• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سفرنامہ ابن بطوطہ کی ایک حکایت اور ابن تیمیہ کے موقف کی وضاحت

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ابن بطوطہ کا سفرنامہ ملک فأس ابو عنان المرینی کے کاتب خاص ابن جزی نے ابن بطوطہ سے براہ راست تمام تفصیلات سن کر مرتب کیا ہے ( أزہار الریاض ج3 ص 195 ) ۔ابن جزی چونکہ بذات خود شاعر او رصاحب طرز ادیب تھا لہذا اس نے موقعہ کی مناسبت سے اپنی طرف سے بھی اضافات کیے ہیں اور کئی چیزیں ابن جبیر کے رحلہ سے نقل کی ہیں ۔ ایک مہم جو مسافر کی بیان کردہ حکایات اور صاحب ذوق ادیب و شاعر کی ملمع کاریوں نے اس سفرنامے کو بڑا مقام عطا کیا ہے لہذا یورپ میں ابن بطوطہ کو دنیائے سیاحت کا رئیس تصور کیا جاتا ہے ۔
لیکن ان سب چیزوں کے باوصف استنادی حیثیت سے یہ سفرنامہ کوئی خاص مقام حاصل نہیں کرسکا یہی وجہ ہے کہ مؤرخین نے تاریخی واقعات میں اس پر اعتماد نہیں کیا چنانچہ آپ علامہ ذہبی کی تاریخات ، ابن حجر کی کتابیں ، سخاوی اور سیوطی وغیرہ کی مصنفات دیکھیں شاید ہی آپ کو ابن بطوطہ کے سفرنامے کا کہیں حوالہ مل جائے ۔ وجہ اس کی یہ ہے اس کو تحقیقی و مستند بنانے کی بجائے اس کے دلچسپ ہونے پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس کی ترتیب کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے جب ابن بطوطہ اپنے سفرسے واپس لوٹا اور فاس کے بادشاہ نے اس سے عجیب و غریب حکایات سنیں اور ان کو پسند کیاتو اس نے اپنے کاتب خاص ابن جزی کو اس کی ترتیب و تہذیب پر لگادیا ۔ بہر صورت اس سفرنامے میں صحیح کیا ہے غلط کیا ہے اور اس کی استنادی حیثیت کیسی ہے اس کے بارے میں گفتگو کرنے کا فی الوقت ارادہ نہیں ہے بلکہ مطلوب اس میں موجود ایک حکایت (رحلۃ ابن بطوطہ ص 316۔17 )کی حقیقت واضح کرنا ہے جس کو لے کر بعض لوگوں نے شیخ الإسلام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ و أسکنہ فسیح جنانہ پر اللہ کی صفات میں تشبیہ و تکییف اور تجسیم جیسی قبیح تہمتیں لگانے کی کوشش کی ہےوہ ابن تیمیہ جس کی ساری عمر عقیدہ اہل سنت والجماعت کی نشر و اشاعت اور معطلہ و ممثلہ کے رد میں گزری ہے ۔
حکایت کا خلاصہ :

ابن بطوطہ کہتے ہیں میں جامع دمشق میں گیا تو تقی الدین ابن تیمیہ کو دیکھا وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کررہا تھا جب اس حدیث کا تذکرہ آیا کہ ینزل ربنا تبارک و تعالی فی کل لیلۃ إلی سماء الدنیاء کہ اللہ ہر رات آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں، تو وہ منبر کی ایک سیڑھی نیچے اترا اور کہنے لگا اس طرح جیسے میں نیچے اترا ہوں ۔ ۔۔۔۔ الخ

حقیقت یہ ہے کہ یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے ابن تیمیہ سے اس طرح کا عقیدہ بالکل بھی ثابت نہیں ۔ پہلے تو اس حکایت کا باطل ہونا واضح کرتے ہیں اور پھر ابن تیمیہ کا اس مسئلہ میں موقف پیش کریں گے ۔ان شاء اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بطلانِ حکایت کے چند داخلی دلائل :

ابن بطوطہ کے سفرنامے میں درج حکایت کے مندرجات کو دیگر تاریخی واقعات کے ساتھ جوڑا جائے تو اس کا بطلان واضح ہو جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صاحب حکایت کی ابن تیمیہ کے بارے میں معلومات کس قدر غلط ہیں سردست چند نکات حاضر خدمت ہیں :

(١)


ابن بطوطہ دمشق میں جمعرات کے دن رمضان المبارک کی 9 تاریخ کو 726ہجری میں داخل ہوا ہے ۔ (رحلۃ ابن بطوطہ ص 297)جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی سال ایک مہینہ قبل شعبان کے شروع میں قید ہوچکے تھے اور تقریبا دو سال تک اسی قید میں رہے (أعیان العصر للصفدی ج 1 ص 238 )حتی کہ 728 ہجری کو ذو القعدہ کی بیس تاریخ کو سوموار کی رات وفات پا گئے ۔(معجم الشیوخ للذہبی ج 1 ص 56 )
ابن بطوطہ نے کس طرح ان کو جامع دمشق میں وعظ کرتے ہوئے دیکھ لیا ؟
بہت سارے اہل علم نے اس طرف تنبیہ کی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو ابن تیمیہ کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں ان میں سے بعض محتاط ہوگئے ہیں اور اس واقعہ کی طرح طرح کی تأویلات کرنا شروع ہوگئے ہیں جن میں سے بعض کا ذکر ابھی آئے گا ۔
مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب حفظہ اللہ شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند کی اس سلسلے میں دورازکار تأویل :
فرماتے ہیں :
اس واقعہ پر لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ واقعہ غلط ہے کیونکہ جس زمانہ میں ابن بطوطہ دمشق پہنچا ہے اور جتنے دن وہاں رہا ہے ان دنوں میں ابن تیمیہ جیل میں تھے، پھر یہ واقعہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟
اس کا جواب: یہ ہے کہ وہ امام ابن تیمیہ نہیں ہونگے تو کوئی اور ابن تیمی ہوگا، جو ان کے خیالات سے متأثر ہوگا، اور مسافر ان دونوں باتوں میں فرق نہیں کرسکتا، بہرحال یہ جھوٹا واقعہ نہیں، ابن بطوطہ کا سفر نامہ دو جلدوں میں چھپا ہوا ہے، پوری کتاب میں کسی بات پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی، آخر یہی واقعہ ابن بطوطہ نے جھوٹا کیوں لکھ دیا؟
اس کی نظیر: یہ ہے کہ کوئی شخص دین میں عقلی گھوڑے دوڑاتا ہے تو لوگ کہہ دیتے ہیں: یہ مودودی ہے! یعنی مودودی خیالات سے متأثر ہے، اس لئے اس کو مودودی کہہ دیا جاتا ہے۔ یہی حال اس واعظ ہوگا، وہ چونکہ امام ابن تیمیہ کے خیالات سے متأثر تھا: اس لئے اس کو ابن تیمیہ کہہ دیا ہوگا۔ بہرحال اس کی بات سے امام ابن تیمیہ کے خیالات کی ترجمانی خوب ہوتی ہے۔
مفتی صاحب کی اس بات پر ہمیں چند وجوہ سے اعتراض ہے :
اولا : ابن بطوطہ کی گفتگو کا سیاق و سباق اس تأویل کا متحمل نہیں ہے کہ کہ یہاں اس نے کسی اور کو ابن تیمیہ سمجھا ہو کیونکہ اس نے صرف ابن تیمیہ نہیں کہا بلکہ شروع میں صراحت کے ساتھ کبیر الشام تقی الدین ابن تیمیہ لکھا ہے ۔ (رحلۃ ابن بطوطۃ ص 316 )اسی طرح اس حکایت میں مزید اس نے جو ٹوٹی پھوٹی باتیں صاحب حکایت کے بارے میں بیان کی ہیں وہ واقعات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اس کی مراد شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ ہی ہیں مثلا اس نے کہا کہ شام کے اس بڑے حنبلی فقیہ کی فتنہ انگیزیوں میں سے تین طلاقوں کے ایک ہونے والا مسئلہ ہے شد الرحال کی حرمت کا مسئلہ ہے ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ مصائب ابن تیمیہ پر ہی ٹوٹے تھے ۔
ثانیا : مفتی صاحب لکھتے ہیں ابن بطوطہ کا سفرنامہ بہت مستند ہے اس میں موجود کسی بیان پر آج تک کسی نے انگلی نہیں اٹھائی آخر اسی واقعہ کو اس نے جھوٹ لکھنا تھا ۔ ان کی یہ بات بھی صحیح نہیں ہے اولا تو کسی نے اس کو اس قابل سمجھا ہی نہیں کہ اس کی استنادی حیثیت سے کچھ کہا جائے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اس طرح کی کتب میں صحت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا دوسری بات ہے کہ جس کسی نے بھی ابن بطوطہ کے سفرنامے کے حوالے سے کچھ لکھا اس نے یہ ضرور لکھا ہے کہ اس میں عجیب و غریب حکایات ہیں
بلکہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ اس سفرنامے میں موجود حکایات کی غرابت کی وجہ سے لوگوں میں اس کی تکذیب مشہور تھی
ابن خلدون کی عبارت یوں ہے :
وأمثال هذه الحكايات فتناحى النّاس بتكذيبه ولقيت أيّامئذ وزير السّلطان فارس بن وردار البعيد الصّيت ففاوضته في هذا الشّأن وأريته إنكار أخبار ذلك الرّجل لما استفاض في النّاس من تكذيبه. ( مقدمہ ابن خلدون ص228 )
عبارت کا سیاق و سباق دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن خلدون ابن بطوطہ کا یہاں دفاع کر رہے ہیں لیکن سب کچھ پڑھنے کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ دفاع اس کی ثقاہت کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور اعتبار سے ہے ۔ بہر صورت ہمارا یہاں مقصود صرف یہ تھا کہ کسی نے انگلی اٹھائی ہے کہ نہیں ؟
مزیدتسلی کے لیے لسان الدین ابن الخطیب کی الإحاطۃ فی أخبار غرناطۃ سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جس سے مزید وضاحت ہوگی کہ اس پر انگلیاں کیا پورے پورے ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں ابن الخطیب لکھتے ہیں :
ثم قفل إلى بلاد المغرب، ودخل جزيرة الأندلس، فحكى بها أحوال المشرق، وما استفاد من أهله، فكذّب. ( ج 3 ص 206 )
اگر اب بھی کوئی انگلی اٹھی ہوئی نظر نہیں آتی تو پھر اللہ سے صحت بصیرت و بصارت کے لیے دعا کی جا سکتی ہے ۔
ثالثا : مفتی صاحب نے ارشاد کیا ہے کہ اس حکایت سے ابن تیمیہ کے خیالات کی خوب ترجمانی ہوتی ہے ۔ مفتی صاحب کو چاہیےتھأ کہ کسی مستند ذریعے سے ابن تیمیہ کا یہ موقف ثابت کرتے او ر پھر کہتے کہ چونکہ ابن تیمیہ کا موقف ثابت ہے لہذا اس حکایت کا سچ ہونا بھی کوئی بعید نہیں ۔ لیکن انہوں نے آپ دیکھ رہے ہیں کیا کیا ابن تیمیہ کو گمراہ کہنے کے لیے اس حکایت کا سہارا لیا ہے اور اس حکایت کو سچ ثابت کرنے کے لیے ابن تیمیہ کے گمراہ ہونے کا سہارا لیا ہے منطق کی اصطلاح میں ‘‘ دوران دور ’’ اسی چیز کو کہا جاتا ہے ۔ ہم مفتی صاحب پر کوئی حکم لگانے کی جسارت نہیں کرتے بلکہ یہ مسئلہ ان پر چھوڑتے ہیں جو علماء کی خیانتیں ڈھونڈنے میں متخصص ہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
(٢)


حکایت میں یہ بھی ہے کہ ابن تیمیہ مصر میں کئی سال قید رہے اور اسی دوران 40 جلدوں میں تفسیر البحر المحیط لکھی بالآخر آپ کی والدہ نے ملک الناصر کےپاس شکایت کی اور آپ کو رہائی دلوائی ۔
اصل عبارت یوں ہے :
فأمر الملك الناصر بسجنه فسجن أعواما، وصنف في السجن كتابا في تفسير القرآن سماه بالبحر المحيط في نحو أربعين مجلدا، ثم إن أمه تعرضت للملك الناصر وشكت إليه، فأمر بإطلاقه .

یہ بات بھی ٹھیک نہیں ہے تفصیل کچھ یوں ہے :
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو بہت دفعہ قید کی مشقتوں سے گزرنا پڑا البتہ مصر میں دو دفعہ قید ہوئے ہیں :
پہلی دفعہ : 705 ہجری سے لیکر 707 ہجری تک ، تقریبا دو سال کا عرصہ جیل میں رہے اس کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے کہ :
22 رمضان المبارک کو قاضی ابن صصری کےساتھ ابن تیمیہ مصر پہنچ گئے اور مجلس منعقد ہوئی اور قاضی ابن مخلوف مالکی نے آپ پر اعتراض کرنا شروع کیا آپ نے اللہ کی حمد وثناء کی اور پوچھا کہ فیصل کون ہے تو کہا گیا کہ قاضی مالکی تو آپ غصہ میں آگئے اور کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے وہی تو میرا خصم ہے لہذا آپ کو جیل میں قید کردیا گیا اور عید الفطر کی رات مصرو شام میں اعلان کردیا گیا کہ ابن تیمیہ گمراہ عقیدہ کا حامل ہے ۔ پھر نائب سلطنت نے امراء و قضاۃ سے مشورہ کیا کہ شیخ کو قید سے چھڑوانا چاہیے سب متفق ہوگئے لیکن کہا کہ ایک شرط پر کہ وہ اپنے بعض عقائد سے رجوع کرلے چنا نچہ آپ کو تقریبا 6 دفعہ پیغام بھیجا گیا لیکن آپ انکار کرتے رہے تو مجلس یونہی برخاست ہوگئی ۔ بالآخربدر الدین ابن جماعۃ جیسے بعض علماء و مشایخ کی کوششوں سے بادشاہ نے پھر مجلس بلائی اور سب قضاۃ کو حاضر ہونے کے لیے کہا اور ابن تیمیہ نے أپنے موقف کے دلائل پیش کیے جب اگلی مجلس کا وقت ہوا تو بہت سے قضاۃ نے حاضری سے معذرت کرلی اور سلطان نے شیخ کو رہا کردیا اور آپ کو مصر میں ہی رکھ لیا تاکہ اہل مصر آپ سے فیضیاب ہو سکیں یہ سن 707 ہجری تھا ۔ ( ملخص من العقود الدریۃ ص 264 ۔ 269 )
یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ اس قید سے رہائی کا سبب کسی کی سفارش نہیں تھا بلکہ شیخ کا ان پر لگائے گئے الزامات سے بری ہونا تھا، لہذا بادشاہ نے آپ کو نہایت عزت و تکریم کیساتھ رہا کر کے مصر میں ہی رکھ لیا ۔

دوسری مرتبہ : صوفیوں او رکچھ دیگر لوگوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے 10شوال 707 ہجری میں آپ کو ایک مجلس منعقد کرنے کے بعد قید کردیا گیا اور اسی حالت میں درس و تدریس میں مشغول رہے اور بہت سارے لوگوں نے آپ سے شرف تلمذ حاصل کیا ۔ آپ نے جیل کے اند ر درس و تدریس کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ بہت سارے لوگوں نے رہائی حاصل کرنے کے بعد بھی آپ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دینے لگے ۔ حاسدین نے جب دیکھا کہ یہ تو معاملہ الٹ ہوگیا ہے تو ان کے حسد کی آگ مزید بھڑک اٹھی اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ شیخ کو اسکندریہ بھیج دیا جائے وہ سمجھتے تھے کہ وہاں کے لوگ آپ کی قدرو قیمت سے واقف نہیں ہوں گے اور توجہ نہیں دیں گے لہذا کچھ ہی مدت کے بعد ایک مجلس منعقد ہونے کے بعدآپ کو اسکندریہ بھیج دیا گیا ۔
(العقود الدریہ ص 285 ۔ 86 )
یہاں سے معلوم ہوتا ہے اس دفعہ مصر سے آپ کی رہائی کی وجہ حاسدین کا حسد تھا نہ کہ والدہ کی شکایت کیونکہ والدہ کی شکایت کا جس طرح پہلی دفعہ میں کوئی تذکرہ نہیں یہاں بھی کوئی اشارہ نہیں ہے اور یہاں مزید یہ کہ یہ قید مختصر دورانیے پر مشتمل تھی(اگرچہ پہلی قید پر بھی اعواما کا اطلاق مشکل ہے ۔) اس کو کسی طرح بھی کئی سالوں کی قید نہیں کہا جا سکتا ۔
باقی اس کے بعد آپ پھر دو دفعہ قید کیے گئے لیکن یہ دونوں واقعات آپ کی والدہ کی وفات کے بعد پیش آئے اور اسی طرح یہ دمشق میں تھے نہ کہ مصر میں ۔

(3)


حکایت کے مطابق آپ کو ایک دفعہ پھر قید کیا گیا اور اسی قید میں آپ وفات پاگئے ۔ اور اس قید کا محرک جامع مسجد میں ہونے والا واقعہ بیان گیا ہے چنانچہ فقہاء و علماء نے مل کر ایک عقد تیار کیا جس میں ابن تیمیہ کے بہت سارے گمراہ مسائل بیان کیے گئے جن میں طلاق اور شد الرحال والا مسئلہ بھی تھا ۔
اصل عبارت یوں ہے :
إلى أن وقع منه مثل ذلك ثانية، وكنت إذ ذاك بدمشق فحضرته يوم الجمعة وهو يعظ الناس على منبر الجامع ويذكّرهم فكان من جملة كلامه أن قال: إن الله ينزل إلى سماء الدنيا كنزولي هذا، ونزل درجة من درج المنبر، فعارضه فقيه مالكي يعرف بابن الزهراء وأنكر ما تكلم به، فقامت العامة إلى هذا الفقيه وضربوه بالأيدي والنعال ضربا كثيرا حتى سقطت عمامته وظهر على رأسه شاشية حرير، فأنكروا عليه لباسها واحتملوه إلى دار عز الدين بن مسلّم قاضي الحنابلة فأمر بسجنه وعزره بعد ذلك، فأنكر فقهاء المالكية والشافعية ما كان من تعزيره ورفعوا الأمر إلى ملك الأمراء سيف الدين تنكيز وكان من خيار الأمراء وصلحائهم، فكتب إلى الملك الناصر بذلك وكتب عقدا شرعيا على ابن تيمية بأمور منكرة منها: أن المطلّق بالثلاث في كلمة واحدة لا تلزمه إلا طلقة واحدة، ومنها أن المسافر الذي ينوي بسفره زيارة القبر الشريف زاده الله طيبا لا يقصر الصلاة، وسوى ذلك مما يشبهه، وبعث العقد إلى الملك الناصر فأمر بسجن ابن تيمية بالقلعة فسجن بها حتى مات في السجن. ( رحلۃ ابن بطوطۃ ص317 )

یہ بیان بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ مصر والے واقعہ کے بعد ابن تیمیہ دو دفعہ قید ہوئے ہیں پہلی دفعہ طلاق والے فتوی کی وجہ سے دوسری دفعہ شد الرحال والے مسئلہ کی وجہ سے اور دونوں کے درمیان تقریبا کم ازکم پانچ سال کا دورانیہ ہے کیونکہ پہلے میں آپ 721 ہجری کے پہلے مہینے میں رہا ہوئے ہیں اور دوسرے مسئلہ میں آپ 726 ہجری شعبان کے مہینے میں گرفتار ہوئے ہیں ۔

(4)


ابن بطوطہ کے بیان کے مطابق مصر میں آپ کے مخالف بیان دینے والا شرف الدین الزواوی ہے جبکہ ابن عبد الہادی تلمیذ ابن تیمیہ کے مطابق و ہ قاضی ابن مخلوف مالکی تھا ( العقود الدریۃ ص 266 ) بلکہ ابن عبد الہادی کے بیان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زواوی نے ابن مخلوف کے ساتھ متنازعہ مسائل میں مناظرہ کیا اور ابن تیمیہ کے خلاف اس کی بہت ساری باتوں کو غلط قرار دیا ( العقود الدریہ ص 268 )

یہ تو تھا ابن بطوطہ کی بیان کردہ حکایت کے مندرجات کا سرسری جائزہ اگر مزید دیکھا جائے تو اور بھی خلاف حقائق باتین نکل سکتی ہیں ۔
اب جانتے ہیں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا اس مسئلہ کے بارے میں موقف کیا ہے ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کیا ابن تیمیہ تشبیہ کے قائل تھے ؟

یہ وضاحت چند نکات میں پیش خدمت ہے :

1۔ ابن تیمیہ نے عقیدہ میں کئی کتابیں لکھی ہیں کسی ایک میں بھی انہوں نے صفات الہی ( مسئلہ نزول خصوصا )کے بارے میں تشبیہ کا موقف اختیار نہیں کیا ۔ کوئی ثابت کر سکتا ہے ؟
جس حدیث کا ابن بطوطہ کے بیان کردہ قصے میں ذکر ہے اس کو ابن تیمیہ نے کئی جگہ اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے مثلا اقتضاء الصراط المستقیم ج 2 ص 313 ، الفتاوی الکبری ج 1 ص 362 ،و ج 6 ص 613 ، منہاج السنۃ ج 2 ص 450 ، وغير ه میں
لیکن کسی بھی جگہ انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ تک نہیں کیا جس کو ان کا فعل قرار دیا جارہا ہے ۔
بلکہ شیخ الإسلام نے صفات کی کیفیت بیان کرنے کی تردید کی ہے اور کئی جگہ پر صفت نزول کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے مثلا کتاب التدمریہ ص43 ، میں فرماتے ہیں :
إذا قال: كيف ينزل ربنا إلى سماء الدنيا؟ قيل له: كيف هو؟فإذا قال: أنا لا أعلم كيفيته.
قيل له: ونحن لا نعلم كيفية نزوله، إذ العلم بكيفية الصفة يستلزم العلم بكيفية الموصوف، وهو فرع له، وتابع له. فكيف تطالبني بالعلم بكيفية سمعه وبصره وتكليمه ونزوله واستوائه، وأنت لا تعلم كيفية ذاته! ونزوله واستواؤه ثابت في نفس الأمر، وهو متصف بصفات الكمال التي لايشابهه فيها سمع المخلوقين وبصرهم، وكلامهم ونزولهم واستواؤهم.


بلکہ شیخ الإسلام کی ایک مستقل کتاب ہے جس میں حدیث النزول کی شرح کی ہے درحقیقت یہ ایک سوال کا جوا ب تھا جس میں پوچھا گیا تھا کہ اللہ کی صفت نزول کا اثبات کرنے والا اور انکا رکرنے والے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ تو آپ نے شرح و بسط کے ساتھ جواب دیا جو تقریبا 190 صفحات میں کتاب کی صورت میں مطبوع ہے اس کا ایک اقتباس یوں ہے :
لكن من فهم من هذا الحديث وأمثاله ما يجب تنزيه الله عنه، كتمثيله بصفات المخلوقين، ووصفه بالنقص المنافي لكماله الذي يستحقه، فقد أخطأ في ذلك، وإن أظهر ذلك منع منه (شرح حدیث النزول ص 8 )
مزید حوالہ جات :
الفتاوی الکبری لابن تیمیۃ ج 6 ص 413 ، و ص 472 ، بیان تلبیس الجہمیۃ ج 4 ص 55 ، درء تعارض العقل والنقل ج 2 ص 27 ، شرح العقیدۃ الأصفہانیۃ ص 67 ، ان سب مقامات میں شیخ نے تشبیہ فی الصفات کے موقف کو رد کیا ہے ۔
كيا اب بھی تشبیہ و تکییف کے بارے میں ان کے موقف میں کوئی شک و شبہ رہ جاتا ہے کہ ہم ابن بطوطۃ سے پوچھتے پھریں ۔ افسوس تو ایسے لوگوں پر ہے جو کہتے ہیں کہ چلو مان لیتے ہیں کہ ابن تیمیہ اس وقت موجود نہیں تھے اور ابن بطوطۃ کو تعیین میں غلطی لگی لیکن یہ واقعہ ٹھیک ہے ابن تیمیہ نہیں تو ان کا کوئی پیروکا ران کے مذہب کو پھیلا رہا ہوگا کیونکہ ابن تیمیہ کے بارے میں اس طرح کی باتیں مشہور ہیں ۔
ایسے محققین سے ہماری گزارش ہے کہ ابن تیمیہ ان شخصیات میں سے نہیں ہیں جن سے کوئی کتاب ہی ثابت نہ ہو ۔ الحمد للہ ان کی بیسوں کتابیں آج ہمارے پاس موجود ہیں اور اس مسئلہ پر انہوں نے کئی جگہوں پر گفتگو بھی کی ہے کیا ایک دفعہ بھی یہ بات انہوں نے کہی ہے جس کو آپ ثابت بلکہ مشہور کہنے پر تلے ہوئے ہیں ؟

ابن تیمیہ پر تشبیہ کا الزام کیوں لگایا گیا ؟


اس بات کی حقیقت شاید ابن تیمیہ کی کتاب الحمویۃ الکبری ص 532، 33کے ایک اقتباس سے واضح ہو رہی ہے :
وكانوا إذا رأوا الرجل قد أغرق في نفي التشبيه من غير إثبات الصفات قالوا: جهمي مُعَطِّل؛ وهذا كثير جدًا في كلامهم، فإن الجهمية والمعتزلة إلى اليوم يسمون من أثبت شيئًا من الصفات مشبهًا ـ كذبًا منهم وافتراء ـ حتى إن منهم من غلا ورمى الأنبياء صلوات الله وسلامه عليهم بذلك، حتى قال ثُمَامة بن أشرس من رؤساء الجهمية: «ثلاثة من الأنبياء مشبهة، موسى حيث قال: {إِنْ هِيَ إِلاَّ فِتْنَتُكَ} [الأعراف: 155] ، وعيسى حيث قال: {تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلاَ أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ} [المائدة: 116] ، ومحمد حيث قال: «ينزل ربنا» .
وحتى أن جُلَّ المعتزلة تدخل عامة الأئمة مثل: مالك وأصحابه والثوري وأصحابه، والأوزاعي وأصحابه، والشافعي وأصحابه، وأحمد وأصحابه، وإسحاق بن راهويه، وأبي عبيد وغيرهم، في قسم المشبهة.


نعوذ باللہ اب انبیا بھی مشبہہ ہو گئے ہیں تو پھر آئمہ کی کیا مجال ؟إنا للہ و إنا إلیہ رجعون
یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ ابن تیمیہ اور دیگر آئمہ اہل سنت پر تشبیہ و تجسیم کا الزام لگانے والے اہل تعطیل ہیں جو ہر اس شخص پر مذکورہ الزام لگا دیتے ہیں جو اللہ کی صفات کا اثبات کرتا ہے کیونکہ معطلہ کے نزدیک صفات کے اثبات سے اللہ کی مخلوق سے مشابہت لازم آتی ہے جو کہ ان کا سوء فہم ہے ۔ صاحب تأنیب الخطیب نے بھی اسی وجہ سے بہت سارے آئمہ کی توہین کی ہے ۔
بقول ابو الطیب المتنبی

وكم من عائب قولا صحيحاً ... وآفته من الفهم السقيم
ولكن تأخذ الأذهان منه ... على قدر القرائح والعلوم
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاکم اللہ خیرا خضر حیات بھائی۔ بہت خوب مضمون ہے۔یہ حضرات دوسروں پر الزام لگاتے وقت تو رطب و یابس، حکایات، ضعیف و موضوع، تاریخ میں سے جو کچھ میسر آئے اسے استعمال کرتے ہیں۔ اور خود پر الزام آئے تو مخالفین کو جہالت کا طعنہ دیتے ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا خضر حیات بھائی۔۔ مدلل و مفصل تردید، ماشاءاللہ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ابن بطوطہ نے یہ سفر نامہ خود نہیں لکھا ،اس سفرنامے کو جمع کرنے اور لکھنے والا ابو عبداللہ الجزی الکلبی ہے ،جس پرامام بلقینی نے کذاب اور وضاع ہونے کا حکم لگایا ہے۔ (الدررالکامنہ فی اعیان الما ئة الثامنة: جلد 5 / صفحہ 227 / ناشر: مجلس دائرة المعارف العثمانیة)۔
 
Top