• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سفر نامہ ظفر: امرودکےباغ کی سیر(ظفر اقبال ظفر)

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
سفر نامہ ظفر: امرودکےباغ کی سیر
یوں تو اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت ہی اپنی جگہ خاص اہمیت کی حامل ہے۔ نعمتو ں میں ایک نعمت پھل اور پھلوں میں امرود بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دوسری طرف جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت دی ہے کہ امرود کا اپنا ذاتی باغ ہو اور اس کی عمر ہی امرود کے باغات میں گزری ہو تو پھر یہ کسی دلچسپی سے کم نہیں ہوتا ۔لمحہ بہ لمحہ گزرے اوقات یاد آتے وہ لمحات ماضی کی یادیں تازہ کرنے کے لیے انسانی فطرت کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔ مذکورہ سفر نامہ بھی اسی فطرت انسانی کی تکمیل کی ہی ایک کڑی ہے۔راقم الحروف کی عمر کا ایک بڑا حصہ ذاتی امرود کے باغات میں گزرا ہے جوکہ راقم الحروف کے آبائی گاؤں بستی فتح والی (تحصیل چونیاں ضلع قصور )جس کے مشرق کی جانب منڈی عثمان والا اور مغرب کی جانب داوکے کلاں واقع ہے ۔بستی فتح والی ایک شخص فتح محمد جو کے داوکے کلاں میں رہنے والے تھے سکھوں سے تنگ جوکہ قربانی کے وقت گائے کی قربانی سے مسلمانوں کو تکلیفیں دیتے داوکے کلاں چھوڑ کر اس کے مشرق کی جانب اپنی زمین میں رہاش تعمیر کر کے رہائش پزیر ہوئے اور ڈنکے کی چوٹ پر گائے کی قربانی کرنے لگے۔ ان کو دیکھ کر مسلمان اور ان کے رشتہ دار ان کی طرف اپنی رہائش منتقل کرتے گئے آخر کار یہ ایک بڑا گاؤں بن گیا جس کو اسی فتح محمد سےمنسوب بستی فتح والی کانام دے دیا گیا ۔راقم الحروف کے دادکے اور نانکے اسے داؤکے کلاں کے رہنے والے تھے جو کہ بعد میں بستی فتح والی اپنی زمیں پر منتقل ہو گے۔آج کل راقم الحروف کا گاؤں ایک بڑی آبادی والا گاؤں ہے جس میں دو مسجدیں دونوں اہل حدیث مسلک کی ہیں۔راقم الحروف کا سارا دادکا خاندان ابھی تک اسی گاؤں میں ایک بڑی تعداد سے رہائش پزیرہے ۔ راقم الحروف دادا جان کی وراثتی زمین جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ امرود کے باغ پر مشتمل ہے۔میرے دادا جان اور والد کی تقربیا عمر کینوں کے ذاتی باغ میں گزری ہے جو کہ 4سے 5 ایکڑپر مشتمل تھا۔ راقم الحروف کی چھوٹی عمر میں کاٹ کر امرود کے باغ میں تبدیل کر دیا گیا ۔ابھی تک ایک معروف باغ ( وہابیوں والے باغ ) کے نام سے علاقے میں شہرت کاحامل ہے ۔
لفظ وہابی کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ میرے دادا جان چار بھائی (محمداسحاق ۔محمد بشیر۔محمدیعقوب۔محمدابراہیم تھے )جن میں میرے دادا جان محمد یعقوب جوکہ پانچ وقت نماز کی پابندی ‘تہجد گزاری ۔نوافل ۔اور خوشی وغمی کے موقع پر ہر قسم کے رسم ورواج کے سخت مخالف ہونے کی وجہ سےعلاقے میں عموما اور خاندان میں خصوصا یعقوب وہابی کے نام سے معروف ہوئے ۔اسی طرح میرے والد محترم تین بھائی تھے (محمد یحیی۔محمد یونس ۔ محمد یوسف) میرے والد گرامی محمد یوسف بھی والد محمد یعقوب کی سیرت و کردار کی وجہ سے نماز کی پابندی ‘ رسم و رواج سے پاک زندگی گزارنے کی وجہ سے محمد یوسف وہابی کے نام سے معروف ہوئے۔ اسی طرح راقم الحروف 7 بھائی وہابی کے نام سے معروف ہوئے لوگ چھوٹے بڑے وہابی کے لفظ سے ابو اور ہم میں پہچان کرتے ہیں۔ میرے دادا جان کا باغ بھی وہابیوں والا باغ کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔ باغات شہری زندگی کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے شہری لوگ سیروسیاحت کےلیے ہر خاص و عام موقع پر ان باغات کا رخ کرتے ہیں۔ راقم الحروف بمع فیملی 2007میں اپنے آبائی گاؤں بستی فتح والی سے ٹھینگ موڑ آلہ آباد دیپالپور روڈ محلہ رحمانپورہ منتقل ہوگئے۔جبکہ زمین جوکہ امرود کے باغ پر مشتمل ہے ٹھیکے پر دے آئے ۔راقم الحروف لاہور منتقلی کے بعد شاید سالہہ سال اپنے آبائی گاؤں نہیں جا تا جس کی وجہ شاید ٹھینگ موڑ سے تقریبا 30 کلو میٹر ایک طرف طویل سفر ہے۔ ماضی قریب میں راقم الحروف کی شادی 4/11/2017کو منڈی سرائے مغل ہوئی ۔گزشتہ 28 دسمبر 2017 بروز جمعرات لاہور سے گھر چھٹی پر گئے ہوئے تھے کہ سسرال کی طرف سے تین بہنیں‘ایک بھائی (حمزہ) ملنے کے لیے ٹھینگ موڑ جمعرات کی شام کو پہنچے میل جول کے بعد رات ہنسی خوشی گزاری صبح کی نماز ادا کی 29/12/2017 بروز جمعہ ناشتہ کیا اور راقم الحروف گھر والوں کے مشورہ سےبمع مہمان گرامی باغ کی سیر کے لیے رکشہ پر سوار تقریبا 11:30 جمعہ سے قبل گھر سے نکلےسفر باغ کیطرف تیزی سے سمٹ رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتےقافلہ جوکہ تین بہنوں تین بھائیوں ایک بھانجی ام عمارہ ‘فیملی پر مشتمل تھا۔باغ میں جا پہنچا رکشہ کھڑا کیا اور سب خوشی خوشی نیچے اوتر ے اور باغ میں داخل ہوگے۔ چچا جان کےباغ میں پانی والی موٹر اور اس کے گرد گلاب کے پودے جوکہ محبت اور پیار کی علامت ہماری ثقافت کا حصہ ہیں سیر وسیاحت پر گئے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے لگے۔ قافلے کےتمام شرکاء ان گلاب کے پھولوں کی جانب کیھنچے چلے گئے پھول جوکہ باغ کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں شرکاء نے توڑے مختلف انداز میں سیلفیاں لیں اورتصویریں دل کھول کر بنائیں ۔ باغ کے چاروں طرف کھیت اور دیگر رشتہ داروں کے باغات بھی واقع تھے۔ باغ میں میتھی کی فصل بوئی ہوئی تھی۔ساتھ والے باغ میں سرسوں کی فصل اور مولیاں جوکہ ایک سبزی اورسلاد میں خاصی حثیت رکھتی ہے بوئی گئی تھیں۔جیسے ہی سب باغ میں داخل ہوئے اپنے ہاتھوں سے امرود درختوں سے ٹوڑکر کھانے اور سیلفیاں لینے میں سب مشغول ہو گے ۔کافی وقت وہا ں ہنسی خوشی گزارنے کے بعد مہمانوں کے لیے امرود توڑے اور راقم الحروف کے نئے باغ جوکہ ایک ایکڑ جس میں گندم کی فصل بوئی ہوئے ہے واہاں داخل ہوئے۔ پودے ابھی نئے ہیں جن کی عمر تقریبا 2 سال ہےپھل کا آغاز کر چکے ہیں اس میں قافلہ داخل ہوا تصویریں بنائیں نئے پھل توڑ کر کھانے میں مشغول ہو گے ۔ابھی کھل کر سیاحت کا شوق پورا نہیں ہوا تھا کہ واپسی کا ارادہ بنایا کیوں کے مہمانوں نے واپس سرائے مغل بھی جانا تھا ۔تو رکشہ پر بیٹھے واپسی گھر کی طرف روانہ ہو گے ۔ہر کوئی خوشی سے سرشار تھا سفر کی تھکاوٹ اپنی جگہ اورسیاحت کا لطف اپنی جگہ چونکہ علاقہ باغات اور دونوں طرف سے بڑی چھوٹی نہر میں لپٹا ہوا ہے سبزا اور کسان کھیتوں میں مشغول سیاحت کو مزید لطف اندوز کر دیتے ہیں ۔سب شام 4 بجے ٹھینگ موڑ گھر واپس پہنچے اورمہمانوں نے ظہر عصر کی نماز ادا کی اور اپنے گھر منڈی سرائے مغل کی طرف روانہ ہو گے ۔
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
سفر نامہ ظفر: امرودکےباغ کی سیر
تو اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت ہی اپنی جگہ خاص اہمیت کی حامل ہے۔ نعمتو ں میں ایک نعمت پھل اور پھلوں میں امرود ب بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔دوسری طرف جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت دی ہے کہ امرود کا اپنا ذاتی باغ ہو اور اس کی عمر ہی امرود کے باغات میں گزری ہو تو پھر یہ کسی دلچسپی سے کم نہیں ہوتا ۔لمحہ بہ لمحہ گزرے اوقات یاد آتے وہ لمحات ماضی کی یادیں تازہ کرنے کے لیے انسانی فطرت کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔ مذکورہ سفر نامہ بھی اسی فطرت انسانی کی تکمیل کی ہی ایک کڑی ہے۔راقم الحروف کی عمر کا ایک بڑا حصہ ذاتی امرود کے باغات میں گزرا ہے جوکہ راقم الحروف کے آبائی گاؤں بستی فتح والی (تحصیل چونیاں ضلع قصور )جس کے مشرق کی جانب منڈی عثمان والا اور مغرب کی جانب داوکے کلاں واقع ہے ۔بستی فتح والی ایک شخص فتح محمد جو کے داوکے کلاں میں رہنے والے تھےتو سکھوں سے تنگ جوکہ قربانی کے وقت گائے کی قربانی سے مسلمانوں کو تکلیفیں دیتے داوکے کلاں چھوڑ کر اس کے مشرق کی جانب اپنی زمین میں رہاش تعمیر کر کے رہائش پزیر ہوئے اور ڈنکے کی چوٹ پر گائے کی قربانی کرنے لگے۔ ان کو دیکھ کر مسلمان اور ان کے رشتہ دار ان کی طرف اپنی رہائش منتقل کرتے گئے آخر کار یہ ایک بڑا گاؤں بن گیا جس کو اسی فتح محمد سےمنسوب بستی فتح والی کانام دے دیا گیا ۔راقم الحروف کے دادکے اور نانکے اسے داوکے کلاں کے رہنے والے تھے جو کہ بعد میں بستی فتح والی اپنی زمیں پر منتقل ہو گے ۔آج کل راقم الحروف کا گاؤں ایک بڑی آبادی والا گاؤں ہے جس میں دو مسجدیں دونوں اہل حدیث مسلک کی ہیں۔راقم الحروف کا سارا دادکا خاندان ابھی تک اسی گاؤں میں ایک بڑی تعداد سے رہائش پزیرہے ۔ راقم الحروف دادا جان کی وراثتی زمین جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ امرود کے باغ پر مشتمل ہے۔میرے دادا جان اور والد کی تقربیا عمر کینوں کے ذاتی باغ میں گزری ہے جو کہ 4سے 5 ایکڑپر مشتمل تھا۔ راقم الحروف کی چھوٹی عمر میں کاٹ کر امرود کے باغ میں تبدیل کر دیا گیا ۔ابھی تک ایک معروف باغ ( وہابیوں والے باغ ) کے نام سے علاقے میں شہرت کاحامل ہے ۔
لفظ وہابی کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ میرے دادا جان چار بھائی (محمداسحاق ۔محمد بشیر۔محمدیعقوب۔محمدابراہیم تھے )جن میں میرے دادا جان محمد یعقوب جوکہ پانچ وقت نماز کی پابندی ‘تہجد گزاری ۔نوافل ۔اور خوشی وغمی کے موقع پر ہر قسم کے رسم ورواج کے سخت مخالف ہونے کی وجہ سےعلاقے میں عموما اور خاندان میں خصوصا یعقوب وہابی کے نام سے معروف ہوئے ۔اسی طرح میرے والد محترم تین بھائی تھے (محمد یحیی۔محمد یونس ۔ محمد یوسف) میرے والد گرامی محمد یوسف بھی والد محمد یعقوب کی سیرت و کردار کی وجہ سے نماز کی پابندی ۔رسم و رواج سے پاک زندگی گزارنے کی وجہ سے محمد یوسف وہابی کے نام سے معروف ہوئے اسی طرح راقم الحروف 7 بھائی وہابی کے نام سے معروف ہوئے لوگ چھوٹے بڑے وہابی کے لفظ سے ابو اور ہم میں پہچان کرتے ہیں ۔میرے دادا جان کا باغ بھی وہابیوں والا باغ سے شہرت رکھتا ہے ۔ باغات شہری زندگی کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے شہری لوگ سیروسیاحت کےلیے ہر خاص و عام موقع پر ان باغات کا رخ کرتے ہیں۔ راقم الحروف بمع فیملی 2007میں اپنے آبائی گاؤں بستی فتح والی سے ٹھینگ موڑ آلہ آباد دیپالپور روڈ محلہ رحمانپورہ منتقل ہوگئے۔جبکہ زمین جوکہ امرود کے باغ پر مشتمل ہے ٹھیکے پر دے آئے ۔راقم الحروف لاہور منتقلی کے بعد شاید سالہہ سال اپنے آبائی گاؤں نہیں جا تا جس کی وجہ شاید ٹھینگ موڑ سے تقریبا 30 کلو میٹر ایک طرف طویل سفر ہے ۔ماضی قریب میں راقم الحروف کی شادی 4/11/2017کو منڈی سرائے مغل ہوئی ۔گزشتہ 28بتاریخ /12/2017 بروز جمعرات لاہور سے گھر چھٹی پر گئے ہوئے تھے کہ سسرال کی طرف سے تین بہنیں‘تین بھائی (حمزہ۔عثمان ۔وقار یوسف) ملنے کے لیے ٹھینگ موڑ جمعرات کی شام کو پہنچے میل جول کے بعد رات ہنسی خوشی گزاری صبح کی نماز ادا کی 29/12/2017 بروز جمعہ ناشتہ کیا اور راقم الحروف گھر والوں کے مشورہ سےبمع مہمان گرامی باغ کی سیر کے لیے رکشہ پر سوار تقریبا 11:30 جمعہ سے قبل گھر سے نکلےسفر باغ کیطرف تیزی سے سمٹ رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے قافلہ جوکہ تین بہنوں تین بھائیوں ایک بھانجی ام عمارہ ‘فیملی پر مشتمل تھا۔باغ میں جا پہنچا رکشہ کھڑا کیا اور سب خوشی خوشی نیچے اوتر ے اور باغ میں داخل ہوگے۔ چچا جان کےباغ میں پانی والی موٹر اور اس کے گرد گلاب کے پودے جوکہ محبت اور پیار کی علامت ہماری ثقافت کا حصہ ہیں سیر وسیاحت پر گئے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے لگے۔ قافلے کےتمام شرکاء ان گلاب کے پھولوں کی جانب کیھنچے چلے گئے پھول جوکہ باغ کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں شرکاء نے توڑے مختلف انداز میں سیلفیاں لیں اورتصویریں دل کھول کر بنائیں ۔ باغ کے چاروں طرف کھیت اور دیگر خاندان میں سے رشتہ داروں کے باغات بھی واقع تھے باغ میں میتھی کی فصل بوئی ہوئی تھی ۔ساتھ والے باغ میں سرسوں کی فصل اور مولیاں جوکہ ایک سبزی اورسلاد میں خاصی حثیت رکھتی ہے بوئی گئی تھیں۔جیسے ہی سب باغ میں داخل ہوئے اپنے ہاتھوں سے امرود درختوں سے ٹوڑکر کھانے اور سیلفیاں لینے میں سب مشغول ہو گے ۔کافی وقت وہا ں ہنسی خوشی گزارنے کے بعد مہمانوں کے لیے امرود توڑے اور راقم الحروف کے نئے باغ جوکہ ایک ایکڑ جس میں گندم کی فصل بوئی ہوئے ہے واہاں داخل ہوئے پودے ابھی نئے ہیں جن کی عمر تقریبا 2 سال ہےپھل کا آغاز کر چکے ہیں اس میں قافلہ داخل ہوا تصویریں بنائیں نئے پھل توڑ کر کھانے میں مشغول ہو گے ۔ابھی کھل کر سیاحت کا شوق پورا نہیں ہوا تھا کہ واپسی کا ارادہ بنایا کیوں کے مہمانوں نے واپس سرائے مغل بھی جانا تھا ۔تو رکشہ پر بیٹھے واپسی گھر کی طرف روانہ ہو گے ۔ہر کوئی خوشی سے سرشار تھا سفر کی تھکاوٹ اپنی جگہ اورسیاحت کا لطف اپنی جگہ چونکہ علاقہ باغات اور دونوں طرف سے بڑی چھوٹی نہر میں لپٹا ہوا ہے سبزا اور کسان کھیتوں میں مشغول سیاحت کو مزید لطف اندوز کر دیتے ہیں ۔سب شام 4 بجے ٹھینگ موڑ گھر واپس پہنچے اورمہمانوں نے ظہر عصر کی نماز ادا کی اور اپنے گھر منڈی سرائے مغلکی طرف روانہ ہو گے ۔
عمدہ۔ جزاک اللہ
 
Top