتانا (نعوذ باللہ) بھول گئے؟

آپ کے لئے حجت کس نے کہا، میں نے تو یہ کہا تھا کہ آپ کا خیال باطل ہے!
آپ کے لئے تو آپ کا خیال ہی ہے!
کسی کے خیال کو باطل کہہ دینے سے وہ باطل نہیں ہوجایا کرتا بلکہ دلیل سے ہؤا کرتا ہےلہٰذا دلیل دیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
میجر تین طرح کی احادیث ہیں۔
ایک جن میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کا ذکر ہے۔
دوسری جس میں سجدوں کے درمیان کا انکار ہے۔
تیسری جس میں سوائے تکبیر تحریمہ کے اور کہیں بھی رفع الیدین کا انکار ہے۔
اہل حدیث حضرات ان میں سے کسی پر بھی نہیں۔ وجہ یہ کہ یہ صرف تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع جاتے رکوع سے اٹھتے اور تیسری رکعت کو اٹھتے وقت کی رفع الیدین کے قائل ہیں۔ جبکہ ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کی تخصیص اگر مانی جائے تو وہ صرف سجدوں کے درمیان کی ہے بقیہ کی نہیں۔ یا پھر تخصیص ہے کہ سوائے تکبیر تحریمہ کے اور کہیں نہیں۔ اس کے مابین والی کوئی حدیث بتائی جائی جس میں آپ کی مذکورہ رفع الیدین کے سوا باقی کی نفی کی گئی ہو۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پیارے بھائی آپ کو اعتراض مجھ پر ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر؟ انہوں نے جو ضروری تھا وہ بتا دیا اگر ایسا نہیں تو آپ دلیل سے بتائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کیا بتانا (نعوذ باللہ) بھول گئے؟
میرا اعتراض تو آپ کی جہالت پر ہے، کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ گمان کرتے ہو کہ نعوذباللہ ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود کی تسبیح، التحیات ، دوردو بتانا بھول گئے!
مرشد صاحب اگر آپ اس حدیث میں بیان کردہ امور کے علاوہ دیگر امور کو نماز میں ضروری نہیں سمجھتے، تو اان کے غیر واجب و فرض و رکن ہونے کا انکار کردیجیئے!
اور اگر یہ نہیں کرسکتے، تو مان لیجیئے کہ اس حدیث ان اصلاً امور کا بیان ہے، امور میں اس صحابی کی اصلاح کی ضرورت تھی، اور باقی تمام کا ذکر یہاں نہیں!
اور جو بنیادی بات اس حدیث میں بیان ہوئی کہ رکوع و سجود و قومہ و جلسہ بین السجدتین میں طمانیت لازمی ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، اس کی فقہ حنفیہ منکر ہے!
کسی کے خیال کو باطل کہہ دینے سے وہ باطل نہیں ہوجایا کرتا بلکہ دلیل سے ہؤا کرتا ہےلہٰذا دلیل دیں۔
آپ کے خیال کا حقیقت و حدیث کے خلاف ہونا اس کی دلیل ہے، اور وہ موجود ہے!
اب آپ مرزا غلام قادیانی کے پیروکاروں کی طرح یہ نہ کہہ دینا کہ قرآن و حدیث میں آپ کے نام کی تصریح سے بتلایا جائے کہ آپ کا خیال باطل ہے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میجر تین طرح کی احادیث ہیں۔
ایک جن میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کا ذکر ہے۔
دوسری جس میں سجدوں کے درمیان کا انکار ہے۔
تیسری جس میں سوائے تکبیر تحریمہ کے اور کہیں بھی رفع الیدین کا انکار ہے۔
اہل حدیث حضرات ان میں سے کسی پر بھی نہیں۔ وجہ یہ کہ یہ صرف تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع جاتے رکوع سے اٹھتے اور تیسری رکعت کو اٹھتے وقت کی رفع الیدین کے قائل ہیں۔ جبکہ ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کی تخصیص اگر مانی جائے تو وہ صرف سجدوں کے درمیان کی ہے بقیہ کی نہیں۔ یا پھر تخصیص ہے کہ سوائے تکبیر تحریمہ کے اور کہیں نہیں۔ اس کے مابین والی کوئی حدیث بتائی جائی جس میں آپ کی مذکورہ رفع الیدین کے سوا باقی کی نفی کی گئی ہو۔
یتیم و مسکین فی الحدیث کے مقلد کی جہالت کا شاہکار!
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
میرا اعتراض تو آپ کی جہالت پر ہے، کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ گمان کرتے ہو کہ نعوذباللہ ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود کی تسبیح، التحیات ، دوردو بتانا بھول گئے!
بھائی جہالت کا مظاہرہ کون کر رہا ہے خود ہی ملاحظہ فرما لیں میں وہ حدیث لکھ رہا ہوں ماننا یا نہ ماننا آپ کے ذمہ اس کو منوانا میرے ذمہ نہیں۔
صحيح البخاري - (ج 19 / ص 276)
5782 - حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَصَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْكَ السَّلَامُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ فَقَالَ وَعَلَيْكَ السَّلَامُ فَارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَقَالَ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الَّتِي بَعْدَهَا عَلِّمْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا
وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ فِي الْأَخِيرِ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي سَعِيدٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی جہالت کا مظاہرہ کون کر رہا ہے خود ہی ملاحظہ فرما لیں میں وہ حدیث لکھ رہا ہوں ماننا یا نہ ماننا آپ کے ذمہ اس کو منوانا میرے ذمہ نہیں۔
جہالت کا ارتکاب و مظاہرہ آپ کر رہے ہیں! کہ مزکورہ حدیث میں مذکور امرو کے علاوہ کسی اور امر کو ضروری بھی کہنے کے انکاری ہے، جبکہ فقہ حنفیہ اس حدیث میں مذکور امور کو تو لازمی نہیں مانتی لیکن اس حدیث کے علاوہ کچھ امور کو واجب مانتی ہے!
لیکن مرشد جی! جسے ایمان کی فکر نہ ہو، وہ ہٹ دھرمی میں کچھ بھی کرسکتا ہے!
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
آپ کے خیال کا حقیقت و حدیث کے خلاف ہونا اس کی دلیل ہے، اور وہ موجود ہے!
اب آپ مرزا غلام قادیانی کے پیروکاروں کی طرح یہ نہ کہہ دینا کہ قرآن و حدیث میں آپ کے نام کی تصریح سے بتلایا جائے کہ آپ کا خیال باطل ہے!
بھائی یہ تو ایسے ہی ہے کہ آپ فرما دیں اور جزاک اللہ خیرا کہنے والے واہ واہ کر دیں۔ بھائی کسی کے کیال کو باطل قرار دینے کے لئے دلیل درکار ہوتی ہے اور دلیل آپ دے نہیں رہے۔ اپنی طرف سے بدظنی بھی کر رہے ہو۔ میں نے جو کہا ی نہیں آپ کو کیا علم غیب حاصل ہے کہ میں ایسا کہہ دوں گا؟ کچھ تو عقل سے کام لو۔
یاد رکھو حدیث کی فقاہت اور رجال کی پہچان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ رجال کی پہچان علم ہے فقہ الحدیث نہیں۔ تم لوگوں نے سارا زور رجال کی پہچان پر لگا رکھا ہے جب کہ اس کام سے اسلاف سبکدوش ہوچکے۔ اب آنے والوں کا کام متن کو دیکھنا ہے۔ اگر انہیں متن میں کچھ گڑبڑ محسوس ہو تب روات کو دیکھیں کہ کہیں اس میں کوئی راوی ایسا تو نہیں کہ اس سے گڑ بڑ ہو گئی ہو۔ یاد رکھو کہ یہ گمان رکھنا کہ راوی نے جان بوجھ کر گڑ بڑ کی ہوگی سخت جہالت کی بات ہے۔ اللہ ہمیں دین کو صحیح طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
جہالت کا ارتکاب و مظاہرہ آپ کر رہے ہیں! کہ مزکورہ حدیث میں مذکور امرو کے علاوہ کسی اور امر کو ضروری بھی کہنے کے انکاری ہے
کس جگہ میں نے اس کے علاوہ سے انکار کیا؟ اللہ کے بندے کیوں افترا کرتے ہو؟

فقہ حنفیہ اس حدیث میں مذکور امور کو تو لازمی نہیں مانتی لیکن اس حدیث کے علاوہ کچھ امور کو واجب مانتی ہے!
بات اس حدیث کی ہورہی ہے اور اسی پر رہیں۔
 
Top