• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سجدہ سہو كے اسباب !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سجدہ سہو كے اسباب

نمازى كے ليے نماز ميں سجدہ سہو كب كرنا مشروع ہے ؟

الحمد للہ:

اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر رحمت اور اس دين كامل كے محاسن ميں سے ہے كہ اس نے ان كى عبادات ميں جو خلل اور نقصان پيدا ہوتا ہے جس سے مكمل طور پر بچنا ممكن نہيں اسے يا تو نوافل كے ذريعہ يا پھر استغفار وغيرہ كے ساتھ پورا كرنا مشروع كيا ہے.

ان كى نمازوں ميں پيدا ہونے والے نقصان اور اس كى كمى و كوتاہى پورى كرنے كے ليے اللہ تعالى نے سجدہ سہو مشروع كيا ہے؛ ليكن يہ كچھ خاص امور كو پورا كرنے كے ليے مشروع ہے، ہر چيز كو سجدہ سہو پورا نہيں كرتا، يا ہر چيز كے ليے سجدہ سہو مشروع نہيں.

فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے سجدہ سہو كے اسباب كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:

نماز ميں سجدہ سہو كے اجمالى طور پر تين اسباب ہيں:

1 - زيادہ.
2 - نقصان.
3 - شك.

زيادہ: مثلا انسان ركوع يا سجدہ يا پھر قيام يا بيٹھ زيادہ جائے.

نقصان: مثلا انسان كسى ركن ميں كمى كردے يا پھر نماز كے واجبات ميں سے كوئى واجب ناقص رہے.

شك: نمازى كو ادا كردہ نماز ميں تردد ہو كيا كتنى ادا ہوئى ہے، تين يا چار ركعت.

اگر كوئى شخص نماز ميں جان بوجھ كر عمدا ركوع يا سجدہ يا قيام زيادہ كرے يا زيادہ بار بيٹھ جائے تواس كى نماز باطل ہو جائيگى؛ كيونكہ اس نے زيادتى كى ہے، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے بتائے ہوئے طريقہ كے علاوہ كسى اور طرح نماز ادا كى ہے؛

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے كہ:

" جس نے كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).
ليكن اگر وہ بھول كر نماز ميں زيادتى كر لے تو اس كى نماز باطل نہيں ہو گى، ليكن سلام كے بعد سجدہ سہو كرنا ہو گا-

اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ظہر يا عصر كى نماز ميں ايك دن دو ركعت كے بعد سلام پھير ديا اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اس كا بتايا گيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے باقى مانندہ نماز پڑھائى اور سلام پھير كر دو سجدے كيے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 482 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 573 ).
اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ايك روز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں ظہر كى نماز ميں پانچ ركعت پڑھا ديں، جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ سے عرض كيا گيا:
كيا نماز زيادہ كر دى گئى ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دريافت كيا: كيا ہوا ہے ؟
صحابہ نے عرض كيا: آپ نے پانچ ركعت پڑھائى ہيں !!
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے پاؤں اكٹھے كر كے قبلہ رخ ہو كر دو سجدے كيے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 404 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 572 ).
اور نماز ميں كمى اور نقصان كے متعلق يہ ہے كہ اگر انسان نماز كے ركن ميں كمى كر دے تو يہ درج ذيل حالتوں سے خالى نہيں:

يا تو دوسرى ركعت ميں اسى جگہ پہنچنے سے قبل اسے ياد آ جائے؛ تو اس وقت اسے واپس پلٹ كر وہ ركن اور اس كے بعد كو مكمل كرنا لازم ہو گا.

يا پھر دوسرى ركعت ميں اسى جگہ پہنچ كر اسے ياد آئے، تو اس صورت ميں اس كى دوسرى ركعت اس ركن كے بدلے ميں ہو گى جو اس نے ترك كيا تھا، چنانچہ وہ اس كے بدلے ايك ركعت اور ادا كرے گا، ان دونوں حالتوں ميں سلام كے بعد سجدہ سہو كيا جائيگا.

اس كى مثال درج ذيل ہے:

ايك شخص پہلى ركعت ميں ايك سجدہ كرنے كے بعد اٹھ كھڑا ہوا نہ تو بيٹھا اور نہ ہى دوسرا سجدہ كيا، اور جب قرآت كرنا شروع كى تو اسے ياد آيا كہ نہ تو وہ دونوں سجدوں كے مابين بيٹھا ہے، اور نہ ہى اس نے دوسرا سجدہ كيا ہے، تو اس وقت وہ واپس پلٹ كر دونوں سجدوں كے مابين بيٹھے اور پھر سجدہ كر كے اپنى باقى مانندہ نماز مكمل كرے، اور سلام كے بعد سجدہ سہو كرے گا.

اور دوسرى ركعت ميں اسى جگہ پہنچ كر ياد آنے والے كى مثال يہ ہے كہ:

پہلى ركعت ميں وہ ايك سجدہ كے بعد اٹھ كھڑا ہوا اور دوسرا سجدہ نہ كيا اور نہ ہى دونوں سجدوں كے مابين بيٹھا، ليكن اسے يا اس وقت آيا جب وہ دوسرى ركعت ميں دونوں سجدوں كے درميان بيٹھا، تو اس حالت ميں اس كى دوسرى ركعت پہلى ركعت شمار ہو گى، اور وہ اپنى نماز ميں ايك ركعت زيادہ ادا كر كے سلام پھيرنے كے بعد سجدہ سہو كرے گا.

اور كسى واجب ميں نقص ہونے كى صورت يہ ہے كہ:

چنانچہ اگر كسى واجب ميں نقص رہ جائے اور اس كى جگہ سے اسے اگلى جگہ منتقل كر دے، اس كى مثال درج ذيل ہے:

مثلا وہ سجدہ ميں سبحان ربى الاعلى بھول جائے، اور سجدہ سے سر اٹھانے كے بعد ياد آئے تو اس نے بھول كر نماز كے واجبات ميں سے ايك واجب ترك كر ديا؛ چنانچہ وہ اپنى نماز جارى ركھے گا اور سلام پھيرنے سے قبل سجدہ سہو كرے گا، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پہلى تشھد ترك كى تو اپنى نماز جارى ركھى تھى اور واپس نہيں بيٹھے، اور انہوں نے سلام پھيرنے سے قبل سجدہ سہو كيا تھا.

اور شك زيادتى اور نقصان ميں تردد كو كہتے ہيں: اس كى مثال يہ ہے:


آيا اس نے تين ركعت ادا كى يا چار، اس صورت كى دو حالتيں ہيں:

يا تو اسے زيادہ يا نقصان ميں سے كسى ايك راجح ہو گى، تو جو طرف اسے راجح معلوم ہو اس پر نماز كى بنا كر كے نماز مكمل كرے، اور سلام پھيرنے كے بعد سجدہ سہو كرے.

يا پھر اس كے نزديك نقصان اور زيادتى ميں سے كوئى بھى راجح نہيں؛ تو اسے يقين پر عمل كرنا چاہيے جو كہ كم ركعات ہيں، اس پر وہ اپنى نماز مكمل كرتے ہوئے سلام سے قبل سجدہ سہو كرے گا.

اس كى مثال يہ ہے كہ:

ايك شخص نے ظہر كى نماز ادا كى اور تيسرى ركعت ميں اسے شك ہوا كہ آيا وہ تيسرى ركعت ميں ہے يا چوتھى ميں ؟ اور اس كے نزديك تيسرى ركعت راجح ٹھرى تو وہ ايك ركعت ادا كر كے سلام پھير كر سجدہ سہو كر لے.

اور اگر دونوں چيزيں برابر ہوں تو اس كى مثال يہ ہے كہ:

ايك شخص ظہر كى نماز ادا كر رہا ہے اور اسے شك ہوا كہ يہ تيسرى ركعت ہے يا چوتھى؟ اور اس كے نزديك يہ راجح نہيں كہ يہ تيسرى ركعت ہے يا چوتھى؛ تو وہ يقين پر بنا كرے يعنى كم ركعات پر اور اسے تيسرى ركعت بناتے ہوئے چوتھى ركعت ادا كر كے سلام پھيرنے سے قبل سجدہ سہو كر لے.

اس سے يہ معلوم ہوا كہ اگر كوئى واجب رہ جائے، يا پھر ركعات كى تعداد ميں شك ہو اور دونوں ميں سے كچھ راجح نہ ہو تو سجدہ سہو سلام سے قبل كيا جائيگا.

اور نماز ميں كچھ زيادتى ہو گئى يا پھر شك كى صورت ميں دونوں وجہوں ميں سے ايك راجح ہو تو سجدہ سہو سلام كے بعد كيا جائيگا.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 14 / 14 - 16 ).

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا

عامر بھائی! میں نے کہیں پڑھا تھا کہ سجدہ سہو میں وہی دعا پڑھ سکتے ہیں جو مسنون دعائیں فرض نماز کے سجدوں کے لیے ہیں، اس پر معلومات فراہم کریں۔ جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جزاک اللہ خیرا

عامر بھائی! میں نے کہیں پڑھا تھا کہ سجدہ سہو میں وہی دعا پڑھ سکتے ہیں جو مسنون دعائیں فرض نماز کے سجدوں کے لیے ہیں، اس پر معلومات فراہم کریں۔ جزاک اللہ خیرا
سجدہ سہو اور سجدہ تلاوت ميں كيا پڑھا جائے گا؟

جب نمازى نماز ميں سجدہ سہو كرے تو سجدہ ميں كيا پڑھے ؟
اور سجدہ تلاوت ميں كونسى دعا پڑھى جائيگى ؟

الحمد للہ :

سجدہ تلاوت اور سجدہ سہو ميں وہى دعا پڑھى جائيگى جو نماز كے سجدہ ميں پڑھى جاتى ہے" سبحان ربى الاعلى" يہ ايك بار پڑھنا واجب ہے، اور كمال كا كم از كم درجہ تين بار ہے، اور سجدے ميں اہم شرعى دعائيں پڑھنا مستحب ہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ركوع ميں اپنے رب كى تعظيم بيان كرو، اور سجدے ميں دعاء كرنے كى جدوجھد اور كوشش كرو، يہ زيادہ لائق ہے كہ تمہارى دعا قبول كر لى جائے"

حديث ميں استعمال شدہ لفظ " فقمن " كا معنى زيادہ لائق ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان:
" بندہ اپنے رب كے سب سے زيادہ قريب سجدہ كى حالت ميں ہوتا ہے لہذا دعاء كثرت سے كيا كرو"

يہ دونوں حديثيں امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كى ہيں.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے ركوع اور سجدہ ميں اكثر يہ دعاء پڑھا كرتے تھے:

" سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي "

اے اللہ اے ہمارے رب تو پاك ہے، اور تيرى ہى تعريف ہے، اے اللہ مجھے بخش دے"

متفق عليہ .

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ركوع اور سجدے ميں يہ دعاء بھى پڑھا كرتے تھے:

" سبوح قدوس رب الملائكة والروح "

اسے مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے .

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 443 ).
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سجدہ سہو ميں مقتدى كے حالات !!!


سجدہ سہو ميں امام كى اقتدا كا حكم كيا ہے ؟

اور جب ميں مقتدى ہوں تو سجدہ سہو كا حكم كيا ہو گا ؟


الحمد للہ:

جب امام كے ساتھ مكمل نماز ادا كرے يعنى مسبوق ( اس كى كوئى ركعت نہ رہى ہو ) نہ ہو تو مقتدى كے ليے سجدہ سہو ميں امام كى اقتدا كرنى ضرورى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:

" يقينا امام اس ليے بنايا گيا ہے كہ اس كى اقتدا كى جائے، لہذا اس كى مخالفت نہ كرو، جب وہ ركوع كرے تو تم ركوع كرو، اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو تم ربنا لك الحمد كہو، اور جب وہ سجدہ كرے تو تم سجدہ كرو"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 722 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 414 ).

ليكن مسبوق جس كى ايك يا زيادہ ركعت رہ جائيں اگر امام سلام سے قبل سجدہ سہو كرے تو اقتدا كرے گا، اور سلام كے بعد سجدہ سہو كرنے كى صورت ميں امام كى اقتدا نہ كرے كيونكہ ايسا كرنا مشكل ہے، اس ليے كہ وہ امام كے ساتھ سلام نہيں پھير سكتا، اسے فوت شدہ ركعت ادا كر كے سلام پھيرے اور پھر سجدہ سہو كر كے سلام پھيرے گا.

يہ مجمل طور پر ہے، ليكن اس كى تفصيل كو درج ذيل نقاط ميں ملخص كيا جا سكتا ہے:

سجدہ سہو ميں مقتدى كى امام كے ساتھ كئى ايك حالتيں ہيں:

1 - جب مقتدى امام كے ساتھ مكمل نماز پائے اور امام بھولنے كى صورت ميں سجدہ سہو كرے تو مقتدى امام كى لازمى متابعت كرے گا، چاہے سجدہ سلام سے قبل ہو يا بعد.

2 - اگر مقتدى مسبوق ہو يعنى اس كى كوئى ركعت رہتى ہو اور امام نماز كے اس حصہ ميں بھول جائے جو مقتدى نے امام كے ساتھ پائى ہے اس ميں تفصيل ہے:

اگر امام سلام سے قبل سجدہ سہو كرے تو مقتدى بھى اس كے ساتھ سجدہ كرے كے پھر اپنى نماز مكمل كرے گا، پھر دوبارہ سجدہ سہو كرے گا؛ كيونكہ اس كا امام كے ساتھ سجدہ كرنا اپنى جگہ پر نہيں تھا، اس ليے كہ سجدہ سہو نماز كے آخر ميں ہوتا ہے دوران نماز نہيں، بلكہ نماز كے آخر ميں ہو گا اور اس كا امام كے ساتھ سجدہ صرف امام كى متابعت كى بنا پر تھا.

اور اگر امام سلام كے بعد سجدہ سہو كرتا ہے تو مسبوق شخص امام كے ساتھ سجدہ نہيں كرے گا، بلكہ وہ اپنى نماز مكمل كر كے سلام پھير كر سجدہ سہو كر كے سلام پھيرے گا.

3 - اگر مقتدى مسبوق ہو اور امام نماز كے اس حصہ ميں بھول جائے جو مقتدى امام كے ساتھ ادا نہيں كر سكا، مثلا امام پہلى ركعت ميں بھول جائے اور مقتدى دوسرى ركعت ميں آ كر ملے تو اس حالت ميں:

اگر امام سلام سے قبل سجدہ كرے تو مقتدى امام كى متابعت كرتے ہوئے امام كے ساتھ سجدہ كر كے پھر اپنى نماز مكمل كرے گا، اس صورت ميں مقتدى دوبارہ سجدہ نہيں كرے گا كيونكہ امام كے بھولنے كا حكم مقتدى كو ملحق نہيں ہوتا.

اور اگر امام سلام كے بعد سجدہ كرے تو مقتدى امام كى متابعت نہيں كرے گا اور نہ ہى اسے نماز كے آخر ميں سجدہ كرنا لازم ہے؛ كيونكہ اسے امام كے بھولنے كا حكم ملحق نہيں ہوتا، اس ليے كہ امام مقتدى كے ساتھ ملنے سے قبل بھولا ہے.

يہ سب حالتيں تو امام كے بھولنے كى ہيں، ليكن اگر مقتدى خود بھول جائے تو اس كى بھى كئى ايك حالتيں ہيں:

4 - اگر مقتدى اپنى نماز ميں بھول جائے اور وہ مسبوق بھى نہ ہو يعنى اس نے سب ركعات امام كے ساتھ ادا كى ہوں، مثلا ركوع ميں سبحان ربى العظيم بھول جائے تو اس پر سجدہ نہيں ہے؛ كيونكہ اس كى جانب سے امام متحمل ہے، ليكن فرض كريں اگر مقتدى سے ايسى غلطى ہو گئى جس سے كوئى ايك ركعت باطل ہو جاتى ہو، مثلا سورۃ فاتحہ پڑھنا بھول گيا تو اس حالت ميں امام كے سلام پھيرنے كے بعد وہ ركعت ادا كرنا ضرورى ہے جو باطل ہوئى تھى پھر تشھد پڑھ كر سلام كے بعد سجدہ سہو كرے.

5 - اگر مقتدى نماز ميں بھول جائے اور وہ مسبوق ہو يعنى اس كى كوئى ركعت رہتى ہو تو وہ سجدہ سہو ضرور كرے گا چاہے وہ امام كے ساتھ نماز ادا كرتے ہوئے بھولا ہو يا باقى مانندہ نماز ادا كرتے ہوئے بھول جائے؛ كيونكہ اس كے سجدہ كرنے ميں امام كى مخالفت نہيں ہوتى اس ليے كہ امام اپنى نماز مكمل كر چكا ہے.

ديكھيں: رسالۃ فى احكام سجود السھو تاليف شيخ ابن عثيمين

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/72290
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ما حكم السهو في الصلاة
نماز ميں بھولنے اور غلطى كرنے كا كيا حكم ہے ؟

------------------------
السؤال :
ما حكم السهو في الصلاة من حيث الشرود الذهني بغير إرادة الإنسان؟.
انسان كےارادہ كے بغير دوران نماز ذہن منتشر ہونے اور بھولنے كا حكم كيا ہے ؟

الجواب :
الحمد لله
ينبغي للمصلي إذا حضر وقت الصلاة أن يتخلى عن كل شيء من أعمال الدنيا وشواغلها حتى يتجه ذهنه وتفكيره إلى عبادة ربه قدر الطاقة، فإذا تطهر ووقف في الصلاة وقف خاشعا تاليا لكتاب ربه أو مستمعا له متدبرا لمعانيه ولما يقوله من أذكار في صلاته ولا يستسلم للشيطان ووساوسه بل عندما يعرض له يقبل على صلاته ويتعوذ بالله من الشيطان الرجيم،
الحمد للہ:
جب نماز كا وقت ہو جائے تو انسان كے ليے ہر قسم كے دنياوى مشغولات اور كام كاج سے فارغ ہونا ضرورى ہے، تا كہ اس كا ذہن اور سوچ حسب استطاعت مكمل يكسوئى كے ساتھ اللہ تعالى كى عبادت كى طرف متوجہ ہو جائے، چنانچہ جب وہ طہارت كر كے نماز كے ليے كھڑا ہو تو نماز ميں خشوع و خضوع كے ساتھ اللہ تعالى كى كتاب قرآن مجيد كى قرآت كرتے يا پھر سنتے ہوئے كھڑا ہو، اور اس كے معانى پر غور و فكر اور تدبر كرے، اور نماز ميں جو دعائيں اور اذكار پڑھ رہا ہے اس كى معانى كو سمجھے، اور اپنے آپ كو شيطان اور اس كے وسوسوں كے سپرد مت كرے.
بلكہ جب ايسا ہو تو اپنى نماز كى طرف متوجہ ہو اور اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھے،
اس كى دليل ابو العلاء بن شخير كى درج ذيل حديث ہے:
لما روي عن أبي العلاء بن الشخير أن عثمان قال: يا رسول الله حال الشيطان بيني وبين صلاتي وبين قراءتي، قال: ( ذاك شيطان يقال له خنزب، فإذا أنت حسسته فتعوذ بالله منه واتفل عن يسارك ثلاثا ) قال ففعلت ذاك فأذهبه الله عز وجل عني أخرجه أحمد 4/216، ومسلم 4/1728 -1729، وعبدالرزاق 2/85، 499 برقم (2582، 4220) وابن أبي شيبة 7/419، 10/353، وابن السني في عمل اليوم والليلة ص 272 برقم (577).
علاء بن شخير بيان كرتے ہيں كہ عثمان رضى اللہ تعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم شيطان ميرے اور ميرى نماز اور قرآت كے مابين حائل ہو جاتا ہے؟ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ شيطان ہے جسے خنزب كہتے ہيں، جب تمہيں اس كا احساس ہو تو تم اس سے اللہ كى پناہ طلب كرو ( اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھو ) اور اپنى بائيں جانب تين بار تھو تھو كرو "
وہ كہتے ہيں: ميں نے جب ايسا كيا تو اللہ تعالى نے شيطان كو مجھ سے دور كر ديا "
مسند احمد ( 4 / 216 ) صحيح مسلم ( 4 / 1728 - 1729 ) مصنف عبد الرزاق ( 2 / 85، 499 ) حديث نمبر ( 2582 , 4220 ) ابن ابى شيبۃ ( 7 / 419 ، 10 / 353 ) اور ابن سنى نے عمل اليوم والليۃ صفحہ نمبر ( 272 ) حديث نمبر ( 577 ).
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 40 ).
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء 7/40.
http://islamqa.info/ar/8646
----------------------
 
Top