پہلے تو آپ کا کہنا کچھ اور تھا اور آپ کے الفاظ یہ تھے۔ ’۔ ٹھیک ہے ، الدولۃ الاسلامیہ کے باشندے نہیں ، لیکن ایک غیر اسلامی ملک کی طرف نسبت کا اظہار کرنا کون سا دین اسلام سے محبت کا طریقہ ہے ؟!’
لیکن اب آپ نے اپنی بات کو بدلا ہے۔ اچھی بات ہے۔
میں نے یہ بات آپ سے کہی تھی ، اور آپ کی شخصیت اور طرز استدلال کو مد نظر رکھتے ہوئے ۔
نسبت غیر مسلم ملک کی طرف کی جا سکتی ہے۔ آپ کو صحابہ ؓ کی مثال بھی دی تھی۔ اور آپ مان بھی گئے ہیں۔ الحمدللہ۔
جی میں تو مان گیا ، لیکن آپ بھی مان جائیں ، کہ پہچان کی خاطر کوئی بھی نسبت یا نام استعمال کیا جاسکتا ہے جو اسلام کی عمومی تعلیمات کے خلاف نہ ہو ۔
پہچان کے لیے آپ کی نسبت ایک غیر اسلامی ملک کی طرف بھی ہو تو جائز ہے ، لیکن اسی پہچان کے لیے اگر کوئی اپنے ملک کا نام اپنے یا اپنے کسی بڑے کے نام پر رکھ لے تو آپ ’’ الدولۃ الاسلامیۃ ‘‘ رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں ، یہ تضاد کیوں ؟ حالانکہ آپ کی نسبت تو آپ کا شخصی معاملہ ہے ، جبکہ ایک پورے ملک کا نام رکھنے میں بہت ساری چیزیں مد نظر رکھنا پڑتی ہیں ۔
میں ایک حبشی ہوں اور میں ایک غلام تھا اور ایک غلام ہوں، اللہ کا غلام۔
اگر یہ بات ان سے ثابت ہے تو اس میں نسبت نہیں ، بلکہ زیادہ سے زیادہ اپنے بارے میں حقیقت حال سے آگاہ کیا ہے ، کہ میں حبشی ہوا کرتا تھا ، لیکن پھر الدولۃ الاسلامیہ کی طرف ہجرت کرکے اللہ کا غلام بن گیا ، آپ کم از کم اس پر ہی عمل کر لیں ، الدولۃ الاسلامیہ میں چلے جائیں ، وہاں جاکر لوگوں کو بتائیں کہ میں اصلا ہندی ہوں ، لیکن اللہ کا احسان ہوا کہ الدولۃ الاسلامیہ میں شامل ہوا ۔ یوں ایک غیر اسلامی نسبت کو لاحقہ بنا کر الدولۃ الاسلامیہ والی باتیں کرنا ، آپ کے کردار و گفتار میں تضاد کا پتہ دیتا ہے ۔
جی دولۃ الاسلامیہ کی موجودگی میں بھی ہندوستان کی طرف نسبت ہو سکتی ہے۔ مثال دے دی تھی۔ اور دوسری بات کہ اگر ہندوستان غیر مسلم ملک ہے تو وہاں پر مسلمانوں کا رہنا درست نہیں اور اُن کو کسی قریب کے مسلمان ملک میں ہجرت کر لینی چاہیے لیکن وہ کہاں ہجرت کریں۔ قریب تو پاکستان ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں پہلے ہی بہت سے بنگالی اور برما کے لوگ رہتے ہیں۔ اور اُس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ۔ تو اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی آپ کے اسلامی ملک میں آ جائیں تو آپ کہاں جائیں گے؟
آپ الدولۃ الاسلامیہ میں جائیں ۔ اور ساتھ اہل بنگال اور برما کو بھی لے جائیں ۔