• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سفرنامہ ابن بطوطہ کی ایک حکایت اور ابن تیمیہ کے موقف کی وضاحت

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
أحمد بن إبراهيم بن عيسى (1253 - 1327 ھ ) جو مشہور" الکافیۃ الشافیۃ " کی شرح " توضیح المقاصد " کے مصنف ہیں ؛
وہ لکھتے ہیں :

قال الشيخ أحمد بن إبراهيم بن حمد رحمه الله في رده على ابن بطوطة :
" وا غوثاه بِاللَّه من هَذَا الكذب الَّذِي لم يَخَفِ اللهَ كاذبُه ، وَلم يستحِ مفتريه وَفِي الحَدِيث : (إِذا لم تستح فَاصْنَعْ مَا شِئْت) ووضوح هَذَا الْكَذِب أظهر من أَن يحْتَاج الى الإطناب، وَالله حسيب هَذَا المفتري الْكذَّاب ، فإنه ذكر أَنه دخل دمشق في 9 رَمَضَان سنة 726 ، وَشَيخ الإسلام ابْن تَيْمِية إذ ذَاك قد حبس فِي القلعة ، كَمَا ذكر ذَلِك الْعلمَاء الثِّقَات كتلميذه الْحَافِظ مُحَمَّد بن أَحْمد بن عبد الْهَادِي والحافظ أبي الْفرج عبد الرَّحْمَن بن أَحْمد بن رَجَب ، قَالَ في تَرْجَمَة الشَّيْخ : مكث الشَّيْخ فِي القلعة من شعْبَان سنة سِتّ وَعشْرين إلى ذِي الْقعدَة سنة ثَمَان وَعشْرين. وَزَاد ابْن عبد الْهَادِي أنه دَخلهَا فِي سادس شعْبَان .
فَانْظُر إلى هَذَا المفتري يذكر أنه حَضَره وَهُوَ يعظ النَّاس على مِنْبَر الْجَامِع، فيا ليت شعري هَل انْتقل مِنْبَر الْجَامِع إلى دَاخل قلعة دمشق ؟
وَالْحَال أَن الشَّيْخ رَحمَه الله لما دخل القلعة الْمَذْكُورَة فِي التَّارِيخ الْمَذْكُور لم يخرج مِنْهَا إلا على النعش، وَكَذَا ذكر الْحَافِظ عماد الدّين ابن كثير فِي تَارِيخه
انتهى من " توضيح المقاصد" (1/ 498) .

توضیح المقاصد کو مکتبہ شاملہ کیلئے ڈاؤن کریں
اس عبارت میں شیخ رحمہ اللہ نے ابن بطوطہ کو : کاذب ، کذاب ، مفتری ، بے حیا ، قرار دیا ہے ، "

اور یقیناً شیخ رحمہ اللہ جھوٹ اور غلطی کا فرق سمجھتے ہوں گے ، کیونکہ وہ دین کے عالم ہونے کے ساتھ قاضی بھی تھے ،
سعودی حکومت کا دور تاسیس اور امام ابن تیمیہؒ کا دفاع۔ خود ہی کڑیاں ملا لیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے شیخ زاہد الکوثریؒ امام ابو حنیفہؒ کے دفاع میں ثقہ رواۃ کو بھی رگڑا لگا جائیں۔
ابن بطوطہ کا ذکر حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے الدرر الکامنہ میں اور علامہ زبیدیؒ نے تاج العروس میں کیا ہے۔ حافظؒ نے ابن الجزی پر بلقینیؒ کی جرح کا ذکر کر کے ابن مرزوق سے ان کی براءت کا ذکر کیا ہے لیکن ابن بطوطہ پر کسی قسم کا کذب کا اتہام نہیں لگایا۔ بلکہ یوں کہیے کہ بلقینیؒ نے بھی ابن الجزی پر کذب کا الزام لگایا ہے لیکن ابن بطوطہ کو کچھ نہیں کہا۔ زبیدیؒ نے ابن بطوطہ کو اچھے الفاظ سے یاد کیا ہے اور کہا ہے الامام المؤرخ الرحال۔ جھوٹا اور کذاب انہوں نے بھی نہیں سمجھا۔
ماضی قریب میں علامہ زرکلی نے ابن بطوطہ اور اس کے اسفار کا ذکر کیا ہے لیکن جھوٹ کی تہمت نہیں لگائی۔ اسی طرح ڈاکٹر زکی محمد الحسن نے الرحالۃ المسلمون میں نہ صرف ابن بطوطہ کا ذکر کیا ہے بلکہ ان پر لگنے والے بعض الزامات کا دفاع بھی کیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ کذب کا تو الزام ہی نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابن بطوطہ کو اتنی اہمیت بھی نہیں دینی چاہیے کہ اس کی بات کی بناء پر ہم مسلمانوں کے ایک نامی گرامی عالم اور ایک عظیم شخص پر جرح کرنے لگ جائیں کیوں کہ ابن بطوطہ اس حیثیت کے آدمی نہیں ہیں۔ وہ ایک سیاح اور ایک عام سے مورخ ہیں اگرچہ وہ خود بھی کچھ عرصہ قاضی رہے ہیں لیکن پھر بھی ان کی حیثیت ایک سیاح کی سی ہے۔ دوسری جانب ان کی ایک غلطی کی بنا پر انہیں اتنا بھی نہیں گرانا چاہیے کہ بالکل کذاب اور مفتری کے مرتبے تک جا پہنچائیں۔ یہ کام کرنا ہوتا تو ابن حجرؒ اور زبیدیؒ پہلے کر لیتے۔ ہر شخص اور ہر چیز کو اس کے مرتبے میں رکھنا چاہیے۔


ابن بطوطہ نے جس مسئلہ پر شیخ الاسلام پر افترا کیا وہ ہے روزانہ رات اللہ رب العزت کا نزول
امام صاحب کا عقیدہ و موقف اس مسئلہ پر سمجھنے ،جاننے کیلئے خود انہی کی کتاب سب سے بہترین ذریعہ ہے
کتاب کا نام ہے شرح حدیث النزول ۔۔ جو یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں
اگر امام ابن تیمیہؒ کا اس موضوع پر ایک لفظ بھی نہ ہوتا تب بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں ابن بطوطہ جیسے شخص کی بات پر مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ ابن بطوطہ ایک سیاح تھے۔ لاتعداد اسفار اور بے شمار ملک اور نام ان کے ذہن میں بھرے ہوئے تھے۔ ایسے شخص سے اس قسم کی باتوں میں غلطی بآسانی ممکن ہے۔ جب ایک جانب اکابر علماء کرام ایک شخص کی تعریف کر رہے ہوں اور دوسری جانب ایسا ایک سیاح ہو تو ظاہر ہے کہ علماء کرام کی بات کو ترجیح ہوگی۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اگر امام ابن تیمیہؒ کا اس موضوع پر ایک لفظ بھی نہ ہوتا تب بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں ابن بطوطہ جیسے شخص کی بات پر مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ ابن بطوطہ ایک سیاح تھے۔
کیوں کہ ابن بطوطہ اس حیثیت کے آدمی نہیں ہیں۔ وہ ایک سیاح اور ایک عام سے مورخ ہیں
بس اتنی سی بات کہ ابن بطوطہ کوئی عالم دین نہیں ،
جس کی بے بنیاد ،اور بے پر کی اڑائی ہوئی کی بنیاد جبل العلم پر کوئی نتھو خیرا انگلی اٹھاتا پھرے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابن بطوطہ کو اتنی اہمیت بھی نہیں دینی چاہیے کہ اس کی بات کی بناء پر ہم مسلمانوں کے ایک نامی گرامی عالم اور ایک عظیم شخص پر جرح کرنے لگ جائیں کیوں کہ ابن بطوطہ اس حیثیت کے آدمی نہیں ہیں۔ وہ ایک سیاح اور ایک عام سے مورخ ہیں اگرچہ وہ خود بھی کچھ عرصہ قاضی رہے ہیں لیکن پھر بھی ان کی حیثیت ایک سیاح کی سی ہے۔ دوسری جانب ان کی ایک غلطی کی بنا پر انہیں اتنا بھی نہیں گرانا چاہیے کہ بالکل کذاب اور مفتری کے مرتبے تک جا پہنچائیں۔ یہ کام کرنا ہوتا تو ابن حجرؒ اور زبیدیؒ پہلے کر لیتے۔ ہر شخص اور ہر چیز کو اس کے مرتبے میں رکھنا چاہیے۔
مناسب بات ہے ۔
لیکن بہر صورت ابن بطوطہ کی تکذیب پہلے بھی ہوچکی ہے ، میرے بالا مضمون میں اس بات کا تذکرہ ہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مناسب بات ہے ۔
لیکن بہر صورت ابن بطوطہ کی تکذیب پہلے بھی ہوچکی ہے ، میرے بالا مضمون میں اس بات کا تذکرہ ہے ۔
یہ تکذیب عوام میں تھی اور صرف اس وجہ سے کہ ابن بطوطہ نے دنیا کے بارے میں عموماً اور چین اور ہند کے بارے میں خصوصاً ایسے واقعات بیان کیے تھے جو عوام کی عقلوں میں نہیں سماتے تھے تو وہ تکذیب کرنے لگ گئے۔ ابن خلدون کی عبارت میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ عربی کی مثل مشہور ہے "الناس اعداء لما جہلوا" اس لیے عوام کی حکایات کی غرابت کی بنا پر کی گئی تکذیب، ظاہر ہے کوئی علمی حیثیت نہیں رکھتی۔ چنانچہ ڈاکٹر زکی حسن نے الرحالۃ المسلمون میں یہی کہا ہے کہ بعد میں بہت سی غریب حکایات مارکوپولو اور دیگر سیاحوں کی عبارات سے بھی ثابت ہوئیں۔ اسی بنا پر ڈاکٹر زکی حسن نے غرابت کے سلسلے میں ان کا دفاع کیا ہے۔
اس کی ایک مثال دیتا ہوں: ابن بطوطہ نے چین کے کرنسی نوٹوں کا ذکر کیا ہے جنہیں بالشت کہا جاتا تھا۔ اس نے کہا ہے کہ چین میں یہ عالم ہے کہ وہاں اگر درہم لے کر نکلو تو اسے کوئی قبول نہیں کرتا بلکہ دراہم کو بالشت میں تبدیل کروانا پڑتا ہے۔
اب آپ مصر کے اس زمانے ماحول میں آئیں جہاں دراہم و دنانیر ہی اصل کرنسیز تھیں اور فلوس اورسکوں کو بھی لوگ ناپسندیدگی کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ ایسے میں کون یہ سوچ سکتا ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں شہتوت کے بنے کاغذ کو جو کہ جلدی خراب بھی ہوجاتا ہے، عوام دراہم و دنانیر پر ترجیح دیتے ہوں گے؟ لہذا عوام نے اس قسم کی باتوں کو تسلیم کرنا چھوڑ دیا۔ لیکن تقریباً اسی زمانے میں مصر میں علامہ مقریزی نے ایک عالم کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہیں چین کے تجار میں سے کسی نے وہ نوٹ دکھایا تھا۔ یہاں سے ابن بطوطہ کی تصدیق ہوتی ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
ابن بطوطہ کے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں لکھی ایک غلطی کو پکڑ کر آپ نے اس کے بے حد قیمتی دنیا کی معلومات کو ردی نہین بناسکتے ہوسکتا ہے اس نے ابن تیمیہ کا واقعہ کسی سے سنا ہو خود نہ دیکھا ہو۔۔ لیکن اس نے کئی مملک کی تاریخ من و عن صحیح بیان کی ہے ۔۔۔ اور یاد رہے اس نے یہ سفر مراکش پھنچنے کے بعد لکھنا شروع کیا تھا یعنی 25 سال کا سفر اختتام ہوا تو قلم بند کرنا شروع کیا اس میں غلطیاں ہوسکتی ہیں اس نے قستنطنیہ کا سفر بھی کیا اور اناطولیہ سے گزرا لیکن اس نے سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اور ان کے بیٹے اورہان کا زکر ہی نہیں کیا جن حکومت قستنطنیہ سے متصل تھی۔اور اس کے وہاں سے گزرنے کے وقت وہ وہاں اورہان موجود تھے۔ اس لئے ہوسکتا ہے وہ وہاں گیا ہی نہ ہو اور ایک سفرنامہ سے اس کو اخذ کیا اس کے مصنف کا مجھے نام یاد نہیں ابن بطوطہ نے اس کا نام بہت بار زکر کیا ہے
 
Top