• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت اور نوافل کی اہمیت :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نوافل کی اہمیت ؟؟؟؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن بندے سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ صلاۃ ہوگی، اگر اس نے صلاۃ مکمل طریقے سے ادا کی ہوگی تو نفل صلاۃ علیحدہ لکھی جائے گی، اور اگر مکمل طریقے سے ادا نہ کی ہوگی تو اللہ تعالی اپنے فرشتوں سے کہے گا: دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس نفل صلاتیں ہیں، تو ان سے فرض کی کمی کو پورا کرو، پھر باقی اعمال کا بھی اسی طرح حساب ہوگا

(سنن ابن ماجه : 1426) —
1601318_640612482660835_1649459709_n.jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جنت میں محل کی ضمانت !
حوالہ :
عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ثابر على ثنتي عشرة ركعة من السنة بني الله له بيتا في الجنة أربع ركعات قبل الظهر وركعتين بعدها وركعتين بعد المغرب وركعتين بعد العشاء وركعتين قبل الفجر
(سنن الترمذی:414)
10006318_378817255589875_2031210313_n.jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مؤكدہ سنتيں !!!


كيا ممكن ہے كہ آپ ہميں سنن مؤكدہ كى تعداد بتائيں اور يہ كب ادا كى جائينگى ؟

الحمد للہ :

آپ كے سوال كا جواب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى مندرجہ ذيل حديث ہے جس ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بارہ ركعات سنتوں پر ہميشگى كى اللہ تعالى اس كے ليے جنت ميں گھر بنائے گا، چار ركعات ظہر سے قبل، اور دو ركعت ظہر كے بعد، اور دو ركعت مغرب كے بعد، اور دو ركعت عشاء كے بعد، اور دو ركعت فجر سے قبل"

جامع ترمذى حديث نمبر ( 379 ) صحيح الجامع حديث نمبر ( 6183 ).


اور عنبسۃ بن ابى سفيان ام حبيبۃ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے دن اور رات ميں بارہ ركعت ادا كيں اللہ تعالى اس كے ليے جنت ميں گھر تعمير كرتا ہے، چار ظہر سے قبل، اور دو اس كے بعد، اور دو ركعت مغرب كے بعد، اور دو ركعت عشاء كے بعد، اور دو ركعت فجر سے قبل "

جامع ترمذى حديث نمبر ( 380 ) امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں اس باب ميں ام حبيبۃ رضى اللہ تعالى عنہا سے عنبسۃ كى حديث حسن صحيح ہے. ديكھيں: الصحيح الجامع حديث نمبر ( 6362 ).
اور عصر كى نماز ميں سنت مؤكدہ نہيں ہے، ليكن عصر كى نماز سے قبل چار ركعت ادا كرنا مستحب ہيں، ليكن اجروثواب اور ہميشگى ميں ان كا مقام اور مرتبہ سنن مؤكدہ سے كم ہے، اور يہ چار ركعات مندرجہ ذيل حديث ميں مذكور ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى اس آدمى پر رحم فرمائے جس نے عصر سے قبل چار ركعت ادا كيں "

جامع ترمذى حديث نمبر ( 395 ) ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں يہ حديث غريب حسن ہے، علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3493 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

امام شافعى اور امام احمد رحمہما اللہ كے نزديك مندرجہ بالا سب چار نفل دو دو كر كے ادا كيے جائيں گے.

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/1048
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم الله الرحمن الرحيم

ظہر سے پہلےوالی چار سنتوں کی قضا :


جب کوئی شخص ظہر کی نماز پڑھنے کیلئے مسجد آئے اور ظہر کی پہلے والی چار سنتیں اسے پڑھنے کا موقع نہ ملے تو کیا فرائض کی ادائیگی کے بعد یہ سنتیں ادا کرسکتا ہے؟ اور اسکے بعد ظہر کے بعد والی سنتیں ادا کرلے۔


الحمد للہ:

اول:


اہل علم کے صحیح قول کے مطابق سنن مؤکدہ کی قضا مستحب ہے، یہ موقف شافعی حضرات کا ہے، اور حنبلی حضرات کے ہاں مشہور موقف یہی ہے، جبکہ مالکی اور حنفی اسکے مخالف ہیں، اسکی دلیل یہ ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت عصر کی نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے تو انکے بارے جب دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابو امیہ [ام سلمہ کے والد کی کنیت]کی بیٹی!تم مجھ سے عصر کے بعد والی دو رکعتوں کے بارے میں پوچھتی ہو؟بنو عبد القیس کے کچھ لوگ آئے تھے، تو انکی وجہ سے ظہر کے بعد والی دو رکعات رہ گئی تھیں، تو یہ دو رکعات وہی ہیں) اسے بخاری (1233) اورمسلم (834) نے روایت کیا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:


"ہمارے [یعنی شافعیہ کے]ہاں صحیح موقف یہی ہے کہ سنن مؤکدہ کی قضا دینا مستحب ہے، اسی کے قائل محمد، مزنی، اور امام احمد سے ایک روایت اسی کے موافق ہے، جبکہ ابو حنیفہ ، مالک، اور ابو یوسف کے ہاں انکی قضا نہیں دی جاسکتی، جبکہ ہماری دلیل صحیح احادیث ہیں" انتہی

دیکھیں: "المجموع" (4/43)


اسی طرح مرداوی حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:


"(اور جسکی کچھ سنتیں رہ جائیں تو وہ قضا پڑھ سکتا ہے) یہی حنابلہ کا مشہور موقف ہے، اسی کی تائید المجد[ابن تیمیہ کے دادا] نے اسکی شرح کرتے ہوئے کی ہے، اور شیخ تقی الدین ابن تیمیہ نے اسی کو اختیار کیا ہے "اختصار کے ساتھ

"الإنصاف" (2/187)


شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:


"سنن مؤکدہ اگر رہ جائیں تو قضا پڑھی جاسکتی ہے، اسکی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند کی وجہ سے فجر کی نماز رہ گئی تھی ، اور آپ طلوع آفتاب کے بعد بیدار ہوئے تو آپ نے پہلے فجر کی سنتیں ادا کیں اور پھر فجر کی نماز پڑھی"انتہی

"لقاءات الباب المفتوح" (لقاء نمبر:74، سوال نمبر:18)، اور دیکھیں: "الموسوعة الفقهية" (25/284)


دوم:


مسئلہ:


اگر کوئی ظہر کی پہلے والی سنتیں ظہر کے فرض ادا کرنے کے بعد قضا پڑھنا چاہتا ہے تو پہلے کونسی سنتیں پڑھے گا؟ ظہر سے پہلے والی چار یا بعد والی دو؟


جواب:


ظاہر یہی ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں وسعت ہے، چاہے پہلے والی پہلے پڑھے یا بعد والی، اہم بات یہ ہے کہ پڑھنی ہیں چاہے ترتیب آگے پیچھے ہوجائے کوئی حرج نہیں۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:


"اہل علم کا کہنا ہے کہ: اگر ظہر سے پہلے والی سنتیں رہ جائیں تو نماز کے بعد پڑھ لے، کیونکہ نماز سے پہلے ادا کرنا مشکل ہوگیا تھا، ایسی صورت حال اکثر پیش آتی رہتی ہے کہ انسان مسجد میں جائے تو اقامت ہوچکی ہوتی ہے، تو ایسی صورتِ حال میں نماز کے بعد قضا پڑھ لے۔

لیکن ظہر سے بعد والی سنتیں ظہر کے بعد پہلے ادا کرے ، اور بعد میں پہلے والی چار سنتوں کی قضا دے۔

مثلا ایک آدمی آیا اور لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے تھے ، اس لئے اسے پہلے والی سنتیں ادا کرنے کا موقع نہیں ملاتو وہ ظہر کی نماز باجماعت ادا کر لے، پھر اسکے بعد دو سنتیں ظہر کے بعد والی ادا کرے، اور پھر پہلے والی چار سنتوں کی قضا دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ابن ماجہ کی روایت کے مطابق اسی طرح مروی ہے"

ماخوذ از: فتح ذي الجلال والإكرام شرح بلوغ المرام (2/225)


واللہ اعلم .



اسلام سوال وجواب


http://islamqa.info/ur/114233
 
Top