• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سجدہ سہو

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
السلام علیکم ۔۔۔رہنمائی درکار ہے


میں نماز فجر کی دو رکعت پڑھ رہا تھا۔ ایک رکعت کے بعد التحیات بیٹھ گیا اور درود پڑھ رہا تھا کہ یاد آیا کہ ایک رکعت باقی ہے اور پھر التحیات سے قیام میں آ گیا اور رکعت مکمل کی اور پھر بیٹھ گیا ۔۔ اور سلام پھیر دیا اور سجدہ سہو نہیں کیا پھر ساری صورت حال یاد آئی اور دو سجدے کئے اور سلام پھیرا دونوں طرف۔۔۔
تو کیا میری نماز درست ہو گئی ۔۔ ؟؟؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جی بظاہر درست ہی لگتی ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
هل سجود السهو يقضى
السؤال :
إذا توجب عليك أن تسجد سجود السهو في الصلاة ، ثم نسيت فلم تسجد ، هل تعتبر صلاتك باطلة ، وهل هناك طريقة لإصلاح الصلاة بعد الانتهاء منها ، أم يجب إعادة الصلاة كلها ؟ وماذا و تذكرت ذلك وأنت تصلي سُنة هل يجب عليك أن تقطع صلاتك ؟
تم النشر بتاريخ: 1999-08-04
الجواب:
الحمد لله
قال الإمام المرداوي رحمه الله في الإنصاف 2/154 : اشترط المصنف - ابن قدامة - لقضاء السجود شرطين :
أحدهما : أن يكون في المسجد .
والثاني : أن لا يطول الفصل . وهو المذهب . نص عليه
وعن الإمام أحمد : يسجد مع قِصَر الفصْل ، ولو خرج من المسجد .
وعنه أيضا : يسجد ولو طال الفصل أو تكلّم أو خرج من المسجد وهو اختيار شيخ الإسلام كما في الاختيارات الفقهية (ص94) .
وجاء في الروض المربع شرح زاد المستقنع 2/461 : (وإن نسيه) أي نسي سجود السهو الذي محله قبل السلام (وسلم ) ثم ذكر (سجد) وجوبا (إن قرُب زمنه) .. فإذا سلّم - وإن طال فصْلٌ عرفا أو أحدث أو خرج من المسجد - لم يسجد وصحت صلاته .
وجاء في الشرح الممتع للشيخ محمد بن صالح العثيمين 3/537 :
قوله : "وإن نسيه وسلم سجد إن قرب زمنه " - أي : السجود الذي قبل السلام وسلّم - سجد إن قرب زمنه فإن بَعُد سقط وصلاته صحيحة .
مثاله :
رجل نسي التشهد الأول فيجب عليه سجود السهو ومحله قبل السلام لكن نسي وسلم فإن ذكر في زمن قريب سجد وإن طال الفصل سقط : مثل لو لم يتذكر إلا بعد مدة طويلة ، ولهذا قال " سجد إن قرب زمنه " فإن خرج من المسجد فإنه لا يرجع إلى المسجد فيسقط عنه ، بخلاف ما إذا سلم قبل إتمام الصلاة فإنه يرجع ويكمل وذلك لأنه في المسألة الثانية ترك ركنا فلا بد أن يأتي به وهذا ترك واجبا يسقط بالسهو .
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية : بل يسجد ولو طال الزمن لأن هذا جابر للنقص الذي حصل فمتى ذكره جبره .
ولكن الأقرب : ما ذهب إليه المؤلف رحمه الله أنه إذا طال الفصل فإنه يسقط وذلك لأنه إما واجب للصلاة وإما واجب فيها فهو ملتصق بها وليس صلاة مستقلة حتى نقول إن النبي صلى الله عليه وسلم قال : من نام عن صلاة أو نسيها فليصلها إذا ذكرها . رواه البخاري (597) ومسلم (684) من حديث أنس . بل تابِعٌ لغيره فإن ذكره في وقت قريب وإلا سقط . والله أعلم
الإسلام سؤال وجواب
الشيخ محمد صالح المنجد

----------------------------------------
ترجمہ :

سوال :

كيا سجدہ سہو كى قضاء كى جائيگى ؟
اگر نماز ميں آپ پر سجدہ سہو واجب ہو اور آپ سجدہ كرنا بھول جائيں تو كيا آپ كى نماز باطل شمار ہو گى؟
اور كيا نماز مكمل ہونے كے بعد اس كى اصلاح كا كوئى طريقہ ہے يا كہ سارى نماز دوبارہ ادا كرنا ہو گى؟

اور اگر آپ كو سنتوں كى ادائيگى ميں ياد آئے تو كيا آپ كے ليے نماز توڑنى ضرورى ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ :
الانصاف ( 2 / 154 ) ميں امام مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
مصنف
ـ ابن قدامہ ـ رحمہ اللہ تعالى نے سجدہ سہو كى قضاء ميں دو شرطيں ركھى ہيں:
پہلى شرط: يہ كہ مسجد ميں ہو.
دوسرى شرط: مدت زيادہ نہ ہوئى ہو.
مذہب بھى يہى ہے.
اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے مروى ہے كہ: تھوڑى سى مدت گزرى ہو تو سجدہ كر لے، چاہے مسجد سے نكل بھى گيا ہو.
اور امام احمد سے ہى منقول ہے كہ: اگر مدت يا زيادہ دير بھى ہو گئى ہو يا اس نے بات چيت كر لى ہو، يا مسجد سے نكل گيا ہو تو بھى سجدہ كر لے، شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے بھى يہى اختيار كيا ہے.
ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 94 ).

اور زاد المستقنع كى شرح الروض المربع ميں ہے:
( اور اگر وہ اسے بھول جائے ) يعنى سلام سے قبل سجدہ سہو كرنا بھول جائے ( اور سلام پھير لے ) پھر اسے ياد آئے ( تو سجدہ كر لے ) يہ واجب ہے ( اگر تھوڑى دير ہوئى ہو ) ... اور جب سلام پھير لے
ـ اگر عرفى طور پر زيادہ دير بھى ہو گئى ہو يا وضو ٹوٹ گيا، يا وہ مسجد سے نكل چكا ہو ـ تو سجدہ نہ كرے تو اس كى نماز صحيح ہے.
ديكھيں: الروض المربع شرح زاد المستقنع ( 2 / 461 ).

اور الشرح الممتع ( 3 / 537 ) ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ: " اور اگر وہ بھول جائے اور سلام پھير لے تو اگر تھوڑى دير ہوئى ہو تو سجدہ كر لے "
يعنى جو سجدہ سلام سے قبل تھا
ـ اگر تو تھوڑى مدت ہوئى ہو سجدہ كر لے، ليكن اگر زيادہ دير ہو چكى ہو تو ساقط ہو جائيگا، اور اس كى نماز صحيح ہے.

اس كى مثال يہ ہے:
ايك شخص پہلى تشھد بھول گيا تو اس پر سجدہ سہو كرنا واجب ہے اور يہ سلام سے قبل ہو گا، ليكن وہ سجدہ كرنا بھى بھول گيا اگر تو اسے كچھ ہى دير بعد ياد آ جائے تو سجدہ كر لے، ليكن اگر زيادہ دير ہو گئى تو سجدہ سہو ساقط ہو جائيگا: مثلا اسے بہت دير كے بعد ياد آئے، اسى ليے مصنف كا كہنا ہے:

" اگر كچھ دير گزرى ہو تو سجدہ كر لے "

اگر مسجد سے نكل چكا ہو اور مسجد نہ آئے تو ساقط ہو جائيگا، ليكن اگر اس نے نماز مكمل كرنے سے قبل ہى سلام پھير ديا تو وہ واپس آكر نماز مكمل كرے گا، كيونكہ يہ دوسرا مسئلہ ہے، اس نے ركن چھوڑا ہے جو ادا كرنا ضرورى ہے، اور اس شخص نے واجب چھوڑا ہے جو بھول جانے كى حالت ميں ساقط ہو جاتا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

بلكہ وہ سجدہ كرے گا چاہے زيادہ دير بھى ہو چكى ہو، كيونكہ يہ نقص اور كمى كو پورا كرنے والا ہے، چنانچہ جب بھى ياد آئے يہ نقصان پورا كرے گا.

ليكن اقرب وہ ہے جو مؤلف رحمہ كا قول ہے كہ اگر زيادہ دير ہو جائے تو يہ ساقط ہو جائيگا، يہ اس ليے كہ يہ يا تو نماز كے ليے واجب ہے، يا اس ميں واجب ہے، چنانچہ اس سے ملصق ہے، اور مستقل نماز نہيں حتى كہ ہم يہ كہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو نماز سے سو جائے يا اسے بھول جائے تو جب اسے ياد آئے نماز ادا كر لے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 597 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 684 ) اس كے راوى انس رضى اللہ تعالى عنہ ہيں.

بلكہ يہ تو كسى دوسرے كے تابع ہے، چنانچہ اگر كچھ دير بعد ياد آجائے تو سجدہ كر لے، وگرنہ ساقط ہو جائيگا.

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
هل سجود السهو يقضى
السؤال :
إذا توجب عليك أن تسجد سجود السهو في الصلاة ، ثم نسيت فلم تسجد ، هل تعتبر صلاتك باطلة ، وهل هناك طريقة لإصلاح الصلاة بعد الانتهاء منها ، أم يجب إعادة الصلاة كلها ؟ وماذا و تذكرت ذلك وأنت تصلي سُنة هل يجب عليك أن تقطع صلاتك ؟
تم النشر بتاريخ: 1999-08-04
الجواب:
الحمد لله
قال الإمام المرداوي رحمه الله في الإنصاف 2/154 : اشترط المصنف - ابن قدامة - لقضاء السجود شرطين :
أحدهما : أن يكون في المسجد .
والثاني : أن لا يطول الفصل . وهو المذهب . نص عليه
وعن الإمام أحمد : يسجد مع قِصَر الفصْل ، ولو خرج من المسجد .
وعنه أيضا : يسجد ولو طال الفصل أو تكلّم أو خرج من المسجد وهو اختيار شيخ الإسلام كما في الاختيارات الفقهية (ص94) .
وجاء في الروض المربع شرح زاد المستقنع 2/461 : (وإن نسيه) أي نسي سجود السهو الذي محله قبل السلام (وسلم ) ثم ذكر (سجد) وجوبا (إن قرُب زمنه) .. فإذا سلّم - وإن طال فصْلٌ عرفا أو أحدث أو خرج من المسجد - لم يسجد وصحت صلاته .
وجاء في الشرح الممتع للشيخ محمد بن صالح العثيمين 3/537 :
قوله : "وإن نسيه وسلم سجد إن قرب زمنه " - أي : السجود الذي قبل السلام وسلّم - سجد إن قرب زمنه فإن بَعُد سقط وصلاته صحيحة .
مثاله :
رجل نسي التشهد الأول فيجب عليه سجود السهو ومحله قبل السلام لكن نسي وسلم فإن ذكر في زمن قريب سجد وإن طال الفصل سقط : مثل لو لم يتذكر إلا بعد مدة طويلة ، ولهذا قال " سجد إن قرب زمنه " فإن خرج من المسجد فإنه لا يرجع إلى المسجد فيسقط عنه ، بخلاف ما إذا سلم قبل إتمام الصلاة فإنه يرجع ويكمل وذلك لأنه في المسألة الثانية ترك ركنا فلا بد أن يأتي به وهذا ترك واجبا يسقط بالسهو .
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية : بل يسجد ولو طال الزمن لأن هذا جابر للنقص الذي حصل فمتى ذكره جبره .
ولكن الأقرب : ما ذهب إليه المؤلف رحمه الله أنه إذا طال الفصل فإنه يسقط وذلك لأنه إما واجب للصلاة وإما واجب فيها فهو ملتصق بها وليس صلاة مستقلة حتى نقول إن النبي صلى الله عليه وسلم قال : من نام عن صلاة أو نسيها فليصلها إذا ذكرها . رواه البخاري (597) ومسلم (684) من حديث أنس . بل تابِعٌ لغيره فإن ذكره في وقت قريب وإلا سقط . والله أعلم
الإسلام سؤال وجواب
الشيخ محمد صالح المنجد

----------------------------------------
ترجمہ :

سوال :

كيا سجدہ سہو كى قضاء كى جائيگى ؟
اگر نماز ميں آپ پر سجدہ سہو واجب ہو اور آپ سجدہ كرنا بھول جائيں تو كيا آپ كى نماز باطل شمار ہو گى؟
اور كيا نماز مكمل ہونے كے بعد اس كى اصلاح كا كوئى طريقہ ہے يا كہ سارى نماز دوبارہ ادا كرنا ہو گى؟

اور اگر آپ كو سنتوں كى ادائيگى ميں ياد آئے تو كيا آپ كے ليے نماز توڑنى ضرورى ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ :
الانصاف ( 2 / 154 ) ميں امام مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
مصنف
ـ ابن قدامہ ـ رحمہ اللہ تعالى نے سجدہ سہو كى قضاء ميں دو شرطيں ركھى ہيں:
پہلى شرط: يہ كہ مسجد ميں ہو.
دوسرى شرط: مدت زيادہ نہ ہوئى ہو.
مذہب بھى يہى ہے.
اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے مروى ہے كہ: تھوڑى سى مدت گزرى ہو تو سجدہ كر لے، چاہے مسجد سے نكل بھى گيا ہو.
اور امام احمد سے ہى منقول ہے كہ: اگر مدت يا زيادہ دير بھى ہو گئى ہو يا اس نے بات چيت كر لى ہو، يا مسجد سے نكل گيا ہو تو بھى سجدہ كر لے، شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے بھى يہى اختيار كيا ہے.
ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 94 ).

اور زاد المستقنع كى شرح الروض المربع ميں ہے:
( اور اگر وہ اسے بھول جائے ) يعنى سلام سے قبل سجدہ سہو كرنا بھول جائے ( اور سلام پھير لے ) پھر اسے ياد آئے ( تو سجدہ كر لے ) يہ واجب ہے ( اگر تھوڑى دير ہوئى ہو ) ... اور جب سلام پھير لے
ـ اگر عرفى طور پر زيادہ دير بھى ہو گئى ہو يا وضو ٹوٹ گيا، يا وہ مسجد سے نكل چكا ہو ـ تو سجدہ نہ كرے تو اس كى نماز صحيح ہے.
ديكھيں: الروض المربع شرح زاد المستقنع ( 2 / 461 ).

اور الشرح الممتع ( 3 / 537 ) ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ: " اور اگر وہ بھول جائے اور سلام پھير لے تو اگر تھوڑى دير ہوئى ہو تو سجدہ كر لے "
يعنى جو سجدہ سلام سے قبل تھا
ـ اگر تو تھوڑى مدت ہوئى ہو سجدہ كر لے، ليكن اگر زيادہ دير ہو چكى ہو تو ساقط ہو جائيگا، اور اس كى نماز صحيح ہے.

اس كى مثال يہ ہے:
ايك شخص پہلى تشھد بھول گيا تو اس پر سجدہ سہو كرنا واجب ہے اور يہ سلام سے قبل ہو گا، ليكن وہ سجدہ كرنا بھى بھول گيا اگر تو اسے كچھ ہى دير بعد ياد آ جائے تو سجدہ كر لے، ليكن اگر زيادہ دير ہو گئى تو سجدہ سہو ساقط ہو جائيگا: مثلا اسے بہت دير كے بعد ياد آئے، اسى ليے مصنف كا كہنا ہے:

" اگر كچھ دير گزرى ہو تو سجدہ كر لے "

اگر مسجد سے نكل چكا ہو اور مسجد نہ آئے تو ساقط ہو جائيگا، ليكن اگر اس نے نماز مكمل كرنے سے قبل ہى سلام پھير ديا تو وہ واپس آكر نماز مكمل كرے گا، كيونكہ يہ دوسرا مسئلہ ہے، اس نے ركن چھوڑا ہے جو ادا كرنا ضرورى ہے، اور اس شخص نے واجب چھوڑا ہے جو بھول جانے كى حالت ميں ساقط ہو جاتا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

بلكہ وہ سجدہ كرے گا چاہے زيادہ دير بھى ہو چكى ہو، كيونكہ يہ نقص اور كمى كو پورا كرنے والا ہے، چنانچہ جب بھى ياد آئے يہ نقصان پورا كرے گا.

ليكن اقرب وہ ہے جو مؤلف رحمہ كا قول ہے كہ اگر زيادہ دير ہو جائے تو يہ ساقط ہو جائيگا، يہ اس ليے كہ يہ يا تو نماز كے ليے واجب ہے، يا اس ميں واجب ہے، چنانچہ اس سے ملصق ہے، اور مستقل نماز نہيں حتى كہ ہم يہ كہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو نماز سے سو جائے يا اسے بھول جائے تو جب اسے ياد آئے نماز ادا كر لے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 597 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 684 ) اس كے راوى انس رضى اللہ تعالى عنہ ہيں.

بلكہ يہ تو كسى دوسرے كے تابع ہے، چنانچہ اگر كچھ دير بعد ياد آجائے تو سجدہ كر لے، وگرنہ ساقط ہو جائيگا.

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد
بہت مفید اور مفصل جواب ۔۔ جزاکم اللہ خیرا

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 
شمولیت
دسمبر 01، 2016
پیغامات
141
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
71
هل سجود السهو يقضى
السؤال :
إذا توجب عليك أن تسجد سجود السهو في الصلاة ، ثم نسيت فلم تسجد ، هل تعتبر صلاتك باطلة ، وهل هناك طريقة لإصلاح الصلاة بعد الانتهاء منها ، أم يجب إعادة الصلاة كلها ؟ وماذا و تذكرت ذلك وأنت تصلي سُنة هل يجب عليك أن تقطع صلاتك ؟
تم النشر بتاريخ: 1999-08-04
الجواب:
الحمد لله
قال الإمام المرداوي رحمه الله في الإنصاف 2/154 : اشترط المصنف - ابن قدامة - لقضاء السجود شرطين :
أحدهما : أن يكون في المسجد .
والثاني : أن لا يطول الفصل . وهو المذهب . نص عليه
وعن الإمام أحمد : يسجد مع قِصَر الفصْل ، ولو خرج من المسجد .
وعنه أيضا : يسجد ولو طال الفصل أو تكلّم أو خرج من المسجد وهو اختيار شيخ الإسلام كما في الاختيارات الفقهية (ص94) .
وجاء في الروض المربع شرح زاد المستقنع 2/461 : (وإن نسيه) أي نسي سجود السهو الذي محله قبل السلام (وسلم ) ثم ذكر (سجد) وجوبا (إن قرُب زمنه) .. فإذا سلّم - وإن طال فصْلٌ عرفا أو أحدث أو خرج من المسجد - لم يسجد وصحت صلاته .
وجاء في الشرح الممتع للشيخ محمد بن صالح العثيمين 3/537 :
قوله : "وإن نسيه وسلم سجد إن قرب زمنه " - أي : السجود الذي قبل السلام وسلّم - سجد إن قرب زمنه فإن بَعُد سقط وصلاته صحيحة .
مثاله :
رجل نسي التشهد الأول فيجب عليه سجود السهو ومحله قبل السلام لكن نسي وسلم فإن ذكر في زمن قريب سجد وإن طال الفصل سقط : مثل لو لم يتذكر إلا بعد مدة طويلة ، ولهذا قال " سجد إن قرب زمنه " فإن خرج من المسجد فإنه لا يرجع إلى المسجد فيسقط عنه ، بخلاف ما إذا سلم قبل إتمام الصلاة فإنه يرجع ويكمل وذلك لأنه في المسألة الثانية ترك ركنا فلا بد أن يأتي به وهذا ترك واجبا يسقط بالسهو .
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية : بل يسجد ولو طال الزمن لأن هذا جابر للنقص الذي حصل فمتى ذكره جبره .
ولكن الأقرب : ما ذهب إليه المؤلف رحمه الله أنه إذا طال الفصل فإنه يسقط وذلك لأنه إما واجب للصلاة وإما واجب فيها فهو ملتصق بها وليس صلاة مستقلة حتى نقول إن النبي صلى الله عليه وسلم قال : من نام عن صلاة أو نسيها فليصلها إذا ذكرها . رواه البخاري (597) ومسلم (684) من حديث أنس . بل تابِعٌ لغيره فإن ذكره في وقت قريب وإلا سقط . والله أعلم
الإسلام سؤال وجواب
الشيخ محمد صالح المنجد

----------------------------------------
ترجمہ :

سوال :

كيا سجدہ سہو كى قضاء كى جائيگى ؟
اگر نماز ميں آپ پر سجدہ سہو واجب ہو اور آپ سجدہ كرنا بھول جائيں تو كيا آپ كى نماز باطل شمار ہو گى؟
اور كيا نماز مكمل ہونے كے بعد اس كى اصلاح كا كوئى طريقہ ہے يا كہ سارى نماز دوبارہ ادا كرنا ہو گى؟

اور اگر آپ كو سنتوں كى ادائيگى ميں ياد آئے تو كيا آپ كے ليے نماز توڑنى ضرورى ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ :
الانصاف ( 2 / 154 ) ميں امام مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
مصنف
ـ ابن قدامہ ـ رحمہ اللہ تعالى نے سجدہ سہو كى قضاء ميں دو شرطيں ركھى ہيں:
پہلى شرط: يہ كہ مسجد ميں ہو.
دوسرى شرط: مدت زيادہ نہ ہوئى ہو.
مذہب بھى يہى ہے.
اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے مروى ہے كہ: تھوڑى سى مدت گزرى ہو تو سجدہ كر لے، چاہے مسجد سے نكل بھى گيا ہو.
اور امام احمد سے ہى منقول ہے كہ: اگر مدت يا زيادہ دير بھى ہو گئى ہو يا اس نے بات چيت كر لى ہو، يا مسجد سے نكل گيا ہو تو بھى سجدہ كر لے، شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے بھى يہى اختيار كيا ہے.
ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 94 ).

اور زاد المستقنع كى شرح الروض المربع ميں ہے:
( اور اگر وہ اسے بھول جائے ) يعنى سلام سے قبل سجدہ سہو كرنا بھول جائے ( اور سلام پھير لے ) پھر اسے ياد آئے ( تو سجدہ كر لے ) يہ واجب ہے ( اگر تھوڑى دير ہوئى ہو ) ... اور جب سلام پھير لے
ـ اگر عرفى طور پر زيادہ دير بھى ہو گئى ہو يا وضو ٹوٹ گيا، يا وہ مسجد سے نكل چكا ہو ـ تو سجدہ نہ كرے تو اس كى نماز صحيح ہے.
ديكھيں: الروض المربع شرح زاد المستقنع ( 2 / 461 ).

اور الشرح الممتع ( 3 / 537 ) ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ: " اور اگر وہ بھول جائے اور سلام پھير لے تو اگر تھوڑى دير ہوئى ہو تو سجدہ كر لے "
يعنى جو سجدہ سلام سے قبل تھا
ـ اگر تو تھوڑى مدت ہوئى ہو سجدہ كر لے، ليكن اگر زيادہ دير ہو چكى ہو تو ساقط ہو جائيگا، اور اس كى نماز صحيح ہے.

اس كى مثال يہ ہے:
ايك شخص پہلى تشھد بھول گيا تو اس پر سجدہ سہو كرنا واجب ہے اور يہ سلام سے قبل ہو گا، ليكن وہ سجدہ كرنا بھى بھول گيا اگر تو اسے كچھ ہى دير بعد ياد آ جائے تو سجدہ كر لے، ليكن اگر زيادہ دير ہو گئى تو سجدہ سہو ساقط ہو جائيگا: مثلا اسے بہت دير كے بعد ياد آئے، اسى ليے مصنف كا كہنا ہے:

" اگر كچھ دير گزرى ہو تو سجدہ كر لے "

اگر مسجد سے نكل چكا ہو اور مسجد نہ آئے تو ساقط ہو جائيگا، ليكن اگر اس نے نماز مكمل كرنے سے قبل ہى سلام پھير ديا تو وہ واپس آكر نماز مكمل كرے گا، كيونكہ يہ دوسرا مسئلہ ہے، اس نے ركن چھوڑا ہے جو ادا كرنا ضرورى ہے، اور اس شخص نے واجب چھوڑا ہے جو بھول جانے كى حالت ميں ساقط ہو جاتا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

بلكہ وہ سجدہ كرے گا چاہے زيادہ دير بھى ہو چكى ہو، كيونكہ يہ نقص اور كمى كو پورا كرنے والا ہے، چنانچہ جب بھى ياد آئے يہ نقصان پورا كرے گا.

ليكن اقرب وہ ہے جو مؤلف رحمہ كا قول ہے كہ اگر زيادہ دير ہو جائے تو يہ ساقط ہو جائيگا، يہ اس ليے كہ يہ يا تو نماز كے ليے واجب ہے، يا اس ميں واجب ہے، چنانچہ اس سے ملصق ہے، اور مستقل نماز نہيں حتى كہ ہم يہ كہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو نماز سے سو جائے يا اسے بھول جائے تو جب اسے ياد آئے نماز ادا كر لے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 597 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 684 ) اس كے راوى انس رضى اللہ تعالى عنہ ہيں.

بلكہ يہ تو كسى دوسرے كے تابع ہے، چنانچہ اگر كچھ دير بعد ياد آجائے تو سجدہ كر لے، وگرنہ ساقط ہو جائيگا.

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد
جزاک اللہ خیرا
 

SheebaKamran

رکن
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
60
سجدہ سہو کا درست طریقہ کیا ہے ؟


Sent from my iPhone using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
سجدہ سہو کا درست طریقہ کیا ہے ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سلام سے پہلے سہو کے دو سجدوں کی حدیث :
عن عبد الرحمن بن عوف ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏ "إذا شك احدكم في الثنتين والواحدة فليجعلها واحدة، ‏‏‏‏‏‏وإذا شك في الثنتين والثلاث فليجعلها ثنتين، ‏‏‏‏‏‏وإذا شك في الثلاث والاربع فليجعلها ثلاثا، ‏‏‏‏‏‏ثم ليتم ما بقي من صلاته حتى يكون الوهم في الزيادة، ‏‏‏‏‏‏ثم يسجد سجدتين وهو جالس قبل ان يسلم
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب کوئی شخص شک کرے کہ دو رکعت پڑھی ہے یا ایک، تو ایک کو اختیار کرے، (کیونکہ وہ یقینی ہے) اور جب دو اور تین رکعت میں شک کرے تو دو کو اختیار کرے، اور جب تین یا چار میں شک کرے تو تین کو اختیار کرے، پھر باقی نماز پوری کرے، تاکہ وہم زیادتی میں ہو کمی میں نہ ہو، پھر سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے“ ۱؎۔

سنن ابن ماجہ 1209 سنن الترمذی/الصلاة ۱۷۵ (۳۹۸)، (تحفة الأشراف: ۹۷۲۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۹۰، ۱۹۳، ۱۹۵) (صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری تشہد پورا پڑھ کر سھو کے دو سجدے کرنے کی حدیث
عن زيد بن اسلم بإسناد مالك، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ إن النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "إذا شك احدكم في صلاته فإن استيقن ان قد صلى ثلاثا فليقم فليتم ركعة بسجودها، ‏‏‏‏‏‏ثم يجلس فيتشهد، ‏‏‏‏‏‏فإذا فرغ فلم يبق إلا ان يسلم فليسجد سجدتين وهو جالس، ‏‏‏‏‏‏ثم ليسلم".
(سنن ابو داود 1029 )
اس طریق سے بھی زید بن اسلم سے مالک ہی کی سند سے مروی ہے، زید کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اگر اسے یقین ہو کہ میں نے تین ہی رکعت پڑھی ہے تو کھڑا ہو اور ایک رکعت اس کے سجدوں کے ساتھ پڑھ کر اسے پوری کرے پھر بیٹھے اور تشہد پڑھے، پھر جب ان سب کاموں سے فارغ ہو جائے اور صرف سلام پھیرنا باقی رہے تو سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے پھر سلام پھیرے“۔
سنن ابو داود حدیث رقم: (۱۰۲۴، ۱۰۲۶)، (تحفة الأشراف: ۴۱۶۳) (صحیح )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سہو کے دو سجدے کرنے کے بعد دوبارہ تشہد نہیں پڑھنا چاہیئے ، بلکہ سجدہ سھو کے بعد سلام پھیر دینا چاہیئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھنے کا حکم
شروع از بتاریخ : 17 December 2012 09:59 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سجدہ سہو کرنے کے دو طریقے ہیں، ایک سلام سے پہلے اور ایک سلام کے بعد۔ جب سلام کے بعد سجدہ سہو کیا جائے تو کیا تشہد دوبارہ پڑہنا ہو گا یا تشہد پڑھے بغیر سلام پھیرا جائے گا؟قران اور سنت کی روشنی میں جواب دیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شيخ محمد بن صالح بن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے اسی قسم کا سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
“اگر سجدے سلام كے بعد ہوں تو سلام پھیرنا ضرورى ہے، اور دو سجدے كر كے سلام پھيرا جائے گا"
ليكن كيا اس كے ليے تشہد بھى ضرورى ہے ؟
اس ميں علماء كرام كے ہاں اختلاف پایا جاتاہے،لیکن راجح مسلک یہی ہے كہ تشہد پڑھنا واجب نہيں ہے " فتاوى ابن عثيمين ( 14 / 74)
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا سجدہ سہو كے بعد تشہد بيٹھا جائيگا يا نہيں، چاہے سجدہ سہو سلام سے پہلے ہو يا بعد ميں ؟
تو كميٹى كا جواب تھا:
اگر سجدہ سہو سلام سے قبل ہو تو بلا شک و شبہ اس كے بعد تشہد بيٹھنا مشروع نہيں ہے، ليكن اگر سلام كے بعد سجدہ سہو ہو تو اس ميں اہل علم كا اختلاف ہے، راجح مسلک يہى ہے كہ صحيح احاديث ميں اس كا ذكر نہ ہونے كى بنا پر يہ مشروع نہيں ہے ، اس سلسلہ میں وارد تمام روایات ضعیف اور کمزور ہیں جن سے استدلال نہیں کیا جا سکتا" فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 148 )
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی

محدث فتوی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
سہو کے دو سجدے کرنے کے بعد دوبارہ تشہد پڑھنے کی ایک روایت بالکل ضعیف منقول ہے
جو سنن ابوداود میں ہے
عن ابي عبيدة بن عبد الله عن ابيه،
عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "إذا كنت في صلاة فشككت في ثلاث او اربع واكبر ظنك على اربع تشهدت، ‏‏‏‏‏‏ثم سجدت سجدتين وانت جالس قبل ان تسلم، ‏‏‏‏‏‏ثم تشهدت ايضا، ‏‏‏‏‏‏ثم تسلم". قال ابو داود:‏‏‏‏ رواه عبد الواحد، ‏‏‏‏‏‏عن خصيف، ‏‏‏‏‏‏ولم يرفعه، ‏‏‏‏‏‏ووافق عبد الواحد ايضا سفيان، ‏‏‏‏‏‏وشريك، ‏‏‏‏‏‏وإسرائيل واختلفوا في الكلام في متن الحديث ولم يسندوه.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم نماز میں رہو اور تمہیں تین یا چار میں شک ہو جائے اور تمہارا غالب گمان یہ ہو کہ چار رکعت ہی پڑھی ہے تو تشہد پڑھو، پھر سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کرو، پھر تشہد پڑھو اور پھر سلام پھیر دو“۔
امام ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالواحد نے خصیف سے روایت کیا ہے اور مرفوع نہیں کیا ہے۔ نیز سفیان، شریک اور اسرائیل نے عبدالواحد کی موافقت کی ہے اور ان لوگوں نے متن حدیث میں اختلاف کیا ہے اور اسے مسند نہیں کیا ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سننن الکبری / السہو ۱۲۶ (۶۰۵)، وانظر رقم: (۱۰۱۹)، (تحفة الأشراف: ۹۶۰۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۲۸، ۴۲۹ موقوفاً) (ضعیف) (ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے،
یہ حدیث چونکہ ضعیف ہے اسلئے سجدہ سہو کے بعد دوبارہ تشہد نہیں پڑھنا چاہیئے
 
Top