• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلامتی کونسل کی غیرمستقل نشست سے سعودی عرب کا انکار:جوہات پر ایک نگاہ

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کہتے ہیں عرب اونٹ کی طرح ہوتے ہیں اگر مان جائیں تو بچہ بھی مہارپکڑ کر جدھرچاہے کھینچتاپھرے اوراگربگڑجائیں توپھر کسی سے سنبھلنامشکل۔ اس کا مظاہرہ خلیج کے عرب حکمراں وقتافوقتا کرتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ قذافی امریکہ کو دھمکیاں دیتے پھرتے تھے اورایک زمانہ یہ بھی آیاکہ انہوں نے نہ صرف امریکہ کو یہ بھی بتادیاان کو جوہری بم بنانے کی مدد کہاں کہاں سے ملی ہے۔ ایک وقت تھاکہ سعودی عرب خطے میں امریکہ کا سب سے بڑاحلیف تھا اوراب بھی ہے لیکن شام کے مسئلہ پر امریکہ سے ناراض ہوکر سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی عارضی رکنیت سے ہی انکار کردیاہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلامتی کونسل میں سعودی عرب کو رکنیت ملناامریکہ کے ہی اشارہ پر تھا ورنہ اس سے قبل سعودی عرب کبھی کا سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کرچکاہوتا جب کہ ماضی میں اس نے متعدد بار اس کی کوشش بھی کی تھی لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر اس کو محروم ہی رکھاگیا۔اب جب کہ سعودی عرب امریکہ سے ناراض ہے تو سعودی حکمراں کومنانے کیلئے امریکہ نے سلامتی کونسل کی رکنیت کا شیرہ لگایاہے۔

سعودی عرب نے رکنیت مسترد کرنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اقوام متحدہ دوہرامعیار رکھتاہے اوراقوام متحدہ عالمی تنازعات میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہاہے ۔سعودی عرب نے مزید کہاکہ اقوام متحدہ نے شام کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرکے شامی حکمراں بشارالاسد کو اپنے ہی عوام کو قتل کرنے کا لائسنس دے دیاہے۔

سعودی عرب کے اس اقدام کوجہاں سعودی نواز حضرات اسلام کی بڑی خدمات ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہیں فریق مخالف اس میں سازش کی بوڈھونڈرہاہے کہ سلامتی کونسل کا رکن بننے کے بعدعالمی تناظر میں ایسے مرحلے ضرور آتے جہاں سعودی عرب کوامریکہ سے مخالفت مول لینی پڑتی۔ حلیف ہونے کی وجہ سے امریکی مخالفت مول لینے کی ہمت نہیں رکھتا اوراگرمخالفت نہ کرے توپھردنیا بھر کے سنی مسلمانوں میں اس کی شبیہ مجروح ہوتی۔ اس الجھن سے بچنے کیلئے اس نے بہتریہی سمجھاکہ اقدام متحدہ پر تنقید کرکے سلامتی کونسل کا رکن بننے سے گریز کیاجائے۔

یہ نظریہ متعدد وجوہ کی بناء پرغلط ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سعودی عرب خود ایک طویل عرصے سے سلامتی کونسل کارکن بننے کا خواہش مند ہے۔ اگریہی بات ہوتی تو وہ طویل عرصہ سے سلامتی کونسل کا رکن بننے کا خواہشمند نہ ہوتا اوراس کیلئے سفارتی سرگرمیاں نہ چلاتا۔

حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب،امریکہ اورترکی کایہ خیال تھاکہ بشارالاسد بھی معمولی مزاحمت کے بعد مصر کے ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی طرح اقتدار سے دستبردار ہوجائیں گے۔ انہیں اس کا خیال نہیں تھاکہ شام میں یہ جنگ فرقہ وارانہ حیثیت اختیار کرلے گی اورایران بھی اس کا ایک فریق بن جائے گا اورشام کی مدد کیلئے روس اپنی پوری طاقت جھونک دے گا۔

سعودی عرب کو سلامتی کونسل میں روس اورچین کے مخالفانہ رخ اورسلامتی کونسل کی کسی بھی ایسی قرارداد جس میں شام کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان ہوروس کے ویٹو کردینے کے اعلان کے بعد امریکہ سے امید تھی کہ وہ شام کے خلاف کارروائی کرے گا اوربشارالاسد کو تختہ اقتدار سے ہٹاکر دم لے گا۔لیکن گھریلومحاذ پر داخلی الجھنوں ،افغانستان سے باعزت نکلنے کی الجھن نے اس کو کسی بھی ایسے اقدام سے بازر کھا۔پھر مزید یہ کہ شام نے کیمیائی ہتھیار تباہ کرنے پر ضامندی ظاہر کرکے امریکہ سے حملہ کا جواز چھین لیا ۔سعودی عرب کا سلامتی کونسل کی رکنیت سے انکار دراصل یہی جھنھلاہٹ ہے کہ وہ عالمی فورم پر اپنی شکست برداشت نہیں کرپارہاہے اورخاص طورپر شام کے باغیوں کے تعلق سے اب اس کی پوزیشن مزید نازک ہوگئی ہے۔


سعودی عرب اورایران شام کے مسئلہ پر نمایاں کردار اداکرسکتے ہیں۔ اورسب سے بہتر طریقہ جس سے شامی عوام کی زندگی محفوظ ہو اوران کا ملک مزید کھنڈر بننے سے بچارہے۔ یہی ہے کہ سعودی عرب باغیوں کوہتھیار ڈالنے پر مجبور کرے اورایران بشارالاسد کو راضی کرے کہ وہ منصفانہ اورعالمی نگرانی میں انتخابات کرائیں اوریوں شام کے عوام کو موقع دیاجائے کہ وہ اپنامستقبل خود طے کریں۔ ورنہ شام بتدریج ایک ایسے کھنڈر میں تبدیل ہوجائے گا جہاں انسان نہیں ہوں گے صرف چیل اورگدھ اورمردہ لاشیں ہوں گی اور تباہ وبرباد عمارتیں ہوں گی ۔پھر آگے چل کر چاہے سعودی عرب کی فتح ہویاایران کی ۔لیکن ان کے حصے میں جوشام آئے گا وہ ایک تباہ شدہ شام ہوگا ۔



جہاں تک اقوام متحدہ پر سعودی عرب کی تنقید کا معاملہ ہے تو یہ محض دریا میں پتھر پھینکنا ہے جس سے لہریں ضرور بنتی ہیں لیکن یہ لہریں کسی تبدیلی کاپیش خیمہ نہیں ہوتیں۔عالمی ادارہ میں اس تنقید سے کوئی تبدیلی آئے گی یہ سوچنابھی مضحکہ خیز ہے۔ اوراگرسعودی عرب کو واقعتا اقوام متحدہ میں کسی تبدیلی کی خواہش ہے اوراس کو کارگرد کرناچاہتاہے توپھراسے چاہئے کہ دنیا بھر میں اپنے تیل کی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر اس سمت کوشش کرے۔ ورنہ ساٹھ سال کے عرصہ میں اقوام متحدہ پر سعودی عرب کی پہلی تنقید (جب کہ اس سے قبل امت اسلامیہ پر بڑے بڑے سانحات گزرچکے ہیں )پر یہی کہاجائے گاکہ یہ سعودی عرب کی سفارتی شکست کی جھینپ مٹانے کی ایک کوشش تھی اوربس۔
 
Top