• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سر زمین حجاز میں اسلامی آثار کو شدید خطرہ

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
سر زمین حجاز میں اسلامی آثار کو شدید خطرہ​

ریاض ۱۲ مئی : ابنا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کےمطا بق ویسے تو مکہ مدینہ میں اسلامی تہذیب کے تمام آثار وہاں کی حکومت کے ہاتھوں تباہ ہوچکے ہیں لیکن اب سر زمین حجاز میں ان آثار کا صفایا کرنے کے کام کو تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔گویا سعودی حکمراں اس مہم کو سر کرنے میں کسی معاہدے پر عمل کر رہے ہیں جس کی مدت پوری ہونے والی ہے ۔رپورٹ کے مطابق سر زمین حجاز میں اسلامی آثار قدیمہ کا ۹۵ فیصد حصہ مٹادیاگیا ہے ۔سر زمین مکہ معظمہ میں برطانوی ’’ماسوینوںنورمن فوسٹر ‘‘اور’’ زباحدید‘‘ کے ہاتھوں بیت الحرام کے توسیعی منصوبے پر عمل ہورہا ہے ۔جنہوں نے اسلامی آثار کے ویرانوں پر شیطانی علامتوں سے بھرپور لمبی چوڑی عمارتیں تعمیر کی ہیں ، اور یہ منصوبہ ہوٹلوں اور عمارتوں کے تعمیر کے دوسرے مرحلہ کے ساتھ مل کر مکہ معظمہ کو، مغربی انداز کے شہر میں تبدیل کرنے کی ایک کوشش ہے جبکہ توسیعی منصوبے کے بہانے سعودی حکمراں مکہ اور مدینہ سمیت حجاز کے تمام شہروں اور دشت و کوہ و صحرا میں اسلامی آثار کومٹانے میں مصروف ہے ۔اطلاعات کے مطابق،آل سعود نے اس سال حج کے اعمال کے خاتمہ کے بعد مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد ایک عظیم توسیعی منصوبے کے لیے تحقیق و مطالعہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہےجس کے بہانے مسجد الحرام اور اس کے اطراف میں موجود اسلامی آثار کو مٹانے کا منصوبہ ہے ۔کہا جارہا ہےکی اس منصوبے کے بہانے دنیا کی سب سے بڑی عمارت تیار کی جائے گی جس میں ۱۶ لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہوگی ۔اطلاعات کے مطابق اسلام کے تاریخی آثار کے مدافعین اور حجاز کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے ہر سعودی منصوبے پر شدید احتجاج کیاہے ۔اور ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبہ کے ذریعہ باقی ماندہ اسلامی آثار بھی نیست نابود ہوجائیں گے۔انڈیپنڈنٹ نے لکھا ہے کہ سعودی حکمران بعض مقامات کو منہدم کرنے کے لیے بلڈوزروں سمیت بھاری مشینری کا ستعمال کررہے ہیں ۔اس حوالہ سے حال ہی میں برطانوی اخبار انڈیپنڈیٹ نے واشنگٹن کے خلیج فارس اسٹڈیز کے حوالے سے لکھا ہے کہ آل سعود نے گزشتہ بیس سال کے عرصہ میں مکہ مدینہ کے ۹۵ فیصد آثار کو تباہ کردیا ہے جن کی عمر ایک ہزار سال سے زائد تھی ۔اور یہ کہ لندن میں سعودی سفارتخانہ ا ور سعودی وزارات خارجہ نے ابھی تک اس سلسلہ میںپوچھے جانے والے کسی بھی سوال کاجواب نہیں دیا ہے مصری قانون داں ،سعودی حکمراں اسلامی تاریخ وتمدن کو مٹا رہے ہیں روضہ اقدس کو خطرہ ،بلاد الحرمین میں اسلام کےقدیم تہذیبی ،و مقدس آثار و مقامات کے انہدام کا سلسلہ جو سعودی حکمرانوں کے آغاز سے ہی جاری ہوچکا تھا ۔اس وقت حساس ترین دور میں داخل ہوچکا ہے۔او راگر یہ سلسلہ اسی رفتار سے جاری رہاتو چند سال بعد ان آثار و مقامات کے بارے میں ہمیں معلومات حاصل کرنے کے لیے تاریخ کی کتابوں سے رجوع کرناپڑیگا ۔اطلاعات کے مطابق مصری قانون داں ’’منصور عبدالغفار ‘‘نے کہا ہے قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ممکنہ انہدام کو سعودی منصوبہ در حقیقت اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام آثار ،نشانیاں اور افتخار و عظمت سے بھر پور اسلامی تاریخ کو مسلمانان عالم بالخصوص نوجوان نسل کے ذہنوں سے مٹا نے کا نہایت خطرناک منصوبہ ہے انہوں نے کہا ہے قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دست درازی عظیم ترین گناہ میں شمار ہوتاہے اور کوئی بھی قانون اسلامی عمارتوں اورآثار بالخصوص قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ،منصور عبدالغفار نے کہا کہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کے انہدام کا سلسلہ جاری رہنے کی صورت میں آنے والی نسل اسلام کی تاریخ وتہذیب کے ان آثار کو دیکھنے سے محروم ہوجائیں گی،تحقیقات کے مطابق آل سعود نے توسیعی منصوبے کے بہانے اس شہر کی تین مساجد کو گرانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
(اخبار مشرق: ۱۳مئی ۲۰۱۳؁ء بروز پیر)
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
مٖفتی صاحب اس بات پر بڑی حیرانگی ہے کہ کیا سعودیہ میں علما نہیں،اگر ہیں تو بولتے کیوں نہیں،میرے خیال اصل کمزوری یہی ہے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
مٖفتی صاحب اس بات پر بڑی حیرانگی ہے کہ کیا سعودیہ میں علما نہیں،اگر ہیں تو بولتے کیوں نہیں،میرے خیال اصل کمزوری یہی ہے۔
کیا اسلام اور اسلامی آثار کی رکھوالے کا ٹھیکہ صرف علماء کے پاس ہے؟ ۔۔ اور وہ بھی خاص ملک کے؟۔۔۔۔۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
نھایت سنسنی خیز و معلوماتی پوسٹ ھے، بلکہ بریکنگ نیوز ھے۔۔۔ اس پوسٹ پر مختصراَ تبصرہ تین الفاظ میں ھو سکتا ھے " بریلوی شیعہ پروپیگینڈہ" :) ابتسامہ
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
مفتی صاحب نے اس مراسلے کے ذریئے اپنا نٖقطہ نظر واضع کیا ھے

یا شکوک و شبہات کا اظہار کیا ھے یا پھر اس خبر کو مخض خبر کے

طور پر شئیر کیا ھے۔

اس خبر رساں ادارے نے اس پوری کہانی میں کہیں بھی ان آثارات کا

نام ظاہر نہیں کیا جن کو مٹایا جا رہا ھے۔

حرمین شریفین کا توسیع منصوبہ حجاج اور معتمرین کے لیے ھے نہ کہ

آلِ سعود کے بیٹھنے کے لئے۔

حرم مکی شریف کے توسیع منصوبے میں ارد گرد کی لوگوں کی عمارات

اور ہوٹلز کے مالکان کو باقاعدہ ادائیگی کرنے بعد گرایا گیا ھے۔

اس توسعی منصوبے کے متعلق ان معتمرین سے پوچھا جاسکتا ھے

کہ اس سے حرم شریف میں آنے والوں کو کتنا آرام ھے اور ہو گا۔
 
Top