• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (قراءت)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
§ جن نمازوں میں امام جہری قراءت کرے ان میں امام کے ساتھ نہ پڑھو اس لئے کہ امام کی قراءت تمہیں کافی ہے اگرچہ امام کی آواز سنائی نہ دے ہاں جن نمازوں میں امام آہستہ قراءت کرتا ہے ان میں دل ہی دل میں قراءت کرے۔ کسی کے لئے بھی یہ درست نہیں کہ وہ امام کے ساتھ آہستہ یا بلند آواز سےقراءت کرے جب کہ امام بلند آواز سے قراءت کر رہا ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے"۔
توضیح: مقتدی کو سری نمازوں میں قراءت "في أنفسهم" کی اجازت دی گئی ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہ ہونے کا کہا تو پوچھا گیا کہ جب ہم امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تب؟ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا "اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ"(صحیح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ يُحْسِنْ الْفَاتِحَةَ
یہ "
في أنفسهم" اور " فِي نَفْسِكَ" کیا ہے؟ یہ ہونٹوں کو حرکت دیئے بغیر قراءت کرنے کو یعنی دل ہی دل میں قراءت کرنے کو "في أنفسهم" اور "في نفسك" فرمایا جیسا کہ نزول قرآن کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سری قراءت سے منع فرمایا گیا(سورۃ القیامۃ آیت نمبر 18
والمراد بقوله " اقرأ بها في نفسك " أن يتلفظ بها سرا ، دون الجهر بها ، ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها ، لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة ، ولإجماع أهل العلم على أن ذكرها بقلبه دون التلفظ بها ليس بشرط ولا مسنون ، فلا يجوز حمل الخبر على ما لا يقول به أحد ، ولا يساعده لسان العرب ، وبالله التوفيق
القراءة خلف الإمام للبيهقي ٤١
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
§ یہ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مقتدی پر نماز میں قراءت میں سے کچھ بھی واجب نہیں نہ سورۃ فاتحہ نہ کوئی دیگر سورۃ
قیامت کی صبح تک بھی آپ اپنا دعوی ثابت نہیں کرسکتے
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
§ صرف سکتوں میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کرے یہ جمہور صحابہ اور تابعین کا قول ہے۔
توضیح: سکتوں میں سورۃ فاتحہ کی اجازت دلیل ہے قراءتِ امام کے وقت خاموشی کی۔
اسکا حوالہ؟
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
§ ابوحنیفہ اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ مقتدی پر قراءت میں سے کچھ بھی واجب نہیں نہ سری میں نہ جہری نمازوں میں جیسا کہ حدیث میں آچکا کہ امام کی قراءت مقتدی کو کافی ہے

امام ابو حنیفہ کا مسلک


غیث الغمام حاشیہ امام الکلام ص 156 میں فرماتے ہیں:

لأبي حنیفۃ ومحمد قولان أحدھما عدم وجوبھا علی المأموم بل ولا تسن وھذا قولھما القدیم أدخلہ محمد في تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ إلی الأطراف وثانیھما استحسانھا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراھتھا عند المخافۃ للحدیث المرفوع لا تفعلوا إلا بأم القرآن وفي روایۃ لا تقرؤوا بشي إذا جھرت إلا بأم القرآن وقال عطائ: کانوا یرون علی الماموم القراءۃ فیما یسر فرجعا من قولھما الأول إلی الثاني احتیاطا۔

یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے اس مسئلہ (قرأت فاتحہ خلف الامام) میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ مقتدی کے لیے الحمد شریف نہ واجب ہے نہ سنت اور یہ ان کا پہلا قول ہے، امام محمد ؓ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قدیم قول کو داخل کیا اور ان کے نسخے اطراف میں پھیل گئے (اس لیے یہ قول زیادہ مشہور ہوگیا) دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کو احتیاطا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا مستحسن وبہتر ہے اور آہستہ نماز میں کوئی کراہت نہیں ہے (یہ قول اس لیے اختیار کیا کہ ) صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام مقتدیوں کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب میں بلند آواز سے پڑھ رہا ہوں تو سوائے سورہ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔

اور امام صاحب کے استاد حضرت عطاء جلیل القدر تابعی نے فرمایا کہ صحابہ کرام وتابعین نماز جہری وسری میں مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے (پس ان دلائل صحیحہ کی بنا پر ) امام ابوحنیفہ اور امام محمد نے احتیاطا اپنے پہلے قول سے رجوع کیا اور دوسرے قول کے قائل ہوگئے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ہی بہتر ہے، ائمہ دین کا یہی شیوہ تھا، جب اپنے قول کے خلاف حدیث کو دیکھتے تو اپنے قول کو چھوڑ دیتے اور صحیح حدیث کے مطابق فتوی صادر فرماتے۔ اس لیے امام ابوحنیفہ ؒنے فرمایا: ’’إذا صح الحدیث فھو مذھبي ان توجہ لکم دلیل فقولوا بہ …‘‘۔ (در مختار: 1 / 5 معہ رد المختار) یعنی حدیث صحیح میرا مذہب ہے، اگر تم کو کوئی دلیل قرآن وحدیث سے مل جائے تو اس پر عمل کرو اور اسی کے مطابق فتوی دیا کرو۔

والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام ( ترمذی، ج1، ص:41 )

یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے

 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
عن عبادۃ بن الصامت أن رسول اللہﷺ قال: لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب۔ (صحیح بخاری: 1 / 104، صحیح مسلم: 1 / 169، سنن ترمذی مع تعلیق احمد محمد شاکر: 2 / 25، السنن الکبری للبیہقی: 2 / 38)

یعنی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔

یہ حدیث عام ہے نماز چاہے فرض ہو یا نفل اور وہ شخص امام ہو یا مقتدی یا اکیلا ، یعنی کسی شخص کی کوئی نماز سورہ فاتحہ پڑھے بغیر نہیں ہوگی ۔
اہلِ حدیث کہلانے والوں کے دلائل

ان کی دلیل نمبر ایک:
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ (متفق علیہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں۔
اس حدیث کا مصداق، اہلِ حدیث کہلانے والے،مقتدی کو بھی کرتے ہیں کہ اس حدیث میں لفظ ’’
لمن‘‘ آیا ہے جس کی وجہ سے اس حدیث سے لازم ہؤا کہ نماز میں ہر کوئی قراءت کرے خواہ وہ منفرد ہو امام ہو یا مقتدی ۔ اگر مقتدی سورہ فاتحہ کی قراءت نہیں کرتا تو اس کی نماز نہیں ہوگی اور نماز نہ ہونے کی دلیل اس حدیث کے الفاظ ’’لا صلاۃ‘‘ سے لیتے ہیں۔
جواب:
ان مذکورہ الفاظ کے بموجب مقتدی کو اس حکم میں شامل کرنا صحیح نہیں کیونکہ
سنن ابوداؤد: کتاب الصلاۃ: بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ: میں فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے؛
عبادة بن الصامت يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب فصاعدا (قال البانی صحیح)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی نماز نہیں جس نے سورہ فاتحہ اور اس سے زیادہ قراءت نہ کی۔
اس حدیث میں لفظ ’’لمن‘‘بھی ہے اور ’’لا صلاۃ‘‘ بھی۔اب اگر اس میں مقتدی کو بھی شامل کیا جائے تو مقتدی امام کی اقتدا میں نہ صرف سورہ فاتحہ کی قراءت کرے گا بلکہ اس کے ساتھ کسی دوسری سورہ کی بھی وگرنہ اہلِ حدیث کہلانے والوںکی دلیل کے مطابق اس کی بھی نماز نہیں ہوگی۔
اگر مقتدی سورہ فاتحہ کے ساتھ دوسری کسی سورہ کی قراءت کرے تو اہلِ حدیث کہلانے والوں کے ہاں بھی اس صورت میں قرآن کی مخالفت لازماً ہوگی۔ لہٰذا اہلِ حدیث کہلانے والوں کے اوپر مذکور دلیل کے مطابق اگر مقتدی دیگر سورہ کی قراءت کرے یا ترک کرے دونوں صورتوں میں اس کی نماز نہ ہو گی اور یہ محال ہے۔
لہٰذا لازم آئے گا کہ ’’
لمن‘‘ میں مقتدی شامل نہ ہو بلکہ منفرداور امام شامل ہوں جیسا کہ اوپر مذکورہ حدیث کے راوی ’سفیان رحمۃ اللہ علیہ ‘نے فرمایا کہ یہ حکم (امام اور) اکیلے کی نماز کے لئے ہے۔
لہٰذا اس حدیث کو قراءت خلف الامام کے ضمن میں لا کر مقتدی کو اس میں شامل کرنا صحیح نہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ ﷺ في صلاۃ الفجر فقرأ رسول اللہ ﷺفثقلت علیہ القراء ۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرؤون خلف امامکم، قلنا نعم ھذاً یا رسول اللہ! قال: لا تفعلوا إلا بفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرأ بھا‘‘ (سنن ابی داود: 1 / 120، سنن ترمذی: 1 / 41، وقال حسن 1/ 72)

یعنی حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ فجر کی نماز ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پڑھ رہے تھے، رسول اللہ ﷺنے پڑھا (قرأت کی ) تو آپ پر پڑھنا دشوار ہوگیا ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو، ہم نے کہا ہاں، یا رسول اللہ ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں، آپ نے فرمایا: سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو، کیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
صحيح وضعيف سنن أبي داود - (ج 2 / ص 323)
( سنن أبي داود )
823 حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي حدثنا محمد بن سلمة عن محمد بن إسحق عن مكحول عن محمود بن الربيع عن عبادة بن الصامت قال كنا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة الفجر فقرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم فثقلت عليه القراءة فلما فرغ قال لعلكم تقرءون خلف إمامكم قلنا نعم هذا يا رسول الله قال لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها .
تحقيق الألباني :

ضعيف // ضعيف سنن الترمذي ( 49 / 311 ) ، ضعيف الجامع الصغير ( 2082 و 4681 ) //
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
عن عائشۃ قالت قال رسول اللہﷺ: من صلی صلاۃ لم یقرأ فیھا بفاتحۃ الکتاب فھي خداج غیر تمام۔ (کتاب القراء ۃ ص 38، جزء القراء ۃ ص 8)ی

عنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی وہ نماز ناقص ہے (بے کار ہے) پوری نہیں ہے۔
جزء القراء ۃ ص 82 طبع گوجرانوالہ میں ہے: وقال أبوعبیدۃ یقال اخدجت الناقۃ اذا اسقطت والسقط میت لا ینتفع بہ۔ یعنی ابو عبیدہ نے فرمایا: اخدجت الناقۃ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی اپنے بچے کو (قبل از وقت ) گرادے اور گرا ہوا بچہ مردہ ہوتا ہے، جس سے نفع نہیں اٹھایا جاسکتا ۔ (یعنی نماز باطل وفاسد ہوتی ہے).
بالکل ٹھیک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مقتدی کو امام کی قراءت کفایت کرتی ہے لہٰژا اس کی نماز ”خداج“ نہیں ملاحظہ فرمائیں؛
صحيح وضعيف سنن ابن ماجة - (ج 2 / ص 422)
( سنن ابن ماجة )

850 حدثنا علي بن محمد حدثنا عبيد الله بن موسى عن الحسن بن صالح عن جابر عن أبي الزبير عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة .
تحقيق الألباني :
حسن ، الإرواء ( 850 ) ، صفة الصلاة
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
صحيح مسلم ہی میں ہے کہ زيد رضى الله تعالى عنہ سے امام كى اقتدا میں مقتدی كى قراءت كا پوچھا گیا تو جواب دیا كہ امام كى اقتدا میں مقتدى پر قراءت واجب نہیں(صحيح مسلم كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ
اس روایت سے احناف کا استدلال ہی غلط ہے
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
روایت ہے کہ رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا امام جب امامت کرے اور تكبير کہے تو تكبير کہو اور جب قراءت كرے خاموش رہو جب کہے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہو اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ(سنن النسائی کتاب الافتتاح بَاب تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ)۔
ابو ہریرۃ رضى الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا امام جب امامت کرے اور تكبير کہے تو تكبير کہو اور جب قراءت كرے خاموش رہو اور جب کہے
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تو کہو آمین اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو اور جب کہے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہو اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ اور جب سجدہ کرے تو سجدہ کرو اور جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو سب بیٹھ کر نماز پڑھو(‡ سنن ابن ماجه کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا باب اذا قرا الامام فانصتوا
توضیح: اس حدیث میں آقا علیہ السلام نے مقتدی کے تمام افعال بڑی تفصیل سے ارشاد فرمائے۔ اس میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا
وإذا قرأ فأنصتوا پھر وہی الفاظ ؟
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
ابو موسى اشعرى رضى الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب امام قراءت كرے تو خاموش رہو اور قعده كرو تو سب سے پہلے تشہد پڑھو(سنن ابن ماجه كتاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا باب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ سوا اس کے نہیں کہ مقرر كيا گیا ہے امام تاكہ اس كى اقتدا كى جائے۔ جب تکبیر کہے تو تکبیر کہو اور جب قراءت كرے تو خاموش رہو(
مسند أحمد بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَ مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
تفہیم: اوپر درج تمام احادیث اس کی متقاضی ہیں کہ قراءتِ امام کے وقت مقتدی خاموشی کے ساتھ امام کی قراءت سنے اگر اس کو قراءت سنائی دے رہی ہو۔
سورۃ فاتحہ بهى قراءت ہے اور قراءت کے احکام میں شامل ہے اس کی دلیل درج ذیل احادیث ہیں
۔ ۔ ۔ ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top