• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سرچشمہ صحت ہوا' پانی اور غذا

شمولیت
ستمبر 27، 2013
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
4
اسلام علیکم​
سرچشمہ صحت ہوا' پانی اور غذا
آج ہر شخص جانتا ہے کہ ہوا'پانی اور غذا انسانی جسم کی مسلسل ضرورت ہے۔ لیکن ان کے طریقہ استعمال میں نت نئے انداز نکال کر لوگ بغیر سوچے سمجھے زندگی کی انہیں ضروریات سے فائدہ کی بجائے نقصان اٹھاتے ہیں۔ غذا اور پانی کو اصل شکل میں استعمال کرنے سے انسان کے حراروں'لحمیات'اور وٹامن کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں لیکن ان میں رنگ آمیزی اور لذت آمیزی'غذائیت کو دور کردیتی ہے۔ اس طرح ہم لذت کام و دہن کی خاطر اپنی صحت برباد کرلیتے ہیں۔
پانی اور کھانے سے متعلق سب سے پہلے قرآن مجید میں مختصر ترین آیت پڑھیں۔ "وکلو اوشربو اولا تسرفوا" یعنی کھائو پیو اور اسراف نہ کرو (سورہ الاعراف آیت نمبر 13)۔
اس مختصر آیت میں مکمل طب موجود ہے یعنی کھانے پینے میں اعتدال قائم نہ رکھنا ہی بیماری کا اصل سبب ہے۔ آج تمام تر تحقیق کے بعد اسی بات پر زور دیا جاتا ہے کہ تمام بیماریوں کی ابتداءمعدہ سے ہے۔ اس سلسلے میں رسول خدا کا ایک ارشاد بھی موجود ہے جس سے صحت کی بقا کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ آج کا سائنسدان کہتا ہے کہ بیماری کے دوران پرہیز کا تصور فرسودہ ہے' مریض کو دوا کے دوران غذا ضرور دیں جبکہ رسول خدا فرماتے ہیں۔ بیماروں کو ان کی خواہش کے خلاف کھانے پر مجبور نہ کرو کیونکہ ان کو خدا کھلاتا ہے۔ (طب صادق صفحہ 23)۔ اس طرح کھانا اور پانی ضروری ہے لیکن حسب ضرورت۔
ہوا ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے اگر یہ نہ ہوتو دم گھٹنے لگتا ہے۔ ہمارے جسم کی آکسیجن کی ضرورت صاف ہوا سے پوری ہوتی ہے لیکن ہم اسے اپنے آرام کی خاطر اسے طرح طرح کے کیمکلز سے آلودہ کرتے ہیں۔ باہر نکلیں تو کیمیکل زدہ ہوا' جراثیم سے پُر اور دھوئیں سے لبریز ہوا نہ جانے کن کن اعضاءکا شکار کرتی ہے۔ صحت کے لیے کھلی اور تازہ ہوا اشد ضروری ہے۔ گھروں میں قدرتی ہوا کی آمدورفت کے لیے کھڑکیاں اور روشندان بھی بہترین ذریعہ ہیں۔
پانی انسانی جسم کے وزن کا ستر فی صد حصہ کہلاتا ہے جسم کے اہم کاموں میں پانی کے بغیر سارے کام رک سکتے ہیں جب تک پھیپڑے مرطوب نہ رکھے جائیں' ہوا جو سانس کے ذریعہ آکسیجن پہنچاتی ہے اچھی طرح استعمال نہیں ہوسکتی۔
ہاضمہ کے عرق کو بھی پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ پانی کی کمی سے ڈی ہائڈریشن ہوسکتا ہے۔ اسی طرح جسم میں موجود بے کار اجزا کو پیشاب کے ذریعہ نکالنے میں گردوں کا عمل پانی کی وافر مقدار نہ ملنے پر بے کار ہوسکتا ہے۔
اور ہم ہیں کہ پانی جیسی اہم ضرورت میں طرح طرح کی رنگ آمیزیاں سوڈا وغیرہ کی صورت میں کرتے رہتے ہیں۔ہمارے پانی کے حصول کے ذرائع ہی اسے آلودہ کرنے میں کیا کم ہیں کہ ہم خود لذت کام و دہن کے لیے اسے مضر صحت بنا دیتے ہیں۔ پانی ابال کر پینے سے آپ جراثیم تو مار دیں گے لیکن باہر سے آئی ہوئی برف ملا کر پھر اسے ویسا ہی مضر صحت بنا دیں گے۔ اس لیے برف کے استعمال میں بھی توجہ کی ضرورت ہے۔
حلق اور زکام کی بیماریوں میں برف کا استعمال قطعی بند کردیں۔ رہا پانی کے ذائقہ دار بنانے کا سوال تو پھلوں کے عرقیات سے لطف اندوز ہوں اور فائدہ بھی اٹھائیں۔ ان مشروبات کو تو لازمی ترک کردیں جن میں گیس کا عمل دخل ہو۔ پانی کو اپنی اصل حالت میں روزانہ چھ سات گلاس پیئں۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ کھانا وقت پر کھانا' چبا کر کھانا اور دو کھانوں کے درمیان کم از کم چار پانچ گھنٹے کا وقفہ ہونا ضروری ہے۔ اپنے کھانے میں مناسب مقدار میں نشاستہ' لحمیات اور حیاتین شامل ہوں تو بیماریوں سے دور رہ سکتے ہیں۔ حکمت اور آئیو رویدک طریقہ علاج میں گرم اور ٹھنڈی غذائوں کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے۔ اگر ان کے توازن کا خیال نہ رکھا جائے تو بیماری پیدا ہوسکتی ہے۔
طب چین میں بھی ٹھنڈی اور گرم غذائوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ چین میں سر درد' گلے کی تکالیف' قبض اور بخار وغیرہ کو گرم مزاجی کیفیت کہا گیا ہے جس میں ٹھنڈی چیزیں استعمال کرنا چاہئے جبکہ دوران خون میں کمی' چکر اور دست وغیرہ کی کیفیت سرد ہے اس لیے اس کا علاج گرم اور طاقت والی اشیاءسے کرنا چاہئے۔
مغربی ڈاکٹروں کا بھی نظریہ ہے کہ ناقص اور بے وقت کھانے سے امراض جنم لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک فہرست مرتب کرتا ہوں جس کے بعد نفع و نقصان حاصل کرنا آپ کا کام ہے۔ یہ بھی ذہن نشین کرلیں کہ بیماری میں بھوک نہیں لگتی اس لیے ہلکی غذا سوپ کی شکل میں لیں اور تندرست ہونے پر اپنے کھانے پینے کا چارٹ خود حسب ضرورت اپنی جیب پر نظر رکھتے ہوئے مرتب کریں بس مرض بڑھانے والی چیزیں استعمال نہ کریں۔ مثلاً نزلہ زکام میں ٹھنڈا پئیں گے اور کیلا کھائیں گے تو مرض بڑھے گا۔ خواتین دوران حمل کھجور اور پپیتا کھائیں گی تو حمل ساقط ہونے کا اندیشہ ہوگا۔ اسی طرح گلے کی خرابی میں ٹھنڈا اور سرکہ اچار کھائیں گے تو گلا ٹھیک نہ ہوگا۔
کھانے پینے کی چیزوں میں نفع و نقصان سمجھنے سے قبل نہایت اہم غذا روٹی اور چینی پر ایک ریسرچ کی روداد بھی نوٹ کرلیں۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی کے "ایگنس فے مورگن" کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عام طور پر جو سفید روٹی دستیاب ہے اس میں تیس اہم تغذیہ میں سے چھبیس غائب ہوکر صرف چار رہ جاتی ہیں یعنی ہم اصلی گندم کی روٹی سے محروم سفید آٹا کھا کر صحت سے دور ہورہے ہیں یا یوں سمجھیں کہ تین چوتھائی سے بھی زیادہ تعداد میں اہم دھاتوں' بی کمپلیکس اور وٹامن E سے محروم رہتے ہیں۔ اس طرح گنے اور چقندر کی اصل غذائیت دور کرکے ہمیں سفید چینی دے دی جاتی ہے جسے ہم دل و جان سے خوش ہوکر کھاتے ہیں اور نشاستہ کے سوا باقی قدرت کی فراہم کردہ غذا کی اہمیت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہی حال تمام کھانے پینے کی چیزوں میں ہے کہ ہمیں اصل سے ہٹا کر نقل کو خوبصورت بنا کر بہلایا گیا ہے ۔ "کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں"
اس سلسلے میں ہماری'آپ کی اور حکومت' سب کی سوچ ایک ہونا چاہئے کہ ہم اچھی صحت کے اصولوں کو اپناکر اچھے معاشرے کی تعمیر کریں جو کم از کم کھانے پینے میں دھوکا نہ دے۔​
گرم غذائیں
گوشت' مرغی' ادرک' کالی مرچ' لونگ' سرسوں' سرخ مرچ' لہسن' کھجور' پپیتا' گڑ' کافی اور چائے وغیرہ
ٹھنڈی غذائیں:۔ آلو' ککڑی' کھیرا' گوبھی' انگور' دودھ' مکھن' سفید چینی' گندم پسا ہوا' چاول' دال اور سونف وغیرہ
کھانے میں گوشت کم سے کم کھائیں۔ اس سے اجزاءلحمیہ ضرور حاصل ہوتے ہیں لیکن دالوں کا استعمال بھی ان اجزاءکی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ مرغ اور مچھلی زیادہ بہتر ہے۔ حضرت علی نے غالباً اسی لئے کہا تھا کہ" اپنے پیٹ کو جانوروں کا قبرستان مت بنائو"
کارن'آئل' مارجرین'آلیو آئل استعمال کریں اور گھی کا استعمال کم ہونا چائے۔ دل سے متعلق امراض میں تو گھی بالکل بند کردیں۔ سبزیاں زیادہ سے زیادہ استعمال کریں کہ نوے (٩٠) فیصد پانی کے ساتھ ان میں وٹامن Cبھی ہوتا ہے۔ پہلے سے کٹی ہوئی سبزیاں اور گوشت سے پرہیز بہتر ہے ہمیشہ انہیں تازہ کاٹ کر استعمال کرنے میں فائدہ ہے'
نمک اور چینی کم کھائیں۔
بلڈ پریشر میں نمک اور ذیابیطس میں چینی کا استعمال ترک کرنا چاہئے۔ کھانے کے ساتھ پیاز' لہسن' اور لیموں کا رس مفید ہے۔ آلو سے مٹاپے کے ساتھ بدہضمی بھی ہوسکتی ہے جبکہ وہ چھلکے کے ساتھ مفید ہے۔
انڈے کا استعمال کم سے کم ہونا چاہئے۔ ہفتہ میں زیادہ سے زیادہ تین انڈے کھائیں جبکہ اس کی سفیدی جتنا چاہے کھائیں۔ دل کے مریض تو انڈے سے قطعی دور رہیں ہاں سفیدی وہ بھی کھاسکتے ہیں۔ جلدی امراض میں بھی انڈے کی زردی اور مچھلی نقصان دیتی ہے۔
ڈبوں میں بند کھانوں کا استعمال زیادہ بہتر نہیں۔ روٹی' چاول اور دالوں کا استعمال زیادہ رکھیں۔ ویسے ایک وقت میں ایک چیز کا استعمال زیادہ بہتر ہے۔ کھانے دیر تک پکانے سے اس کے وٹامنز اور ضروری اجزاءختم ہوجاتے ہیں۔
ناشتہ اور رات کا کھانا اچھا ہونا چاہئے جبکہ دوپہر میں ہلکا کھانا یا پھل پر قناعت کریں۔ آلو چینی' اور نشاستہ کی چیزیں کم کھائیں تو وزن بھی نہ بڑھے گا۔
ورزش کریں یا روز صبح و شام پیدل چلیں۔ ڈائٹنگ کرنا یا بھوکا رہنا سخت غلطی ہے۔ غذا آہستہ آہستہ چبا کر کھائیں اور اس کے ساتھ پانی یا تو بالکل نہ پئیں' یا پھر کم مقدار میں لیں۔ زیادہ پانی پینے سے ہاضمہ میں فرق آتا ہے۔ کھانے سے ایک گھنٹہ بعد جی بھر کر پانی پینا بہتر ہوتا ہے۔ سرکہ اچار یا کھٹی اشیاءکے استعمال میں زیادتی نہ کریں کیونکہ اس سے معدہ خراب ہونے کے ساتھ اعصاب بھی کمزور ہوتے ہیں۔
خصوصی توجہ:
دودھ کے ساتھ نہ ترشی کھائیں نہ مچھلی۔ چاول کے ساتھ تربوز اور انڈوں کے ساتھ مولی استعمال نہ کریں۔ دودھ کے ساتھ مچھلی کھانے سے سفید داغ کی بیماری ہونے کا اندیشہ ہے۔
کھانے اور پینے کی مفید ترین اشیائ: صحت کی بقاءکے لیے غذا' پانی' روشنی' ہوا' لباس اور غسل وغیرہ پر روشنی ڈالنے کے بعد ضروری ہے کہ ان کھانے پینے کی اشیاءکا ذکر کردیا جائے جن سے انسان زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے اور ان کے غیر ضروری استعمال سے نقصان کا خطرہ ہے۔
خدا جانے یہ بات کیوں مشہور ہے کہ طاقتور یا طاقت دینے والی اشیاءکھانے سے ہی جسم طاقتور اور تندرست رہ سکتا ہے۔ اصل میں کھانے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ معدہ میں کس قدر جان ہے۔ وہ طاقتور غذا کو ہضم بھی کرسکتا ہے یا نہیں۔
طاقت کے حصول کے لیے محنت درکار ہے۔ زیادہ محنت کرنے پر اس قسم کی طاقتور غذا کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ محنت نہ کرنا اور مقوی غذا استعمال کرنا صحت کو برباد کرنا ہے۔
عمر کے لحاظ سے بھی غذا کا خیال رکھنا چاہئے۔ کم خور کے لیے طاقتور چیزوں کے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ زیادہ کھانا ویسے بھی مناسب نہیں۔ کھانے کے بعد لوگ ٹھنڈا پانی پیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ معدہ میں جاکر اس کی حرارت کو کم کردیتا ہے جس سے ہاضمہ میں نقص پیدا ہوسکتا ہے۔ جسے ہاضمہ کی شکایت رہتی ہو اس کو کھانے کے بعد تھوڑا نیم گرم پانی پینا چاہئے اور کھانے کے بعد تھوڑا آرام کرنا بھی مناسب ہے۔
معدہ کو بہت دیر تک خالی رکھنے سے صحت خراب ہوسکتی ہے۔ دن کی غذا کے مقابلہ میں رات کی غذا ہلکی اور سادی ہونا چاہئے۔ لیکن سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے کچھ ضرور کھا لینا چاہئے۔ معدہ کو خالی نہ چھوڑا جائے نہ اسے خوب بھردیا جائے۔ ضعیفی میں رفتہ رفتہ خوراک کم کردینا چاہئے۔ مختصر یہ کہ کھانا اچھا اور اعتدال میں رہ کر کھانا چاہئے۔
پینے کے لیے سب سے زیادہ مفید صاف اور خالص پانی ہے۔ صاف پانی نہ صرف گوشت کو مضبوط رکھتا ہے بلکہ جسم کو بڑھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ گردوں کو اپنا کام بہتر طور پر انجام دینے کے لیے پانی زیادہ پینا چاہئے۔ پانی اس لیے بھی ضروری ہے کہ بغیر اس کے غذا ہضم نہیں ہوتی۔
اس مقام پر چند مفید ترین اشیاءکا ذکر بھی ضروری ہے جو درج ذیل ہیں:
کھانے سے متعلق اشیائ:
گندم:
چکی کا پسا ہوا چھلکے دار گندم کا آٹا' ایسی غذا ہے جس سے آنتوں کے کینسر کی روک تھام ہوتی ہے۔
جو:
کینسر سے بچنے ' کولیسٹرول کی مقدار کو کم رکھنے اور دل کے امراض کے لیے بہترین غذا ہے۔ گرمی کے زمانے میں اس کا ستو پینا فرحت بخش ہے۔
مکئی:
وبائی امراض سے محفوظ رکھتی ہے اور کینسر پر قابو پانے میں بھی مدد دیتی ہے۔
سیب:
روز صبح ضرور کھائیں۔ یہ نہ صرف کولیسٹرول کی مقدار کم کرتا ہے بلکہ کینسر سے محفوظ رکھنے میں بھی مددگار ہے۔ قبض دور کرتا ہے۔ جگر' دل اور دماغ کو طاقت دینے کے علاوہ بھوک بھی بڑھاتا ہے۔
سنگترہ
' مالٹا اور کینو: سینے اور معدے کو کینسر کے محفوظ رکھنے کے ساتھ اس میں وٹامن Cکی وافر مقدار ہونے کی وجہ سے دمہ کے حملے سے بھی بچاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جبڑے کے امراض میں بھی مفید ہے۔
آم:
آنتوں' معدے' گردے اور مثانہ کی کمزوریوں کو دور کرتا ہے۔
انگور:
جسم کی کمزوری دور کرنے کے ساتھ خون پیدا کرتا ہے۔
آڑو:
نہ صرف قبض دور کرتا ہے اور بھوک بڑھاتا ہے بلکہ مقوی باہ بھی ہے اور مولد خون بھی۔
امرود:
نہ صرف دل اور معدہ کے لیے مقوی ہے بلکہ اس سے بھوک بھی لگتی ہے۔ معدہ خالی ہونے پر کھانے سے قبض دور ہوتا ہے۔
آلو بخارا:
قبض دور کرتا ہے اور جلدی امراض میں بھی فائدہ دیتا ہے۔
انار:
افزائش خون کے لیے بہترین ہے۔ مقوی جگر ہونے کے ساتھ پیاس بجھاتا ہے اور پیشاب لاتا ہے۔
شہتوت:
خون پیدا کرنے کے ساتھ اس کا شربت گلے کے ورم میں مفید ہے۔
جامن:
ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بے حد مفید ہے۔ اس کی گٹھلی کا سفوف بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دل' دماغ اور جگر کے لیے قوت فراہم کرتی ہے اور تلی کا ورم بھی دور کرتی ہے۔
تربوز:
بخار اور یرقان میں مفید ہونے کے ساتھ پیاس بجھاتا ہے اور کھل کر پیشاب لاتا ہے۔
خربوزہ:
گردہ مثانہ کے امراض میں مفید ہونے کے ساتھ کھل کر پیشاب بھی لاتا ہے۔
لیموں:
جگر کی گرمی دور کرنے کے ساتھ قے اور متلی کو بھی روکتا ہے۔
کیلا:
نزلہ' زکام' کھانسی اور سانس کے امراض میں نقصان دیتا ہے لیکن معدہ کو تیزابیت اور السر سے بچاتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر میں بھی مفید ہے۔
گاجر:
اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ بینائی تیز کرنے کے علاوہ پھیپڑے کے کینسر کا خطرہ دور کرتی ہے۔ دل کی بیماری سے بھی کافی حد تک دور رکھتی ہے۔
کھجور:
قدرت کا مخصوص عطیہ ہے۔ اس کا شمار ریشہ دار خوراک میں ہوتا ہے۔ لبلبہ کے کینسر سے بچاتی ہے اور آنتوں کی صفائی کرتی ہے۔
انجیر:
پیغمبر اسلام کا فرمان ہے کہ "خشک اور تازہ انجیر کھایا کرو۔ یہ قوت مردانہ میں اضافہ اور بواسیر کو روکتا ہے۔ نقرس سے بچاتا ہے۔" حضرت علی نے فرمایا کہ "انجیر سدوں کو نرم کرتا ہے اور قولنج کے ریاح کے لیے مفید ہے۔ دن کو زیادہ اور رات کو کم کھایا کرو۔" امام علی رضا نے فرمایا کہ "مختلف قسم کے دردوں کو رفع کرتا ہے۔ انجیر کھانے کے بعد کسی دوسری دوا کی ضرورت نہیں رہتی۔"
گوبھی
پھول گوبھی اور بند گوبھی: پھیپڑے' بڑی آنت اور سینہ کے کینسر سے بچانے میں مفید ہے۔ تقریباً ساٹھ فی صد امکان کم ہوجاتا ہے اور پیشاب بھی کھل کر آتا ہے۔
مرچ
ہری مرچ: سرخ مرچ جس قدر نقصان دہ ہے ہری مرچ اتنی ہی فائدہ مند ہے۔ سانس کی تکلیف دور کرنے کے ساتھ ساتھ خون کا انجماد بھی نہیں ہوتا۔
شملہ مرچ: اس میں وٹامن C کی مقدار زیادہ ہونے سے زکام' کھانسی' دمہ اور دل کے امراض کے علاوہ کینسر کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔
ادرک:
ہاضم ہونے کے ساتھ جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔ لبلبہ کے کینسر کے امکانات کم ہوتے ہیں اور کولیسٹرول اعتدال میں رہتا ہے۔
پیاز:
پیاز کے مرکبات کی ہر طریقہ علاج میں مدح سرائی کی گئی ہے۔ اکثر امراض میں دوا کی طرح استعمال ہوتی ہے۔ بیکٹریاز ختم کرتی ہے اور خون جمنے کو روکتی ہے۔ کئی طرح کے کینسر سے بھی بچاتی ہے۔
ہری پھلیاں:
بلڈ شوگر' کولیسٹرول اور چھاتی کے کینسر میں مفید ہیں۔ استعمال میں رہیں تو بہت سے امراض سے محفوظ رکھتی ہیں۔ بے حد مفید غذا ہے۔
سویابین:
جاپان میں زیادہ استعمال ہوتی ہے اس لیے وہاں چھاتی کی کینسر میں بے حد کمی ہے۔
دار چینی:
جسم میں انسولین بنانے میں سازگار ہے جس سے ذیابیطس کا مرض کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
لونگ:
دانتوں کے درد میں کچل کر درد کے مقام پر رکھ لیں' درد دور ہوجائے گا۔
کریلا:
فالج' لقوہ' ضعف باہ اور اعصابی کمزوری میں بے حد مفید ہے۔
مولی:
بواسیر' مثانہ میں پتھری' پیشاب لانے' کھانا ہضم کرنے اور حیض رک جانے میں مفید ہے۔ کمزور معدہ میں نقصان کا امکان ہے کیونکہ خود دیر میں ہضم ہوتی ہے۔
کدو:
مقوی باہ ہے۔ پیشاب لاتا ہے اور قبض دور کرتا ہے۔
شلغم:
خون پیدا کرنے کے ساتھ جسم کو فربہ کرتا ہے لیکن شکر کے مرض میں نقصان دہ ہے۔
پالک:
معدہ کی جلن اور جگر کی گرمی دور کرنے میں مدد کرتی ہے۔
آلو:
مقوی باہ اور مولد منی ہونے کے ساتھ مثانہ کو قوت دیتا ہے لیکن مٹاپے اور شکر کے مرض میں نقصان دہ ہے۔
زیتون کا تیل:
خون کا دبائو کم کرنے کے ساتھ شریانوں کی صفائی کرتا ہے۔ ہر طرح مفید ہے۔
لہسن آب حیات ہے:
قدرت نے انسانوں کو کھانے کے لیے لاتعداد نعمتیں عطا کی ہیں جو بہت سے امراض میں آب حیات کا کام کرتی ہیں۔ ان ہی میں لہسن کا شمار ہے۔ حفظان صحت کے اصولوں کا دشمن انسان' مختلف ذرائع سے اپنی بربادی کو خود دعوت دیتا ہے لیکن لہسن ہے کہ تنہا انہیں تندرستی سے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
مجھے لہسن پر قصیدہ خوانی کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ اس کے استعمال سے جہاں بے شمار امراض سے نجات ملتی ہے وہاں یہ جسم میں قدرتی طور پر موجود بیکٹریاز میں عدم توازن پیدا نہیں کرتا بلکہ ان بیکٹریاز کو جو ہمارے لیے مفید ہیں اور ہاضمہ کو درست رکھتے ہیں ان کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے اور جو مضر اور بیماری پیدا کرسکتے ہیں ان بیکٹریاز کو ختم کرتا ہے۔ اس طرح سمی اثرات سے جسم محفوظ ہوجاتا ہے۔ بیکٹریاز پر تجربات شاہد ہیں کہ لہسن کے رس نے انہیں دس منٹ میں ختم کردیا جبکہ معاون بیکٹریاز کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں قدرتی اینٹی بائیوٹک اجزاءموجود ہیں اور انسان دیگر اینٹی بائیوٹک کی گستاخانہ حرکات سے محفوظ رہ سکتا ہے جب تک کہ کوئی مایوس کن علامات ان کو دعوت نہ دیں۔
لہسن گزشتہ پانچ ہزار سال سے مختلف امراض میں بطور دوا استعمال ہورہا ہے۔ یہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک چھوٹے جوے والا جو اکثر استعمال ہوتا ہے' دوسرا پہاڑی لہسن جو پیاز کی شکل کا ہوتا ہے اور جس میں پھانکیں نہیں ہوتیں' لیکن اثرات زیادہ تیز ہیں۔ لہسن کو عربی میں فوم' فارسی میں سیسر' انگریزی میں گارلک روٹ اور پنجابی و سندھی میں تھوم کہتے ہیں۔ ایک مصری دستاویز کے حوالے سے 1550 سال قبل مسیح لہسن سے بائیس امراض کی دوائیں تیار ہوئیں۔ روس کے ماہر علم طبیعیات
پائن دی ایلڈر" نے اسے 66 قسم کے امراض کا علاج تحریر کیا ہے۔ امریکہ کے ڈاکٹر "جی لی چانک" اور "مارگریٹ جانسن" مینسیوٹا یونیورسٹی میں ریسرچ کیمسٹوں' بھارت کے ٹیگور میڈکل کالج کے ڈاکٹر " آرون" کے علاوہ چین اور جاپان میں بیشتر ڈاکٹروں نے لہسن کو بیماریوں کا علاج دہندہ قرار دیا ہے۔ دنیائے طب کے بابا ہیپو قراطیس (بقراط) نے ڈھائی ہزار سال قبل مسیح لہسن کو قبض کشا کہنے کی ساتھ روز مرہ کی دوا قرار دیا تھا۔ پیغمبر اسلام محمد مصطفی نے جہاں بہت سے امراض کا علاج بتلایا تھا وہاں بچھو کے کاٹنے پر لہسن کا پانی استعمال کرنے کی ہدایت کی تھی۔
لہسن سے جن امراض میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ان کی فہرست طویل ہے لیکن جن امراض سے نجات ملنے کے ثبوت فراہم کیے گئے ہیں ان میں صدیوں سے خون صاف کرنے کے علاوہ سردی اور دائمی نزلہ و زکام سے محفوظ رکھنے کے لیے اسے استعمال کیا گیا۔ دمہ' کھانسی' امراض تنفیس'آنتوں کی بیماریاں' امراض جلد' ہائی بلڈ پریشر' فالج' لقوہ' رعشہ' نسیان' بہرا پن' کینسر اور ذیابیطس سے محافظت' درد سر' گلے کی گلٹھی'آواز بیٹھنا' مرگی' تپ دق' کولیسٹرول کی سطح نیچی رکھنا جیسے بے شمار امراض ٹھیک کرنے کی صلاحیت لہسن میں موجود ہے۔ انڈیانا یونیورسٹی کے ڈاکٹر "مائیکل ٹیسنے" کا کہنا ہے کہ لہسن سے مختلف پھپھوند کی پیدائش کو بھی روکا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لہسن آپ کو معالج اور دوائوں کے کثیر اخراجات سے بھی بچا سکتا ہے۔
لہسن کی بدبو دور کرنے کے لیے اجوائین چبائی جاسکتی ہے۔ مختصر یہ کہ لہسن اپنی غذا میں شامل رکھیں اور اس کے کمالات دیکھ کر خدا کے عطیات کے شکر گزار ہوں۔ لیکن لہسن کے ساتھ ہومیوپیتھک دوا نہ استعمال کریں۔اگر کسی مرض کے لیے دوا استعمال کرنا ہو تو دو گھنٹہ کا وقفہ ضروری ہے۔ ویسے بھی لہسن کا ایک جوا روز ناشتہ کے بعد لے لینا کافی ہے۔
پینے سے متعلق اشیائ:
آپ نے کھانے سے متعلق طویل فہرست دیکھی اب غذا کے ساتھ پانی کے متعلق حقائق جان لیں تو صحت کی طرف سے مطمئن ہوجائیں گے۔
سادہ اور خالص پانی:
جیسا پہلے ذکر آچکا ہے کہ روز سات آٹھ گلاس پانی ضرور پینا چاہئے لیکن صبح نہار منہ ایک گلاس روزانہ پانی پینے سے قبض دور ہوگا۔ خالص پانی میں شبہ ہو تو ابال کر پینا چاہئے۔ آپ ٹھنڈا پانی پینے پر مصر ہیں تو تھوڑا ٹھنڈا یا تھوڑی برف کے استعمال میں تو نقصان کا احتمال نہیں لیکن زیادہ ٹھنڈا اور زیادہ برف نقصان دہ ہے خصوصاً زکام اور گلے کے امراض میں تو سختی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ زیادہ ٹھنڈا اور وہ بھی عجلت میں پانی پینا معدہ کی جھلی کو نقصان پہنچاتا ہے جس سے ہاضمہ کا عرق بھی متاثر ہوسکتا ہے۔
پھلوں کا عرق:
ضرور پینا چاہئے بے حد مفید ہے۔
دہی:
ایک کپ دہی روز پینے سے نہ صرف یہ کہ ایسے پروٹینز نشوونما پاتے ہیں جو مہلک وائرس کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ آنتوں کے کینسر سے بھی محفوظ رہنے کا قوی امکان ہے۔ دہی پر تحقیق سے پتا چلا کہ یہ پھیپڑوں کے آکلہ سے بھی بچائے رکھتا ہے۔
کافی:
یہ اس دور کی ایسی گرم مشروب ہے کہ دنیا کے اکثر خطوں میں یہ جانتے ہوئے کہ نقصان بھی دے سکتی ہے' بے حد مقبول ہے۔ دن بھر میں ایک یا دو کپ سے سرور تو حاصل ہوسکتا ہے لیکن زیادہ پینے سے مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ اس میں جس قدر کیفین پائی جاتی ہے اس میں طبی کتب کے حوالے سے زہر بھی ہے۔ "اسی (80) سے ایک سو پیالی کافی میں جو کیفین ہوتی ہے اگر اسے ایک خوراک میں استعمال کیا جائے تو مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔" کافی پینے سے دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے جس سے دل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بلڈ پریشر کم ہوجائے تو ایک پیالی کافی پینے سے آرام آجاتا ہے۔
چائے
: جن پتیوں سے چائے بنتی ہے اس میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کیفین اور تھیوفائلین کی دوائوں جیسے اثرات ہیں جو تحریک پیدا کرنے والی دوائیں ہیں۔ تھیوفلین (Asthma)کے لیے اور کیفین دماغ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ چائے کا اثر دل و دماغ دونوں پر ہوسکتا ہے لیکن کم پینے سے اور دودھ ملا دینے سے منفی اثرات ختم نہ ہوں تو کم ضرور ہوجاتے ہیں اس لیے سرور کے لیے آپ ایک پیالی صبح ایک شام پی سکتے ہیں۔ زیادتی ہر چیز کی بری ہوتی ہے۔
کاربونیٹیڈ مشروب:۔
میرا بس چلے تو میں اس مشروب کا تیار کرنا ہی قانوناً ممنوع قرار دے دوں۔ اس کے تیار کرنے میں جو بنیادی چیز ہے وہ ایک درخت کولا نیٹیڈا (Colanitida)استعمال ہوتا ہے اس میں تقریباً دو فی صد کیفین ہوتی ہے۔ کیفین کے علاوہ ان مشروبات میں کاربن کے مرکب کا پانی' شکر (یا اس کا نعم البدل)' غیر فطری یا مصنوعی مزہ اور رنگ ہوتا ہے۔ ایسے مشروب جسم کی توانائی کا کیا حشر کریں گے یہ آپ خود سوچیں۔ میٹھا مشروب ہی پینا چاہتے ہیں تو لیموں کا شربت بنا کر پئیں یا پھلوں کا جوس پئیں۔
دودھ:
اس سے بہتر توانائی بخشنے والی کوئی چیز نہیں جس سے پیاس بجھنے کے علاوہ جسم کی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔
بچوں کی غذا:۔
آج کل کے رجحان میں ماہرین امراض طفلاں چار ماہ کے بچوں میں چاول کی کھیر سے ٹھوس غذا کی ابتدا کرتے ہیں۔ پھر پانچ ماہ سے سات ماہ کی عمر تک پھل' سبزیاں اور آخر میں گوشت دینے کی ہدایت کرتے ہیں۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ زیادہ عرصہ تک صرف دودھ پر نہ رکھا جائے تاکہ خون میں فولاد کی کمی نہ ہو۔ میری سمجھ میں بہرحال یہ منطق نہیں آئی۔ آج زیادہ تر مائیں یہ شکایت کرتی دیکھی گئی ہیں کہ بچہ نہ کچھ کھاتا ہے نہ دودھ پیتا ہے۔ زبردستی کی جائے تو پیٹ خراب ہوجاتا ہے۔ دراصل یہ وہ بچے ہوتے ہیں جنہیں ابتدا ہی میں تین چار ماہ سے نمک دے دیا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں سات ماہ تک صرف ماں کا دودھ دیا جاتا تھا اور آٹھ ماہ پر بڑی دھوم دھام سے نمک چشی کی رسم ادا کی جاتی تھی۔ آج کل اکثر و بیشتر بچے مصنوعی دودھ کے ڈبوں کا دودھ پی کر اور ابتداءہی سے نمک کھا کر بیماریوں کا شکار رہتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ساٹھ ستر کی دہائی میں امریکا اور یورپ میں ڈبہ کا دودھ کثرت سے استعمال ہوتا تھا لیکن اب یہ ترقی یافتہ دنیا ایک مرتبہ پھر ماں کا دودھ پلانے کے رجحان کی طرف واپس آگئی ہے' جبکہ تیسری دنیا کی مائیں پرانا چلن چھوڑ کر ڈبہ کے دودھ کی طرف مائل ہیں جس سے بچہ نہ صرف اچھی غذا سے محروم رہتا ہے بلکہ پیسوں کی بھی بربادی ہے۔
نئی ریسرچ کے مطابق ماں کا دودھ پینے والے بچے بہتر صلاحیت کے حامل دیکھے گئے ہیں اور ان کے جسم کے مدافعتی نظام میں بہتری پائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ماں اور بچے کی قربت سے بچے کے ذہن پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماں کا دودھ نہ صرف مکمل غذا ہے بلکہ ڈبوں کے دودھ کے مقابلے میں انفیکشن سے پاک ہوتا ہے۔ اس لیے بچوں کی سات ماہ تک اصل غذا صرف ماں کا دودھ ہونا چاہئے اس کے بعد نمک دینا بہتر ہے۔ مائوں میں دودھ کی کمی ہوتو ہومیوپیتھک دوائوں کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔
نوٹ:
میں نے پینے کی چیزوں میں کافی اور کاربونیٹیڈ مشروب پر سختی سے احتیاط کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس میں کیفین ہوتی ہے جس کی زیادہ مقدار جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔ امریکن Dieting Associationنے جو اعداد و شمار عوام کی اطلاع کے لیے شائع کئے ہیں۔ انہیں پڑھیے اور پھر فیصلہ خود کیجئے۔
"کیفین ساری دنیا میں انسان غذا میں سالہا سال سے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چیز ہے۔ یہ کافی' چائے' اور کوکا کے قدرتی پودوں میں پائی جاتی ہے اور پینے کی اشیاءاور دوائوں میں شامل کی جاتی ہے جس کی تفصیل اس طرح ہے۔"
١۔ کافی (پانچ اونس فلوئڈ) اوسط ملی گرام
پانچ آئونس 137
٢۔ چائے (پانچ سے چھ آئونس فلوئڈ(
سیاہ امپورٹڈ ۔ چھ آئونس فلوئڈ 65
٣۔ مشروب (بارہ آئونس فلوئڈ(
کولا مشروب 36 سے 45
٤۔ چاکلیٹ
ایک آئونس کیک وغیرہ میں 25
ٹافی بادامی (ایک آئونس) 20
٥۔ بغیر نسخوں کے ایلوپیتھک ادویات
وزن کم کرنے والے 168
چاق و چوبند رکھنے والی گولیاں 150
درد دور کرنے والی گولیاں 41
زکام' الرجی دور کرنے والی ادویات27
اس طرح آپ خود فیصلہ کریں کہ زیادہ کیفین پینے سے کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں۔ ان میں جن تکالیف سے واسطہ پڑ سکتا ہے وہ الجھن و پریشان' بے خوابی' سر درد' پیٹ کی جلن' اور دل کی دھڑکن و بے اعتدالی ہیں جو مختلف افراد میں ان کی اپنی برداشت سے مختلف ہوسکتی ہے۔ "اوسطاً کیفین کا استعمال پچاس سے دو سو ملی گرام چوبیس گھنٹہ میں (دو چھوٹے کپ کافی کے) جو ایک تندرست صحت مند فرد بغیر کسی نقصان کے کر سکتا ہے۔" اس سے زیادہ کیفین استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیں۔
وٹامن Vitamins
:۔ جسمانی صحت برقرار رکھنے کے لیے اس وقت تک کئی وٹامنز کو دریافت کیا جاچکا ہے جس کا استعمال ضروری سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جن وٹامنز کی اکثر و بیشتر ضرورت پڑتی ہے وہ A, B, C, Dاور Eہیں۔ پھلوں' سبزیوں' دودھ' مکھن اور مچھلی کے تیل میں ان کی خاصی مقدار ہوتی ہے لیکن کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ الگ سے بھی حسب ضرورت لیے جاسکتے ہیں۔
Vitamin A:۔
کی ضرورت نشوونما کی کمی اور نظر وغیر کی کمزوری میں ہوتی ہے جو مکھن'آم' گاجر اور مچھلی کا تیل استعمال کرنے سے پوری ہوجاتی ہے۔
Vitamin B:۔
ذہنی کمزوری اور ہاضمہ کی خرابی میں دینا ضروری ہے۔ پھل' دودھ' مونگ پھلی اور تازہ گوشت سے یہ کمی پوری ہوجاتی ہے۔
Vitamin C:۔
دانت اور دیگر کمزوریوں میں ضرور استعمال کرنا چاہئے۔ سبزیاں اور تازہ پھل بے حد مفید ہیں۔
Vitamin D:۔
ہڈیوں کی تکالیف میں اس کی کمی کو ترکاریوں کے استعمال اور دھوپ میں بیٹھنے سے دور کیا جاسکتا ہے۔
Vitamin E:۔
باہ کی کمی دور کرنے میں اسے دودھ اور پھلوں کے استعمال سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ایک عام انسان کو جو متوازن غذا استعمال کرتا ہے' کسی وٹامن کو الگ سے لینے کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ جان لینا ضروری ہے کہ وٹامن کی زائد مقدار لینا نقصان دہ بھی ہے۔ ویسے بھی وٹامن کے حصول کے لیے جب قدرتی ذرائع موجود ہیں تو مصنوعی ذرائع کی کیا ضرورت ہے۔
 
Top