• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلف صالحین سے کیا مراد ہے؟

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سلف صالحین سے کیا مراد ہے؟


عربی زبان میں اس کا معنی ہےگزرے ہوئے نیک لوگ۔ہر پہلے آنے والابعد میں آنے والے کے لحاظ سے سلف ہے،لیکن جب سلف مطلق طور پر بولا جاتا ہےتواس سے مراد بہترین تین زمانے کے لوگ ہیں،جن کی گواہی نبی کریمﷺنےدی ہے،لہذا سلف سے مراد صحابہ،تابعین اور تبع تابعین ہیں۔یہی سلف صالحین ہیں۔ان کے بعد آنے والےجو ان کے منہج کو اختیار کریں وہ سلفی کہلاتے ہیں۔اگرچہ ان کا زمانہ بعد میں ہے،کیونکہ سلفی سلف صالحین کے طریقے اور منہج کو اختیار کرنے والے کو کہا جاتا ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺکی حدیث ہےکہ آپﷺنے فرمایا:
إِنَّ أُمَّتِي سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً وَهِيَ الْجَمَاعَةُ(سنن ابن ماجہ:3992)
’’میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے،ایک کے علاوہ باقی سب جہنم میں جائیں گے اور وہی جماعت ہیں‘‘

ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
مَنْ کَانَ عَلَی مِثْلِ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی(سنن ابن ماجہ:2641)
’’جو میرے اورمیرے صحابہ کے طریقے پر ہیں‘‘

اس حدیث کی وجہ سے سلف کا خاص معنی متعین ہوجائے گا،لہذا صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے منہج اور طریقے پر چلنے والے ہی کو سلفی کہا جائے گا،اگرچہ وہ چودھویں صدی ہجری کا آدمی ہو۔(ابن عثیمین:نورعلی الدرب:2/4)
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
''قرآن و حدیث مقدم ہیں یا اسلاف کا فہم اسلام؟'': سوال درست کیجئے

تحریر : زاہد صدیق مغل
جدید حضرات کا ایک عمومی وار یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ انکے سامنے اسلاف کے فہم اسلام کی بات کریں گے تو جھٹ سے کہیں گے ''کیا اسلاف کا فہم مقدم ھے یا قرآن و حدیث؟''۔ یہ سوال کچھ یوں پوچھا جاتا ھے گویا تاریخی فہم اسلام اور قرآن و حدیث متضاد یا الگ چیزیں ہیں نیز تاریخی اسلام رد کردینے کے بعد یہ لوگ نیوٹرل مقام پر برجمان ھوکر قرآن و سنت کا مطالعہ کرکے نتیجے اخذ کررھے ہیں، جبکہ یہ دونوں ہی مفروضے غلط ہیں۔ ان حضرات کی چالاکی یہ ہے کہ اپنے فہم اسلام کو یہ بذات خود قرآن و سنت کے ہم معنی قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ''ھم قرآن و سنت سے دلیل لا رھے ہیں''۔ تو جناب کیا روایت پسند لوگ اپنے فہم دین کیلئے ویدا یا گیتا سے دلیل لاتے ہیں؟ ظاہر ہے ہر گروہ قرآن و سنت ہی کے ماخذ ھونے کا دعوی کرتا ہے اس میں ایسی نئی بات کیا ہے؟
درحقیقت ان لوگوں سے گفتگو کا بنیادی اور متعلقہ نکتہ یہ نہیں کہ ''آپکے دین کا ماخذ کیا ھے'' (ظاہر بات ھے ہر گروہ یہی دعوی کرتا ھے کہ اسکا ماخذ قرآن و حدیث ھے) بلکہ یہ ہے کہ ''آپکے ماخذات دین کے فہم کا راستہ و ماخذ کیا ھے؟'' یعنی آپ فہم دین کو کس اصول، روایت اور پیراڈئیم سے اخذ کرتے ہیں؟ موجودہ دنیا میں اسکی دو غالب پیراڈائمز ہیں:
(11) تاریخ اسلام کے اندر متشکل پانے والا فہم اسلام (اسکا دعوی ھےکہ دین کی درست تشریح وہ ھے جو 'اسلامی تاریخ کے اندر' وضع کی گئی)
(2) حاضروموجود جدیدی ڈسکورس کے اندر وضع کیا جانے والا فہم اسلام (اسکا دعوی ہے کہ درست تعبیر وہ ہے جو معروضی یعنی 'جدیدیت کے تاریخی تناظر کے اندر' وضع کی جارہی ہے) مگر اس پیراڈائیم کے قائلین ھوشیاری کا مظاھرہ کرتے ھوئے اپنی اس پوزیشن کو بذات خود قرآن و سنت کہہ دیتے ہیں)
ان دو کے علاوہ یہاں کوئی عمومی چوائس نہیں۔ چنانچہ سوال یہ نہیں کہ قرآن و سنت کس کے پاس ھے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ 'قرآن و سنت کا پیش کیا جانے والا فہم' کس کا درست ہے؟ یعنی یہاں چوائس صرف پیراڈئیم کی ہے، نہ کہ قرآن و سنت کو ماننے یا نہ ماننے کی۔ لہذا ماڈرنسٹ جب یہ کہتے ہیں کہ ''اسلاف کا فہم مقدم ھے یا قرآن و حدیث؟'' تو اسکا مطلب صرف یہ ہوتا ھے کہ ''اسلاف کے فہم اسلام کو رد کردو کیونکہ وہ جدید تناظر میں قابل عمل نہیں، اور ہمارا فہم اسلام قبول کرلو کہ یہ جدید تناظر کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے درست ہے''۔ درحقیقت ان دونوں کے دعووں کی نوعیت ایک سی ھے، دونوں کا ریفرنس پوائنٹ تاریخی تناظر سے مطابقت ہی ھوتی ھے، اس فرق کے ساتھ کہ ماڈرنسٹ کا ریفرنس جدیدیت کی تاریخ سے مطابقت ہوتی ہے جبکہ روایت پسند کی اسلامی تاریخ کے ساتھ ۔ مگر یہ ماڈرنسٹ بڑی چابکدستی کے ساتھ اپنے نظریات کو 'قرآن و سنت' جبکہ تاریخی فہم اسلام کو 'اسلاف کا فہم' قرار دیکر اپنے نظریات کیلئے بلا جواز تفاخرانہ جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پس اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اپنے نظریات کے جواز کیلئے یہ جدیدیت پسند جس سوال کو ''اسلاف کا فہم اسلام بمقابلہ قرآن و حدیث'' کا رنگ دے کر پیش کرتے ھیں درحقیقت اس گفتگو کا اصل عنوان ''اسلامی تاریخ کا فہم اسلام بمقابلہ جدیدی تاریخ کا فہم اسلام'' ہوتا ہے، مگر چند سادہ لوح روایت پسند لوگ انکی اس 'چکربازی' کو سمجھ نہیں پاتے اور نتیجتا گفتگو کے غلط عنوان کے تحت گفتگو کرتے کرتے ان سے مرعوبیت کا شکار ھوجاتے ھیں۔ لہذا یہ ضروری ہوتا ہے کہ سوال کا جواب دینے سے قبل سوال کی درست نوعیت کو سامنے لایا جائے، بصورت دیگر غلط سوال کا جواب دینے کی کوشش میں ایک غلط جواب ہی سامنے آئے گا۔
محترم خضر حیات صاحب
السلام علیکم

محترم اس ضمن میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ قران و حدیث کے فہم کیلئے اسلاف کا فہم ہی کیوں ضروری ہے ۔ اگر ہم انسانی ذہن کے ارتقاء کو دیکھیں تو وہ بتدریج بلندی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ تو کیا ایسا ہونا ناممکن ہے کہ قران و حدیث کو سامنے رکھ کر کوئی ایسا نکتہ بیان کیا جاسکے جو اسلاف میں سے کسی نے اختیار نہ کیا ہو۔

اس کی ایک مثال اسلامی بینکاری کا نظام ہے جس کو شروع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہواہے۔ ظاہر ہے اس کی بنیادیں تو پہلے ہی موجود تھیں لیکن پہلے کے علماء اس سے استفادہ نہیں کر سکے یا ان کے ذہن میں اس کی عملی شکل نہیں آئی۔
اسی طرح تبلیغ کے لئے مختلف ذرائع کا استعمال جیسے ٹیلی ویژن وغیرہ پہلے کے علماء اس کے سخت خلاف تھے ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
خضر بهائی سے گذارش هے کہ اس کا جواب انتہائی جامع دیا جائے ، کسی بهی پہلو کو نظر انداز کیئے بغیر ۔
والسلام
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ایک اور گذارش هیکہ علیحدہ تهریڈ بنا کر اس تهریڈ سے محترم نسیم بهائی اور میرے یہ دو مراسلے بهی منتقل کردئیے جائیں ۔
نوازش
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم خضر حیات صاحب
السلام علیکم
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم اس ضمن میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ قران و حدیث کے فہم کیلئے اسلاف کا فہم ہی کیوں ضروری ہے ۔ اگر ہم انسانی ذہن کے ارتقاء کو دیکھیں تو وہ بتدریج بلندی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ تو کیا ایسا ہونا ناممکن ہے کہ قران و حدیث کو سامنے رکھ کر کوئی ایسا نکتہ بیان کیا جاسکے جو اسلاف میں سے کسی نے اختیار نہ کیا ہو۔
قرآن و سنت بفہم سلف صالحین کا مطلب ہے کہ ان دونوں چیزوں سے استدلال ، استنباط اور استفادہ کرنے کے جن اصولوں پر صدیوں سے علماء کا اتفاق ہو چکا ہے ، ان سے باہر جانا جائز نہیں ۔ جو ان کے فہم سے باہر نکلے گا ، اس کے پاس قرآن یا سنت کے ظاہری لفظ چاہے ہوں ، لیکن ان کی حقیقی تطبیق و تعبیر سے وہ محروم ہوگا ، کیونکہ قرآن وسنت جس طرح ایک نظری چیز ہے ، اسی طرح تطبیقی چیز بھی ہے ، صحابہ سے لیکر اب تک صدیاں گزر گئیں ، مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ ’ نظریات ‘ بھی لیے ہیں ، اور ان کی ’ عملی پریکٹس ‘ یعنی تطبیق بھی سیکھی ہے ۔ اب مجھے بتائیں ، کسی ایسے نکتہ کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ، جو سلف سے منقول نہ ہو ؟
اس کی ایک مثال اسلامی بینکاری کا نظام ہے جس کو شروع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہواہے۔ ظاہر ہے اس کی بنیادیں تو پہلے ہی موجود تھیں لیکن پہلے کے علماء اس سے استفادہ نہیں کر سکے یا ان کے ذہن میں اس کی عملی شکل نہیں آئی۔
اسی طرح تبلیغ کے لئے مختلف ذرائع کا استعمال جیسے ٹیلی ویژن وغیرہ پہلے کے علماء اس کے سخت خلاف تھے ۔
مسائل میں رائے رکھنا الگ مسئلہ ہے ، سلف صالحین کے دور میں یہ مسائل تھے ہی نہیں ، لہذا ان میں جو بھی رائے رکھی جائے ، اگر وہ قرآن وسنت کی بنیاد پر ، اور سلف کے فہم قرآن وسنت کے متفقہ اصولوں کی روشنی میں ہے ، تو وہ بالکل درست ہے ۔
بنکاری نیا مسئلہ ہے ، لیکن سود کی حرمت پرانا مسئلہ ہے ، آپ سود کو حلال نہ کریں ، جیسے مرضی بنکاری کریں ،
میڈیا وغیرہ کی جدید صورتیں ایک نئی چیز ہے ، لیکن تصویر کی حرمت ، فحاشی و عریانی وغیرہ ، یہ سب پرانی چیزیں ہیں ، محرمات و ممنوعات سے بچ کر اگر میڈیا استعمال کرسکتے ہیں ، تو کوئی نہیں روکے گا ۔
قرآن وسنت صدیوں سے ہیں ، لہذا ان کے فہم کے لیے صدیوں اس کی خدمت کرنے والوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ، البتہ ہر دور میں پیش آنے والے مسائل نئے ہیں ، اس لیے صرف اس لیے ان چیزوں سے کنارہ کشی نہیں کی جاسکتی کہ سلف کے دور میں یہ تھی نہیں ، ہاں البتہ اگر چیزوں کے استعمال میں قرآن وسنت یا سلف کے متفقہ اصولوں کی خلاف ورزی ہو ، تو ہمیں یا تو ان چیزوں کو چھوڑنا ہوگا یا پھر ان ضروریات کے لیے ایسا متبادل سوچنا ہوگا ، جس سے ہم اس خلاف ورزی سے بچ جائیں ۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ایک اور گذارش هیکہ علیحدہ تهریڈ بنا کر اس تهریڈ سے محترم نسیم بهائی اور میرے یہ دو مراسلے بهی منتقل کردئیے جائیں ۔
نوازش
یہیں چلنے دیں ، بعد میں اگر ضرورت محسوئی تو کرلیں گے ۔ إن شاءاللہ ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

قرآن و سنت بفہم سلف صالحین کا مطلب ہے کہ ان دونوں چیزوں سے استدلال ، استنباط اور استفادہ کرنے کے جن اصولوں پر صدیوں سے علماء کا اتفاق ہو چکا ہے ، ان سے باہر جانا جائز نہیں ۔ جو ان کے فہم سے باہر نکلے گا ، اس کے پاس قرآن یا سنت کے ظاہری لفظ چاہے ہوں ، لیکن ان کی حقیقی تطبیق و تعبیر سے وہ محروم ہوگا ، کیونکہ قرآن وسنت جس طرح ایک نظری چیز ہے ، اسی طرح تطبیقی چیز بھی ہے ، صحابہ سے لیکر اب تک صدیاں گزر گئیں ، مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ ’ نظریات ‘ بھی لیے ہیں ، اور ان کی ’ عملی پریکٹس ‘ یعنی تطبیق بھی سیکھی ہے ۔ اب مجھے بتائیں ، کسی ایسے نکتہ کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ، جو سلف سے منقول نہ ہو ؟

مسائل میں رائے رکھنا الگ مسئلہ ہے ، سلف صالحین کے دور میں یہ مسائل تھے ہی نہیں ، لہذا ان میں جو بھی رائے رکھی جائے ، اگر وہ قرآن وسنت کی بنیاد پر ، اور سلف کے فہم قرآن وسنت کے متفقہ اصولوں کی روشنی میں ہے ، تو وہ بالکل درست ہے ۔
بنکاری نیا مسئلہ ہے ، لیکن سود کی حرمت پرانا مسئلہ ہے ، آپ سود کو حلال نہ کریں ، جیسے مرضی بنکاری کریں ،
میڈیا وغیرہ کی جدید صورتیں ایک نئی چیز ہے ، لیکن تصویر کی حرمت ، فحاشی و عریانی وغیرہ ، یہ سب پرانی چیزیں ہیں ، محرمات و ممنوعات سے بچ کر اگر میڈیا استعمال کرسکتے ہیں ، تو کوئی نہیں روکے گا ۔
قرآن وسنت صدیوں سے ہیں ، لہذا ان کے فہم کے لیے صدیوں اس کی خدمت کرنے والوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ، البتہ ہر دور میں پیش آنے والے مسائل نئے ہیں ، اس لیے صرف اس لیے ان چیزوں سے کنارہ کشی نہیں کی جاسکتی کہ سلف کے دور میں یہ تھی نہیں ، ہاں البتہ اگر چیزوں کے استعمال میں قرآن وسنت یا سلف کے متفقہ اصولوں کی خلاف ورزی ہو ، تو ہمیں یا تو ان چیزوں کو چھوڑنا ہوگا یا پھر ان ضروریات کے لیے ایسا متبادل سوچنا ہوگا ، جس سے ہم اس خلاف ورزی سے بچ جائیں ۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
محترم خضرحیات صاحب
السلام علیکم

میرے سوال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ انسانی ذہنی ارتقاء عروج پر ہے بہت سے مسائل سمجھنے کی اہلیت پچھلے دور سے کہیں زیادہ ہے وہ دنیاوی معاملات ہوں یا دینی وسائل کی وجہ سے ہم بہتر پوزیشن میں ہے۔ اس سے پہلے بھی میں کسی پوسٹ میں یہ بات کی تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور ان کے بعد آنے والے علماء کرام کی دسترس احادیث پر اتنی نہیں تھی ۔ آپ بھی بہتر جانتے ہیں کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کو ہر حدیث معلوم نہیں تھی۔ اب ہمیں ہرحدیث معلوم ہے۔کیا ہم ان سے بہتر پوزیشن میں نہیں ہے کسی بھی معاملے کی تحقیق کیلئے ۔ ؟کیوں کہ ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث موجود ہیں بلکہ ذخیرہ احادیث میں کسی مضمون کی حدیث تلاش کر نا بھی نہایت آسان ہوچکا ہے۔
فہم کی مثال میں نے موجودہ ذرائع سے اس لئے دی ہے کہ ٹی وی 1965 میں آگیا تھا ۔ لیکن اس پر شدید اختلاف تھا ۔ تصویر کے استقراری اورغیر استقراری والا معاملہ بھی ابھی کچھ عرصہ پہلے طے ہوا ہے۔پرنٹنگ پریس پر شدید تنقید کی گئی۔ حدیث کا مفہوم ہے "جس گھر میں کتا اور تصویر ہو وہاں فرشتے نہیں آتے " اب ہم میں ہرشخص کے پاس کسی نہ کسی طرح تصویر موجود ہوتی ہے یہاں تک مسجد میں بھی تو اس کے تحت کیا فرشتے مسجدوں میں بھی داخل نہیں ہوسکتے۔؟
میڈیکل کی فیلڈ میں ایک ٹریننگ ہوتی ہے جس میں مینی کیون(پلاسٹک کا انسانی آدھا دھڑ) استعمال ہوتا ہے ۔ کیا اس کا استعمال بھی ناجائز ہوگا کیوں کہ وہ مجسمے کی شکل ہوتی ہے ۔؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کا طریقہ دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ رگڑ کر صاف کر تے تھے۔ اب ہم فہم اسلاف پر جائیں تو ایسا ہی کرنا چاہیے لیکن اب ایسا معمول نہیں ہے۔
ٹخنوں کے نیچے لبا س کو لٹکا کر گھسٹنا تکبر کی علامت تھا۔اور اس کی معانعت ہے لیکن اب شہر کراچی کی حد تک تو میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر اسطرح کوئی کرے گا خاص کر پروفیشنل لائف میں تو اسے جاہل سمجھا جائے گا۔
نماز میں تھوک آنے پر اس کو زمین پر تھوک کر پاؤں کے انگوٹھے سے مسلنا صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔ مگر کیا اب ہم ایسا کر سکتے ہیں۔؟
اسلام کو آئے ہوئے 14سو سال ہوگئے ہیں اور اللہ کے علم میں ہے مزید کتنا عرصہ اس دنیا کو باقی رہنا ہے ۔ تو اسلام میں اتنی لچک ہونی چاہیے کہ اگر آئندہ مزید 14 سوسال بھی دنیا باقی ہے تو اسلام اس کی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔

اگر میرا سوچنے کا انداز غلط ہے تو میری رہنمائی فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو دین ودنیا کی بھلائی عطا فرمائے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
میرے سوال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ انسانی ذہنی ارتقاء عروج پر ہے بہت سے مسائل سمجھنے کی اہلیت پچھلے دور سے کہیں زیادہ ہے وہ دنیاوی معاملات ہوں یا دینی وسائل کی وجہ سے ہم بہتر پوزیشن میں ہے۔
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ اس بات کو بار بار دہرا رہے ہیں ، اور یہی آپ کی گفتگو کا اساسی نکتہ ہے ، ہمیں اس مقدمے سے ہی اختلاف ہے کہ بعد والے علم و فضل کے اعتبار سے پہلوں سے افضل یا بہتر پوزیشن میں ہیں ، ’ فضل علم السلف علی علم الخلف ‘ اس پر باقاعدہ علماء کرام نے تصانیف بھی رقم کی ہیں ، جنہوں نے وحی کو براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، اس کی عملی تطبیق بھی دیکھی ، گویا دین کی جہاں سے ابتدا ہوئی ، جنہوں نے دین کو نازل ہوتے دیکھا ، ان آراء زیادہ قابل اعتماد ہوں گی ، یا بعد والوں کی ؟ دینی نصوص کے سیاق و سباق کو وہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں یا بعد والے ؟ اسی طرح صحابہ کی بات تابعین ، پھر تبع تابعین ، پھر ان کے بعد والے ، پھر ان کے بعد والے ، بحیثیت مجموعی ہر پہلے زمانے والا بعد والے زمانے والے سے افضل و اعلی اور بہتر پوزیشن میں ہے ، خود حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ ’ ہر بعد والا زمانہ پہلے سے زیادہ برا ہوگا ‘ ۔
اس سے پہلے بھی میں کسی پوسٹ میں یہ بات کی تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور ان کے بعد آنے والے علماء کرام کی دسترس احادیث پر اتنی نہیں تھی ۔ آپ بھی بہتر جانتے ہیں کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کو ہر حدیث معلوم نہیں تھی۔ اب ہمیں ہرحدیث معلوم ہے۔کیا ہم ان سے بہتر پوزیشن میں نہیں ہے کسی بھی معاملے کی تحقیق کیلئے ۔ ؟کیوں کہ ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث موجود ہیں بلکہ ذخیرہ احادیث میں کسی مضمون کی حدیث تلاش کر نا بھی نہایت آسان ہوچکا ہے۔
معلومات کم یا زیادہ ہونا یہ اور چیز ہے ، جبکہ علمی و عملی مسائل میں بصیرت ہونا یہ ایک الگ معاملہ ہے ، جس صحابی سے دس احادیث مروی ہیں ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے دین کے صرف اسی حصے کا علم تھا ، وہ تمام دین پر عمل پیرا تھے ، لیکن ہم تک ان کے واسطے سے چند احادیث ہی پہنچ سکی ہیں ، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس معلومات زیادہ معلوم ہوتی ہیں ، لیکن علمی بصیرت اور مسائل کی عملی صورت سمجھنا ہمارے لیے بعد زمانہ کے سبب ان سے حد درجہ مشکل ہے ۔
دوسری بات : انہیں جن مسائل میں احادیث نہیں ملیں ، ہم اس معاملے میں ان کی رائے کے پابند نہیں ، لیکن جن مسائل میں انہوں نے قرآن و حدیث کی تشریح و تفسیر کردی ہے ، یہ فہم کتاب و سنت کے جو ضابطے طے کیے ہیں ، ان سے انحراف ہم صرف اس حجت کے تحت نہیں کرسکتے کہ ہمارے قلوب و اذہان زیادہ ارتقا کرچکے ہیں ۔
تیسری بات : سلف صالحین کسی ایک شخصیت کا نام نہیں ، یہ شخصیات کا مجموعہ کا نام ہے ، فہم سلف کسی ایک دو کی بات کی بجائے ، ہزاروں لوگوں کے اتفاق و اجماع کا نام ہے، اس دور میں آکر پہلے ہزاروں لاکھوں کی متفقہ تفسیر و تشریح چھوڑ کر چند ایک لوگوں کی بات کو ترجیح کیوں دی جائے ؟ اگر اس دور میں ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں سلف سے زیادہ دین کی سمجھ ہے ، لہذا ان کی تعبیر غلط اور ہماری صحیح ہے ، تو اسے ایک دوسرے انداز سے بھی کہا جاسکتا ہے کہ سلف صالحین عہد نبوت سے قرب اور فتنوں سے دور ہونے کے سبب گمراہیوں سے محفوظ تھے ، جبکہ ہمارے اندر یہ دونوں خوبیاں نہیں ، ہم ایک تو قرآن وسنت سے بھی دور ہیں ، دوسرا غیر اسلامی تہذیبوں اور فتنوں سے بھی متاثر ہیں ، لہذا ہمارے اندر حق کی پہچان کی فطری صلاحیت ماند پڑچکی ہے ، اسی لیے ہمیں حق باطل اور باطل حق نظر آنے لگا ہے ۔
فہم کی مثال میں نے موجودہ ذرائع سے اس لئے دی ہے کہ ٹی وی 1965 میں آگیا تھا ۔ لیکن اس پر شدید اختلاف تھا ۔ تصویر کے استقراری اورغیر استقراری والا معاملہ بھی ابھی کچھ عرصہ پہلے طے ہوا ہے۔پرنٹنگ پریس پر شدید تنقید کی گئی۔ حدیث کا مفہوم ہے "جس گھر میں کتا اور تصویر ہو وہاں فرشتے نہیں آتے " اب ہم میں ہرشخص کے پاس کسی نہ کسی طرح تصویر موجود ہوتی ہے یہاں تک مسجد میں بھی تو اس کے تحت کیا فرشتے مسجدوں میں بھی داخل نہیں ہوسکتے۔؟
میڈیکل کی فیلڈ میں ایک ٹریننگ ہوتی ہے جس میں مینی کیون(پلاسٹک کا انسانی آدھا دھڑ) استعمال ہوتا ہے ۔ کیا اس کا استعمال بھی ناجائز ہوگا کیوں کہ وہ مجسمے کی شکل ہوتی ہے ۔؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کا طریقہ دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ رگڑ کر صاف کر تے تھے۔ اب ہم فہم اسلاف پر جائیں تو ایسا ہی کرنا چاہیے لیکن اب ایسا معمول نہیں ہے۔
ٹخنوں کے نیچے لبا س کو لٹکا کر گھسٹنا تکبر کی علامت تھا۔اور اس کی معانعت ہے لیکن اب شہر کراچی کی حد تک تو میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر اسطرح کوئی کرے گا خاص کر پروفیشنل لائف میں تو اسے جاہل سمجھا جائے گا۔
نماز میں تھوک آنے پر اس کو زمین پر تھوک کر پاؤں کے انگوٹھے سے مسلنا صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔ مگر کیا اب ہم ایسا کر سکتے ہیں۔؟
اسلام کو آئے ہوئے 14سو سال ہوگئے ہیں اور اللہ کے علم میں ہے مزید کتنا عرصہ اس دنیا کو باقی رہنا ہے ۔ تو اسلام میں اتنی لچک ہونی چاہیے کہ اگر آئندہ مزید 14 سوسال بھی دنیا باقی ہے تو اسلام اس کی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔
جدید مسائل میں علماء کی آراء ، ان کی تبدیلی ، وجوہات ، یہ ایک الگ مسئلہ ہے ، اور یہ غالبا فورم پر کہیں اور ڈسکس ہوچکا ہے ، اس میں اگر علماء کرام کو واقعتا کسی چیز کی حقیقت کوسمجھنے میں غلطی لگی ہے ، اور بعد والوں اس چیز کی صحیح حقیقت واضح ہوگئی ہے ، تو یقینا بعد والوں کی بات کو ہی لیا جائے گا ۔ ان مسائل میں بہت افراط و تفریط پایا جاتا ہے ، دینی و دنیاوی طبقے ایک دوسرے کو الزام دیکر ایک طرف ہوجاتے ہیں ، حالانکہ ان باتوں کو غور سے دیکھیں تو بہت سارے حقائق واضح ہوتے ہیں کہ خامیاں اور کوتاہیاں کہاں کہاں تھیں ۔
بہرصورت مسائل میں اختلاف ، راجح مرجوح وغیرہ وغیرہ ، یہ سب باتیں ایک مسلمہ حقیقت ہیں ، جس طرح کے سلف صالحین کے فہم و فراست کا اعلی و ارفع ہونا ایک یقینی امر ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم خضرحیات السلام علیکم آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ میں میرے ہر سوال کا جواب اپنا قیمتی وقت خرچ کر کے دے رہے ہیں۔ دین میں عبادات کی حدتک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن معاملات یا معاشرت کے مسائل میں متاخرین کے اقوال کیسے حجت ہوں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد والوں کے ایمان کو زیادہ تعجب والا ارشاد فرمایا۔جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔ آپ نے جو حدیث ارشاد فرمائی ہے کہ ہرزمانہ بعد والے زمانے سے برا ہوگا تو یہ زمانے کے بارے میں ہوگا لوگوں کیلئے تو نہیں ہوگا(یعنی فتنے زیادہ ہوں گے)۔ کیوں کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جس میں حضرت امام مہدی اور حضرت عیسی علیہ السلام بھی ہوں گے کیا ہم یہ کہیں گے کہ ان سے پہلا والا جو زمانہ گزراان کی موجودگی کا زمانہ اس سے خراب زمانہ ہے۔؟
ایک اورحدیث کے مفہوم کے مطابق(اس کی صحت کی تحقیق نہیں ہے میرے پاس) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء سے افضل ہوں گے"۔ کیا کوئی ایسا اصول طے ہے جس کے تحت معاملات میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ،تابعین ، تبع تابعین سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ یا اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔؟
میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ابو الخیر بیان کرتے ہیں: مصر کے حکمران مسلمہ بن مخلد نے حضرت رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہ پیشکش کی کہ وہ اُس کو ٹیکس کی وصولی پر عامل مقردر کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:” ٹیکس اکٹھا کرنے والا جہنمی ہے۔“ بحوالہ سلسلہ احادیث صحیحہ1147
اب اس حدیث کو دیکھیں تو اس طرح آج کے دور میں جو ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہوگا۔؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم خضرحیات السلام علیکم آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ میں میرے ہر سوال کا جواب اپنا قیمتی وقت خرچ کر کے دے رہے ہیں۔ دین میں عبادات کی حدتک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن معاملات یا معاشرت کے مسائل میں متاخرین کے اقوال کیسے حجت ہوں گے۔
ایک ہے ، قرآن وسنت کی نصوص سے استدلال اور اس کا طریقہ کار ، اس حوالے سے میں اوپر بھی عرض کر چکا ہوں ، مسئلہ چاہے عبادات سے متعلق ہو یا معاملات سے متعلق یا کسی اور چیز سے ، قرآن کی آیت یا حدیث سے استدلال اور استنباط انہیں اصولوں کی رو سے کیا جائے گا ، جو سلف صالحین نے متعین کردیے ہیں ۔
دوسرا ہے پیش آمدہ مسائل کو سمجھنا ، ظاہر ہے ہمارے زمانے میں جو مسائل پیش آرہے ہیں ، ہم ہی انہیں بہتر جانتے ہیں ، اس میں کوئی دور ائے نہیں ہیں ۔ لیکن ان مسائل کا جب حل تلاش کیا جائے گا ، تو قرآن و سنت کی طرف رجوع از بس ضروری ہے ، اور قرآن وسنت سے استفادہ کے لیے فہم سلف ضروری ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد والوں کے ایمان کو زیادہ تعجب والا ارشاد فرمایا۔جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔ آپ نے جو حدیث ارشاد فرمائی ہے کہ ہرزمانہ بعد والے زمانے سے برا ہوگا تو یہ زمانے کے بارے میں ہوگا لوگوں کیلئے تو نہیں ہوگا(یعنی فتنے زیادہ ہوں گے)۔ کیوں کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جس میں حضرت امام مہدی اور حضرت عیسی علیہ السلام بھی ہوں گے کیا ہم یہ کہیں گے کہ ان سے پہلا والا جو زمانہ گزراان کی موجودگی کا زمانہ اس سے خراب زمانہ ہے۔؟
یہ ایک عمومی بات ہے ، البتہ کسی بعد والے زمانے کی کچھ شخصیات پہلے والے زمانے کی کچھ شخصیات سے بہتر ہوسکتی ہیں ۔
فتنے زیادہ ہونا ، دین سے دوری ، یہ سب چیزیں معاشرے اور شخصیات پر اثر انداز ہوتی ہیں ، لہذا یہ مقدمہ درست نہیں کہ بعد والے پہلوں سے ارتقا کے سبب زیادہ فہم و فراست رکھتے ہیں ۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی مثال یہاں درست نہیں ، کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کا زمانہ بھی بہتر اسی لیے ہوگا کہ وہ ہزاروں سال پرانی روایت سے جڑا ہوا ہوگا ، نہ کہ اس لیے کہ زیادہ وقت گزر جانے کے سبب لوگوں میں بہتری زیادہ آچکی ہوگی ، خود حضرت عیسی کا نزول اس بات کی دلیل ہے ، کہ اس وقت اہل زمین تباہی و بربادی ، ظلم و کفر کی حدوں کو کراس کر رہے ہوں گے ۔
ایک اورحدیث کے مفہوم کے مطابق(اس کی صحت کی تحقیق نہیں ہے میرے پاس) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء سے افضل ہوں گے"۔ کیا کوئی ایسا اصول طے ہے جس کے تحت معاملات میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ،تابعین ، تبع تابعین سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ یا اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔؟
بعض صحابہ یا تابعین یا پہلے علماء سے اختلاف کرنے کے لیے اس حدیث سے استدلال کرنے کی حاجت نہیں ، دلیل کی بنیاد پر کسی سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے ، لیکن دلیل کی بنیاد پر ، قرآن وسنت کی واضح نصوص کی بنیاد پر ، اور اس سے استدلال و استنباط کے متفقہ اصولوں کی بنیاد پر ۔
میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ابو الخیر بیان کرتے ہیں: مصر کے حکمران مسلمہ بن مخلد نے حضرت رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہ پیشکش کی کہ وہ اُس کو ٹیکس کی وصولی پر عامل مقردر کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:” ٹیکس اکٹھا کرنے والا جہنمی ہے۔“ بحوالہ سلسلہ احادیث صحیحہ1147 اب اس حدیث کو دیکھیں تو اس طرح آج کے دور میں جو ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہوگا۔؟
حدیث میں لفظ ’ ٹیکس ‘ استعمال نہیں ہوا ، ٹیکس ہماری اصطلاح ہے ، فی الوقت میری نظر میں اس سے متعلق تفصیلات نہیں ہیں ، لیکن اگر حدیث رسول میں اسی ٹیکس کو حرام یا دخول جہنم کا سبب کہا گیا ہے ، تو پھر قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت میں کوئی شک نہیں ۔ ٹیکس والے معاملے کو چھوڑ کر سود والا معاملہ لے لیں ، قرآن وسنت میں واضح طور پر انہیں اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کہا گیا ہے ، لیکن آج یہ کس طرح ہمارے معاشرے میں رائج ہے ، وہ بالکل واضح ہے ، اب لوگوں کے یہ کام کرنے کی وجہ سے ہم قرآن وسنت کی واضح نصوص اورعلماء کی تشریحات و تفسیرات کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ ورنہ تو دین کھلواڑ بن جائے گا ، اگر علماء بھی غامدی صاحب بن جائیں ، تو پھر ہر حرامکاری دین کے نام پر جائز ہوجائے گی ۔
المختصر ، مسئلہ ایک ہی رہے گا ، البتہ اس مسئلہ کا شکار ہونے والے لوگوں کی مجبوری ، عذر یا کسی تاویل کےسبب حکم میں فرق رکھا جائے گا ۔ واللہ اعلم ۔
 
Top