• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سعودی عرب کی حمایت کیوں؟

شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
تحریر: جناب رانا شفیق خاں پسروری

پاکستان کے سیاسی و عسکری رہنماؤں نے بیک زبان سعودی عرب کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے تمام وسائل مہیا کرنے کا پُرزور عندیہ دیا ہے۔ اس پر پاکستان کی غالب ترین اکثریت نے خوشی کا اظہار کیا ہے، حتیٰ کہ حکومتی پارٹی کے ساتھ ساتھ بڑی اپوزیشن پارٹی نے بھی اس حکومتی اعلان و اقدام کو سراہا ہے، جبکہ بعض افراد اور مخصوص پس منظر رکھنے والے طبقے کی طرف سے منفی تاثرات ابھارے جا رہے ہیں۔ جو افراد سعودی عرب کی مکمل حمایت کے حکومتی اعلان پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں وہ کھل کر سعودی عرب کی مخالفت کرنے کی بجائے،اس کو دوسرے ممالک میں مداخلت کہہ کر اس کے خطرناک اثرات کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ لڑائی سعودی عرب اور یمن کے درمیان نہیں ہو رہی، بلکہ جن باغیوں پر سعودی عرب (تنگ آ کر) حملہ آور ہوا ہے۔ وہ باغی، حکومت یمن کے بھی دشمن ہیں اور ان کی حیثیت تقریباً وہی ہے جو پاکستان میں موجود ان مسلح گروہوں کی ہے جو پاکستان میں تخریب کار اور دہشت گرد قرار دیئے جاتے ہیں۔ یمن کے ان باغیوں کے علاوہ یمنی عوام کی اکثریت نے تو سعودی اقدامات کی نہ صرف تحسین کی ہے بلکہ انہیں نجات کا باعث قرار دیا ہے۔ یمن کے حوثی قبائل کسی فرقے یا مسلک کی شناخت کی بجائے اپنے قبائل کے نام سے سامنے آئے ہیں۔ یہ اسی طرح کے باغی ہیں جس طرح کے باغی سری لنکا میں تامل ٹائیگرز تھے۔

پاکستان کے وہ افراد بہت زیادتی کر رہے ہیں جو اس بغاوت کو شیعہ بغاوت کا نام دے کر سعودی عرب کے خلاف ذہن بنانے کی خاطر، اس کو شیعہ سنی لڑائی بنانے پر تُلے ہیں اور پاکستان میں (سعودیہ کی حمایت کے جواب میں) ایران کی مداخلت کا خدشہ ابھار رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی عقل و فہم کو کیا ہوا ہے؟وہ کیوں پاکستان میں فرقہ ورانہ فسادات کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ مُلک کے باغیوں کو فرقہ واریت کا لبادہ پہنانا ضروری جانتے ہیں؟ انہیں طالبان کی دہشت گردی کے خلاف پاکستانی افواج کے اقدامات کے وقت ان طالبان کے مسلک کی وابستگی کا ذکر تو یاد نہ رہا کہ باغی کی بغاوت اور دہشت گرد کی دہشت گردی کو دیکھا جاتا ہے، فقہی وابستگی کو نہیں! یمن کے حوثی قبائل سے تعلق رکھنے والے سارے افراد شیعہ نہیں کہلاتے اور جو ہیں وہ بھی ہمارے شیعہ احباب کے مسلک اور فقہی وابستگی سے بہت الگ اور بہت دور ہیں۔ حوثی قبائل کے اکثر لوگ انہی قرامطہ کی اولاد ہیں جنہوں نے عباسی حکمران مکنفیٰ باللہ کے دور317 ہجری میں بیت اللہ (خانہ کعبہ) پر حملہ کر کے بیت اللہ کے دروازے اکھاڑ لیے، غلاف کعبہ اور حجر اسود چوری کر کے یمن لے گئے تھے (جنہیں بعد ازاں واپس لا کر بیت اللہ میں نصب کیا گیا تھا) یمن میں شیعہ کہلانے والوں کی اکثریت زیدی شیعہ ہے، جن کا ہمارے اور ایران کے اثنا عشری شیعہ سے بہت زیادہ اختلاف ہے، بلکہ زیدی شیعہ تو سنی مسالک کے زیادہ قریب ہیں۔ یمن میں شیعہ سنی کا کوئی جھگڑا نہیں، یہ معاملہ خالصتاً یمن کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سعودی عرب اور بالخصوص حجاز مقدس پر تسلط کا معاملہ ہے(اور کچھ نہیں!)

سعودی عرب صرف ایک عام ملک یا پاکستان کا دوست مُلک ہی نہیں، دُنیا بھر کے مسلمانوں کی مقدس سرزمین بھی ہے۔ حجاز مقدس کی یہ مقدس دھرتی،مسلمانوں کے لئے مرکزِ ایمان اور محور عقیدت و محبت بھی ہے، کوئی گیا گزرا مسلمان بھی ایسا نہ ہو گا جو مکہ و مدینہ کی حرمت و تحفظ پر اپنا سب کچھ قربان کرنا اپنے لئے باعثِ فخر نہ جانتا ہو۔ مکہ و مدینہ کی زیارت تو ہر ایک مسلمان کے لئے دُنیا کی سب سے عظیم سعادت ہے، جنہوں نے زیارت نہیں کی وہ زیارت کے لئے ترستے رہتے ہیں اور جو کر چکے ہیں وہ پھر زیارت کرنے کو تڑپتے رہتے ہیں۔ حجاز مقدس کی گلیوں کی خاک آنکھوں کا سرمہ، کوئی اس مقدس سرزمین کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے، ہم کبھی گوارا نہیں کر سکتے۔۔۔ معاملہ صرف ارضِ مقدس کے تقدس و حرمت اور اس کے تحفظ تک ہی محدود نہیں، معاملہ تو یہ بھی ہے کہ سعودی عرب تنہائی کے اس دور میں پاکستان کا مخلص ترین اور بے لوث دوست، محب اور سب سے بڑا معاون مُلک ہے۔ پاکستانی مُلک و قوم کے ہر کڑے اور مشکل وقت میں سعودی عرب نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب کے حکمران پاکستان کو ہمیشہ اپنا دوسرا گھر کہتے اور امداد و اعانت سے ثابت کرتے رہے ہیں، جب بھی پاکستان پر کوئی ارضی و سماوی آفت آئی،سعودی عرب کے حکمران اور شہری اپنا دل اور باہیں کھول کر آگے بڑھے اور ہمارے دُکھوں کو سُکھوں کے جلوے سے ہمکنار کر دیا۔ پاکستان 1971ء میں دو لخت ہوا تو سعودی عرب کا بوڑھا حکمران (شاہ فیصل شہیدؒ) بچوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر روتا رہا کہ آج اسلام کا قلعہ دو لخت ہو گیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے تو استعماری طاقتوں اور دُنیا کے ممالک نے پاکستان پر پابندیاں لگا دیں، سعودی عرب نے کہا تھا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہمارے خزانوں کے مُنہ پاکستان کے لئے کھلے ہیں ۔ 30لاکھ افغان مجاہدین کا بوجھ ہو یا دُنیا کی مہنگی ترین سیاچن گلیشیر کی لڑائی کا خرچ،ایف 16طیاروں کی قیمت ہو یا کہوٹہ پلانٹ کے معاملات‘ محصور پاکستانیوں کی آباد کاری سے لے کر موجودہ دور میں ڈالر کی قیمت گرانے کی خاطرخطیر رقم کی فراہمی یا عرصہ دراز تک مفت تیل کی سپلائی ،سعودی عرب نے ہر ہر معاملے اور ہر ہر مرحلہ پر پاکستان اور پاکستانیوں کی بے لوث اور بھر پور امداد و اعانت کرکے اپنی محبت اور مخلصانہ دوستی کا مظاہرہ کیا ہے۔

سعودی عرب اور حجاز مقدس پر بری نظر رکھنے والے یمن کے راستے ،تخریب کار ی اور دہشت گردانہ کارروائیوں کو بڑھا رہے تھے اور بڑھکیں مار رہے تھے کہ ہم مکہ و مدینہ پر قبضہ کر کے چھوڑیں گے۔ ایسے میں سعودی عرب نے اپنی سلامتی اور حرمین شریفین کے تحفظ کی خاطر،اپنے دشمنوں اور اپنے پڑوسی ملک یمن کے باغیوں کے خلاف ( دیگر عرب ممالک کے اتحاد سے ) کارروائی کی ہے اور پاکستان کی طرف بھی نگا ہ اُٹھا کر دیکھا ہے تو پاکستان کو آ گے بڑھ کر اپنے مخلص و معاون دوست کے کندھے کے ساتھ کندھا ضرور ملانا چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے بہت خوب اور بر موقع فیصلہ کیا،سعودی عرب کاساتھ دینے کا فیصلہ ہر طرح اور ہر لحاظ سے قابل تحسین اور بہترین ہے۔ یہ فیصلہ حب الوطنی کا بھی مظہر ہے اور حجاز مقدس کی محبت سے بھرپور بھی ہے ۔ خدانخواستہ اگر مشکل وقت میں آ ج پاکستان سعودی عر ب سے الگ رہتا تو انہیں فرق نہ پڑتا البتہ ہمارا مخلص دوست بھی ناراض ہو جاتا اور پھر (خدانخواستہ) کسی مشکل مرحلے میں ہم کس کی دوستی کے منتظر رہتے ؟ ... (بشکریہ روزنامہ پاکستان 1/4/2015)
 
Top