• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سعیدی چکر کا نتیجہ کہاں تک پہنچےگا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سعیدی چکر کا نتیجہ کہاں تک پہنچےگا

یہ تو واضح ہے کہ حدیث من تشبہ بقوم الخ صحیح حدیث ہے اور اس کا مفہوم بھی واضح ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ مسلمان آدمی جو جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی متابعت مشابہت میں کرتا ہے وہ سچا پکا مسلمان ہے اس صورت میں اس کی مشابہت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے ساتھ ہو گی۔ بھلے غیر مسلم بھی وہ عمل کرتے ہوں ایسے مسلمان کی مشابہت غیر مسلموں کے ساتھ نہیں ہو گی اور نہ سمجھی جائے گی۔

جو چکر سعیدی صاحب نے دیا ہے اور جو فکر سعیدی صاحب نے پیش کی ہے اس سے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام بھی نہیں بچ سکتے کیونکہ ان چھ سوالوں میں مذکورہ مسائل میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے اصحاب بھی اہل کتاب یہودونصاریٰ کی مشابہت والے بن گئے۔ تف ہے ایسے کے تیسے مفتی بریلوی پر۔

سعیدی دعوت فکر: وہابیو، دیوبندیو، اہلحدیثو اور جشن عید میلاد کے دشمنو! اب ضد چھوڑ دو اور اپنے بڑوں کے فتوؤں کی لاج رکھ لو یعنی جشن میلاد شریف کو خوش ہو کر مناؤ اور اس کی دھوم ڈال کر دنیا پر ثابت کر دو کہ ہم حبیب خدا رحمۃ للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے غلام اور ان کے نام پر فدا ہونے والے خدام اور ان کے ناموس کے رکھوالے بے دام ہیں۔ بچوں کی سالگرہ کو جائز کہنے والو، کائنات کے سردار کا یوم پیدائش بھی جائز مانو، بلکہ اسے مناؤ (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۱۴)

محمدی دعوت فکر: بجواب سعیدی دعوت فکر، اے بریلویو، اے غوثویو، اے گولڑویو! اے سعیدیو! اے رضا خانیو، میلادیو، بدعتیو اور سنت کے دشمنو، بدعت کے متوالو اب ضد چھوڑ دو، اپنے بڑوں کی سنتوں، طریقوں، اتباع سنت کے اعلانوں ، اقوالوں کی لاج رکھ لو اگر ان کو اپنا بڑا سمجھتے ہو (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام تابعین عظام ائمہ اربعہ شیخ عبد القادر جیلانی کو) تو سنتوں پر عمل کرو ، بدعتوں کو چھوڑ دو، اور سنت پر عمل کی دھوم مچا دو، دنیا والوں کو بتا دو کہ ہم پکے سنی بن گئے ہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے تابعدار بن گئے ہیں اور آپ کے غلام، آپ کے نام پر آپ کے کام پر فدا ہونے والے خدام اور ناموس رسالت کے رکھوالے بے دام ہیں کیونکہ ان سب نے سنت پر عمل کرنے اور بدعت کے ترک کرنے کا حکم دیا ہے۔ گیارھویں کی کھیر کھانے والو، گیارھویں والے کی بات بھی مانو، وہ تو فرماتے ہیں سنت پر عمل کرو، بدعتیں نہ نکالو، ورنہ تم صرف نام کے غوثوی ہوں گے کھیر کھانے والے چوری کھانے والے مجنوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بچوں کی سالگرہ منانا بھی بدعت ہے

نوٹ: جیسے ہم میلاد کو بدعت جانتے ہیں اور اس کو نہیں مناتے اسی طرح ہم سالگرہ کو بھی نیکی اور ثواب کا کام سمجھ کر منانے کو بدعت اور غلط سمجھتے ہیں نیز ہم سالگرہ نہیں مناتے، اس کے منانے کا ہم پر ،سعیدی الزام ہے جو بالکل غلط اور جھوٹ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ساری دنیا میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم

سعیدی: ساری دنیا میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم، غیر مقلد وہابیوں اور دیوبندیوں کے باعتماد امام نواب آف غیر مقلد صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں: شب میلاد سیدہ آمنہ نے سفید چڑیاں دیکھیں جن کی چونچ زمرد کی اور پر یاقوت کے تھے ۔(۲) بی بی نے ایسے مرد اور عورتیں دیکھیں کہ ان کے ہاتھوں میں چاندی کی صراحیاں تھیں۔ (۳) بی بی نے زمین کی مشرقوں اور مغربوں کو دیکھا۔ (۴) بی بی نے تین جھنڈے دیکھے ایک مشرق میں، ایک مغرب میں اور ایک کعبہ کی چھت پر لگا ہوا تھا۔ (۵)حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا ہونے کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کو سجدہ کیا۔ (۶) آپ نے انگلی آسمان کی طرف اٹھائی یعنی یہ بتایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کیا ہے۔ (۷)آسمان کی طرف سے بادل نے آ کر آپ کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ (۸)منادی نے ندا دی کہ آپ کو زمین کی مشرقوں اور مغربوں کی سیر کرائو۔ (۹) آپ کو دریائوں کی سیر کرائو، یعنی آپ اپنی سلطنت کو دیکھ لو ۔(۱۰)آپ جب دنیا میں آئے تو آپ کے ساتھ ایک نور تھا جس سے مشرق و مغرب جگمگانے لگے۔ (۱۱)بی بی نے ملک شام کے محلات بھی دیکھے۔ (۱۲) آپ نے فرمایا میں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کا عبد اور خاتم النبین تھا کہ ابھی آدم پیدا نہیں ہوئے تھے (شمامہ عنبریہ ص:۹) اور اس کے قریب مواد اشرف علی تھانوی سے نشر الطیب کی مختلف جگہوں سے نقل کیا گیا ہے۔(نشر الطیب ص:۳۵) (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۱۴، ۱۵)

محمدی جواب اول:
معلوم ہونا چاہئے کہ یہ کتاب نواب صاحب کی لکھی ہوئی نہیں ہے بلکہ اصل میں یہ کتاب شیخ امام سیدشبلنجی معروف مومن کی کتاب کی تلخیص اور اختصار ہے جس کا نام ہے نور الابصار۔ چنانچہ نواب صاحب خود لکھتے ہیں کہ’’کتاب نور الابصار میں بذکر سیرت بنویہ جو کچھ لکھا ہے اس جگہ اس کی تلخیص مطالب بازیادت حسنہ کر کے بذیل فصول کہ حقیقت میں واسطے علم احوال نبوت کے اصول ہیں، ذکر ولادت مبارک وما یتصل بھا حوالہ قلم صدق رقم ہوتا ہے الخ۔(شمامہ عنبریہ ص:۷) اور مولوی اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں الشمامۃ العنبریہ فی مولد خیر البریہ تصنیف مولوی صدیق حسن خاں قنوجی مرحوم جس کو انہوں نے شیخ امام شبلنجی معروف بمومن کی کتاب نور الابصار سے ملخص کیا ہے (نشر الطیب ص:۴) تو واضح ہوا کہ جو کچھ کتاب میں ایسا مواد ہے وہ سارا کا ساراجناب مومن شبلنجی کا ہے نواب صاحب نے ا س بڑی کتاب کو مختصر انداز میں پیش کیا ہے جیسے امام ابن تیمیہ کی منھاج السنہ ہے جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ امام ذھبی نے ایک جلد میں اس کو مختصر کیا ہے جو مختصر منھاج السنہ کے نام سے مطبوع ہے، باقی رہا یہ سوال کہ نواب صاحب ایسی روایات کو کیا درجہ دیتے ہیں تو اس کے متعلق ابھی ان کی اسی کتاب سے سعیدی نمبر۳کے تحت ان کی عبارت کو نقل کر آیا ہوں کہ ماثورہ کو غیر ماثورہ سے نہ ملائو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوم:
ان واقعات کی سندی حیثیت کیا ہے پہلے ان کو ثابت کرو، علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری جلد میں نقد و جرح کی چھلنی سے کام لے کر اس قسم کی سب روایات کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے۔ سید صاحب کے اسی حصہ کو الگ بغرض تقسیم شائع کیا گیا ہے جس کا نام ہے ’’غیر ثابت معجزات تحقیق و تنقید کی روشنی میں،، جس کو شعبہ نشرو اشاعت مرکزی جمعیت اہلحدیث مغربی پاکستان ایبک روڈ انارکلی لاہور نے شائع کیا ہے اس کتاب سے ہم بطریق اختصار کچھ نقل کرتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے متعلق جو جھوٹی اور بے سروپا روایتیں مسلمانوں میں مشہور ہو گئی ہیں ضرورت نہ تھی کہ اس کتاب (سیرت النبی) میں ان کو کسی حیثیت سے جگہ دی جائے مگر چونکہ عام ناظرین کے دلوں میں ان کو کتاب میں نہ پا کر مختلف قسم کے اعتراضات پیدا ہوں گے اس لئے صرف ان کی تسکین اور کشف حقیقت کی خاطر ان روایات سے بھی اس کتاب میں تعرض کرنا ضروری پڑا۔ یہ روایتیں جو زیادہ تر کتب دلائل میں ہیں یعنی ان کتابوں میں جن کو لوگوں نے عام حدیث کی کتابوں سے الگ کر کے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے ذکر وتفصیل میں لکھا ہے۔ یہی کتابیں ہیں جنہوں نے معجزات کی جھوٹی اور غیر مستند روایتوں کا انبار لگا دیا ہے اور انہیں سے میلاد و فضائل کی تمام کتابوں کو سرمایہ مہیا کیا گیا… حالانکہ اس تمام ذخیرہ سے کتب صحاح اور خصوصاً بخاری و مسلم یکسر خالی ہیں لیکن تیسری اور چوتھی صدی میں اس موضوع پر جو کتابیں لکھی گئیں وہ اس درجہ بے احتیاطی کے ساتھ لکھی گئیں کہ محدثین ثقات نے ان میں بیشتر کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔

کتب دلائل کے مصنفین کا مقصد معجزات کی صحیح روایات کو یکجا کرنا نہیں بلکہ کثرت سے عجیب و حیرت انگیز واقعات کا مواد فراہم کرنا تھا تا کہ خاتم المرسلین کے فضائل و مناقب کے ابواب میں معتدبہ اضافہ ہو سکے بعد کو جو احتیاط پسند محدثین آئے مثلاً زرقانی وغیرہ وہ ان روایات سے نقل کرنے کے بعد ساتھ ساتھ ان کی تردید اور تضعیف بھی کرتے گئے… اس کیلئے صرف اس قدر کافی نہیں بلکہ مزید تنقید کی محتاج ہے۔ خصوصاً اس لئے کہ ہمارے ملک میں میلاد کی مجلسوں میں جو بیانات پڑھے جاتے ہیں وہ تمام تر انہیں بے بنیاد روایتوں سے بھرے ہوئے ہیں… یہ روایات زیادہ تر تیسرے چوتھے درجہ کی کتب حدیث میں پائی جاتی ہیں تیسرے درجے میں بقول شاہ ولی اللہ کے یہ کتابیں ہیں۔ مسند ابو یعلی۔ مصنف عبد الرزاق۔ مصنف ابو بکر ابن ابی شیبہ۔ مسند عبد بن حمید۔ مسند طیالسی۔ بیہقی۔ طحاوی اور طبرانی کی تصنیفات۔ ان میں سچی جھوٹی اچھی بری قوی ضعیف ہر قسم کی حدیثیں پہلو بہ پہلو درج ہیں اور چوتھے درجہ میں وہ کتابیں ہیں جن کے مصنفین صدیوں بعد پیدا ہوئے انہوں نے چاہا کہ اول دوم درجوں میں جو روایتیں داخل نہیں کی گئیں، ان کو ایک جگہ جمع کر دیں، یہ روایتیں ان لوگوں کی زبانوں پر تھیں جن کی روایتوں کو حدیث کے اماموں نے قلم بند کرنا پسند نہیں کیا تھا اور قصہ گو واعظین محض ان سے رونق محفل کا کام لیتے تھے۔ اسرائیلیات ،اقوال حکماء، قصص و حکایات اور روایات نا معتبر کو انہوں نے حدیث کا درجہ دے کر کتابوں کے اوراق میں مدون کر دیا۔ کتاب الضعفاء لابن حبان ، کامل لابن عدی اور خطیب ابو نعیم، جوزقانی، ابن عساکر، ابن نجار، دیلمی کی تصنیفات کا اسی طبقہ میں شمار ہوتا ہے (حجۃ اللہ البالغہ باب طبقات کتب الحدیث)

آگے شاہ صاحب لکھتے ہیں صرف اول اور دوم درجہ کی کتابوں پر یعنی صحاح ستہ پر محدثین کا اعتماد ہے اور انہیں پر ان کا مدار ہے تیسرے طبقہ کی کتابوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو فن کے ناقد اور جوہری (شناس رکھنے والے) اور جن کو اسماء الرجال پر عبو ر ہے اور علل حدیث سے واقفیت ہے۔ غرض جو صحیح اور غلط اور خطا و صواب میں امتیاز کامل رکھتے ہیں ۔ انتھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں جو مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے کچھ تیسرے طبقہ میں اور بقیہ تمام تر چوتھے طبقہ کی کتابوں میں داخل ہیں۔

متاخرین نے عام طور سے یہ سرمایہ جن کتابوں سے حاصل کیا ہے وہ طبری، بیہقی، دیلمی، بزار اور ابو نعیم اصفھانی کی تصنیفات ہیں۔ حافظ قسطلانی نے انہیں روایات کو تمیز اور نقد کے بغیر مواھب لدنیہ میں داخل کیا اور ملا مسکین خواہی نے ان کو معارج النبوت میں فارسی زبان میں اس آب و رنگ سے بیان کیا کہ یہ روایتیں گھر گھر پھیل گئیں اور عوام نے… ان کو قبول کیا… مواھب لدنیہ اور معارج النبوت کا سرمایہ جن کتابوں سے ماخوذ ہے وہ حسب ذیل ہیں۔ کتاب الطبقات لابن سعد، سیرت ابن اسحاق، دلائل النبوت لابن قتیبہ المتوفی ۲۷۶ہجری ۔ دلائل النبوت ابو اسحاق حربی المتوفی ۲۵۵، شرف المصطفیٰ ابو سعید عبد الرحمن بن حسن اصفھانی المتوفی ۳۰۷۔ تفسیر و تاریخ ابو جعفر ابن جریر طبری المتوفی:۳۱۰ ۔ مولد یحییٰ بن عائذ۔ دلائل النبوۃ جعفر بن محمدمستنفری المتوفی ۴۳۲دلائل النبوت ابو القاسم اسماعیل اصفھانی المتوفی ۵۳۵ھ تاریخ دمشق ابن عساکر المتوفی ۵۷۱ … انہوں نے ہر قسم کے راویوں سے ہر قسم کی روایتیں نقد و تمیز کے بغیر اخذ کیں… اوراق میں مدون کر دیا اور عام لوگوں نے ان مصنفین کی عظمت جلالت شان کو دیکھ کر ان روایتوں کو قبول کر لیا حالانکہ ان میں نہ صرف ضعیف اور کمزور بلکہ موضوع حدیثیں تک موجود ہیں … ان مصنفین نے یہ سمجھ کر چونکہ ہر قسم کا سلسلہ روایت لکھ دیا گیا ہے لوگ سلسلہ روایات کو دیکھ کر صحیح اور غلط ، سچی اور جھوٹی روایت کا فیصلہ خود کر لیں گے… محدث ابن مندہ نے کتاب الدلائل کے مصنف حافظ ابو نعیم اصفہانی کی نسبت نہایت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔ علامہ ذھبی میزان الاعتدال میں ان دونوں کے درمیان محاکمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: لا اعلم لھما ذنبا اکثر من روایتھما الموضوعات ساکتین عنھا (ترجمہ ابو نعیم میزان الاعتدال) کہ مجھے ان دونوں کا اس سے زیادہ کوئی گناہ معلوم نہیں کہ وہ موضوع روایتوں کو خاموشی کے ساتھ روایت کر جاتے ہیں… امام سیوطی کی خصائص کبری جو حیدرآباد میں چھپ گئی ہے۔ طیالسی۔ ابن ابی شیبہ۔ حاکم۔ ابویعلی۔ بلکہ ان سے فروتر بہیقی۔ ابونعیم۔ بزار۔ ابن سعد طبرانی۔ دارمی۔ بلکہ غیر محتاط مصنفین مثلاً ابن ابی الدنیا ، ابن شاھین، ابن ابی النجار، ابن مندہ، ابن مردویہ، ابن عساکر دیلمی، خرائطی، خطیب وغیرہ کی کتابوں کو اپنا ماخذ بنایا۔ قوی اور ضعیف اور صحیح و غلط ہر قسم کے واقعات کا انبار لگا دیا… تاہم مصنف کو فخر ہے کہ اس تالیف میں موضوع اور بے سند روایتوں سے اگرچہ احتراز کیا گیا ہے لیکن ضعیف روایتیں جن کی سندیں ہیں وہ داخل کر لی گئی ہیں (دیباچہ) … پوری کتاب میں شاید دس بیس مقام سے زیادہ نہیں جہاں مصنف نے اپنی روایتوں کا درجہ استناد کا پتہ دیا ہو، اس سے زیادہ یہ بعض واقعات کے متعلق باوجود ان کی شدید روایت پرستی کے ان کو بہ تحقیق معلوم تھا کہ یہ صحیح نہیں تاہم وہ چونکہ پہلی کتابوں میں مندرج تھے ان کی نقل سے احتراز نہیں کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقعہ پر عام کتب میلا د میں عجیب و غریب واقعات مذکور ہیں۔ ان کو بتمامھا دلائل ابو نعیم سے نقل کر کےآخر میں امام سیوطی لکھتے ہیں ھذا الاثر والاثران قبلہ فیھا نکارة شدیدة ولم اورد فی کتابی ہذا اشد نکارۃ منھا ولم تکن نفسی تطیب بایرادھا لکن تبعت الحافظ ابا نعیم فی ذلک (خصائص کبریٰ ج:اول ص:۴۹) کہ اس روایت اور اس سے پہلے دو روایتوں میں سخت نامعتبر (منکر) باتیں تھیں اور میں نے اپنی کتاب میں اس سے زیادہ ناقابل اعتبار روایتیں نہیں لکھیں۔ میرا دل ان کے لکھنے کو نہیں چاہ رہا تھا لیکن حافظ ابو نعیم نے جو (اپنی کتاب میں) لکھ دیا تو میں نے ان کی پیروی کر کے لکھ دیا۔

ایک اور جگہ خطیب کی ایک روایت سے وفد نجران کے متعلق ایک واقعہ نقل کرتے ہیں حالانکہ خود اس روایت کو بے اعتبار سمجھتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں :واخرج الخطیب فی المتفق والمفترق بسند فیہ مجاھیل ج:۲، ص:۲۵) اور ایک اور مقام پر ایک گدھے کا واقعہ نقل کرتے ہیں جو گدھے کی صورت میں ایک جن تھا اور آپ کی سواری میں آنے کا مشتاق تھا الخ… حافظ سیوطی نے ابن عساکر سے یہ واقعہ خصائص میں نقل کیا ہے اور اس پر بے تعرض گزر گئے حالانکہ بعینہ اس واقعہ کے متعلق ابن حبان کے حوالہ سے اپنی دوسری کتاب اللاٰلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ میں سیوطی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ سراپا موضوع ہے۔

… معجزات ہوں یا فضائل ضرور ی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جس چیز کی نسبت کی جائے وہ شک و شبہ سے پاک ہو جیسا کہ نووی، حافظ عسقلانی، ابن جماعہ، طیبی بلقینی اور علامہ عراقی نے اپنی اپنی تصانیفات میں اس کی تصریح کی ہے (موضوعات ملا علی قاری ص:۹، مجتبائی دہلی)

ہم میلاد کیوں نہیں مناتے؟
 
Last edited:
Top