محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
سلف امت ... نہ کہ اکابرین جماعت
ہمارے معاشرے میں 'اکابرین 'اور 'بزرگوں ' کی اصطلاح بکثرت استعمال ہوتی ہے ۔اپنے بڑوں کا احترام کرنا اور ان کے علمی ورثہ کو قیمتی جاننا بے حد مستحسن امر ہے مگر انہیں قرآن وسنت کے فہم کا معیار سمجھنا اور جو کچھ انہوں نے کہہ دیا اسے ناقابل تنقید جاننا نہایت غلط روش ہے ۔یہ حیثیت تو صرف پہلے تین زمانوں کے سلف صالحین کو حاصل ہے کہ کتاب سنت کی تشریح میں جس بات پر وہ متفق رہے اُسے ناقابل تنقید جانا جائے ۔باقی جو کچھ ان کے بعد وجود میں آیا ہے بہرحال اس کی تحقیق کرنا اور اسے کتاب و سنت کے سلفی مفہوم پر پرکھنا بے حد ضروری ہے ۔
آج سے سو دوسو سال پہلے آنے والے 'بزرگوں ' اور 'بڑوں ' کوسلف کا مقام دینا نہایت غلط ہے ۔صفات باری تعالیٰ میںاشعریت و ماتریدیت کی تاویلات ،صو فیاء کے چشتی،نقشبندی ،سہروردی اور دیگر سلسلے ،علم کلام اور علم تصوف کیا ابو بکر و عمر اور ابن مسعود؇ ایسی اسلام کی نسل اول کے ہاں پائے گئے ہیں ؟یا عمر بن عبدالعزیز ،مجاہد اور عکرمہ رحمہم اللہ ایسی اسلام کی نسل دوئم سے منقول ہیں؟ یا یہ سب کچھ امام ابو حنیفہ ، مالک ،ثوری ،شافعی ، ابن حنبل رحمہم اللہ ایسی نسل سوئم کے علمی ذخیروں میں پایا جاتا ہے ؟... یا پھر یہ پہلے تین زمانے گزر جانے کے بعد امت میں دیکھی جانے لگیں ؟
کسی چیز کی تعظیم میں خاموش ہوا جا سکتاہے تو وہ کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ اور خیر القرون کا فہم اسلام ہے ۔اس کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جس پر بات نہ ہو سکے ۔ یہ سوچ کہ بزرگوں نے کتاب و سنت سے جو نچوڑ نکالنا تھا وہ نکال لیا ہے اور ہمیں بس بزرگوں پر ہی انحصار کرنا ہے ،نسل در نسل اب قیامت تک انہی کی دہرائی ہوئی عبارتوں کودہرانا ہے ...ہلاکت خیز سوچ ہے ۔کتاب و سنت کا نچوڑ نکالنے کا کیا مطلب ؟ یہ تو وہ چشمہ ہے کہ اس سے جتنا بھی نکالا جائے اس کی سطح ذرہ بھربھی نیچی نہ ہو ۔زمانے اس سے سیراب ہو لیں اس میں کچھ کمی نہ آئے ۔پھر اس نچوڑ کے حق ہونے کے لیے بھی لازم ہے کہ یہ ' سلف صالحین' سے سند یافتہ ہو ۔
''فہم سلف'' کتاب و سنت کا متبادل نہیں بلکہ وہ وحی کے چشمہ سے سیراب ہونے کا ہی وہ ادب اور طریقہ ہے جس کے بغیر انسان کو شفا اور سیریابی ہونے کی بجائے کوئی روگ لگ سکتا ہے ۔ارشاد ربانی ہے :
﴿ۘ يُضِلُّ بِہٖ كَثِيْرًا۰ۙ وَّيَہْدِىْ بِہٖ كَثِيْرًا۰ۭ ﴾(البقرۃ:۲۶)
''بہتوں کو وہ اس کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور بہتوں کو گمراہی ۔''