• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سرزمین جہاد افغانستان، ایک نئے عہد کیلئے تیار :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
===== سرزمین جہاد افغانستان، ایک نئے عہد کیلئے تیار =====

سپرپاورز کا قبرستان کہلانے والی سرزمین افغانستان کے ایک عظیم سپوت ملا محمد عمر مجاہد اپنے رب سے جا ملے (اناللہ و اناالیہ راجعون)۔ ان کی وفات کی خبر ان کے دشمنوں کو بھی اڑھائی سال تک نہ ہو سکی۔ یہ دشمن وہ تھے جو اس بات کے دعویدار تھے کہ دنیا کا ہر انسان ہی نہیں کوئی چھوٹی سے چھوٹی شے بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں۔ یہی سوچ کر انہوں نے نائن الیون کے بعد افغانستان کو دھمکیاں دینا شروع کی تھیں کہ جیسے ہم کہیں ویسے ہی کرتے جاؤ۔۔۔ وگرنہ۔۔۔ زمین سے ہی مٹا دیئے جاؤ گے۔ ملا محمد عمر مجاہد نے تاریخ انسانی کی ایک نئی مثال قائم کر دی۔ ایک خاک نشین جس نے ایک ملک کا حکمران ہوتے ہوئے بھی اتنی سادہ زندگی گزاری کہ دور اسلاف سے ہی اس کی مثال مل سکے گی۔

خود کو ’’خدا‘‘ سمجھنے والوں سے ملا محمد عمر نے اپنے کندھے پر رکھی چادر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرے نزدیک میرے کندھے پر رکھی اس چادر کی قدرواہمیت میری حکومت سے زیادہ ہے۔ میں اس سے کتنے کام لیتا ہوں۔۔۔ یہ مجھے گرمی سردی میں کام دیتی ہے، میری حفاظت کرتی ہے، مجھے آرام مہیا کرتی ہے، اپنے دامن کو میرے لئے پھیلا کر بیٹھنے اور نماز تک ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ حکومت تو میرے لئے اس چادر جتنی بھی اہمیت نہیں رکھتی۔‘‘ یہ کہہ کر ملا محمد عمر نے وہی چادر اپنے کندھے پر رکھی اور حکومت کو الوداع کہہ کر ایک نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ امریکہ نے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی، اقوام متحدہ سے ملا محمد عمر اور ان کی تنظیم کے خلاف قراردادیں منظور کروائیں اور پھر ایٹم بم کے بعد سب سے خطرناک ہتھیار ڈیزی کٹر بارش کی طرح برسانے شروع کئے۔ امریکہ تنہا نہیں بلکہ ساری دنیا سے آئے 50کے لگ بھگ طاقتور ملک بھی ان کے ساتھ ہو گئے۔

یہ سبھی طاقت کے نشے میں چور ایک طرف تھے تو نہتے افغان، دنیا کی سب سے کمزور ترین اقوام میں سے ایک، دوسری طرف تھے۔ امریکہ نے ملا محمد عمر اور ان کے ساتھیوں تک پہنچنے کیلئے اپنی ساری صلاحیت اور قوت آزما لی لیکن ۔۔۔ 14 سال میں بھی وہ ان کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکا۔ البتہ دیکھتے ہی دیکھتے ملا محمد عمر کے ساتھیوں نے امریکی اتحادیوں کو ایسے رگیدنا شروع کیا کہ وہ ایک ایک کر کے اپنے گاڈفادر کا ساتھ چھوڑتے گئے۔ ملک کے اطراف واکناف میں امریکی کیمپوں اور قافلوں پر اتنے حملے ہوئے کہ سپرپاور بھی بلبلا اٹھی۔ امریکہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے ہیلی کاپٹرز اور ہوائی جہازوں تک دنیا کا کوئی ہتھیار پہنچ سکتا ہے لیکن ملا محمد عمر کے ساتھیوں نے انہیں بھی مار گرانا شروع کیا۔ اس سارے عرصہ میں امریکہ کے اسلحہ ساز اداروں اور کمپنیوں نے نئی سے نئی اور مضبوط سے مضبوط عسکری ٹیکنالوجی متعارف کروائی لیکن ان کی ایک نہ چلی۔ امریکہ میں افغانستان سے فوجیوں اور ان کے افسران کی لاشوں کے تابوتوں سے بھرے جہاز جب اترتے تو دنیا کا ’’طاقتور ترین انسان‘‘ امریکی صدر بھی آنسو بہاتا دکھائی دیتا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے امریکی مزاج اور لہجے میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔ دوستوں، ساتھیوں کے فرار کے بعد امریکہ نے انہی ’’چیونٹیوں‘‘ کے سامنے ہاتھ جوڑ کے انہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے کیلئے منتیں سماجتیں شروع کیں جنہیں اس نے روند روند کر اپنے ہی پاؤں زخمی کر ڈالے تھے۔

3سال پہلے ملا محمد عمر کے ساتھیوں کا دفتر قطر میں خود امریکہ نے کھولا۔ بدنام زمانہ گوانتانامو کے قید خانے سے 5افغان مجاہد کمانڈروں کو اپنے خصوصی طیارے میں بٹھا کر قطر پہنچا کر ایک فوجی واگزار کروایا۔ پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ امریکہ اپنا تھوکا خود چاٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ افغانستان کے طالبان دہشت گرد نہیں بلکہ مسلح باغی ہیں۔ پھر کہہ رہا تھا کہ ملا محمد عمر کے سر کی رکھی قیمت وہ ختم کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ وہی ملا محمد عمر اور ان کی تنظیم جس کو اقوام متحدہ کے ذریعے خصوصی ترمیم کر کے ’’دہشت گرد‘‘ قرار دلوایا گیا تھا، اب ’’پاک، پوتر‘‘ ہونے جا رہی ہے اور امریکہ بھی اسے ’’دہشت گردی‘‘ کی فہرست سے خارج کرنے کی تیاری میں ہے۔

امریکہ نے ملا محمد عمر کے ساتھیوں کے ساتھ ترکی، مالدیپ، قطر، جرمنی اور چین سمیت ہر جگہ مذاکرات کی کوششیں کیں کہ کسی طرح افغانستان کے کمبل سے جان چھوٹ جائے لیکن جان نہ چھوٹ سکی۔ پھر دنیا نے چند دن پہلے عجیب و غریب منظر دیکھا کہ امریکہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور پھر مری میں انہی ملا محمد عمر کے ساتھیوں کے ساتھ مذاکرات کر کے اپنی واپسی کیلئے راستے تلاش کر رہا تھا۔ آج ہمارے سامنے تاریخ کا مسافر ایک ایسی تبدیلی کو دیکھ رہا ہے جو بہت کچھ نیا رکھتی ہے۔ اب بھی کچھ ’’دانشور‘‘ جن کی دانشوری اپنے کمرے سے شروع ہو کر اپنے دفتر ہی پر ختم ہو جاتی ہے، وہ نام نہاد عقل کے گھوڑے دوڑاتے نظر آتے ہیں کہ اگر ’’ملا محمد عمر یوں کرتے، یوں نہ کرتے‘‘ تو آج منظر کچھ اور ہوتا، لیکن انہیں ابھی تک یہ دکھائی نہیں دے رہا کہ قندھار کے ایک معمولی سے گھر میں آنکھ کھولنے والے ایک شخص نے کیسے ایک عالم کو تہ و بالا کر کے تاریخ ہی کو بدل کر رکھ دیا۔ آج فاتح کون ہے اور مفتوح کون۔۔۔؟

سب کچھ نکھر کر سامنے آ چکا ہے۔ قوموں کی تاریخ ہمیشہ خون سے لکھی جاتی ہے۔۔۔ بزدلوں کیلئے تاریخ میں رسوائی اور ذلت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن جنہوں نے دل و دماغ سے دشمن سے مرعوبیت کو قبول کر لیا ہو، انہیں دوبارہ عقل کے راستے پر لانا آسان نہیں ہوتا۔ افغانستان کی تاریخ میں ایک آزمائش کا مرحلہ گزر چکا۔ اب ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ ملا محمد عمر نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں ملا محمد اختر منصور کو تمام تر ذمہ داریاں تفویض کر دی تھیں اور وہی ایک لمبے عرصہ سے سارا نظام چلا رہے تھے۔ افغانستان کے سبھی جہادی لوگ ان امور سے واقف ہیں تو دشمن ایک نئی چال لے کر آیا ہے کہ ملا محمد عمر کے خاندان کے لوگ خصوصاً ان کے بیٹے ملا محمد اختر منصور کی نامزدگی کے خلاف ہیں۔ یہ کہنے و الے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام پر مر مٹنے والوں کیلئے ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

اگر حکومت و امارت کی ملا محمد عمر کے نزدیک ذرہ برابر حیثیت ہوتی تو وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کر کے اپنے آپ کو اور اقتدار کو بچانے کی کوشش کرتے۔ عقل کے گھوڑے دوڑانے والوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ اسلام کی تعلیمات کو سینے میں بسا کر اسلام کے غلبہ کی مہم کیلئے جان قربان کرنے کیلئے تیار لوگوں کے ہاں امارت و قیادت کوئی عہدہ نہیں بلکہ ایک بوجھ ہوتی ہے۔ یہ لوگ حتی الوسع یہی کوشش کرتے ہیں کہ ایسی ذمہ داریوں کا بوجھ ان کے کندھوں پر نہ پڑے۔ ایسی افواہیں پھیلانے والے عقل و خرد سے عاری لوگ ہیں جنہیں نہ تو اسلام اور اسلامی شریعت و احکام کا ذرہ بھر علم ہے اور نہ وہ اسلام کے ماننے والوں کے مزاج اور طبیعت سے واقف ہیں۔
ملا محمد عمر مجاہد نے 20 سال جس قدر کامیابی کے ساتھ میدان جہاد سجا کر اور پھر تاریخ عالم کی سب سے بڑی قوت امریکہ اور سب سے بڑے اتحاد نیٹو بلکہ 50کے لگ بھگ اتحادیوں کا مقابلہ کیا، وہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ آج سپرپاور امریکہ ملا محمد عمر کے ساتھیوں کے سامنے سر جھکا کر اور پاکستان کے دروازے پر ناک رگڑ کر جس طرح عبرت کا نشان بنتے نظر آتا ہے، یہ ان پاکباز لوگوں کے خون کی قربانی کا نتیجہ ہے جنہوں نے افغانستان کے اطراف و اکناف میں اپنے جسموں کے ٹکڑے کروائے لیکن سر نہیں جھکائے۔


اللہ تعالیٰ ایسے ایمان والوں کے اعمال اور قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ نظر آ رہا ہے کہ افغانستان ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے اور یہ دور اسلام دشمنوں کی ذلت کی وہ روشنی لے کر آ رہا ہے جس کیلئے امت ایک عرصہ سے دعائیں التجائیں کر رہی ہے۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ جس کا جو وقت مقرر ہے وہ اس متعین و قت پر اس دنیا سے رخصت ہو گا۔ آج تک دنیا میں آنے والا کوئی انسان نہ ہمیشہ زندہ رہا نہ رہے گا۔ جانا تو سب کو ہے اور اپنے مقرر وقت پر جانا ہے لیکن عظیم ہیں وہ لوگ جنہوں نے عزیمت اختیار کر کے تاریخ کو ایک نیا رخ دے کر اپنا نام اور کام منوا لیا۔ یہی ملا محمد عمر کی زندگی تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور ان کی عظیم جدوجہد کو اس منزل تک پہنچائے جس کیلئے اکیسویں صدی میں اہل اسلام نے تاریخ میں جرأت و عزیمت کا ایک نیا باب رقم کیا۔

‪#‎UrduArtical‬
 
Top