• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سفرنامہ ظفر :چاٹی کی لسی سے دعوت ولیمہ تک!((ظفر اقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
سفرنامہ ظفر :چاٹی کی لسی سے دعوت ولیمہ تک!
دیہاتی زندگی اور شہری زندگی میں اگرچہ بہت فرق ہے مگر یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ دیہاتی زندگی ایک قسم کی فائدہ مند اور بنسبت شہری زندگی کے بیماریوں سے کافی پاک ہے ۔جس کی بنیادی وجہ دیہاتی لوگوں کی ہارڈ ورکنگ کے ساتھ ملاوٹ اور کیمیکل سے پاک غذائیں بآسانی میسر ہوتی ہیں ۔مثلا ً صاف پانی سے تیار شدہ سبزیاں ‘خالص دودھ‘ خالص دیسی گھی ‘ چاٹی کی لسی ‘ اور اس طرح خالص دودھ کی دہی سے لے کر پھلوں تک تقریباً خالص چیزیں بآسانی دستیاب ہوتی ہیں ۔جن کی وجہ سے جسمانی قوت میں بے بہا اضافہ ہوتا ہے ۔اس طرح کھانوں میں لذیذ ترین کھانا دیہات میں’’ مکھن‘مکئی کی روٹی ‘اور چاٹی کی لسی ‘‘ بہترین ڈش شمار ہوتی ہے ۔اس کی اہمیت اور قدر وہ شخص ہی جانتا ہے جس نے ایک بار یہ ڈش کھائی ہو زندگی میں بار بار کھانے کی حسرت روز اسے دیہاتی زندگی پر رشک کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔اس طرح جب بچپن کے ساتھی اور کلاس فیلوز کسی دعوت پہ اکٹھے ہوں تو جتنے لطف اندوز وہ لمحات گزرتے ہیں۔ ان کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ بھی شاید ناکافی ہے۔ تمام ساتھی اکٹھے کسی سفر پر نکلیں تو ہر کوئی اپنے سے باہر اور سیر حاصل گفتگو کا خواہش مند ہوتا ہے ۔فنی باتیں ‘کسی ساتھی کی کوئی چھوٹی سی لغزش اس کے لیے مصائب کے پہاڑ کھڑے کرنے کے مترادف ہوتی ہے ۔کوئی غلطی سے چاہے مذاق میں ہی کیوں نہیں کوئی بات چاہیے دو لفظ ’’اف ‘‘کے ہی کیوں نابول بیٹھےبس پھر اس کا سفر جیسے گزرتا ہے بس رہنے دیں۔اس بیچارے کا جینا محال کر دیتے ہیں ۔یہ سب ہنسی مذاق میں ہوتا ہے جبکہ ہر کسی کا دوسرے کے بارے میں دل صاف آئینے کی طرح ہوتا ہے ۔اتفاق سے 6/8/2017 اتوار کے دن راقم الحروف کو ایک کلاس فیلو (کنگن پور کے متصل گاؤں آرائیاں والا میں حافظ محمد عرفان ولد محمد انور )کی شادی پہ جانا تھا کہ رات ایک کلاس فیلو حافظ خالد محمود کی فون کال موصول ہوئی محترم نے راقم الحروف کو ساتھوں کے مشورے سے حکم نامہ جاری کیا کہ سب ساتھوں سے رابطہ کریں سفر کافی لمبا ‘ تقریبا 130 کلو میٹر ایک طرف کا ہے اور کنگن پورسے آگے کوئی سواری کا انتظام بھی نہیں ۔ سب کو جلدی واپس بھی آنا ہے بہتر ہے کسی گاڑی کا انتظام کر لیا جائے۔ محترم فاضل دوست کا حکم تھا کہ راقم الحروف نے فوری بھائی عبد المجیدشاہ جو کہ جامعہ میں ہی خدمت سر انجام دے رہے ہیں ان کی گاڑی(کیری ڈبہ) کی بکنگ کروا کرسب ساتھیوں کو اطلاع دی( کہ سبز گاڑی کروائی گئی ہے لیکن اس میں اے سی کا انتظام نہیں ہے کیونکہ قصور میں کافی سبزا ہوتا ہے اس لیے اے سی نہ بھی ہو تو کام چل جائے گا) اور روانگی کا شیڈول بتا دیا ۔ روانگی کا وقت بتا دیا گیا صبح کا سورج طلوع ہوا اتوار کا دن تھا کہ راقم الحروف نےاپنے فاضل ساتھی قاری محمد تنویرخاور حفظہ اللہ کو جامعہ لاہور الاسلامیہ سے ساتھ لیا جامعہ سے گاڑی پکڑی 10:40کے قریب دعوت ولیمہ کے لیے روانہ ہوئےباقی ساتھی جن میں حافظ خالد محمود ‘حافظ محمد شکیل‘ قاری خرم شہزاد‘ ڈولفن فورس میں سے فاضل دوست خالد عزیز صاحب کو چونگی امرسدھواسٹاپ سے ساتھ لیااور مصطفیٰ آباد للیانی سے فاضل بھائی حافظ محمد اکرام کو ساتھ لے کر اپنی منزل کی طرف چل دئیے۔ایک ساتھی پر کچھ اعتراضات باقی تھے کہ وہ بد قسمتی سے اس سفر میں ہمارے ساتھ تھا ۔ جیسے سب اکٹھے ہوئے کچھ پہلے لیٹ ہونے پر اس کی اصلاح کےلیے کچھ صدارتی اور ابتدائی کلمات کا ہدیہ سب نے مل کر پیش کیا ۔اس کے بعد پھر سب دوست تھے۔ اس بیچارے کا جرم ایک تو لیٹ ہونا تھا دوسرا جرم ذاتی مجبوریوں کی بنا پراپنے ساتھیوں سے لا تعلق رہنا تھا۔بس پھر چاروں طرف سے الفاظ کی ایسی برکھا برسی کہ اللہ میری توبہ ۔ ہر کسی نے سیر حاصل گفتگو کا خوب مظاہرہ کیا ۔کسی کے دل میں جوتھا بس ناآؤدیکھا نہ تاؤ بس جوتی سمیت چڑھ دوڑے۔پہلا اسٹاپ کھڈیاں خاص کا تھا گاڑی سے اترے پانی پیا اور پھر اپنی منزل کی طرف چل دیئے۔ٹھینگ موڑ میں فاضل ساتھی حافظ محمد شعیب انتظار کر رہےتھےکہ گاڑی دیکھتے ہی دیکھتے ٹھینگ موڑ پہنچی اس کو ساتھ لیا اور گنگن پور کی طرف روانہ ہو گے ۔ تقریبا دوپہر2:00بجےکا ٹائم تھا نمازِ ظہر ادا کی پانی پیا اور ساتھیوں کی مشاورت سے موقع اور وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دریائے ستلج کی سیر کاپروگرام بنا لیا ۔ایک دوست ان ساتھیوں میں چاٹی کی لسی پینے کے لیے ’’دیوانہ وار ‘‘ اپنی خواہش کا اظہار کر رہا تھا ۔اس کی خواہش کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ دریائے ستلج کے کنارے پہ ایک اڈھیر عمر تقریباً جس کی عمر 40سے 50 سال کے قریب تھی ۔گاڑی سے باہر جیسے کوئی نشئی نشہ نہ ملنے کی وجہ سے خود پر کنٹرول نہیں کر پاتا ایسے ہی وہ ساتھی ’’چاٹی کی لسی ‘‘کا مطالبہ اس اڈھیر عمر عورت سے کچھ مخصوص انداز میں کرنے لگا۔وہ مطالبہ کچھ ایسی جگہ پہ کر رہا تھا کہ چار سو ویران اور گنجان آباد علاقہ تھا۔ شاید کہ وہاں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ ہو۔ مگر اس کی طلب اسے یہ پوچھنے پر مجبور کرتی ہے تو اس نے اس اڈھیر عمر عورت سے گاڑی سے باہر نکل کرکچھ اس انداز میں اس عورت کو مخاطب کیا کہ ’’خالہ چاٹی کی لسی مل جائے گی۔‘‘؟وہ بیچاری اس کی طرف حیرت سے دیکھنے لگی ۔بس جیسے میں پہلے کہہ چکا ہو کہ جب سب ساتھی اکٹھے ہو اور کوئی ایک ذرا سی با ت کہہ بیٹھے اگرچہ یہ ایک بہت ہی افسوس ناک بات تھی کے گنجان آباد علاقے میں نوجوان لڑکوں کا قافلہ ہ ہو چٹیل میدان میں جہاں پانی کا دور دور تک کوئی نشان بھی نہ ہو وہاں موجود کسی مصیبت زدہ سے پانی کی فرمائش کرنے کے مترادف تھا ۔ بس اس کا یہ پوچھنا تھا کہ ساتھیوں کے تنقیدی الفاظ کی ایسی فائرنگ ہو ئی کہ دریائے ستلج کا ساحل جو کسی سفری ٹوور کی حیثیت رکھتا ہے جہاں ہر کوئی خوش گوار موڑ میں ہوتا ہے ۔میدان جنگ بن گیا الفاظ کی تلخی اور گفتگو کے تبادلہ نے خوش گوار سفر کو گمسان کی لڑائی میں بدل کر رکھ دیا۔جیسے اس خوش گوار سفر کو نظر لگ گئی ہو۔ خیر سب نے مل کر مخاصمت کو مفاہمت میں بدل دیا ۔مگر وہ ساتھی تھا کہ ایک چوری دوسرا سینہ زوری ‘‘وہ ڈٹ گیا کہ میری والدہ کی عمر کی ہے میں نے کوئی مذاق کیا ہے میں نے کونسا جرم کر لیا ہے مزید کچھ برداشت کرنے سے قاصر تاویلات پر اتر آیا اورجیسے ڈوبتا تنکے کا سہارا لینے کی کوشش کرتا ہے ۔خیردریائے ستلج کے ساحل پر پہنچے گاڑی کھڑی کی ۔ کچھ تصویریں بنائیں وقت تیزی سے سمٹ کر کھانے کی طرف جا رہا تھا بس بھوک کی شدت اور دعوت سے لیٹ ہونے کا اندیشہ کچھ عرفان بھائی کی طرف سے بار بار کھانا لگنے کی کالیں آ رہی تھیں چند منٹ ٹھہرے اور اصل مقصد کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہمارے جانے سے چند منٹ پہلے کھانا لگایا جارہا تھا ۔ اللہ کی توفیق سے وقت پر پہنچے عرفان بھائی کو ملے جو نکاح پڑھا جانے کے بعد کھانے میں مصروف تھے۔ ملے خیرت دریافت کی اور انہوں نےشاندار انداز میں استقبال کیا۔ جلدی سے بیٹھے کھانا کھایا فارغ ہوئے اور عرفان بھائی کو ملنےکےبعد ان کے والد محترم کو ملے ۔راقم الحروف نے سفر کی نحوست کو دور کرنے کی غرض سےعرفان بھائی کے والد محترم کو ہنسی میں کہا کہ چاچوں جی عرفان بھائی کو چاٹی کی لسی پلایا کرو وہ درویش آدمی کیا جانے کہ یہ کہاں سے بول رہے ہیں۔ سادہ انداز میں کہنے لگے ’’پتر چاٹی دی لسی تے روز کار بندی اے مگراے نہیں پیندا تے ایندہ کی کریے اینوبڑا آکھی دا اے مگر نہیں پیندا تے پھر ایندی مرضی ‘‘بزرگوں کا اتنا کہنا تھا کہ سب زور زور سے ہنسنے لگے دل سے کدورت اور نفرت وہاں ہی دفن کی ‘ روانگی کی اجازت مانگی اور واپس اپنی اصل منزل کی طرف روانہ ہوگے ۔ راقم الحروف کا کیونکہ گھر ٹھینگ موڑ میں تھا گھر والوں کے اسرار پرکہ کافی دیر ہو گئی گھر آئے اب گھر سے ہو کر جانا ۔ ٹھینگ موڑ پہنچے راقم الحروف سب ساتھیو ں کو الوداع کہہ کر گھر کی طرف چل نکلے اور چاٹی کی لسی شرمندہ خواب بن کر رہ گئی اور سوائےحسرت کے کچھ ہاتھ نہ آیا ۔
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
دلچسپ سفرنامہ ۔
ٹیم : ٹائم : وقت
 
Top