• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلسلہ صحیح نماز نبوی

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
سنن أبي داود كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَنْ لَمْ يَذْكُرْ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ حدیث رقم 639
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمٍ يَعْنِي ابْنَ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ
أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً
قَالَ أَبُو دَاوُد هَذَا حَدِيثٌ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَلَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ
ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ فرمارہے ہیں کہ یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں (یہ نہیں فرمایا کہ اور کسی لفظ کے ساتھ بھی صحیح نہیں)۔ درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں؛

سنن أبي داود كِتَاب الصَّلَاةِ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ حدیث رقم 640
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْبَرَاءِ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ أُذُنَيْهِ ثُمَّ لَا يَعُودُ
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَزِيدَ نَحْوَ حَدِيثِ شَرِيكٍ لَمْ يَقُلْ ثُمَّ لَا يَعُودُ قَالَ سُفْيَانُ قَالَ لَنَا بِالْكُوفَةِ بَعْدُ ثُمَّ لَا يَعُودُ قَالَ أَبُو دَاوُد وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هُشَيْمٌ وَخَالِدٌ وَابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ يَزِيدَ لَمْ يَذْكُرُوا ثُمَّ لَا يَعُودُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ وَخَالِدُ بْنُ عَمْرٍو وَأَبُو حُذَيْفَةَ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا قَالَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ وَقَالَ بَعْضُهُمْ مَرَّةً وَاحِدَةً

سنن أبي داود كِتَاب الصَّلَاةِ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ حدیث رقم 641
- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ أَخِيهِ عِيسَى عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ ثُمَّ لَمْ يَرْفَعْهُمَا حَتَّى انْصَرَفَ
قَالَ أَبُو دَاوُد هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ بِصَحِيحٍ

سنن الترمذ ی میں اس باب میں صرف ایک حدیث ہے جس کو انہوں نے ”حسن“ کہا ہے؛
سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ حدیث رقم 238
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ
أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ”حسن“ ہے اور یہی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ علم صحابہ کرام کا اور تابعین کرام کا ہے اور یہی قول سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہلِ کوفہ کا ہے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

محترم جلال الزمان، آپ نماز کا طریقہ مکمل کر لیں یہی بہتر ہو گا، ورنہ جس مقصد کے لئے آپ نے یہ تھریڈ بنایا ہے وہ ادھورا رہ جائے گا، جو درمیان میں سوالات کا سلسلہ چل پڑا ھے ان کے جوابات بعد میں دے دینا، نہیں تو نماز کا طریقہ مکمل نہیں ہو سکے گا۔

والسلام
 
شمولیت
فروری 19، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
40
رفع الیدین نہ کرنے والوں کے دلائل کا تجزیہ:
حدثنا عثمان بن ابي شيبة حدثنا وكيع عن سفيان عن عاصم يعني ابن كليب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمة قال عبد الله بن مسعود:‏‏‏‏ " الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال:‏‏‏‏ فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة " قال ابو داود:‏‏‏‏ هذا حديث مختصر من حديث طويل وليس هو بصحيح على هذا اللفظ.
علقمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ علقمہ کہتے ہیں: پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی، تو رفع یدین صرف ایک بار (نماز شروع کرتے وقت) کیا۔(ابوداود 748)
امام ابوداود اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں۔یہ ایک طویل حدیث سے ماخوذ ایک مختصر ٹکڑا ہے، اور یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں۔
اس حدیث کی مزید تحقیق کر کے پتا چلتا ہے کہ اس روایت میں سفیان ثوری مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں۔مدلس کی عن والی روایت تفرد کی صورت میں ضعیف ہوتی ہے۔مشہور محدث شیخ المعلمی الیمانی رحہ نے اپنی مشہور کتاب التنکیل میں اس روایت کو سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے معلول (ضعیف)قرار دیا ہے۔(التنکیل:2۔25)
حدثنا الحسن بن علي حدثنا معاوية وخالد بن عمرو وابو حذيفة قالوا:‏‏‏‏ حدثنا سفيانبإسناده بهذا قال:‏‏‏‏ فرفع يديه في اول مرة وقال بعضهم:‏‏‏‏ مرة واحدة.
براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کے قریب تک اٹھاتے تھے پھر دوبارہ ایسا نہیں کرتے تھے۔(ابوداود 749)
(اس کے راوی یزید ضعیف ہیں آخر عمر میں ان کا حافظہ خراب ہو گیا تھا، کبھی «لایعود» کے ساتھ روایت کرتے تھے اور کبھی بغیر اس کے، اس لئے ان کی روایت کا اعتبار نہیں)
حدثنا هناد حدثنا وكيع عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمة قال:‏‏‏‏ قال عبد الله بن مسعود :‏‏‏‏ " الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا في اول مرة ". قال:‏‏‏‏ وفي الباب عن البراء بن عازب قال ابو عيسى:‏‏‏‏ حديث ابن مسعود حديث حسن وبه يقول:‏‏‏‏ غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين وهو قول سفيان الثوري واهل الكوفة.
علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: ”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟ تو انہوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۱؎۔(ترمزی 257)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں براء بن عازب رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔

ہم بیان کر چکے ہیں کہ راوی سفیان ثوری مدلس ہے۔اور مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
اور
امام ترمذی اس روایت کو نقل کرنے سے پہلے تنبیہ کر چکے ہیں:امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، علی، وائل بن حجر، مالک بن حویرث، انس، ابوہریرہ، ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ، ابوقتادۃ، ابوموسیٰ اشعری، جابر اور عمیر لیثی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- یہی صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر، جابر بن عبداللہ، ابوہریرہ، انس، ابن عباس، عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم وغیرہ شامل ہیں اور تابعین میں سے حسن بصری، عطاء، طاؤس، مجاہد، نافع، سالم بن عبداللہ، سعید بن جبیر وغیرہ کہتے ہیں، اور یہی مالک، معمر، اوزاعی، ابن عیینہ، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: جو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں ان کی حدیث (دلیل) صحیح ہے، پھر انہوں نے بطریق زہری روایت کی ہے، ۵- اور ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے“ والی ثابت نہیں ہے، ۶- مالک بن انس نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے، ۷- عبدالرزاق کا بیان ہے کہ معمر بھی نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے، ۸- اور میں نے جارود بن معاذ کو کہتے سنا کہ ”سفیان بن عیینہ، عمر بن ہارون اور نضر بن شمیل اپنے ہاتھ اٹھاتے جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے“۔


 
شمولیت
فروری 19، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
40
رفع الیدین کرنے کی صحیح روایات:
1۔عبدللہ بن عمر رضہ:ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک سے، انہوں نے ابن شہاب زہری سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ سے، انہوں نے اپنے باپ (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے (رفع یدین کرتے) اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد» کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔(صحیح بخاری735)
2:مالک بن حویرث:ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا خالد حذاء سے، انہوں نے ابوقلابہ سے کہ انہوں نے مالک بن حویرث صحابی کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرتے، پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت بھی رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے اور انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔(صحیح البخاری 737)
3:سیدنا ابو حمید ساعدی:عبدالحمید بن جعفر کہتے ہیں کہ مجھے محمد بن عمرو بن عطاء نے خبر دی ہے کہ میں نے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ کرام کے درمیان جن میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے کہتے سنا: میں آپ لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: وہ کیسے؟ اللہ کی قسم آپ ہم سے زیادہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے تھے، نہ ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے۔ ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں یہ ٹھیک ہے (لیکن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز زیادہ یاد ہے) اس پر لوگوں نے کہا: (اگر آپ زیادہ جانتے ہیں) تو پیش کیجئیے۔ ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر سیدھی ہو جاتی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآت کرتے، پھر «الله أكبر» کہتے، اور دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے مقابل کر لیتے، پھر رکوع کرتے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، اور رکوع میں پیٹھ اور سر سیدھا رکھتے، سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ ہی پیٹھ سے بلند رکھتے، پھر اپنا سر اٹھاتے اور «سمع الله لمن حمده» کہتے، پھر اپنا دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ سیدھا ہو کر انہیں اپنے دونوں کندھوں کے مقابل کرتے پھر «الله أكبر» کہتے، پھر زمین کی طرف جھکتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں پہلووں سے جدا رکھتے، پھر اپنا سر اٹھاتے اور اپنے بائیں پیر کو موڑتے اور اس پر بیٹھتے اور جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں پیر کی انگلیوں کو نرم رکھتے اور (دوسرا) سجدہ کرتے پھر «الله أكبر» کہتے اور (دوسرے سجدہ سے) اپنا سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پیر موڑتے اور اس پر بیٹھتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر واپس آ جاتی، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دوسری رکعت سے اٹھتے تو «الله أكبر» کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل لے جاتے جس طرح کہ نماز شروع کرنے کے وقت «الله أكبر» کہا تھا، پھر اپنی بقیہ نماز میں بھی اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب اس سجدہ سے فارغ ہوتے جس میں سلام پھیرنا ہوتا، تو اپنے بائیں پیر کو اپنے داہنے پیر کے نیچے سے نکال کر اپنی بائیں سرین پر بیٹھتے (پھر سلام پھیرتے)۔ اس پر ان لوگوں نے کہا: آپ نے سچ کہا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے۔(سنن ابو داود730(سند صحیح)
2۔محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ انہوں نے ابو حمید ساعدی رضی الله عنہ کو کہتے ہیں سنا (جب) صحابہ کرام میں سے دس لوگوں کے ساتھ تھے، ان میں سے ایک ابوقتادہ بن ربعی تھے، ابوحمید رضی الله عنہ کہہ رہے تھے کہ میں تم میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی نماز کا سب سے زیادہ جانکار ہوں، تو لوگوں نے کہا کہ تمہیں نہ تو ہم سے پہلے صحبت رسول میسر ہوئی اور نہ ہی تم ہم سے زیادہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آتے جاتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں یہ ٹھیک ہے (لیکن مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ نماز زیادہ یاد ہے) اس پر لوگوں نے کہا (اگر تم زیادہ جانتے ہو) تو پیش کرو، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو بالکل سیدھے کھڑے ہو جاتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے، پھر جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے، پھر «الله أكبر» کہتے اور رکوع کرتے اور بالکل سیدھے ہو جاتے، نہ اپنا سر بالکل نیچے جھکاتے اور نہ اوپر ہی اٹھائے رکھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، پھر «سمع الله لمن حمده» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور سیدھے کھڑے ہو جاتے یہاں تک کہ جسم کی ہر ایک ہڈی سیدھی ہو کر اپنی جگہ پر لوٹ آتی پھر سجدہ کرنے کے لیے زمین کی طرف جھکتے، پھر «الله أكبر» کہتے اور اپنے بازوؤں کو اپنی دونوں بغل سے جدا رکھتے، اور اپنے پیروں کی انگلیاں کھلی رکھتے، پھر اپنا بایاں پیر موڑتے اور اس پر بیٹھتے اور سیدھے ہو جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آتی، اور آپ اٹھتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے یہاں تک کہ دوسری رکعت سے جب (تیسری رکعت کے لیے) اٹھتے تو «الله أكبر» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں کرتے جیسے اس وقت کیا تھا جب آپ نے نماز شروع کی تھی، پھر اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب وہ رکعت ہوتی جس میں نماز ختم ہو رہی ہو تو اپنا بایاں پیر مؤخر کرتے یعنی اسے داہنی طرف دائیں پیر کے نیچے سے نکال لیتے اور سرین پر بیٹھتے، پھر سلام پھیرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور ان کے قول «رفع يديه إذا قام من السجدتين» ”دونوں سجدوں سے کھڑے ہوتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے“ کا مطلب ہے کہ جب دو رکعتوں کے بعد (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے۔(ترمذی304(سند صحیح)
3۔محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ کی موجودگی میں ۱؎، جن میں ایک ابوقتادہ رضی اللہ عنہ تھے، ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: میں آپ لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: کیسے؟ جب کہ اللہ کی قسم آپ نے ہم سے زیادہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ہے اور نہ آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے؟، ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ... ضرور لیکن میں آپ لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز بیان کریں، انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو «الله أكبر» کہتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے (رفع یدین کرتے)، اور آپ کا ہر عضو اپنی جگہ پر برقرار رہتا، پھر قراءت کرتے، پھر «الله أكبر» کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے (رفع یدین کرتے)، پھر رکوع کرتے اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے دونوں گھٹنوں پر ٹیک کر رکھتے، نہ تو اپنا سر پیٹھ سے نیچا رکھتے نہ اونچا بلکہ پیٹھ اور سر دونوں برابر رکھتے، پھر «سمع الله لمن حمده» کہتے، اور دونوں ہاتھ کندھے کے بالمقابل اٹھاتے (رفع یدین کرتے) یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آ جاتی، پھر زمین کی طرف (سجدہ کے لیے) جھکتے اور اپنے دونوں ہاتھ پہلو سے جدا رکھتے، پھر سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑ کر اس پر بیٹھ جاتے، اور سجدہ میں پاؤں کی انگلیاں کھڑی رکھتے، پھر سجدہ کرتے، پھر «الله أكبر» کہتے، اور اپنے بائیں پاؤں پر بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ واپس لوٹ آتی، پھر کھڑے ہوتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے، پھر جب دو رکعتوں کے بعد (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے، تو اپنے دونوں ہاتھ کندھے کے بالمقابل اٹھاتے جیسا کہ نماز شروع کرتے وقت کیا تھا ۳؎، پھر اپنی باقی نماز اسی طرح ادا فرماتے، یہاں تک کہ جب اس آخری سجدہ سے فارغ ہوتے جس کے بعد سلام ہے تو بائیں پاؤں کو ایک طرف نکال دیتے، اور بائیں پہلو پہ سرین کے بل بیٹھتے ۲؎، لوگوں نے کہا: آپ نے سچ کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے ۳؎۔(ابن ماجہ1061(سند صحیح)
4:سیدنا جابر:ابوالزبیر سے روایت ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع کے لیے جاتے، یا رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور کہتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابراہیم بن طہمان (راوی حدیث) نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں تک اٹھا کر بتایا۔(ابن ماجہ868(سند صحیح)


 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: ”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟ تو انہوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۱؎۔(ترمزی 257)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں براء بن عازب رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔
صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں
اہل کوفہ کا بھی قول ہے
محترم! محدثین کرام نے لکھا ہے کہ کوفہ کا کوئی مسلم بھی تکبیر تحریمہ کے بعد رفع الیدین نہ کرتا تھا۔
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ اہلِ علم صحابہ کرام اور تابعین کا یہی قول ہے۔
اب ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ ع؛ییہ نے تو ”مدلس“ ہیں اور نہ ہی ”ضعیف“۔
آپ اگر تمام احادیث کا مطالعہ بغور کریں اور تعصب کو بالائے طاق رکھ کر اللہ تعالیٰ کو جوابدہی کا یقین رکھتے ہوئے کریں تو یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ رفع الیدین میں نسخ واقع ہؤا ہے اور فرمانِ باری تعالیٰ سے مطابقت رکھنے والی رفع الیدین کے سوا باقی تمام منسوخ ہوگئیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
احناف کے مؤقف کی تائید قرآن سے ہے فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛

إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي (سورۃ طٰہٰ)

بے شک میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس میری ہی عبادت کرو اور نماز قائم کرو میرے ذکر کے لئے۔

نماز کی رفع الیدین کے علاوہ جتنی رفع الیدین نماز میں ہیں وہ منمسوخ ہیں کیونکہ ان کے لئے کوئی مسنون ذکر احادیث میں منقول نہیں۔ نماز میں جن رفع الیدن کے ساتھ ذکر مسنون تھا وہ اب بھی مسنون ہیں۔ جیسا کہ وتر کی دعائے قنوت سے پہلے اور عیدین کی رفع الیدین۔
 
شمولیت
فروری 19، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
40
نماز کی رفع الیدین کے علاوہ جتنی رفع الیدین نماز میں ہیں وہ منمسوخ ہیں کیونکہ ان کے لئے کوئی مسنون ذکر احادیث میں منقول نہیں۔ نماز میں جن رفع الیدن کے ساتھ ذکر مسنون تھا وہ اب بھی مسنون ہیں۔ جیسا کہ وتر کی دعائے قنوت سے پہلے اور عیدین کی رفع الیدین۔
عبادت میں یہ شرط کس عالم نے لگائی دلیل پیش کریں۔اور اس کی بھی دلیل پیش کریں کہ اس آیت سے یہ استدلال کس صحابی، امام، محدث،یا کسی جید عالم دین نے لیا۔
 
شمولیت
فروری 19، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
40
محترم! محدثین کرام نے لکھا ہے کہ کوفہ کا کوئی مسلم بھی تکبیر تحریمہ کے بعد رفع الیدین نہ کرتا تھا۔
بلکل درست فرمایا آپ نے:امام بخاری اپنی کتاب جز رفع الیدین میں لکھتے ہیں کہ۔ جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ رفع الیدین بدعت ہے تو یقینا"،نبی صہ کے صحابہ ،سلف(صالحین) ان کے بعد آنے والوں،اہل حجاز،اہل مدینہ،اہل مکہ،اہل عراق،کی ایک (بڑی) تعداد،اہل شام،اہل یمن، اور اہل خراسان کے علماء پر بشمول(امام)ابن مبارک پر تعن کیا ہے۔حتی کہ ہمارے استاز عیسی بن موسی،ابو احمد،کعب بن سعید،حسن بن جعفر،محمد بن سلام،علی بن الحسن(بن شفیق)عبدللہ بن عثمان،یحیی بن یحیی،صدقہ،اسحاق(بن راہویہ)اور (عبدللہ)بن مبارک کے تمام شاگرد (رفع الیدین کرتے تھے)سوائے اہل الرائے کے۔(سفیان)ثوری،وکیع اور بعض کوفی رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
 
شمولیت
فروری 19، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
40
إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي (سورۃ طٰہٰ)
بیشک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا عبادت کے لائق اور کوئی نہیں پس تو میری ہی عبادت کر (١) اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ (٢) ۔
تفسیر:١٤۔ ١ یعنی تکلیفات میں سب سے پہلا اور سب سے اہم حکم ہے جس کا ہر انسان پر تکلف ہی ہے۔ علاوہ ازیں جب الوہیت کا مستحق بھی وہی ہے تو عبادت بھی صرف اسی کا حق ہے۔
١٤۔ ٢ عبادت کے بعد نماز کا خصوصی حکم دیا۔ حالانکہ عبادت میں نماز بھی شامل تھی، تاکہ اس کی وہ اہمیت واضح ہوجائے جیسے کہ اس کی ہے۔ لِذِکْرِیْ کا ایک مطلب یہ ہے کہ تو مجھے یاد کرے، اسلئے یاد کرنے کا طریقہ عبادت ہے اور عبادت میں نماز کو خصوصی اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی میں تجھے یاد آجاؤں نماز پڑھ، یعنی اگر کسی وقت غفلت یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی اور میری یاد آتے ہی نماز پڑھ۔ جس طرح کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' جو نماز سے سو جائے یا بھول جائے، تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے یاد آئے پڑھ لے ' (صحیح بخاری)
(اس آیت سے رفع الیدین کی نفی کس طرح ہوتی ہے)
 
Top