• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم سرایا اور غزوات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سرایا اور غزوات 1

جنگ کی اجازت نازل ہونے کے بعد ان دونوں منصوبوں کے نفاذ کے لیے مسلمانوں کی عسکری مہمات کا سلسلہ عملاً شروع ہوگیا۔ طلایہ گردی کی شکل میں فوجی دستے گشت کرنے لگے۔ اس کا مقصود وہی تھا جس کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے کہ مدینہ کے گرد وپیش کے راستوں پر عموماً اور مکے کے راستے پر خصوصاً نظر رکھی جائے اور اس کے احوال کا پتا لگایا جاتا رہے اور ساتھ ہی ان راستوں پر واقع قبائل سے معاہدے کیے جائیں اور یثرب کے مشرکین ویہود اور آس پاس کے بدؤوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ مسلمان طاقتور ہیں اور اب انہیں اپنی کمزوری سے نجات مل چکی ہے۔ نیز قریش کو ان کے بے جا طیش اور تہور کے خطرناک نتیجے سے ڈرایا جائے تاکہ جس حماقت کی دلدل میں وہ اب تک دھنستے چلے جارہے ہیں اس سے نکل کر ہوش کے ناخن لیں اور اپنے اقتصاد اور اسبابِ معیشت کو خطرے میں دیکھ کر صلح کی طرف مائل ہو جائیں اور مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر ان کے خاتمے کے جو عزائم رکھتے ہیںاور اللہ کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں اور مکے کے کمزور مسلمانوںپر جو ظلم وستم ڈھارہے ہیں ان سب سے باز آجائیں اور مسلمان جزیرۃ العرب میں اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے آزاد ہو جائیں۔
ان سَرَایا اور غزوات کے مختصر احوال ذیل میں درج ہیں:
۱۔ سریہ سیف البحر: 2(رمضان ۱ ھ مطابق مارچ ۶۲۳ ء )
رسول اللہﷺ نے حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ کو اس سَریہ کا امیر بنایا اور تیس مہاجرین کو ان کے زیر ِ کمان شام سے آنے والے ایک قریشی قافلے کا پتا لگانے کے لیے روانہ فرمایا۔ اس قافلے میں تین سوآدمی تھے جن میں ابو جہل بھی تھا۔مسلمان عِیْص3کے اطراف میں ساحل سمندر کے پاس پہنچے تو قافلے کا سامنا ہوگیا اور فریقین جنگ کے لیے صف آراء ہوگئے لیکن قبیلہ جہینہ کے سردار مجدی بن عَمرو نے جو فریقین کا حلیف تھا ، دوڑ دھوپ کر کے جنگ نہ ہونے دی۔
حضرت حمزہؓ کا یہ جھنڈا پہلا جھنڈا تھا جسے رسول اللہﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے باندھا تھا۔ اس کا رنگ سفیدتھا اور اس کے علمبردار حضرت ابو مرثد کناز بن حصین غنویؓ تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اہل سیر کی اصطلاح میں غزوہ اس فوجی مہم کو کہتے ہیں جس میں نبیﷺ بنفس نفیس تشریف لے گئے ہوں، خواہ جنگ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اور سریہ وہ فوجی مہم جس میں آپﷺ خود تشریف نہ لے گئے ہوں سرایا اسی سریہ کی جمع ہے۔
2 سیف البحر، س کو زیر پڑھیں گے۔ بمعنی ساحل سمندر۔
3 عیْص۔ ع کو زیر پڑھیں گے۔ بحر احمر کے اطراف میں ینبع اور مَرْوَہ کے درمیان ایک مقام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۲۔ سریہ رابغ: (شوال ۱ھ اپریل ۶۲۳ ء )
رسول اللہﷺ نے حضرت عبیدہؓ بن حارث بن عبدالمطلب کو مہاجرین کے ساٹھ سواروں کا رسالہ دے کر روانہ فرمایا۔ رابغ کی وادی میں ابو سفیان سے سامنا ہوا۔ اس کے ساتھ دوسو آدمی تھے، فریقین نے ایک دوسرے پر تیر چلائے لیکن اس سے آگے کوئی جنگ نہ ہوئی۔
اس سریے میں مکی لشکر کے دوآدمی مسلما نوں سے آملے۔ ایک حضرت مقداد بن عمرو البہرانی اور دوسرے عتیبہ بن غزوان المازنی رضی اللہ عنہما ۔ یہ دونوںمسلمان تھے اور کفار کے ساتھ نکلے ہی اس مقصد سے تھے کہ اس طرح مسلمانوں سے جاملیں گے۔
حضرت ابو عبیدہؓ کا عَلَم سفید تھا اور علمبردار حضر ت مسطح بن اثاثہ بن مطلب بن عبد مناف تھے۔
۳۔ سریہ خرار: 1 (ذی قعدہ۱ ھ مئی ۶۲۳ ء )
رسول اللہﷺ نے اس سَرِیہ کا امیر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو مقرر فرمایا اور انہیں بیس آدمیوں کی کمان دے کر قریش کے ایک قافلے کا پتا لگانے کے لیے روانہ فرمایا اوریہ تاکیدفرمادی کہ خرار سے آگے نہ بڑھیں۔ یہ لوگ پیدل روانہ ہوئے رات کو سفر کرتے اور دن میں چھپے رہتے تھے۔ پانچویں روز صبح خر ار پہنچے تو معلوم ہوا کہ قافلہ ایک دن پہلے جا چکاہے۔
اس سریے کا عَلَم سفید تھا اور علمبردار حضرت مقداد بن عمروؓ تھے۔
۴۔ غزوہ ابواء یا ودان : 2 (صفر ۲ ھ اگست ۶۲۳ ء )
اس مہم میں ستّر مہاجرین کے ہمراہ رسول اللہﷺ بہ نفسِ نفیس تشریف لے گئے تھے اور مدینے میں حضرت سعدؓ بن عبادہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا تھا۔ مہم کا مقصد قریش کے ایک قافلے کی راہ روکنا تھا۔ آپﷺ وَدَّان تک پہنچے لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا۔
اسی غزوہ میں آپﷺ نے بنوضمرہ کے سردار عمرو بن مخشی الضمری سے حلیفانہ معاہدہ کیا ، معاہدے کی عبارت یہ تھی :
'' یہ بنو ضمرہ کے لیے محمد رسول اللہﷺ کی تحریر ہے۔ یہ لوگ اپنے جان اور مال کے بارے میں مامون رہیں گے۔ اور جوان پر یورش کرے گا اس کے خلاف ان کی مدد کی جائے گی ، اِلاّ کہ یہ خود اللہ کے دین کے خلاف جنگ کریں۔ ( یہ معاہدہ اس وقت تک کے لیے ہے ) جب تک سمندر سِوار 3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 خرار، خ پر زبر اور رپر تشدید ، جحفہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔
2 ودان ، و پر زبر۔ د پر تشدید ، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ یہ رابغ سے مدینہ جاتے ہوئے ۲۹ میل کے فاصلے پر پڑتا ہے ، ابواء ودان کے قریب ہی ایک دوسرے مقام کا نام ہے۔
3 سوار : پانی کی تہہ میں اگنے والی ایک گھاس۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کو تر کرے (یعنی ہمیشہ کے لیے ہے ) اور جب نبیﷺ اپنی مدد کے لیے انہیں آواز دیں گے تو انہیں آنا ہو گا۔''1
یہ پہلی فوجی مہم تھی جس میں رسول اللہﷺ بذاتِ خود تشریف لے گئے تھے۔ اور پندرہ دن مدینے سے باہر گزار کر واپس آئے۔ اس مہم کے پرچم کا رنگ سفید تھا اور حضرت حمزہؓ علمبردارتھے۔
۵۔ غزوہ ٔبواط: (ربیع الاول ۲ ھ ستمبر۶۲۳ ء )
اس مہم میں رسول اللہﷺ دوسو صحابہ کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے۔ مقصود قریش کا ایک قافلہ تھا جس میں امیہ بن خلف سمیت قریش کے ایک سو آدمی اور ڈھائی ہزار اونٹ تھے۔ آپﷺ رضویٰ کے اطراف میں مقام بُواط 2 تک تشریف لے گئے لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا۔
اس غزوہ کے دوران حضرت سعد بن معاذؓ کو مدینے کا امیر بنایا گیا تھا۔ پر چم سفید تھا علمبردار حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تھے۔
۶۔ غزوہ ٔ سفوان: (ربیع الاول ۲ ھ ، ستمبر ۶۲۳ ء )
اس غزوہ کی وجہ یہ تھی کہ کرز بن جابر فہری نے مشرکین کی ایک مختصر سی فوج کے ساتھ مدینے کی چراگاہ پر چھاپہ مارا اور کچھ مویشی لوٹ لیے۔ رسول اللہﷺ نے ستر صحابہ کے ہمراہ اس کا تعاقب کیا اور بدر کے اطراف میں واقع وادیٔ سفوان تک تشریف لے گئے۔کرز اور اس کے ساتھیوں کو نہ پاس کے اور کسی ٹکراؤ کے بغیر واپس آگئے۔ اس غزوہ کو بعض لوگ غزوہ ٔ بدر اولیٰ بھی کہتے ہیں۔
اِس غزوہ کے دوران مدینے کی امارت زید بن حارثہؓ کو سونپی گئی تھی۔ عَلَم سفید تھا اور علمبر دار حضرت علیؓ تھے۔
۷۔ غزوہ ٔ ذی العشیرہ: (جمادی الاولی وجمادی الآخر ہ ۲ ھ نومبر ، دسمبر ۶۲۳ ء )
اس مہم میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ ڈیڑھ یا دو سو مہاجرین تھے لیکن آپﷺ نے کسی کو روانگی پر مجبور نہیں کیا تھا۔ سواری کے لیے صرف تیس اونٹ تھے۔ اس لیے لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ مقصود قریش کا ایک قافلہ تھا جو ملک شام جارہا تھا اور معلوم ہوا تھا کہ یہ مکے سے چل چکا ہے۔ اس قافلے میں خاصا مال تھا۔ آپﷺ اس کی طلب میں ذوالعُشَیْرہ3تک پہنچے لیکن آپﷺ کے پہنچنے سے کئی دن پہلے ہی قافلہ جاچکا تھا۔ یہ وہی قافلہ ہے جسے شام سے واپسی پر نبیﷺ نے گرفتار کرنا چاہا تو یہ قافلہ تو بچ نکلا لیکن جنگ ِ بدر پیش آگئی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 المواہب اللدنیہ ۱/۷۵ شرح زرقانی
2 بواط ،ب پر پیش اور رضویٰ کو ہستان جہینہ کے سلسلے کے دوپہاڑ ہیں جو درحقیقت ایک ہی پہاڑ کی دوشاخیں ہیں یہ مکہ سے شام جانے والی شاہراہ کے متصل ہے اور مدینہ سے ۴۸ میل کے فاصلے پر ہے۔
3 عشیرہ، ع کو پیش اور ش کو زبر ، عشیراء اور عسیرہ بھی کہا جاتا ہے،ینبوع کے اطراف میں ایک مقام کا نام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس مہم پر ابن ِ اسحاق کے بقول رسول اللہﷺ جمادی الاولیٰ کے اواخر میں روانہ ہوئے - اور جمادی الآخرہ میں واپس آئے۔ غالبا ً یہی وجہ ہے کہ اس غزوے کے مہینے کی تعیین میں اہل سیر کا اختلاف ہے۔
اس غزوہ میں رسول اللہﷺ نے بنو مدلج اور ان کے حلیف بنو ضمرہ سے عدمِ جنگ کا معاہدہ کیا۔
ایام سفر میں مدینہ کی سربراہی کاکام حضرت ابوسلمہ بن عبد الاسد مخزومیؓ نے انجام دیا۔ اس دفعہ بھی پر چم سفید تھا اور علمبردار حضرت حمزہؓ تھے۔
۸۔ سریۂ نخلہ: (رجب ۲ ھ جنوری ۶۲۴ ء )
اس مہم پر رسول اللہﷺ نے حضرت عبد اللہ بن جحشؓ کی سرکردگی میں بارہ مہاجرین کا ایک دستہ روانہ فرمایا۔ ہر دوآدمیوں کے لیے ایک اونٹ تھا جس پر باری باری دونوں سوار ہوتے تھے۔ دستے کے امیر کو رسول اللہﷺ نے ایک تحریر لکھ کر دی تھی اور ہدایت فرمائی تھی کہ دودن سفر کر لینے کے بعد ہی اسے دیکھیں گے۔ چنانچہ دودن کے بعد حضرت عبد اللہ نے تحریر دیکھی تو اس میں درج تھا :''جب تم میری یہ تحریر دیکھو تو آگے بڑھتے جاؤیہاں تک کہ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں اُترو اور وہاں قریش کے ایک قافلے کی گھات میں لگ جاؤ اور ہمارے لیے اس کی خبروں کا پتا لگا ؤ۔'' انہوںنے سمع وطاعت کہا اور اپنے رفقاء کوا س کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا کہ میں کسی پر جبر نہیں کرتا ، جسے شہادت محبوب ہووہ اٹھ کھڑا ہو اور جسے موت ناگوار ہو وہ واپس چلاجائے۔ باقی رہا میں ! تو ،میں بہر حال آگے جاؤں گا۔ اس پر سارے ہی رُفقاء اٹھ کھڑے ہوئے اور منزل مقصود کے لیے چل پڑے۔ البتہ راستے میں سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہما کا اونٹ غائب ہوگیا جس پر یہ دونوں بزرگ باری باری سفر کررہے تھے، اس لیے یہ دونوں پیچھے رہ گئے۔
حضرت عبد اللہ بن جحشؓ نے طویل مسافت طے کر کے نخلہ میں نزول فرمایا۔ وہاں سے قریش کا ایک قافلہ گزرا جو کشمش ، چمڑے اور سامانِ تجارت لیے ہوئے تھا۔ قافلے میں عبد اللہ بن مغیرہ کے دوبیٹے عثمان اور نوفل اور عمرو بن حضرمی اور حکیم بن کیسان مولیٰ مغیرہ تھے۔ مسلمانوں نے باہم مشورہ کیا کہ آخر کیا کریں۔ آج حرام مہینے رجب کا آخری دن ہے اگر ہم لڑائی کرتے ہیں تو اس حرام مہینے کی بے حرمتی ہوتی ہے اور رات بھر رک جاتے ہیں تو یہ لوگ حدودِ حرم میں داخل ہو جائیں گے۔ اس بعد سب ہی کی یہی رائے ہوئی کہ حملہ کردینا چاہیے چنانچہ ایک شخص نے عمرو بن حضرمی کو تیر مارا اور اس کا کام تمام کردیا۔ باقی لوگوں نے عثمان اور حکیم کو گرفتار کرلیا ، البتہ نوفل بھاگ نکلا۔ اس کے بعد یہ لوگ دونوں قیدیوں اور سامانِ قافلہ کو لیے ہوئے مدینہ پہنچے۔ انہوں نے مالِ غنیمت سے خمس بھی نکال لیا تھا۔1 اور یہ اسلامی تاریخ کا پہلا خمس پہلامقتول اور پہلے قیدی تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اہل سیر کا بیان یہی ہے مگر اس میں پیچیدگی یہ ہے کہ خمس نکالنے کا حکم جنگ بدر کے موقعے پر نازل ہوا تھا اور اس کے سبب کی جو تفصیلات کتب تفاسیر میں بیان کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے مسلمان خمس کے حکم سے نا آشنا تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
رسول اللہﷺ نے ان کی اس حرکت پر بازپرس کی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرام مہینے میں جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، اور سامان قافلہ اور قیدیوں کے سلسلے میں کسی بھی طرح کے تصرف سے ہاتھ روک لیا۔
ادھراس حادثے سے مشرکین کو اس پروپیگنڈے کا موقع مل گیا کہ مسلمانوں نے اللہ کے حرام کیے مہینے کو حلال کرلیا ، چنانچہ بڑی چہ میگوئیاں ہوئیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس پروپیگنڈہ کی قلعی کھولی اور بتلایا کہ مشرکین جو کچھ کررہے ہیں وہ مسلمانوں کی حرکت سے بدرجہا زیادہ بڑا جرم ہے۔ ارشاد ہوا :
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ‌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَكُفْرٌ‌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ وَإِخْرَ‌اجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ‌ عِندَ اللَّـهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ‌ مِنَ الْقَتْلِ ۗ (۲: ۲۱۷ )
'' لوگ تم سے حرام مہینے میں قتال کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اللہ کے ساتھ کفر کرنا ، مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا یہ سب اللہ کے نزدیک اور زیادہ بڑا جرم ہے اور فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے۔''
اس وحی نے صراحت کردی کہ لڑنے والے مسلمانوں کی سیرت کے بارے میں مشرکین نے جو شور برپا کررکھا ہے اس کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ قریش اسلام کے خلاف لڑائی میں مسلمانوں پر ظلم وستم رانی میں ساری ہی حرمتیں پامال کرچکے ہیں۔ کیا جب ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا مال چھینا گیا اور پیغمبر کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو یہ واقعہ شہرحرام (مکہ ) سے باہر کہیں اور کا تھا ؟ پھرکیا وجہ ہے کہ اب ان حرمات کا تقدس اچانک پلٹ آیا اور ان کا چاک کرنا باعث ننگ وعار ہوگیا۔ یقینا مشرکین نے پروپیگنڈے کا جوطوفان برپا کر رکھا ہے وہ کھلی ہوئی بے حیائی اور صریح بے شرمی پر مبنی ہے۔
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے دونوں قیدیوں کو آزاد کردیا اور مقتول کے اولیاء کو اس کا خون بہاادا کیا۔1
یہ ہیں جنگِ بدر سے پہلے کے سریے اور غزوے۔ ان میں سے کسی میں بھی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کی نوبت نہیں آئی جب تک کہ مشرکین نے کرز بن جابر فہری کی قیادت میں ایسا نہیں کیا ، اس لیے اس کی ابتدا بھی مشرکین ہی کی جانب سے ہوئی جب کہ اس سے پہلے بھی وہ طرح طرح کی ستم رانیوں کا ارتکاب کرچکے تھے۔
ادھر سَریہ عبد اللہ بن جحش کے واقعات کے بعد مشرکین کا خوف حقیقت بن گیا اور ان کے سامنے ایک واقعی خطرۂ مجسم ہوکر آگیا۔ انہیں جس پھندے میں پھنسنے کا اندیشہ تھا اس میں اب وہ واقعی پھنس چکے تھے۔ انہیں معلوم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ان سرایا اور غزوات کی تفصیل ذیل سے لی گئی ہے۔ زاد المعاد ۲/۸۳-۸۵ ابن ہشام ۱/۵۹۱ - ۶۰۵ رحمۃ للعالمین ۱ / ۱۱۵، ۱۱۶، ۲/۲۱۵ ، ۲۱۶ ، ۴۶۸ - ۴۷۰۔ ان مآخذ میں ان سرایا وغزوات کی ترتیب اور ان میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے۔ ہم نے علامہ ابن ِ قیم اور علامہ منصور پوری کی تحقیق پر اعتماد کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ہوگیا کہ مدینے کی قیادت انتہائی بیدار مغز ہے اور ان کی ایک ایک تجارتی نقل وحرکت پر نظر رکھتی ہے۔مسلمان چاہیں تو تین سو میل کا راستہ طے کرکے ان کے علاقے کے اندر انہیں مار کاٹ سکتے ہیں ، قید کرسکتے ہیں ، مال لُوٹ سکتے ہیں اور ان سب کے بعد صحیح سالم واپس بھی جاسکتے ہیں۔ مشرکین کی سمجھ میں آگیا کہ ان کی شامی تجارت اب مستقل خطرے کی زد میں ہے لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنی حماقت سے باز آنے اور جُہَینہ او ربنو ضمرہ کی طرح صلح وصفائی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اپنے جذبۂ غیظ وغضب اور جوشِ بغض وعداوت میں کچھ اور آگے بڑھ گئے اور ان کے صنادید واکابر نے اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرلیا کہ مسلمانوں کے گھر وں میں گھس کر ان کا صفایا کردیا جائے گا۔چنانچہ یہی طیش تھا جو انہیں میدانِ بدر تک لے آیا۔
باقی رہے مسلمان تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عبد اللہ بن جحشؓ کے سریہ کے بعد شعبان ۲ ھ میں ان پر جنگ فرض قرار دے دی اور اس سلسلے میں کئی واضح آیات نازل فرمائیں۔ ارشاد ہوا :
وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِ‌جُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَ‌جُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿١٩١﴾ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٩٢﴾ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ ﴿١٩٣﴾ (۲: ۱۹۰تا۱۹۳)
'' اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور حد سے آگے نہ بڑھو۔ یقینا اللہ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا ، اور انہیں جہاں پاؤ قتل کرو ، اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے وہاں سے تم بھی انہیںنکال دو اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے اور ان سے مسجد حرام کے پاس قتال نہ کرو یہاں تک کہ وہ تم سے مسجد حرام میں قتال کریں۔ پس اگروہ (وہاں) قتال کریں تو تم (وہاںبھی) انہیںقتل کرو۔ کافروں کی جزاایسی ہی ہے۔ پس اگر وہ باز آجائیں تو بے شک اللہ غفور رحیم ہے اور ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے۔ پس اگر وہ باز آجائیں تو کوئی تَعدّ ِی نہیں ہے مگر ظالموں ہی پر۔''
اس کے جلد ہی بعد دوسری نوع کی آیات نازل ہوئیں جن میں جنگ کا طریقہ بتایا گیا اور اس کی ترغیب دی گئی ہے اور بعض احکامات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے :
فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فَضَرْ‌بَ الرِّ‌قَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْ‌بُ أَوْزَارَ‌هَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّـهُ لَانتَصَرَ‌ مِنْهُمْ وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴿٤﴾ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ ﴿٥﴾ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّ‌فَهَا لَهُمْ ﴿٦﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُ‌وا اللَّـهَ يَنصُرْ‌كُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ﴿٧﴾ (۴۷: ۴- ۷ )
''پس جب تم لوگ کفر کرنے والوں سے ٹکراؤ تو گردنیں مار و ، یہاں تک کہ جب انہیں چھی طرح کچل لو تو جکڑ کر باندھو۔ اس کے بعد یا تو احسان کرو یا فدیہ لو ، یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے۔ یہ ہے (تمہارا کام ) اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے انتقام لے لیتا لیکن (وہ چاہتاہے کہ ) تم میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میںقتل کیے جائیں اللہ ان کے اعمال کو ہرگز رائیگاں نہ کرے گا۔ اللہ ان کی رہنمائی کرے گا اور ان کا حال درست کرے گا اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس سے ان کو واقف کرچکا ہے۔ اے اہل ایمان ! اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم ثابت رکھے گا۔''
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی جن کے دل جنگ کا حکم سن کر کانپنے اور دھڑکنے لگے تھے۔ فرمایا:
فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَ‌ةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ‌ فِيهَا الْقِتَالُ ۙ رَ‌أَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ يَنظُرُ‌ونَ إِلَيْكَ نَظَرَ‌ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ (۴۷: ۲۰)
''تو جب کوئی محکم سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر ہوتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہورہی ہو۔''
حقیقت یہ ہے کہ جنگ کی فرضیت وترغیب اور اس کی تیاری کا حکم حالات کے تقاضے کے عین مطابق تھا حتی کہ اگر حالات پر گہری نظر رکھنے والا کوئی کمانڈر ہوتا تو وہ بھی اپنی فوج کو ہر طرح کے ہنگامی حالات کا فوری مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیتا۔ لہٰذا وہ پرور دگارِ برتر کیوں نہ ایسا حکم دیتا جو ہر کھلی اور ڈھکی بات سے واقف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالات حق وباطل کے درمیان ایک خون ریز اور فیصلہ کن معرکے کا تقاضا کررہے تھے ، خصوصاً سریہ عبد اللہ بن جحشؓ کے بعد جو کہ مشرکین کی غیرت وحمیت پر ایک سنگین ضرب تھی اور جس نے انہیں کبابِ سیخ بنارکھا تھا۔
احکام ِ جنگ کی آیا ت کے سیاق وسباق سے اندازہ ہوتا ہے کہ خون ریز معرکے کا وقت قریب ہی ہے اور اس میں آخری فتح ونصرت مسلمانوں ہی کو نصیب ہوگی۔ آپ اس بات پر نظر ڈالیے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جہاں سے مشرکین نے تمہیں نکالا ہے اب تم بھی وہاں سے انہیں نکال دو۔ پھر کس طرح اس نے قیدیوں کے باندھنے اور مخالفین کو کچل کر سلسلہ ٔ جنگ کو خاتمے تک پہنچانے کی ہدایت دی ہے جو ایک غالب اور فاتح فوج سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ اشارہ تھا کہ آخری غلبہ مسلمانوں ہی کو نصیب ہوگا۔ لیکن یہ بات پردوں اور اشاروں میں بتائی گئی تاکہ جو شخص جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جتنی گرمجوشی رکھتا ہے اس کا عملی مظاہرہ بھی کرسکے۔
پھر انہی دنوں - شعبان ۲ ھ فروری ۶۲۴ ء میں - اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ قبلہ ، بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو بنایا جائے اورنماز میں اسی طرف رخ پھیرا جائے۔ اس کا فائدہ ہوا کہ کمزور اور منافق یہود جو مسلمانوں کی صف میں محض اضطراب وانتشار پھیلانے کے لیے داخل ہوگئے تھے کھل کر سامنے آگئے اور مسلمانوں سے علیحدہ ہوکر اپنی اصل حالت پر واپس چلے گئے اور اس طرح مسلمانوں کی صفیں بہت سے غداروں اور خیانت کوشوں سے پاک ہوگئیں۔
تحویل قبلہ میں اس طرف بھی ایک لطیف اشارہ تھا کہ اب ایک نیا دور شروع ہورہاہے جو اس قبلے پر مسلمانوںکے قبضے سے پہلے ختم نہ ہوگا ، کیونکہ یہ بڑی عجیب بات ہوگی کہ کسی قوم کا قبلہ اس کے دشمنوں کے قبضے میں ہو اور اگر ہے تو پھر ضروری ہے کہ کسی نہ کسی دن اسے آزاد کرایا جائے۔
ان احکام اور اشارو ں کے بعد مسلمانوں کی نشاط میں مزید اضافہ ہوگیا اور ان کے جہاد فی سبیل اللہ کے جذبات اوردشمن سے فیصلہ کن ٹکر لینے کی آرزو کچھ اور بڑھ گئی۔

****​
 
Top