• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (رفع اليدين)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اردو میں سکون عموماً ذہنی اور قلبی اطمینان کو کہتے ہیں جبکہ عربی میں حرکت کی ضد سکون ہے ۔
اردو میں بھی حرکت کی ضد سکون استعمال ہوتا (دیکھئے فزکس کی اردو کتب ”ساکن اور متحرک اشیاء“ جیسے عنون)۔

جی میرے بھائی یہی بات میں سمجھانا چاہتا تھا کہ نماز میں جو امور شریعت نے سکھائے ہیں وہ سکون کے منافی نہیں ۔اور رفع الیدین بھی شریعت نے ہی بتلایا ہے ۔
نماز میں ہر حرکت کے لئے شریعت نے مسنون ذکر دیا۔ بغیر مسنون ذکر کوئی حرکت نماز میں مشروع نہ رہی۔

بھائی جان آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کا نماز میں رفع الیدین سے منع کرنا ثابت کر دیں میں چھوڑ دوں گا
نماز میں کی جانے والی رفع الیدین میں نسخ واقع ہؤا ہے۔
ثبوت
عبد اللہ ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں رفع الیدین نہ کرتے تھے (صحیح بخاری)۔
تفہیم
صحیح احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں بھی رفع الیدین کیا کرتے تھے (دیکھئے ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ کتب حدیث)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل
ثبوت
عبد اللہ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نماز کی ابتدا میں رفع الیدین کرتے تھے (ترمذی، نسائی)۔
تفہیم
پہلے نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حرکت پر رفع الیدین کرتے تھے (طبرانی)۔ پھر قعدہ والی چھوڑ دیں اور قیام کی حالت والی باقی رہیں (صحیح بخاری وغیرہ)۔ آخر میں صرف استفتاح کی رفع الیدین باقی رہی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممناعت
ثبوت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مسجد نبوی میں نماز میں رفع الیدین کرتے دیکھا تو انہیں اس سے منع کیا اور غصہ کرتے ہوے اسے سرکش گھوڑوں سے تشبیہ دی (صحیح مسلم)۔
تفہیم
جس عمل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا اس کو کرنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والاہےاور یہ شدید ہے اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بھی شدید تھے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
باقی منافاۃ کی جو بحث کی گئی ہے وہ زیادت ثقہ کے مسئلہ میں کی گئی ہے۔
زیادت ثقہ میں منافاة کی کیا بحث کی گئی ہے؟ کہ وہ زیادت ثقہ اوثق کے منافی ہو اس کا شاذ سے کوئی تعلق نہیں؟
عجیب بات ہے! جبکہ اگلے ہی پیرا میں آپ نے ارشاد فرمایا ہے!

QUOTE="اشماریہ, post: 261615, member: 3713"]2۔ زیادت ثقہ اگر دیگر روات کے منافی ہو تو اسے شاذ کہا جاتا ہے۔[/QUOTE]
آپ نے خود یہاں ثقہ کی اوثق سے منافی ہونے کا شاذ کی شرط قرار دیا ہے۔
شاذ کے لئے منافاة کی شرط کا اثبات کیا جا چکا ہے، اور آپ نے بھی اسے لکھا ہے، مگر آپ کو اپنے ہی کلام کی سمجھ نہیں!
ایک ثبوت پیش خدمت ہے:

وَأما الْمُخَالفَة: وينشأ عَنْهَا الشذوذ والنكارة فَإِذا روى الضَّابِط والصدوق شَيْئا فَرَوَاهُ من هُوَ أحفظ مِنْهُ أَو أَكثر عددا بِخِلَاف مَا روى بِحَيْثُ يتَعَذَّر الْجمع على قَوَاعِد الْمُحدثين فَهَذَا شَاذ وَقد تشتد الْمُخَالفَة أَو يضعف الْحِفْظ فَيحكم على مَا يُخَالف فِيهِ بِكَوْنِهِ مُنْكرا
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1003 جلد 01 هدي الساري مقدمة فتح الباري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الطيبة للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 403 – 404 هدي الساري مقدمة فتح الباري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 384 - 385 هدي الساري مقدمة فتح الباري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المكتبة السلفية
اور زیادت ثقہ کہتے ہیں:
وإذا روى العدل زيادة على ما روى غيره فسواء انفرد بها أو شاركه فيها غيره مثله أو دونه أو فوقه فالأخذ بتلك الزيادة فرض
الاحكام لابن حزم، 2۔90، ط: دار الآفاق الجدیدۃ
"اور جب عادل راوی کوئی زیادتی روایت کرے اس (روایت) پر جو اس کے علاوہ نے روایت کی، چاہے وہ اس میں منفرد ہو یا اس میں اس کے علاوہ کوئی شریک ہو اس جیسا یا اس سے کم زیادہ تو اس زیادتی کو لینا فرض ہے۔"
زیادت ثقہ کا جو "حکم" ابن حزمؒ نے اس عبارت میں بیان کیا ہے وہ تو مذہب مرجوح ہے لیکن ہمارا مقصود "تعریف" لینا ہے۔ اور تعریف میں یہ بات واضح ہے کہ دو راوی ایک روایت بیان کریں اور ایک اس میں کوئی زیادتی کرے۔
ٹھیک، ہمیں تسلیم ہے کہ اسے زیادت ثقہ کہتے ہیں۔ اور آپ کو بھی تسلیم ہے کہ زیادت ثقہ ہر صورت مقبول نہیں، اور آپ نے بھی فرمایا کہ :
2۔ زیادت ثقہ اگر دیگر روات کے منافی ہو تو اسے شاذ کہا جاتا ہے۔
کہ اگر ثقہ کی زیادت اوثق کے منافی ہو تو شاذ ہے، یہاں آپ نے خود زیادت ثقہ اور شاذ کا تعلق بیان کیا ہے، اور شاذ کے لئے اوثق کی نفی کو شرط لکھا ہے۔
اب آپ اپنا ہی تحریر کو نہ سمجھ سکیں، تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔

زیادت ثقہ میں زیادتی کا ذکر ہے لیکن باقی روایت میں پہلے راوی کی موافقت کے ساتھ تاکہ وہ زیادتی ہو وہ تبدیلی نہ ہو۔
بھائی کو کلام سمجھنے میں سخت دشواری ہے، زیادت ثقہ دیگر راوی سے موافقت ہو یا اس کے منافی ہو، یعنی تغیر وتبدیلی پیدا کرتی ہو، تمام صورت میں وہ زیادت ثقہ ہی ہے، مگر ہر زیادت ثقپ مقبول نہیں ہوتی، اگر وہ منافی ہو اور ان کا جمع کیا جانا ممکن نہ ہو تو اس پر شاذ کا حکم لگتا ہے!
بھائی! صرف مقبول زیادت ثقہ کو زیادت ثقہ کی بحث سمجھ رہے ہیں! حالانکہ خود رقم طراز ہیں:

2۔ زیادت ثقہ اگر دیگر روات کے منافی ہو تو اسے شاذ کہا جاتا ہے۔
بھائی کے اپنے کلام کا تضاد ابھی مزید نکھر کر سامنے آئے گا!
زیادت ثقہ اور شاذ میں فرق کے ساتھ ساتھ زیادت ثقہ کی تعریف آپ اس مختصر بحث میں بھی پڑھ سکتے ہیں:
ایسا کیجئے کہ ہماری بحث کا ترجمہ کرکے ملتقی اهل الحديث کے اسی تھریڈ میں پوسٹ کر دیں!
اوپر کی اس مختصر بحث سے دو چیزیں واضح ہوتی ہیں:
1۔ شاذ روایت کے لیے دیگر ثقات کے مخالف یا غیر موافق ہونا ضروری ہے منافی ہونا ضروری نہیں۔
اس کا ثبوت کہ شاذ کے لئے منافات کی شرط ہے، دہرانے کی حاجت نہیں، لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ آپ نے خود اگلے ہی جملہ میں فرمایا ہے کہ زیادت ثقہ اگر دیگر روات کے منافی ہو تو اسے شاذ کہتے ہیں؛ آپ کے الفاظ درج ذیل ہیں!
2۔ زیادت ثقہ اگر دیگر روات کے منافی ہو تو اسے شاذ کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!


لیکن زیادت ثقہ میں دو راوی ایک روایت میں متفق ہوتے ہیں اور پھر ایک راوی اس میں زیادتی کرتا ہے۔
یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ایک حدیث میں ثقہ راوی دیگر ثقات یا اوثق سے زیادت بیان کرتا ہے، اگر اس زیادت ثقہ کا جمع کیا جانا ممکن ہو تو وہ مقبول ہے اور منافاة کی صورت میں یعنی جمع کے ممکن نہ ہونے کی صورت میں شاذ کا حکم لگایا جاتا ہے؛ جیسا کہ آپ نے خود فرمایا:
2۔ زیادت ثقہ اگر دیگر روات کے منافی ہو تو اسے شاذ کہا جاتا ہے۔
جبکہ آپ پرذور انداز میں شاذ کے لئے نفی کی شرط کی ہی نفی بھی فرما رہے ہیں؛ ملاحظہ فرمائیں:
شاذ کے اندر صرف مخالفت کی شرط ہے منافاۃ اور تضاد کی شرط نہیں ہے اور مخالفت عام ہے جب کہ منافاۃ خاص ہے۔
فهم كثير من طلبة العلم أن المراد بالمخالفة هنا أن يروي الراوي رواية لا يمكن الجمع بينها وبين رواية من هو أوثق منه ,وهذا ليس بسديد علي طريقة الحذاق من أهل الحديث والمتتبع لصنيعهم يجدهم يطلقون الشذوذ علي أحاديث لا تكاد تحصي مع إمكان الجمع علي طريقة الفقهاء , فالمراد بالمخالفة أي زيادة في اللفظ تحمل زيادة في المعني , فعند ذلك تحّكم القواعد لينظر المحفوظ من الشاذ والله أعلم
اتحاف النبیل، 1۔46، ط: مکتبۃ الفرقان
" طلبہ علم میں بہت سارے یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں مخالفت سے مراد یہ ہے کہ راوی ایسی روایت کرے کہ اس کی اور اس سے زیادہ ثقہ کی روایت میں جمع کرنا ممکن نہ ہو۔ یہ ماہر محدثین کے طریقہ پر درست نہیں ہے۔ اور ان کے طریقہ کار کو دیکھنے والا انہیں ایسی احادیث پر شذوذ کا اطلاق کرتا ہوا پاتا ہے جو بے شمار ہیں حالانکہ ان میں فقہاء کے طریقہ پر جمع ممکن ہے۔ تو مخالفت سے مراد ہے لفظ میں کوئی بھی زیادتی جو معنی میں زیادتی لے آئے۔ ایسی صورت میں قواعد کو فیصل بنایا جاتا ہے تاکہ محفوظ کو شاذ سے جدا دیکھا جائے۔ واللہ اعلم"

اگر آپ کا اصول لیا جائے تو دونوں روایات میں کوئی منافاۃ یا تضاد نہیں ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کا فعل مبارک تو ہے ہی، ساتھ میں قول بھی ہو سکتا ہے جسے عبد الواحد نے روایت کیا ہے۔ اس میں تضاد کیا ہے؟ لیکن یہ پھر بھی شاذ کی مثال ہے۔
اس تعریف سے واضح ہوتا ہے کہ مخالفت سے مراد یہ ہے کہ دیگر رواۃ نے ان کے موافق روایت نہ کی ہو۔ باقی ان کے متضاد روایت کی ہو یا نہ کی ہو اس سے بحث نہیں۔
اور جب یہ زیادت ثقہ کے قبیل سے نہیں ہے تو شاذ ہونے کے لیے مخالفت یا غیر موافقت ہونی چاہیے اور وہ پائی جاتی ہے۔ "الا اریکم" کے الفاظ میں ثقات نے ان کی موافقت نہیں کی بلکہ ان کے خلاف (متضاد نہیں، فقط خلاف)
آپ تو شاذ کے لئے منافاة کی شرط کو باطل قرار دے رہے ہو، اور شاذ کے لئے متضاد نہیں فقط خلاف ہونے کے قائل ہو! اب شاذ کے لئے ''صرف مخالفت کی شرط ہونے کا دعوی کہاں گیا؟
ویسے بہت خوب نتیجہ اخذ کیا گیا ہے؛ مختصراً یہ کہ:
میرے بھائی نے پہلے ایک ٹیڑھی بنیاد رکھی، اور پھر اس بنیاد پر ہمارے مراسلہ کے جواب کو تعمیر کیا!
ایک ممکنہ غلط فہمی کا پیشگی ازالہ:
ممنکن ہے کہ یہ غلط فہمی بھی ہو کہ شاذ کی متعدد صورتیں ہیں! ایک زیادت ثقات کی قبیل سے اور دوسری کہ زیادت ثقات کی قبیل سے نہ ہو!
جیسا کہ بھائی کہ اگلے مراسلہ سے اس غلط فہمی کا اندیشہ ہوتا ہے:

اب میں کیا کہوں جب کوئی یہ دیکھ لے کہ سخاویؒ کا کلام مطلقا شاذ کے بارے میں ہے نہ کہ زیادۃ ثقہ کے بارے میں جب کہ ابن حجرؒ کا کلام زیادۃ ثقہ کے بارے میں ہے۔
ہمارے بھائی یہاں مطلق شاذ اور زیادت ثقہ کے حوالہ سے شاذ میں فرق سمجھ رہے ہیں! اور ممکن ہے کہ وہ اسے زبردستی کشید کرنے کی بھی سعی کریں۔
اس لئے مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک بنیادی نکتہ بیان کردوں؛
معاملہ شاذ کا ہو یا زیادت ثقات کا، یہ دونوں اسی صورت میں پیش آتے ہیں، جب ایک حدیث کی مختلف روایات کے الفاظ میں فرق پایا جائے! اگر حدیث مختلف ہو تو اس صورت میں زیادت ثقات کا معاملہ پیش آتا ہے اور نہ شاذ کا! ایسی صورت میں ایک الگ حدیث یعنی کہ منفرد، فرد حدیث کے تحت اس حدیث کی تحقیق کی جاتی ہے!
ہمارے بھائی فرماتے ہیں:

2۔ زیادت ثقہ اگر دیگر روات کے منافی ہو تو اسے شاذ کہا جاتا ہے۔ لیکن زیادت ثقہ میں دو راوی ایک روایت میں متفق ہوتے ہیں اور پھر ایک راوی اس میں زیادتی کرتا ہے۔
ان دونوں میں موافقت ہی نہیں ہے۔ بلکہ دونوں کے الفاظ میں فرق ہے۔ اگر موافقت ہوتی اور پھر اشج نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہوتا تو ہم اسے زیادت ثقہ کہتے۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ اشج یا الضبعی نے الفاظ ہی مختلف ذکر کیے ہیں۔
اور جب یہ زیادت ثقہ کے قبیل سے نہیں ہے تو شاذ ہونے کے لیے مخالفت یا غیر موافقت ہونی چاہیے اور وہ پائی جاتی ہے۔ "الا اریکم" کے الفاظ میں ثقات نے ان کی موافقت نہیں کی بلکہ ان کے خلاف (متضاد نہیں، فقط خلاف) "علمنا" کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔
دوبارہ عرض ہے کہ زیادت ثقہ یہ ہوتی ہے کہ دو راوی ایک روایت پر متفق ہوں اور ایک اس میں اضافہ روایت کرے، چاہے سند میں اور چاہے متن میں۔ نہ کہ ایک راوی الگ الفاظ روایت کرے اور دوسرا الگ الفاظ روایت کرے
حالانکہ معاملہ شاذ کا ہو یا زیادت ثقات کا، دونوں میں ایک ہی حدیث ہونے کا تعین اس حدیث میں کی روایات میں مروی ان الفاظ سے کیا جاتا ہے کہ جو روایت میں موجود ہوں! یعنی کہ روایت کے مروی الفاظ یا تو بالفظ موافق ہوں گے اور اگر بالفظ یکساں نہ بھی ہوں تو بالمعنی ایک ہی حدیث ہونے پر دلالت کرتے ہوں۔ اور یہ امر زیادت ثقات اور شاذ دونوں کے لئے ضروری ہے۔
لہٰذا ہمارے بھائی کے مؤقف کے مطابق جب بھی کسی حدیث کی راویت میں کسی ثقہ کے روایت اوثق کی روایات کے خلاف ہو، خواہ منافی ہو یا نہ ہو وہ شاذ ہوجائے گی اور مرجوح و ناقابل احتجاج!
ایسی صورت میں زیادت ثقات کا باب بند ہو جاتا ہے، یعنی کہ اگر یہ متضاد ومنافی نہ ہو اور جمع ممکن ہو، تب بھی زیادت ثقات مقبول وقابل احتجاج نہیں رہتی، کیونکہ ہمارے بھائی نے اسے شاذ قرار دے کر مرجوح وناقابل احتجاج قرار دیا گیا ہے!
دراصل ہمارے بھائی کو شاذ ومحفوظ کے معاملہ کو سمجھنے میں انتہائی غلط فہمی ہے، کہ وہ ایک طرف تو ایسے اختلاف کے سبب وہ متضاد ہو منافی بھی نہیں، روایت کو شاذ ومرجوح قرار دیتے ہیں، اور دوسری طرف متضاد ومنافی نہ ہونے کی صورت میں زیادت ثقات کو مقبول قرار دیتے ہیں!
بھائی کو بنیادی غلط فہمی یہ ہے کہ صحیح حدیث کی شروط میں عدم شذوذ کے بیان میں شاذ کی تعریف بیان کی جاتی ہے، اور جب زیادت ثقات کی کی بحث میں غیر مقبول زیادت کو شاذ قرار دیا جاتا ہے، ان دونوں مواقع میں شاذ کو علیحدہ علیحدہ گمان کر رہے ہیں، حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے!
ہمارے بھائی نے فرمایا:

اب میں کیا کہوں جب کوئی یہ دیکھ لے کہ سخاویؒ کا کلام مطلقا شاذ کے بارے میں ہے نہ کہ زیادۃ ثقہ کے بارے میں جب کہ ابن حجرؒ کا کلام زیادۃ ثقہ کے بارے میں ہے۔
ہمارے بھائی بضد ہیں کہ شاذ کی ایک جگہ کوئی اور تعریف اور شروط اور دوسری جگہ شاذ کی تعریف اور شروط الگ باور کروائی جائیں!
اب کوئی انہیں سمجھائے کہ میاں! جب شاذ کی تعریف اور شروط صحیح حدیث کی شروط کے تحت بیان کی گئی ہے تو دوسری جگہ بیان کرتے ہوئے اس کی تعریف اور شروط سے انحراف نہیں کیا جاسکتا، شاذ کی تعریف اور شروط جب بھی جہاں بھی بیان ہو، اس کا اطلاق ہر مقام پر کیا جائے گا، وگرنہ بے اصولی ٹھہرے گی، کہ ایک جگہ ایک قاعدہ بیان کیا اور دوسری جگہ اس قاعدے سے مکر گئے!
اس طرح کی بے اصولی اہل الرائے کے ہاں اکثر پائی جاتی ہے، لیکن یہ اہل الحدیث کے ہاں نہیں!
خیر ہم زیادت ثقات اور شاذ کا باہم ربط واضح کر آئیں ہیں!
ابن حجر العسقلانی نے زیادت ثقات کی بحث میں منافاة و تضاد کی شرط بیان کی ہے:

وَزِيَادَةُ رَاوِيهِمَا مَقْبُولَةٌ مَا لَمْ تَقَعْ مُنَافِيَةً لِـمَنْ هُوَ أَوْثَقُ. فَإِنْ خُولِفَ بِأَرْجَحَ فَالرَّاجِحُ الْمَحْفُوظُ، وَمُقَابِلُهُ الشَّاذُّ، وَمَعَ الضَّعْفِ فَالرَّاجِحُ الْمَعْرُوفُ، وَمُقَابِلُهُ الْمُنْكَرُ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 82 نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار ابن حزم
امام سخاوی نے ''مطلقاً'' شاذ کی بحث میں منافاة وتضاد کی شرط بیان کی ہے:
[مَعْنَى الشَّاذِّ لُغَةً وَاصْطِلَاحًا وَالْخِلَافُ فِيهِ] وَالشَّاذُّ لُغَةً: الْمُنْفَرِدُ عَنِ الْجُمْهُورِ، يُقَالُ: شَذَّ يَشُذُّ بِضَمِّ الشِّينِ الْمُعْجَمَةِ وَكَسْرِهَا شُذُوذًا إِذَا انْفَرَدَ، (وَذُو الشُّذُوذِ) يَعْنِي الشَّاذَّ.
اصْطِلَاحًا: (مَا يُخَالِفُ) الرَّاوِي (الثِّقَةُ فِيهِ) بِالزِّيَادَةِ أَوِ النَّقْصِ فِي السَّنَدِ أَوْ فِي الْمَتْنِ (الْمَلَا) بِالْهَمْزِ وَسُهِّلَ تَخْفِيفًا، أَيِ الْجَمَاعَةَ الثِّقَاتِ مِنَ النَّاسِ؛
بِحَيْثُ لَا يُمْكِنُ الْجَمْعُ بَيْنَهُمَا.
(فَالشَّافِعِيُّ) بِهَذَا التَّعْرِيفِ (حَقَّقَهُ) ، وَكَذَا حَكَاهُ أَبُو يَعْلَى الْخَلِيلِيُّ عَنْ جَمَاعَةٍ مِنْ أَهْلِ الْحِجَازِ وَغَيْرِهِ عَنِ الْمُحَقِّقِينَ؛ لِأَنَّ الْعَدَدَ الْكَثِيرَ أَوْلَى بِالْحِفْظِ مِنَ الْوَاحِدِ، وَهُوَ مُشْعِرٌ بِأَنَّ مُخَالَفَتَهُ لِلْوَاحِدِ الْأَحْفَظِ كَافِيَةٌ فِي الشُّذُوذِ، وَفِي كَلَامِ ابْنِ الصَّلَاحِ مَا يُشِيرُ إِلَيْهِ؛ حَيْثُ قَالَ: (فَإِنْ كَانَ مُخَالِفًا لِمَا رَوَاهُ مَنْ هُوَ أَوْلَى مِنْهُ بِالْحِفْظِ لِذَلِكَ وَأَضْبَطُ، كَانَ مَا انْفَرَدَ بِهِ شَاذًّا مَرْدُودًا).
وَلِذَا قَالَ شَيْخُنَا:
(فَإِنْ خُولِفَ - أَيِ: الرَّاوِي - بِأَرْجَحَ مِنْهُ لِمَزِيدِ ضَبْطٍ أَوْ كَثْرَةِ عَدَدٍ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ مِنْ وُجُوهِ التَّرْجِيحَاتِ - فَالرَّاجِحُ يُقَالُ لَهُ: الْمَحْفُوظُ، وَمُقَابِلُهُ وَهُوَ الْمَرْجُوحُ، يُقَالُ لَهُ: الشَّاذُّ).

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 244 - 245 جلد 01 فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي - شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن السخاوي (المتوفى: 902هـ) - مكتبة السنة، مصر
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 05 – 06 جلد 02 فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي - شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن السخاوي (المتوفى: 902هـ) - مكتبة دار المنهاج للنشر والتوزيع، الرياض
اور حدیثِ حسن وصحیح کے رُوات کی زیادتی مقبول، ہے جب تک منافی نہ ہو، زیادتی اُس راوی کے (درمیان کے) جو (اُس سے) اوثق (ثقاہت و اعتبارمیں بڑھا ہوا) ہے۔ پھر اگر مخالفت کیاگیا وہ اَرجح (برتر) کے ذریعہ، تو راجح ''محفوظ'' ہے اور اس کی بالمقابل (روایت) ''شاذ ہے، اور ضعف کے ساتھ راجح ''معروف ہے اور اس کی بالمقابل (روایت) ''منکر'' ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 19تحفة الدُّرر شرح نخبة الفكر – سعید احمد پالنپوری – قدیمی کتب خانہ، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 19 تحفة الدُّرر شرح نخبة الفكر – سعید احمد پالنپوری – مکتبہ عمر فاروق، کراچی

یہاں واضح الفاظ میں یہ بات موجود ہے کہ زیادات ثقہ مقبول ہے، جب تک کہ منافی نہ ہو، اور جب زیادت ثقہ منافی ہو، تو وہ مقبول نہ ہو گی بلکہ شاذ ہوگی!
ملا علی قاری نے تو مطلقاً شاذ کی تعریف کرتے ہوئے منافاة وتضاد کی شرط بیان کی ہے:
یہی بات آپ کے ممدوح ملا علی القاری نے بھی فرمائی ہے:

([تَعْرِيف الشَّاذِّ لُغَة وَاصْطِلَاحا])
(والشاذ لُغَة: / الْفَرد) أَي بِمَعْنى الْمُنْفَرد.
(وَاصْطِلَاحا: مَا يُخَالف فِيهِ الرَّاوِي مَن هُوَ أرجح مِنْهُ) أَي فِي الضَّبْط، أَو الْعدَد
مُخَالفَة لم يُمكن الْجمع بَينهمَا.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 252 شرح نخبة الفكر في مصطلحات أهل الأثر - علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ) - دار الأرقم، بيروت

ملا علی قاری بھی صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ شاذ حدیث وہ ہوتی ہے جس میں مخالفت ایسی ہو کہ ان روایات کا جمع کرنا ممکن نہ ہو، یعنی کہ منافاۃ وتضاد ہو!
اور زیادت ثقات کی بحث میں تو بھائی نے خودبھی لکھا ہے:

2۔ زیادت ثقہ اگر دیگر روات کے منافی ہو تو اسے شاذ کہا جاتا ہے۔
لہٰذا اول تو یہ کہ شاذ کا بیان زیادت ثقہ کی تفصیل میں کیا جائے، یا صحیح کی شروط میں، شاذ کی تعریف اور شروط ایک ہی ہیں، دونوں جگہ ایک ہی اصطلاحی شاذ ہے!
دوم کہ دونوں مقام پر شاذ کے لئے منافاة وتضاد کی شرط کا ثابت کی جا چکی ہے، گو کہ دونوں جگہ اس شرط کا بیان کیا جانا لازم بھی نہیں!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب آپ کا سوال دوبارہ دیکھتے ہیں:
اس لیے کہ یہ زیادت ثقہ کے قبیل سے نہیں ہے کیوں کہ:
اشج
یا الضبعی کی روایت:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا أُرِيَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ» ، فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: «هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

اول تو یہ بتائیے کہ آپ نے
اشج
یا الضبعی کیوں کردیا ؟ جبکہ مسند البزار نے اشج اور الضبعی کہا ہے!
اگر آپ کو اندازہ نہیں تو میں بتلادوں کہ یہ حدیث میں تحریف کہلاتی ہے!
آپ نے پہلے اس اتنی قبیح بنیاد رکھی اور پھر اس پر اپنی عمارت کھڑنے لگے ہیں؛
آپ ہی اپنی اداوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
میں وہ روایت یہاں پھر نقل کرتا ہوں:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الضُّبَعِيُّ، قَالَا: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا أُرِيَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ» ، فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: «هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ رَوَاهُ عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، وَعَاصِمٌ فِي حَدِيثِهِ اضْطِرَابٌ، وَلَا سِيَّمَا فِي حَدِيثِ الرَّفْعِ ذَكَرَهُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، وَرَوَاهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَحِينَ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَرَوَى عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ أَيْضًا، وَرَوَى عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلْ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَآهُ يَرْفَعُ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
عبد اللہ بن مسعود ﷛سے کہ انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟ ، تو انہوں نے(عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) تکبیر کہی، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) ہاتھ اٹھائے نماز شروع کرتے ہوئے، پھر انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) رکوع کیا، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) ہاتھوں کو ملایا، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) انہیں اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ لیا۔ جب نماز پڑھ چکے تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 46 جلد 05 البحر الزخار المعروف بمسند البزار - أبو بكر أحمد بن عمرو المعروف بالبزار (المتوفى: 292هـ) - مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة
یہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس روایت میں اشج یا الضبعی نہیں بلکہ اشج اور الضبعی ہے۔
یہ زیادت ثقہ کی قبیل سے کیوں نہیں! کیا یہ کوئی دوسری روایت ہے؟ کیا یہ وہی روایت نہیں! بڑی تفصیل سے اوپر یہ معاملہ بیان کیا گیا ہے کہ زیادت ثقہ اور شاذ کے معاملات میں روایت کا ایک ہی ہونا ضروری ہے، اور وہ ہے!
ہم نے آپ کو سفیان ثوری کی روایت اسی لئے بیان کی تھی یا تو آپ نے اس پر نظر نہیں کی یا آپ کو مدعا سمجھ نہیں آیا! ہم دوبارہ نقل کر دیتے ہیں!

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ «فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً»
ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے مگر ایک مرتبہ۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 213 جلد 01 المصنف في الأحاديث والآثار (مصنف ابن ابي شيبة) - أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد (المتوفى: 235هـ) - دار التاج، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 59 جلد 02 المصنف في الأحاديث والآثار (مصنف ابن ابي شيبة) - أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد (المتوفى: 235هـ) - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 64 - 65 جلد 02 المصنف في الأحاديث والآثار (مصنف ابن ابي شيبة) - أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد (المتوفى: 235هـ) - مكتبة الرشد، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 213 جلد 01 المصنف في الأحاديث والآثار (مصنف ابن ابي شيبة) - أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد (المتوفى: 235هـ) - دار القبلة - مؤسسة علوم القرآن

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْد الْحَمِيدِ، قَالَ: حدثنا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْد الرَّحْمَن بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَة،
عَنْ عَبْد اللَّهِ، قَالَ: أَلا أُرِيكُمْ صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے پھر اس کے بعد نہیں اٹھائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 105 جلد 03 التاريخ الكبير المعروف بتاريخ ابن أبي خيثمة - السفر الثالث - أبو بكر أحمد بن أبي خيثمة (المتوفى: 279هـ) - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر، القاهرة

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.
فَقَالَ: يَرْوِيهِ عَاصِمُ بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عَنْ عَلْقَمَةَ.
حَدَّثَ بِهِ الثَّوْرِيُّ عَنْهُ.
وَرَوَاهُ أَبُو بَكْرٍ النَّهْشَلِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن أبيه، وعلقمة، عن عبد الله.
وكذلك رواه ابن إدريس، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ.
وَإِسْنَادُهُ صَحِيحٌ، وَفِيهِ لَفْظَةٌ لَيْسَتْ بِمَحْفُوظَةٍ، ذَكَرَهَا أَبُو حُذَيْفَةَ فِي حَدِيثِهِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَهِيَ قَوْلُهُ: "ثُمَّ لَمْ يَعُدْ".
وَكَذَلِكَ قَالَ الْحِمَّانِيُّ، عَنْ وَكِيعٍ.
وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَابْنُ نُمَيْرٍ، فَرَوَوْهُ عَنْ وَكِيعٍ، وَلَمْ يَقُولُوا فِيهِ: "ثُمَّ لَمْ يَعُدْ".
وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ أَيْضًا، عَنِ الثَّوْرِيِّ، مِثْلَ مَا قَالَ الْجَمَاعَةُ، عَنْ وَكِيعٍ.
وَلَيْسَ قَوْلُ مَنْ قَالَ: "ثُمَّ لَمْ يَعُدْ" مَحْفُوظًا.

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) پہلی تکبیر پر اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے ، پھر نہیں اٹھائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 171 - 173 جلد 05 العلل الواردة في الأحاديث النبوية - أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد الدارقطني (المتوفى: 385هـ) - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 382 - 383 جلد 02 العلل الواردة في الأحاديث النبوية - أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد الدارقطني (المتوفى: 385هـ) – مؤسسة الريان، بيروت

حَدَّثَنَا حُمَامٌ ثنا عَبَّاسُ بْنُ أَصْبَغَ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنَ أَيْمَنَ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إسْمَاعِيلَ الصَّائِغُ ثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ أَبُو خَيْثَمَةَ ثنا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ».

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) پہلی تکبیر پر اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے ، پھر نہیں اٹھائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 264 - 265 جلد 02 المحلى بالآثار - أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي القرطبي (المتوفى: 456هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

وَأَمَّا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ فَإِنَّهُمْ احْتَجُّوا بِمَا حَدَّثَنَاهُ حَمَامٌ ثِنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَاجِيَّ ثِنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَيْمَنَ ثِنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الصَّائِغُ ثِنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ثِنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ
عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -؟ فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ»

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) پہلی تکبیر پر اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے ، پھر نہیں اٹھائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 04 جلد 03 المحلى بالآثار - أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي القرطبي (المتوفى: 456هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

أَخْبَرَنِي الْخَلَّالُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَمْرٍو الْكُوفِيُّ، قَدِمَ عَلَيْنَا سَنَةَ ثَلاثَ عَشْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الرَّبِيعِ الْبُرْجُمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا كَادِحُ بْنُ رَحْمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ،
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " أَلا أُرِيكُمْ صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَهُ مَرَّةً وَاحِدَةً "

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) تکبیر کہی اور ایک ہی بار اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے ۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 218 جلد 13 تاريخ بغداد - أبو بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الغرب الإسلامي، بيروت

أخبرنَا أَبُو عبد الله وَذكر عَن عَلْقَمَة
عَن عبد الله أَنه قَالَ: " أَلا أريكم صَلَاة رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - قُلْنَا: نعم فَقَامَ فَلم يرفع يَدَيْهِ إِلَّا فِي أول تَكْبِيرَة ثمَّ لم يعد ".

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ ہم نے کہا ، جی ہاں؛ تو وہ (عبد اللہ بن مسعود کھڑے ہوئے،انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) پہلی تکبیر پر اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے ، پھر نہیں اٹھائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 74 – 75 جلد 02 مختصر خلافيات البيهقي - أحمد بن فَرح الإشبيلى الشافعي (المتوفى: 699هـ) مكتبة الرشد، الرياض

أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْفَقِيهُ بِدِمَشْقَ، وَسَنُقِرُّ الْمَحْمُودِيُّ بِحَلَبَ، قَالا:أنا مُكْرَمٌ التَّاجِرُ، أنا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بِحَرَسْتَا سَنَةَ سِتٍّ وَخَمْسِينَ وَخَمْسِمَائَةٍ، أنا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ السُّلَمِيُّ، أنا الْمُسَدَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، أنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْحَلَبِيُّ، أنا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الرَّافَقِيُّ: ثنا صَالِحُ بن عليّ النّوفليّ: ثنا يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ: ثنا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَلا أُرِيكُمْ صَلاةُ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَرَفَعَ يَدَهُ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) پہلی بار اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے پھر اس کے بعد نہیں اٹھائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 82 - 83 جلد 33 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 506 - 507 جلد 10 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الغرب الإسلامي
اور آپ نے جو الفاظ پیش کئے ہیں وہ یہ ہیں:
حدیث یہ ہے:
قال عبد الله بن مسعود: «ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة»۔ یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رض کا فعل ہے جس میں انہوں نے نبی
کی نماز کی نقل فرمائی ہے اور لوگوں کو یہ فعل کر کے دکھایا ہے۔

اب کوئی منچلا آکر کہہ دے کہ سفیان ثوری کی
ألا أصلی بكم والی حدیث الگ حدیث ہے اور أَلا أُرِيكُمْ والی حدیث الگ حدیث ہے! کیونکہ یہ الفاظ الگ الگ ہیں!
ہم کہیں گے نہیں ایسا نہیں ہے، بات ایک ہی ہے اور آگے جو الفاظ بیان ہوئے ہیں وہ اس کے ایک ہی ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
اور آپ بھی اس روایت کے بقیہ الفاظ کو صرف نظر کیوں کر رہے ہو؟ جبکہ اس روایت کے بقیہ الفاظ صریح طور پر اس کی دلیل ہیں کہ یہ ایک ہی حدیث ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الضُّبَعِيُّ، قَالَا: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا أُرِيَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ» ، فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: «هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ رَوَاهُ عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، وَعَاصِمٌ فِي حَدِيثِهِ اضْطِرَابٌ، وَلَا سِيَّمَا فِي حَدِيثِ الرَّفْعِ ذَكَرَهُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، وَرَوَاهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَحِينَ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَرَوَى عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ أَيْضًا، وَرَوَى عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلْ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَآهُ يَرْفَعُ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
عبد اللہ بن مسعود ﷛سے کہ انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟ ، تو انہوں نے(عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) تکبیر کہی، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) ہاتھ اٹھائے نماز شروع کرتے ہوئے، پھر انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) رکوع کیا، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) ہاتھوں کو ملایا، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) انہیں اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ لیا۔ جب نماز پڑھ چکے تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 46 جلد 05 البحر الزخار المعروف بمسند البزار - أبو بكر أحمد بن عمرو المعروف بالبزار (المتوفى: 292هـ) - مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة
اور دیگر کی روایت:
حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ


ان دونوں میں موافقت ہی نہیں ہے۔ بلکہ دونوں کے الفاظ میں فرق ہے۔ اگر موافقت ہوتی اور پھر اشج نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہوتا تو ہم اسے زیادت ثقہ کہتے۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ اشج یا الضبعی نے الفاظ ہی مختلف ذکر کیے ہیں۔
میرے بھائی نے موافقت صرف الفاظ کے یکساں ہونے کو سمجھا ہوا ہے، یہ بات بھی اوپر تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔
پھر آگے کے الفاظ سے اس حدیث کے ایک ہی ہونے کی دلالت بھی بتلا دی گئی ہے!
مزید کہ اگر بالفرض محال بھائی کی بات مان بھی لی جائے تو سفیان ثوری والی روایت کے طرق میں بھی الفاظ کا فرق ہے، کسی روایت میں اخبركم ہے، کسی روایت میں
ألا أصلی بكم ہے تو کسی روایت میں أَلا أُرِيكُمْ ہے، پھر تو یہ تمام بھی مختلف احادیث قرار پائیں گی!
أَلَا أُرِيَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یا

عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ
ان تمام کا مستفاد یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہوئی نماز کو آگے بیان کرنا، ایک صحابی تعلق سے أَلَا أُرِيَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ، أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ، أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ، کے الفاظ میں عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ کے معنی شامل ہیں! (لہٰذا دیگر نے اسے اختصار کیا اور یہ الفاظ روایت نہیں کئے)، اور عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ کا مستفاد بھی یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہوئی نماز کو آگے بیان کیا جائے، جیسا کہ آگے روایت میں بیان بھی ہوا ہے، (لہٰذا یہاں اختصار کرتے ہوئے دوسرے الفاظ روایت نہیں کئے)!
یہ ان الفاظ کی کم از کم معنوی مطابقت بیان کی ہے، اس میں مزید بھی ممکن ہے!

اور جب یہ زیادت ثقہ کے قبیل سے نہیں ہے تو شاذ ہونے کے لیے مخالفت یا غیر موافقت ہونی چاہیے اور وہ پائی جاتی ہے۔ "الا اریکم" کے الفاظ میں ثقات نے ان کی موافقت نہیں کی بلکہ ان کے خلاف (متضاد نہیں، فقط خلاف) "علمنا" کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔

اول تو اس کا زیادت ثقات کی قبیل سے ہونا بیان کیا چکا ہے،
دوم کہ شاذ کے لئے منافاة وتضاد کی شرط ثابت کی جا چکی ہے،
سوم کہ ابھی آپ نے اس روایت کو شاذ قرار دیا ہے، اور آگے جا کر اسے شاذ کہنے سے انکاری ہو جاؤ گے!
اشماریہ بھائی! آپ سے التماس ہے کہ آپ اس طرز استدلال پر نظر کریں! آپ اکثر ایک لفظ کے لغوی معنی کی بنیاد پر اپنے مؤقف اور دلیل کی عمارت کھڑی کر لیتے ہیں، لیکن اس لفظ کے استعمال کے مفہوم سے واقف نہیں ہوتے! یہی کام آپ نے لفظ ''حافظ'' سے توثیق کشید کرنے کی سعی کرتے ہوئے کیا تھا!
ویسے شاذ کےلئے منافاة ومتضاد ہونے کی شرط ثابت کی جا چکی ہے، لیکن آپ کے طرز استدلال کی تصحیح کے لئے عرض ہے کہ اگر کسی منچلے نے آپ کی طرح لفظ ''خلاف'' کو محض خلاف اور منافی ومتضاد نہ ہونے پر محمول کرتے ہوئے آپ کو قرآن کی آیت پیش کی:

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (سورة النساء 82)
اور
وحكمها بين الآيتين المصير إلی السنة؛ لأن الآيتين إذا تعارضتا تساقطتا، اس تعارض کا حکم یہ ہے کہ جب دو آیتوں میں تعارض ہو گیا تو سنت کی جانب رخ کرنا ہوگا۔ اس وجہ سے کہ اس صورت میں ہر دو آیت پر عمل ممکن نہیں رہا اور جن تعارض ہوگا تو دونوں ہی ساقط ہوں گی
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 87 – 88 جلد 02 كشف الأسرار شرح المصنف على المنار مع شرح نور الأنوار على المنار - حافظ الدين النسفي- ملاجيون - دار الكتب العلمية
اور پھر وہ فقہ حنفی سے آیتوں کے ساقط ہونے کا اصول آپ کو پیش کرے گا کہ دیکھوں تم نے تو خود اس اختلاف کو ثابت کر دیا! پھر کہیئے گا کہ محض اختلاف تضاد نہیں!
کیا کہیئے گا! یہاں اس آیت میں محض اختلاف کی بات ہے یا اختلاف تضاد کی؟
اور ذرا اختلاف کی اقسام کی تحقیق بھی کر لیں!
ابن حجر العسقلانی نے اس ''مخالفت'' کو اور خاص شاذ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ یہاں مخالفت کہتے کسے ہیں: ملا حظہ فرمائیں:

وَأما الْمُخَالفَة: وينشأ عَنْهَا الشذوذ والنكارة فَإِذا روى الضَّابِط والصدوق شَيْئا فَرَوَاهُ من هُوَ أحفظ مِنْهُ أَو أَكثر عددا بِخِلَاف مَا روى بِحَيْثُ يتَعَذَّر الْجمع على قَوَاعِد الْمُحدثين فَهَذَا شَاذ وَقد تشتد الْمُخَالفَة أَو يضعف الْحِفْظ فَيحكم على مَا يُخَالف فِيهِ بِكَوْنِهِ مُنْكرا
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1003 جلد 01 هدي الساري مقدمة فتح الباري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الطيبة للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 403 – 404 هدي الساري مقدمة فتح الباري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 384 - 385 هدي الساري مقدمة فتح الباري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المكتبة السلفية
اور اگر آپ کہیں کہ یہ مختلف نہیں بلکہ روایت بالمعنی ہے اور دونوں میں موافقت ہے تو آپ کے اگلے اقتباس کے تحت میں عرض کرتا ہوں:
تو پھر ثابت کیجیے کہ دونوں کا معنی ایک جیسا ہے۔ اللہ اعلم بحالی وبحالکم

ابھی اوپر معنوی مطابقت بیان کی گئی ہے!

میں آپ کی عبارت نقل کر رہا ہوں:
یہ جو دو جملے میں نے ہائیلائٹ کیے ہیں یہ ایک ہی روایت میں نہیں ہیں بلکہ الگ الگ روایات میں ہیں۔ اگر آپ نے جمع بھی نہیں کیا اور ایک ہی روایت میں یہ ہیں بھی نہیں تو پھر آپ کا موقف کیا ہے؟

میں نے یہ کب کہا کہ میں نے ان روایت کے جمع کی ایک ممکنہ صورت بیان نہیں کی؟ یہ تو میں نے آپ کے مطالبہ پر کی ہے۔
بھائی جان! آپ نے فرمایا تھا کہ:

آپ نے بنیاد رکھی ہے دونوں کو جمع کر کے۔ یعنی دونوں کے الفاظ موجود ہیں۔

ہم نے کہا ہے کہ یہ ممکنہ جمع ہمارے مؤقف کی'' بنیاد ''نہیں!

باقی میں اس میں منفرد نہیں ہوں بلکہ زیلعیؒ، ابن ہمامؒ، عینیٌ اور ملا علی قاریؒ نے بھی یہی بات مختلف دلائل اور پیرایوں میں کی ہے۔ ان کی کتب میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ویسے تو زیلعی رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر کے کلام کی علم الحدیث میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، مگر پھر بھی عبارت پیش کریں!
ملا علی قاری سے تو آپ کا کا مؤقف شاذ کی تعریف میں جدا ہونا بیان کیا جا چکا ہے!

اور اضافہ علم کے لیے درخواست ہے کہ اگر اس سلسلے میں امام مسلمؒ کا قول موجود ہے تو مجھے وہ بھی بتا دیجیے۔

آپ شاید اس کلام کی جانب اشارہ کرنا چاہتے ہیں:

قَالَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُسْلِمٌ:" هَذَا الْحَرْفُ يَعْنِي قَوْلَهُ تَعَالَى أُقَامِرْكَ فَلْيَتَصَدَّقْ، لَا يَرْوِيهِ أَحَدٌ غَيْرُ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: وَلِلزُّهْرِيِّ نَحْوٌ مِنْ تِسْعِينَ حَدِيثًا يَرْوِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا يُشَارِكُهُ فِيهِ أَحَدٌ بِأَسَانِيدَ جِيَادٍ"
ابوحسین مسلم (مؤلف کتاب) نے کہا: یہ کلمہ، آپ کے فرمان: "(جو کہے) آؤ، میں تمہارے ساتھ جوا کھیلوں تو وہ صدقہ کرے۔" اسے امام زہری کے علاوہ اور کوئی روایت نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا: اور زہری رحمۃ اللہ علیہ کے تقریبا نوے کلمات (جملے) ہیں جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جید سندوں کے ساتھ روایت کرتے ہیں، جن (کے بیان کرنے) میں اور کوئی ان کا شریک نہیں ہے
ملاحظہ فرمائیں: صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَيْمَانِ (بَابُ مَنْ حَلَفَ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فَلْيَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ)
اگر میں یہاں دفاع مسلک کر رہا ہوتا تو میرے پاس اس حدیث کی تائید میں اور بھی دلائل ہیں اور صحیح اسناد سے ثابت حضرت ابن مسعود رض اور علی رض کے عمل بھی۔

عمر گزری ہے اس دشت کی سیاحی میں!
ایک بات ذہن میں رکھیں، صحیح اسناد سے روایت کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا! فتدبر!

اس کے علاوہ جو دارقطنی کی عبارت میں ابن ادریسؒ کا آپ نے ذکر کیا تھا وہ مجھے بھی نظر آیا تھا۔

چلیں خیر! یہ معاملہ تو سلجھ گیا!

لیکن میں صرف اس حدیث کی تحقیق کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لیے آپ کی خدمت میں یہاں حاضر ہوں۔ اگر صحیح طرح جواب ارشاد فرمائیں تو شکر گزار ہوں گا ورنہ صرف اشکال پیش کر دوں گا۔

ہم اللہ کی توفیق سے آپ کے اشکالات کے مفصل جواب لکھتے ہیں، گو کہ اس لئے کافی وقت بھی درکار ہوتا ہے، لیکن جب ہم آپ کے اشکال کی بنیاد کا باطل ہونا بتلاتے ہیں تو آپ کافی جھنجلا سے جاتے ہو، ایسا نہیں ہونا چاہئے!
اب آپ دیکھیں کہ آپ ایک دھمکی سی دے رہے ہو کہ آپ اشکال پیش کر دو گے، اور پھر یہ جا اور وہ جا!
ایسی صورت میں اشکال کم ہو گا اور وسوسہ پیدا کرنا زیادہ کہلائے گا!
آپ ان شاء اللہ ایسا کام نہیں کریں گے! ہم دعا گو ہیں!

جب کبھی مسالک کے گھن چکر سے نکل کر صرف تحقیق حدیث کا موقع ملے اور یہ خیال ہو کہ یہ نبی کریم
یا صحابہ کرام رض کے اقوال و افعال ہیں تو غور فرما لیجیے گا۔

ہم کیا کریں! ہمارا تو مسلک ہی حدیث ہے بھائی! ہم تو حدیث کا ہر صورت دفاع کریں گے، کہ کوئی بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط منسوب نہ ہو اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس کا انکار نہ ہو! یہی ہمارا مسلک ہے اور اس کا دفاع تو ہم کریں گے!

باقی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی روایت پر عمل ترک کرنے کے لیے اس کو ضعیف کرکے ہی چھوڑا جائے۔ ترجیح کا عمل بھی ہوتا ہے۔

شاذ کا ضعیف ہونا بہرحال ثابت کیا جاچکا ہے!
اس میں کوئی شک نہیں، اس میدان میں تو آپ لوگ استاد ہیں! صحیح احادیث کو رد کرنے کے بہت سے طریقے نکالے ہوئے ہیں! ابتسامہ (ناراض نہ ہو جانا، لیکن کیا کروں میں بھی مجبور ہوں، حقیقت بیان کرنے پر!)
اس میں نقص میں نے عرض کر دیا کہ یہ روایت شاذ ہے

الٹی گنگا بہانا کوئی آپ سے سیکھے!
میاں! شاذ اس وقت ہوگی جب جمع ممکن نہ ہو! جمع اس لئے غلط قرار نہیں دیا جاسکتا کہ شاذ ہے! ایسا نہیں ہوتا کہ پہلے شاذ کہہ دو پھر کہو کہ اس لئے یہ جمع غلط ہے!
اور آپ کے نزدیک تو شاذ کے لئے جمع کا نا ممکن ہونا ضروری نہیں، تو شاذ ہونا جمع کے غلط ہونے کی دلیل کیسے ہوا!
کم از کم اپنے مؤقف اور کلام کو تو یاد رکھا کریں!
آپ جمع کے نا ممکن ہونے کی دلیل دیں! لغت وقرائین کے مطابق!
اور ویسے بھی پہلے شاذ ہونا تو ثابت کیجئے! اس حدیث کو کسی محدث نے شاذ قرار نہیں دیا!
اور آپ کا کیا ہے آپ ابھی آگے اسے شاذ قرار دینے سے بھی انکاری ہو جاؤ گے!

اور شاذ میں تضاد کی موجودگی ضروری نہیں ہوتی۔

یہی ایک مسئلہ ہے کہ پہلے آپ غلط بنیاد رکھتے ہو اور پھر اس پر عمارت کھڑی کر دیتے ہو!
شاذ کے لئے تضاد کا ضروری ہونے کا ثبوت متعدد بار پیش کیا جا چکا ہے!

آپ سے کسی محدث کا قول اس بارے میں مانگنے کا مطلب یہ تھا کہ مجھے ذاتی طور پر اس کے شاذ ہونے کی وجہ سے آپ کی اس جمع سے شدید اختلاف ہے۔

جی آپ کو اختلاف ہے، مگر بلا دلیل!

اور میرا نہیں خیال کہ یہ محدثین کے یہاں جمع کا کوئی قابل قبول طریقہ ہے۔

آپ کا یہ خیال بس خیال ہی ہے!

اس لیے اگر کبار علمائے حدیث میں سے کسی نے اس طرح مذکورہ روایات کو جمع کیا ہے اور دوسروں نے اس کا رد نہیں کیا تو پھر تو ٹھیک ہے۔ ورنہ میں اسے ہرگز درست نہیں سمجھتا۔

علماء حدیث نے ان دونوں روایات کو ایک ہی حدیث قرار دیا ہے، اور دونوں روایات کو قبول کیا ہے!

دوبارہ عرض ہے کہ زیادت ثقہ یہ ہوتی ہے کہ دو راوی ایک روایت پر متفق ہوں اور ایک اس میں اضافہ روایت کرے، چاہے سند میں اور چاہے متن میں۔ نہ کہ ایک راوی الگ الفاظ روایت کرے اور دوسرا الگ الفاظ روایت کرے اور ہم دونوں کو جمع قرار دے کر یکجا کر کے ایک ایسی روایت بنا لیں جس کا کتب حدیث میں کوئی وجود ہی نہ ہو۔

میرے بھائی جمع ہوتا ہی وہ ہے جب دو یا اس سے زیادہ روایات کے الفاظ ایک ساتھ ایک روایت کتب حدیث میں موجود نہ ہوں! اور اسے نئی روایت بنانا نہیں کہتے! اگر آپ کی بات مان لی جائے تو روایات کو جمع کرنے کا باب بند ہو جائے گا!
اگر آپ علم الحدیث میں شغل رکھنا چاہتے ہيں تو آپ کو علم الحدیث کا کم از کم کوئی مختصر کورس کرنے کی اشد ضرورت ہے!

محترم بھائی! یہاں میں نے "شاذ" کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

دیکھا! ہمارے بھائی اس روایت کو شاذ قرار دینے سے انکاری ہو گئے!
اب میں بھائی کو یاد دلاتا ہوں کہ انہوں نے اس روایت کو شاذ قرار دیا ہے:

اب آئیے اس پر امام احمدؒ کا بیان کردہ قاعدہ لگائیے:
اور جب یہ زیادت ثقہ کے قبیل سے نہیں ہے تو شاذ ہونے کے لیے مخالفت یا غیر موافقت ہونی چاہیے اور وہ پائی جاتی ہے۔
اس میں نقص میں نے عرض کر دیا کہ یہ روایت شاذ ہے

پوری بحث بھائی نے اس روایت کو شاذ قرار دینے پر کی ہے، اور اب کہتے ہیں کہ انہوں نے شاذ نہیں کہا!
بھائی کے کلام کا یہ تضاد بھائی کی علم الحدیث میں کمزوری کی بناء پر ہے کہ بھائی کو علم حدیث کہ صحیح فہم نہیں، اس لئے کبھی وہ کچھ اور کبھی کچھ بیان کر جاتے ہیں! اور انہیں خود اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا! ویسے یہ معاملہ بھائی کے ساتھ خاص نہیں، اہل الرائے کے ساتھ اکثر ایسا ہوا کرتا ہے، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی بیان کیا ہے! اور سب کی وجہ مشترکہ ہے!

اگر ایک راوی کبھی ایک متن اور کبھی دوسرا متن ذکر کرے اور دونوں ہم معنی نہ ہوں اور روایت ایک ہی ہو تو وہ اس تعریف کے تحت آتا ہے:
وإن وقع في إسناد أو متن اختلاف من الرواة بتقديم أو تأخير أو زيادة أو نقصان أو إبدال راو مكان راو آخر أو متن مكان متن أو تصحيف في أسماء السند أو أجزاء المتن أو باختصار أو حذف أو مثل ذلك فالحديث مضطرب
مقدمۃ فی اصول الحدیث، 1۔49، ط: دار البشائر
" اور اگر اسناد یا متن میں رواۃ کی طرف سے کوئی اختلاف پایا جائے تقدیم یا تاخیر یا زیادتی یا کمی یا ایک راوی کی جگہ دوسرا راوی ذکر کرنے یا ایک متن کی جگہ دوسرا متن ذکر کرنے یا سند کے اسماء میں یا متن کے اجزاء میں تصحیف یا اختصار یا حذف یا اس جیسی کسی چیز کی وجہ سے تو حدیث مضطرب ہے۔"
اس میں بھی متضاد کی کوئی قید نہیں ہے۔

جی جناب! ایک ہی راوی اگر متضاد متن روایت کرے تو مضطرب حدیث کہلاتی ہے! ایسی صورت میں وہ پوری حدیث مضطرب قرار پائے گی، اور اگر ایک ثقہ راوی دوسرے ثقہ رواة سے متضاد روایت کرے کہ جمع ممکن نہ ہو تو وہ شاذ کہلائے گی! معاملہ یہاں پھر بھی شاذ کے ضمن میں آئے گا!
لیکن میرے بھائی! ابن ادریس کی روایات کا متضاد ومنافی ہونا کہ جمع ممکن نہ ہو، اس مؤقف کا اثبات کہاں ہے؟ آپ خود رقم طراز ہیں:

ان دونوں جملوں میں کوئی تضاد واقعی نہیں ہے

ویسے بھی یہ خلط مبحث ہے کیونکہ آپ نے اگلے ہی جملہ میں ابن ادریس کی روایت کے مضطرب ہونے کا بھی انکار کیا ہے!

لیکن میرا خیال یہ ہے کہ یہ حدیث مضطرب نہیں ہے۔

تو پھر یہ مضطرب کا معاملہ ذکر کر کے خلط مبحث کیوں!

بلکہ بزار نے اس روایت کو نقل کیا ہے دو اشخاص سے۔ ابو سعید الاشج اور محمد بن العباس الضبعی۔ بزار نے وضاحت نہیں کی کہ یہ روایت انہوں نے کس کے الفاظ میں نقل کی ہے اور ایسی صورت میں دونوں باتیں برابر ہیں کہ یہ روایت اشج کے الفاظ میں ہو یا الضبعی کے۔ اس کی وضاحت ہوتی ہے دار قطنی کی روایت میں جو صرف اشج سے منقول ہے اور اس کے الفاظ ہیں "علمنا۔۔۔۔۔الخ"۔ جب اشج کے الفاظ متعین ہو گئے تو بزار کی روایت میں صرف الضبعی رہ گئے جن کے یہ الفاظ ہیں۔ اور الضبعی مجہول ہیں۔

اشجع سے علمنا کے الفاظ متعین ہونا کہنا آپ کی غلط فہمی ہے، یو کہیئے کہ
''عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ'' کے الفاظ ثابت ہوگئے، اور مسند البزار سے ''أَلَا أُرِيَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ'' کے الفاظ ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر کسی راوی کی روایت کے ایک ہی الفاظ کے صحیح ہونے کا'' تعین '' یعنی اثبات کیا جائے تو ہر وہ حدیث جس میں روای نے مختلف الفاظ روایت کئے ہوں مضطرب قرار پائے گی۔ لیکن ایسا نہیں، جیسا کہ آپ نے خود مضطرب کی تعریف میں تضاد کی شرط بیان کی ہے۔
اور آپ نے خود ان الفاظ مے متضاد ہونے کی نفی بھی کی ہے:

ان دونوں جملوں میں کوئی تضاد واقعی نہیں ہے

لہٰذا آپ کا مسند البزار کی روایت کے الفاظ کی اشجع کے ہونے کی نفی کرنا باطل ہے!

میرے بھائی! میرا خیال ہے کہ اب میں واضح کر چکا ہوں کہ مجھے شاذ و محفوظ کے سلسلے میں کوئی غلط فہمی لاحق نہیں ہے اور شاذ کی چاروں تعریفات سمیت اس سے متعلق اکثر ابحاث میری نظر میں ہیں۔

بس نظر میں ہی معلوم ہوتے ہیں، فہم میں نہیں، ویسے آپ نے خود اگلے مراسلہ میں اپنی غلط فہمی کا اقبال کرتے ہوئے رجوع کر لیا ہے!

باقی جو آپ نے ارشاد فرمایا کہ قریباً تمام روایات کے الفاظ میں فرق ہو تو تمام کو شاذ کہنا پڑے تو یہ درست نہیں ہے۔

آپ کے بیان کردہ أصول کے مطابق ضرور شاذ قرار پائیں گی، اصول حدیث کے تحت نہیں!
کہ آپ صرف الفاظ کے فرق کی بنا پر اس روایت کو شاذ قرار د رہے تھے، اور بعد میں انکار بھی کر دیا! کہ شاذ نہیں، آپ نے فرمایا تھا:

لہذا بندہ کے لیے تو یہی ظاہر و واضح ہے کہ اس روایت کے اصل الفاظ "علمنا رسول اللہ
الصلاۃ" ہیں نہ کہ "الا اریکم صلاۃ رسول اللہ " اور نہ ہی یہ دونوں الفاظ۔
شاذ کی مثالیں کثیر ہیں جو کتب حدیث اور اصول حدیث میں مذکور ہیں۔ ان میں زیادتی ثقہ کی وجہ سے شاذ و محفوظ بھی موجود ہیں اور نقصان کی وجہ سے بھی۔ اور تبدیلی کی وجہ سے بھی۔

جی بالکل! جس کی آپ کے مؤقف سے موافقت نہیں!

اور جہاں اختلاف ہے لیکن شاذ نہیں ہیں تو اس کی مثالیں بھی کافی ہیں۔ اس لیے کوئی اس میں الجھ نہیں سکتا۔

کوئی کو چھوڑیں، آپ الجھ گئے ہو!

عمدہ سوال ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سوائے بزار کے متقدمین میں سے کسی نے اس روایت کو الا اریکم کے الفاظ سے ذکر نہیں کیا۔ اور متاخرین میں مجھے اس کا ذکر عینیؒ کی نخب الافکار کے علاوہ کسی میں نہیں ملا۔ اور عینی علی سبیل التسلیم اسی صفحے پر پہلے ہی اس کو بغیر ذکر کیے رد کرچکے ہیں۔ پھر عینی ؒ نے یہ سمجھا ہے کہ بیہقی کی مراد یہ والی سند ہے ورنہ بیہقی نے یہ حدیث جو السنن الکبری میں روایت کی ہے وہ عثمان بن ابی شیبہ عن ابن ادریس کی سند سے "علمنا" کے الفاظ والی ہے (اس سند سے اس روایت کو ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں)۔ اس لیے عینیؒ سے اس کو سمجھنے میں غلطی ہو گئی ہے۔
جب محدثین میں سے کسی نے اسے روایت ہی نہیں کیا نہ ان کے یہاں اس کا کوئی ذکر تھا تو وہ اس کو شاذ کیسے قرار دیتے؟

سیدھی سی بات کہو کہ اس روایت کو آج تک کسی محدث نے شاذ قرار نہیں دیا، اس روایت کو شاذ قرار دینے کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے، کہ جنہیں شاذ کی تعریف کی معرفت بھی نہیں، اور اسے شاذ قرار دیتے وقت شاذ کی تعریف کی فہم بھی نہ تھی!
آپ نے خود اقرار کیا ہے:

میں اپنی بات سے رجوع کرتا ہوں۔ شاذ کے نہ ہونے کی شرط کا ذکر صحیح و حسن کی تعریف میں کیا گیا ہے "عند اکثر المحدثین"۔
یہ تو بزار نے اپنے مجہول استاد سے روایت کی ہے جنہیں شاید مغالطہ لگ گیا۔ باقی کسی محدث کے پاس یہ حدیث اس حالت میں پہنچی ہی نہیں۔ ورنہ وہ اس بحث میں اس کا ذکر ضرور کرتے۔

مسند البزار کی روایت میں بزار نے اشجع سے بھی سند بیان کی ہے اور وہ مجہول نہیں! یہ بات اوپر تفصیل سے گزری ہے، ایک کسی روایت کی ایک سند ہونا اس کے صحیح ہونے کے مخالف نہیں، وگرنہ تمام غریب احادیث ضعیف قرار پائیں! فتدبر!

جی میں نے یہی عرض کیا ہے کیوں کہ شذوذ کے لیے تضاد لازمی نہیں ہے۔

اور ہم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ کا مؤقف بالکل غلط ہے، شذوذ کے لئے منافاة اور تضاد کا ہونا ضروری ہے۔

(جاری ہے)
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم ابن داود بھائی!
انتہائی معذرت کے ساتھ، میں آپ کی بات کاٹنے پر مجبور ہوں۔
جو الفاظ آپ استعمال کر رہے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں، اس میدان میں تو آپ لوگ استاد ہیں! صحیح احادیث کو رد کرنے کے بہت سے طریقے نکالے ہوئے ہیں! ابتسامہ (ناراض نہ ہو جانا، لیکن کیا کروں میں بھی مجبور ہوں، حقیقت بیان کرنے پر!)
اگر آپ کو اندازہ نہیں تو میں بتلادوں کہ یہ حدیث میں تحریف کہلاتی ہے!
آپ نے پہلے اس اتنی قبیح بنیاد رکھی اور پھر اس پر اپنی عمارت کھڑنے لگے ہیں؛
مگر آپ کو اپنا ہی کلام سمجھ نہیں!
میرے لئے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ کسی حنفی مقلد کو علم الحدیث کی بنیادی باتیں بھی معلوم نہ ہوں؛ ہاں عجیب بات یہ ہے کہ کس کس انداز سے اپنے مطالب کشید کرنے کی سعی کی جاتی ہے!
انہیں پڑھ کر مجھے دلی طور پر دکھ اور افسوس ہوا ہے اور قریب تھا کہ میرے ہاتھ بھی کی بورڈ پر متحرک ہو جاتے کہ میں نے خود کو روک لیا۔
میں نے انتہائی محبت اور احترام کے ساتھ آپ سے بات شروع کی تھی اور عرض کیا تھا کہ:
تحریر کا مجموعی تاثر یہی نکلا کہ یہ ایک قول میں امام احمدؒ کی تقلید (یا اتباع کہہ لیں) ہے اور باقی دفاع مسلک۔ ورنہ میرے سوالات بالکل درست ہی ہیں۔ میں نے ایک بار پھر غور کیا ہے۔
اگر آپ اپنی تحریر سے خود مطمئن ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔
اور اگر آپ اپنی تحریر سے خود مطلئن نہیں تو پھر نظر ثانی فرما لیجیے گا۔ بندہ کا مقصود بحث کرنا نہیں ہے۔ ایک اشکال پیش کرنا تھا جو یا حل ہو جاتا یا مخاطبین کو دعوت فکر دے جاتا۔
و اللہ الموفق۔۔۔
آپ کے ارشاد پر میں نے آگے عرض کرنا شروع کیا۔

اور اب آپ کے ان الفاظ کو پڑھ کر میں اس بحث سے معذرت چاہتا ہوں۔ آپ کا انداز اس قابل نہیں ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی علمی بحث کی جا سکے۔ ہر جگہ مناظرہ کا طرز ایسے لاتے ہیں جیسے اور کچھ آتا ہی نہ ہو۔
اس لیے میں اب حکم قرآنی کے مطابق آپ کو سلام کہتا ہوں۔
میں اس بحث میں اب مزید جواب نہیں دوں گا۔
و السلام علیکم
 
شمولیت
اپریل 07، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
73
اردو میں بھی حرکت کی ضد سکون استعمال ہوتا (دیکھئے فزکس کی اردو کتب ”ساکن اور متحرک اشیاء“ جیسے عنون)۔
میرے الفاظ پر سکون کے ساتھ غور فرمالیتے تو آپ کو یہ زحمت نہ کرنا پڑتی ۔
نماز میں ہر حرکت کے لئے شریعت نے مسنون ذکر دیا۔ بغیر مسنون ذکر کوئی حرکت نماز میں مشروع نہ رہی۔
ولا یسئل عما یفعل وھم یسئلون

نماز میں کی جانے والی رفع الیدین میں نسخ واقع ہؤا ہے۔
پہلے نسخ کی تعریف اور شرائط بیان فرما دیں تاکہ بات منطقی انداز میں آگے بڑھے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
پہلے نسخ کی تعریف اور شرائط بیان فرما دیں تاکہ بات منطقی انداز میں آگے بڑھے ۔
یہ ایک الگ موضوع ہے اس کے لئے الگ تھریڈ بنا لیں۔ یہاں صرف موضوع سے متعلق ہی بات کریں شکریہ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
یہ ایک الگ موضوع ہے اس کے لئے الگ تھریڈ بنا لیں۔ یہاں صرف موضوع سے متعلق ہی بات کریں شکریہ۔
یہ موضوع کے متعلق ہی ہے. ویسے بھی الگ تھریڈ بنانے کا کوئ فائدہ نہیں وجہ آپ اس تھریڈ کو پڑھ کر جان جائیں گے:
http://forum.mohaddis.com/threads/فقہ-حنفی-میں-ناسخ-ومنسوخ-کا-قاعدہ.32259/
 
شمولیت
اپریل 07، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
73
یہ ایک الگ موضوع ہے اس کے لئے الگ تھریڈ بنا لیں۔ یہاں صرف موضوع سے متعلق ہی بات کریں شکریہ۔
میرے بھائی الگ موضوع کیسے ہو گیا ، آپ نے نسخ کی بات کی ہے تو نسخ ثابت بھی کریں اب ، اور نسخ ثابت کرنے کے لئے آپ پر لازم ہے کہ مسئلہ مذکورہ میں نسخ کی شرائط پوری ثابت کریں
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
میرے بھائی الگ موضوع کیسے ہو گیا ، آپ نے نسخ کی بات کی ہے تو نسخ ثابت بھی کریں اب ، اور نسخ ثابت کرنے کے لئے آپ پر لازم ہے کہ مسئلہ مذکورہ میں نسخ کی شرائط پوری ثابت کریں
محترم نسخ کی شرائط آپ بتادیں۔ شکریہ
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top