• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلف کا وصیتی پیغام نوجونان ملت کے نام

شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
وصیت .png

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
الحمد لله رب العالمين، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له و أشهد أن محمدا عبده و رسوله صلى الله عليه و على آله و أصحابه أجمعين أمابعد:
کسی فرد بشر سے مخفی نہیں کہ جوانی انسانی زندگی کا سب سے سنہرا اور قیمتی مرحلہ ہے جس میں اعضاء قوی ،حواس سلامت اور بدن قوت، چستی اور پھرتی سے لبریز ہوتا ہے ،جبکہ بڑھاپے میں اعضاء و جوارح کی یہی قوت اور بدن کی یہ چستی و پھرتی جاتی رہتی ہے ، اسی لئے اسلام نے جوانی کے مرحلے کا خصوصی اہتمام اور عظیم رعایت کی ہے ،چنانچہ ہمیں قرآن و سنت میں کہیں نہایت پر زور انداز میں اس مرحلے کی عظمت ،مکانت اور اہمیت دیکھنے کو ملتی ہے ،تو کہیں نبی ﷺ جامع کلمات سے اس مرحلے کے بہترین استعمال پر ابھارتے نظر آتے ہیں اور کہیں اس کے ضیاع اور بے جاءوغلط استعمال سے منع کرتے اور اسے برباد کرنے سے ڈراتے دکھائی دیتے ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباسwسے مروی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :پانچ چیزوں کا پانچ چیزوں کی آمد سے پہلے خوب فائدہ اٹھا لو ، جوانی کا بڑھاپے سے پہلے ، صحت کا بیماری سے،مالداری کا فقر سے،فرصت و فراغ کا مشغولیت سے اور زندگی کا موت سے پہلے فائدہ اٹھالو ۔ ([1])
واضح رہے کہ جوانی کا مرحلہ آپ ﷺ کے فرمان “وحياتك قبل موتك ” میں داخل تھا لیکن اس کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر جناب رسول اللہ ﷺ نے خصوصی طور پر اسے علاحدہ ذکر فرمایا ۔ اس لئے نہایت ہی بیداری کے ساتھ اسے گزارنا چاہئے اور اس کے تئیں ذرہ برابر بھی غفلت نہیں برتنی چاہئے ۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود t سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کسی بھی آدمی کے قدم اپنے رب کے سامنے سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکتے جب تک اس سے پانچ چیزوں کی باز پرس نہ کرلی جائے ، اس کی عمر سے متعلق کہ اس نے اسے کہاں اور کن کاموں میں گنوایا، اور اس کی جوانی سے متعلق کہ اسے کن کاموں میں گزارا، اور اس کے مال سے متعلق کہ اسے کہاں سے کمایا اور کن کاموں میں خرچ کیا اور کتنا سیکھا اوراس پر کہاں تک عمل کیا۔ ([2])
واضح رہے کہ نبی کریم ﷺ نے مذکورہ بالا حدیث میں بتایا ہے کہ بروز قیامت انسان سے اس کی زندگی کے متعلق دو سوالات ہونے ہیں:پہلا سوال اس کی اول تا آخر مکمل زندگی سے متعلق ہوگا ،جب کہ دوسرا سوال خصوصاً اس کی جوانی کے بارے میں پوچھا جائے گا ،حالانکہ یہ مرحلہ بھی مکمل زندگی سے متعلق سوال میں داخل ہے ، لیکن پھر بھی اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے انفرادیت دی گئی، اسی لئے نوجوانوں کو اس مرحلے کی اہمیت نہیں بھولنی چاہئے اور ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ رب العالمین ساری زندگی کے کاموں کے ساتھ اس مرحلے میں کئے جانے والے کاموں کے متعلق خصوصی طور پر عنقریب باز پرس فرمائے گا ، کیونکہ یہ قوت و نشاط اور سرعت و سہولت کا زمانہ ہے ،اعضاء کی تونگری و توانائی اور جوارح کی مضبوطی و پختگی کا مرحلہ ہے ،جی ہاں اسی لئے جناب رسول اللہ ﷺ نے نوجوانوں کو اس مرحلے سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی ہے ،ساتھ ہی آپ ﷺ نے علماء و مربین اور دعاۃ و مبلغین کو نوجوانوں کے تئیں خصوصی تر بیت کی وصیت بھی کی ہے، اس لئے کہ جہاں نوجوان ایک طرف اپنی بہترین تربیت کے لئے تووہیں دوسری طرف خودکوباطل پرستوں اور شہوت رانوں کے مکٹر جالوں اور شیطانی جھانسوں سے بچانے کے لئے عنایت و اہتمام چاہتے ہیں ،نرمی وملاطفت اور قربت و محبت کے طلبگار ہوتے ہیں ،خیر کی طرف رغبت دلانے اور اہل خیر کے قریب لانے والے قلوب ، السنہ ،اقلام اور افراد چاہتے ہیں ۔
اسی لئے ہم صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو عظمت جوانی کے ان جلیل معانی کو عملی جامہ پہناتے اور دیرینہ خوابوں کو شرمندۂتعبیر کرتے دیکھتے ہیں ،چنانچہ ابو سعید خدری t جب بھی جوانوں کو مجالس ِعلم کی طرف آتا دیکھتے تو خوشی سے یوں گویا ہوتے کہ رسول اللہ ﷺ کے وصیت کردہ افراد کو خوش آمدید ہو ،یقینا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آپ کے لئے مجالس کو کشادہ کرنے اور آپ کوحدیثیں سکھانے و سمجھانے کی وصیت کی ہے، کیونکہ آپ ہمارے علمی جانشین اور ہمارے بعد اہل حدیث کہلاؤ گے ۔
اور آپ نوجوانوں کی طرف خصوصی توجہ کچھ اس انداز سے فرماتے کہ اے میرے بھتیجے جب جب تم کسی مسئلہ میں شک و تردد کا شکار ہو تو مجھ سے ضرور پوچھ لیا کرو اور ایسا اس تک کیا کرو تاآں کہ تمہیں اس مسئلہ میں یقین حاصل نہ ہوجائے اس لئے کہ تمہارا دولت یقین سے مالا مال ہو کر لوٹنا شک و تردد کی حیرانگیاں لے کر لوٹنے سے میرے نزدیک زیادہ بہتر ، محبوب اور پسندیدہ ہے ([3])
حضرت عبداللہ ابن مسعود t جب نوجوانوں کو علم حاصل کرتے دیکھتے تو مارے خوشی کے فرماتے کہ بوسیدہ کپڑے، پر صاف و شفاف دل والے ،گھروں کے ٹاٹ، پر قبیلےکے مہکتے پھول شمار ہونے والے علم و حکمت کے سر چشموں اور تاریکیوں کے روشن چراغوں کو خوش آمدید ہو ۔([4])

سلف نے نوجوانوں کو نہ صرف خوب خوب وصیتیں کی ہیں بلکہ اس مرحلے کے سپوتوں کے تئیں ان کے اہتمام اور اعتناء کی مثالیں ایک عظیم باب کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ جو رسالہ بعنوان “سلف کا وصیتی پیغام نوجوانان ملت کے نام” آپ اپنے ہاتھوں میں دیکھ رہے ہیں اس میں سلف کے اسی اہتمام کی چند مثالیں انتہائی بسیط تعلیق کے ساتھ میں نے ذکر کرنے کی کوشش کی ہے ۔


([1]) مستدرک حاکم،ح:7846 ۔شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسےصحیح الجامع ح :1077 پرصحیح کہا ہے۔
([2]) ترمذی، ح: 2416 شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیاہے ،سلسلۃ الصحیحۃ :ح :946
([3])شعب الایمان :امام بیہقی رحمہ اللہ: اثرنمبر:1610
([4])جامع بیان العلم وفضلہ:ابن عبدالبر رحمہ اللہ:اثرنمبر:256​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
پہلی وصیت :
ابو الاحوص aسے مروی ہے کہ ابو اسحاق عمرو السبیعی a کہتے تھے :کہ اے نوجوانو! اپنی جوانی سے خوب فائدہ اٹھاؤ، مجھے دیکھو شاید ہی مجھ پر کوئی رات ایسی گزرتی ہو جس میں اللہ کے کلام کی میں ایک ہزار آیات تلاوت نہ کرتا ہوں ،بلکہ میں تو سورۂ بقرہ ایک ہی رکعت میں پڑھ جاتا ہوں ، چار حرمت والے مہینوں کے روزے رکھتا ہوں نیز ہر ماہ کے تین روزوں کے ساتھ پیر و جمعرات کے روزے بھی نہیں چھوڑتا ،پھر اللہ کے کلام کی یہ آیت تلاوت کرتے ﱡﭐ ﲧ ﲨ ﲩ ﲪﱠ ([1])​
ان کے "میں ہر رات ایک ہزار آیات کی تلاوت کرتا ہوں "کہنے سے تقریبی عدد مراد ہے آیات کی تحدید ی مقداربتانامقصود نہیں ،اس کا واضح لفظوں میں یہ مفہوم بنتا ہے کہ وہ ہر ہفتے ایک قرآن ختم کرلیتے ہیں ، یوں بھی ایک ہفتے میں قرآن کریم ختم کرنا اکثر سلف کی عادت رہی ہے ۔ عمرو بن میمون a کہتے ہیں کہ ان کے زمانے میں ایک آدمی اپنے دوست سے ملتا تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتا گذشتہ رات اللہ نے اپنے فضل سے مجھے اتنی اوراتنی رکعات کی توفیق بخشی اور فلاں اور فلاں خیر عطاء فرمایا۔ ([2]) مذکورہ بالا دونوں آثار کو نقل کرنے کے بعد امام حاکم a اپنے مستدرک میں یوں رقمطراز ہیں :کہ اللہ عمروبن عبیداللہ السبیعی a اور عمرو ابن میمون a پر اپنی رحمتیں نازل کرے، آپ دونوں نے انتہائی خلوص نیت سے ان امور کا ذکر فرمایا ہے جو نوجوانوں کو عبادت و ریاضت میں رغبت دلانے کے لئے کافی ہیں ۔
دونوں اثروں میں تربیتی قدوہ اور آئیڈیل پیش کیا گیا ہے ،جس کی جوانوں کو رغبت و نشاط کے حصول اور عمل پر آسانی سے گامزنی کے لئے انتہائی اشد ضرورت ہوتی ہے ، لیکن مربی و معلم کو ساتھ ہی ساتھ انہیں اچھی نیت اور نیک ارادہ بھی سکھانا چاہئے تاکہ ریاکاری کے شکار ہوکر ان کے اعمال رائیگاں اور برباد نہ ہوجائیں ۔

([1])مستدرک:امام حاکم رحمہ اللہ :اثرنمبر:3947
([2])مستدرک :امام حاکم رحمہ اللہ : اثرنمبر:3948​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
دوسری وصیت:

حماد ابن زید aکہتے ہیں : کہ ہم انس ابن سیرین a کی تیمار داری کے لئے گئے تو انہوں نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے نوجوانو! اللہ سے ڈرو اور جن سے حدیثیں سیکھتے ہو انہیں خوب اچھی طرح جانچ لیا کرو اس لئے کہ حدیثیں تمہارا دین ہے۔([1])​
یہ انتہائی عظیم وصیت ہے کیونکہ طلب علم اور تحصیل حدیث کےلئے نکلنے والے نوجوانوں پر واجب ہے کہ وہ اسے علم میں رسوخ و ثبات ، فقاہت و بصیرت اور دربہ و تجربہ رکھنے والے مشائخ سے سیکھیں،علمی کمال کے ساتھ عمر میں پختگی رکھنے والوں سے حاصل کریں نہ کہ چھٹ بھئیے اور ایرے غیرے سے لیا کریں ۔نیز انہیں یہ بھی چیک کرلینا چاہئے کہ وہ حدیث و سنت ، تفسیر و فقاہت میں یک گونا کمال رکھنےکےساتھ سنی وسلفی ہیں یا نہیں ؟ منہج و عقیدہ میں پختگی رکھتے ہیں یا نہیں ؟۔
ابن شوذب a کہتے ہیں کہ عبادت میں رغبت رکھنے والے نوجوانوں کےلئے ایسا سنی ساتھی اللہ کی بڑی نعمت سے کم نہیں جو اسے عبادت اور اتباع سنت پر ابھارتا اور آمادہ کرتا ہو۔
عمرو بن قیس الملائی a کہتے ہیں : کہ جب تم نوجوانوں کو اہل سنۃ والجماعۃ کے بیچ سنت و اتباع کے ماحول میں تربیت پاتا دیکھو تو اس سے بہترین امیدیں وابستہ کرو اور جب انہیں اہل بدعۃ کے بیچ بدعت و ضلالت میں پلتا دیکھو تو اس سے خیر کی امید نہ رکھو اس لئے کہ نوجوان اپنی ابتدائی پرورش و پرداخت ہی سے پہچانا جاتا ہے ۔
عمروبن قیس a کے قول کے مطابق اگر نوجوان اپنی پرورش کے ابتدائی مرحلے میں اہل علم کی صحبت کو ترجیح دے تو قوی امکان ہے کہ سلامتی سے ہمکنار ہوجائیں اور اگر جہلاء کی صحبت اختیار کرلیں تو بعید نہیں کہ ہلاکت سے دو چار ہوجائیں ۔([2])

([1])الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع:خطیب بغدادی رحمہ اللہ:اثرنمبر:139
([2])مذکورہ بالاآثارکوابن بطۃ رحمہ اللہ نے "الابانۃ الکبری "(1/204، اثرنمبر42-44 )میں نقل کیاہے۔​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
تیسری وصیت:

مالک بن دینار a کہا کرتے تھے کہ خیر تو نوجوانوں ہی میں ہوتا ہے ۔([1])​
مالک بن دینار a نے اس مرحلے کی اہمیت کو بڑے ہی اچھوتے انداز میں اجاگر کیا ہے ،حقیقت ہے کہ اگر نوجوان اپنی جوانی کا صحیح استعمال و استغلال کریں تو نہ صرف خود بڑے پیمانے پر خیر و بھلائی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اس جوانی کی مبارک کمائی کو معیار و عمدہ اور بنیاد ورکیزہ بنا کر تادم حیات اپنے ساتھ غیروں کا بھی بھلا کرسکتے ہیں۔ امت کی خیر خواہی کا فریضہ انجام دے سکتےہیں ،لیکن اگر اس مرحلے کا صحیح استعمال نہ کرسکیں تویقینا اس کے فائدہ و ثمرات اور خیرات و برکات سے محرومی ہی ان کا مقدر ہوگی ۔اور یاد رہے کہ جوانوں کے لئے قوت و نشاط کے ساتھ فرصت و بے کامی اور فراخی و وسعت مالی ہلاکت خیز سامان سےکم نہیں ،کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
إن الشباب و الفراغ والجدۃ مفسدۃ للمرءأي مفسدة
اور ان اشیاء کے ساتھ فتنوں کی کثرت و قربت اور وسائل و ابواب کی فراوانی نوجوانوں کے لئے اس قدر مہلک و ضرر رساں ہے کہ ان کے عوض جوان اپنی جوانی کے خیر و برکات کو داؤ پر لگا کر اس کے ضیاع کے جرم سے بھی دریغ نہیں کرتا اس لئے مالک بن دینار a “إنما الخیر فی الشباب” اس مرحلے کی عظیم خیرات و برکات کو بتانے ہی کے لئے کہا کرتے تھے۔
و اضح رہےکہ ان برکات کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب کہ اللہ رب العزت نوجوان کو نیک توفیق عطا فرمائے اور اس مرحلے کو اپنی رضاو خوشنودی کے کاموں میں صرف کرنے کی ہدایت بخشے ۔

([1])الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع:خطیب بغدادی رحمہ اللہ:اثرنمبر:673​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
چوتھی وصیت:

زیدابن ابی الزرقاء a کہتے ہیں :کہ ہم حصول علم کے لئے حضرت سفیان ثوری a کے دروازے پر کھڑے تھے اتنے میں آپ تشریف لائے اورفرمایا : کہ اے نوجوانو! اس علم کی برکتوں کے حصول میں جلدی کرو، کیوں کہ تمہیں نہیں پتہ کہ اس کے اعلیٰ مراتب تک رسائی کا تمہارا خواب شرمندہ تعبیر ہوبھی سکے گا یا نہیں اس لئے ایک دوسرے سے سیکھتے سکھاتے رہو ۔([1])​
ان کے “تعجلوا بركة ھذا العلم”کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حصول علم کے لئے اپنی جوانی کے اوقات کو غنیمت جانو اس لئے کہ بڑے ہونے پر چستی و پھرتی اور جستجو و لگن باقی نہیں رہتی ،جوانی کا حافظہ اورضبط و اتقان کی قوت ساتھ چھوڑدیتی ہے ،طرفہ تماشہ یہ کہ گوناگوں ذمہ داریوں اور اعمال کا بوچھ مزید ہلکان کئے دیتا ہے ،چنانچہ جوانی کی فرصت و فراغ اور اس کےسرعت و برق رفتاری سے گزرتے قیمتی وقت کو کام میں لانا چاہئے ، اندازہ لگائیے امام احمد بن حنبلa نے اس مرحلے کااتنا زبردست فائدہ اٹھایا کہ انہیں اس کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا ،آپ کہا کرتے تھے کہ مجھے جوانی کے گزرنے کا اتنا ہی احساس ہوا جتنا کہ کسی انسان کواس کی آستین میں رکھی ہوئی چیز کے گرنے پر ہوتا ہے ۔([2])
ان کے “لا تدرون لعلكم لا تبلغون ما تؤملون منه” کہنے کا مطلب یہ ہےکہ اکثر نوجوان امید کے سہارے جیتے ہیں کہ اتنا اور اتنا علم حاصل کر لوں گا ،ایسے اور ایسے یاد کرلوں گا ،فلاں اور فلاں کتاب پڑھ لوں گا وغیرہ وغیرہ لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ان امیدوں کو عملی جامہ نہیں پہنا پاتے، جب کہ اگر وہ امید لگانے کے ساتھ جوانی کے مرحلے کا بخوبی استعمال کریں ،اس میں کوشش بھی کریں اور اللہ سے مدد بھی مانگیں تو باذن اللہ بہت سا خیر حاصل کرسکتے ہیں، اللہ کا وعدہ ہے ﭐﱡﭐ ﲐ ﲑ ﲒ ﲓ ﲔﲕ ﲖ ﲗ ﲘ ﲙ ﱠ ([3])اور ان کے“ليفد بعضكم بعضا” کہنے کا مقصود یہ ہے کہ جوانوں کو اپنے آپسی میل ملاقات اور تعلقات کو علمی اور مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہئے،عام مجالس کوبھی ہنسی ٹھٹھا میں ضائع کرنےکی بجائے علمی مذاکرے سےرونق وزندگی بخشنے کی سعی مسعودکرنی چاہئے۔

([1])حلیۃ الأولیاء :ابونعیم رحمہ اللہ (6/370)
([2])سیراعلام النبلاء:امام ذہبی رحمہ اللہ:(11/305)
([3])العنکبوت :69​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
پانچویں وصیت :

سلف کی نوجوانوں کو کی جانے والی وصیتوں میں وہ وصیت بھی تھی جس کو حسن بصری a اکثرکیا کرتےتھے “کہ اے نوجوانو!آخرت کا اہتمام کرو اور اپنے اقوال و افعال کے ذریعہ اسی کے طلب گار بنو ،کیونکہ بہت سےآخرت چاہنے والوں کوہم نے پایا کہ انہیں آخرت کے ساتھ دنیا بھی حاصل ہوئی جبکہ ہم نے کبھی کسی دنیا دار کو دنیا طلبی کی راہ میں آخرت سے ہمکنار ہوتےنہیں دیکھا ۔([1])​
یہاں حسن بصری a نے نوجوانوں کو آخرت کو مطمح نظر بنانے کی انتہائی اہم وصیت کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ اس کے حصول کی تگ ودو کریں اور اپنے وقت کو اللہ کی قربت کے کاموں میں صرف کریں کیونکہ دنیا مقررہ حظ ونصیبے کےمطابق لا محالہ مل کرہی رہے گی البتہ اگر وہ اس تنگئ عیش کے ساتھ حصول آخرت میں کامیاب رہے تو یہ ایسی کامیابی ہوگی جس کا کوئی بدیل نہیں ۔ مذکورہ بالا بحث سے کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ آخرت کے لئے انسان صلاح ِمعاش و مسکن اور طعام و کسوہ کی تگ و دو بالکلیہ ترک کردےاور دوسروں پر بوجھ بن جائے، نہیں بلکہ مسلمان کا جمعِ ملبس و مسکن کی کوشش کرنا اور حصول ِمال و زر کے لئے متحرک ہونا ہرگز نقصان دہ نہیں البتہ اسی کو نصب العین بنانا،مطمح ِنظراور مقصد زندگی قرار دینا ،مبلغ ِعلم اور اوڑھنابچھونا بنالیناضرورنقصاندہ ہے ، اللہ کے نبی ﷺ نے مال و منال کی ایسی حرص و ہوس سے اللہ کی پناہ مانگی ہے چنانچہ آپ ﷺ اپنی دعا میں کہا کرتے تھے “ولا تجعل الدنيا أكبر ھمناولا مبلغ علمنا” ([2])اور آپ یہ تعلیم بھی دیا کرتے کہ “أنك إن تذر ورثتك اغنياءخير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس ” ([3])کہ تمہارا اپنے اہل و عیال کو مال دار بنا کر جانا انہیں فقراء چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے۔
اوریہ حقیقت بھی ہے کہ جو آخرت کو نصب العین بناتا ہے اللہ اس کے امور و معاملات کو یکجا فرما دیتا ہے پھر دنیا ناک رگڑ کر اس تک آتی ہے ، اور جو دنیا کر اپنا مطمح نظر سمجھتا ہے اللہ اس کے فقر کو اس کی نگاہوں کے سامنے کردیتا ہے اور اسے دنیا بھی اس کی محنت کےاعتبارسے نہیں مقدر کے حساب سے ملتی ہے ۔

([1])کتاب الزہد:امام بیہقی رحمہ اللہ :اثرنمبر:12
([2])جامع الترمذی :ح:3502 ،شیخ البانی رحمہ اللہ نے الکلم الطیب (ح:226)میں اسےحسن قرار دیا ہے ۔
([3])بخاری ح:1295،مسلم ح:1628​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
چھٹی وصیت:

سلف نوجوانوں کو یہ وصیت بھی کرتے : عقبہ بن ابی حکم کہتے ہیں کہ ہم عون بن عبداللہ کی مجلس میں شریک ہوتے تو وہ ہم سے کہا کرتے تھے کہ اے نوجوانو ! ہم نے جوانوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے اور جب فصل کٹائی پر آجاتی ہے تو انتظار نہیں کیا جاتا ،راوی کہتے ہیں کہ عون بن عبداللہ اتناکہہ کر اپنی داڑھی سہلانے لگتے۔([1])​
داڑھی سہلانے سےآپ کی مراد یہ تھی کہ جو شیخ موصوف کی عمر کو پہونچ گیا سمجھ لو کہ اس کی کٹائی کا وقت چلاآیا ہے ،یعنی جو بوڑھا ہوگیا اس کی وفات قریب آپہنچی ۔ آپ یہ باتیں انہیں اس لئے کہا کرتے تھے کہ نوجوان بزرگ وعمر رسیدہ حضرات سے دھوکے میں نہ رہیں کہ ابھی تو اسے انہیں جیسی طویل عمر جینی ہے چنانچہ وہ تفریط ،تسویف اور تاجیل کو اپنی عادت ثانیہ بنالے،جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:
يعمر واحد فيغر قوما وينسي من يموت من الشباب
اسي معني ميں حسن بصري aسےحكمت پر مبني وہ بات منقول هے جو ايك دن آپ نے اپنے ہم جلیسوں سے فرمائی تھی کہ :اے بوڑھو!کھیتی اور فصل کے پک جانے کے بعد کس بات کا انتظار رہ جاتا ہے ؟ بوڑھوں نے کہا کہ کٹائی کا ۔پھر نوجوانوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: کہ اے نوجوانو! نہ بھولوکہ کبھی کھیتی اورفصل پکنے سے پہلے بھی آسمانی آفت کا شکار ہوجاتی ہے۔([2])
چنانچہ دنیا کے تئیں ایک مسلمان کی وہی حالت ہونی چاہئے جو حدیث رسول ﷺ میں بتلائی گئی ہے کہ “إذا أمسیت فلا تتنظر الصباح و إذا أصبحت فلا تنتظر المساء”([3])ابن الجوزی a فرماتے ہیں جسے یہ پتہ نہ ہو کہ کب موت کے آہنی پنجے اسے آ دبوچیں ،اسے ہمیشہ موت کی تیاری میں رہنا چاہئے اور جوانی و صحت سے ہرگز دھوکہ نہ کھانا چاہئے اس لئے کہ بوڑھے بہت کم جبکہ جوان بہت زیادہ وفات پاتے ہیں، اسی لئے بوڑھوں کی تعداد ہمیشہ کم ہوتی ہے ۔ ([4])
اس کا مشاہدہ آپ خود بھی اپنے خاندان کے بوڑھوں کی انتہائی قلیل تعداد دیکھ کر لگا سکتے ہیں، سچ کہا ابن الجوزی a نے کہ اکثر لوگ بچپن یا جوانی ہی میں وفات پا جاتے ہیں ۔

([1]) کتاب العمروالشیب:ابن ابی الدنیا اثرنمبر:42
([2])کتاب الزہد:امام بیہقی رحمہ اللہ :اثرنمبر:500
([3])بخاری :ح:6416 (یہ روایت ابن عمررضی اللہ عنہ سے موقوفا مروی ہے)
([4])صیدالخاطر: ابن جوزی رحمہ اللہ:ص:240​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
ساتویں وصیت:


قابوس ابن ابی ظبیانa سے مروی ہےکہ “ ایک دن ہم نے ابو ظبیانa کی امامت میں فجر کی نماز ادا کی اور اس دن نماز میں سوائے موذن کے ہم سبھی جوان تھے ،چنانچہ ابو ظبیان a نماز ختم فرما کر ہماری طرف متوجہ ہوئے پھر سارے نوجوانوں سے باری باری ان کے نام دریافت کرنےکےبعد انہیں ابھارتے اور ان کی تشجیع کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر نبی جوانی ہی میں مبعوث کیا گیا تھا اور جوانی میں حصول ِعلم کی توفیق واقعی بہت بڑا خیر اور انعام ہے ۔ ([1])​
یہاں ابوظبیان a نے جوانی کے خیر و برکت سے استفادے پر ابھارا ہے اور بتایا ہے کہ یہ وہ گولڈن پریڈ ہے جس کی قوت و نشاط اور حرکت و سرعت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اس میں مختلف علوم وفنون سیکھ کر آنے والی زندگی کے لئے خیر کثیر جمع کیا جاسکتا ہے ۔

([1])کتاب العلم :امام ابوخیثمۃ :اثرنمبر:80​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
آٹھویں وصیت:

امام احمد ابن حنبل a اپنی کتاب “الورع” میں عبدالوہاب الثقفی a سے نقل فرماتے ہیں کہ“ایوب سختیانی a ہمارے پاس آئے اور فرمایا اے نوجوانو! ہنر مند بن کر کمانا سیکھو تمہیں کبھی ان امراء کی چاپلوسی اور درباری نہیں کرنی پڑے گی ۔([1])
یعنی حصول علم کے ساتھ نوجوانوں کے پاس ہنر مندی اور صنعت و حرفت یا معمولی تجارت و کاروبار بھی ہونا چاہئے جس کے ذریعہ وہ مال کما کر خود پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کر سکیں، انہیں دوسروں کا محتاج ہرگز نہیں ہونا چاہئے اور اسی عادت پر پروان چڑھنا تو انتہائی خطرناک ہے ، بعیدنہیں کہ ایسے نوجوان کو بوڑھا ہونے اور اعضاء و جوارح کے جواب دے جانے پر طلب امداد کے لئے لوگوں کے چکر لگانے پڑیں ۔یقینا ہاتھ کی کمائی بڑی بابرکت ،نفع بخش اور پاکیزہ و طیب ہوا کرتی ہے ۔

([1])کتاب الورع: امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ:اثرنمبر:94
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
نویں وصیت :

جعفر a سے مروی ہے کہ ثابت البنانی a تشریف لاتے اور ہمیں قبلہ سے پیٹھ لگا کر بیٹھا ہوا پاتے تو فرمانے لگتے کہ اے نوجوانو! اللہ تم پر رحم کرے تم میرے اور میرے رب کی عبادت اور اس کے حضور سجدہ ریزی میں رکاوٹ بن جاتے ہو راوی کہتے ہیں کہ آپ کے نزدیک نماز انتہائی پسندیدہ عمل تھا ۔([1])​
یہاں آپ a ان نوجوانوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو ساتھیوں کی ملاقات کو مسجد میں غنیمت سمجھتے ہوئے با آواز بلند ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگتے ہیں، اس طرح اللہ کی عبادت کے لئےمسجد آنے والے دیگر حضرات کی عبادت میں رخنہ انداز ہوتے ہیں ،نہ تو خود اللہ کی ڈھنگ سے عبادت کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو چین و سکون اور خشوع و خضوع سے اللہ سے لو لگانے دیتے ہیں ،اس لئے نوجوانوں کو خصوصا مسجدوں اور اللہ کے گھروں کی عظمت و حرمت یاد دلانا چاہئے، اس میں عبادت کرنے والوں کی فضیلت ،مکانت،منزلت اور حرمت بتانا چاہئے تاکہ وہ خود بھی عبادت کریں اور عابدین کو ڈسٹرب بھی نہ کریں، آج ٹیکنالوجی کے اس دور میں عمومی طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ نوجوان اپنی جیبوں میں موبائل لئے کبھی اس کی رنگ ٹون سے نمازیوں کا خشوع و خضوع برباد کرتے ہیں تو کبھی فون پر زور زور سے باتیں کر کے حرمتِ مسجد و مصلین چاک کرتے ہیں، اس طرح راحت و سکون کے حصول کی جگہ کا بھی اپنی نا عاقبت اندیشیوں سے انہوں نے سکون اڑا رکھا ہے ۔

([1])حلیۃ الأولیاء :ابونعیم رحمہ اللہ (2/322)
 
Last edited by a moderator:
Top