• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلسلہ *رسول اللہ ﷺ کے آنسو* قسط نمبر 4 حاضر خدمت ہے

شمولیت
ستمبر 08، 2015
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
53
*بسْـــــــــمِ ﷲِالرَّحْــــمَنِ الرَّحِيم⊙*
*•┈┈┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈┈┈•*
سلسلہ *رسول اللہ ﷺ کے آنسو*
قسط نمبر 4 حاضر خدمت ہے

*نبی ﷺ نے حضرت خدیجہ رض کی وفات کے بعد ان کی نشانی دیکھی تو آنکھوں سے سیل اشک رواں ہو گیا۔*

2 ہجری میں جب معرکہ بدر پیش آیا تو اس موقع پر 70 کفار قید کت لئے گئے۔ ان میں ابوالعاص رض بن ربیع بھی تھے ج قیدیوں سے فدیہ لے کر ان کو رہا کیا جانے لگا حضرت زینب بنت رسول (رض) نے بھی اپنے شوہر حضرت ابو العاص کو چھڑانے کے لئے فدیہ میں وہ قیمتی ہار جو ماں حضرت خدیجتہ الکبرَى رض نے جہیز میں دیا تھا' فدیہ کے لئے بھیج دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ ہار دیکھا 25 برس کا محبت انگیز واقعہ یاد آگیا۔ حضرت خدیجہ رض کی اس نشانی کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ بے اختیار رو پڑے اور آنکھوں سے سیل اشک رواں ہو گیا۔پھر رحمت عالم ﷺ نے ڈبڈباتی آنکھوں سے صحابہ کرام رض سے فرمایا : اگر تمہاری اجازت ہو تو بیٹی کو ماں کی یادگار لوٹا دوں۔ سب نے سر اطاعت خم کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے یہ ہار واپس کر دیا۔ ( ابوداؤ و تاریخ طبری)
ایک مرتبہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رض نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سیدہ طاہری خدیجتہ الکبرَى کا ذکر کیا۔حضرت خدیجتہ الکبریَ کی یاد سے آپ تڑپ اٹھے دل بے کرار ہو گیا اور آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے۔
(اس واقعہ کی تفصیل آگے آ رہی ہے)
حضرت ﷺ کی وفات کے بعد متعدد بیویاں آپ کے عقد میں آئیں لیکن نبیﷺ ساری زندگی حضرت خدیجہ رض کو دل سے نہ بھلا سکے۔ اگر کبھی گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت خدیجہ رض کی سہیلیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گوشت بھیجتے کبھی کوئی خوشی یا غمی کا موقع آتا تو فرماتے : "کاش آج خدیجہ رض زندہ ہوتی"۔
حضرت عائشہ صدیقہ رض فرماتی ہیں رسول اللہ کی کسی بیوی پر مجھے رشک نہ آتا سوائے خدیجتہ الکبریَ کے۔
ایک مرتبہ حضرت خدیجہ رض کے انتقال کے بعد ان کی بہن حضرت ہالہ رض آپ ﷺ سے ملنے آئیں اور اندر آنے کی اجازت طلب کی ۔ (ان کی آواز حضرت خدیجہ رض سے ملتی تھی ) سرور عالم کے کانوں میں اس آواز کا پڑنا تھا کہ حضرت خدیجہ رض یاد آ ئی۔ آپ ﷺ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ہالہ رض ہو گی۔ حضرت عائشہ بھی یہاں موجود تھیں۔
بولیں : کیا آپ ﷺ ایک بڑھیا کو یاد کرتے رہتے ہیں جو مر چکی ہے ؟ اب خدا نے آپ کو اس سے اچھی بیویاں دی ہیں ۔ (بخاری)
الاستعاب میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ہر گز نہیں (وہ وہی تھیں ) جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو اس نے میری تصدیق کی۔ جب لوگ کافر تھے اس نے اسلام قبول کیا۔ جب کوئی میرا مددگار نہ تھا اس نے میری مدد کی۔ (الاستعاب)
*حضرت صدیق اکبر رض زخمی حالت میں آپ کی ملاقات کے لئے تو رحمت عالم ﷺ ان پر جھک پڑے اور آنکھوں سے آنسو چھلک آئے*

ابھی اسلام کا آغاز تھا۔ صرف اڑتیس آدمی مسلمان ہوئے تھے۔ مکہ کی بستی کافروں سے بھری ہوئی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رض حضور ﷺ محبت سے سرشار تھے۔ آپ ﷺ سے التجا کی کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں لوگوں کو اعلانیہ آپ ﷺ کی رسالت کی اطلاع دوں اور لوگوں کو آپ ﷺ سے گیض یاب ہونے کی دعوت دوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابو بکر رض ابھی ذرہ صبر سے کام لو۔۔۔۔۔ ابھی ہم تعداد میں کم ہیں۔ حضرت ابوبکر رض پر غلبہ حال طاری تھا۔ انہوں نے پھر وہی اصرار کیا حتیَ کہ حضور علیہ الصلوة السلام نے اجازت دے دی۔ حضرت ابوبکر رض نے بے خوف و خطر لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف دعوت دی۔
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
*(فکان اول خطیب دعا الی اللہ و الی رسول )*
"حضور ﷺ کی بعثت کے بعد ابو کر صدیق رض پہلے خطیب ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بلایا"
مشرکین مکہ آپ پر ٹوٹ پڑے۔ آپ رض کو سخت پیٹا اور رودا۔ عتبہ بن ربیعہ نے صدیق اکبر رض کے چہرے پر بے تحاشا تھپڑ مارے۔ حضرت ابوبکر صدیق رض قبیلہ بنوتمیم سے تھے۔ آپ رض کے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہ دوڑے ہوئے آئے۔ مشرکیں سے انہیں چھڑا کر ان کے گھر چھوڑ آئے۔حضرت ابوبکر رض بے ہوش تھے اور لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جانبر نہ ہو سکیں گے وہ دن بھر بے ہوش رہے جب شام ہوئی تو حضرت ابو بکر صدیق رض کو ہوش آیا ۔ آپ رض کے والد ابو قحافہ رض اور آپ رض کے قبیلے کے لوگ صدیق اکبر رض کے پاس کھڑے تھے ہوش آتے ہی پہلی بات انہوں نے یہ کہی کہ رسول اللہ حضرت ﷺ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ ان کے قبیلے کے بہت سخت برہم ہوئے۔ اور انہی ملامت کہ جس کی۔وجہ سے یہ ذلت اور رسوائی اٹھانی پڑی اور یہ مار پیٹ تمہیں برداشت کرنی پڑی۔ ہوش میں آتے ہی تم پھر اس کا حال پوچھتے ہو۔ (ان عقل کے اندھوں کو کیا خبر تھی کہ ان خاطر سختیاں جھیلنے میں لذت ہے وہ دنیا داروں کو پھولوں کی سیج اور کمخاب پر بھی حاصل نہیں ہوتی )
ان کے قبیلے کے لوگ مایوس ہو کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے اور ان ماں ام الخیر رض سے کہہ گئے کہ جب تک محمد رسول ﷺ کی محبت سے باز نہ آ جائے اس کا بائی کاٹ کرو اور اسے کھانے پینے کے لئے کچھ نہ دو۔ ماں کی ممتا تھی جی بھر آیا۔ کھانا لا کر سامنے رکھ دیا اور کہا دن بھر کے بھوکے ہو کچھ کھا لو حضرت ابو بکر صدیق نے کہا :

*( فان لله على ان لا ازوق طعاما ولا اشرب شرابا اواتى رسول الله صلى الله عليه وسلم)*
"ماں خدا کی قسم میں کھانا نہیں چکھوں گا اور پانی کو گھونٹ تک نہیں پیوں گا جب تک۔حضور ﷺ کی زیارت نہ کر لوں"
حضرت عمر رض کی بہن حضرت ام جمیل رض آ گئیں اوت بتایا کہ حضور ﷺ بخیریت ہیں اور دار ارقم میں تشریف فرما ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رض زخموں سے چور چلنے کے قابل نہ تھے۔ ماں کا سہارا لے کر بارگاہ رسالت ﷺ می حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان پر جھک پڑے انہیں چوما اور اس وقت آپ ﷺ کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو گئے۔
(ابن کثیر )

جاری ہے

طالب دعا

*محمد شاھد منیر انصاری*

السلامُ علیکم ورحمة الله وبركاته

ان میں جن احادیث کا ذکر کیا گیا ہے ان کے حوالے مل سکتے ہیں....
 
Top