محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً يَّكُنْ لَّہٗ نَصِيْبٌ مِّنْھَا۰ۚ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَيِّئَۃً يَّكُنْ لَّہٗ كِفْلٌ مِّنْھَا۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيْتًا۸۵ وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّۃٍ فَحَيُوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا۸۶ اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۰ۭ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ لَا رَيْبَ فِيْہِ۰ۭ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِيْثًا۸۷ۧ
۲؎ تحیۃ کے معنی اصل میں کلمات دعائیہ کے ہیں۔ جن میں مخاطب کی درازی عمر مقصود ہو۔اسلامی اصطلاح میں مراد السلام علیکم کہنا ہے ۔
بات یہ ہے کہ جہا د میں بعض دفعہ مسلمان باوجود السلام علیکم سننے کے مخاطب کو تلوار کے گھاٹ اتاردیتے ۔ اس شبہ میں کہ یہ کہیں منافق نہ ہو۔قرآن حکیم نے فرمایا۔ جو شخص تمھیں سلام کہے۔ تمہارا فرض ہے کہ اسے مسلمان سمجھو اور اسے اس سے بہتر ہدیۂ سلام پیش کرو۔یعنی مسلمان کو کسی حالت میں بھی زیبا نہیں کہ وہ سوء ظن سے کام لے اور خواہ مخواہ مسلمانوں کو کافرسمجھے۔ ہر وہ شخص جو اسلام کا اظہار کرتا ہے ، مسلمان ہے ۔باہمی ملاقات کے وقت یہ لفظ اسلام نے ایسا تجویز کیا ہے جو بے حد موزوں ہے اور مشرقی لٹریچر کا جزو بن گیا ہے ۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اسلام دنیا کا کامل ترین مذہب ہے ۔
۳؎ اس آیت کا ماقبل کے ساتھ ایک لطیف ربط ہے اور وہ یہ کہ سابقہ آیت میں شغل تکفیر سے منع کیا ہے اورکہا ہے کہ ہروہ شخص جو ہدیۂ سلام پیش کرتا ہے ،زائد از زائد عزت واکرام کا مستحق ہے ۔تم مجاز نہیں کہ اسے غیر مسلم یا منافق سمجھو۔
اللہ لاالہٰ الا ھو کہہ کر اس مفہوم کی تائید فرمائی ہے یعنی جب خدا وہ ہے جس کی پرستش ضروری ہے اورجو علام الغیوب ہے توتمھیں کیا حق حاصل ہے کہ کسی کے باطن کے متعلق فیصلہ کرو اورخواہ مخواہ ناجائز بدظنی سے کام لو۔ تم کسی کے خدا نہیں کہ جسے کافر کہہ دو،کافر ہوجائے۔لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ میں زجر وتوبیخ ہے ان لوگوں کے لیے جوخدائی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ظاہر ہے کفرواسلام کا صحیح اورسچا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ، اس لیے تکفیر میں حتی الوسع محتاط سے رہناچاہیے۔
۱؎ شفع ووترجوڑا اور ایکائی کوکہتے ہیں۔ شفاعت کے معنی ہیں کسی دوسرے کے ساتھ ہو کر کسی مسئلے کو طے کرنے کے۔آیت کا مقصد یہ ہے کہ اچھی باتوں کی طرف لوگوں کو مائل کرنا اچھی بات ہے اور برائی کی طرف دعوت دینا برا ہے۔یعنی جہاد کی ترغیب واشاعت ازقبیل حسنات ہے اور وہ لوگ جو مسلمانوں کو کسل ودون ہمتی کی تعلیم دیتے ہیں مجرم ہیں۔جوکوئی بھلی بات میں ۱؎سفارش کرے گا اس کو اس میں سے حصہ ملے گا اور جو کوئی بری بات میں سفارش کرے گا اس پر اس سے ایک بوجھ ہو گا اور اللہ ہرشے کا نگہبان ہے۔(۸۵)اورجب تم دعا۲؎سلام کیے جاؤ تو اس کا جواب دعا کے ساتھ اس سے بہتر لفظوں میں دویا وہی لفظ واپس کرو۔ بیشک خدا ہرشے کا حساب لینے والا ہے ۔(۸۶) اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں۳؎ وہ تم کو قیامت کے دن کہ جس میں شک نہیں ہے جمع کرے گا اوراللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہے ؟(۸۷)
سلام
۲؎ تحیۃ کے معنی اصل میں کلمات دعائیہ کے ہیں۔ جن میں مخاطب کی درازی عمر مقصود ہو۔اسلامی اصطلاح میں مراد السلام علیکم کہنا ہے ۔
بات یہ ہے کہ جہا د میں بعض دفعہ مسلمان باوجود السلام علیکم سننے کے مخاطب کو تلوار کے گھاٹ اتاردیتے ۔ اس شبہ میں کہ یہ کہیں منافق نہ ہو۔قرآن حکیم نے فرمایا۔ جو شخص تمھیں سلام کہے۔ تمہارا فرض ہے کہ اسے مسلمان سمجھو اور اسے اس سے بہتر ہدیۂ سلام پیش کرو۔یعنی مسلمان کو کسی حالت میں بھی زیبا نہیں کہ وہ سوء ظن سے کام لے اور خواہ مخواہ مسلمانوں کو کافرسمجھے۔ ہر وہ شخص جو اسلام کا اظہار کرتا ہے ، مسلمان ہے ۔باہمی ملاقات کے وقت یہ لفظ اسلام نے ایسا تجویز کیا ہے جو بے حد موزوں ہے اور مشرقی لٹریچر کا جزو بن گیا ہے ۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اسلام دنیا کا کامل ترین مذہب ہے ۔
شغل تکفیر
۳؎ اس آیت کا ماقبل کے ساتھ ایک لطیف ربط ہے اور وہ یہ کہ سابقہ آیت میں شغل تکفیر سے منع کیا ہے اورکہا ہے کہ ہروہ شخص جو ہدیۂ سلام پیش کرتا ہے ،زائد از زائد عزت واکرام کا مستحق ہے ۔تم مجاز نہیں کہ اسے غیر مسلم یا منافق سمجھو۔
اللہ لاالہٰ الا ھو کہہ کر اس مفہوم کی تائید فرمائی ہے یعنی جب خدا وہ ہے جس کی پرستش ضروری ہے اورجو علام الغیوب ہے توتمھیں کیا حق حاصل ہے کہ کسی کے باطن کے متعلق فیصلہ کرو اورخواہ مخواہ ناجائز بدظنی سے کام لو۔ تم کسی کے خدا نہیں کہ جسے کافر کہہ دو،کافر ہوجائے۔لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ میں زجر وتوبیخ ہے ان لوگوں کے لیے جوخدائی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ظاہر ہے کفرواسلام کا صحیح اورسچا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ، اس لیے تکفیر میں حتی الوسع محتاط سے رہناچاہیے۔