• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلسله احاديث صحيحه: کتب/ابواب احادیث سوانح حیات محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ الله کل احادیث 4035

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
باب نمبر 1۔
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
باب: اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور وسیع بادشاہت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 1
عبیداللہ بن مقسم کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتار رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لے گا اور کہے گا: میں اللہ ہوں، پھر انگلیوں کو کھولے گا اور بند کرے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں جھومنے لگ گئے، حتی کہ میں نے دیکھا کہ منبر بھی ہچکولے کھانے لگ گیا اور مجھے یہ وہم ہونے لگا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا ہی نہ دے“۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3196
باب: اللہ تعالیٰ کے لامتناہی خزانے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 2
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، ہمہ وقت خرچ کرتے رہنے سے اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔ کیا تم اس کا اندازہ لگا سکتے ہو، جو کچھ اس نے زمین و آسمان کی تخلیق (سے لے کر اب تک) خرچ کیا؟ اس سے بھی اس کے دائیں ہاتھ (میں موجود خزانوں میں) کوئی کمی نہ آ سکی اور اس کا عرش پانی پر تھا اور دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے، جسے وہ (کسی کے حق میں) اٹھاتا ہے اور (کسی کے حق میں) جھکاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3550
باب: امور کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت کار فرما ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 3
جہینہ قبیلے کی خاتون سیدہ قتیلہ بنت صیفی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: تم لوگ شرک کرتے ہو، کیونکہ تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور تم چاہو اور تم کعبہ کی قسم اٹھاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا: ”تم کہا کرو: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو اور قسم اٹھاتے وقت کہا کرو: رب کعبہ کی قسم“۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 136
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 4
سیدہ قتیلہ بنت صفی جہنیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! تم بہترین لوگ ہو، لیکن کاش کہ تم شرک نہ کرتے ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! (بڑا تعجب ہے) وہ کیسے؟“ اس نے کہا: جب تم قسم اٹھاتے ہو تو کہتے ہو: کعبہ کی قسم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اب جو آدمی بھی قسم اٹھائے وہ کعبہ کے رب کی قسم اٹھائے (نہ کہ کعبہ کی)۔“ اس نے پھر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم بڑے اچھے لوگ ہو، لیکن کہ کاش کہ تم اللہ کے لیے اس کا ہمسر نہ ٹھہراتے ہوتے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! وہ کیسے؟ اس نے کہا: تم کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور تم چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اگر کوئی آدمی ”ماشاء اللہ“ کہے تو وہ «ثُم شئت» “ کہے (یعنی: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1166
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 5
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخیافی بھائی سیدنا طفیل بن سخبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں خواب میں یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرا، میں نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم یہودی ہیں۔ میں نے کہا: تم بہترین قوم ہو، کاش! تم عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ قرار دیتے۔ یہودیوں نے کہا: تم بھی بہترین لوگ ہو، کاش! تم یہ نہ کہتے کہ جو اللہ چاہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہے۔ پھر میں عیسائی گروہ کے پاس سے گزرا۔ میں نے ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم نصرانی ہیں۔ میں نے کہا: تم بڑے اچھے لوگ ہو، کاش! تم عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ قرار دیتے۔ انہوں نے کہا: تم بھی بہترین لوگ ہو، کاش! تم یہ نہ کہتے کہ جو اللہ چاہے اور محمد (علیہ السلام) چاہے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بعض لوگوں کو یہ خواب سنایا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا اور آپ کو بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے یہ خواب کسی کو سنایا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ جب لوگوں نے نماز ادا کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ”طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے اور تم میں سے بعض لوگوں کو بتا بھی دیا ہے۔ تم لوگ ایک کلمہ کہتے تھے، بس حیا آڑے آتی رہی اور میں تمہیں منع نہ کر سکا۔ (ابکے بعد) ایسے نہ کہا کرو کہ جو اللہ چاہے اور محمد د ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 138

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 6
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ سے کوئی بحث و مباحثہ کیا اور کہا: جو اللہ تعالیٰ چاہیں اور آپ چاہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کا ہمسر بنا دیا ہے! ایسے نہیں (کہنا چاہئے)، بلکہ یوں کہا جائے کہ جو صرف اللہ تعالیٰ چاہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 139

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 7
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی قسم اٹھائے تو یہ نہ کہے کہ «ما شاء الله وشئت» (جو اللہ اور آپ چاہیں)، بلکہ اس طرح کہا کرے: «ما شاء الله ثم وشئت» ”جو اللہ تعالیٰ چاہے اور پھر تم چاہو““۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1093

باب: اللہ تعالیٰ کی رحمت اور غضب کی وسعت اور ان کے تقاضے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 8
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت (کی وسعت) کا اندازہ ہو جائے تو تم توکل (کر کے بیٹھ جاؤ اور) کوئی عمل نہ کرو اور اگر تمہیں اس کے غضب کا اندازہ ہو جائے تو (تم یہ سمجھ لو کہ) تمہیں کوئی عمل نفع نہیں دے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2167

باب: اللہ تعالیٰ کی ذات میں نہیں، اس کے انعامات میں غور و فکر کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 9
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کرو اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر مت کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1788

باب: اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت دینے کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 10
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! دشمن شکم سیر ہو کر پہنچ چکا ہے اور ہم بھوکے ہیں (کیا بنے گا)؟ انصار نے کہا: کیا ہم اونٹ ذبح کر کے لوگوں کو کھلا نہ دیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زائد کھانا ہے، وہ لے آئے۔“ کوئی ایک مد لے کر آیا تو کوئی ایک صاع اور کوئی زیادہ لے کر آیا تو کوئی کم۔ پورے لشکر میں سے چوبیس صاع (تقریباً پچاس کلو گرام) جمع ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈھیر کے ساتھ بیٹھ گئے، برکت کی دعا کی، پھر فرمایا: ”لینا شروع کر دو اور لوٹو مت“، لوگوں نے اپنے اپنے تھیلے، بوریاں اور برتن بھر لیے، حتی کہ بعض افراد نے اپنی آستینیں باندھ کر ان کو بھی بھر لیا، وہ سب فارغ ہو گئے اور اناج ویسے کا ویسا ہی پڑا رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جو بندہ حق کے ساتھ یہ دو (گواہیاں) لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی حرارت سے بچائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3221
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 11
یوسف بن عبداللہ بن سلام اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، آپ نے ایک وادی سے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور میں بھی گواہی دیتا ہوں، مزید میں یہ شہادت بھی دیتا ہوں کہ جو آدمی ایسی گواہی دے گا وہ شرک سے بری ہو جائے گا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد دو شہادتیں (توحید و رسالت) ہیں۔ یہ امام نسائی کے الفاظ ہیں اور امام طبرانی نے روایت کے شروع میں یہ اضافہ کیا ہے: (انہوں نے سنا کہ) لوگ پوچھ رہے تھے: اے اللہ کے رسول! کون سے اعمال افضل ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور رسول پر ایمان لانا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اور حج مبرور کرنا، پھر سنا۔۔۔۔۔۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2897

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 12
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو انسان اس حال میں مرتا ہے کہ وہ یقین کرنے والے دل سے گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2278

باب: پانچ امور کا تعلق اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 13
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”پانچ چیزیں ہیں، انہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے: بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا اور جو کچھ ماں کے پیٹ میں ہے اسے وہی جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہو کہ کس زمین میں مرے گا۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا ہے اور صحیح خبروں والا ہے۔“ (سورۃ لقمان: 34)“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2914

باب: توحید اور اس کے تقاضے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 14
سیدنا ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”خوش ہو جاؤ، خوش ہو جاؤ، کیا تم لوگ یہ شہادت نہیں دیتے کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں؟“ صحابہ نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ قرآن ایک رسی ہے، اس کا ایک کنارہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا کنارہ تمہارے ہاتھ میں ہے، اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو، کیونکہ اس کے بعد تم ہرگز نہ گمراہ ہو سکتے ہو اور نہ ہلاک۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 713

باب: توحید کی برکتیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 15
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمیں صادق و مصدوق (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے رب سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”نیکی کا بدلہ دس گنا یا اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہوں اور برائی کا بدلہ ایک گنا دوں گا یا اسے بھی معاف کر دوں گا۔ (اے میرے بندے!) اگر تو زمین کے لگ بھگ گناہ لے کر مجھے ملے، تو میں تجھے اتنی ہی بخشش عطا کر دوں گا، بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 128
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 16
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کہتے ہیں: جس نے ایک نیکی کی، اسے دس گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب عطا کروں گا اور جس نے ایک برائی کی تو ایک برائی کا ہی بدلہ دوں گا یا وہ بھی معاف کر دوں گا۔ جو زمین کے لگ بھگ گناہ کرنے کے بعد مجھے اس حالت میں ملے کہ اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا رکھا ہو تو میں اسے اتنی ہی مغفرت عطا کر دوں گا۔ جو ایک بالشت میرے قریب ہو گا میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوں گا، جو ایک ہاتھ میرے قریب ہو گا میں دو ہاتھوں کے پھیلاؤ کے بقدر اس کے قریب ہوں گا اور میری طرف چل کر آئے گا میں اس کی طرف لپک کر جاؤں گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 581

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 17
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے کہ اس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو اور نہ کسی کو ناحق قتل کیا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2923

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 18
ابومالک اشجعی اپنے باپ سیدنا طارق بن اشیم رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ تعالیٰ کو یکتا و یگانہ قرار دیا اور اس کے علاوہ (سب معبودانِ باطلہ) کا انکار کر دیا، تو اس کا مال اور خون حرمت والا قرار پائے گا اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 428

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 19
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک رات کو نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چل رہے تھے، آپ کے ساتھ کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں نے سمجھا کہ شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی چلے۔ میں نے چاند کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ آپ میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے دیکھا اور پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: میں ابوذر ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! ادھر آؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”قیامت والے روز کثیر مال و دولت والے اجر و ثواب میں کم ہوں گے، مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے (صدقہ کرتے ہوئے) اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھیر دیا اور اس کے ذریعے نیک اعمال کیے۔“ پھر میں آپ کے ساتھ چلتا رہا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھ جاؤ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی ہموار زمین میں بٹھایا، جس کے ارد گرد پتھر پڑے ہوئے تھے۔ پھر فرمایا: ”میرے واپس آنے تک یہاں بیٹھے رہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرہ (کالے پتھروں والی زمین) کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آ رہے تھے: ”اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے اللہ تعالیٰ آپ پر قربان کرے! آپ حرہ زمین کے پاس کس سے گفتگو کر رہے تھے؟ پھر آپ کو کوئی
جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبریل تھا، حرہ کے ساتھ ہی وہ مجھے ملا اور کہا: (اے محمد!) اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو اس حال میں مرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: جبریل! اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ میں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں اور اگرچہ اس نے شراب بھی پی ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 826
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 20
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک آدمی تھا، اس نے کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا، ماسوائے توحید کے۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے کنبے والوں سے کہا: غور سے سنو: اگر میں مر گیا تو مجھے جلا کر کوئلہ بنا دینا، پھر پیس کر نصف خشکی کی ہوا میں اُڑا دینا اور نصف سمندر میں بہا دینا۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر آ گیا تو وہ مجھے ایسا شدید عذاب دے گا جو جہانوں میں کسی کو نہ دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو انہوں نے ایسے ہی کیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے خشکی کو حکم دیا، اس نے اس کے ذرات جمع کر دئیے اور سمندر کو حکم دیا، اس نے بھی اس کے اجزا جمع کر دئیے، اچانک (اسے وجود عطا کیا گیا اور) وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں کھڑا نظر آیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: ابن آدم! تجھے تیرے کیے پر کس چیز نے اکسایا تھا؟ اس نے کہا: اے میرے رب! (میں نے سارا کچھ) تیرے ڈر سے (کروایا)، اور تو جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے ڈرنے کی وجہ سے معاف کر دیا، حالانکہ اس کا کوئی نیک عمل نہیں تھا، ماسوائے توحید کے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3048

باب: تمام اعمال کی بنیاد توحید ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 21
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عاص بن وائل نے دور جاہلیت میں نظر مانی کہ وہ سو اونٹ ذبح کرے گا (لیکن وہ نذر پوری کرنے سے پہلے مر گیا)، اس کے بیٹے ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دئیے تھے اور دوسرے بیٹے سیدنا عمرو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیرے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا اور تو اس کی طرف سے روزہ رکھتا یا صدقہ کرتا تو اسے فائدہ ہوتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 484

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 22
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا: ہشام بن مغیرہ صلح رحمی کرتا تھا، مہمانوں کی میزبانی کرتا تھا، غلاموں کو آزاد کرتا تھا، کھانا کھلاتا تھا اور اگر وہ اسلام کا دور پاتا تو مسلمان بھی ہو جاتا، آیا یہ اعمال اس کے لیے نفع مند ثابت ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہ تو دنیوی غرض و غایت، صیت و شہرت اور خوشامد و چاپلوسی کے لیے دیتا تھا، اس نے ایک دن بھی نہیں کہا: اے میرے رب! روز قیامت میرے گناہوں کو معاف کر دینا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2927

باب: اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی وجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 23
ابو تمیمہ ہجیمی، بلھجیم کے ایک باشندے سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں، (وہ اللہ کہ) اگر تجھے تکلیف پہنچے اور تو اسے پکارے تو وہ تیری تکلیف دور کر دیتا ہے۔ اگر تو بے آب و گیاہ زمین میں (اپنی سواری) گم کر بیٹھتا ہے اور اسے پکارتا ہے تو وہ تجھے (تیری سواری) واپس کر دیتا ہے اور اگر تو قحط سالی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسے پکارتا ہے تو وہ (بارش نازل کر کے) زمین سے سبزہ اُگاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 420
باب: اللہ تعالیٰ کو پکارنے کا ثمرہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 24
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جو وہ مجھ سے گمان کرتا ہے اور جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2942

باب: اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اس سوال کا جواب
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 25
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس شیطان آ کر یہ کہتا ہے: تجھے کس نے پیدا کیا؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے۔ وہ دوبارہ کہے گا: اچھا تو پھر اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اگر ایسا وسوسہ پیدا ہو جائے تو یہ دعا پڑھنی ہے: «آمنت بالله ورسوله» ”میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا“، یہ عمل اس وسوسہ کو ختم کر دے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 116

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 26
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟، یہ کیا ہے؟ لوگ اس قسم کے سوال کرتے رہیں گے، حتی کہ وہ یہ سوال بھی کر دیں گے: اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے، بھلا اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اس وقت وہ گمراہ ہو جائیں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 966

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 27
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ایک آدمی کے پاس شیطان آ کر کہتا ہے: اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، کہتے کہتے بات کو یہاں تک پہنچا دیتا ہے کہ: تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب وہ یہاں تک پہنچا دے تو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے اور (ایسی سوچ کو) ختم کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 117

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 28
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”قریب ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے سوال کرنا شروع کر دیں، (وہ سوال کرتے رہیں)، حتی کہ کہنے والا کہے: مخلوق کو تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، مگر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ جب لوگ یہاں تک پہنچ جائیں تو کہنا: «الله أحد، الله الصمد، لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد» ”اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں۔“ پھر بائیں طرف تین دفعہ تھوکے اور شیطان سے (اللہ تعالیٰ کی پناہ) طلب کرے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 118

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 29
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکل جا اور لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔“ وہ کہتے ہیں: میں اعلان کرنے کے لیے نکلا، آگے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ٹاکرا ہوا، انہوں نے کہا: ابوبکر کہاں اور کیسے؟ میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جاؤ اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (یہ اعلان کیے بغیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ جاؤ، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ اس (بشارت) پر توکل کر کے عمل کرنا ترک کر دیں گے۔ میں لوٹ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”واپس کیوں آ گئے ہو؟“ میں نے آپ کو سیدنا عمر والی بات بتلائی۔ آپ نے فرمایا: ”عمر نے سچ کہا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1135
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 30
ابوبکر بن ابوموسیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں اپنی قوم کے کچھ افراد کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ اور پچھلوں کو بھی خوشخبری سنا دو کہ جس نے صدق دل سے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“ ہم لوگوں کو خوشخبری سنانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے، ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ملے اور (جب ان کو صورتحال کا علم ہوا تو) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کس نے واپس کر دیا؟“ ہم نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عمر! تم نے ان کو کیوں لوٹا دیا؟“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (اگر لوگوں کو ایسی خوشخبریاں سنائی جائیں تو وہ توکل کر بیٹھیں گے (اور مزید عمل کرنا ترک کر دیں گے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 712
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 31
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے خلوص دل سے «لا إله إلا الله» کہا،وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2355

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 32
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی نے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2344

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 33
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے ساتھ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، (ہوا یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھ کھڑے ہوئے (اور کہیں چلے گئے) اور واپس آنے میں (خاصی) تاخیر کی۔ ہم ڈر گئے کہ (اللہ نہ کرے) کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے پرے جاں بحق نہ کر دیا جائے۔ ہم گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سب سے پہلے گھبرانے والا میں تھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے کے لیے نکل پڑا، حتی کہ میں بنو نجار کے انصار کے باغ کے پاس پہنچ گیا، میں نے دروازے کی تلاش میں چکر لگایا، لیکن مجھے کوئی دروازہ نہ ملا۔ ایک چھوٹی نہر، خارجہ کے کنویں سے باغ میں داخل ہو رہی تھی، میں سمٹ کر اس میں داخل ہو گیا اور (بالآخر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابوہریرہ ہو؟“ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تجھے کیا ہوا (ادھر کیوں آئے ہو)؟“ میں نے کہا: آپ ہمارے پاس بیٹھے تھے، اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور واپس آنے میں دیر کی، ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کو ہم سے پرے جاں بحق نہ کر دیا جائے، سو ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے گھبرانے والا میں تھا۔ (میں تلاش کرتے کرتے) اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (فلاں سوراخ سے اس میں داخل ہو گیا)۔ بقیہ لوگ میرے پیچھے آ رہے ہیں۔ آپ نے اپنے دو جوتے دے کر مجھے فرمایا: ”ابوہریرہ! یہ میرے جوتے لے کر جاؤ اور اس باغ سے پرے جس آدمی کو ملو، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری دے دو۔“ (ہوا یہ کہ) مجھے سب سے پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ملے، انہوں نے پوچھا: ابوہریرہ! یہ جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے کر بھیجے ہیں کہ میں جس آدمی کو ملوں، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری سنا دوں۔ (یہ بات سن کر) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے میرے سینے میں ضرب لگائی، میں سرین کے بل گر پڑا، انہوں نے کہا: ابوہریرہ! چلو واپس۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس چل پڑا اور غم کی وجہ سے رونے کے قریب تھا، ادھر سے عمر رضی اللہ عنہ میرے پیچھے پیچھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ! کیا ہوا؟“ میں نے کہا: میں سیدنا عمر کو ملا، اسے آپ کا پیغام سنایا، اس نے میرے سینے میں ضرب لگائی، میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ چلو واپس۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عمر! کس چیز نے تجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا واقعی آپ نے ابوہریرہ کو اپنے جوتے دے کر بھیجا کہ وہ جس آدمی کو ملیں، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ یہ شہادت دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری سنا دے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (ممیں نے بھیجا)۔“ سیدنا عمر نے کہا: آپ ایسا نہ کریں، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ (اس قسم کی بشارتوں پر) توکل کر کے (عمل کرنا ترک کر دیں گے)، آپ لوگوں کو عمل کرنے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں چھوڑ دو (یعنی یہ حدیث بیان نہ کرو)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3981
باب: «لا اله الا الله» کے ذکر کی کثرت کی نصیحت اور وجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 34
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی گواہی کثرت سے دیتے رہا کرو، قبل اس کے کہ تمہارے اور اس کے مابین کوئی رکاوٹ حائل ہو جائے اور قریب المرگ لوگوں کو اس کی تلقین کیا کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 467

باب: توحید الوہیت اور توحید رسالت کا حکم
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 35
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! ربیعہ قبیلے سے ہمارا تعلق ہے، آپ کے اور ہمارے مابین مضر قبیلے کے کفار حائل ہیں، ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینے میں آ سکتے ہیں، لہٰذا آپ ہمیں کوئی (جامع) حکم دیں، تاکہ ہم اس پر عمل بھی کریں اور پچھلے لوگوں کو بھی بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔ پھر ایمان کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: گواہی دینا کہ اللہ ہی معبود برحق اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، اور شمار کرنے کے لیے ایک انگلی بند کی۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، غنیمتوں کا پانچواں حصہ ادا کرنا۔ اور میں تمہیں کدو کے برتن، ہرے رنگ کے گھڑے، لکڑی سے بنائے ہوئے برتن اور تارکول ملے ہوئے برتن سے منع کرتا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3957

باب: قریب المرگ لوگوں کو کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 36
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی گواہی کثرت سے دیتے رہا کرو، قبل اس کے کہ تمہارے اور اس کے مابین کوئی رکاوٹ حائل ہو جائے اور قریب المرگ لوگوں کو اس کی تلقین کیا کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 467

باب: شرک، اس کی اقسام اور اس کا وبال
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 37
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3566

باب: کیا توبہ کے بغیر مرنے والے مسلمانوں فاسق کی بخشش ممکن ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 38
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آؤ اور اس بات پر میری بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے، کسی پر بہتان نہیں باندھو گے اور نیکی کے معاملے میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ جس نے یہ بیعت پوری کی اس کا اجر اللہ پر ہے اور جس نے (کسی گناہ) کا ارتکاب کیا اور اسے اس کی سزا دے دی گئی تو وہ کفارہ بن جائے گی اور جس نے (کسی گناہ کا) ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، چاہے تو سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2999
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 39
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک رات کو نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چل رہے تھے، آپ کے ساتھ کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں نے سمجھا کہ شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی چلے۔ میں نے چاند کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ آپ میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے دیکھا اور پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: میں ابوذر ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! ادھر آؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”قیامت والے روز کثیر مال و دولت والے اجر و ثواب میں کم ہوں گے، مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے (صدقہ کرتے ہوئے) اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھیر دیا اور اس کے ذریعے نیک اعمال کیے۔“ پھر میں آپ کے ساتھ چلتا رہا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھ جاؤ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی ہموار زمین میں بٹھایا، جس کے ارد گرد پتھر پڑے ہوئے تھے۔ پھر فرمایا: ”میرے واپس آنے تک یہاں بیٹھے رہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرہ (کالے پتھروں والی زمین) کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آ رہے تھے: ”اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے اللہ تعالیٰ آپ پر قربان کرے! آپ حرہ زمین کے پاس کس سے گفتگو کر رہے تھے؟ پھر آپ کو کوئی جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبریل تھا، حرہ کے ساتھ ہی وہ مجھے ملا اور کہا: (اے محمد!) اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو اس حال میں مرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: جبریل! اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ میں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں اور اگرچہ اس نے شراب بھی پی ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 826

باب: قبولیت اسلام کے بعد کفر کرنا سنگین جرم ہے، کیا مرتد کی توبہ ممکن ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 40
معاویہ بن حکیم بن حزام اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ اس بندے کی توبہ قبول نہیں کرتے جو اسلام کے بعد پھر کفر کر جاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2545

باب: ایصال ثواب کی صورتیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 41
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عاص بن وائل نے دور جاہلیت میں نذر مانی کہ وہ سو اونٹ ذبح کرے گا (لیکن وہ نذر پوری کرنے سے پہلے مر گیا)، اس کے بیٹے ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دئیے تھے اور دوسرے بیٹے سیدنا عمرو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیرے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا اور تو اس کی طرف سے روزہ رکھتا یا صدقہ کرتا تو اسے فائدہ ہوتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 484

باب: کفر کی حالت میں مرنے والے کافروں کے نیک اعمال رائیگاں ہو جاتے ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 42
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، حصین، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ایک آدمی صلہ رحمی اور مہمانوں کی میزبانی تو کرتا تھا، لیکن وہ آپ سے پہلے فوت ہو گیا، (اب اس کی ان نیکیوں کا کیا بنے گا)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنمی ہیں۔“ ابھی تک بیس دن نہیں گزرے تھے کہ وہ شرک کی حالت میں مر گیا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2592

باب: قبولیت اسلام کے بعد کافر کی حالت کفر میں کی گئی نیکیوں کی اہمیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 43
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ابن جدعان دور جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا اور مساکین کو کھانا کھلاتا تھا، آیا یہ نیکیاں اس کے لیے نفع مند ثابت ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، عائشہ! اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا تھا: اے میرے رب! روز قیامت میرے گناہوں کو بخش دینا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 249
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 44
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اسلام قبول کرتا ہے اور اس کے اسلام میں حسن آ جاتا ہے، تو اس نے جو نیکی کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے لکھ کر (محفوظ کر لیتا) ہے اور اس نے جس برائی کا ارتکاب کیا ہوتا ہے اسے مٹا دیا جاتا ہے۔ پھر (اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مزید بدلہ یوں ہوتا ہے کہ ایک نیکی دس سے سات گنا تک کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور رہا مسئلہ برائی کا، تو وہ ایک ہی رہتی ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ وہ بھی معاف کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 247

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 45
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا: ہشام بن مغیرہ صلہ رحمی کرتا تھا، مہمانوں کی میزبانی کرتا تھا، غلاموں کو آزاد کرتا تھا، کھانا کھلاتا تھا اور اگر اسلام کا دور پاتا تو مسلمان بھی ہو جاتا، آیا یہ اعمال اس کے لیے نفع مند ثابت ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہ تو دنیاوی غرض و غایت، اس کی صیت و شہرت اور اس کی خوشامد و چاپلوسی کے لیے دیتا تھا، اس نے ایک دن بھی نہیں کہا: اے میرے رب! روز قیامت میرے گناہوں کو معاف فرما دینا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2927
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 46
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جو نیکیاں کر چکے ہو، ان سمیت اسلام لائے ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 248

باب: اگر کوئی مسلمان ادائیگی حج کے بعد مرتد ہو کر پھر مسلمان ہو جائے تو کیا سابقہ حج اسے کفایت کرے گا؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 47
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اسلام قبول کرتا ہے اور اس کے اسلام میں حسن آ جاتا ہے، تو اس نے جو نیکی کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے لکھ کر (محفوظ کر لیتا ہے) ہے اور اس نے جس برائی کا ارتکاب کیا ہوتا ہے اسے مٹا دیا جاتا ہے پھر (اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مزید بدلہ یوں ہوتا ہے کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور رہا مسئلہ برائی کا، تو وہ ایک ہی رہتی ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ وہ بھی معاف کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 247

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 48
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جو نیکیاں کر چکے ہو، ان سمیت اسلام لائے ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 248

باب: قبولیت اسلام کے بعد پہلے والے جرائم کا مؤاخذہ کب کیا جائے گا؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 49
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بقیہ زندگی میں (اپنے اسلام میں) حسن پیدا کیے رکھا، اس کے گزشتہ (گناہ) معاف کر دئیے جائیں گے اور جو بقیہ زندگی میں بھی برائیاں کرتا رہا، اس سے گزشتہ اور آئندہ (دونوں زندگیوں میں ہونے والے گناہوں کی) باز پرس ہو گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3389

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 50
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے دور جاہلیت میں جن برائیوں کا ارتکاب کیا، کیا ان کی وجہ سے ہمارا مؤاخذہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے اسلام میں حسن پیدا کر لیتا ہے اس سے دور جاہلیت میں کی گئی برائیوں کی باز پرس نہیں ہو گی اور جو (اسلام قبول کرنے کے بعد بھی برائیاں کرتا رہتا ہے، اس سے پہلے اور پچھلے (سب) گناہوں کی پوچھ کچھ ہو گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3390
باب: ایمان لانے والے اہل کتاب اور اہل شرک کے اجر و ثواب میں فرق
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 51
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے نیچے کھڑا تھا، آپ نے بہت اچھی باتیں ارشاد فرمائیں، ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی: ”جو اہل کتاب (یہودی یا نصرانی) مسلمان ہو گا اسے دو اجر ملیں گے نیز اسے وہی حقوق دئیے جائیں گے جو ہمارے ہیں اور اس پر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو ہم پر ہوتی ہیں اور جو مشرک مسلمان ہو گا اسے ایک اجر ملے گا اور اسے بھی وہی حقوق نصیب ہوں گے جو ہمیں ہوتے ہیں اور اسے وہی ذمہ داریاں چکانا ہوں گی، جو ہم چکاتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 304

باب: اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ لوگ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 52
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند اور مبغوض ترین ہیں: حرم میں الحاد برپا کرنے والا، اسلام میں جاہلیت کے مروج ہونے کو چاہنے والا اور کسی آدمی کا ناحق خون کرنے کے لیے کوشاں رہنے والا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 778

باب: غیر اللہ کی قسم منع ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 53
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ”اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی قسم اٹھانا شرک ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2042

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 54
جہینہ قبیلے کی خاتون سیدہ قتیلہ بنت صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: تم لوگ شرک کرتے ہو کیونکہ تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور تم چاہو اور تم کعبہ کی قسم اٹھاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا: ”تم کہا کرو: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو اور قسم اٹھاتے وقت کہا کرو: رب کعبہ کی قسم۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 136

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 55
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم اٹھایا کرو، اسے پورا کیا کرو اور سچ بولا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ غیر کی قسم اٹھانے کو ناپسند کرتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1119

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 56
سیدہ قتیلہ بنت صفی جہنیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! تم بہترین لوگ ہو، لیکن کاش کہ تم شرک نہ کرتے ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! (بڑا تعجب ہے) وہ کیسے؟“ اس نے کہا: جب تم قسم اٹھاتے ہو تو کہتے ہو: کعبہ کی قسم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اب جو آدمی بھی قسم اٹھائے وہ کعبہ کے رب کی قسم اٹھائے (نہ کہ کعبہ کی)۔“ اس نے پھر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم بڑے اچھے لوگ ہو، لیکن کہ کاش کہ تم اللہ کے لیے اس کا ہمسر نہ ٹھہراتے ہوتے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! وہ کیسے؟ اس نے کہا: تم کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور تم چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اگر کوئی آدمی ”ماشاء اللہ“ کہے تو وہ «ثُم شئت» “ کہے (یعنی: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1166

باب: کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے کی تلقین
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 57
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو اور راہِ مستقیم پر چلتے رہو اور (لوگوں کو)ْ خوشخبریاں سناتے رہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 885

باب: آزمائشیں اس امت کا مقدر ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 58
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام قبول کرنے والے تمام افراد کو شمار کرو۔“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آیا آپ ہمارے بارے میں خوفزدہ ہیں، حالانکہ ہماری تعداد چھ سو سے سات سو تک ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (حقیقت حال کا) علم نہیں رکھتے، شائد تم آزمائشوں میں پڑ جاؤ۔“ راوی کہتے ہیں: پھر ہمیں اس قدر آزمایا گیا کہ ہم میں سے ایک آدمی کو مخفی نماز پڑھنا پڑتی تھی، (یعنی وہ بعض وجوہات کی بنا پر اعلانیہ نماز نہیں پڑھ سکتا تھا)
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 246
باب: محبوب ترین دین
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 59
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کون سا دین اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ملت اسلام، جو نرمی و سہولت آمیز شریعت ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 881

باب: امت محمدیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرتب شریعت آسان ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 60
سیدنا محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر موصول ہوئی کہ فلاں بندہ مسجد میں لمبی نماز ادا کر رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے، اس کے کندھے کو پکڑا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے آسانی کو پسند اور تنگی کو ناپسند کیا ہے (یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی) جب کہ اس بندے نے تنگی کو اختیار کیا ہے اور آسانی کو ترک کر دیا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1635
باب: راہ اعتدال پر گامزن رہنے کی تلقین اور طریقہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 61
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک یہ دین آسان ہے، جو بھی اس دین سے زور آزمائی کرے گا یہ اس کو پچھاڑ دے گا۔ اس لیے راہ راست پر چلتے رہو، میانہ روی اختیار کرو، خوشخبریاں سناتے رہو اور صبح کے وقت، شام کے وقت اور رات کو کچھ وقت (عبادت کر کے) مدد حاصل کرتے رہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1161

باب: دین میں غلو منع ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 62
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج کے موقع پر) مجھے گھاٹی والی صبح کو فرمایا تھا، اس حال میں کہ آپ اپنی سواری پر کھڑے تھے: ”ادھر آؤ (کنکریاں) اٹھا کر لاؤ۔“ سو میں بیچ کی دو انگلیوں میں رکھ کر پھینکی جانے والی کنکریوں کے سائز کی کنکریاں اٹھا کر لایا، آپ نے ان کو اپنے ہاتھ میں رکھا اور دو دفعہ فرمایا: ”ان جتنی کنکریاں ہوں۔“ پھر آپ نے اپنا ہاتھ بلند کیا۔ راوی حدیث یحییٰ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بات سمجھائی۔ اور فرمایا: ”دین میں غلو کرنے سے بچو، تم سے پہلے والے لوگ دین میں غلو کر نے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1283

باب: تقدیر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 63
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک تقدیر پر ایمان نہیں لاتا وہ اچھی ہو یا بری اور جب تک اسے یہ (پختہ) علم نہیں ہو جاتا کہ (اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق) جس چیز نے اسے لاحق ہونا ہے وہ ٹل نہیں سکتی اور جو ٹل گئی وہ لاحق نہیں ہو سکتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2439

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 64
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کا معاملہ اس وقت تک ہمنوائی، ہم خیالی، (اتحاد اور موافقت) والا رہے گا جب تک یہ لوگ بچوں اور تقدیر (کے مسائل) میں گفتگو نہیں کریں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1515

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 65
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا، جب تک اسے یہ (پختہ) علم نہ ہو جائے کہ (اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے فیصلے کے مطابق) جس چیز نے اسے لاحق ہونا ہے وہ تجاوز نہیں کر سکتی اور جو چیز تجاوز کر گئی وہ لاحق نہیں ہو سکتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3019

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 66
طاوس یمانی کہتے ہیں: جتنے صحابہ کرام سے میری ملاقات ہوئی وہ کہتے تھے: ہر چیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے اور میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے، حتیٰ کہ بے بسی و لاچارگی اور عقل و دانش بھی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 861

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 67
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور آدمی ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک اسے اس چیز کا (پختہ) علم نہ ہو جائے کہ جو چیز (اللہ کی تقدیر کے فیصلے کے مطابق) اسے لاحق ہونی ہے وہ اس سے تجاوز نہیں کر سکتی اور جس چیز نے اس سے تجاوز کرنا ہے وہ اسے لاحق نہیں ہو سکتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2471
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 68
ابن زرارہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آیت میری امت کے آخری زمانے کے تقدیر کو جھٹلانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی «ذوقوا مس سقر. إنا كل شيء خلقناه بقدر» دوزخ کے آگے لگنے کے مزے چکھو۔ بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرر اندازے پر پیدا کیا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1539

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 69
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان تین قسم کے اشخاص کی فرضی عبادت نہ قبول ہوتی ہے نہ نفلی: نافرمان و بدسلوک، احسان جتلانے والا اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1785

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 70
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: ہم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ملے، ہم نے ان کے سامنے تقدیر اور اس کے بارے میں لوگوں کے خیالات کا تذکرہ کیا ...... مزینہ یا جہنیہ قبیلہ کے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز میں عمل کر رہے ہیں؟ آیا اس (تقدیر) کے مطابق فیصلہ کیا جا چکا ہے یا ازسرِنو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس (تقدیر) کے مطابق جس کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے۔“ اس نے یا کسی اور آدمی نے کہا: ”تو پھر عمل کی کیا حقیقت رہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل جنت کے لیے جنتیوں کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کے لیے جہنمیوں کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3521

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 71
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم لوگ جو عمل کر رہے ہیں،آیا ان کا (پہلے ہی سے فیصلہ کر کے) ان سے فارغ ہوا جا چکا ہے یا ہم ازسرِنو عمل کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””اس معاملے (کا فیصلہ کر کے) اس سے فراغت حاصل کی جا چکی ہے۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کاہے کا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا اسے اسی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2033

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 72
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، اسے اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑا۔ اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ اور دنیا کو، اور دنیا میں کی جانے والی ہر نیکی و بدی اور رطب و یابس کو لکھا اور سب چیزوں کو اپنے پاس لوح محفوظ میں شمار کر لیا پھر فرمایا: اگر چاہتے ہو تو (اس مصداق والی یہ آیت) پڑھ لو: «هذا كتابُنا يَنْطِقُ عليكم بالحق إنا كنا نَسْتَنْسِخُ ما كنتم تعملون» ”یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ مچ بول رہی ہے، ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے ہیں“ (سورۃجاثیہ:29)۔ لکھنا اور نقل کرنا اسی امر میں ہوتا ہے جس سے فارغ ہوا جا چکا ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3136

باب: تقدیر برحق ہے، لیکن انسان کا اختیار
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 72M
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مٹھیوں کے بارے میں فرمایا: ”اس مٹھی والے (بندے) اس (جنت) کے لیے اور اس مٹھی والے (بندے) اس (جہنم) کے لیے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 46

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 73
سیدنا عبدالرحمٰن بن قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: یہ جنت کے لیے ہیں اور میں بےپروا ہوں اور یہ جہنم کے لیے ہیں اور میں کوئی پروا نہیں کرتا۔“ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کس چیز کے مطابق عمل کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تقدیر کے مطابق۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 48
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 74
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے ایک مٹھی بھری اور فرمایا: یہ میری رحمت سے جنت میں ہوں گے اور دوسری مٹھی بھری اور فرمایا: یہ جہنم میں ہوں گے اور میں کوئی پروا نہیں کرتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 47
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 75
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اس کے دائیں کندھے پر ضرب لگائی اور وہاں سے سفید رنگ کی اولاد نکالی، جو چھوٹی چیونٹیوں کی جسامت کی تھی۔ پھر بائیں کندھے پر ضرب لگائی اور کوئیلوں کی طرح سیاہ اولاد نکالی۔ پھر دائیں طرف والی اولاد کے بارے میں کہا: یہ جنت میں جائیں گے اور میں کوئی پرواہ نہیں کرتا اور بائیں کندھے سے نکلنے والی اولاد کے بارے میں کہا: یہ جہنم میں جائیں گے اور میں بےپرواہ ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 49

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 76
ابونضرہ کہتے ہیں ایک صحابی بیمار ہو گئے، اس کے ساتھی اس کی تیمارداری کرنے کے لیے اس کے پاس گئے، وہ رونے لگ گئے۔ ان سے پوچھا گیا: اللہ کے بندے! کیوں رو رہے ہو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو یہ نہیں فرمایا تھا کہ ”اپنی مونچھیں کاٹ دو اور پھر اسی چیز پر برقرار رہنا، یہاں تک کہ مجھے آ ملو۔“؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی یہ بشارت مجھے دی تھی) لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ ”بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے دائیں ہاتھ سے (اپنے بندوں کی) ایک مٹھی بھری اور فرمایا: اس مٹھی والے (جنت) کے لیے ہیں اور مجھے کسی کی پروا نہیں ہے پھر دوسرے ہاتھ سے دوسری مٹھی بھری اور فرمایا کہ اس مٹھی والے (جہنم) کے لیے ہیں اور میں کسی کی پروا نہیں کرتا۔“ (میرے رونے کی وجہ یہ فکر ہے کہ) میں یہ نہیں جانتا کہ میں کس مٹھی میں ہوں گا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 50

باب: تقدیر کے موضوع پر گفتگو کرنے والے بدترین لوگ ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 77
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تقدیر (کے انکار پر) مشتمل گفتگو کو پچھلے زمانوں میں میری امت کے بدترین لوگوں تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1124

باب: بوقت تخلیق ایمان یا کفر کا فیصلہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 78
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے زکریا (علیہ السلام) کو پیدا کیا تو اپنی ماں کے پیٹ میں ہی مومن تھے اور جب فرعون کو پیدا کیا تو وہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی کافر تھا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1831
باب: مبلغین کی صفات
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 79
سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا: ”لوگوں کو (اسلام کی) دعوت دینا، خوشخبریاں سنانا، متنفر نہ کرنا اور آسانیاں پیدا کرنا (دین کو) دشوار نہ بنا دینا۔“ میں نے کہا: دو قسم کی شراب، جو ہم یمن میں تیار کرتے تھے، کے بارے میں شرعی حکم کی وضاحت کریں: «بتع» یعنی شہد کی نبیذ جو سخت ہو کر (شراب کی صورت اختیار کر لے)۔ اور «مزر» یعنی مکئی کی نبیذ، وہ بھی سخت ہو کر (شراب کی صورت اختیار کر جائے)۔ راوی کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حد درجہ جامع و مانع کلمات عطا کئے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”میں ہر اس نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں جو نماز سے بے ہوش کر دے (وہ جس چیز كي بھی بنی ہوئی ہو)۔“ صحیح مسلم کی روایت میں «ولا تعسرا» کی بجائے «وعلما» ”اور لوگوں کو تعلیم دینا“ کے الفاظ ہیں۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 421

باب: نیکی کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 80
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہمیں صادق و مصدوق (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے رب سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”نیکی کا بدلہ دس گنا یا اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہوں اور برائی کا بدلہ ایک گنا دوں گا یا اسے بھی معاف کر دوں گا۔ (اے میرے بندے!) اگر تو زمین کے لگ بھگ گناہ لے کر مجھے ملے، تو میں تجھے اتنی ہی بخشش عطا کروں گا، بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 128

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 81
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے اسلام میں حسن پیدا کر لیتا ہے، تو اس کی ہر نیکی دس گنا سے لے کے سات سو گنا تک بڑھا کر لکھی جاتی ہے اور برائی کو ایک برائی کی صورت میں ہی لکھا جاتا ہے، (یہی سلسلہ جاری رہتا ہے حتیٰ کہ وہ فوت ہو کر) اللہ تعالیٰ سے جا ملتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3959

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 82
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اسلام قبول کرتا ہے اور اس کے اسلام میں حسن آ جاتا ہے، تو اس نے جو نیکی کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے لکھ کر (محفوظ کر لیتا) ہے اور اس نے جس برائی کا ارتکاب کیا ہوتا ہے اسے مٹا دیا جاتا ہے۔ پھر (اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مزید بدلا یوں ہوتا ہے کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور رہا مسلئہ برائی کا، تو وہ ایک ہی رہتی ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی معاف کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 247

باب: آدمی اپنی جائے موت تک کیسے پہنچتا ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 83
سیدنا ابوعزہ ہزلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو زمین کے کسی خطے میں فوت کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے اس (مقام) کی طرف جانے کے لیے کسی ضرورت (کا بہانہ) بنا دیتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1221

باب: وحی کے وقت اہل آسمان کی کیفیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 84
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ وحی کرنے کے لیے کلام کرتا ہے تو آسمان والوں کو چکنے پتھر پر گھسیٹنے والے زنجیر کی سی جھنکار کی آواز سنائی دیتی ہے اور وہ بے ہوش ہو جاتے ہیں اور جبرائیل کے آنے تک اسی حالت پر رہتے ہیں۔ جب وہ پہنچتا ہے تو ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے، وہ پوچھتے ہیں: اے جبرائیل! تیرے رب نے کیا فرمایا؟ وہ جواباً کہتا ہے: حق فرمایا۔ (یہ سن کر) وہ بھی کہتے ہیں: حق فرمایا، حق فرمایا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1293

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 85
علی بن حسین سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھے ایک انصاری صحابی نے بیان کیا کہ وہ ایک رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ایک سیارہ ٹوٹ کر گر پڑا اور اس کی وجہ سے روشنی پھیل گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم جاہلیت میں اس قسم کے سیارے کے بارے میں کیا کہتے تھے؟“ انہوں نے کہا: (حقیقی صورت حال تو) اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم یوں کہا کرتے تھے: آج رات کوئی عظیم آدمی پیدا ہوا ہے یا فوت ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کی موت و حیات کی وجہ سے سیارے نہیں ٹوٹتے۔ (درحقیقت) جب اللہ تبارک و تعالیٰ کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو حاملین عرش سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ انہیں جواب دیتے ہیں کہ یہ کچھ کہا، اسی طرح ایک آسمان والے دوسرے سے پوچھتے ہیں اور بات چلتے چلتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتی ہے، (جب آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی بات ہوتی ہے تو اس کے نیچے تک پہنچ جانے والے) جن بات اچک کر اپنے (شیطانی) اولیا تک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں، (ان کو جلانے کے لیے) ان پر سیارے گرائے جاتے ہیں۔ (وہ بسا اوقات جل جاتے ہیں اور بعض اوقات نکل آتے ہیں) وہ جو کچھ وہاں سے سن کر آتے ہیں وہ تو حق ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی جھوٹ گھڑتے ہیں اور اپنی طرف سے اضافے کرتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3587
باب: شیطان وحی کی باتیں کیسے اچک لیتے ہیں؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 86
علی بن حسین سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھے ایک انصار صحابی نے بیان کیا کہ وہ ایک رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ایک سیارہ ٹوٹ کر گر پڑا اور اس کی وجہ سے روشنی پھیل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم جاہلیت میں اس قسم کے سیارے کے بارے میں کیا کہتے تھے؟“ انہوں نے کہا: (حقیقی صورت حال تو) اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم یوں کہا کرتے تھے: آج رات کوئی عظیم آدمی پیدا ہوا ہے یا فوت ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کی موت و حیات کی وجہ سے سیارے نہیں ٹوٹتے۔ (درحقیقت) جب اللہ تبارک و تعالیٰ کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو حاملین عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں، پھر اس سے نچلے والے آسمان کے فرشتے اللہ کی تسبیح شروع کرتے ہیں، حتیٰ کہ آسمان دنیا والے فرشتے بھی تسبیح میں مصروف ہو جاتے ہیں پھر (ساتویں) آسمان والے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ انہیں جواب دیتے ہیں کہ یہ کچھ کہا، اسی طرح ایک آسمان والے دوسرے سے پوچھتے ہیں اور بات چلتے چلتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتی ہے، (جب آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی بات ہوتی ہے تو اس کے نیچے تک پہنچ جانے والے) جن بات اچک کر اپنے (شیطانی) اولیا تک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں، (ان کو جلانے کے لیے) ان پر سیارے گرائے جاتے ہیں۔ (بسا اوقات جل جاتے ہیں اور بعض اوقات نکل آتے ہیں) وہ جو کچھ وہاں سے سن کر آتے ہیں وہ تو حق ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی جھوٹ گھڑتے ہیں اور اپنی طرف سے اضافے کرتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3587

باب: ایمان کی علامت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 87
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تجھے تیری نیکی خوش کرے اور برائی ناگوار گزرے تو تو مومن ہے۔“ اس نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی چیز تیرے دل میں کھٹکنے لگے تو اسے (گناہ سمجھ کر) چھوڑ دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 550

باب: برائیوں کی وجہ سے ایمان میں نقص آ جاتا ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 88
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب زانی زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا، جب شرابی شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا، جب چور چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا، اور جب (ڈاکو) زبردستی لوٹ مار کرتا ہے اور لوگ اس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو وہ مومن نہیں ہوتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3000

باب: بدکار کیسے ایمان سے خالی ہوتا ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 89
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بندہ زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان (کا نور) نکل جاتا اور اس کے اوپر سائبان کی طرح (منتظر) رہتا ہے، جب وہ باز آ جاتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 509
باب: نیکی یا برائی کا پتہ کیسے چلتا ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 90
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب میں نیکی کروں تو مجھے کیسے معلوم ہو گا کہ میں نے نیکی کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو اپنے پڑوسیوں کو یوں کہتا سنے کہ تو نے نیکی کی ہے، تو تو نے نیکی کی ہو گی اور جب ان کو یوں کہتا سنے کہ تو نے برائی کی ہے تو تو نے برائی کی ہو گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1327

باب: گناہ کی تعریف
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 91
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تجھے تیری نیکی خوش کرے اور برائی ناگوار گزرے تو تو مومن ہے۔“ اس نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی چیز تیرے دل میں کھٹکنے لگے تو اسے (گناہ سمجھ کر) چھوڑ دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 550

باب: مومن پر لعنت کرنے کی مذمت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 92
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنے بھائی کو یوں کہتا ہے: ”او کافر! تو اس (کا گناہ) اس کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور مومن پر لعنت کرنا بھی اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3385

باب: کسی کو کافر کہنے کے بارے میں محتاط رہنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 93
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنے بھائی کو یوں کہتا ہے: ”او کافر! تو اس (کا گناہ) اس کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور مومن پر لعنت کرنا بھی اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3385

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 94
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی نے اپنے بھائی کو کافر کہا تو ان میں سے ایک کافر ہو کر رہے گا۔ اگر وہ آدمی واقعی کافر ہوا تو ٹھیک وگرنہ یہی وصف کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2891

باب: امت مسلمہ میں باقی رہنے والے امورِ جاہلیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 95
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاہلیت کے چار اوصاف میری امت میں موجود رہیں گے، یہ ان کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے: (۱) نوحہ کرنا، (۲) حسب و نسب میں طعن کرنا، (۳) بیماری کو متعدی قرار دیتے ہوئے کہنا کہ ایک خارشی اونٹ کی وجہ سے سو اونٹوں کو خارش لگ گئی۔ بھلا سوال یہ ہے کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی اور (۴) ستارے، یعنی یہ کہنا کہ فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 735

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 96
سیدنا ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں جاہلیت کے چار اوصاف پائے جائیں گے، وہ ان کو نہیں چھوڑیں گے: (۱) حسب (خاندانی عظمت) پر فخر کرنا، (۲) نسب پر طعن کرنا، (۳) ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا اور (۴) نوحہ کرنا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 734

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 97
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین امور کا تعلق جاہلیت سے ہے، لیکن اہل اسلام بھی ان کو ترک نہیں کریں گے نوحہ کرنا، ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا اور اس طرح کرنا۔“ میں نے سعید مقبری سے پوچھا کہ ”اس طرح کرنے“ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: جاہلیت کی پکار پکارنا، (یعنی یون کہنا): او ال فلان! او ال فلان! او ال فلان!
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1801

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 98
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ جاہلیت کے دو امور کو ترک نہیں کریں گے: نوحہ کرنا اور نسب میں طعن کرنا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1896

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 99
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین امور میری امت میں برقرار رہیں گے: خاندانی عظمت پر فخر کرنا، نوحہ کرنا اور ستاروں (کے زریعے بارش طلب کرنا)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1799

باب: نجامت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 100
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے قحط پڑ گیا۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ بارش کے لیے دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے نزول کی دعا کی (اور بارش نازل بھی ہوئی)۔
جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو یہ کہتے سنا: فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نازل ہوئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بھی اللہ تعالیٰ بندوں پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ اس کی وجہ سے کافر بنے ہوتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3039
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 101
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے علم نجوم حاصل کیا، اس نے جادو کے ایک جز کی تعلیم حاصل کر لی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 793

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 102
سیدنا ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں جاہلیت کے چار اوصاف پائے جائیں گے، وہ ان کو نہیں چھوڑیں گے: (۱) حسب (خاندانی عظمت) پر فخر کرنا، (۲) نسب پر طعن کرنا، (۳) ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا اور، (۴) نوحہ کرنا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 734

باب: بہرے، مجنوں اور انتہائی بوڑھے کا میدان حشر میں دوبارہ امتحان
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 103
سیدنا اسود بن سریع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت چار افراد اپنے دعوی پر دلیل پیش کریں گے: بہرا، مجنون، انتہائی عمر رسیدہ اور «فتره» (وہ انبیاء کے درمیانے وقفے) میں مرنے والا۔ بہرہ کہے گا: اے میرے رب اسلام تو پہنچا تھا، لیکن میں سنتا نہیں تھا (اس لئے میں کچھ نہ کر سکا)۔ مجنون کہے گا: اسلام تو پہنچا تھا، لیکن بچے مجھے مینگنیاں مارتے تھے (یعنی میں پاگل تھا اسلام کو سمجھ نہ سکا۔ عمر رسیدہ آدمی کہے گا: اسلام تو موصول ہوا تھا، (لیکن بڑھاپے کی وجہ سے) سمجھتا نہ تھا۔ «فتره» میں مرنے والا کہے گا: اے میرے رب! میرے پاس تو تیرا رسول آیا ہی نہیں تھا۔ اللہ تعالی ان سب سے عہد و پیمان لے گا کہ وہ ضرور ضرور اس کی اطاعت کریں گے۔ پھر اللہ تعالی (ان کو آزمانے کے لئے) ان کی طرف اپنا قاصد بھیجے گا کہ آگ میں گھس جاؤ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ ان کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی والی ہو گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1434

باب: ہر نیکی کی جائے اگرچہ وہ طبعاً ناپسند ہو
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 104
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: ”اسلام قبول کر۔“ اس نے کہا: مجھے ناپسند لگتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام قبول کر لے اگرچہ تجھے ناپسند لگ رہا ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1454
باب: دوران عبادت عابد کی کیفیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 105
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب ان کی وفات کا وقت آ پہنچا تو انہوں نے کہا: میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں، جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی عبادت اس طرح کرو، کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم نہیں دیکھ رہے تو وہ تو یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے اور اپنے آپ کو مردہ شمار کرو اور مظلوم کی بددعا سے بچو، کیونکہ وہ قبول ہوتی ہے اور جو آدمی عشاء اور فجر کی نمازوں میں آ سکتا ہے تو وہ آئے اگرچہ اسے گھسٹ کر آنا پڑے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1474

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 106
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے جسم کا ایک حصہ پکڑا اور فرمایا: ”اللہ کی عبادت کرو، گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور دنیا میں اس طرح ہو جاؤ گویا کہ تم اجنبی یا مسافر ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1473

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 107
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے وصیت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کرو، کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اپنے آپ کو مردہ تصور کرو، ہر پتھر اور درخت کے پاس اللہ کا ذکر کرو اور جب برائی کا ارتکاب کر بیٹھو تو اس کے ساتھ ہی نیکی کر لو (تاکہ برائی کا اثر ذائل ہو جائے)، مخفی برائی کے بدلے نیکی بھی مخفی کی جائے اور اعلانیہ برائی کے بدلے نیکی بھی اعلانیہ کی جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1475

باب: دنیا میں مومن اجنبی ہے یا مسافر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 108
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے جسم کے ایک حصے کو پکڑا اور فرمایا: ”اللہ کی عبادت کرو، گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور دنیا میں اس طرح ہو جاؤ کہ گویا کہ تم ایک اجنبی (یعنی پردیسی) ہو بلکہ مسافر۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1473

باب: دوران حیات مومن اپنے آپ کو کیا سمجھے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 109
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے وصیت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کرو، کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اپنے آپ کو مردہ تصور کرو، ہر پتھر اور درخت کے پاس اللہ کا ذکر کرو اور جب برائی کا ارتکاب کر بیٹھو تو اس کے ساتھ ہی نیکی کر لو (تاکہ برائی کا اثر ذائل ہو جائے)، مخفی برائی کے بدلے نیکی بھی مخفی کی جائے اور اعلانیہ برائی کے بدلے نیکی بھی اعلانیہ کی جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1475
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 110
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب ان کی وفات کا وقت آ پہنچا تو انہوں نے کہا: میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں، جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی عبادت اس طرح کرو، کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم نہیں دیکھ رہے تو وہ تو یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے اور اپنے آپ کو مردہ شمار کرو اور مظلوم کی بددعا سے بچو، کیونکہ وہ قبول ہوتی ہے اور جو آدمی عشاء اور فجر کی نمازوں میں آ سکتا ہے تو وہ آئے اگرچہ اسے گھسٹ کر آنا پڑے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1474

باب: اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات اور جنت میں داخلے کے اسباب
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 111
محمد بن حجادہ، ایک آدمی سے، وہ اپنے ایک دوست سے، وہ اپنے باپ، جن کی کنیت ابومشفق تھی، سے روایت کرتا ہے، وہ کہتے ہیں: میں عرفہ مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں آپ کے اتنا قریب ہوا، کہ میری سواری کی گردن آپ کی سواری کی گردن کے ساتھ لگ گئی، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسا عمل بتائیے جو مجھے اللہ کے عذاب سے نجات دلائے اور جنت میں داخل کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرضی نماز قائم کرو، فرضی زکاۃ ادا کرو، حج ادا کرو، عمرہ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو، مزید دیکھو تم لوگوں کی جانب سے اپنے لئے کیا پسند کرتے ہو، وہی سلوک ان کے ساتھ کرو اور جو چیز لوگوں کی طرف سے اپنے لئے ناپسند کرتے ہو، ان کو بھی اس سے محفوظ رکھو۔“ ( «اشھد» والا لفظ کہنے والے راوی حدیث ابن حاتم ارطبائی ہے، جو روزے کے بارے میں اپنے خیال کا اظہار کر رہا ہے۔)
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1477

باب: مومن کی ظاہر علامات
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 112
سیدنا شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ماں نے مجھے وصیت کی کہ میں اس کی طرف سے ایک غلام آزاد کروں اور میرے پاس (مصر کے جنوبی حصے میں واقع) نوبی قوم کے وطن کی ایک لونڈی ہے، (تو کیا میں اسے آزاد کر دوں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے بلاؤ۔“ (اسے بلایا گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”تیرا رب کون ہے؟“ اس نے کہا: اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”میں کون ہوں؟“ اس نے کہا: اللہ کے رسول۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مومن ہے تم اسے آزاد کر سکتے ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3161

باب: ہر زمان و مکاں میں اللہ کا ذکر کرنے کی تلقین
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 113
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے وصیت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کرو، کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اپنے آپ کو مردہ تصور کرو، ہر پتھر اور درخت کے پاس اللہ کا ذکر کرو اور جب برائی کا ارتکاب کر بیٹھو تو اس کے ساتھ ہی نیکی کر لو (تاکہ برائی کا اثر ذائل ہو جائے)، مخفی برائی کے بدلے نیکی بھی مخفی کی جائے اور اعلانیہ برائی کے بدلے نیکی بھی اعلانیہ کی جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1475
باب: ہر برائی کے بعد نیکی کرنے کی تلقین
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 114
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے وصیت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کرو، کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اپنے آپ کو مردہ تصور کرو، ہر پتھر اور درخت کے پاس اللہ کا ذکر کرو اور جب برائی کا ارتکاب کر بیٹھو تو اس کے ساتھ ہی نیکی کر لو (تاکہ برائی کا اثر ذائل ہو جائے)، مخفی برائی کے بدلے نیکی بھی مخفی کی جائے اور اعلانیہ برائی کے بدلے نیکی بھی اعلانیہ کی جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1475

باب: صبر و سماحت بھی ایمان میں سے ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 115
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر کرنا اور عفو درگزر کرنا افضل ایمان ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1495

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 116
سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان تو صبر کرنے اور عفو درگزر کرنے کا نام ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 554

باب: حیا بھی ایمان ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 116M
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیا، ایمان کا حصہ ہے اور میری امت میں سب سے زیادہ حیا کرنے والا عثمان ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1828

باب: اللہ تعالیٰ کے لئے دوستی و دشمنی رکھنا ایمان کا مضبوط کڑا ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 117
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”ایمان کا کون سا کڑا (یعنی نیک عمل) زیادہ مضبوط ہے؟“ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے لئے دوستی کرنا، اللہ کے لئے دشنی کرنا، اللہ کے لئے محبت کرنا اور اللہ کے لئے بغض رکھنا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1728

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 118
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”ایمان کا کون سا کڑا (یعنی نیک عمل) زیادہ مظبوط ہے؟“ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے لئے دوستی کرنا، اللہ کے لئے دشنی کرنا، اللہ کے لئے محبت کرنا اور اللہ کے لئے بغض رکھنا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 998
باب: ایمان اور جہاد افضل اعمال ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 119
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ پر ایمان لانا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا افضل عمل ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1490

باب: اسلام، جہاد اور ہجرت کی اقسام
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 120
علا بن زیاد کہتے ہیں: ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: اسلام کے لحاظ سے کون سے مومن افضل ہیں؟ انھوں نے کہا: ”اسلام کے لحاظ سے افضل مومن وہ ہیں جن کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہتے ہیں۔ اللہ تعالی کی ذات کے لئے اپنے نفس سے جہاد کرنا افضل جہاد ہے اور اللہ تعالی کی ذات کی خاطر اپنے نفس اور خواہش کا مقابلہ کرنا افضل ہجرت ہے۔“ اس نے کہا: اے عبداللہ بن عمر! یہ باتیں آپ کی ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائیں ہیں۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1491

باب: افضل ہجرت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 121
سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کی ناپسندیدہ چیزوں کو ترک کر دینا افضل ہجرت ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 553

باب: کامیابی کا راز
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 122
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”وہ آدمی کامیاب ہو گیا جسے اسلام کی طرف ہدایت نصیب ہو گئی ہو، اس کی گزر بسر سامان برابر برابر ہو اور وہ اس پر قناعت کرنے والا ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1506
باب: تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا تذکرہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 123
ابوصخر عقیلی کہتے ہیں: مجھے ایک بدو نے بیان کرتے ہوئے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مدینہ میں کچھ سامان تجارت لایا، میں نے اپنی تجارت سے فارغ ہو کر کہا: میں ضرور اس آدمی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤں گا اور اس کی باتیں سنوں گا۔ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ملے تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، آپ نے ان کو پیچھے بھیج دیا، ہم ایک یہودی کے پاس گئے، وہ تورات کھول کر پڑھ رہا تھا، اس کے ذریعے اپنے آپ کو تسلی دے رہا تھا، کیونکہ اس کا انتہائی حسین و جمیل نوجوان بچہ موت و حیات کی کشمکش میں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”میں تجھے تورات نازل کرنے والے کی قسم دیتا ہوں! کیا تو اپنی کتاب میں میری صفات اور جائے ظہور کا تذکرہ پاتا ہے؟“ اس نے سر سے ”نہیں“ کا اشارہ کیا۔ لیکن اس کے بیٹے نے کہا: جی ہاں، تورات کو نازل کرنے والی ذات کی قسم! ہم اپنی کتاب میں آپ کی صفات اور جائے ظہور کا تذکرہ پاتے ہیں اور میں اب گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس یہودی کو اپنے بھائی سے ہٹا دو۔“ آپ کی مراد یہودی کا بیٹا تھا، جس نے اسلام قبول کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کفن کا انتظام و انصرام کیا، اسے حنوط خوشبو لگائی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3269

باب: چار ممنوعہ امور
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 124
سیدنا سلمہ بن قیس اشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا: ”خبردار! چار چیزیں ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اللہ کے حرام کردہ کسی نفس کو قتل نہ کرنا مگر حق کے ساتھ، زنا نہ کرنا اور چوری نہ کرنا۔“ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کلمات سنے ہیں، تو اب ان کو بیان کرنے میں کسی قسم کی بخیلی نہیں کروں گا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1759

باب: اسلام میں دور اندیشی ہے کیا؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 125
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں عشاء کی نماز مسجد نبوی میں پڑھتا تھا، اس کے بعد ایک رکعت وتر پڑھتا تھا۔ مجھے کہا جاتا تھا: ابواسحاق! آپ نماز وتر کی ایک ہی رکعت پڑھتے ہیں، (کیا وجہ ہے)؟ میں کہتا: جی ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”وہ دور اندیشی سے کام لے رہا ہے جو سونے سے پہلے وتر ادا کر لیتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2208
باب: کسی کی عبادت کرنے کا مفہوم «اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله» کی تفسیر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 126
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میری گردن میں سونے کی صلیب تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عدی اس بت کو پھینک دے۔“ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ براہ کی یہ آیت پڑھتے سنا: ”ان لوگوں نے اپنے رب کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو رب بنایا ہے“ میں نے کہا: ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ ہو جا! وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے، لیکن جب وہ کوئی چیز حلال کرتے تو اس کے ماننے والے اس چیز کو حلال سمجھتے اور جب وہ کوئی چیز حرام کرتے تو وہ اسے حرام سمجھتے، تو یہ ان کی عبادت ہوئی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3293

باب: کب تک لوگوں سے قتال کیا جائے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 127
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں لوگوں سے اس وقت تک لڑتا رہوں گا جب تک ایسا نہ ہو جائے کہ وہ یہ گواہی دیں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور مجھ پر اور میری لائی ہوئی شریعت پر ایمان لے آئیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اپنے خونوں اور مالوں کو مجھ سے محفوظ کر لیں گے، ماسوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ تعالی پر ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 410

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 128
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس وقت تک لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا جب تک ایسا نہ ہو جائے کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالی ہی معبود برحق ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، (نیز) وہ ہمارے قبلہ کی طرف متوجہ ہوں، ہمارا ذبیحہ کھائیں اور ہماری نماز پڑھیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو ہم پر ان کے خون اور مال حرام ہو جائیں گے، ماسوائے اسلام کے حق کے، انہیں وہی حقوق ملیں گے جو مسلمانوں کے ہوتے ہیں اور ان پر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو عام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 303

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 129
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس وقت تک لوگوں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جب تک وہ «عربی» نہیں کہہ دیتے۔ جب وہ «عربی» کہہ دیں گے تو مجھ سے اپنے مال و جان کو محفوظ کر لیں گے، ماسوائے اسلام کے حق کے، اور ان کا حساب اللہ تعالی پر ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 407

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 130
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ (اس توحید اور رسالت کے اقرار کے بعد) وہ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں۔ جب وہ ایسا کر لیں گے تو مجھ سے وہ اپنا خون اور اپنا مال محفوظ کر لیں گے، سوائے حق اسلام کے۔ اور ان (کے باطن) کا حساب اللہ کے سپرد ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 408

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 131
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے میں اس وقت تک لوگوں سے لڑتا رہوں، جب تک وہ «عربی» نہیں کہہ دیتے۔ جب وہ «عربی» کہیں گے، تو وہ اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کر لیں گے، سوائے حق اسلام کے اور ان (کے باطن) کا حساب اللہ تعالی کے سپرد ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: (آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں آپ ان پر دروغہ نہیں ہیں)۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 409

باب: مختلف آداب اسلامی
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 132
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چار چیزوں کا حکم دیا اور پانچ چیزوں سے منع کیا: (جن پانچ چیزوں کی اجازت دی وہ یہ ہیں): (۱) سوتے وقت دروازہ بند کرنا، (۲) مشکیزے کا منہ باندھنا، (۳) برتن ڈھانکنا اور (۴) (سوتے وقت) چراغ بجھا دینا، کیونکہ شیطان (بند کیا ہوا) دروازہ نہیں کھولتا، مشکیزے کا منہ نہیں کھولتا، برتن سے اس کا ڈھکن نہیں اتارتا اور یہ فاسق جانور چوہیا (جلتے چراغ کی وجہ سے) گھر کو گھر والوں سمیت جلا دیتی ہے۔ (جن پانچ چیزوں سے منع کیا وہ یہ ہیں): (۱) بائیں ہاتھ سے نہیں کھانا، (۲) بائیں ہاتھ سے نہیں پینا، (۳) ایک جوتے میں نہیں چلنا، (۴) چادر کو پہلے دائیں ہاتھ اور بائیں مونڈے پر اور پھر بائیں ہاتھ اور دائیں مونڈے پر ڈال کر نہیں لپیٹنا (یا چادر کو ہر طرف س اس طرح نہیں لپیٹنا کہ ہاتھ بھی باہر نہ نکل سکیں) اور (۵) اس طرح حبوہ نہیں باندھنا کہ شرمگاہ نظر آ رہی ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2974
باب: اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اہل اسلام کے لئے مضر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 133
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تمہارے حق میں سب سے زیادہ ڈر اس آدمی سے ہے جو قرآن مجید پڑھے گا، جب اس کی آواز کے حسن کا چرچہ ہو جائے گا، تو اسے اسلام کا پشت پناہ سمجھا جائے گا، (لیکن حقیقت حال یہ ہو گی کہ) وہ اسلام سے عاری ہو گا، اسے پشت کے پیچھے پھینک دے گا، اپنے پڑوسی پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا الزام دھرے گا۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! ان دونوں میں شرک کے قریب تر کون ہو گا، الزام لگانے والا یا جس پر الزام لگایا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الزام لگانے والا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3201
باب: فوت شدہ مومنوں کی ارواح کا مقام
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 134
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب کعب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو ام مبشر بنت برا بن معرور ان کے پاس آئیں اور کہا: اے عبدالرحمن! اگر میرے بیٹے سے ملاقات ہو تو اسے میرا سلام کہنا۔ انہوں نے کہا: ام مبشر! اللہ تجھے معاف کرے، ہم مشغول ہوں گے اور ایسا کام نہیں کر سکیں گے۔ اس نے کہا: اے عبدالرحمن! متنبہ رہو! کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بیشک مومنوں کی روحیں سبز پرندوں کے اندر ہوتی ہیں، وہ جنت کے درختوں پر چگتے رہتے ہیں۔“ انھوں نے کہا: کیوں نہیں (میں نے سنا ہے)۔ اس نے کہا یہی بات ہے (جو میں کہہ رہی ہوں)۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 995

باب: اہل اسلام کی ابتدائی اور انتہائی کیفیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 135
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اسلام کی ابتدا ہوئی تو وہ اجنبی تھا (نامانوس) تھا اور عنقریب دوبارہ اجنبی بن جائے گا، سو (اس دین کو اپنانے والے) غربا کے لیے خوشخبری ہے۔“ کہا گیا: اے اللہ کے رسول! یہ لوگ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ہیں جو لوگوں کے بگاڑ کے وقت ان کی اصلاح کرتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1273

باب: الوداع کہنے کی دعا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 136
مجاہد کہتے ہیں: میں عراق کی طرف گیا، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیں الوداع کرنے کے لئے ہمارے ساتھ چلے، جب وہ ہم سے جدا ہونے لگے تو انہوں نے کہا: تمہیں دینے کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب کوئی چیز اللہ تعالی کے سپرد کی جاتی ہے تو وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں۔“ اور میں تمہارے دین، امانت اور خاتمہ اعمال کو اللہ تعالی کے سپرد کرتا ہوں۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2547
باب: قرب الٰہی کے حصول کے اسباب اور نتائج ولی اللہ کی علامتیں اور اس سے دشمنی کرنے والے کا انجام بد، اللہ تعالی کی صفت ”تردد“ کا بیان
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 137
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی، میرا اس سے اعلان جنگ ہے، میں نے بندے پر جو چیزیں فرض کی ہیں، ان سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے (یعنی فرائض کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرنا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے) اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے (بھی) میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس سے (اس کے ذوق عبادت، فرائض کی ادائیگی اور نوافل کے اہتمام کی وجہ سے) محبت کرتا ہوں تو (اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ) میں اس کا وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا وہ پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ کسی چیز سے پناہ طلب کرے تو میں اسے ضرور اس سے پناہ دیتا ہوں اور کسی چیز کو سر انجام دینے سے مجھے کوئی تردد نہیں ہوتا، سوائے مومن کا نفس قبض کرنے کے، کہ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اس کا غم اندوہ ناپسند لگتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1640

باب: اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن یا سوائے ظن کا نتیجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 138
یونس بن میسرہ بن حبلس کہتے ہیں: ہم یزید بن اسود کے پاس گئے اور سیدنا واثلہ رضی اللہ عنہ بھی وہاں پہنچ گئے۔ جب یزید نے ان کو دیکھا تو اپنا ہاتھ لمبا کر کے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے اپنے چہرے اور سینے پر اس لیے پھیرا کہ اس ہاتھ سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ انہوں نے کہا: یزید! اپنے رب کے بارے میں کیا گمان ہے؟ اس نے کہا: اچھا ظن رکھتا ہوں۔ انہوں نے کہا: خوش ہو جاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”بیشک اللہ تعالی فرماتا ہے: میں اپنے بندے (کے ساتھ کوئی معاملہ کرنے میں) اس کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں، اچھا گمان ہونے کی صورت میں معاملہ بھی اچھا ہو گا اور برا گمان ہونے کی صورت میں معاملہ بھی برا ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1663

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 139
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی نے فرمایا: میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جو وہ مجھ سے گمان کرتا ہے اور جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2942
باب: «ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون» (سورہ مائدہ: ۴۴) «ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون» (سورہ مائدہ: ۴۵) «ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الفاسقون» (سورہ مائدہ: ۴۷) کی تفسیر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 140
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں: ”اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں“ اور ”وہ لوگ ظالم ہیں“ اور ”وہ لوگ فاسق ہیں“ انہوں نے کہا: اللہ تعالی نے یہ آیات یہودیوں کے دو گروہوں کے بارے میں نازل کیں، ان میں سے ایک نے دور جاہلیت میں دوسرے کو زیر کر لیا تھا، حتی کہ وہ راضی ہو گئے اور اس بات پر صلح کر لی کہ عزیزہ قبیلے نے ذلیلہ قبیلے کا جو آدمی قتل کیا، اس کی دیت پچاس وسق ہو گی اور ذلیلہ کا جو آدمی قتل کیا اس کی دیت سو (۱۰۰) وسق ہو گی، وہ اسی معاہدے پر برقرار تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے وہ دونوں قبیلے بے وقعت ہو گئے، حالانکہ ابھی تک آپ ان پر و صفائی کا زمانہ تھا۔ ادھر ذلیلہ نے عزیزہ کا بندہ قتل کر دیا، عزیزہ نے ذلیلہ کی طرف پیغام بھیجا کہ سو وسق ادا کرو۔ ذلیلہ والوں نے کہا: جن قبائل کا دین ایک ہو اور شہر ایک ہو، تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک کی دیت دوسرے کی بہ نسبت نصف ہو؟ ہم تمہارے ظلم و ستم کی وجہ سے تمہیں (سو وسق) دیتے رہے، اب جبکہ محمد (ﷺ) آ چکے ہیں، ہم تمہیں نہیں دیں گے۔ ان کے مابین جنگ کے شعلے بھڑکنے والے ہی تھے کہ وہ آپس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بحیثیت فیصل راضی ہو گئے۔ عزیزہ کے ورثا آپس میں کہنے لگے: اللہ کی قسم! محمد (ﷺ) تمہارے حق میں دو گنا کا فیصلہ نہیں کرے گا، ذلیلہ والے ہیں بھی سچے کہ وہ ہمارے ظلم و ستم اور قہر و جبر کی وجہ سے دو گناہ دیتے رہے، اب محمد (ﷺ) کے پاس کسی آدمی کو بطور جاسوس بھیجو جو تمہیں اس کے فیصلے سے آگاہ کر سکے، اگر وہ تمہارے ارادے کے مطابق فیصلہ کر دے تو تم اسے حاکم تسلیم کر لینا اور اگر اس نے ایسے نہ کیا تو محتاط رہنا اور اسے فیصل تسلیم نہیں کرنا۔ سو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ منافق لوگوں کو بطور جاسوس بھیجا، جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو ان کی تمام سازشوں اور ارادوں سے آگاہ کر دیا اور یہ آیات نازل فرمائیں: ”اے رسول! آپ ان کے پیچھے نہ کڑھیے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں خواہ وہ ان میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعوہ تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کے دل با ایمان نہیں۔۔۔۔ اور جو اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں۔“ (سورہ مائدہ: 41-44) پھر کہا: اللہ کی قسم! یہ آیتیں انہی دونوں کے بارے میں نازل ہوئیں اور اللہ تعالی کی مراد یہی لوگ تھے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2552

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 141
سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور جو لوگ اللہ تعالی کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ پورے اور پختہ کافر ہیں (سورہ مائدہ:۴۴) اور جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کئے ہوئے کے مطابق حکم نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں (سورہ مائدہ: ۴۵) اور جو اللہ تعالی کے نازل کردہ سے ہی حکم نہ کریں وہ بدکار فاسق ہیں (سورہ مائدہ: ۴۷) یہ تمام آیات کفار کے بارے میں نازل ہوئیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2704

باب: کیا برا آدمی ناصر الدین بن سکتا ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 142
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی اس دین کو فاجر آدمی کے ذریعے مضبوط کرے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1649
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
باب: قاتل اور مقتول دونوں جنت میں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 143
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی ایسے دو آدمیوں پر ہنستا ہے، جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے اور وہ ان دونوں کو جنت میں داخل کرتا ہے۔ ان میں سے ایک کافر ہوتا ہے، جو دوسرے مومن کو شہید کر دیتا ہے، پھر وہ مسلمان ہو کر اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور شہید ہو جاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2525

باب: ہر صدی کے بعد تجدید دین
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 144
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر سو سال کے بعد دین کی تجدید کرنے کے لئے بعض افراد کو بھیجتا رہے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 599

باب: ہر ہنر اور ہنرمند اللہ تعالی کی تخلیق ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 144M
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی ہر قسم کا کاریگر (یا صنعت کار) اور اس کا ہنر (یا صنعت) پیدا کرتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1637

باب: اخلاص، قبولیت عمل کی بنیادی شرط ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 145
سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ فرماتا ہے: میں بہتریں حصہ دار ہوں اور وہ اس طرح جو میرے ساتھ کسی کو حصہ دار بنائے گا، میں اپنا سارے کا سارا حصہ اپنے حصے دار کو دے دوں گا (اور خود کچھ نہیں لوں گا)۔ لوگو! اللہ تعالی کے لئے خالص عمل کرو، کیونکہ اللہ تعالی وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لئے کیا گیا ہو۔ یہ نہ کہا کرو: یہ اللہ تعالی کے لئے ہے اور یہ رشتہ و قرابت کے لئے ہے، ایسی (تقسیم) میں سے اللہ تعالی کے لئے کچھ نہیں ہوتا اور یہ بھی نہ کہا کرو: یہ اللہ کے لئے ہے اور یہ جناب کے لئے ہے، کیونکہ یہ سارے کا سارہ جنابوں کو ہی مل جاتا ہے اللہ تعالی کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2764

باب: ریاکاری، شرک اصغر ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 146
سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تمہارے حق میں سب سے زیادہ ڈر شرک اصغر کا ہے۔“ صحابہ نے عرض کیا: شرک اصغر کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ریاکاری کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالی قیامت والے دن جب لوگوں کو بدلہ دے گا تو ریاکاروں سے کہے گا: ان ہستیوں کی طرف چلے جاؤ، جن کے سامنے دنیا میں ریاکاری کرتے تھے اور دیکھ آؤ آیا ان کے پاس کوئی بدلہ ہے؟“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 951

باب: ریاکار شہید، سخی اور قاری و عالم کا انجام
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 147
سلیمان بن یسار کہتے ہیں: جب لوگ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اردگرد سے بکھر گئے تو اہل شام کے ایک سرکردہ آدمی نے کہا: محترم! ہمیں کوئی حدیث بیان کرو، جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”قیامت کے دن سب سے پہلے (تین قسم کے) افراد کا فیصلہ کیا جائے گا: (۱) جس آدمی کو شہید کیا گیا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالی اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ پھر اللہ تعالی پوچھے گا: تو کیا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے تیرے راستے میں جہاد کیا، حتی کے شہید ہو گیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے، تو نے اس لئے جہاد کیا تھا تاکہ تجھے بہادر کہا جائے اور ایسے (دنیا میں) کہا جا چکا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (۲) علم سیکھنے سکھانے اور قرآن مجید پڑھنے والا آدمی، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالی اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کرائے گا، وہ اقرار کرے گا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو کون سا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: میں تیری خاطر علم سیکھا سکھایا اور قرآن مجید پڑھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے، حصول علم سے تیرا مقصد یہ تھا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لیے پڑھا کہ قاری کہا جائے، سو ایسے تو کہا جا چکا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (۳) وہ آدمی جسے اللہ تعالی نے خوشحال اور مالدار بنایا اور اسے مال کی تمام اقسام عطا کیں، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالی اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کروائے گا، وہ پہچان لے گا۔ پھر اللہ تعالی فرمائے گا: تو کون سا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: جن مصارف میں خرچ کرنا تجھے پسند تھا، میں نے ان تمام مصارف میں تیرے لیے خرچ کیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے، تیرا تو خرچ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تجھے سخی کہا جائے اور وہ تو کہہ دیا گیا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم ہو گا، جس کے مطابق اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3518
باب: شہرت کا حریص ہونا باعث وبال ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 148
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے عمل کے ذریعے لوگوں میں مشہور ہونا چاہتا ہے، اللہ تعالی روز قیامت اپنی مخلوقات کو اس کی بابت سنا دے گا اور اسے حقیر و ذلیل کر دے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2566

باب: اللہ تعالیٰ سے تجدید ایمان کی دعا اور وجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 149
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان بھی کپڑوں کی طرح تمہارے سینوں میں بوسیدہ ہو جاتا ہے، سو تم اللہ تعالی سے سوال کرتے رہا کرو کہ وہ تمہارے دلوں میں ایمان کی تجدید کرتا رہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1585

باب: فرزندان امت کسی بندے کے نیک اور برا ہونے پر گواہ ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 150
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کچھ لوگ جنازہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے، لوگوں نے اس میت کا تذکرہ خیر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سن کر) فرمایا: ”واجب ہو گئی ہے۔“ پھر کوئی دوسرا جنازہ لے کر گزرے، لوگوں نے اس کا تذکرہ شر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واجب ہو گئی ہے۔“ پھر فرمایا: ”تم ایک دوسرے پر گواہ ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2600

باب: پر خلوص اعمال کو وسیلہ بنانا . . . . غار والوں کا واقعہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 151
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ”ایک غار میں تین آدمیوں نے پناہ لی، پہاڑ کا کچھ حصہ غار کے دروازہ پر گرا اور اس کا راستہ بند کر دیا۔ ایک نے کہا: یاد کرو تم میں سے کسی نے نیک عمل کیا ہے، ممکن ہے اللہ تعالی اپنی رحمت کے سبب ہم پر رحم کر دے۔ ایک آدمی نے کہا: میں نے ایک دفعہ ایک نیکی کی تھی، (اس کی تفصیل یہ ہے کہ) میرے کچھ مزدور کام کرتے تھے، میرے عمال میرے پاس آئے، میں نے ہر ایک کو معین مزدوری دی۔ ایک دن ایک آدمی نصف النھار کے وقت میرے پاس آیا، میں نے اسے مزدوری پر تو لگا دیا، لیکن (نصف دن) کی وجہ سے دوسرے مزدوروں کی مزدوری کے نصف کے بقدر دینے کا طے کیا، لیکن اس نے نصف دن میں اتنا کام کیا، جو دوسروں نے پورے دن میں کیا تھا، اس لیے میں نے ذمہ داری سمجھی کہ اسے اس کے دوسرے ساتھیوں کی طرح پوری اجرت دوں، کیونکہ اس نے اپنا کام کرنے میں پوری محنت کی ہے۔ ان میں سے ایک آدمی نے (اعتراض کرتے ہوئے) کہا: کیا تو اسے وہی اجرت دے رہا ہے جو مجھے دی، حالانکہ اس نے نصف دن کام کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے بندے! جو کچھ تجھ سے تیرے بارے میں طے ہوا تھا، اس میں سے کوئی کمی نہیں کی، یہ میرا مال ہے، میں جیسے چاہوں اس کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہوں۔ (میری اس بات سے) اسے غصہ آیا اور وہ اجرت چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے گھر کے ایک کونے میں اس کا حق رکھ دیا، پھر میرے پاس سے گائے گزری، میں نے اس کی اجرت والے مال سے دودھ چھڑایا ہوا گائے کا بچہ خرید لیا، (اس کی نسل بڑھتی رہی اور) گائیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ ایک دن وہی مزدور میرے پاس سے گزرا، وہ بوڑھا اور کمزور ہو چکا تھا، اس لئے میں نے اسے نہیں پہچانا۔ اس نے کہا: میرا حق تیرے پاس ہے، جب اس نے مجھے یاد کرایا تو بات میری سمجھ میں آ گئی۔ میں نے کہا: میں تیری ہی تلاش میں تھا، میں نے اس پر (ساری گائیں) پیش کرتے ہوئے کہا: یہ تیرا حق ہے۔ اس نے کہا: او اللہ کے بندے! میرے ساتھ مذاق نہ کر، اگر میرے ساتھ ہمدردی نہیں کر سکتا تو میرا حق تو مجھے دے دے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کر رہا، یہ تیرا ہی حق ہے، اس میں کوئی چیز میری نہیں ہے، سو میں نے سارا مال اسے دے دیا۔ اے اللہ! اگر یہ نیکی میں نے تیری ذات کے لئے کی ہے تو اس سے ہمارے لئے گنجائش پیدا کر۔ (اس دعا کی وجہ سے) پتھر اتنا ہٹ (یا پھٹ) گیا کہ باہر کا ماحول نظر آنے لگ گیا۔ دوسرے نے کہا: میں نے بھی ایک دفعہ ایک نیکی کی تھی۔ (تفصیل یہ ہے کہ) میرے پاس زائد از ضرورت مال تھا، لوگ شدت میں مبتلا ہو گئے، ایک عورت میرے پاس کچھ مال طلب کرنے کے لئے آئی۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! تیری شرمگاہ کے علاوہ اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اس نے میرے مطالبے کا انکار کیا اور چلی گئی۔ اس نے یہ بات اپنے خاوند کو بتلائی تو اس نے کہا: تو اسے اپنا نفس دے دے (یعنی اسے زنا کرنے دے) اور (کچھ لے کر) اپنے بچوں کی ضرورت پورا کر۔ وہ آئی اور مجھ پر اللہ تعالی کی قسم کھائی، لیکن میں نے (پہلے کی طرح) انکار ہی کیا اور کہا: پہلے اپنا نفس فروخت کرنا ہو گا (یعنی اپنی عزت لوٹانی ہو گی)۔ جب اس نے یہ صورتحال دیکھی تو اپنے آپ کو میرے سپرد کر دیا۔ جب میں نے اسے ننگا کیا اور بدکاری کا ارادہ کر لیا تو اس پر میرے نیچے کپکپی طاری ہو گئی۔ میں نے اسے کہا: تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: میں جہانوں کے پالنہار اللہ سے ڈر رہی ہوں۔ میں نے اس سے کہا: تو تنگدستی کے باوجود اس سے ڈرتی ہے اور میں خوشحالی میں بھی نہیں ڈرتا۔ پس میں نے اسے چھوڑ دیا اور ننگا کرنے کے جرم میں جو کچھ مجھ پر عائد ہوتا تھا، میں نے اسے دے دیا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ نیکی تیری ذات کے لئے کی تھی تو آج اس (چٹان) کو ہٹا دے۔ (اس دعا کی وجہ سے) وہ مزید ہٹ گئی، حتی کے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے لگ گئے۔ تیسرے نے کہا: میں نے بھی ایک نیکی کی تھی۔ (اس کی تفصیل یہ ہے کہ) میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے پاس بکریاں تھیں۔ میں اپنے والدین کو کھانا کھلاتا اور دودھ پلاتا تھا اور اپنی بکریوں کی طرف لوٹ جاتا تھا۔ ایک دن بارش نے مجھے (وقت پر) لوٹنے سے روک لیا، وہیں شام ہو گئی۔ جب میں گھر پہنچا، برتن لیا، بکریوں کا دودھ دوہا اور اپنے والدین کے پاس لے گیا، لیکن وہ (میرے پہنچنے سے پہلے) سو چکے تھے۔ ایک طرف انہیں بیدار کرنا مجھ پر گراں گزر رہا تھا اور دوسری طرف بکریوں کو (یوں ہی بے حفاظتا چھوڑ آنا) پریشان کر رہا تھا۔ بہرحال میں برتن تھامے ان کے انتظار میں بیٹھا رہا، حتی کے وہ صبح کو بیدار ہوئے اور میں نے ان کو دودھ پلایا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ نیکی تیرے لئے کی تھی تو (اس چٹان کو) ہٹا دے۔ سیدنا نعمان کہتے ہیں: گویا کہ میں یہ الفاظ اب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رہا ہوں، اللہ تعالی نے (اس پتھر کو غار کے دھانے سے) ہٹا دیئے اور وہ نکل گئے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی 3468
مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ دجال کے شر سے محفوظ ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 152
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک دجال مکہ اور مدینہ کے علاوہ ساری زمین پر گھومے گا، جب مدینہ کی طرف آنا چاہے گا تو اسے (اس کی طرف جانے والے) ہر راستے پر فرشتوں کی صفیں نظر آئیں گی، وہ ”سبختہ الجرف“ مقام (یا جرف کی شوریلی زمین) پر آئے گا اور اس کے سامنے والے حصے پر پڑاؤ ڈالے گا۔ پھر مدینہ زور زور سے تین دفعہ ہلے گا اور ہر منافق مرد اور عورت اس کے پاس چلا جائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3084

باب: عزل کی تعریف اور حکم
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 153
سیدنا ابوسعید زرقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے کہا: میری بیوی ابھی تک دودھ پلا رہی ہے میں نہیں چاہتا کہ وہ حاملہ ہو، (تو ایسی صورت میں عزل کر سکتا ہوں)؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ دانی کے بارے میں تقدیر میں جو فیصلہ ہو چکا ہے، وہ ہو کر رہے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1032

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 154
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عزل کے بارے میں سوال کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مادہ منویہ سے بچہ پیدا ہونا ہو تو اگر تو اسے چٹان پر بھی بہا دے، اللہ تعالی اس سے بچہ پیدا کر دے گا۔ اللہ تعالی نے جس نفس کو پیدا کرنا ہے، اسے ضرور پیدا کرے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1333

باب: کیا تعویذ لٹکانا شرک ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 155
قیس بن سکن اسدی کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کے پاس گئے اور دیکھا کہ ان کی بیوی نے خسرہ بیماری کی وجہ سے تعویذ لٹکا رکھا تھا۔ انھوں نے اسے بڑی سختی سے کاٹ دیا اور کہا: عبداللہ کی آل و اولاد شرک سے غنی ہے۔ پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک جھاڑ پھونک، تعویذات اور حُب کے اعمال سب شرک ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2972

باب: فرمودات نبویہ کا صحابہ کی طبیعت پر غالب ہونا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 156
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے بنو تمیم کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین باتیں سنیں، اس کے بعد میں نے کبھی بھی بنو تمیم سے بغض نہیں رکھا۔ (ان کی تفصیل یہ ہے:) (۱) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ایک غلام آزاد کرنے کی نذر مانی تھی، اتنے میں بنو عنبر کے کچھ لوگ قیدی بن گئے، جب انہیں لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اپنی نظر پورا کرنا چاہتی ہو تو ان میں سے ایک غلام آزاد کر دو۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اولاد اسماعیل قرار دیا۔ (۲) ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ کے اونٹ لائے گئے، ان کے حسن و جمال نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حیرت میں ڈال دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میری قوم کے اونٹ ہیں۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی قوم قرار دیا۔ نیز فرمایا: (۳) ”وہ گھمسان کی جنگوں میں سخت لڑائی کرنے والے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی 3114
باب: سر زمین عرب سے شیطان کی مایوسی
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 157
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان اس بات سے ناامید ہو چکا ہے کہ تمہاری (جزیرہ عرب) کی زمین پر اس کی عبادت کی جائے، لیکن وہ تم سے ایسے (گناہ کروا کے) راضی ہو جائے گا، جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2635

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 158
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک شیطان اس بات سے ناامید ہو چکا ہے کہ جزیرہ عرب میں نمازی (یعنی مسلمان) اس کی عبادت کریں، لیکن وہ انہیں فساد پر آمادہ کرتا رہے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1608

باب: فتح مکہ والے دن ابلیس کی کیفیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 159
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو ابلیس غمگین آواز سے رونے لگ گیا، اس کے لشکر اس کے پاس جمع ہو گئے۔ اس نے کہا: مایوس ہو جاؤ ہم آج کے بعد محمد (ﷺ) کی امت کو شرک میں مبتلا دیکھ سکیں، اب ان کے دین میں فتنے برپا کرو اور نوحہ کو عام کر دو۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3467

باب: شیطان کے ہتھکنڈے شیطان کی نافرمانی پر جنت کی بشارت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 160
سیدنا سبرہ بن ابوفاکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”آدم (علیہ السلام) کے بیٹے (کو گمراہ کرنے کے لئے) شیطان اس کے مختلف راستوں میں گھات لگا کر بیٹھ گیا۔ اسلام کے راستے میں بیٹھ کر (مسلمان ہونے والے) کو کہتا ہے: کیا تو اسلام قبول کرتا ہے اور اپنے اور اپنے آباؤ اجداد کے دین کو ترک کرتا ہے؟ لیکن ابن آدم اس کی نافرمانی کرتا ہے اور اسلام قبول کر لیتا ہے۔ پھر وہ ہجرت کے راستے پر بیٹھ جاتا ہے اور اسے کہتا ہے: کیا تو اب ہجرت کرتا ہے اور اپنے زمین و آسمان (یعنی علاقہ و وراثت) کو چھوڑنے لگا ہے، مہاجر کی مثال اس گھوڑے کی طرح ہے جو اس رسی میں ہو؟ لیکن وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ہجرت کر جاتا ہے۔ پھر وہ جہاد کے راستے پر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: کیا تو جہاد کرنے کے لئے جا رہا ہے (دیکھ لے) یہ تو محنت و مشقت والا کام ہے، اس میں مال و دولت کھپ جاتا ہے، جب تو لڑے گا تجھے قتل کر دیا جائے گا، کوئی دوسرا تیری عورت سے نکاح کر لے گا اور تیرا مال (ورثا میں) تقسیم کر دیا جائے گا؟ لیکن وہ اس کی رائے کو ٹھکرا دیتا ہے اور جہاد کرتا ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے (شیطان کے ساتھ) ایسے کیا، تو اللہ تعالی پر حق ہے وہ اسے جنت میں داخل کرے اور جو شہید ہو تو اللہ تعالی پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے، اگر وہ غرق ہو گیا تو اللہ تعالی پر لازم ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور اگر اس کی سواری نے اسے اس طرح گرایا کہ اس ک «ی گر» دن ٹوٹ گئی (اور وہ فوت ہو گیا) تو اللہ تعالی پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل میں داخل کرے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2979

باب: نظر لگنا برحق ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 161
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک نظر بد آدمی کو اللہ تعالی کے حکم سے دیوانا کر دیتی ہے، حتی کہ (بسا اوقار ایسے ہوتا ہے کہ) وہ اونچی جگہ پر چڑھتا ہے اور پھر وہاں سے گر پڑتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 889

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 162
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بیماری متعدی نہیں، نہ برے شگون کی کوئی حقیقت ہے اور نظر لگنا حق ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 781
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 163
عبید بن رفاقی سرقی کہتے ہیں: سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اے اللہ کے رسول! جعفر کی اولاد کو بہت جلد نظر بد لگ جاتی ہے، کیا میں ان کو دم کر دیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، کیونکہ کوئی چیز اگر تقدیر سے سبقت لے سکتی ہوتی تو وہ نظر ہوتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1252

باب: بنوثقیف کا کذاب اور مہلک
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 164
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو ثقیف میں ایک کذاب ہو گا اور ایک مہلک (یعنی ہلاک کرنے والے)۔“ یہ حدیث سیدہ اسما بنت ابوبکر صدیق، سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدہ سلامہ بنت جعفیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ سیدہ اسما رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حجاج سے کہا: آگاہ ہو جا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیان کیا تھا کہ ”ثقیف قبیلہ میں ایک کذاب ہو گا اور ایک مہلک۔“ کذاب تو ہم نے دیکھ لیا، رہا مسئلہ مہلک کا، تو میں یہی سمجھ پا رہی ہوں کہ وہ تو ہی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3538

باب: بنو آدم کے دلوں کا اللہ تعالیٰ کے قابو میں ہونا اور اس کا تقاضا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 165
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بنی آدم کے دل رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی مانند ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے ان کو پلٹ دیتا ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی: ”اے دلوں کو الٹ پلٹ کرنے والے: ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1689

باب: فرزندان امت کی دیدار نبی کی شدید خواہش
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 166
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ایسے لوگ بھی آئیں گے کہ وہ اپنے اہل و عیال اور مال و منال کو میرے دیدار کی خاطر قربان کر دینے کو پسند کریں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3438

باب: اسلام کی علامات
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 167
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”راستے کی طرح اسلام کی بھی کچھ نشانیاں اور علامتیں ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: اللہ پر ایمان لانا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، بیت اللہ کا حج کرنا، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، گھر والوں پر داخل ہوتے وقت ان پر سلام کرنا اور لوگوں کے پاس سے گزرتے وقت انہیں سلام کہنا۔ جس نے ان امور میں سے کسی میں کمی کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے اسلام کی ایک شق ترک کر دی اور جس نے ان تمام چیزوں کو ترک کر دیا، اس نے تو اسلام کی طرف اپنی پیٹھ پھیر دی (یا اسلام کو پس پشت ڈال دیا)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 333
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 168
سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی انگلیوں کی تعداد کے برابر قسمیں اٹھائی تھیں کہ میں نہ آپ کے پاس آؤں گا اور نہ آپ کا دین اختیار کروں گا، لیکن اب میں آ گیا ہوں۔ میں ایک بےسمجھ سا انسان ہوں اور مجھے اللہ اور رسول کی سکھائی ہوئی صرف چند معلومات کا علم ہے، اب میں اللہ تعالی کی ذات کا واسطہ دے کر آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ کے رب نے آپ کو کون سی چیز کے ساتھ مبعوث کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کے ساتھ۔“ میں نے کہا: اسلام کی علامتیں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا یہ کہنا کہ میں نے اپنا چہرہ اللہ تعالی کے لئے مطیع کر دیا اور اس کے حق میں دستبردار ہو گیا اور نماز قائم کرنا اور زکوۃ ادا کرنا۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے حرمت والا ہے، (اس مذہب میں) دو بھائی ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی مشرک کے مسلمان ہونے کے بعد اس کا کوئی عمل اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ مشرکوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی طرف نہ آ جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 369

باب: ہمارے لئے کسی کے ایمان یا کفر کو پہچاننے کے لئے معیار اس کی زبان ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 169
سیدنا فرات بن حیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ابوسفیان کا جاسوس اور ایک انصار کا حلیف تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قتل کرنے کا حکم دیا۔ میں انصار کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا اور کہا: میں مسلمان ہوں۔ ایک انصار نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو کہہ رہا ہے وہ مسلمان ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم تم میں سے بعض لوگوں کو ان کے ایمان کے سپرد کرتے ہیں، فرات بن حیان بھی ان میں سے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1701

باب: ہر دشمن سے بچانے والا اللہ ہے . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی انتقام نہ لینا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 170
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف ایک غزوے میں شریک تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ چلتے چلتے ایسی وادی میں قیلولے کا وقت ہو گیا جس میں خار دار درخت بہت زیادہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پڑاؤ ڈالا اور لوگ درخت کا سایہ حاصل کرنے کے لئے بکھر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ببول کے درخت کے نیچے آ گئے اور اس کے ساتھ اپنی تلوار لٹکا دی۔ ہم سو گئے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا، جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بدو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا: ”میں سویا ہوا تھا، اس بدو نے میری تلوار میان سے نکالی، جب بیدار ہوا تو میری تلوار اس کے ہاتھ میں سونتی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے کہا: کون ہے جو آپ کو مجھ سے بچائے گا؟ میں نے کہا: اللہ ہے۔ یہ دیکھو! اب یہ بیٹھا ہوا ہے (اور میرا کچھ نہ بگاڑ سکا)۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کوئی انتقام نہ لیا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3546
باب: اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امان کن صفات کی بنا پر ہے؟ غیر اسلامی ممالک میں سکونت پذیر ہونا کیسا ہے؟ ہجرت کا حکم باقی ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 171
یزید بن عبداللہ بن خیر کہتے ہیں: ہم مربد میں بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے پاس ایک پراگندہ بالوں والا ایک بدو آیا، اس کے پاس کھال کے یا چمڑے کے تھیلے کا ایک ٹکڑا تھا۔ ہم نے کہا: یہ آدمی تو شہری لگتا ہے۔ اس نے کہا: جی ہاں، یہ خط ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے لکھا تھا۔ لوگوں نے کہا: ہمیں دیجئے۔ میں نے وہ پکڑ لیا اور پڑھا، اس میں لکھا ہوا تھا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔ یہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بنو زہیر بن اقیش کی طرف ہے۔ بنو زہیر، عکل کا قبیلہ تھا۔ اگر تم گواہی دے دو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، مشرکوں سے الگ ہو جاؤ اور غنیمتوں میں سے پانچواں حصہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منتخب حصہ دے دو تو تم اللہ تعالی کی امان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امان میں آ جاؤ گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2857

باب: مشرکوں کی صحبت کی نحوست
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 172
سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی انگلیوں کی تعداد کے برابر قسمیں اٹھائی تھیں کہ میں نہ آپ کے پاس آؤں گا اور نہ آپ کا دین اختیار کروں گا، لیکن اب میں آ گیا ہوں۔ میں ایک بےسمجھ سا انسان ہوں اور مجھے اللہ اور رسول کی سکھائی ہوئی صرف چند معلومات کا علم ہے، اب میں اللہ تعالی کی ذات کا واسطہ دے کر آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ کے رب نے آپ کو کون سی چیز کے ساتھ مبعوث کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کے ساتھ۔“ میں نے کہا: اسلام کی علامتیں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا یہ کہنا کہ میں نے اپنا چہرہ اللہ تعالی کے لئے مطیع کر دیا اور اس کے حق میں دستبردار ہو گیا اور نماز قائم کرنا اور زکوۃ ادا کرنا۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے حرمت والا ہے، (اس مذہب میں) دو بھائی ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی مشرک کے مسلمان ہونے کے بعد اس کا کوئی عمل اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ مشرکوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی طرف نہ آ جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 369

باب: جہنم سے دور کرنے اور جنت میں داخل کرنے والے اسباب واضح ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 173
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز تمہیں جنت کے قریب کر سکتی ہے، میں نے تمہیں اس کا حکم دے دیا ہے اور جو چیز تمہیں جہنم کے قریب کر سکتی ہے، اس سے منع کر دیا ہے۔ روح قدس (یعنی جبریل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے: کوئی جان اپنے رزق کی تکمیل کے بغیر نہیں مرتی، پس تم اللہ تعالی سے ڈرو اور اعتدال کے ساتھ مانگا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو رزق کا مؤخر ہونا تمہیں اس بات پر اکسا دے کہ تم اللہ تعالی کی نافرمانیاں کر کے رزق کی تلاش میں پڑ جاؤ (یاد رکھو!) جو کچھ اللہ تعالی کے پاس ہے اس کی اطاعت کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2866
باب: رزق کیسے طلب کیا جائے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 174
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز تمہیں جنت کے قریب کر سکتی ہے، میں نے تمہیں اس کا حکم دے دیا ہے اور جو چیز تمہیں جہنم کے قریب کر سکتی ہے، اس سے منع کر دیا ہے۔ روح قدس (یعنی جبریل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے: کوئی جان اپنے رزق کی تکمیل کے بغیر نہیں مرتی، پس تم اللہ تعالی سے ڈرو اور اعتدال کے ساتھ مانگا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو رزق کا مؤخر ہونا تمہیں اس بات پر اکسا دے کہ تم اللہ تعالی کی نافرمانیاں کر کے رزق کی تلاش میں پڑ جاؤ (یاد رکھو!) جو کچھ اللہ تعالی کے پاس ہے اس کی اطاعت کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2866

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 175
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رزق کو مؤخر نہ سمجھو، کوئی آدمی اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اپنے (مقدر میں لکھے ہوئے) رزق کی تکمیل نہیں کر لیتا۔ اعتدال کے ساتھ طلب کرو یعنی حلال چیز استعمال کرو اور حرام کو ترک کر دو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2607

باب: جہاد تا قیامت جاری رہے گا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 176
سیدنا سلمہ بن نفیل سکوتی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا، حتی کے میرے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں کو چھو رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! گھوڑوں سے غفلت برتی جا رہی ہے، اسلحہ پھینک دیا گیا ہے اور لوگ یہ گمان کرنے لگے ہیں کہ جہاد ختم ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ جھوٹ بول رہے ہیں، قتال کا تو ابھی ابھی نفاذ ہوا ہے، میری امت کی ایک جماعت حق پر قائم دائم رہے گی، لوگوں پر غالب رہے گی، بعض لوگوں کے دل منحرف ہوتے رہیں گے اور وہ ان سے قتال کر کے مال غنیمت حاصل کرتے رہیں گے۔“ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت یمن کی طرف تھی: ”میں ادھر سے رحمٰن کی خوشبو (یا رحمت) محسوس کر رہا ہوں۔ اس وقت آپ یمن کی طرف اشارہ فرما رہے تھے۔ مجھے بذریعہ وحی بتلا دیا گیا ہے کہ میں ٹھہرنے والا نہیں، بلکہ فوت ہونے والا ہوں، تم لوگ گروہ در گروہ میرے پیچھے چلو گے اور (یاد رکھو کہ) گھوڑے کی پیشانی میں روز قیامت تک خیر و بھلائی معلق رہے گی اور گھوڑے والے ان پر سوار ہو کر سختیاں جھیلتے رہیں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3367

باب: اسلام میں رہبانیت نہیں . . . جہاد کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 177
سیدنا ابوامامہ کہتے ہیں: ہم ایک لشکر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ایک آدمی کا ایک نشیبی جگہ کے پاس سے گزر ہوا، وہاں پانی کا چشمہ بھی تھا، اسے خیال آیا کہ وہ دنیا سے کنارہ کش ہو کر یہیں فروکش ہو جائے، یہ پانی اور اس کے اردگرد کی سبزہ زاریاں اسے کفایت کریں گی۔ پھر اس نے یہ فیصلہ کیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاوں گا اور یہ معاملہ آپ کے سامنے رکھوں گا، اگر آپ نے اجازت دے دی تو ٹھیک، ورنہ نہیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے نبی! میں فلاں نشیبی جگہ سے گزرا، وہاں کے پانی اور سبزے سے میری گزر بسر ہو سکتی ہے، مجھے خیال آیا میں دنیا سے کنارہ کش ہو کر یہیں بسیرا کر لوں، (اب آپ کا کیا خیال ہے)؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہودیت اور نصرانیت لے کر نہیں آیا، مجھے نرمی اور سہولت آمیز شریعت دے کر مبعوث کیا گیا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اللہ کے راستے میں صبح کا یا شام کا چلنا دنیا و مافہیا سے بہتر ہے اور دشمن کے سامنے صف میں کھڑے ہونا ساٹھ کی نماز سے افضل ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2924
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 178
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے، نماز قائم کی اور بیت اللہ کا حج کیا۔ مجھے اس بات کا علم نہ ہو سکا آیا آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا یا نہیں۔ مگر اللہ تعالی پر لازم ہے کہ اسے بخش دے، اگرچہ اس نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی ہو یا اپنے پیدائشی علاقے میں ٹھہرا ہوا ہو۔“ سیدنا معاذ نے کہا: کیا میں لوگوں کو یہ حدیث بیان کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہنے دو، تاکہ وہ مزید عمل کرتے رہیں، کیونکہ جنت میں سو درجے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے مابین ہے اور جنت کا اعلیٰ و افضل مقام فردوس ہے، اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے، وہاں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ جب اللہ تعالی سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1913

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کی مثال
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 179
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”میں نے خواب دیکھا جبریل (علیہ السلام) میرے سر کے پاس اور میکائل (علیہ السلام) میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گئے۔ ایک نے دوسرے سے کہا: اس (نبی) کی کوئی مثال بیان کیجئے۔ دوسرے نے کہا: سنو! تمہارا کان سنے، سمجھو تمہارا دل سمجھے، تم اور تمہاری امت کی مثال یہ ہے: ایک بادشاہ نے ایک جاگیر حاصل کی، اس میں ایک محل بنایا اور اس میں کھانے کی دعوت کا اہتمام کیا، لوگوں کو دعوت دینے کے لئے قاصد بھیجا، کسی نے قاصد کا پیغام قبول کیا اور کسی نے نہ کیا (اس مثال کی وضاحت یہ ہے کہ) اللہ بادشاہ ہے، اسلام جاگیر ہے، جنت محل ہے اور اے محمد! آپ قاصد ہیں، جس نے آپ کا پیغام قبول کیا وہ اسلام میں داخل ہو جائے گا اور اسلام میں داخل ہونے والا جنت میں چلا جائے گا اور جو جنت میں داخل ہو گیا وہ اس کے کھانے کھائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3595

باب: اسلام کے بعد پھر سے فتنوں کا ابھرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 180
سیدنا کرز بن علقمہ خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اسلام کی کوئی انتہا بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی عرب و عجم کے جس جس گھر کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرے گا، وہاں اسلام پہنچا دے گا، پھر سایوں کی طرح فتنے برپا ہو جائیں گے۔“ ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ نے چاہا تو ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! پھر تم کثیر تعداد میں پلٹ آؤ گے اور ایک دوسرے کا خون کرو گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3091
باب: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لايضركم من ضل إذا اهتديتم» کی تفسیر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 181
سیدنا ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمارا ایک آدمی جنگ اوطاس میں قتل ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”ابو عامر! تو نے دیت کیوں نہیں لی؟“ میں نے جواباً یہ آیت پڑھی: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم» ”اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ ہے اس سے تمھارا کوئی نقصان نہیں“ (سورہ مائدہ: ۱۰۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ گئے اور فرمایا: ”تم کہاں چلے گئے ہو؟ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تم راہ راست پر آ جاؤ تو کفار لوگ تمہیں گمراہ نہ کرنے پائیں۔“ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: ”سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کوئی وجہ تھی جس کی بنا پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رکا رہا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ تجھے کس چیز نے روکے رکھا ہے تو میں نے یہ آیت پڑھی: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم» ”اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ ہے اس سے تمھارا کوئی نقصان نہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2560

باب: ایمان کے شعبے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 182
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان کے تہتر چوہتر شعبے ہیں، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا سب سے ادنی اور «لا إله إلا الله» سب سے اعلیٰ شعبہ ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1769

باب: یمنی لوگوں کے ایمان کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 183
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ایمان تو یمنی لوگوں کا ہے، اسی طرح لحم اور جذام قبیلوں کے لوگوں کا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3126

باب: اہل یمن کی تعریف اور اہل مشرق کی مذمت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 184
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان تو یمنی ہے اور کفر مشرق کی طرف ہے اور بکری والوں میں سکینت ہوتی ہے اور نمود و نمائش اور فخر و غرور گھوڑوں اور اونٹوں کے مالکوں میں پایا جاتا ہے۔ مسیح دجال مشرق کی طرف سے آئے گا، اس کا ہدف مدینہ ہو گا، لیکن جب وہ احد پہاڑ کے پیچھے پہنچے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے، وہیں ہلاک ہو جائے گا، وہیں ہلاک ہو جائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1770

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنوں پر قرآن مجید کی تلاوت کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 185
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میں نے حجون (پہاڑ) میں رات گزاری اور جنوں کی جماعت کو قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3209
باب: دعوت اسلام پر مشتمل ہرقل کے نام خط، قبولیت اسلام کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی صفات
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 186
سیدنا ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (شاہ روم) ہرقل نے اس کو بلانے کے لئے اس کی طرف ایک آدمی بھیجا، جبکہ وہ قریش کے ایک قافلے میں تھا، اس وقت یہ لوگ تجارت کے لئے شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور سفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا، ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیا پہنچ گئے، ہرقل نے دربار طلب کیا تھا، اس کے اردگرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء، وزرا اور امرا) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا، پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں: میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں (یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس (سفیان) کو میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو، پھر اپنے ترجمان سے کہا: ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص (محمد ﷺ) کے حالات پوچھتا ہوں، اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔ (ابوسفیان کا قول ہے کہ) خدا کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی۔ (ہم آسانی کے لئے روایت کا ترجمہ مکالمے کی صورت میں پیش کرتے ہیں) ہرقل: تم لوگوں میں اس شخص کا خاندان کیسا ہے؟ ابوسفیان: وہ بڑے عالی نسب والا ہے۔ ہرقل: اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا تھا؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟ ابوسفیان: کمزوروں نے کی ہے۔ ہرقل: اس کے تابعدار روز بروز بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ ابوسفیان: بڑھ رہے ہیں۔ ہرقل: کیا کوئی اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اس دین کو ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: کیا اس دعوئ نبوت سے پہلے تم لوگ اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: کیا وہ دھوکا کرتا ہے؟ ابوسفیان: نہیں اور اب ہماری اس سے (صلح کی) مقرہ مدت ٹھہری ہوئی ہے، معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ میں اس بات کے سوا اور کوئی (جھوٹ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔ ہرقل: کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی ہوئی ہے؟ ابوسفیان: ہاں۔ ہرقل: تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوا؟ ابوسفیان: کبھی اس کے فریق کو کامیابی ہوئی اور کبھی ہمارے فریق کو، کبھی وہ جیت جاتے کبھی ہم۔ ہرقل: وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ ابوسفیان: وہ کہتا ہے اللہ کی عبادت کرو، جو یکتا و یگانہ ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے باپ دادا والی (شرک والی) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ (یہ سب سن کر) ہرقل نے اپنے ترجمان کو کہا: ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہے اورر پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ (دعوئ نبوت کی) یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی، تم نے جواب دیا نہیں۔ تب میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں یہ سمجھتا کہ اس شخص نے بھی اس بات کی تقلید کی ہے، جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے، تم نے کہا نہیں، میں نے (دل میں) کہا کہ اگر ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو کہہ دیتا وہ شخص (یہ بہانا بنا کر) اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک (دوبارہ) حاصل کرنا چاہتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے (یعنی پیغمبری کا دعوئ کرنے) سے پہلے تم نے کبھی اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ہے، تم نے کہا کہ نہیں، میں نے سمجھ لیا جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے، اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے اس کے پیرو ہیں یا کمزور آدمی، تم نے کہا کہ کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے، (دراصل) یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں، تم نے کہا وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے حتی کے وہ کامل ہو جاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے، تم نے کہا نہیں۔ درحقیقت ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا، آیا اس نے کبھی عہدشکنی بھی کی ہے، تم نے کہا کہ نہیں، پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے، تم نے کہا وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتا ہے، سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتا ہے۔ اگر یہ باتیں، جو تم کہہ رہے ہو، سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک بن جائے گا، جہاں میرے دو پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا وہ (پیغمبر) آنے والا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں تھا وہ تمہارے اندر ہو گا، اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لئے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس پاؤں دھوتا۔ ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط منگوایا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعے حاکم بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور اس نے وہ ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، پھر اس کو پڑھا تو اس میں (لکھا تھا): «بسم اللہ الرحمٰن الرحیم» یہ خط اللہ کے بندے اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شاہ روم کی طرف ہے۔ اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں تم پر دعوت اسلام پیش کرتا ہوں، اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (آپ کو دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہو گی، اللہ تعالی آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (میری دعوت) سے روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سے) منہ پھیر لیں تو (مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں: جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے اردگرد بہت شور و غوغا ہوا۔ بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ابوکبشہ کے بیٹے (محمد ﷺ) کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا۔ (دیکھو کہ) اس سے بنو اصفر (رومیوں) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت اس بات کا یقین ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے، حتی کہ اللہ تعالی نے مجھے مسلمان کر دیا۔ (راوی کا بیان ہے کہ) ابن ناطور ایلیا کا حاکم ہرقل کا مصائب اور شام کے نصاریٰ کا لاٹ پادری بیان کرتا ہے کہ ہرقل جب ایلیا آیا، تو ایک دن صبح کو پریشان اٹھا، اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں، (کیا وجہ ہے؟) ابن ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل نجومی تھا، وہ علم نجوم میں پوری مہارت رکھتا تھا، اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے، (بھلا) اس زمانے میں کون لوگ ختنہ کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں، سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھ بھیجئے کہ وہاں جتنے یہودی ہوں سب قتل کر دیئے جائیں۔ وہ لوگ انہیں باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جسے شاہ غسان نے بھیجا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کئے۔ جب ہرقل نے سارے حالات سن لئے تو کہا جا کر دیکھو کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے یا نہیں؟ انھوں نے اسے دیکھا تو بتلایا کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے۔ ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں، تب ہرقل نے کہا کہ یہ وہی (محمد ﷺ) اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو رومیہ خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا۔ پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا۔ ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا جوابی خط آ گیا۔ اس کی رائے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کے موافق تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (واقعی) پیغمبر ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو حمص کے محل میں طلب کیا اور اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ پھر وہ (اپنے خاص محل سے) باہر آیا اور کہا: اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لئے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقاء چاہتے ہو تو پھر اس نبی کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جاؤ (یہ سننا ہی تھا کہ) وہ سب وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے، مگر دروازوں کو بند پایا۔ آخر جب ہرقل نے (اس بات سے) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ (جب وہ دوبارہ آئے) تو اس نے کہا: میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی، سو میں نے اس کو دیکھ لی۔ تب (یہ بات سن کر) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔ یہ ہرقل کا آخری معاملہ تھا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3607
باب: ایمان کی مٹھاس کس کو نصیب ہوتی ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 187
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس میں تین خسائل پائے جائیں گے وہ ایمان کی مٹھاس اور ذائقہ چکھ لے گا: اللہ اور اس کا رسول اسے بقیہ تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں، کسی سے اللہ کے لئے محبت کرے اور اسی کے لئے اس سے بغض رکھے اور اسے بہت بڑی آگ میں گرنا اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی بہ نسبت زیادہ پسند ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3423

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 188
سیدنا عبداللہ بن معاویہ غاضری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے یہ تین امور سر انجام دئیے وہ ایمان کا مزہ چکھ لے گا: جس نے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی وہی معبود برحق ہے، اپنے دل کی خوشی کے ساتھ زکوۃ ادا کی، جو ہر سال فرض ہوتی ہے، نیز زکوۃ میں بہت بوڑھا، بیمار، مریض اور گھٹیا جانور نہیں دیا۔ معتدل و متوسط چیز ہونی چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے نہ بہت بہتر چیز کا مطالبہ کیا اور نہ گھٹیا چیز کا حکم دیا۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”اس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔“ ایک آدمی نے پوچھا: تزکیہ نفس کیسے ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا یہ جان لینا کہ اللہ تعالی اس کے ساتھ ہوتا ہے، وہ جہاں بھی ہو“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1046

باب: کن لوگوں کی عبادت قبول نہیں ہوتی؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 189
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان تین قسم کے اشخاص کی فرضی عبادت قبول ہوتی ہے نہ نفلی عبادت: نافرمان و بدسلوک، احسان جتلانے والا، اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1785

باب: دو گنا اجر لینے والے تین قسم کے افراد
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 190
سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے افراد کو دو اجر دیئے جاتے ہیں: وہ آدمی جو اپنی لونڈی کی اخلاقی تربیت کرتا ہے، اچھی تعلیم دیتا ہے اور پھر اس کو آزاد کر کے اس سے شادی کر لیتا ہے۔ وہ غلام جو اللہ تعالیٰ اور اپنے آقا دونوں کے حقوق پورے کرتا ہے اور وہ (اہل کتاب) جو اپنی کتاب پر اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1153

باب: ملک الموت کی پہلوں کے پاس آنے کی کیفیت سیدنا موسی علیہ السلام کا ملک الموت کو تھپڑ مارنے کا واقعہ

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 191
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ نے فرمایا: ”ملک الموت (موت والا فرشتہ) لوگوں کے پاس آتا تھا اور وہ اس کو دیکھتے تھے۔ وہ موسی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا: اپنے رب کی بات قبول کرو (اور روح قبض کرنے دو)۔ موسی علیہ السلام نے اسے مارا اور اس کی آنکھ پھوڑ دی۔ فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ گیا اور کہا: اے میرے رب! تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا، اس نے تو (طمانچہ مار کر) میری آنکھ پھوڑ دی، اگر تو نے اسے معزز نہ بنایا ہوتا تو میں بھی اس پر سختی کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے آنکھ عطا کی اور فرمایا: میرے بندے کے پاس واپس جاؤ اور پوچھو: کیا زندگی چاہتے ہو؟ اگر ارادہ ہے تو بیل کی کمر پر ہاتھ رکھو، جتنے بال ہاتھ کے نیچے آ جائیں گے، اتنے سال تم زندہ رہو گے۔ موسی علیہ السلام نے (فرشتے کی یہ بات سن کر) کہا: اے میرے رب! پھر کیا ہو گا؟ جواب ملا: پھر تجھے موت آئے گی۔ انھوں نے کہا: اے میرے رب! ابھی موت دے دے، اس حال کہ میں پاک سرزمین سے ایک پتھر کی پھینک پر ہوں۔ پھر انہیں ایک بو سونگھائی اور ان کی روح قبض کر لی۔ اس کے بعد فرشتہ لوگوں کے پاس مخفی انداز میں آنے لگ گیا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں سرخ ٹیلے کے پاس ان کی قبر دکھاتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3279
باب: جنت و جہنم دونوں ہر ایک کے قریب ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 192
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے اور جہنم بھی اسی طرح ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3624
باب: حلال اور حرام تو واضح ہیں، لیکن مشتبہ امور . . .
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 193
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ ممکن ہے ان میں پڑنے والا گناہ میں پڑ جائے اور جس نے ان (شبہات) سے بھی اجتناب کیا تو وہ اپنے دین کو زیادہ محفوظ رکھنے والا ہو گا۔ (شبہات میں پڑنے والے کی) مثال اس چرواہے کی طرح ہے جو چراگاہ کے اردگرد جانور چراتا ہے، ممکن ہے وہ (جانور کسی دوسرے کے کھیت میں) گھس جائے۔ ہر بادشاہ کا ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے اور اللہ تعالی کا ممنوعہ علاقہ حرام کردہ چیزیں ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3361

باب: مالدار کے پاس نیکیاں کم ہوتی ہیں، مگر . . .
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 194
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک رات کو نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چل رہے ہیں، آپ کے ساتھ کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں نے سمجھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شاید اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی چلے۔ میں نے چاند کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ آپ میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے دیکھا اور پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: میں ابوذر ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر ادھر آؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”قیامت والے روز کثیر مال و دولت والے اجر و ثواب میں کم ہوں گے، مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے (صدقہ کرتے ہوئے) اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھیر دیا اور اس کے ذریعے نیک اعمال کئے۔“ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتا رہا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھ جاؤ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی ہموار زمین پر بٹھایا، جس کے اردگرد پتھر پڑے ہوئے تھے۔ پھر فرمایا: ”میرے واپس آنے تک یہاں بیٹھے رہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرہ (کالے پتھروں والی زمین) کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے، آپ وہاں کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آ رہے تھے: ”اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے اللہ تعالی آپ پر قربان کرے! آپ حرہ زمین کے پاس کس سے گفتگو کر رہے تھے؟ پھر آپ کو کوئی جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبریل تھا، حرہ کے ساتھ ہی وہ مجھے ملا اور کہا: (اے محمد!) اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو اس حال میں مرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: جبریل! اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے؟ اس نے کہا: جی ہاں اور اگرچہ وہ شراب بھی پی لیا ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 826
باب: نماز، حج اور رمضان کے روزوں کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 195
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے، نماز قائم کی اور بیت اللہ کا حج کیا۔ مجھے اس بات کا علم نہ ہو سکا آیا آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا یا نہیں۔ مگر اللہ تعالی پر لازم ہے کہ اسے بخش دے، اگرچہ اس نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی ہو یا اپنے پیدائشی علاقے میں ٹھہرا ہوا ہو۔“ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں لوگوں کو یہ حدیث بیان کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہنے دو، تاکہ وہ مزید عمل کرتے رہیں، کیونکہ جنت میں سو درجے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے مابین ہے اور جنت کا اعلیٰ و افضل مقام فردوس ہے، اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے، وہاں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ جب اللہ تعالی سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1913

باب: آب و فضا موافق نہ آنے کی صورت میں علاقہ چھوڑا جا سکتا ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 196
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم (قبولیت اسلام سے قبل) ایسے علاقے میں تھے، جہاں ہماری تعداد زیادہ اور مال کثیر مقدار میں تھا، اب ہم ایسے علاقے میں منتقل ہو گئے ہیں جہاں تعداد بھی کم ہو گئی ہے اور مال کی مقدار میں بھی کمی آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس علاقے کو ترک کر دو، یہ مذموم ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 790

باب: نیک خواب
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 197
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیک خواب، نبوت کا پچیسواں جز ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1869

باب: برا خواب
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 198
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی آیا اور کہا: میں نے خواب میں دیکھا میرا سر قلم کر دیا گیا اور پھر وہ لڑھک گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ایک آدمی کے پاس شیطان آ کر خوفناک شکلیں پیش کرتا ہے اور وہ صبح کو لوگوں کو بیان کرنا شروع کر دیتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2453

باب: «الذين آمنوا وكانوا يتقون لهم البشرى في الحياة الدنيا وفي الآخرة» کی تفسیر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 199
ابوصالح کہتے ہیں: کہ میں سن رہا تھا، سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا۔ انھوں نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا، مجھ سے کسی نے دریافت نہیں کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا تھا: ”اس کے بارے میں تجھ سے پہلے مجھ سے کسی نے سوال نہیں کیا، اس سے مراد نیک خواب ہے، جو بندہ دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1786

باب: درجات کی بلندی اور گناہوں کا کفارہ بننے والے اعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 200
سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے رب کو بہت حسین صورت میں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا: اشراف فرشتوں کی جماعت کس چیز میں جھگڑا کرتی ہے؟ میں نے کہا: میں تو نہیں جانتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے کندھوں کے درمیان رکھا مجھے انگلیوں کی ٹھنڈک بھی محسوس ہوئی۔ پھر پوچھا: سردار فرشتوں کی جماعت کس چیز میں بحث و مباحثہ کرتی ہے؟ میں نے کہا: کفارات اور درجات میں۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: وضو کرنا، نماز باجماعت کے لیے (مساجد کی طرف) چل کر جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے لیے انتظار کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: درجات سے کیا مراد ہے؟ میں نے کہا: کھانا کھلانا، سلام عام کرنا اور جب لوگ رات کو سو رہے ہوں تو نماز پڑھنا پھر اللہ تعالیٰ نے کہا: کہو۔ میں نے کہا: کیا کہوں؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: کہو: «اللهمّ! إنِّي أسألك عَمَلاً بالحسناتِ، وتركاً للمنكراتِ، وإذا أردتَ في قومٍ فتنةً وأنا فيهم؛ فاقبضني إليكَ غيرَ مفتونٍ» اے اللہ! میں تجھ سے نیکیاں کرنے اور برائیوں کو ترک کر دینے کا سوال کرتا ہوں اور جب تو لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہے اور میں وہاں موجود ہوں تو مجھے فتنے سے بچا کر موت دے دینا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3169
باب: دوست پہچان ہوتا ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 201
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اسے غور کرنا چاہیے کہ وہ کس کو دوست بنا رہا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 927

باب: نابالغ بچوں کا اخروی انجام
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 202
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کا معاملہ اس وقت تک ہم نوائی، ہم خیالی، (اتحاد اور موافقت) والا رہے گا، جب تک بچوں اور تقدیر (کے مسائل) میں گفتگو نہیں کریں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1515

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 203
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے رب سے «لاهين» کا سوال کیا، اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ عطا کر دئیے۔“ میں نے کہا: کہ «لاهين» سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسانی بچے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1881

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 204
سیدنا اسود بن سریع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ جہاد کیا، ایک دن میں نے (مخالف لشکر کے) بڑے بڑے لوگوں کو اچانک قتل کیا اور مجاہدین نے ان کے بچوں کو بھی قتل کر دیا۔ جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ قتل اپنی حد سے تجاوز کر گیا ہے اور بچوں کو بھی تہ تیغ کر دیا گیا ہے؟“ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو مشرکوں کے بچے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں مختار و منتخب لوگ بھی مشرکوں کے بچے ہیں۔“ پھر فرمایا: ”خبردار! بچوں کو قتل نہیں کرنا۔ خبردار! بچوں کو قتل نہیں کرنا، ہر انسان (اسلام کی) فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کی زبان وضاحت کر دے، پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 402

باب: کبیرہ گناہوں کی تین اقسام
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 205
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کبیرہ گناہ کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا، اللہ کی شفقت سے ناامید ہونا اور اس کی رحمت سے مایوس ہونا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2051

باب: بندے کی مایوسی پر اللہ تعالیٰ کا ہنسنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 206
سیدنا ابورزین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا رب بندوں کی ناامیدی اور اپنی طرف سے حالات کے تبدیل ہونے کے قریب ہونے پر ہنستا ہے۔“ سیدنا ابورزین نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ بھی ہنستے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں۔“ پھر فرمایا: ”جو رب ہنستا ہو، ہم اس کے ہاں خیر و بھلائی کو مفقود نہیں پا سکتے۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”اور اللہ تعالیٰ کو بارش والے دن کا علم ہوتا ہے، وہ تم پر جھانکتا ہے، اس حال میں کہ تم پریشان حال، (ناامید) اور ڈرنے والے ہوتے ہو، پس وہ ہنسنے لگتا ہے، تحقیق وہ جانتا ہے تمہارے (تنگ) حالات کا (خوشحالی میں) تبدیل ہونا قریب ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2810

باب: نجاشی مسلمان تھا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 207
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نجاشی کی فوتگی کی خبر موصول ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی نماز جنازہ ادا کرو۔“ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! حبشی آدمی، جو مسلمان نہیں تھا، کی نماز جنازہ کیسے پڑھیں؟ اللہ تعالی نے جواباً یہ آیت نازل فرمائی: ”یقیناً اہل کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور تمہاری طرف جو اتارا گیا ہے اور ان کی جانب جو نازل ہوا اس پر بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہیں ہیں“۔ (سورہ ال عمران: ۱۹۹)
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3044
باب: اللہ تعالیٰ کا بندے سے قرضہ مانگنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 208
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے بندے سے قرضے کا سوال کیا، لیکن اس نے مجھے قرضہ نہیں دیا اور میرا بندہ مجھے لاشعوری کیفیت میں گالی دے رہا ہوتا ہے، حالانکہ اسے یہ زیب نہیں دیتا۔ وہ کہتا ہے: ہائے! افسوس زمانے پر، ہائے! افسوس زمانے پر، ہائے! افسوس زمانے پر، جبکہ میں (اللہ) زمانہ ہوں۔ ”
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3477

باب: اللہ تعالیٰ کے ہاں بندے کی مرتبت عالیہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 209
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کہتے ہیں: جس نے ایک نیکی کی، اسے دس گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب عطا کروں گا اور جس نے ایک برائی کی تو ایک برائی کا ہی بدلہ دوں گا یا وہ بھی معاف کر دوں گا۔ جو زمین کے لگ بھگ گناہ کرنے کے بعد مجھے اس حالت میں ملے کہ اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا رکھا ہو تو میں اسے اتنی ہی مغفرت عطا کر دوں گا۔ جو ایک بالشت میرے قریب ہو گا میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوں گا، جو ایک ہاتھ میرے قریب ہو گا میں دو ہاتھوں کے پھیلاؤ کے بقدر اس کے قریب ہوں گا اور جو میری طرف چل کے آئے گا میں اس کی طرف لپک کر جاؤں گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 581

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے بغیر آپ پر ایمان لانے والوں کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 210
سیدنا ابوعبد الرحمٰن جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ہمیں دو سوار دکھائی دئیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا: ”یہ دو کندی باشندے ہیں اور مذحجی قبیلے سے ان کا تعلق ہے۔“ وہ دونوں آپ کے پاس پہنچ گئے، واقعی وہ مذحج قبیلے کے آدمی تھے۔ ان میں سے ایک بیعت کرنے کے لیے آپ کے قریب ہوا۔ جب آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا تو اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو آدمی آپ کا دیدار کرے، آپ پر ایمان لائے، آپ کی تصدیق کرے اور آپ کی پیروی کرے، اسے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے خوشخبری ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔ پھر دوسرا آگے بڑھا، جب آپ نے بیعت لینے کے لیے اس کا ہاتھ پکڑا تو اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو آدمی آپ پر ایمان لائے، آپ کی تصدیق کرے، آپ کی اطاعت کرے لیکن دیدار نہ کر سکے تو اسے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے خوشخبری ہے، پھر خوشخبری ہے، پھر خوشخبری ہے۔“ پھر آپ نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیرا اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3432
باب: اچھا شگون لینا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 211
سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور کہا: امی جان! مجھے کوئی حدیث بیان کیجئے، جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پرندہ (کسی کی قسمتوں کے فیصلے نہیں کرتا بلکہ) اپنی تقدیر کے مطابق اڑتا ہے۔“ اور آپ کو اچھی فال پسند تھی۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 860

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 212
عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے بدشگونی اور بری فال نہیں لیتے تھے، لیکن جب کسی کو عامل بنا کر کہیں بھیجنے کا ارادہ کرتے تو اس کا نام پوچھتے۔ اگر اس کا نام پسند آ جاتا تو اس کے ساتھ خوش ہو جاتے اور خوشی کے آثار آپ کے چہرے میں نظر آتے اور اگر اس کا نام آپ کو ناپسند ہوتا تو (کراہت کے علامتیں) چہرے میں دکھائی دیتیں۔ اسی طرح جب کسی گاؤں میں داخل ہوتے تو اس کا نام پوچھتے، اگر اس کا پسندیدہ نام ہوتا تو آپ خوش ہو جاتے اور خندہ روئی کے آثار نظر آنے لگتے اور اگر ناپسندیدہ نام ہوتا تو چہرے پر ناپسندیدگی کی نشانیاں دکھائی دیتی تھیں۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 762

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 213
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بیماری متعدی نہیں، نہ فال بد کوئی چیز ہے، البتہ مجھے نیک فال پسند ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 787

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 214
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھا شگون لیتے تھے نہ بری فال، البتہ اچھا نام آپ کو پسند تھا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 777

باب: بدشگونی لینا منع ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 215
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برا شگون شرک ہے اور ہم میں سے جو بھی ہے اللہ تعالیٰ توکل کے ذریعے اس چیز کو ختم کر دیتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 429

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 216
سعید بن مسیب کہتے ہیں: میں نے سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ سے بدشگونی کے بارے میں پوچھا: انہوں نے مجھے جھڑک دیا اور کہا: تجھے یہ کس نے بیان کیا؟ میں نے ناپسند کیا کہ بیان کرنے والے کا نام بتاؤں۔ پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ کوئی بیماری متعدی ہے، نہ کوئی بدفال ہے اور نہ الو کا بولنا کوئی اثر رکھتا ہے، اگر بدشگونی ہوتی تو گھوڑے، بیوی اور گھر میں ہوتی۔ جب تم سنو کہ فلاں علاقے میں طاعون کی بیماری پھیل گئی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر تم اسی علاقہ میں ہو تو وہاں سے مت نکلو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 789

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 217
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بیماری متعدی نہیں ہے، نہ فال بد کوئی چیز ہے اور تین چیزوں میں بدشگونی (یا نحوست) ہوتی ہے: بیوی، گھوڑا اور گھر۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 788

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 218
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کہانت کی، یا جس کے لیے کی گئی یا جو بدشگونی لیتے ہوئے سفر سے واپس آ گیا وہ اعلی درجات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2161

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 219
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بیماری متعدی نہیں، نہ فال بد کوئی چیز ہے البتہ مجھے نیک فال پسند ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 787
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 220
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کے بازو میں پیتل کا چھلہ دیکھا اور پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ کمزوری کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہا: اگر اس چھلے کو پہنے ہوئے تجھے موت آ گئی تو تجھے اسی کے سپرد کر دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے برا شگون لیا یا اس کے لیے برا شگون لیا گیا یا جس نے کہانت کی یا اس کے لیے کہانت کی گئی یا جس نے جادو کیا یا جس کے لیے جادو کیا گیا، وہ ہم میں سے نہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2195

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 221
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے خود جادو کیا یا اس کے لیے جادو کیا گیا، یا جس نے کہانت کی یا اس کے لیے کہانت کی گئی یا جس نے بدفال لی یا جس کے لیے بدفال لی گئی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2650
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
باب: ناقابل معافی اور قابل معافی ظلم
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 239
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم کی تین قسمیں ہیں: (۱) اللہ تعالیٰ ایک ظلم کو کسی صورت نہیں چھوڑے گا، (۲) ایک ظلم کو بخش دے گا اور (۳) ایک ظلم معاف نہیں کیا جائے گا۔ (ان کی تفصیل یہ ہے) جس ظلم کو کسی صورت میں نہیں چھوڑا جائے گا، وہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔ جس ظلم کو بخش دیا جائے گا وہ اللہ اور بندے کے مابین کیا ہوا ظلم ہے۔ اور وہ ظلم جس کو معاف نہیں کیا جائے گا، وہ بندوں کا آپس میں ایک دوسرے پر کیا ہوا ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر صورت میں بعض (مظلوموں) کو بعض (ظالموں) سے قصاص دلوائے گا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1927

باب: کیا کسی چیز میں نحوست پائی جاتی ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 240
ابوحسان کہتے ہیں: بنو عامر قبیلے کے دو آدمی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور کہا: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں: ”اہل جاہلیت کہتے تھے: گھر میں، عورت میں اور گھوڑے میں نحوست ہوتی ہے۔“ سیدہ عائشہ غصے میں آ گئیں اور فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر فرقان (قران) نازل کیا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بات ارشاد نہیں فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”جاہلیت والے ان چیزوں سے برا شگون لیتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 993

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 241
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نحوست کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھر، بیوی اور گھوڑے (یعنی) سواری میں ہوتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 799

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 242
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی چیز میں نحوست کا ہونا درست ہوتا تو وہ بیوی، گھوڑے اور گھر میں ہوتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 442

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 243
سیدنا مخمر بن معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”کوئی نحوست نہیں، البتہ تین چیزوں میں خیر و برکت ہوتی ہے، یعنی بیوی، گھوڑے اور گھر میں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1930

باب: مہر نبوت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 244
ابونضرہ عوفی کہتے ہیں: میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہا: ”نبوت کی مہر آپ کی کمر میں گوشت کا ابھرا ہوا ایک ٹکڑا تھا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2093
باب: بے صبری کا انجام . . . خودکشی کا انجام
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 245
سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک آدمی تھا، وہ زخمی ہو گیا اور زخم کو برداشت نہ کر سکا، اس نے چھری لی اور اپنا ہاتھ کاٹ دیا۔ خون بہتا رہا، حتی کہ وہ مر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کہا: میرے بندے نے اپنی جان کے معاملے میں مجھ سے سبقت لینا چاہی اس لئے میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3013

باب: نسب تبدیل کرنا کفر ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 245M
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کفر ہے کہ آدمی ایسے نسب کا دعویٰ کرے جس کو وہ خود نہیں پہنچانتا یا (نسب میں سے) کسی چیز کا انکار کر دے اگرچہ معولی ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3370

باب: شرک اور قتل ناقابل معافی جرم ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 246
خالد بن دہقان کہتے ہیں: ہم غزوہ قسطنطنیہ کے دوران ذلقیہ مقام پر تھے، فلسطین کے اعلیٰ و اشرف لوگوں میں سے ایک آدمی ہمارے پاس آیا، اس کا نام ہانی بن کلثوم بن شریک کنانی تھا، اس نے عبداللہ بن ابوزکریا کو سلام کہا اور وہ اس کے حق کو پہنچانتا تھا، خالد نے ہمیں کہا: ہمیں عبداللہ بن زکریا نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ ام دردا رضی اللہ عنہا سے سنا وہ کہتی ہیں کہ میں نے سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گنہگار کو بخش دے، ماسوائے اس کے جو شرک کی حالت میں مرا یا وہ مومن جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 511

باب: روز قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نسبی اور ازدواجی رشتہ قائم رہے گا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 247
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے روز ہر رشتہ (اور تعلق و قرابت) منقطع ہو جائے گا سوائے میرے ازدواجی اور نسبی رشتے کے“ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا عمر بن خطاب سیدنا مسور بن مخرمہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمم سے مروی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2036

باب: نیکوں اور بدوں کے مناہج اور منازل جدا جدا ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 248
سیدنا یزید بن مرثد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جیسے کانٹوں سے انگور نہیں چنے جاتے، اس طرح بدکاروں کی منازل پر نیکوروں کو نہیں اتارا جاتا۔ جس راستہ پر چلنا چاہتے ہو چلو (لیکن اتنا یاد رکھو کہ) جون سا راستہ اختیار کرو گے اسی پر چلنے والوں کے پاس پہنچ جاؤ گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2046

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 249
سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اس وقت تک کسی آدمی کو صاحب خیر یا شر نہیں کہتا، جب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ کس عمل پر اس کا خاتمہ ہو رہا ہے، کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے۔ کہا گیا: تم نے کون سی حدیث سنی ہے؟ میں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”ابن آدم کا دل اس ہنڈیا سے بھی زیادہ الٹ پلٹ ہونے والا ہے جو ابل رہی ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1772
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 250
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہین کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کے عمل کو دیکھ کر اس کے (نیک و بد) ہونے کا فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرو، دیکھو کہ کس عمل پر اس کی زندگی کا خاتمہ ہو رہا ہے، کیونکہ (یہ حقیقت ہے کہ) عامل کچھ زمانہ نیک اعمال کرتا رہتا ہے، اگر انہی اعمال پر اس کو موت آ جائے تو وہ جنتی ہو گا، لیکن اس کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ برے عمل کرنا شروع کر دیتا ہے (اور ان پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے)۔ اسی طرح ایک انسان کچھ عرصہ تک برے عمل کرتا رہتا ہے، اگر انہی پر اس کو موت آجائے تو وہ آگ میں داخل ہو گا، لیکن ہوتا یوں ہے کہ اس کی حالت تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ نیک عمل شروع کر دیتا ہے (اور ان پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے)۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے خیر و بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے موت سے قبل نیک اعمال کی توفیق دے دیتے ہیں، پھر اس کی روح قبض کر لیتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1334

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کن امور کے ساتھ تشریف لائے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 251
بنو عامر قبیلے کا ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں اندر آ جاؤں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لونڈی سے فرمایا: اس آدمی نے اچھے انداز میں اجازت طلب نہیں کی، لہٰذا جاؤ اور اسے کہو کہ یوں کہا کرو: «السلام عليكم» میں اندر آ سکتا ہوں؟ اس آدمی نے خود ہی یہ بات سن لی اور لونڈی کے پہنچنے سے پہلے کہا: «السلام عليكم»، میں اندر آ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «و عليك»، آ جاؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور پوچھا: آپ کون سی چیز لے کر آئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے پاس خیر لے کر آیا ہوں، میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس حال میں کہ وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور لات اور عزیٰ (جیسے بتوں) کی عبادت ترک کر دو اور دن رات میں پانچ نمازیں پڑھو اور سال میں ماہِ (رمضان) کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اور غنی لوگوں سے (زکوٰۃ کا) مال لے کر اسے فقرا میں تقسیم کر دو۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے خیر و بھلائی پر مشتمل باتیں سکھائی ہیں اور وہ بھی علم ہے جو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے: ب ”یشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمیں میں وہ مرے گا۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا ہے اور صحیح خبروں والا ہے۔“ (سورہ لقمان: ۳۴)
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2712
باب: اسرا و معراج کے موقع پر دشمنوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استہزا اور پھر ندامت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 252
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مجھے اسرا کرایا گیا اور میں صبح کو مکہ میں پہنچ گیا، میں گھبرا گیا اور مجھے علم ہو گیا کہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے، سو آپ خلوت میں غمزدہ ہو کر بیٹھ گئے۔“ اللہ کا دشمن ابوجہل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، وہ آیا اور آپ کے پاس بیٹھ گیا اور مذاق کرتے ہوئے کہا: کیا کچھ ہوا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں۔“ اس نے کہا: کیا ہوا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات مجھے اسرا کرایا گیا ہے۔“ اس نے کہا: کہاں تک؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت المقدس تک۔“ اس نے کہا: پھر صبح کو آپ ہمارے پاس بھی پہنچ گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں۔“ ابوجاہل نے سوچا کہ ابھی اس کو نہیں جھٹلاتا، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنی قوم کو بلاؤں اور یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی بات بیان کرنے سے انکار کر دے۔ اس لئے ابوجہل نے کہا: اگر میں تیری قوم کو بلاؤں تو تو ان کے سامنے یہی گفتگو بیان کرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ اس نے کہا: بنی کعب بنی لؤی کی جماعت ادھر آؤ۔ ساری کی ساری مجلسیں اس کی طرف ٹوٹ پڑیں، وہ سب کے سب آ گئے اور ان دونوں کے پاس بیٹھ گئے۔ ابوجہل نے کہا: (اے محمد!) جو بات مجھے بیان کی تھی، ان کو بھی بیان کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات مجھے اسرا کرایا گیا۔“ انہوں نے کہا: کہاں تک؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت المقدس تک۔“ انہوں نے کہا: پھر صبح کو یہاں بھی پہنچ گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ (یہ سن کر) کوئی تالی بجانے لگ گیا اور کوئی (بزعم خود) اس جھوٹ پر متاثر ہو کر اپنے سر کو پکڑ کر بیٹھ گیا۔ پھر انہوں نے کہا: کیا مسجد اقصی کی علامت بیان کر سکتے ہو؟ ان میں سے بعض لوگوں نے اس علاقے کا سفر بھی کیا ہوا تھا اور مسجد اقصیٰ دیکھی ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اس کی علامتیں بیان کرنی شروع کر دیں، لیکن بعض نشانیوں کے بارے میں اشتباہ و التباس سا ہونے لگا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد اقصیٰ (کی تمثیل کو) کو لایا گیا اور عقال یا عقیل کے گھر سے بھی قریب رکھ دیا گیا، میں نے اسے دیکھ کر نشانیاں بیان کر دیں، اس کے باوجود مجھے کچھ نشانیاں یاد نہ رہیں۔ لوگوں نے کہا: رہا مسئلہ علامات کا، تو وہ تو اللہ کی قسم! آپ نے درست بیان کر دی ہیں۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3021

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والے یہودی اور عیسائی کا انجام
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 253
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب اس امت کا جو فرد، وہ یہودی ہو یا نصرانی (یا کوئی اور) میرے (ظہور کے) بارے میں سن کر مجھ پر ایمان نہیں لائے گا، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔“ یہ حدیث سیدنا سعید بن جبیر سے روایت کی گئی ہے اور ان پر تین صورتوں میں سند کا اختلاف پایا جاتا ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3093
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 254
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو فرد، وہ یہودی ہو یا نصرانی، میرے بارے میں سنے اور مجھ پر ایمان نہ لائے، وہ جہنمی ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 157

باب: اگر دس یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آتے تو
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 255
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر دس یہودی مجھ پر ایمان لے آئیں تو روئے زمین پر بسنے والا ہر یہودی اسلام قبول کر لے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2162

باب: صحابی رسول کی کرامت . . . اللہ تعالیٰ رزاق ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 256
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی کسی ضرورت کے پیش نظر جنگل کی طرف نکل گیا، اس کی بیوی نے کہا: اے اللہ! ہم کو رزق دے کہ ہم آٹا گوندھ کر روٹیاں پکا سکیں۔ جب وہ آدمی واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ٹب آٹے سے بھرا ہوا ہے، تنور میں (جانور کی) پسلیوں کا بھنا ہوا گوشت موجود ہے اور چکی غلہ پیس رہی ہے۔ اس نے کہا: یہ رزق کہاں سے آ گیا؟ اس کی بیوی نے کہا: یہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ رزق ہے، جب اس نے ارد گرد سے چکی صاف کی (تو وہ رک گئی)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ اسے اسی حالت پر چھوڑے رکھتا تو وہ روز قیامت تک آٹا پیستی رہتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2937

باب: تکلیف پر «بسم الله» کہنے کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 257
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو ”بسم اللہ“ کہتا، تو فرشتے تجھے لے کر اڑ جاتے اور لوگ دیکھ رہے ہوتے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو اس وقت ارشاد فرمائی تھی جب انہوں نے (ایک تکلیف کی وجہ سے) ”ہائے“ کہا تھا۔ یہ حدیث سیدنا جابر، سیدنا انس رضی اللہ عنہما اور ابن شہاب سے مرسلاً مروی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2796

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتوں کا نزول
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 258
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کھانا طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جو کا آدھا وسق دیا۔ وہ آدمی، اس کی بیوی اور اس کا مہمان اس سے کھاتے رہے، وہ (اتنا بابرکت تھا کہ ختم ہی نہیں ہو رہا تھا)، ایک دن اس نے اس کا وزن کر دیا، تو وہ ختم ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو اس کا وزن نہ کرتا تو تم کھاتے رہتے اور وہ تمہارے لئے باقی رہتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2625

باب: اللہ تعالیٰ کو تعریف بھی پسند ہے اور معذرت بھی
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 259
سیدنا اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ہی ہے جسے سب سے زیادہ تعریف پسند ہے اور اللہ ہی ہے جو سب سے زیادہ عذر قبول کرنے والا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2180

باب: اللہ تعالیٰ کا صبر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 260
سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تکلیف والی بات سن کر سب سے زیادہ صبر کرنے والا اللہ ہے، لوگ اس کا بیٹا ہونے کا دعوی کر دیتے ہیں اور کسی کو اس کا ہمسر بنا دیتے ہیں، لیکن وہ (فوراً انتقام لینے کی بجائے) ان کو عافیت دیتا ہے، ان کی حفاظت کرتا ہے، انہیں رزق عطا کرتا ہے اور انہیں (کئی نعمتیں) عطا کرتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2249

باب: ایمان میں اتار چڑھاؤ نفاق نہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 261
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے پاس ہمارے (ایمان و اسلام) کی کیفیت اور ہوتی ہے اور دوسروں کے پاس اور (ہمیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ نفاق ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اپنے رب اور اپنے نبی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟“، انہوں نے کہا: ہم جلوتوں اور خلوتوں میں (یہ اقرار تو کرتے ہیں کہ) اللہ ہمارا رب ہے اور آپ ہمارے نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو نفاق نہیں ہے۔“ راوی حدیث ابویعلی کی روایت میں ”اپنے نبی“ کے الفاظ ہیں۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3020

باب: اپنی برتری اور دوسروں کی کمتری ثابت کرنے کے لیے خاندانی نام استعمال کرنا ممنوع ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 262
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ایک مہاجر نے ایک انصاری کے سرین پر ہاتھ یا لات ماری۔ انصاری نے (خاندانی غیرت و حمیت کا مسئلہ سمجھ کر) انصار کو یوں پکارا: کو یوں پکارا: او انصاریو! اور مقابلے میں مہاجر نے کہا: او مہاجرو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سن کر) فرمایا: ”یہ جاہلیت کی پکاریں کیسے؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو چھیڑا ہے، (اس کی وجہ سے یہ للکاریں شروع ہو گئیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان (نسبتوں) کو ترک کر دو، یہ گندی ہیں۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو انصار کی تعداد زیادہ تھی، بعد میں مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ جب عبداللہ بن ابی منافق نے یہ بات سنی تو اس نے کہا: کیا یہ لوگ اس حد تک پہنچ گئے ہیں؟ جب ہم مدینہ کی طرف واپس جائیں گے تو ہم عزت والے ان ذلیلوں کو مدینہ سے نکال دیں گے . سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (اے اللہ کے رسول!) مجھے اجازت دیجئے، میں اس منافق کا سر قلم کر دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہنے دو، کہیں لوگ یہ کہنا شروع نہ کر دیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے صحابہ کو بھی قتل کر دیتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3155
باب: مومن کی مثال، شہد کی مکھی اور کھجور کی طرح ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 263
سیدنا ابورزین اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی مثال شہد کی مکھی کی طرح ہے، جو (زمین سے بطور خوراک) پاکیزہ چیزیں استعمال میں لاتی ہے اور پاکیزہ پھل دیتی ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 355

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 264
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی مثال کھجور کے درخت کی ہے کہ اس کی ہر چیز فائدہ دیتی ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2285

باب: ہر آدمی کو زمانہ تخلیق پر راضی ہو کر اعمال صالحہ کرنے چاہییں، کون سی تفریق قابل مذمت ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 265
عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ایک دن ہم سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں وہاں سے ایک آدمی کا گزر ہوا۔ اس نے سیدنا مقداد کو دیکھ کر کہا: ان دو آنکھوں کے لئے خوشخبری ہے، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا، ہم چاہتے ہیں کہ جو کچھ آپ نے دیکھا، ہم بھی دیکھتے اور جہاں جہاں آپ حاضر ہوئے، ہم بھی وہاں پہنچتے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہوتی)۔ سیدنا مقداد غصہ میں آ گئے . مجھے بڑا تعجب ہوا کہ اس آدمی نے خیر و بھلائی والی بات ہی کی ہے، (یہ غصہ کیوں ہو رہے ہیں)؟ اتنے میں وہ اس آدمی کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: کون سی چیز بندے کو اس بات پر اکساتی ہے کہ وہ ایسے مشہد کی تمنا کرے، جہاں سے اللہ تعالیٰ نے اسے غائب رکھا ہو، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اگر وہ اس وقت ہوتا تو کس حالت میں ہوتا؟ (ذرا غور کرو) ایسے لوگ بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے نتھنوں کے بل جہنم میں گرا دیا، انہوں نے آپ کی دعوت قبول کی نہ آپ کی تصدیق کی۔ کیا تم اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے کہ جب اس نے تمہیں پیدا کیا تو تم اپنے رب کو پہنچانتے تھے، نبی کی تعلم کی تصدیق کرتے تھے اور دوسروے لوگوں کی تکالایف تمہیں کفایت کر گئیں؟ (یعنی تم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور تم سے پہلے والے لوگوں نے ابتلا و آزمائش میں پڑ کر تمہارے لئے دین کو محفوظ اور غالب کر دیا)۔ جب اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، تو اہل حق کے لئے حالات اتنے سنگین تھے، کہ ماضی کے فتروں اور جاہلیتوں میں تشریف لانے والے انبیائے کرام میں ان کی مثال نہیں ملتی، مخالف لوگ یہ سمجھتے تھے کہ بتوں کی عبادت افضل دین ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرقان مجید لے کر آئے، جس نے حق و باطل میں امتیاز کیا اور والد اور اولاد میں ایسی تفریق ڈال دی، کہ آدمی اپنے والد، اپنے بیٹے یا اپنے بھائی کو کافر سمجھنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر لگے ہوئے تالے کھول دئیے۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ ایسے ہی ہلاک ہو گیا تو وہ جہنم میں داخل ہو جائے گا اور اسے اس طرح سکون کیسے ملے گا کہ اس کا محبوب جہنم میں ہو اور یہی چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔“ (سورہ الفرقان: ۷۴)
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2823
باب: عہدہ سنبھالنے والے متنبہ رہیں، اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کرنے والا یا جس سے اس طرح سوال کیا جائے، دونوں ملعون کیسے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 266
یزید بن مہلب کہتے ہیں: جب میں خراسان کا حاکم بنا تو میں نے کہا: مجھے ایسے آدمی کے پاس لے جاؤ جو خصائل خیر سے بدرجہ اکمل متصف ہو۔ سو مجھے ابوبردہ بن ابوموسی اشعری کے پاس لایا گیا۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو انھیں فائق پایا اور جب ان سے کلام کی تو ان کے باطن کو ظاہر سے افضل پایا۔ میں نے کہا: میں تجھے اپنی فلاں فلاں ڈیوٹی کا امیر بناتا ہوں۔ انہوں نے معذرت کرنا چاہی، لیکن میں نے ان کی معذرت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا: اے امیر! کیا میں تجھے ایک حدیث بیان نہ کروں جو میرے باپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی؟ میں نے کہا: بیان کیجئے۔ انہوں نے کہا: میرے باپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جس آدمی نے ایسے کام کی ذمہ داری قبول کی، جس کا وہ اہل نہیں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کر لے۔“ امیر صاحب! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس ذمہ داری کا اہل نہیں ہوں، جو آپ مجھے سونپنا چاہتے ہیں . میں نے اسے کہا: تیری اس ساری گفتگو نے مجھے مزید آمادہ کیا ہے اور رغبت دلائی ہے کہ یہ عہدہ تجھے ہی سونپا جائے، لہذا جا اور یہ ذمہ داری سنبھال لے، اب میں تجھے معاف نہیں کروں گا. یہ سن کر وہ چلے گئے، کچھ وقت وہاں ٹھہرے رہے (اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے)۔ ایک دن امیر یزید کے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ جب اجازت ملی تو انہوں نے آ کر کہا: اے امیر! کیا میں تجھے ایسی حدیث بیان نہ کروں جو مجھے میرے باپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کی؟ انہوں نے کہا: بیان کیجئے۔ ابوبردہ نے کہا: وہ حدیث یہ ہے: ”وہ آدمی ملعون ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دے کر سوال کیا اور وہ بھی ملعون ہے جس سے اللہ کی ذات کے واسطے سے سوال کیا گیا اور اس نے سائل کو کچھ نہ دیا، الا یہ کہ وہ کسی بیہودہ چیز کا سوال کرے۔“ اب میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دے کر آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اے امیر! اس عہدے کے سلسلہ میں میری معذرت قبول کرو، پس انہوں نے ان کی معذرت قبول کر لی۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2290

باب: نیکی کے داعی کا اجر اور برائی کے داعی کا وبال
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 267
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی تو اسے اس کی پیروی کرنے والوں کے اجر جتنا اجر ملے گا، اس سے ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے ضلالت و گمراہی کی طرف بلایا تو اسے اس کے پیچھے چلنے والوں کے گناہ جتنا بھی گناہ بھی ملے گا، اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 865

باب: آزمائش زدہ کو دیکھ کر پڑھی جانے والی دعا اور فائدہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 268
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی آزمائش زدہ آدمی دیکھا اور یہ دعا پڑھی: ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے اس بیماری سے عافیت بخشی جس میں تجھے مبتلا کر رکھا ہے اور اپنی بہت سی مخلوقات پر مجھے فضیلت بخشی، تو وہ بیماری اسے لاحق نہیں ہو سکے گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3737

باب: کسی سے اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرنے کا صلہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 269
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ایمان کا ذائقہ چکھ کر خوش ہونا چاہتا ہے، وہ لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کرے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2300

باب: اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت کون سے مسلمان کو حاصل ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 270
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہماری نماز پڑھی، ہماری قبلے کی طرف متوجہ ہوا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو یہ وہ مسلمان ہو گا جس کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے، سو تم اللہ کا عہد توڑ نہ دینا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3565
باب: اللہ تعالیٰ کی مغفرت کس مسلمان کے لیے ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 271
سیدنا معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو الله تعالیٰ کو اس حالت میں ملے گا کہ اس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، پانچ نمازیں پڑھی ہوں اور رمضان کے روزے رکھے ہوں، تو وہ اسے بخش دے گا۔“ میں نے کہا: اے الله کے رسول! کیا میں (یہ حدیث بیان کر کے) لوگوں کو خوش نہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہنے دو، تاکہ وہ (مزید) عمل کرتے رہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1315

باب: دعا نہ کرنا، غضب الہی کا موجب ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 272
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ کو نہیں پکارتا، وہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2654

باب: مومن، مومن کا آئینہ ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 273
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے اور مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے، اس کے سامان کی حفاظت کرتا ہے اور اس کا دفاع کرتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 926

باب: اہل ایمان کی باہمی محبت و مودت کا تقاضا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 274
سیدنا سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل ایمان کے لئے مومن کی اہمیت اس طرح ہے، جس طرح جسم کے لئے سر کی ہوتی ہے . اہل ایمان کے مصائب سے مومن تکلیف محسوس کرتا ہے، جیسا کہ جسم کی بیماری سے سر کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1137

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 275
سیدنا نعمان بن بشیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام مسلمان ایک فرد کی مانند ہیں. اگر ایک شخص کی آنکھ بیمار ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے، اسی طرح اگر سر میں درد ہو تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2526

باب: باہمی بھائی چارے کے تقاضے .... مسلمان کی پردہ پوشی اور اس کی تکلیف دور کرنے کا اجر و ثواب
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 276
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو کسی کے حوالے کرتا ہے . جو مسلمان اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے الله تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتے ہیں، جو مسلمان اپنے بھائی کی کوئی پریشانی دور کر دیتا ہے، الله تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی کوئی پریشانی دور کریں گے اور جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرتا ہے، الله تعالیٰ روز قیامت اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 504

باب: اگلی نسلوں تک احادیث منتقل کرنے والے حافظین حدیث کی فضیلت، دنیا کی فکر کا انجام اور آخرت کی فکر کا نتیجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 277
ابان بن عثمان کہتے ہیں: سیدنا زید بن ثابت رضی الله عنہ تقریباً نصف النہار کو مروان کے پاس سے نکلے۔ ہم نے کہا: اس وقت مروان نے ان سے کوئی سوال کرنے کے لئے ان کو بلایا ہو گا۔ میں ان کے پاس چلا گیا اور یہی بات پوچھی۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، اس نے ہم سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث کے بارے میں سوال کیا. میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”الله تعالیٰ اس آدمی کو خوشنما اور ترو تازہ رکھے جو میری حدیث سنتا ہے، اس کی حفاظت کرتا ہے اور اسے دوسروں تک پہنچا دیتا ہے. کئی حاملین حدیث فقیہ نہیں ہوتے اور کئی حاملین فقہ اپنے سے زیادہ فقیہ آدمی تک (میری احادیث) پہنچا دیتے ہیں. تین خصائل پر مومن کا دل کبھی بھی خیانت نہیں کرتا: خلوص کے ساتھ الله تعالیٰ کے لئے عمل کرنا، ارباب حل و عقد کی خیر خواہی کرنا اور جماعت کو لازم پکڑنا، کیونکہ ان کی دعا سب کو شامل ہوتی ہے۔“ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی کی فکر آخرت ہو، الله تعالیٰ اس کے امور کی شیرازہ بندی کر دیتا ہے، اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر اس کے پاس آ جاتی ہے اور جس کا ہدف دنیا ہو، الله تعالیٰ اس کے منافعوں کا شیرازہ منتشر کر دیتا ہے، اس کی فقیری کو اس کی پیشانی پر رکھ دیتا ہے اور اس کے پاس دنیا بھی اس کے مقدر کے مطابق پہنچتی ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 404
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
باب: لوگوں کی چار اور اعمال کی چھ اقسام
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 278
سیدنا خریم بن فاتک اسدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی چار اور اعمال کی چھ اقسام ہیں: لوگوں (کی چار اقسام یہ ہیں:) (۱) دنیا و آخرت میں خوشحال، (۲) دنیا میں خوشحال اور آخرت میں بدحال، (۳) دنیا میں تنگ حال اور آخرت میں خوشحال، (۴) دنیا و آخرت میں بدبخت۔ اعمال (کی اقسام یہ ہیں:) (۱، ۲) واجب کرنے والے دو اعمال، (۳، ۴) برابر سرابر، (۵) دس گنا اور (۶) سات سو گنا۔ (ان کی تفصیل یہ ہے:) واجب کرنے والے دو اعمال سے مراد یہ ہے: جو مسلمان و مومن اس حال میں فوت ہوتا ہے کہ وہ الله کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا، اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ اور جو کافر کفر کی حالت میں مرتا ہے، اس کے لئے جہنم واجب ہو جاتی ہے۔ (۳، ۴) جس نے نیکی کرنے کا رادہ کیا اور عملاً نہ کر سکا، لیکن اس کے دل نے اس نیکی کو محسوس کیا اور اس کی طرف راغب ہوا تو ایک نیکی لکھی جائے گی اور جس نے برائی کا رادہ کیا تو اسے اس وقت تک نہیں لکھا جاتا جب تک وہ عملاً کر نہیں لیتا اور اگر کر بھی لیتا ہے تو ایک برائی لکھی جاتی ہے، (نیکی کی طرح) بڑھا چڑھا کر نہیں لکھا جاتا۔ (۵) جس نے عملاً نیکی کی اسے دس گنا ثواب ملے گا اور (۶) جس نے الله تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا اسے سات سو گنا تک اجر ملے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2604

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر کھجور کے گچھے کا آپ کے پاس آنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 279
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: بنو عامر قبیلے کا ایک معالج آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! آپ عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں، تو کیا میں آپ کا علاج کر سکتا ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور فرمایا: ”کیا میں تجھے کوئی (خاص) نشانی دکھاؤں؟ آپ کے قریب کھجوروں کے اور دوسرے درخت تھے . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کے گچھے کو بلایا، وہ آپ کی طرف متوجہ ہوا، سجدہ کرتے کرتے اور سر اٹھاتے اٹھاتے آپ کے پاس پہنچ گیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا. پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی جگہ کی طرف لوٹ جا.“ وہ لوٹ گیا . یہ علامت دیکھ کر عامری نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ کو کبھی بھی نہیں جھٹلاؤں گا۔ پھر فرمایا: اے آل بنی صعصہ! آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جو کہتے رہیں، میں آپ کو کبھی نہیں جھٹلاؤں گا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3315
باب: درجہ بدرجہ افضل اعمال
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 280
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے نبی! کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ پر ایمان لانا، اس کی تصدیق کرنا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس سے آسان عمل چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عفو و درگزر کرنا اور صبر کرنا۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ تو اس سے بھی آسان عمل کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں جو فیصلہ کر دے اس پر ناخوش نہ ہونا (بلکہ راضی ہو جانا)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3334

باب: زمانے کو گالی دینا منع ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 281
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آدم کا بیٹا مجھے تکلیف دیتا ہے، وہ کہتا ہے: ہائے زمانے کی ناکامی و نامرادی! اور ایک روایت میں ہے کہ وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے، تم میں سے کوئی بھی ایسے نہ کہا کرے کہ ہائے زمانے کی ناکامی، کیونکہ میں (اللہ) زمانہ ہوں، میں دن اور رات کو الٹ پلٹ کرتا ہوں اور جب میں چاہوں گا ان کا سلسلہ ختم کر دوں گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 531
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 282
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے اپنے بندے سے قرضے کا سوال کیا، لیکن اس نے مجھے قرضہ نہیں دیا اور میرا بندہ مجھے لاشعوری کیفیت میں گالی دے رہا ہوتا ہے، حالانکہ اسے یہ زیب نہیں دیتا۔ وہ کہتا ہے: ہائے! افسوس زمانے پر، ہائے! افسوس زمانے پر، ہائے افسوس زمانے پر، جبکہ میں (اللہ) زمانہ ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3477

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 283
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمانے کو برا بھلا نہ کہا: کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں زمانہ ہوں، میں دنوں اور راتوں کی تجدید کرتا ہوں اور پھر بوسیدہ کر دیتا ہوں اور بادشاہوں کو بھی یکے بعد دیگر بدلا بدلا کر لاتا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 532

باب: مومن کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 284
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوائے مومن کے کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اپنی مثل کی سو چیزوں سے بہتر ہو.“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 546

باب: مومن کا دوسروں کے لیے خیر و بھلائی پسند کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 285
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی آدمی اس وقت (مکمل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی خیر و بھلائی پسند نہیں کرتا جو اپنے لئے کرتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 73

باب: ایمان، صدق اور امانت سے متصف دل کا کفر، کذب اور خیانت سے پاک ہونا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 286
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی کے دل میں ایمان اور کفر دونوں جمع نہیں ہو سکتے اور اسی طرح سچ اور جھوٹ بھی جمع نہیں ہو سکتے اور خیانت اور امانت کا اکٹھ بھی نہیں ہو سکتا.“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1050

باب: موت کے وقت خوف و رجا کا مفہوم اور فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 287
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس گئے اور وہ موت و حیات کی کشمکش میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ” اپنے (اخروی اجر و ثواب اور عذاب و عقاب کے) بارے میں کیا خیال کرتے ہو؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں پرامید ہوں، لیکن اپنے گناہوں سے ڈر بھی رہا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی کے دل میں اس قسم کے (جان کنی کے) وقت میں یہ دو چیزیں (یعنی خوف و امید) جمع ہو جاتی ہیں، تو جس چیز کی اسے امید ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ وہ عطا کر دیتا ہے اور جس چیز کا ڈر ہوتا ہے، وہ اس سے امن دلا دیتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1051
باب: تکبر کا مفہوم اور مذمت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 288
سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑائی اور تکبر (والے لوگ) جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔“ ایک کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں تو اپنے کوڑے پر کور چڑھا کر اور اپنے جوتے کے تسمے کو (اچھا بنا کر) خوبصورتی حاصل کرتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تکبر نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، تکبر یہ ہے کہ انسان حق شناس نہ ہو اور دوسرے لوگوں کو حقیر سمجہے .“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1626

باب: قبل از قیامت بارہ قریشی خلفا کی خلافت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 289
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دین قیامت کے برپا ہونے تک یا اس وقت تک قائم دائم رہے گا جب تک بارہ خلفاء خلافت کی مسندوں پر فائز نہیں ہو جاتے اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 964

باب: ہر دور میں ایک جماعت دین حق پر قائم رہے گی
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 290
سیدنا جابر بن سمرہ رضى اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دین قائم دائم رہے گا، مسلمان کی ایک جماعت اس سے متصف ہو کر جہاد کرتی رہے گی، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 963

باب: مومن عبرت پکڑتا ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 291
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کو ایک بل سے دو دفعہ نہیں ڈسا جا سکتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1175

باب: بعض مومنوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس راحت پانا اور ان کی صفات
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 292
ابوراشد حبرانی کہتے ہیں: سیدنا ابوامامہ باہلی رضى اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا: ”اے ابوامامہ! بعض مومن ایسے بھی ہیں کہ ان کے دل میرے لیے نرم ہو جاتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1095

باب: ابلیس کی تخلیق کا مقصد
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 293
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضى اللہ عنہ سے فرمایا: ”اے ابوبکر! اگر اللہ تعالىٰ اپنی نافرمانی نہ ہونے کا ارادہ کرتا تو وہ ابلیس کو پیدا نہ کرتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1642

باب: برتری کا معیار رنگ و نسل، اور تقوی ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 294
سیدنا جابر رضى اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایام تشریق کے درمیانے دن کو خطبۃ الوداع ارشاد فرمایا اور فرمایا: ”لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ، جیسا کہ ارشاد باری تعالىٰ ہے: ”اللہ تعالىٰ کے ہاں تم میں سے وہ شخص سب سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے“، خبردار! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ پھر فرمایا: ”حاضر لوگ یہ باتیں غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2700

باب: «وانذر عشيرتك الاقربين» کی عملی تفسیر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 295
سیدنا ابوہریرہ رضى اللہ عنہ کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: ”(اے محمد!) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔“ تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے قریش کو بلایا، وہ جمع ہو گئے، پھر آپ نے عام ندا بھی دی اور خاص بھی اور فرمایا: ”اے بنو کعب بن لؤی! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو۔ اے بنو مرہ بن کعب! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو۔ اے بنو عبد شمس! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو۔ اے بنو عبد مناف! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو۔ اے بنو عبد المطلب! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو اور اے فاطمہ بنت محمد! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، کیونکہ میں اللہ تعالىٰ کے ہاں تمہارے لیے کسی اختیار کا ملک نہیں ہوں۔ ہاں تم سے جو رشتہ و قرابت ہے، میں اسے قائم رکھوں گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3177
باب: زیادہ سے زیادہ کتنے روزے رکھے جا سکتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرزندان امت کے حق میں ان سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 296
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضى اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”اے عبداللہ بن عمرو! تو سارا زمانہ روزے رکھتا ہے اور پوری رات قیام کرتا ہے، اگر تو نے ان اعمال کو جاری رکھا تو تیری آنکھیں دھنس جائیں گی اور تو لاغر و کمزور ہو جائے گا۔ (یاد رکھ کہ) اس آدمی نے کوئی روزہ نہیں رکھا جس نے ہمیشہ روزے رکھے۔ اس طرح کرو کہ ہر ماہ میں تین روزے رکھ لیا کرو، یہ پورے مہینے کے روزے ہیں۔“ میں نے کہا: مجھے اس سے زیادہ طاقت ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چلو داود علیہ السلام والے روزے رکھ لو، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے اور جب (دشمن سے آمنا سامنا ہو جاتا) تو فرار اختیار نہیں کرتے تھے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2855
باب: روز قیامت مفلس کون ہو گا؟، بندگان خدا پر ظلم کرنے والوں کی آخرت خطرے میں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 296M
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت ایسا آدمی آئے گا جسے یہ امید ہو گی کہ وہ اپنی نیکیوں کے بل بوتے پر نجات پا جائے گا۔ اس نے جن پر ظلم کیا ہو گا وہ آ کر اس کی نیکیاں لیتے رہیں گے، حتیٰ کہ اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی، لیکن پھر ایک مظلوم آ جائے گا، اب اس کی اپنی حسنات تو ختم ہو چکی ہیں، لہذا مظلوم کی برائیاں اس کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3373

باب: نصف شعبان کی رات کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 297
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی مخلوق کی طرف جھانکتے ہیں اور تمام مخلوقات کو بخش دیتے ہیں، ماسوائے شرک کرنے والے اور بغض رکھنے والے کے۔“ یہ حدیث سیدنا معاذ بن جبل، سیدنا ابوثعلبہ خشنی، سیدنا عبداللہ بن عمرو، سیدنا ابوموسی اشعری، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عوف بن مالک اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1144

باب: اہل توحید بھی بدعملی کی وجہ سے جہنم میں جا سکتے ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 298
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض اہل توحید کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا، حتی کہ وہ جل جل کر کوئلہ ہو جائیں گے، پھر اللہ کی رحمت ان کو پا لے گی، انہیں نکالا جائے گا، جنت کے دروازوں پر لایا جائے گا، جنتی لوگ ان پر پانی چھڑکیں گے اور ان کا جسم یوں اگے گا جیسے سیلاب کے بہاؤ سے جمع ہونے والے کوڑا کرکٹ (میں بیج سے پودا) اگتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2451
باب: کسی مصلحت کے پیش نظر بعض احادیث بیان نہ کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 299
ابوبکر بن ابوموسی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں اپنی قوم کے کچھ افراد کے ہمراہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ اور پچھلوں کو بھی یہ خوشخبری سنا دو کہ جس نے صدق دل سے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا.“ ہم لوگوں کو خوشخبری سنانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے، ہمیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ملے اور (جب ان کو صورتحال کا علم ہوا تو) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کس نے واپس کر دیا؟“ ہم نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے۔ آپ نے پوچھا: ”عمر! تم نے ان کو کیوں لوٹا دیا؟“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (اگر ایسی خوشخبریاں لوگوں کو سنائی جائیں تو) وہ توکل کر بیٹھیں گے (اور مزید عمل کرنا ترک کر دیں گے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 712

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 300
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکل جا اور لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گی۔“ وہ کہتے ہیں: میں اعلان کرنے کے لئے نکلا، آگے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ٹاکرا ہوا، انہوں نے کہا: ابوبکر کہاں اور کیسے؟ میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جاؤ اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، تو اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (یہ اعلان کئے بغیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ جاؤ، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ اس (بشارت) پر توکل کر کے عمل کرنا ترک کر دیں گے۔ میں لوٹ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”واپس کیوں آ گئے ہو؟“ میں نے آپ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی بات بتائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر نے سچ کہا:۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1135
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور راشن میں برکت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 301
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! دشمن شکم سیر ہو کر پہنچ چکا ہے اور ہم بھوکے ہیں (کیا بنے گا)؟ انصار نے کہا: کیا ہم اونٹ ذبخ کر کے لوگوں کو کھلا نہ دیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زائد کھانا ہے، وہ لے آئے۔ کوئی ایک مدّ لے کر آیا تو کوئی ایک صاع اور کوئی زیادہ لے کر آیا اور تو کوئی کم۔ پورے لشکر میں سے چوبیس صاع جمع ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈھیر کے ساتھ بیٹھ گئے، برکت کی دعا کی، پھر فرمایا: ”لینا شروع کر دو اور لوٹو مت۔“ لوگوں نے اپنے اپنے تھیلے، بوریاں اور برتن بھر لئے، حتٰی کہ بعض افراد نے اپنی آستینیں باندھ کر ان کو بھی بھر لیا، اور اناج ویسے کا ویسے پڑا رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جو بندہ حق کے ساتھ یہ دو (گواہیاں) لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی حرارت سے بچائیں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3221

باب: سب سے پہلی مخلوق
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 302
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، اسے اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑا اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، پھر اس نے دنیا کو، اور دنیا میں کی جانے والی ہر نیکی اور و بدی اور رطب و یابس کو لکھا اور سب چیزوں کو اپنے پاس لوح محفوظ میں شمار کر لیا۔ پھر فرمایا: اگر چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو: ”یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ سچ بول رہی ہے، ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے ہیں۔“ (سورہ جاثیہ: ۲۹) لکھنا اور نقل کرنا اسی امر میں ہوتا ہے، جس سے فارغ ہوا جا چکا ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3136

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 303
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک! اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اسے (مستقبل میں) ہونے والی ہر چیز کو لکھنے کا حکم دیا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 133

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر اکتفا کرنا چاہیے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 304
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں تم لوگوں کو کوئی بات بیان کروں تو (اس کے بارے میں) مجھ سے مزید سوال نہ کیا کرو۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”انتہائی اچھے (اور عمدہ) کلام والے چار کلمات ہیں، ان کا ذکر قرآن مجید میں ہے، (ان میں سے) جو کلمہ شروع میں ذکر کر دیا جائے اس سے تجھے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ (وہ کلمات یہ ہیں:) «سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله والله اكبر» “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بچے کا نام افلح، نجیح، رباح اور یسار نہ رکھنا، کیونکہ تو پوچھتا ہے کہ کیا وہ یہاں ہے؟ لیکن وہ وہاں نہیں ہوتا، اس لیے (جواب دینے والا) کہتا ہے: نہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 346
باب: اعمال صالح کی قلت و کثرت کا معیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 305
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ کو کوئی حکم دیتے تو ان اعمال کو سرانجام دینے کا حکم دیتے تھے، جن کی وہ طاقت رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم تو آپ کی طرح نہیں ہیں، (آپ کی صورت حال تو یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں، (جبکہ ہم گنہگار ہیں تو اس لیے ہمیں زیادہ عمل کرنے چاہیں)۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس مطالبے پر) ناراض ہو جاتے اور آپ کے چہرے سے ناراضگی کا پتہ چلتا تھا، پھر فرماتے: ”بے شک میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور اس کو جاننے والا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3502

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی جنت کا انکار کرنے کے مترادف ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 306
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت (کے سارے افراد) جنت میں داخل ہوں گے، مگر وہ جس نے انکار کر دیا۔“ صحابہ نے کہا: (بھلا) انکار کون کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے (دوسرے الفاظ میں جنت میں جانے سے) انکار کر دیا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3141
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
العلم والسنة والحديث النبوي۔2۔
علم سنت اور حدیث نبوی

باب: احادیث کے مفاہیم کو طبعی مزاج سے مقدم سمجھا جائے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 307
محمد بن کعب روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے، جو میرے لئے خالد بن نبیح (کو قتل کر دے)؟ اس شخص کا تعلق ہذیل قبیلے سے تھا اور ان دنوں وہ عرفہ کی جانب، عرنہ مقام میں سکونت پذیر تھا۔ عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں (اسے قتل کروں گا)، آپ اس کی صفات بیان کر دیں، (تا کہ میں اسے پہچان لوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو اسے دیکھے گا تو ڈر جائے گا۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کرنے والی ذات کی قسم! میں تو (آج تک) کسی چیز سے نہیں ڈرا۔ راوی کہتا ہے: بہرحال سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ روانہ ہو گئے اور غروب آفتاب سے قبل عرفہ کے پہاڑوں تک پہنچ گئے۔ عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں وہاں ایک آدمی کو ملا اور جب میں نے اسے دیکھا تو مرعوب ہو گیا۔ جب میں اس سے ڈرا تو مجھے پتہ چل گیا کہ یہ وہی نشانی ہے، جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی کی تھی۔ اس نے مجھے کہا: کون ہے؟ میں نے کہا: ضرورت مند ہوں، کیا رات گزارنے کی گنجائش ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آ جاو۔ میں اس کے پیچے چل پڑا، میں نے جلدی جلدی دو رکعت نماز عصر ادا تو کر لی، لیکن، لیکن ڈرتا رہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے (نماز پڑھتے ہوئے) دیکھ لے۔ پھر میں اسے جا ملا کا اور تلوار کا وار کر کے اسے قتل کر دیا۔ پھر میں وہاں سے نکل پڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ کی خبر دی۔ محمد بن کعب کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک لاٹھی دی اور فرمایا: ”اس لاٹھی کو اپنے ہاتھ میں ہی رکھنا حتٰی کہ مجھے آ ملو اور لاٹھی پکڑنے والے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔“ محمد بن کعب کہتے ہیں: جب سیدنا عبداللہ بن بن انیس رضی اللہ عنہ فوت ہونے لگے تو انہوں نے لاٹھی کے بارے میں حکم دیا تو وہ ان کے پیٹ اور کفن کے اوپر رکھ دی گئی اور پھر اس کو ان کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2981

باب: عبادت کا دارومدار سنت سے موافقت پر ہے، نہ کہ کثرت پر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 308
عمرو بن سلمہ ہمدانی کہتے ہیں کہ ہم قبل از نماز فجر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کے دروازے پر بیٹھا کرتے تھے، جب وہ نکلتے تو ہم ان کے ساتھ مسجد کی طرف چل پڑتے، ایک دن سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور پوچھا: ابھی تک ابوعبدالرحمٰن (ابن مسعود) تمہارے پاس نہیں آئے؟ ہم نے کہا: نہیں۔ وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے، (ہم انتظار کرتے رہے) حتٰی کہ سیدنا عبداللہ تشریف لائے، جب وہ آئے تو ہم بھی ان کی طرف کھڑے ہو گئے۔ ابوموسٰی نے انہیں کہا: ابوعبدالرحمٰن! ابھی میں نے مسجد میں ایک چیز دیکھی ہے، مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا، لیکن اللہ کے فضل سے وہ نیکی کی ہی ایک صورت لگتی ہے۔ انہوں نےکہا: وہ ہے کیا؟ ابوموسیٰ نے کہا: اگر آپ زندہ رہے تو خود بھی دیکھ لیں گے، میں نے دیکھا کہ لوگ حلقوں کی صورت میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کر رہے ہیں، ان کے سامنے کنکریاں پڑی ہیں، ہر حلقے میں ایک (مخصوص) آدمی کہتا ہے: سو دفعہ ”اللہ اکبر“ کہو۔ یہ سن کر حلقے والے سو دفعہ ”اللہ اکبر“ کہتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے: سو دفعہ ”سبحان اللہ“ کہو۔ یہ سن کر وہ سو دفعہ ”سبحان اللہ“ کہتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا: اس عمل پر تو نے ان کو کیا کہا؟ ابوموسٰی نے کہا: میں نے آپ کی رائے کے انتظار میں کچھ نہیں کہا: انہوں نے کہا: تو نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا: کہ وہ (ایسے نیک اعمال کی بجائے) برائیاں شمار کریں اور یہ ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں (کبھی بھی) ضائع نہیں ہوں گی (لیکن وہ ہوں نیکیاں)؟ پھر وہ چل پڑے، ہم بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ ایک حلقے کے پاس گئے، ان کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا: تم لوگ یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! یہ کنکریاں ہیں، ہم ان کے ذریعے تکبیرات، تہلیلات اور تسبیحات کو شمار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ایسی (نیکیوں کو) برائیاں تصور کرو، میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کسی نیکی کو ضائع نہیں کیا جائے گا (بشرطیکہ) وہ نیکی ہو۔ اے امت محمد! تمہاری ناس ہو جائے، تم تو بہت جلد اپنی ہلاکت کے پیچھے پڑ گئے ہو، ابھی تک تم میں اصحاب رسول کی بھر پور تعداد موجود ہے، ابھی تک تمہارے نبی کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ان کے برتن ٹوٹے ہیں، (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا زمانہ قریب ہی ہے)۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تم لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے بہتر دین کو اپنا رکھا ہے یا ضلالت و گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو؟ انہوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! ہمارا ارادہ تو نیکی کا ہی تھا۔ انہوں نے کہا: کتنے لوگ ہیں جو نیکی کا ارادہ تو کرتے ہیں، لیکن اس تک پہنچ نہیں پاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حدیث بیان کی تھی: ”بعض لوگ قرآن مجید کی تلاوت تو کریں گے، لیکن وہ تلاوت ان کے گلے سے نیچے (دل میں) نہیں اترے گی، وہ (بیگانے ہو کر) دین سے یوں نکلیں گے جیسے تیر شکار سے آر پار ہو جاتا ہے۔“ اللہ کی قسم! مجھے تو کوئی سمجھ نہیں آ رہی، شائد تم میں سے اکثر لوگ (اسی حدیث کا مصداق) ہوں۔ پھر وہ وہاں سے چلے گئے۔ عمرو بن سلمہ کہتے ہیں: ہم نے ان حلقے والوں کی اکثریت کو دیکھا کہ وہ نہروان والے دن خوارج کے ساتھ مل کر ہم پر نیزہ زنی کر رہے تھے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2005

باب: حکم نبوی کی پیروی کی مثال
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 309
سیدنا ضمرہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں دو یمنی عمدہ پوشاکیں پہن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضمرہ! تیرا کیا خیال ہے کہ یہ کپڑے تجھے جنت میں داخل کرنے والے ہیں؟“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ میرے لیے بخشش طلب کریں تو بیٹھنے سے پہلے اتار دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ضمرہ بن ثعلبہ کو بخشش دے۔“ (یہ دعا سنتے ہی) اس نے جلدی سے کپڑے اتار دیے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3018

باب: حدیث نبوی کو پرکھنے کا معیار
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 310
سیدنا ابوحمید یا سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میری طرف منسوب حدیث سنو (تو دیکھو کہ آیا) تمہارے دل اس سے مانوس ہو رہے ہیں اور تمہارے بال اور چمڑے اس کے لیے نرم ہو رہے ہیں اور تم دیکھ رہے ہو کہ وہ بات تم بھی کر سکتے ہو تو میں ایسی (حدیث بیان کرنے کا) بالاولی مستحق ہوں گا۔ لیکن اگر تم دیکو کہ جو حدیث میری طرف منسوب ہے، تمہارے دل اس کا نکار کر رہے ہیں اور تمہارے بال اور چمڑے اس سے نفرت کر رہے ہیں اور تم دیکھ رہے ہو کہ تم بھی (اس قسم کی) بات نہیں کر سکتے ہو، تو میں اس سے سب سے زیادہ دور رہنے والا ہوں گا
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی 732
باب: عقائد میں بھی خبر واحد حجت ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 311
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یمنی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ”ہمارے ساتھ کوئی ایسا آدمی بھیجیں جو ہمیں سنت اور اسلام کی تعلیم دے۔ آپ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ”یہ اس امت کا امین ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1964

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 312
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو نجار کے ایک باغ میں اپنے خچر پر سوار جا رہے تھے۔ اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر جائیں۔ راوی حدیث جریر کے شک کے مطابق ادھر چار یا پانچ یا چھ قبریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ان قبر والوں کو جانتا ہے؟“ ایک آدمی نے کہا: میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ لوگ کب مرے تھے؟“ اس نے کہا: شرک کی حالت میں۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(انسانوں کی) امت کو قبروں میں آزمایا جاتا ہے اور اگر تمہارے دفن نہ کرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ جو عذاب قبر میں سنتا ہوں وہ تمہیں بھی سنا دے۔“ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ”اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو آگ کے عذاب سے۔“ ہم نے کہا: ہم آگ کے عذاب سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو۔“ ہم نے کہا: ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔“ ہم نے کہا: ہم ظاہری اور باطنی فتنوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔“ ہم نے کہا: ہم دجال کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 159

باب: حدیث نبوی حجت ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 313
سیدنا مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ایک (اللہ کی) کتاب دی گئی ہے اور دوسری اس کے برابر یعنی اس کی مثل ایک اور چیز بھی دی گئی ہے۔ قریب ہے کہ اپنی مسند پر تکیہ لگائے ایک پیٹ بھرا شخص یوں کہے: ہمارے اور تمہارے مابین یہ (اللہ کی) کتاب (ہی کافی ہے)۔ جو چیز اس میں حلال ہے، ہم اسے حلال سمجھیں گے اور جو اس میں حرام ہے، ہم اسے حرام سمجھیں گے۔ خبردار! معاملہ اس طرح نہیں ہے، آگاہ رہو! کچلیوں والا درندہ حلال نہیں ہے اور نہ گھریلو گدھا اور نہ ذمی کی گری پڑی چیز، الا یہ کہ اس سے بے نیاز ہوا جائے۔ اور جو آدمی کسی قوم کا مہمان بنا، جبکہ انہوں نے اس کی ضیافت نہیں کی تو اس کے لیے درست ہے کہ میزبانی کے بقدر ان سے وصول کرے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2870
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 314
نعیم بن دجاجہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم ہو جو کہتے ہو کہ لوگوں پر ابھی تک سو برس نہیں گزریں گے کہ جھپکنے والی آنکھیں ختم ہو جائیں گی۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ لوگوں پر ابھی تک سو سال نہیں گزریں گے کہ وہ جھپکنے والی آنکھ ختم ہو جائے گی جو آج زندہ ہے۔“ اللہ کی قسم! اس امت کی امید سو برس کے بعد بھی ہو گی۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2906

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 315
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار! فتنہ یہاں ہے، خبردار! فتنہ یہاں ہے (دو یا تین دفعہ فرمایا) یہاں سے شیطان کے سر کا کنارہ طلوع ہو گا۔“ آپ نے یہ فرماتے ہوئے مشرق یا عراق کی طرف اشارہ کیا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2494

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 316
سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کے لئے لفظ ”دخان“ چھپایا، پھر اس سے اس کے بارے میں سوال کیا۔ اس نے لفظ ”دخ“ کہہ کر جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذلیل ہو جا، تو ہرگز اپنے درجے (اور حیثیت) سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔“ جب وہ چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اس نے کیا جواب دیا تھا؟“ بعض نے کہا: اس نے لفظ ”دخ“ کہا:، جبکہ بعض نے کہا: کہ اس نے لفظ ”زخ“ کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میری موجودگی میں اختلاف میں پڑ گئے ہو اور میرے بعد بہت زیادہ اختلاف کرنے والے ہو گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3256

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 317
سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے رات کو قبیح خواب دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کیا ہے؟“ اس نے کہا: وہ بہت سخت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”آخر وہ ہے کیا؟“ اس نے کہا: مجھے ایسے لگا کہ آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں پھینگا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے عمدہ خواب دیکھا ہے، (اس کی تعبیر یہ ہے کہ ان شاء اللہ میری بیٹی) فاطمہ کا بچہ پیدا ہو گا۔“ واقعی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بچہ حسین پیدا ہوا جو میری گود میں تھا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور حسین کو آپ کی گود میں رکھ دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے . میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو کیا ہو گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتلایا کہ میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کرے گی۔“ میں نے کہا: یہ بیٹا (حسین)؟ انہوں نے کہا: ”ہاں، وہ میرے پاس اس علاقے کی سرخ مٹی بھی لائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 821

باب: اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 318
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور ان پر ایک آدمی کو امیر مقرر کیا۔ اس امیر نے آگ جلائی اور کہا: اس میں داخل ہو جاؤ۔ کچھ لوگوں نے (امیر کی اطاعت کرتے ہوئے) واقعی داخل ہونے کا ارادہ کر لیا، دوسروں نے کہا: ہم نے (اسلام قبول کر کے تو) آگ سے دور بھاگنے کی کوشش کی ہے (اور اب . . . .)۔ جب یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے فرمایا، جو داخل ہونا چاہتے تھے: ”اگر تم آگ میں داخل ہو جاتے تو روز قیامت تک وہیں ٹھہرنا پڑتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کی تعریف کی اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی بشر کی اطاعت نہیں کی جاتی، اطاعت تو نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 181

باب: دلائل کو دیکھا جائے، نہ کہ انداز خطابت کو
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 319
ابوعثمان نہدی کہتے ہیں: میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے، انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر اس منافق کا ہے جو زبان آور ہوتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1013
باب: کتاب اللہ اور اہل بیت معیار حق ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 320
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران حج عرفہ والے دن دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی ”قصوا“ پر سوار ہو خطاب کر رہے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”لوگو! میں تم میں ایسی (دو) چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے ان کو تھامے رکھا تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے: ?? اللہ کی کتاب اور ② اپنی نسل یعنی اہل بیت۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1761

باب: دنیوی معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کی حیثیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 321
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں اور پوچھا: ”یہ (آوازیں) کیسی ہیں؟“ انہوں نے کہا: لوگ کھجوروں کی تلقیح کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ اس کو ترک کر دیں اور تلقیح نہ کریں تو اچھا ہو گا۔“ پس انہوں نے اس عمل کو چھوڑ دیا اور تلقیح نہ کی، (جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ) ردی اور ناکارہ کھجوریں پیدا ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟“ انہوں نے کہا: صحابہ نے آپ کے کہنے پر یہ عمل نہیں کیا تھا (جس کی وجہ سے یہ نقصان ہو گیا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہارا کوئی دنیوی معاملہ ہو تو تم خود اس کے بارے میں زیادہ (بہتر) جانتے ہو، ہاں اگر دین کا معاملہ ہو تو میری طرف لایا کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3977
علم سنت اور حدیث نبوی

باب: خلیفہ راشد کی اطاعت کا حکم
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 322
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا وعظ کیا کہ آنکھیں بہہ پڑیں اور دل ڈر گئے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے، پس آپ ہمیں کیا وصیت فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تم کو سفید (اور روشن شریعت) پر چھوڑا ہے، جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اب وہی گمراہ ہو گا جو ہلاک ہونے والا ہے، تم میں سے جو بھی زندہ رہا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، پس اپنی معرفت کے مطابق میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا اور اس کو مضبوطی سے تھام لینا، اور (خلیفہ کی) اطاعت تم پر لازم ہو گی، اگرچہ وہ کوئی حبشی غلام ہو، بیشک مومن نکیل شدہ اونٹ کی طرح ہے، جس (کی نکیل یا لگام یا رسی) پکڑ کر اس کو جدھر چلایا جاتا ہے، وہ چل پڑتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 937

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اختلاف و افتراق کی پیش گوئی
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 323
سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کے لئے لفظ ”دخان“ چھپایا، پھر اس سے اس کے بارے میں سوال کیا۔ اس نے لفظ ”دخ“ کہہ کر جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذلیل ہو جا، تو ہرگز اپنے درجے (اور حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔“ جب وہ چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اس نے کیا جواب دیا تھا؟“ بعض نے کہا: اس نے لفظ ”دخ“ کہا، جبکہ بعض نے کہا: کہ اس نے لفظ ”زخ“ کہا:۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میری موجودگی میں اختلاف میں پڑ گئے ہو اور میرے بعد بہت زیادہ اختلاف کرنے والے ہو گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3256

باب: صحابہ کا کہنا کہ فلاں عمل ”سنت“ ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 324
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں جمعہ کے روز شام سے مدینہ کی طرف روانہ ہوا، (جب وہاں پہنچا تو) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا: تم نے موزے کب پہنے تھے؟ میں نے کہا: جمعہ کے روز۔ انہوں نے پوچھا: کیا ان کو اتارا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: تم نے سنت کی موافقت کی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2622

باب: صحابہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے خواب بیان کرنا، ایک خواب اور اس کی تعبیر... کون سی تعبیر نہ کی جائے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 325
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں نے رات کو ایک خواب دیکھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سائباں ہے، اس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، میں نے دیکھا کہ لوگ اس سے چلو بھر رہے ہیں، کوئی زیادہ لے رہا ہے اور کوئی کم۔ ادھر ایک رسی ہے، جو زمین سے آسمان تک پہنچ رہی ہے۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پکڑا اور اوپر چڑھ گئے، پھر ایک دوسرے آدمی نے اس کو پکڑا اور وہ بھی چڑھ گیا، پھر ایک تیسرے آدمی نے پکڑا، اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر ایک آدمی نے اس کو پکڑا لیکن وہ رسی ٹوٹ گئی، پھر اس کو جوڑا گیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی تعبیر بیان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ٹھیک ہے) تم اس کی تعبیر بیان کرو۔“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: سائبان اسلام ہے اور اس سے ٹپکنے والے شہد اور گھی سے مراد قرآن اور اس کی مٹھاس ہے۔ پس کوئی قرآن کا زیادہ حصہ سیکھنے والا ہے اور کوئی کم اور جو آسمان سے زمین تک پہنچنے والی رسی ہے، وہ حق ہے، جس پر آپ قائم ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے ذریعے سربلند فرمائے گا. پھر اس کو ایک آدمی پکڑے گا، وہ بھی اس کے ساتھ بلندی پر فائز ہو گا، پھر اس کو ایک دوسرا آدمی پکڑے گا وہ اس کے ساتھ بلند ہو گا، پھر اس کو تیسرا آدمی پکڑے گا، پس وہ ٹوٹ جائے گا۔ پھر اس کو جوڑا جائے گا، پھر وہ اس کے ساتھ بلند ہو گا۔ اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بتلائیے میری یہ بیان کردہ تعبیر صحیح ہے یا غلط؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض حصہ درست بیان کیا اور بعض میں غلطی کی۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! آپ ضرور میری غلطی کو بیان کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر! قسم نہ اٹھاؤ۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 121
باب: قراء کی مذمت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 326
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے اکثر منافق قراء ہوں گے۔“ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن عمرو، سیدنا عقبہ بن عامر سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا عصمہ بن مالک رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 750

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے بارے میں تین امور کا خدشہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 327
سیدنا طلحہ بن مصرف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے بعد میں آنے والے زمانے میں اپنی امت پر سب سے زیادہ تین امور کا ڈر ہے: ستاروں پر ایمان لانا، تقدیر کو جھٹلانا اور حکمران کا ظلم کرنا.“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1127

باب: وہ مجرم ہے جس کے سوال کی وجہ سے کوئی حلال چیز حرام ہو جائے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 328
عامر بن سعد بن ابی وقاص اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے، جس نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا، جو حرام نہیں تھی، لیکن اس نے اس کے بارے میں اتنی چھان بین کی کہ اس کے سوال کی وجہ سے اسے لوگوں پر حرام قرار دیا گیا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3276

باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا سنگین جرم ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 329
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مجھ پر جھوٹ بولتا ہے، (یعنی میری طرف جھوٹی بات منسوب کرتا ہے)، اس کے لیے آگ میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1618

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 330
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مجھ سے زیادہ احادیث بیان کرنے سے بچو، جو بندہ میری طرف کوئی بات منسوب کرے تو وہ حق اور سچ کہے، کیونکہ جس نے میری طرف وہ بات منسوب کی جو میں نے نہ کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1753

باب: بدعتی لوگوں کا انجام
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 331
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت حوض پر میرے پاس آئے گی۔ میں کچھ لوگوں کو اس سے یوں دھتکاروں گا، جیسے کوئی آدمی دوسرے کے اونٹوں کو اپنے اونٹوں سے دور دھتکارتا ہے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا آپ ہمیں پہچان لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، تمہاری ایک ایسی علامت ہو گی، جو دوسروں کی نہیں ہو گی، تم میرے پاس اس حال میں آؤ گے کہ وضو کے اثر کی وجہ سے تمہاری پیشانی، دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں چمکتے ہوں گے۔ لیکن تم میں ایک گروہ کو مجھ سے روک لیا جائے گا، وہ (مجھ تک) نہ پہنچ پائیں گے۔ میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں؟ ایک فرشتہ مجھے جواب دے گا: اور کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) بدعتوں کو رواج دیا تھا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3952

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 332
زوجہ رسول سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ان کے غلام عبداللہ بن رافع بیان کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں: میں لوگوں کو حوض کا تذکرہ کرتے ہوئے سنتی رہتی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موضوع پر کوئی حدیث براہ راست نہیں سنی تھی، ایک دن میری لونڈی میری گنگھی کر رہی تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”لوگو!“، میں نے لونڈی سے کہا: پیچھے ہٹ جاؤ۔ اس نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو بلایا ہے نہ کہ عورتوں کو۔ میں نے کہا: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا ہے اور) میں بھی ان میں سے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حوض پر تم لوگوں کا پیش رو ہوں گا۔ میری اطاعت کرتے رہنا! کہیں ایسا نہ ہو کہ تم وہاں میرے پاس پہنچو اور تمہیں بھٹکے ہوئے اونٹ کی طرح (مجھ سے دور) دھتکار دیا جائے۔ میں پوچھوں: ایسے کیوں ہو رہا ہے؟ مجھے جواباً کہا: جائے: آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کون کون سی بدعات رائج کر دی تھیں۔ (یہ سن کر) میں کہوں گا: بربادی ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3944
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
باب: بدعتی کی توبہ قبول نہیں ہوتی
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 333
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی سے توبہ کو روک لیا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1620

باب: تقدیر میں کلام کرنا باعث ہلاکت ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 334
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کا معاملہ اس وقت تک ہم نوائی، ہم خیالی، (اتحاد اور موافقت) والا رہے گا، جب تک بچوں اور تقدیر (کے مسائل) میں گفتگو نہیں کریں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1675

باب: بنو اسرائیل کی ہلاکت کا سبب، علم نافع اور فقہ فی الدین کو ترک کر کے حکایتوں اور قصوں کا اہتمام نہ کیا جائے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 335
سیدنا خباب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بنو اسرائیل ہلاک ہوئے تو انہوں نے قصہ گوئی شروع کر دی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1681

باب: اگر کسی میں اسلام کی رغبت پیدا ہو تو . . .
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 336
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کے لیے حرص اور رغبت ہوتی ہے اور ہر رغبت کے بعد آخر سستی اور کمی ہوتی ہے، (دیکھو) اگر نیک کام کی رغبت رکھنے والا راہ صواب پر چلتا ہے اور میانہ روی اختیار کرتا ہے تو اس کے بارے میں امید رکھو (کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مقبول بندہ ہو گا) اور اگر (وہ عبادت میں اس قدر غلو کرے کہ) اس کی طرف انگلیوں کے ساتھ اشارے کیے جائیں تو اس کے بارے میں امید نہ رکھو (کہ وہ نیک آدمی ہو گا)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2850
باب: فقہا کی کثرت اور خطبا کی قلت باعث خیر ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 337
حرام بن حکیم اپنے چچا سیدنا عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(آج) تم ایسے زمانہ میں ہو کہ جس میں فقہا زیادہ اور خطبا کم ہیں اور سوال کرنے والے کم اور دینے والے زیادہ ہیں، اس زمانے میں علم سے بہتر عمل ہے، لیکن عنقریب ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ اس میں فقہا کم اور خطبا زیادہ ہوں گے اور سوال کرنے والے زیادہ اور دینے والے کم ہوں گے، اس زمانے میں عمل سے بہتر علم ہو گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3189

باب: قرآن کو یاد رکھنا کیسے ممکن ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 338
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک صاحب قرآن کی مثال، رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہے، اگر وہ اس اونٹ کا خیال رکھتا ہے تو اسے روکے رکھے گا اور اگر اسے کھول دیتا ہے تو وہ چلا جائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3577

باب: کتاب اللہ میں اختلاف کرنا باعث ہلاکت ہے، قرآنی آیات میں مجادلہ نہ کیا جائے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 339
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں ایک دن دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ نے دو آدمیوں کی آوازیں سنیں، جو ایک آیت کی بابت اختلاف میں پڑے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، آپ کے چہرے سے غیض و غضب کا پتہ چل رہا تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے والے لوگ اس بنا پر ہلاک ہو گئے کہ وہ کتاب میں اختلاف کرتے تھے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3578

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 340
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن میں جھگڑا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بعض حصے کو دوسرے حصے کی وجہ سے نہ جھٹلاؤ۔ اللہ کی قسم! (بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ جب) مومن قرآن کے ساتھ مجادلہ کرتا ہے تو مغلوب ہو جاتا ہے اور جب منافق قرآن کے ساتھ کٹ حجتی کرتا ہے تو وہ غالب آ جاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3447

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 341
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن میں مت جھگڑو، کیونکہ اس میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2419

باب: تعلیم قرآن کے مختلف مقاصد
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 342
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”قرآن کی تعلیم حاصل کرو اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو، قبل اس کے کہ ایسے لوگ (پیدا ہوں جو) اس کی تعلیم حاصل کریں گے لیکن اس کے ذریعے دنیا کا سوال کریں گے۔ تین قسم کے افراد قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے ہیں: وہ آدمی جو اس کے ذریعے فخر کرتا ہے، وہ آدمی جو اس کے ذریعے کھاتا ہے اور وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے لیے اس کی تلاوت کرتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 258
باب: اس امت کے اگلوں میں خیر اور پچھلوں میں شر ہے، جنت کے خواہش مندوں کو کس حالت میں موت آنی چاہیے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 343
سیدنا عبدالرحمن بن عبدرب کعبہ کہتے ہیں: میں مسجد الحرام میں داخل ہوا، وہاں کعبہ کے سائے میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ارد گرد لوگ جمع تھے، میں ان کے پاس آیا اور وہاں بیٹھ گیا۔ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا، کوئی اپنے خیمے کو درست کرنے لگ گیا، کوئی تیر اندازی میں مقابلہ کر رہا تھا اور کوئی جانوروں میں مصروف تھا، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان کرنے والے نے (لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے) یہ آواز دی: «الصلاة جامعة» ۔ سو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے پہلے ہر نبی پر حق تھا کہ اپنی امت کو ہر اس خیر و بھلائی کی تعلیم دے، جس کا اسے علم تھا اور اس کو ہر اس شر سے متنبہ کر دے، جس کا اس کو علم تھا، (میں یہی فریضہ ادا کرتے ہوئے کہوں گا کہ) تمہاری اس امت کے ابتدائی دور میں (سلامتی و) عافیت ہے، لیکن بعد والے دور میں (فرزندان امت) آزمائشوں اور ناپسندیدہ امور میں مبتلا ہو جائیں گے، فتنے نمودار ہوں گے اور (ہر بعد والا) فتنہ (اپنی شدت کی وجہ سے پہلے والے) فتنے کی سختی کو کم کر دے گا۔ ایک فتنہ ابھرے گا، اسے دیکھ کر مومن کہے گا: یہ میری ہلاکت گاہ ہو گی، لیکن وہ چھٹ جائے گا۔ دوسرا فتنہ ظاہر ہو گا، مومن اسے دیکھ کر کہے گا: یہ ہے (میری ہلاکت گاہ)، یہ ہے۔ (خلاصہ یہ ہے کہ) جو یہ چاہتا ہو گا کہ اسے جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں سے وہی معاملہ کرتا ہو، جو ان سے اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ جس نے کسی امام کی بیعت کی، اس کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا اور اس سے پکا عہد کیا اور دل سے اس سے محبت کی، تو وہ حسب استطاعت اس کی اطاعت کرے۔ اگر کوئی دوسرا (خلیفہ) اس سے اختلاف شروع کر کے (بغاوت شروع کر دے) تو اس دوسرے کا سر قلم کر دو۔“ میں (عبدالرحمن) ان کے قریب ہوا اور کہا: میں تجھے اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں! کیا تو نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے اپنے ہاتھوں کو اپنے کانوں اور دل کے ساتھ لگایا اور کہا: میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد کیا۔ میں نے کہا: یہ آپ کے چچا زاد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں، وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم لوگ اپنا مال باطل طریقے سے کھائیں اور اپنے آپ کو قتل کریں، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ، مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے خرید و فروخت ہو اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔“ (سورہ نسا: ۲۹) یہ سن کر وہ (عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ) خاموش ہو گئے اور پھر کہا: اگر وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے تو اس کی اطاعت کر اور اللہ کی نافرمانی کی صورت میں اس کی نافرمانی کر۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 241
باب: فتنوں سے نجات کیسے ممکن ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 344
سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جبکہ ہم فرش (یا چٹائی) پر بیٹھے ہوئے تھے: ”بیشک عنقریب فتنہ ہو گا۔“ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ چٹائی کی طرف لمبا کیا اور اس کو پکڑ لیا اور فرمایا: ”اس طرح کرنا۔“ پھر ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک عنقریب فتنہ ہو گا۔“ لیکن اکثر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہ سن سکے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگو! تم سن نہیں رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: کیا فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک عنقریب فتنہ ہو گا۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے کیا حکم ہے یا ہم اس وقت کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے پہلے معاملے کی طرف لوٹ آنا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3165

باب: علم والا دوسروں کو احادیث کی تعلیم دے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 345
سیدنا عباد ہ بن صامت رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم لوگوں کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں، حاضر لوگوں کو چاہیے کہ وہ (میری یہ بات) غیر حاضر لوگوں کو پہنچا دیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1721

باب: جس علم کو پھیلایا نہ جائے اس کی مثال
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 346
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی علم حاصل کرتا ہے، لیکن اس کو (لوگوں کے سامنے) بیان نہیں کرتا، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے، جو خزانہ جمع کرتا رہتا ہے، لیکن اس میں سے خرچ نہیں کرتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3479

باب: حرام چیزوں کے بارے میں احتیاط برتنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 347
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتا ہوں اور اپنے بستر پر گری پڑی کھجور پاتا ہوں، میں اسے اٹھاتا ہوں تاکہ کھا لوں، لیکن پھر یہ اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ صدقہ (کی کھجور) ہو، اس لیے میں اس کو پھینک دیتا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3457

باب: عبادات میں میانہ روی کو ترجیح دی جائے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 348
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے، وہ ایک چٹان پر کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی ایک طرف چلے گئے، وہاں کچھ دیر ٹھہرے اور پھر واپس آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو اسی حالت میں نماز پڑھتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ جمع کیے اور فرمایا: ”لوگو! میانہ روی کو ختیار کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک نہیں اکتاتا، جب تک تم نہیں اکتا جاتے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1760

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 349
سیدنا سہل بن ابوامامہ بن سہل بن حنیف اپنے باپ اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(دین کے معاملے میں) اپنے آپ پر سختی مت کرو، کیونکہ تم سے پہلے والے لوگ اپنے نفسوں پر سختیاں کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ اب بھی تم ایسے لوگوں کے باقی ماندہ کو گرجا گھروں اور راہبوں کی خانقاہوں میں دیکھ سکتے ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3124
باب: غیر مسلموں کی زبانیں سیکھنی چاہئیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 350
سیدنا خارجہ بن زید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو مجھے آپ کے پاس لایا گیا، میں نے آپ کو کچھ چیزیں پڑھ کر سنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”تم یہودیوں کا رسم الخط سیکھو، کیونکہ میں اپنے خطوط کے سلسلے میں ان پر مطمئن نہیں ہوں۔“ ابھی تک پندرہ روز نہیں گزرے تھے کہ میں نے ان کا خط سیکھ لیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (خطوط) لکھتا تھا اور ان کے خطوط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سناتا تھا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 187

باب: نسب کا علم صلہ رحمی میں معاون ثابت ہوتا ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 351
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے نسبوں کے بارے میں اتنا علم تو حاصل کر لو کہ جس کے ذریعے آپس میں صلہ رحمی اختیار کر سکو، کیونکہ صلہ رحمی سے قرابتداروں میں محبت پیدا ہوتی ہے، مال میں برکت ہوتی ہے اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 276
باب: بنو اسرائیل کا حیران کن اور سبق آموز واقعہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 352
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو اسرائیل سے (ان کی روایات) بیان کر سکتے ہو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ ان میں کچھ انوکھے امور بھی پائے جاتے ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: ”بنو اسرائیل کا ایک گروہ نکلا، وہ اپنے قبرستان کے پاس سے گزرا، وہ کہنے لگے: اگر ہم دو رکعت نماز پڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے کسی مردہ کو (زندہ کر کے اسے اس کی قبر) سے نکالے، تاکہ ہم اس سے موت کے بارے میں دریافت کر سکیں۔ پس انہوں نے ایسے ہی کیا، وہ اس طرح کر رہے تھے کہ ایک گندمی رنگ کے آدمی نے قبر سے اپنا سر نکالا، اس کی پیشانی پر سجدوں کا نشان تھا، اس نے کہا: اوئے! تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ میں آج سے سو سال پہلے مرا تھا، لیکن ابھی تک موت کی حرارت ختم نہیں ہوئی، اب اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ مجھے اسی حالت میں لوٹا دے، جس میں میں تھا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2926

باب: بنو اسرائیل سے ان کی احادیث بیان کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 353
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل کتاب عبرانی زبان میں تورات پڑھتے تھے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں پیش کرتے تھے۔ (یہ صورتحال دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ اہل کتاب کی تصدیق کرو اور نہ تکذیب، بلکہ یہ کہہ دیا کرو: ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اس (شریعت) پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی تھی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 422

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 354
ابن ابی نملہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! کیا اس میت سے کلام کی جاتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔“ اس یہودی نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اس سے کلام کی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اہل کتاب تم کو کوئی بات بیان کریں تو ان کی تصدیق کیا کرو نہ تکذیب، بلکہ کہا کرو: ہم اللہ تعالیٰ، اس کی کتابوں اور رسولوں پر ایمان لائے ہیں، اگر ان کی بات سچ ہوئی تو تم نے اس کی تکذیب نہیں کی اور اگر وہ بات باطل ہوئی تو تم نے اس کی تصدیق نہیں کی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2800
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 355
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو اسرائیل سے (ان کی روایت) بیان کر سکتے ہو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ ان میں کچھ انوکھے امور بھی پائے جاتے ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: ”بنو اسرائیل کا ایک گروہ نکلا، وہ اپنے ایک قبرستان کے پاس سے گزرا، وہ کہنے لگے: اگر ہم دو رکعت نماز پڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے کسی مردہ کو (زندہ کر کے اسے اس کی قبر) سے نکالے، تاکہ ہم اس سے موت کے بارے میں دریافت کر سکیں۔ پس انہوں نے ایسے ہی کیا، وہ اس طرح کر رہے تھے کہ ایک گندمی رنگ کے آدمی نے قبر سے اپنا سر نکالا، اس کی پیشانی پر سجدوں کا نشان تھا، اس نے کہا: اوئے! تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ میں آج سے سو سال پہلے مرا تھا، لیکن ابھی تک موت کی حرارت ختم نہیں ہوئی، اب اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ مجھے اسی حالت میں لوٹا دے، جس میں میں تھا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2926

باب: ہجرت اور جہاد کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت ممکن ہے، لیکن . . .
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 356
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دیہاتی لوگوں کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! اہل قرآن کا خیال ہے کہ جب تک ہجرت اور راہ خدا میں جہاد نہ کیا جائے، اس وقت تک کوئی عمل فائدہ نہیں دیتا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جہاں کہیں بھی ہوئے، اگر اچھے انداز میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے، تو جنت کی وجہ سے خوش ہو جاؤ۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3146

باب: لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 357
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساری کی ساری مخلوق (لوگوں کو) خیر و بھلائی کی تعلیم دینے والے کے لیے رحمت کی دعا کرتی ہے، حتی کہ سمندر کی مچھلیاں بھی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1852

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 358
سیدنا جابر رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سمندروں کی مچھلیوں سمیت ہر چیز خیر و بھلائی کی تعلیم دینے والے کے لیے بخشش طلب کرتی ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3024

باب: طلبہ حدیث کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 359
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سرخ چادر پر ٹیک لگائے مسجد میں تشریف فرما تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں حصول علم کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طالب علم کو مرحبا، بےشک فرشتے طالب علم کو گھیر لیتے ہیں اور اس پر اپنے پروں سے سایہ کرتے ہیں اور (کثرت تعداد کی وجہ سے) ایک دوسرے پر سوار ہوتے ہوتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں، کیونکہ وہ اس چیز سے محبت کرتے ہیں، جس کو طالب علم حاصل کر رہا ہوتا ہے۔“ سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مابین سفر میں ہی رہتے ہیں، آپ ہمیں موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں فتوی دے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسافر کے لیے تین دن اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات (تک مسح کرنے کی گنجائش ہے)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3397
باب: طلبہ حدیث کے حق میں نبوی وصیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 360
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے تھے: (ہم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو مرحبا (کہتے ہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمہارے بارے میں وصیت کرتے تھے۔ ان کی مراد حدیث کے طلبہ تھے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 280

باب: فقاہت فی الدین کن لوگوں کی صفت ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 361
یونس بن میسرہ بن حلبس بیان کرتے ہیں کہ اس نے سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیر و بھلائی فطری چیز ہے اور شر و فساد تکلف ہے، اور اللہ تعالیٰ جس فرد کے بارے میں خیر و بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اسے دین میں فقاہت عطا کر دیتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 651

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 362
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اس کو دین میں فقاہت عطا کرتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1194

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 363
حمید سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا معاویہ بن ابوسفيان رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتے ہیں، اس کو دین میں فقاہت عطا کرتے ہیں، میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں، عطا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے۔ میری امت (کی ایک جماعت) ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گی، ان کی مخالفت کرنے والے ان کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آ جائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1195

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 364
معبد جہنی کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم احادیث بیان کرتے تھے، اور ان کلمات کو تو کم ہی چھوڑتے تھے (یا راوی نے کہا: کہ) جمعہ کے خطبوں میں بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اس کو دین میں فقاہت عطا کر دیتے ہیں۔ یہ مال میٹھا سرسبز و شاداب (اور پرکشش) ہے، جو اس کو اس کے حق کے ساتھ حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت کی جائے گی اور تم لوگ ایک دوسرے کی تعریف کرنے سے بچو، کیونکہ ایسے کرنا ذبح کرنے کے (مترادف ہے)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1196

باب: نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والے کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 365
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیکی پر رہنمائی کرنے والا (اجر میں) اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہے۔“ یہ حدیث سیدنا ابومسعود بدری، سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا سہیل بن سعد، سیدنا بریدہ بن حصیب، سیدنا انس بن مالک، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1660

باب: غربا کی صفات اور ان کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 366
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غربا کے لیے خوشخبری ہے۔“ کہا: گیا: اے اللہ کے رسول! غربا سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ نیک لوگ جو برے لوگوں کی بہ نسبت کم ہوتے ہیں اور ان کی نافرمانی کرنے والے، ان کی اطاعت کرنے والوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1619
باب: شرعی تعلیم دینے کا حکم اور اس کے تقاضے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 367
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تعلیم دو، آسانیاں پیدا کرو، تنگیاں پیدا نہ کرو، خوشخبریاں دو اور نفرتیں نہ دلاؤ اور جب کسی کو غصہ آ جائے تو وہ خاموش ہو جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1375

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 368
سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا: ”آسانیاں پیدا کرنا اور تنگیوں میں نہ ڈالنا اور خوشخبریاں دینا اور نفرتیں نہ دلانا اور آپس میں موافقت اختیار کرنا اور اختلاف نہ کرنا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1151

باب: لکھ کر علم کو محفوظ کرنے کا حکم
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 369
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لکھ کر علم کو مقید کرو۔“ یہ حدیث انس بن مالک، سیدنا عبداللہ بن عمرو اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھم سے مروی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2026

باب: اللہ تعالیٰ سے علم نافع کا سوال کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 370
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی سے ایسے علم کا سوال کرو، جو فائدہ دینے والا ہو اور بے فائدہ علم سے اس کی پناہ طلب کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1511

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 371
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اے اللہ! جو تو نے مجھے سکھایا، اس کے ذریعے مجھے نفع دے اور مجھے وہ چیز سکھا دے، جو میرے لیے فائدہ مند ہو اور مجھے ایسا علم عطا فرما کہ جس کے ذریعے تو مجھے نفع دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3151

باب: دوران خطبہ مقتدیوں کی کیفیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 372
مطیع غزال اپنے باپ سے، وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھتے تو ہم اپنے چہروں کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوتے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2080

باب: خطیب کا منبر پر چڑھ کر سلام کہنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 373
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھتے تو سلام کہتے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2076

باب: دوران خطبہ جمعہ کلام کرنے کا نقصان
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 374
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں سوال کیا، اس حال میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، انہوں نے ان سے منہ پھیر لیا اور ان کے سوال کا جواب نہیں دیا۔ جب نماز پوری کی تو ابی بن کعب نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا: (آج) تم نے جمعہ ادا نہیں کیا۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابی نے سچ کہا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2251

باب: کیا ریاکاری کی پہچان ممکن ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 375
سیدنا ابن ادرع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرہ دے رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کے لیے نکلے، جب مجھے دیکھا تو میرا ہاتھ بھی پکڑ لیا، پس ہم چل پڑے اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآواز بلند تلاوت کر رہا تھا۔ اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ یہ ریاکاری کرنے والا بن جائے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ قرآن کی بلند آواز سے تلاوت کر رہا ہے ((بھلا اس میں کیا حرج ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمایا: ”تم اس دین کو غلبے کے ساتھ نہیں پا سکتے۔“ وہ کہتے ہیں: پھر ایک رات کو ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضرورت کے لیے نکلے، جب کہ میں ہی پہرہ دے رہا تھا، (اسی طرح) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا (اور ہم چل پڑے) اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآوز بلند قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔ اب کی بار میں نے کہا: قریب ہے کہ یہ شخص ریاکاری کرنے والا بن جائے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرا رد کرتے ہوئے) فرمایا: ”ہرگز نہیں، یہ تو بہت توبہ کرنے والا ہے۔“ جب میں نے دیکھا تو وہ عبداللہ ذو النجادین تھا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1709
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
باب: غصے کے وقت خاموش رہنے کا حکم
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 376
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تعلیم دو، آسانیاں پیدا کرو، تنگیاں پیدا نہ کرو، خوشخبریاں دو اور نفرتیں نہ دلاؤ اور جب کسی کو غصہ آ جائے تو وہ خاموش ہو جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1375

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشعار پڑھنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 377
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ جب خبر آنے میں دیر ہوتی تو آپ طرفہ (بن عبد بکرمی) شاعر کا یہ مصرعہ پڑھتے: جس پر تو نے کچھ نہیں خرچا، وہ خبر لائے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2057

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام واضح ہوتا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 378
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام واضح ہوتا، ہر سننے والا اس کو سمجھ جاتا تھا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2097

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھا خواب پسند تھا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 379
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اچھا خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آتا تھا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2135

باب: خواب میں دودھ کی تعبیر
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 380
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: خواب میں دودھ دیکھنے (کی تعبیر) فطرت ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2207

باب: جھوٹا خواب بیان کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 381
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ آدمی خواب میں اپنی آنکھوں کو وہ کچھ دکھلائے جو (درحقیقت) انہوں نے دیکھا نہ ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3063
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 382
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے خواب میں جھوٹ بولا، اسے یہ تکلیف دی جائے گی کہ وہ جو کو گرہ لگائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2359

باب: ہر سنی سنائی بات بیان کرنا گناہ ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 383
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کے گناہگار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے، اسے آگے بیان کر دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2025

باب: طلبہ حدیث اور غریبوں کی وجہ سے رزق ملتا ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 384
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے، ان میں سے ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا رہتا تھا، اور ایک روایت میں ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سنتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتا تھا، جب کہ دوسرا بھائی کمائی کرتا تھا۔ کمائی کرنے والا بھائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور (شکایت کرتے ہوئے) کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا بھائی میری کوئی مدد نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شائد تجھے اس کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2769

باب: علم شرعی پر مبارکباد دینا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 385
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کون سی آیت سب سے عظیم ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار سوال دہرایا۔ (بالآخر) سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے کہا: آیۃ الکرسی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوالمنذر! یہ علم تجھے مبارک ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس آیت کہ ایک زبان اور دو ہونٹ ہیں، یہ عرش کے پائے کے پاس اس کی تقدیس بیان کرتی ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3410

باب: جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والے اسباب کی وضاحت کر دی گئی ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 386
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا، لیکن (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں) جب کوئی پرندہ فضا میں اپنے پر پھڑپھڑاتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ہمارے لیے کوئی علم کی بات نکال لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی ایسا عمل باقی نہیں رہا، جو جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرتا ہے، مگر تمہارے لیے اس کی وضاحت ہو چکی ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1803

باب: جاہل کو کیسے تعلیم دی جائے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 387
سیدنا عباد بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں قحط سالی میں مبتلا ہو گیا، میں مدینہ کے باغوں میں سے کسی ایک باغ میں داخل ہوا، ایک سٹے کو ملا اور اس سے دانے نکالے۔ کچھ دانے کھا لیے اور کچھ کپڑے میں نے اٹھا لیے، اتنے میں باغ کا مالک آ گیا، اس نے مجھے مارا اور میرا کپڑا چھین لیا۔ میں (شکایت لے کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (اور ساری بات بتائی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (باغ کے اس مالک) سے فرمایا: ”وہ جاہل تھا تو نے اسے تعلیم نہیں دی اور وہ بھوکا تھا تو نے اسے کھلایا نہیں۔“ پھر آپ نے اسے حکم دیا، اس نے میرا کپڑا مجھے لوٹا دیا اور مجھے ایک یا نصف وسق کھانے کا بھی دیا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2229
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 388
سیدنا عباد بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں قحط سالی میں مبتلا ہو گیا، میں مدینہ کے باغوں میں سے کسی ایک باغ میں داخل ہوا، ایک سٹے کو ملا اور اس سے دانے نکالے۔ کچھ دانے کھا لیے اور کچھ کپڑے میں اٹھا لیے، اتنے میں باغ کا مالک آ گیا، اس نے مجھے مارا اور میرا کپڑا چھین لیا۔ میں (شکایت لے کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (اور ساری بات بتائی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (باغ کے اس مالک) سے فرمایا: ”وہ جاہل تھا تو نے اسے تعلیم نہیں دی اور وہ بھوکا تھا تو نے اسے کھلایا نہیں۔“ پھر آپ نے اسے حکم دیا، اس نے میرا کپڑا مجھے لوٹا دیا اور مجھے ایک یا نصف وسق کھانے کا بھی دیا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 453

باب: قرآن اور دودھ کی وجہ سے امت کی ہلاکت؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 389
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت کی ہلاکت (اللہ کی) کتاب اور دودھ میں ہو گی۔“ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! یہ کیا کتاب اور کیا دودھ (ہمیں بات سمجھ نہیں آئی)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کی تعلیم حاصل کریں گے، لیکن ایسے معنی پر اس کی تاویل کریں گے، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے نازل نہیں کیا۔ اور دودھ کو (اس قدر) پسند کریں گے کہ جماعتیں اور جمعے چھوڑ دیں گے اور جنگلوں (اور دیہاتوں) کی طرف نکل جائیں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2778

باب: مختلف امارتوں، فتنوں اور تفرقہ بازیوں کے ادوار کو کیسے گزارا جائے؟ حدیث کی رہنمائی
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 390
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں دریافت کرتا تھا تاکہ اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ (ایک دن) میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر کا زمانہ گزار رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے اسلام کو، جسے ہم نے قبول کیا، اور آپ کو ہماری طرف بھیجا۔ (اب سوال یہ ہے کہ) کیا اس خیر کے بعد پھر شر (کا غلبہ ہو گا) جیسا کہ پہلے تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا: ”حذیفہ! اللہ کی کتاب پڑھ اور اس کے احکام پر عمل کر۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا: اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تلوار۔“ میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی؟ اور ایک روایت میں ہے کہ کیا تلوار کے بعد خیر کا کوئی حصہ باقی رہے گا؟ (یعنی لڑائی کے بعد اسلام باقی رہے گا؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ اور ایک روایت میں ہے کہ ”امارت (اور جماعت) تو قائم رہے گی، لیکن معمولی چون و چرا اور دلوں میں نفرتیں اور کینے ہوں گے اور ظاہری صلح، لیکن بباطن لڑائی ہو گی۔“ میں نے کہا: کینے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ایک قوم یا مختلف حکمران ہوں گے جو میری سنت پر عمل نہیں کریں گے اور میری سیرت کے علاوہ کوئی اور سیرت اختیار کریں گے، تو ان کے بعض امور کو اچھا سمجھے گا اور بعض کو برا اور ان میں ایسے لوگ بھی منظر عام پر آئیں گے جو انسانوں کے روپ میں ہوں گے، لیکن ان کے دل شیطانی ہوں گے۔“ ایک روایت میں ہے: میں نے کہا: ظاہری صلح بباطن لڑائی اور دلوں میں کینہ، ان چیزوں کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کے دل (ان خصائل حمیدہ) کی طرف نہیں لوٹیں گے، جن سے وہ پہلے متصف ہوں گے۔“ میں نے کہا: کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اندھا دھند فتنہ ہو گا، اور (اس میں ایسے لوگ ہوں گے کہ گویا کہ) وہ جہنم کے دروازوں پر کھڑے داعی ہیں، جو آدمی ان کی بات مانے گا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسے لوگوں کی صفات بیان کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ہماری نسل کے ہوں گے اور ہماری طرح باتیں کریں گے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر ایسا زمانہ مجھے پا لے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کی جماعت اور ان کے حکمران کو لازم پکڑے رکھنا، امیر کی بات سننا اور ماننا۔ اگرچہ تیری پٹائی کر دی جائے اور تیرا مال لوٹ لیا جائے پھر بھی ان کی بات سننا اور اطاعت کرنا۔“ میں نے کہا: اگر سرے سے مسلمانوں کی جماعت ہو نہ حکمران (تو پھر میں کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام فرقوں سے کنارہ کش ہو جانا، اگرچہ کسی درخت کے تنے کے ساتھ چمٹنا پڑے، یہاں تک کہ تجھے موت پا لے اور تو اسی حالت میں ہو۔“ ایک روایت میں ہے: ”حذیفہ! کسی درخت کے تنے کے ساتھ چمٹ کر مرنا ان (حکمرانوں) کی اطاعت کرنے سے بہتر ہو گا۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”اگر ان دنوں میں تجھے اللہ کی زمیں میں کوئی خلیفہ مل جائے تو اس کو لازم پکڑنا، اگرچہ وہ تیری پٹائی کرے اور تیرا مال چھین لے اور اگر تجھے کوئی خلیفہ نظر نہ آئے تو کسی (گوشئہ) زمین میں بھاگ جانا، حتی کہ تجھے موت آ جائے اور تو کسی درخت کے تنے کے ساتھ چمٹا ہوا ہو۔“ میں نے کہا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر دجال ظاہر ہو گا۔“ میں نے کہا: وہ کون سی علامت لے کر آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہر یا پانی اور آگ کے ساتھ آئے گا، جو اس کی نہر میں داخل ہوا اس کا اجر ضائع اور گناہ ثابت ہو جائے گا اور جو اس کی آگ میں داخل ہوا اس کا اجر ثابت ہو جائے گا اور اس کا جرم مٹ جائے گا۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! دجال کے بعد کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیسی بن مریم۔“ میں نے کہا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس وقت تیری گھوڑی کا بچہ پیدا ہوا تو وہ ابھی تک اس قابل نہیں ہو گا کہ تو اس پر سواری کر سکے کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2739
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
4۔الطهارة والوضوء
طہارت اور وضو کا بیان

باب: سیدنا جبریل علیہ السلام نے وضوکی تعلیم دی
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 391
سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کے ابتدائی زمانے میں جبریل آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو اور نماز کی تعلیم دی، جب وہ وضو سے فارغ ہوئے تو پانی کا ایک چلو لیا اور اسے اپنی شرمگاہ پر چھڑک دیا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 841

باب: مسواک کی اہمیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 392
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم پر مسواک کے معاملے میں بہت زیادہ تاکید کرتا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3995

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 393
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے مسواک کرنے کا (اس قدر زیادہ حکم دیا) کہ میں اپنے دانتوں کے بارے میں ڈرنے لگ گیا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1556

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 394
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے تو مسواک آپ کے پاس ہوتا، جب بیدار ہوتے تو مسواک سے ابتدا کرتے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2111

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 395
عبد الرحمن بن ابی لیلی کسی صحابی رسول سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ سمجھتا تو ان پر مسواک کو یوں فرض قرار دیتا، جیسے وضو کو لازم کیا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3067

باب: وضو ایک تہائی نماز ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 396
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز تین حصوں پر مشتمل ہے: ایک تہائی حصہ طہارت ہے، ایک تہائی حصہ رکوع ہے اور ایک تہائی حصہ سجدے ہیں۔ جس نے اس کو کماحقہ ادا کیا، اس کی نماز بھی قبول کی جائے گی اور بقیہ اعمال بھی مقبول ہوں گے اور جس کی نماز رد کر دی گئی، اس کے باقی اعمال بھی رد کر دیے جائیں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2537

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام برتنوں کے ساتھ وضو کر لیتے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 397
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ڈھانکے ہوئے نئے مٹکے سے وضو کرنا پسند کریں گے، یا لوٹے جیسے برتنوں سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ لوٹے جیسے عام برتنوں میں (وضو کرنا پسند کروں گا)۔ بے شک اللہ تعالیٰ کا دین آسان ہے۔ ملت اسلام، نرمی و سہولت آمیز شریعت پر مشتمل ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطاہر کے لیے بھیجتے تھے، پس پانی لایا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیتے تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں کی برکت کی امید کرتے تھے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2118
باب: وضو کا طریقہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 398
سیدنا عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوجبیر رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے وضو کے پانی کا حکم دیا اور فرمایا: ”ابوجبیر! وضو کرو۔“ ابوجبیر نے منہ سے (وضو کرنا) شروع کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا: ”منہ سے شروع نہ کرو، کیونکہ کافر منہ سے شروع کرتا ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا پانی منگوایا (اور اس ترتیب سے وضو کیا)، ہیتھیلیاں دھوئیں، حتی کہ ان کو صاف کیا، تین بار کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، تین دفعہ چہرہ دھویا، تین بار کہنی تک دایاں بازو دھویا اور پھر تین دفعہ بایاں، پھر سر کا مسح کیا اور دونوں پاؤں دھوئے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2820

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 399
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تو پانی کو کہنیوں پر گھماتے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2067

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 400
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی وضو میں ایک ایک دفعہ (اعضا دھوتے)، کبھی دو دو دفعہ اور کبھی تین تین دفعہ۔ ان میں سے ہر طریقہ اپناتے تھے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2122

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 401
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا پانی منگوایا اور اپنا چہرہ، دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں ایک ایک دفعہ دھوے اور فرمایا: ”یہ وضو ہے کہ جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں کرتے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا دو دو بار (اعضاء) دھوے اور فرمایا: ”یہ وضو ہے کہ جو آدمی ایسا وضو کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے دو گنا اجر عطا کرے گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا تین تین بار (اعضا) دھوئے اور فرمایا: ”یہ تمہارے نبی اور اس سے پہلے والے انبیاء کا وضو ہے۔“ یا فرمایا: ”یہ میرا وضو ہے اور مجھ سے قبل انبیاء کا وضو رہا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 261

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 402
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ایک بدو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور وضو کے بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کر کے دکھایا، جس میں تین تین دفعہ (اعضا دھوئے)، پھر فرمایا: ”وضو اس طرح کیا جاتا ہے، جو اس (مقدار) سے زیادہ دفعہ (اعضا) دھوتا ہے، وہ برا کرتا ہے، زیادتی کرتا ہے اور ظلم کرتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2980

باب: وضو میں بھی اسراف ہو سکتا ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 403
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے وہ وضو کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سعد! یہ کیا اسراف ہے؟“ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اگرچہ تو جاری نہر پر بھی ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3292
باب: وضو کے بعد پانی کا ایک چلو شرمگاہ پر چھڑکنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 404
سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ابتدائی زمانے میں جبریل آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو اور نماز کی تعلیم دی، جب وہ وضو سے فارغ ہوئے تو پانی کا ایک چلو لیا اور اسے اپنی شرمگاہ پر چھڑک دیا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 841

باب: نامکمل وضو باعث ہلاکت ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 405
سیدنا خالد بن ولید، یزید بن ابی سفیان، شرجیل بن حسنہ اور عمر بن عاص رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”وضو کو مکمل کیا کرو، (وضو میں خشک رہ جانے والی) ایڑھیوں کے لیے آگ سے ہلاکت ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 872
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 406
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم طہارت والے پانی کے ساتھ انگلیوں کو مبالغہ کے ساتھ دھوؤ گے، (وگرنہ) آگ ان کو خوب جلائے گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3489

باب: دوران وضو انگلیوں کا خلال کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 407
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو وضو کرے تو ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں میں خلال کیا کر۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1306

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 408
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت خوب ہیں میری امت کے وہ لوگ، جو خلال کرتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2567

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 409
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بارے میں کوئی سوال کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرو۔“ آپ کی مراد یہ تھی کہ وضو مکمل کیا جائے۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ بھی فرمایا تھا: ”جب تو رکوع کرے تو اپنی ہتھیلیوں کو گھٹنوں پر رکھ کر (رکوع کی حالت میں) مطمئن ہو جا اور جب تو سجدہ کرے تو اپنی پیشانی کو اچھی طرح زمین پر رکھ، حتی کہ تو زمین کی ضخامت پائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1349

باب: موزوں پر مسح کی مدت اور مزید احکام، جرابوں پر مسح کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 410
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا گیا: اے اللہ کے رسول! آپ کا اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے، جو بےوضو ہو جاتا ہے، پھر وضو کرتا ہے اور موزوں پر مسح کرتا ہے، تو کیا وہ نماز پڑھ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2940
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 411
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں جمعہ کے روز شام سے مدینہ کی طرف نکلا، (وہاں پہنچ کر) میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا: تو نے اپنے پاؤں میں موزے کب پہنے تھے؟ میں نے کہا: جمعہ کے دن۔ انہوں نے کہا: کیا ان کو بعد میں اتارا بھی ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے فرمایا: تو نے سنت کی موافقت کی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2622

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 412
سیدنا خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”موزوں پر تین دنوں تک مسح کرو۔“ اگر ہم نے زیادہ (دنوں) کا مطالبہ کیا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مزید (دنوں) کی رخصت دے دیتے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1559

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 413
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابوبکرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کو تین دنوں اور راتوں تک اور مقیم کو ایک دن اور رات تک موزوں پر مسح کرنے کی رخصت دی، (لیکن شرط یہ ہے کہ) اس نے باوضو ہو کر موزے پہنے ہوں۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3455

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 414
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی اپنے پاؤں میں موزے پہنے، اس حال میں کہ اس کے (پاؤں وضو کی وجہ سے) پاک ہوں، تو ان پر مسح کر لیا کرے، مسافر تین دنوں تک کر سکتا ہے اور مقیم ایک دن رات تک۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1201

باب: بیداری کے بعد وضو کرتے وقت تین دفعہ ناک جھاڑنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 415
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی نیند سے بیدار ہو اور وضو کرے تو ناک تین دفعہ جھاڑے، کیونکہ شیطان اس کی ناک کی جڑ میں رات گزارتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3961

باب: کان سر کا ہی حصہ ہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 416
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دونوں کان سر میں سے ہیں۔“ یہ الفاظ سیدنا ابوامامہ، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا عبداللہ بن عمرو، سیدنا عبداللہ بن عباس سیدہ عائشہ، سیدنا ابوموسیٰ، سیدنا انس، سیدہ سمرہ بن جندب اور سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہم کی حدیث سے روایت کیے گئے ہیں۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 36

باب: رات کو باوضو سونے کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 417
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی باوضو رات گزارتا ہے، ایک فرشتہ اس کے تختانی لباس میں رات گزارتا ہے، جب بھی وہ بندہ رات کی کسی گھڑی میں بیدار ہوتا ہے تو وہ فرشتہ کہتا ہے: اے اللہ! اپنے فلاں بندے کو بخش دے، کیونکہ اس نے باوضو حالت میں رات گزاری۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2539

باب: وضو کے بعد تولیہ استعمال کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 418
سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا، جس سے وضو کے بعد (اعضاء) خشک کرتے تھے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2099

باب: غسل اور وضو کے لیے پانی کی مقدار
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 419
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غسل ایک صاع سے اور وضو ایک مدّ سے ہو سکتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1991

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 420
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کے لیے پانی کا ایک مدّ اور غسل کے لیے ایک صاع کافی ہے۔“ یہ حدیث سیدنا عقیل بن ابوطالب، سیدنا جابر بن عبداللہ، سیدنا انس بن مالک اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2447
باب: وضو کی حفاظت مومن ہی کرتا ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 421
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”راہِ صواب پر چلو، میانہ روی اختیار کرو، عمل کرو اور (بہترین امور کو) ترجیح دو اور جان لو کہ تمہارا سب سے بہترین عمل نماز ہے اور مومن ہی ہے، جو وضو پر محافظت کرتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 115

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وضو والے اعضاء چمکتے ہوں گے، وضو والے اعضاء کو مقررہ حد سے زیادہ دھونا کیسا ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 422
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””بیشک میرے حوض (کی وسعت) ایلہ سے عدن تک کی مسافت سے زیادہ ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کے پیالے ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں، (اس کا پانی) دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں کچھ لوگوں کو اپنے حوض سے یوں دھتکاروں گا، جیسے کوئی آدمی اجنبی اونٹ کو اپنے حوض سے ہٹاتا ہے۔“ کہا گیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ہم کو پہچان لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم میرے پاس اس حال میں آؤ گے کہ وضو کے اثر کی وجہ سے تمہاری پیشانی، دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں چمکتے ہوں گے، یہ علامت (ومنقبت) کسی اور کی نہیں ہو گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3526

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 423
ابوحازم کہتے ہیں: میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھا، انہوں نے نماز کے لیے وضو کیا، (بازو دھوتے وقت) اپنے ہاتھ کو بغلوں تک کھینچا۔ میں نے کہا: ابوہریرہ! یہ کون سا وضو ہے؟ انہوں نے کہا: بنو فروخ! تم بھی ادھر موجود ہو؟ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم لوگ یہاں ہو تو میں اس طرح وضو نہ کرتا۔ میں نے تو اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”مومن کا زیور وہاں تک پہنچتا ہے، جہاں تک وضو (کا پانی) پہنچتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 252
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 424
سیدنا عبداللہ بن بسر مازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنی امت کے ہر فرد کو قیامت والے دن پہچان لوں گا۔“ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ انہیں کیسے پہچانیں گے، حالانکہ مخلوقات بکثرت ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو کسی اصطبل میں داخل ہو اور وہاں کالے سیاہ گھوڑے ہوں، لیکن ان میں ایک گھوڑے کی پیشانی اور ٹانگیں سفید ہوں تو آیا تو اس گھوڑے کو پہچان لے گا؟“ اس نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر سجدہ کرنے کی وجہ سے میری امت کی پیشانی اور وضو کرنے کی وجہ سے ہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے۔ (اس امتیازی علامت کی وجہ سے میں انہیں پہچان لوں گا)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2836

باب: تیمم کا دنوں کی مقدار کے ساتھ تعلق نہیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 424M
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ ربذہ مقام پر اپنی بکریوں میں تھے۔ جب وہ واپس آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا: ”ابوذر! لیکن وہ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار آواز دی، لیکن وہ خاموش رہے، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! تیری ماں تجھے گم پائے۔“ اب کی بار انہوں نے کہا: میں جنبی ہوں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی کو پانی لانے کا حکم دیا۔ جب وہ پانی لے کر آئی تو انہوں نے اپنی سواری کی اوٹ میں پردہ کر کے غسل کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا: ”(ایسی صورت میں) تجھے مٹی کافی ہے، اگرچہ بیس سال یا دس سال پانی نہ ملے، جب تو پانی پا لے تو اسے اپنے چمڑے کے ساتھ لگا، (یعنی غسل کرے)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3029

باب: تیمم کا طریقہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 425
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کے بارے میں فرمایا: ”چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے ایک دفعہ ہاتھوں کو (مٹی پر مارا جائے)۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 694

باب: پانی تک پہنچنے سے پہلے تیمم کرنا اور اس کی وجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 426
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کرتے اور مٹی سے استنجا کر لیتے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک پانی آپ کے قریب ہی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے کیا علم، شاید میں وہاں تک نہ پہنچ سکوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2629

باب: مٹی سے تیمم کرنے یا اس پر سجدہ کرنے کا حکم اور وجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 427
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمین کو چھوا کرو، کیونکہ یہ تمہارے ساتھ شفقت کرنے والی ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1792

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 427M
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ خولہ بنت یسار رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس صرف ایک کپڑا ہے، جس میں مجھے حیض بھی آ جاتا ہے، تو اس کے بارے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو پاک ہو جائے تو اس کو دھو لیا کر اور اس میں نماز پڑھ لیا کر۔“ اس نے کہا: اگر اس میں سے خون نہ نکلے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس تجھے پانی ہی کافی ہے اور اس کا نشان تجھے نقصان نہیں دے گا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 298
باب: حیض والے کپڑے کو کیسے پاک کیا جائے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 428
سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور کہا: اگر ہم میں سے کسی کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے، تو وہ (اس کو پاک کرنے کے لیے) کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے، تو وہ (پانی کے ساتھ) اس کو ملے، پھر اس پر پانی ڈال کر (اس کو دھو لے)۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”اس کو پانی کے ساتھ مل، پھر باقی ماندہ پر پانی ڈال کر (اس کو دھو لے)، پھر اس میں نماز پڑھ لے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 299

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 429
سیدہ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے خون کے بارے میں سوال کیا، جو کپڑے کو لگ جاتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی شاخ (وغیرہ) کے ساتھ اس کو کھرچ، پھر پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ دھو دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 300

باب: نواقض وضو
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 430
زوجہ رسول سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی یا آپ کے غلام ابورافع کی بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابورافع کی شکایت کرنے کی اجازت چاہی، جس نے اسے مارا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع سے پوچھا: ”ابورافع! تیرا اور اس کا کیا معاملہ ہے۔“ اس نے کہا: یہ مجھے تکلیف دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلمی! تو نے اس کو کیا تکلیف دی ہے؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس کو کوئی تکلیف نہیں دی، (اصل بات یہ ہے کہ) نماز کی حالت میں یہ بے وضو ہو گیا، میں نے اس سے کہا: ابورافع! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اگر کسی کی ہوا نکل جائے تو وہ دوبارہ وضو کرے۔ طبرانی کے الفاظ یہ ہیں: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی ہوا خارج ہو جائے تو وہ دوبارہ وضو کرے۔“ (میری یہ بات سن کر) یہ اٹھا اور مجھے مارنا شروع کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات پر مسکرانے لگے اور فرمایا: ”ابورافع! اس نے تجھے بھلائی کا حکم ہی دیا تھا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3070

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 431
سیدہ بسرہ بن صفوان رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی اپنی شرمگاہ کو اپنا ہاتھ لگائے، تو وہ وضو کرے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1235

باب: کیا آگ پر پکی ہوئی چیز ناقص وضو ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 432
محمود بن طحلا کہتے ہیں: میں نے ابوسلمہ سے کہا: بیشک آپ کا سوتیلا باپ سلیم آگ پر پکی چیزیں کھا کر وضو نہیں کرتا۔ انہوں نے سلیم کے سینے پر ہاتھ مارا اور کہا: میں زوجہ رسول سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا پر گواہی دیتا ہوں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگ پر پکی ہوئی چیز کھا کر وضو کرتے تھے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2121

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 433
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے غلام قاسم بیان کرتے ہیں: میں مسجد دمشق میں داخل ہوا، میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ اکھٹے ہیں اور ایک بزرگ ان کو احادیث بیان کر رہا تھا، میں نے کہا: یہ بزرگ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ سہل بن حنظلہ ہے، پھر میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو گوشت کھائے، وہ وضو کرے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2322
باب: غسل کے واجب ہونے کی صورتیں
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 434
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اور آپ کی بیوی) کے ختنوں کے مقام، مل جاتے تو آپ غسل کرتے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2063

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 434M
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب (عورت اور مرد) کی شرمگاہوں کے ختنے والے مقامات مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث سیدہ عائشہ، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے مروی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1261

باب: قضائے حاجت کے دوران ایک دوسرے سے پردہ کرنا اور باتیں کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 435
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو آدمی قضائے حاجت کے لیے نکلیں تو ان میں سے ہر ایک دوسرے ساتھی سے چھپ جائے اور پاخانہ کرتے وقت آپس میں باتیں نہ کریں، کیونکہ ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3120

باب: قضائے حاجت کے آداب
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 436
سیدنا سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آئے تو اپنی قوم کو کچھ باتیں بیان کیں اور (امورِ دین) کی تعلیم دی۔ ایک دن ایک آدمی نے ان کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے کہا: سراقہ کے لیے تو صرف یہی چیز رہ گئی ہے کہ وہ تمہیں قضائے حاجت کا طریقہ سکھائے۔ سراقہ نے (بات کو سنجیدگی میں تبدیل کرتے ہوئے) کہا: جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو سایہ دار مقامات اور راستوں پر بیٹھنے سے بچو، چھوٹے چھوٹے پتھروں کا اہتمام کرو، اپنی (بائیں) پنڈلی پر زور دو اور طاق (پتھروں) سے استنجا کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2749

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 437
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو آدمی قضائے حاجت کے لیے نکلیں تو ان میں سے ہر ایک دوسرے ساتھی سے چھپ جائے اور پاخانہ کرتے وقت آپس میں باتیں نہ کریں، کیونکہ ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3120

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 438
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو اس وقت تک کپڑا نہ اٹھاتے، جب تک زمین کے قریب نہ ہو جاتے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1071

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 439
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلتے تو دور چلے جاتے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1159

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 440
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے مغمس مقام تک چلے تھے۔ نافع کہتے ہیں: مغمس، مکہ مکرمہ سے دو یا تین میلوں کے فاصلے پر واقع تھا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1072

باب: قضائے حاجت کے دوران کعبہ کی طرف منہ اور پیٹھ نہ کرنا اور اس کی پابندی کا ثواب
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 441
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی قضائے حاجت کے لیے بیٹھے تو وہ قبلے کی طرف منہ کرے نہ پیٹھ۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1301
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 442
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قضائے حاجت کرتے وقت قبلہ کی طرف رخ کیا نہ پیٹھ، اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اور ایک برائی مٹا دی جائے گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1098

باب: پتھروں سے استنجا کرنے کے احکام
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 443
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی قضائے حاجت کرے تو تین دفعہ (اور ایک روایت کے مطابق) تین پتھروں سے استنجا کرے۔“ یہ حدیث سیدنا جابر، سیدنا سائب بن خلاّد اور سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3316

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 444
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو پتھروں سے استنجا کرے، وہ تین دفعہ پتھر استعمال کرے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2312

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 445
سیدنا سلمہ بن قیس اشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو وضو کرے تو ناک جھاڑا کر اور جب پتھروں سے استنجا کرے، تو طاق (پتھر) استعمال کر۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1305

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 446
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی پتھروں سے استنجا کرے تو وہ طاق پتھر استعمال کرے اور جب وہ ناک جھاڑے تو بھی (تعداد میں) طاق جھاڑے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1295

باب: قضائے حاجت کرنے والے کو سلام نہ کہا جائے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 447
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، اس حال میں کہ آپ پیشاپ کر رہے تھے، اس نے آپ کو سلام کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مجھے اس حالت میں پاؤ تو مجھے سلام نہ کہا کرو، اگر آئندہ تم نے ایسے کیا تو میں تمہارے سلام کا جواب نہیں دوں گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 197
باب: بیت الخلا میں داخل ہونے کی دعا اور اس کی وجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 448
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک طہارت خانوں میں (شیطان) حاضر ہوتے ہیں، اس لیے جو آدمی بیت الخلا میں آئے تو یہ دعا پڑھے: میں خبیث جنوں اور خبیث جننیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1070

باب: مسجد کی طرف باوضو چل کر جانے کا ثواب
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 449
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر مسجد کی طرف نکلتا ہے اور اس کو نکالنے والی چیز صرف نماز ہوتی ہے، تو (جب تک وہ چلتا رہتا ہے) اس کے بائیں پاؤں کی وجہ سے برائی مٹتی رہتی ہے اور دوسرے پاؤں کی وجہ سے نیکی لکھی جاتی رہتی ہے، حتی کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1296

باب: نماز کے لیے وضو کرنے کے بعد تشبیک منع ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 450
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی نماز کے لیے وضو کر لیتا ہے، تو وہ اپنی انگلیوں میں تشبیک نہ دے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1294

باب: عورت کا ختنہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 451
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: ”جب تو (کسی لڑکی کا) ختنہ کرے تو کچھ کھال چھوڑ دیا کر اور (کاٹنے میں) مبالغہ آمیزی نہ کیا کر، کیونکہ یہ چیز چہرے کو خوبصورت بنانے والی اور اسے خاوند کے لیے مقبول بنانے والی ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 722
باب: مرد و زن دونوں کو احتلام ہو سکتا ہے، جب تک انزال نہ ہو صرف خواب سے غسل واجب نہیں ہوتا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 452
سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے بارے میں دریافت کیا، جو مرد کے (خواب) کی طرح خواب دیکھتی ہے کہ (اسے احتلام ہو گیا ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر غسل کا کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا، جب تک انزال نہ ہو، جیسا کہ مرد پر غسل فرض نہیں ہوتا، جب تک انزال نہ ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2187

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 453
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا، جو مرد کے (خواب) کی طرح خواب دیکھتی ہے (کہ اسے احتلام ہوا ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب وہ (نشانات سے اندازہ لگا لے) کہ اسے انزال ہوا ہے تو اس پر غسل (جنابت) کرنا فرض ہے۔“ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا اس طرح بھی ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، مرد (کی منی) کا پانی گاڑھا اور سفید ہوتا ہے، جبکہ عورت (کی منی) کا پانی زرد اور پتلا ہوتا ہے، (جماع کے وقت) جس کا (مادہ منویہ) سبقت لے جائے اور غالب آ جائے، بچے کی مشابہت اس سے ہو جاتی ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1342

باب: دوران نماز بے وضو ہو جانے والا کیسے نکلے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 454
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی نماز کی حالت میں بےوضو ہو جائے تو وہ ناک پکڑ کر نکل جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2976

باب: قبولیت اسلام کے وقت سر کے بال منڈوانا اور ختنہ کروانا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 455
ابن جریج کہتے ہیں: مجھے عثیم بن کلیب جہنی کے حوالے سے یہ خبر دی گئی ہے کہ انہوں نے اپنے باپ اور انہوں نے اپنے دادا سے بیان کیا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”کفر کے بال اتار پھینک۔“ یعنی منڈوا دے۔ وہ کہتے ہیں: پھر ایک دوسرے راوی نے ان سے یہ روایت بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کفر کے بالوں کو اتار پھینک اور ختنہ کر۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2977

باب: استحاضہ اور اس کے احکام
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 456
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: سیدہ فاطمہ بنت حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: مجھے استحاضے (کا خون) آتا ہے، پس میں پاک نہیں ہوتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو کوئی رگ (پھٹ گئی) ہے، یہ حیض کا خون نہیں ہے، جب حیض کا خون آنے لگے تو اس وقت نماز چھوڑ دیا کرو اور جب وہ ختم ہو جائے تو خون دھو دیا کرو اور ہر نماز کے لیے وضو کیا کر اور نماز پڑھا کر، حتی کہ پھر (حیض) کا وقت آ جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 301

باب: اللہ کے ذکر کے لیے طہارت کا اہتمام کیا جائے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 457
سیدنا مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال میں آئے کہ آپ پیشاپ کر رہے تھے، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، پہلے وضو کیا (پھر جواب دیا اور) پھر فرمایا: ”میں بغیر وضو کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ناپسند کرتا ہوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 834

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلا سے نکل کر وضو کرتے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 458
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلا سے نکلتے تو وضو کرتے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3481

باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو استعمال کرتے تھے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 459
ابراہیم سے مرسلاً روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ رہے ہوتے تو عمدہ (اور پاکیزہ) خوشبو سے پتہ چل جاتا تھا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2137

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 460
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کالے رنگ کا اونی جبہ تیار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زیب تن کیا، لیکن جب پسینہ آیا تو اس سے اون کی بو آنے لگی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار دیا، کیونکہ پاکیزہ (اور عمدہ) خوشبو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی لگتی تھی۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2136
باب: جنابت والے غسل سے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 461
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں: میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت والے ہو گئے، میں نے ایک ٹب میں غسل کیا، کچھ پانی بچ گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس پانی سے غسل کیا۔ میں نے کہا: اس پانی سے تو میں نے بھی غسل کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(جنبی فرد کے غسل کی وجہ سے) پانی پر جنابت کا حکم عائد نہیں ہوتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2185

باب: مسجد کی طرف آنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے، اور . . .
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 462
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو وضو کرتا ہے اور مسجد کی طرف آتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے اور میزبان پر یہ بات حق ہے کہ مہمان کی تکریم کرے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1169

باب: کیا بیٹھ کر پیشاپ کرنا ضروری ہے؟
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 463
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اس آدمی کی تصدیق مت کرو، جو یہ بیان کرے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاپ کرتے تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو بیٹھ کر ہی پیشاپ کرتے تھے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 201

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 464
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا بہت پانی لے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس سے وضو کرنے لگ جائیں تو پیاسے رہ جاتے ہیں، پس کیا ہم (سمندر) کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 0

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 465
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا بہت پانی لے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس سے وضو کرنے لگ جائیں تو پیاسے رہ جاتے ہیں، پس کیا ہم (سمندر) کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 0

باب: سمندر کا پانی طاہر اور مطہر ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 466
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا بہت پانی لے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس سے وضو کرنے لگ جائیں تو پیاسے رہ جاتے ہیں، پس کیا ہم (سمندر) کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 480
باب: عورت غسل جنابت میں سر پر پانی کے تین چلو ڈالے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 467
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: اے اللہ کے رسول! میں اپنے بالوں کو مضبوطی کے ساتھ گوندھتی ہوں، تو کیا جنابت کے غسل کے لیے ان کو کھول دیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، تجھے سر پر تین چلو ڈالنا ہی کافی ہیں، اس کے بعد (بقیہ جسم) پر پانی بہا دیا کر، اس طرح تو پاک ہو جائے گی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 189

باب: حائضہ عورت کا حج کے لیے غسل کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 468
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا جبکہ وہ حائضہ تھیں: ”اپنے بالوں کو کھولو اور غسل کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 188

باب: مردار سے کوئی استفادہ نہ کیا جائے، لیکن . . .
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 469
سیدنا عبداللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردار کے چمڑے اور پٹھے سے فائدہ حاصل نہ کرو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2812

باب: گھر میں پیشاپ پڑا نہ رہنے دیا جائے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 470
سیدنا عبداللہ بن یزید سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھر کے اندر تھال میں پیشاب کو نہ پڑا رہنے دیا جائے، کیونکہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں پیشاب ہو۔ نیز کوئی بندہ غسل خانے میں پیشاب نہ کیا کرے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2516

کتاب نمبر4

الاذان و الصلاة
اذان اور نماز

باب: بیعت نبوی کے دوران اقامت صلاۃ کا تذکرہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 471
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لے رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہاتھ پھیلائیں تاکہ میں بھی آپ کی بیعت کروں اور آپ مجھ پر شرط لگائیں، کیونکہ آپ بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تجھ سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گا، نماز قائم کرے گا، زکاۃ ادا کرے گا، مسلمانوں سے ہمدردی کرے گا اور مشرکوں سے علیحدگی اختیار کرے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 636

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 472
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم سات، آٹھ یا نو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا تم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیعت نہیں کرتے؟“ ہم نے کہا: ہم نے تھوڑا عرصہ پہلے ہی آپ کی بیعت کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیعت نہیں کرتے؟“ ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم تو آپ کی بیعت کر چکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تیسری دفعہ) فرمایا: ”کیا تم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیعت نہیں کرتے؟“ سو ہم نے بیعت کے لیے اپنے ہاتھ پھیلا دیے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت تو کر چکے ہیں، اس لیے (آپ وضاحت کیجیئے) اب کس چیز پر بیعت کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات پر کہ تم ایک اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، پانچ نمازیں پڑھو گے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو گے۔“ اور ایک بات آہستہ انداز میں ارشاد فرمائی کہ ”لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرو گے۔“ میں نے دیکھا کہ اگر ان مذکورہ (بیعت کندگان) میں سے بعض افراد کا کوڑا بھی زمین پر گر جاتا تو وہ کسی سے سوال نہیں کرتے تھے کہ وہ اسے اٹھا کر انہیں پکڑا دے (بلکہ وہ خود اٹھا لیتے تھے)۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3600
باب: فرضی نمازوں کی تعداد
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 473
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کتنی نمازیں فرض کیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کیں“۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! آیا ان سے پہلے یا بعد میں بھی کوئی نماز (فرض) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ دہرائی۔ اس آدمی نے اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے کہا: میں ان (پانچ نمازوں) میں زیادتی کروں گا نہ کمی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ (اپنے دعوے میں) سچا ہے تو جنت میں ضرور داخل ہو گا“۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2794

باب: نماز دوسرے اعمال کے مقبول یا غیر مقبول ہونے کے لیے معیار ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 474
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت والے دن (حقوق اللہ میں سے) لوگوں کا سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا اور (حقوق العباد میں سے) سب سے پہلے خون کے بارے میں فیصلہ ہو گا“۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1748

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 475
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے روز سب سے پہلے بندے کا نماز کے بارے میں محاسبہ کیا جائے گا۔ اگر وہ درست ہوئی تو اس کے بقیہ اعمال بھی درست ہوں گے اور اگر ان میں خرابی آ گئی تو بقیہ اعمال میں بھی بگاڑ آ جائے گا“۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1358

باب: نماز کی اہمیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 476
سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تیری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور اپنے اوپر یہ لازم کیا ہے کہ جو آدمی ان نمازوں کی ان کے اوقات میں محافظت کرے گا، اسے جنت میں داخل کروں گا اور جو ان کی حفاظت نہیں کرے گا اس کو (بخشنے کا) میرا کوئی معاہدہ نہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 4033

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 477
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز تین حصوں پر مشتمل ہے: ایک تہائی حصہ طہارت ہے، ایک تہائی رکوع اور ایک تہائی سجدے ہیں۔ جس نے کماحقہ نماز ادا کی اس کے بقیہ اعمال بھی مقبول ہوں گے اور جس کی نماز مردود ہو گئی، اس کے بقیہ اعمال بھی رائیگاں جائیں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2537
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 478
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے، پانچوں نمازیں پڑھیں اور بیت اللہ کا حج کیا۔ راوی کہتا ہے میں نہیں جانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کا ذکر کیا تھا یا نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے معاف کر دے، وہ اللہ کے راستے میں ہجرت کرے یا اپنی جائے پیدائش میں ٹھہرا رہے۔“ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں لوگوں کو (اس حدیث) کی خبر دے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہنے دو معاذ! تاکہ وہ (مزید) عمل کرتے رہیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3229

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 479
ابومالک اشجعی اپنے باپ طارق بن اشیم سے بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی آدمی مسلمان ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سب سے پہلے نماز کی تعلیم دیتے تھے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3030

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 480
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا، نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے، وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے یا اپنی جائے ولادت میں رہائش پذیر رہے۔“ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو (یہ حدیث بیان کر کے) خوشخبری نہ سنا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں سو درجے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا تفاوت ہے، جتنا آسمان اور زمین کے مابین ہے، جب تم اللہ تعالیٰ سے (جنت کا) سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کرو، کیونکہ یہ جنت کا منتخب اور اعلیٰ مقام ہے، (میرا خیال ہے کہ یہ بھی فرمایا) اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 921

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 481
سیدنا ابوقتیلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”نہ میرے بعد کوئی نبی آئے گا اور نہ میری امت کے بعد کوئی امت آئے گی، سو اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، ماہ (رمضان) کے روزے رکھو اور اپنے معاملات کے مسئولوں (یعنی امیروں) کی اطاعت کرو، تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3233

باب: ایک سال کی نمازوں اور روزوں کی بنا پر شہید پر فوقیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 482
سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قضاعہ قبیلے کی شاخ ”بلی“ کے دو آدمی تھے، ان میں ایک شہید ہو گیا اور دوسرا اس سے ایک سال بعد فوت ہوا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے خواب آیا کہ جنت کا دروازہ کھولا گیا اور بعد میں فوت ہونے والا، شہید ہونے والے سے پہلے جنت میں داخل ہوا، مجھے بڑا تعجب ہوا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے اس خواب کا تذکرہ کیا اور بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس نے (ایک سال پہلے شہید ہونے والے کے بعد) رمضان کے روزے نہیں رکھے اور ایک سال کی (فرض نمازوں کی) چھ ہزار اور اس سے زائد اتنی اتنی نفل رکعتیں ادا نہیں کیں؟“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2591
باب: اللہ تعالیٰ کا نمازی کی طرف متوجہ ہونا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 483
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے شبث بن ربعی کو (نماز میں) اپنے سامنے تھوکتے دیکھا تو اسے کہا: شبث! اپنے سامنے نہ تھوکا کر، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ”جب آدمی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے چہرے کے ساتھ اس کی طرف (اس وقت تک) متوجہ رہتا ہے، جب تک وہ سلام نہیں پھیرتا یا کوئی برا فعل نہیں کرتا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1596

باب: فرشتوں کا نمازی کی تلاوت سننے کا انداز
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 484
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مسواک کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ”جب بندہ نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور اس کے پیچھے کھڑے ہو کر قرآن مجید سنتا اور قریب ہوتا رہتا ہے، وہ قرآن مجید سنتے سنتے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ دیتا ہے اور نمازی جو آیت بھی پڑھتا ہے فرشتہ اسے اپنے اندر سما لیتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1213

باب: نیکی کی رغبت پر نماز کا حکم
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 485
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی آدمی کا طرز و طریقہ پسند آتا تو آپ اسے نماز کا حکم دیتے تھے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2953
باب: نماز، جسم کے جوڑوں کا ٹیکس ادا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 486
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کے ہر عضو پر صدقہ (واجب) ہے، ہر مرتبہ «سبحان الله» کہنا صدقہ ہے اور ہر مرتبہ «الحمدلله» کہنا صدقہ ہے اور ہر مرتبہ «لا إله إلا الله» کہنا صدقہ ہے اور ہر مرتبہ «الله اكبر» کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور ان سب سے وہ دو رکعتیں کافی ہو جائیں گی جو کوئی شخص چاشت کے وقت ادا کرے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 577

باب: اچھے انداز میں ادا کی گئی نماز کا صلہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 487
یوسف بن عبداللہ بن سلام کہتے ہیں: میں سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت آیا جب وہ مرض الموت میں مبتلا تھے۔ انہوں نے مجھے کہا: اے میرے بھتیجے! کون سا ارادہ یا کون سی ضرورت تجھے اس شہر میں لے آئی ہے؟ میں نے کہا: کوئی مقصد نہیں، سوائے اس کے کہ آپ کے اور میرے والد عبداللہ بن سلام کے مابین ایک تعلق تھا، (اس کی بنا پر آیا ہوں)۔ ابودردا رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر اس وقت جھوٹ بولوں تو بہت برا ہے، میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو آدمی وضو کرے اور اچھا وضو کرے، پھر دو یا چار رکعتیں پڑھے اور ان میں اچھے انداز میں ذکر و اذکار اور خشوع و خضوع کرے، پھر بخشش طلب کرے تو اس کو بخش دیا جائے گا۔“ رکعات کی تعداد کے بارے میں سہیل راوی کو شک ہوا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3398

باب: نماز ترک کرنے کا وبال
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 488
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نشے میں مدہوش ہو کر ایک نماز ترک کر دی، گویا کہ پوری دنیا اور جو کچھ اس پر ہے اس کا تھا، جو اس سے چھین لیا گیا اور جس نے نشے میں مدہوش ہونے کی وجہ سے چار دفعہ نماز ترک کر دی، تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے «طينة الخبال» پلائے۔“ کہا گیا، اے اللہ کے رسول! «طينة الخبال» کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنمیوں کے پیپ کو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3419
باب: پہلے والی اور بعد والی نمازوں کی رکعات کی تعداد
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 489
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: شروع شروع میں نمازیں دو دو رکعتیں فرض ہوئی تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ہر نماز میں اس کی مثل اضافہ کر دیا گیا، سوائے نماز مغرب کے کہ وہ دن کی نماز کو وتر (یعنی طاق) کرنے والی ہے اور سوائے نماز فجر کے، کہ اس میں لمبی قرائت کی جاتی ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کرتے تو شروع والی (دو رکعت) نمازوں کی کیفیت کے مطابق ادائیگی کرتے تھے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2814

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 490
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دو دو رکعت فرض نماز پڑھا کرتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو چار اور تین رکعت والی نمازیں فرض ہو گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس نئے حکم پر) عمل کیا اور مکہ میں پڑھی جانے والی دو دو رکعتوں کو مسافر کے لیے مکمل نماز قرار دیا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2815

باب: مقیم کی اقتدا میں مسافر کا پوری نماز ادا کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 491
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: یہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ یعنی مقیم کی اقتدا میں مسافر کا نماز پوری پڑھنا، وگرنہ قصر کرنا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2676

باب: ایک دفعہ شراب پینے سے چالیس روز نماز قبول نہیں ہوتی
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 492
ابن دیلمی، جو بیت المقدس میں فروکش تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی تلاش میں مدینہ منورہ میں ٹھہرا، جب اس نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا: تو بتلایا گیا کہ وہ تو مکہ کی طرف جا چکے ہیں۔ وہ بھی ان کی پیچھے چل دیا، (مکہ آنے پر) معلوم ہوا کہ وہ تو طائف کی طرف روانہ ہو چکے ہیں۔ وہ ان کی کھوج میں طائف کی طرف روانہ ہو گیا اور بالآخر ان کو ایک کھیت میں پا لیا۔ وہ شراب نوشی میں بدنام ایک قریشی آدمی اور وہ نشے کی وجہ سے ڈول رہا تھا، کی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر چل رہے تھے۔ جب میں انہیں ملا تو سلام کہا، انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون سی چیز تجھے یہاں لے آئی ہے؟ تو کہاں سے آیا ہے؟ میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا اور پھر پوچھا: اے عبداللہ بن عمرو! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شراب کے بارے میں کچھ فرماتے سنا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ (یہ سن کر) قریشی نے اپنا ہاتھ کھینچا اور چلا گیا۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میری امت کا جو آدمی شراب پیتا ہے، چالیس روز اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 709
باب: گھبراہٹ میں نماز کا سہارا لینا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 493
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب وہ لوگ (یعنی انبیاء کرام) گھبرا جاتے تو نماز کا سہارا لیتے تھے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3466

باب: پانچ نمازوں کی ادائیگی کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 494
مطلب بن عبداللہ بن حنطب سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور فرمایا: ”میں قسم اٹھاتا ہوں، میں قسم اٹھاتا ہوں، میں قسم اٹھاتا ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر آئے اور فرمایا: ”خوش ہو جاؤ، خوش ہو جاؤ، جس آدمی نے پانچ نمازیں ادا کیں اور کبیرہ گناہوں سے گریز کیا، وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے گا داخل ہو جائے گا۔“ مطلب نے کہا: ایک آدمی نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: کیا آپ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کلمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا؟ انہوں نے کہا: ہاں (کبیرہ گناہ یہ ہیں:) والدین کی نافرمانی کرنا، اللہ کے ساتھ شرک کرنا، کسی کو (بلاوجہ) قتل کرنا، پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانا، یتیم کا مال کھا جانا، میدان جنگ سے فرار اختیار کرنا اور سود کھانا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3451

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 495
ابوادریس خولانی کہتے ہیں: میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں بیٹھا تھا، ان میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرما تھے۔ وہ نماز وتر (کے حکم پر) بحث کرنے لگے، بعض نے کہا: کہ نماز وتر واجب ہے جبکہ بعض نے اسے سنت قرار دیا۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے (اپنی رائے پیش کرتے ہوئے) کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبریل آئے اور کہا: اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا ہے: میں نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو آدمی وضو، اوقات اور سجود (وغیرہ) سمیت ان کا پورا حق ادا کرے گا، ان سے میرا معاہدہ ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا، اور جو آدمی ان کی ادائیگی میں کمی کر کے مجھے ملے گا تو اس کے لیے میرے ہاں کوئی عہد نہیں ہے، چاہوں تو عذاب دوں اور چاہوں تو رحم کر دوں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 842

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 496
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرما رہے تھے: ”اپنے رب سے ڈر جاؤ، پانچ نمازیں ادا کرو، ماہ (رمضان) کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو اور اپنے امرا کی اطاعت کرو، تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 867

باب: سجدوں کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 497
سیدنا ابوفاطمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوفاطمہ! زیادہ سے زیادہ سجدے کیا کر، کیونکہ جب بھی مسلمان سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1519

باب: نماز فجر ادا کرنے والے کی ضمانت اللہ تعالیٰ خود اٹھاتا ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 498
سیدنا جندب قسری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صبح کی نماز پڑھتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی امان میں ہوتا ہے، (پس اے انسان! ذرا غور کر) کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنی ضمانت کی بابت باز پرس کرے اور جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ضمانت کے بارے میں پوچھ گچھ کی، تو وہ اس کا مواخذہ کر لے گا اور اسے منہ کے بل جہنم میں گرا دے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2890
باب: جمعہ کے روز نماز فجر کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 499
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حمران بن ابان سے کہا: آپ نے نماز باجماعت ادا کیوں نہیں کی؟ انہوں نے کہا: میں نے جمعہ کے دن نماز فجر جماعت کے ساتھ ادا کی ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا تجھے یہ بات نہیں پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے افضل نماز جمعہ کے دن کی نماز فجر ہے، جسے باجماعت ادا کیا جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1566

باب: نماز عصر کی فضیلت اور وجہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 500
سیدنا ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مخمص مقام پر نماز عصر پڑھائی اور فرمایا: ”یہ نماز سابقہ امتوں پر بھی فرض کی گئی تھی، لیکن انہوں نے اسے ضائع کر دیا، لہذا جو اس کی ادائیگی پر محافظت کرے گا، اسے دو گنا اجر ملے گا اور اس کے بعد ستارہ طلوع ہونے تک کوئی نماز نہیں۔“ حدیث میں لفظ «شَاهد» کے معانی ”ستارے“ کے ہیں۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3549
باب: دو رکعت نماز دنیا و مافیہا سے بہتر ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 501
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے، جس میں کچھ ہی دیر پہلے میت کو دفن کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خفیف سی دو رکعتیں، جن کو تم حقیر اور زائد سمجھتے ہو، اگر یہ صاحب قبر اپنے عمل میں ان کا اضافہ کر لیتا تو وہ اس کی نظر میں تمہاری باقیماندہ دنیا سے بھی زیادہ محبوب ہوتیں۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1388

باب: نمازی کا مقام و مرتبہ
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 502
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو غلام تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک غلام ہمیں دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے چاہتے ہو لے لو۔“ انہوں نے کہا: آپ خود میرے لیے پسند کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لے لو، اس کو مارنا نہیں کیونکہ میں نے خیبر سے واپسی پر اس کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور مجھے نمازیوں کو مارنے سے منع کیا گیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا غلام سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو دیا اور اس کے ساتھ خیر و بھلائی اور حسن سلوک کرنے کا حکم دیا، پھر ایک دن پوچھا: ”ابوذر! میں نے تجھ کو جو غلام دیا تھا، اس کا کیا حال ہے؟“ انہوں نے کہا: آپ نے مجھے اس کے ساتھ خیر و بھلائی کرنے کا حکم دیا تھا، اس لیے میں نے اس کو آزاد کر دیا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1428

باب: روز جمعہ اور جمعہ ادا کرنے والوں کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 503
سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے روز (ہفتہ کے سات) دنوں کو ان کی (مخصوص) شکل میں اٹھائے گا، جمعہ کا دن حسین اور چمکتا دمکتا ہو گا، اہل جمعہ (یعنی جمعہ ادا کرنے والے) اس کو ایسے گھیر لیں گے جیسے (سہلیاں) دلہن کو دلہا کی طرف رخصت کرتے وقت گھیر لیتی ہیں، جمعہ کا دن اپنے اہل کے لیے روشنی کرے گا اور وہ اس کی روشنی میں چل رہے ہوں گے، ان کے رنگ برف کی طرح سفید ہوں گے، ان کی بو کستوری کی طرح مہک رہی ہو گی، وہ کافور خوشبو کے پہاڑوں میں گھسے ہوئے ہوں گے، جن و انس انہیں دیکھ رہے ہوں گے اور وہ تعجب کی وجہ سے نگاہ نیچی نہیں کرنے پائیں گے کہ جنت میں داخل ہو جائیں گے اور ثواب کی امید سے اذان دینے والوں کے علاوہ کوئی بھی ان کے اس مقام و مرتبہ تک نہیں پہنچ سکے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 706
باب: نماز جمعہ گناہوں کا کفارہ بنتا ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 504
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک جمعہ اگلے جمعہ تک اپنے مابین ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، جب تک کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3623

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 505
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچوں نمازیں اور جمعہ، اگلے جمعہ تک ان تمام گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں، جو ان کے درمیانے وقفوں میں سرزد ہو جاتے ہیں، جب تک کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے اور (جمعہ) مزید تین دنوں میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ بھی بن جاتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1920

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 506
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچوں نمازیں اور جمعہ، دوسرے جمعہ تک اور ماہ رمضان، اگلے رمضان تک ان تمام گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں، جو ان کے درمیانی وقفوں میں سرزد ہو جاتے ہیں، جب تک کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3322

باب: نماز جمعہ ترک کرنے والی قوم کا وبال
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 507
حکم بن مینا کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے منبر کی تختیوں پر فرماتے ہوئے سنا: ”یا تو لوگ ضرور ضرور جمعہ کی نمازیں ترک کرنے سے باز آ جائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، (جس کے نتیجے میں) وہ ضرور ضرور غافل ہو جائیں گے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2967

باب: خاص طور پر جمعہ کی رات کو قیام کرنا یا جمعہ کو روزہ رکھنا منع ہے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 508
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیام کے لیے جمعہ کی رات کو خاص نہ کرو اور نہ اس کے دن کو روزے کے لیے خاص کرو، ہاں اگر کوئی آدمی (اپنی ترتیب کے مطابق) روزے رکھ رہا ہے (اور اسے جمعہ کے دن روزہ رکھنا پڑ گیا ہے تو) وہ روزہ رکھ لے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 980

باب: دوران خطبہ جمعہ اونگھنے والا شخص اپنی نشت بدل لے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 509
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”اگر جمعہ کے روز کسی کو مسجد میں اونگھ آنے لگے تو وہ اپنی جگہ بدل لیا کرے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 468

باب: جمعہ مبارک کے لیے غسل کرنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 510
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے، ایک آدمی (اور ایک روایت کے مطابق سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ) مسجد میں داخل ہوئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم لوگ نماز کے معاملے میں تاخیر کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: میں نے جونہی اذان سنی تو وضو کر کے آ گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نہیں سنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے (مسجد میں) آئے تو غسل کرے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3971

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 511
طاؤس یمانی کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ لوگ اس قسم کی بات کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”جمعہ کے دن غسل کیا کرو اور سروں کو بھی (اچھی طرح) دھویا کرو، اگرچہ تم جنابت کی حالت میں نہ ہو اور خوشبو بھی لگایا کرو۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: خوشبو کا تو مجھے علم نہیں، البتہ غسل کے بارے میں یہی بات ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3510

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 512
ایک انصاری صحابی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”یہ تین چیزیں ہر مسلمان پر حق ہیں: جمعہ کے روز غسل کرنا، مسواک کرنا اور خوشبو لگانا، بشرطیکہ دستیاب ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1796

باب: غسل جمعہ کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 513
عبداللہ بن ابوقتادہ بیان کرتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن غسل کر رہا تھا، کہ میرے والد صاحب تشریف لائے اور پوچھا غسل جنابت کر رہے ہو یا غسل جمعہ؟ میں نے کہا: غسل جنابت۔ انہوں نے کہا: ایک اور غسل کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے جمعہ کے دن غسل کیا وہ اگلے جمعہ تک طہارت میں رہے گا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2331
باب: نماز جمعہ کی طرف جلدی آنے والوں کی فضیلت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 514
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز (جمعہ) کی طرف جلدی آنے والے کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو اونٹ کا صدقہ پیش کرتا ہے، اس کے بعد آنے والے کی مثال اس طرح ہے جو گائے کا صدقہ پیش کرتا ہے، اس کے بعد آنے کی مثال اس طرح ہے جو دنبے کا صدقہ پیش کرتا ہے، اس کے بعد آنے کی مثال اس کی طرح ہے جو مرغی کا صدقہ پیش کرتا ہے اور اس کے بعد آنے کی مثال اس طرح ہے جو انڈے کا صدقہ پیش کرتا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3576

باب: جمعہ کے روز مسواک کرنا اور خوشبو لگانا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 515
ایک انصاری صحابی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تین چیزیں ہر مسلمان پر جق ہیں: جمعہ کے روز غسل کرنا، مسواک کرنا اور خوشبو لگانا، بشرطیکہ دستیاب ہو۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1796
باب: دوران خطبہ مقتدیوں کی کیفیت
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 516
مطیع غزال اپنے باپ سے، وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھتے تو ہم اپنے چہروں کے ساتھ آپ کی طرف متوجہ ہوتے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2080

باب: خطیب کا منبر پر چڑھ کر سلام کہنا
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 517
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھتے تو سلام کہتے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2076

باب: دوران خطبہ جمعہ کلام کرنے کا نقصان
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 518
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں سوال کیا، اس حال میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، انہوں نے ان سے منہ پھیر لیا اور ان کے سوال کا جواب نہ دیا۔ جب نماز پوری کی تو ابی بن کعب نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا: (آج) تم نے جمعہ ادا نہیں کیا۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابی نے سچ کہا۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 2251

باب: نماز اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کا ذریعہ ہے، نماز میں آواز کس قدر مخفی یا بلند ہونی چاہیئے
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 519
قبیلہ بنو بیاضہ کے ایک آدمی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے ایک عشرے کا اعتکاف کیا اور فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے اس لیے (نماز میں) بآواز بلند قرآن مجید نہ پڑھا کرو (کیونکہ) اس طرح دوسرے مومنوں کو تکلیف ہوتی ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1597

حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 520
سیدنا ابوہریرہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھر میں جھانکے اور دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اور بلند آواز سے قرات کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”بیشک نمازی اپنے رب سے سرگوشی کر رہا ہوتا ہے اس لیے اسے دھیان کرنا چاہیے کہ وہ کتنی بڑی ذات سے سرگوشی کر رہا ہے، (لہذا نماز میں) قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ایک دوسرے پر آواز کو بلند نہیں کرنا چاہیئے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 1603
 
Top